اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-08-31

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ25؍اگست 2023ءبمقام مسجدمبارک ، اسلام آباد(ٹلفورڈ)یو.کے

توبہ و استغفار کی حقیقت

تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی استغفار اور توبہ قبول کرنے والا ہے بشرطیکہ وہ سچی توبہ ہو،صرف منہ سے الفاظ ہی نہ ادا ہورہے ہوں۔ قرآن کریم میں مختلف جگہ اس کا ذکر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ سچی توبہ کرنے والوں کو مال و اولاد سے نوازتا ہے اور یہ عذابِ الٰہی سے بچنے کاایک ذریعہ ہے۔
استغفار کرنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمت جذب کرنے والا بنتا ہے۔ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے استغفار کرنے والوں کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا کہ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا۔وہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا پائیں گے،لیکن شرط یہی ہے کہ حقیقی استغفار اور سچی توبہ ہو۔
ایک حدیث میں حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ گناہ سے سچی توبہ کرنےوالا ایسا ہی ہے جیسے اُس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کسی انسان سےمحبت کرتا ہے تو گناہ اسےکوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے یعنی گناہ کے محرکات اسے بدی کی طرف مائل نہیں کرسکتے اور بدی کے نتائج سے اللہ تعالیٰ اُسےمحفوظ رکھتا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے توبہ کی علامت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ندامت اور پشیمانی علامت توبہ ہے۔ پس حقیقی توبہ کرنے والا جہاں گناہوں سے پاک ہوتا ہے وہاں اُسے اللہ تعالیٰ کی محبت بھی ملتی ہے اوربار باراللہ تعالیٰ کے رحم سے حصہ پاتا ہے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سچی توبہ کی شرائط کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ پہلی شرط یہ ہے کہ خیالات فاسدہ اور تصوارت بد کو چھوڑدے۔دوسری شرط یہ ہے کہ حقیقی ندامت اور پشیمانی ظاہر کرے۔تیسری شرط یہ ہے کہ پکا ارادہ کرے کہ ان برائیوں کے قریب نہیں جائے گا۔
اور یہیں رک نہیں جانا کہ برائیوں کے قریب نہ جانے کا عہد کر لیا اور بس کافی ہو گیا بلکہ اخلاق حسنہ اور پاکیزہ افعال اس کی جگہ لے لیں گے۔ پس یہ ہے حقیقی توبہ اورحقیقی پشیمانی۔جب یہ حالت حاصل ہوجائے تو پھر خدا تعالیٰ اپنے ایسے بندوں سے محبت کرتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام استغفاراورتوبہ کی طرف ہمیں بار بار توجہ دلاتے ہیں۔آپؑ کو اتنی فکر تھی کہ کوئی موقع ایسا نہیں آیا کہ جب آپؑ نے جماعت کو اس طرف توجہ نہ دلائی ہو۔پس ہمارے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اوراُس کے رسول کے احکام اور ارشادات کی روشنی میں بیان کردہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشادات کو ہمیشہ سامنےرکھ کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں تاکہ حق بیعت ادا کرنے والےبھی بنیں۔
اگر ہم اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا نہ کریں اور حقیقی توبہ و استغفار کی طرف توجہ نہ دیں تو ہمارا اپنی اصلاح کا عہد کرنا ہمیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ انسان اپنی فطرت میں نہایت کمزور ہے اور خدا تعالیٰ کےصدہا احکام کااس پر بوجھ ڈالا گیا ہے۔پس ا ُس کی فطرت میں یہ داخل ہے کہ وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے بعض احکام ادا کرنے سے قاصر رہے اور کبھی نفس امارہ کی بعض خواہشیں اُس پر غالب آجاتی ہیں۔پس وہ اپنی کمزوری اور فطرت کی رُو سےحق رکھتاہے کہ کسی لغزش کےوقت وہ توبہ و استغفار کرے تو خدا کی رحمت اُس کو ہلاک ہونے سے بچالے۔اس لیے یہ یقینی اَمر ہے کہ اگرخدا توبہ قبول کرنے والا نہ ہوتا تو انسان پر صدہا احکام کا بوجھ ہرگز نہ ڈالا جاتا۔اس سے بلا شُبہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا تواب اور غفور ہے اور توبہ کے یہ معنی ہیں کہ انسان ایک بدی کواس اقرار کے ساتھ چھوڑ دے کہ بعد اس کے اگر وہ آگ میں بھی ڈالا جائے تب بھی وہ بدی ہرگز نہیں کرے گا۔
