اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-07

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم ؍ستمبر 2023ءبمقام جلسہ گاہ(Messe Stuttgart) جرمنی

ہر معاملہ میں دین کو مقدم کریں، دنیا مقصود بالذات نہ ہو، اصل مقصود دین ہو پھر دنیا کے کام بھی دین ہی ہوں گے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں شاملین جلسہ کو زرّیں نصائح

تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
الحمدللہ آج جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ وسیع پیمانے پر منعقد ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب شاملین جلسہ کو جلسے کے مقاصد کو حاصل کرنے والا بنائے۔ جلسے کے انعقاد کا ایک بہت بڑا مقصد جوحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتایا ہے، اور بڑے درد سے اسکا اظہار کیا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کی بیعت میں داخل ہونے والے دینی علم سیکھیں، روحانیت میں ترقی کریں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت میں بڑھیں۔ رسول اللہﷺ کی کامل پیروی کرنے والےہوں۔
حضور انور نے فرمایا:اس سال جماعت احمدیہ کو جرمنی میں قائم ہوئے سو سال بھی ہوگئے ہیں۔لیکن اس بات پر خوش ہونے کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی دیکھنا ہےاور سوچناچاہئے کہ ان سو سالوں میں ہم نے کیا حاصل کیا؟ ہم نے اپنے ایمانوں کی کس حد تک حفاظت کی۔ کیا ہم نے اپنی روحانی حالتوں کو بہتر کرنے کے ساتھ اپنے بچوں کو بھی دین سے جوڑے رکھنے کی خاص کوشش کی تاکہ ان مخلصین میں شامل ہو سکیں جیسے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام چاہتے ہیں۔ اگر کوشش کی ہے تو یہی وہ حقیقی شکرانہ ہے جوسو سال پورے ہونے پر ہم ادا کرنے والے ہوں گے۔اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض ارشادات آپ کے سامنے رکھوں گا، جو ہمیں ہمارے مقصد کی طرف راہنمائی کرنے والے ہیں۔
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں یہ مت خیال کرو کہ صرف بیعت کر لینے سے ہی خدا راضی ہو جاتا ہے۔ یہ تو صرف پوست ہے۔مغز تو اس کے اندر ہے۔ پس جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اسے اپنے آپ کو ٹٹولنا چاہئے کہ کیا میں چھلکا ہی ہوں یا مغز۔
دین کو دنیا پر مقدم کرناکیا ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسلمان سُست ہو جائیں۔اسلام کسی کو سست نہیں بناتا۔اپنی تجارتوں اور ملازمتوں میں بھی مصروف ہوں مگر میں یہ نہیں پسند کرتا کہ خدا کیلئے کوئی وقت بھی ان کا خالی نہ ہو۔ نمازوں کے وقت پر نمازوں کو نہ چھوڑیں۔
ہر معاملہ میں دین کو مقدم کریں۔ دنیا مقصود بالذات نہ ہو، اصل مقصود دین ہو۔ پھر دنیا کے کام بھی دین ہی ہوں گے۔فرمایا :ترقی کی ایک ہی راہ ہے کہ خدا کو پہچانیں اور اس پر زندہ ایمان پیدا کریں۔
دین کوہر حال میں دنیا پر مقدم کرنے کے متعلق آپ علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ دیکھو دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک تو وہ جو اسلام قبول کرکے دنیا کے کاروبار اور تجارتوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ شیطان ان کے سر پر سوار ہوجاتا ہے۔میرا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کرنی منع ہے، صحابہ تجارتیں بھی کرتے تھے مگر دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا تو اسلام کے متعلق سچا علم جو یقین سے ان کے دلوں کو لبریز کردے انہوں نے حاصل کیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کسی میدان میں شیطان کے حملے سے نہیں ڈگمگائے۔
فرمایا:میں زیادہ اُمید اُن پر کرتا ہوں جو دینی ترقی اور شوق کو کم نہیں کرتے۔ جو اس شوق کو کم کرتے ہیں مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں شیطان اُن پر قابو نہ پالے۔ اس لیے کبھی سست نہیں ہونا چاہئے۔
فرمایا:غیر مسلموں کو قرآن کریم جلانے کی کیوں جرأت پیدا ہوئی۔ اس لئے کہ ہم نے عملاً قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور اسی وجہ سے ان کو جرأت پیدا ہوئی جس سے ہم بھی گناہگار ہوئے۔یعنی مسلمان گناہگار ہوئے۔ جو علمی ترقی چاہتا ہے اس کو چاہئے قرآن شریف کو غور سے پڑھے۔ جہاں سمجھ میں نہ آئے دریافت کرے۔ قرآن شریف ایک دینی سمندر ہے جس کی تہہ میں بڑے بڑے نایاب اور بے بہا گوہر موجود ہیں۔ پس ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ کتنے ہیں جو غور کرکے قرآن کریم کوپڑھتے ہیں اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فرمایا:سچے مذہب کی جڑ خدا پر ایمان ہے اور خدا پر ایمان چاہتا ہے کہ سچی پرہیز گاری ہو۔ خدا کا خوف ہو۔ تقویٰ والے کو خدا کبھی ضائع نہیں کرتا۔ وہ آسمان سے اسکی مدد کرتا ہے۔ فرشتے اسکی مدد کو اترتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ متقی سے معجزہ ظاہر ہوجاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:وہ نماز بدیوں کو دور کرتی ہے جو اپنے اندر ایک سچائی کی روح رکھتی ہے اور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے۔ نماز کا مغز اور روح وہ دعا ہے جو ایک لذت اور سرور اپنے اندر رکھتی ہے۔پس ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نمازوں میں سرور حاصل کرتے ہیں۔ کیا ہم مکمل بھروسہ صرف اسباب پر تو نہیں رکھتے۔ اگر ہم نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں تو ہم بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں، ورنہ قابلِ فکر حالت ہے۔
علم و معرفت میں ترقی اور مرشد و مرید کے تعلقات کے بارے میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں : مرشد و مرید کے تعلقات استاد اور شاگرد کی مثال سے سمجھ لینے چاہئیں۔ جیسے شاگرد استاد سے فائدہ اٹھاتا ہے اسی طرح مرید اپنے مرشد سے۔ لیکن شاگرد اگر اپنے استاد سے تعلق تو رکھے مگر اپنی تعلیم میں قدم آگے نہ بڑھائے تو فائدہ نہیں اٹھا سکتا، یہی حال مرید کا ہے۔ پس اس سلسلہ میں تعلق پیدا کرکے اپنی معرفت اور علم کو بڑھانا چاہئے۔ طالبِ حق کو ایک مقام پر پہنچ کر ہرگزٹھہرنا نہیں چاہئے ورنہ شیطانِ لعین اور طرف لگا دے گا۔
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر میری بیعت کی ہے تو مجھے حَکم اور عدل تسلیم کرو۔ اس بات پر یقین رکھو کہ جو بات میں کہوں گا خدا تعالیٰ اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق کہوں گا۔
فرمایا :جن لوگوں نے میرا انکار کیا ہے اور جو مجھ پر اعتراض کرتے ہیں انہوں نے مجھے شناخت نہیں کیا، اور جس نے مجھے تسلیم کیا اور پھر اعتراض رکھتا ہے وہ اور بھی بدقسمت ہے کہ دیکھ کر اندھا ہوا۔
آپ علیہ السلام اپنے آنے کی غرض اور مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:میرے آنے کی اصل غرض اور مقصد یہی ہے کہ توحید، اخلاق اور روحانیت کو پھیلاؤں۔ توحید سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو ہی اپنا مطلوب مقصود اور محبوب اور مطاع یقین کرلیا جاوے۔
اخلاق سے مراد یہ ہے کہ جس قدر قویٰ انسان لے کر آیا ہے اس کو اپنے محل اور موقع پر خرچ کیا جاوے۔ یہ نہیں کہ بعض کو بالکل بے کار چھوڑ دیا جاوے اور بعض پر بہت زور دیا جاوے۔ روحانیت سے مراد وہ آثار اور علامات ہیں جو خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا ہونے پر مترتب ہوتے ہیں ۔ پس ہر احمدی کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ توحید کا اس کے دل میں کس قدرزور ہے، جذبہ ہے۔ اسی طرح جب ہم مسجدیں بنا رہے ہیں تو انہیں آباد کرنے کی بھی ایک فکر ہونی چاہئے۔ اسی طرح اعلیٰ اخلاق کا اظہار ہر احمدی سے ہونا چاہئے۔یہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو ہمارا پیغام پہنچانے میں بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
فرمایا:روحانیت کے معیار کا تب پتا چلے گا جب حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے اعلیٰ معیار قائم ہوں گے۔حضور انور نے فرمایا : کیاہمارا خدا تعالیٰ سے پختہ تعلق پیدا ہوگیا ہے؟ کیا ہماری نمازوں کے اعلیٰ معیار قائم ہوگئے ہیں؟ کیا ہم نماز کے اوقات میں دنیاوی کاموں کو چھوڑ کر نماز کیلئے حاضر ہوجاتے ہیں یا صرف مسجدیں بنانے پر زور ہے؟ کیا ہم قرآن کریم کی تلاوت میں باقاعدہ ہیں؟ کیا ہم قرآنی احکامات کو تلاش کرکے ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنے بچوں کو دین سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں؟ کیا ہمیں صرف اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کی فکر ہے یا ان کی دین کی بھی فکر ہے؟ کیا ہمارے اعلیٰ اخلاق آپس کے تعلقات وہ معیار حاصل کرچکے ہیں جو رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کا نظارہ دکھائیں ہمیں؟ کیا اعلیٰ اخلاق کے نمونے غیروں پر ظاہر کر کے انہیں اسلام کی خوبصورت تعلیم سے ہم آگاہ کر رہے ہیں ؟
پس پہلے تو یہ جائزہ لیں کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے معیاروں کو کس حد تک ہم نے حاصل کرلیا ہے۔اگر حاصل کر لیا ہے جو میرے نزدیک ابھی حاصل نہیں ہوا تو خود اپنے جائزے سے ہر ایک کو پتہ لگ جائےگا۔ میرے کہنے کی ضرورت نہیں۔
ہم یہ دعویٰ لے کر اٹھے ہیں کہ ہم نے دنیا کے دل جیتنے ہیں۔ہم نے دنیا کو خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل کرنا ہے۔ دنیا کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈالنا ہے۔ پس اس حوالے سے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں اور ایک نئے عزم کے ساتھ نئی صدی میں داخل ہونا چاہئے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے اوراپنی اولادوں اور نسلوں کو بھی یہ تاکید کرتے رہیں گے اور ان کی اس طرح تربیت کریں گے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق کی یہ جاگ ایک نسل سے دوسری نسل کو لگتی چلی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسکی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

…٭…٭…٭…