پس یہ شرط ہےایسی توبہ ہونی چاہیے۔پس جب انسان اس صدق اور عزم محکم کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو خدااپنی ذات میں کریم و رحیم ہے وہ اس گناہ کی سزامعاف کردیتا ہے اوریہ خدا کی اعلیٰ صفات میں سے ہے کہ وہ توبہ قبول کرکے ہلاکت سے بچا لیتا ہے۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اتنی دفعہ استغفار کیا ،سو یا ہزار تسبیح پڑھی مگرجب استغفار کامطلب اور معنی پوچھو تو ہکا بکا رہ جائیں گے۔ انسان کو چاہیے کہ حقیقی طور پر دل ہی دل میں معافی مانگتا رہے کہ وہ معاصی اور جرائم جو مجھ سے سَر زد ہوچکے ہیں اُن کی سزا نہ بھگتنی پڑے وہ معاف ہوجائیں اور آئندہ دل ہی دل میں ہر وقت خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرتا رہےکہ آئندہ نیک کام کرنے کی توفیق دے اورمعصیت سے بچائے رکھے۔لفظوں سے کچھ کام نہیں بنے گا۔اپنی زبان میں بھی استغفار ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ پچھلے گناہوں کومعاف کرے اور آئندہ گناہوں سےمحفوظ رکھے اور نیکی کی توفیق دے یہی حقیقی استغفار ہے۔خدا تک وہی بات پہنچتی ہے جو دل سے نکلتی ہے زبان تو صرف دل کی شہادت دیتی ہے۔صرف زبانی دعائیں عبث ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کو چاہیے کہ کوئی امتیازی بات بھی دکھائے۔ اگر کوئی شخص بیعت کر کے جاتا ہے اور کوئی امتیازی بات نہیں دکھاتا، اپنی بیوی کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہے جیسا پہلے تھا اور اپنے عیال و اطفال سے پہلے کی طرح پیش آتا ہے تو یہ اچھی بات نہیں۔اگر بیعت کے بعد بھی وہی بدخلقی اور بدسلوکی رہی اور وہی حال رہا جو پہلے تھا تو پھر بیعت کرنے کا کیا فائدہ؟ چاہیے کہ بیعت کے بعد غیروں کو بھی اوراپنے رشتہ داروں اور ہمسایوں کوبھی ایسا نمونہ بن کر دکھاوے کہ وہ بول اُٹھیں کہ اب یہ وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔اوریہی حقیقی استغفار کا نتیجہ ہونا چاہیے۔
بعض نادان پادریوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استغفارپراعتراض کیا ہےاور لکھا ہےکہ ان کے استغفارکرنے سے نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ کا گنہگار ہونا ثابت ہوتا ہے۔ یہ نادان نہیں سمجھتے کہ استغفار توایک اعلیٰ صفت ہے۔ انسان فطرتا ایسا بنا ہے کہ کمزور ی اور ضعف اس کا فطر ی تقاضا ہے۔ انبیاءاس فطری کمزوری اورضعف بشریت سے خوب واقف ہوتے ہیں لہٰذاوہ دعا کرتے ہیں کہ یاالٰہی !تُو ہماری ایسی حفاظت کر کہ وہ بشری کمزوریاں ظہور پذیر ہی نہ ہوں۔
کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا ہے کہ میں اپنی طاقت سے گناہ سے بچ سکتا ہوں۔ پس انبیاء بھی حفاظت کے واسطے خدا کے محتاج ہیں ۔پس اظہارِ عبودیت کے واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اَور انبیاءکی طرح اپنی حفاظت خدا تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے۔
عیسائیوں کا یہ خیال غلط ہےکہ عیسیٰ ؑ استغفارنہیں کرتے تھے۔انجیل سےصریح اور صاف طور پر معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے جا بجااپنی کمزوریوں کا اعتراف کیا اور استغفار بھی کیا۔ فرمایا:اچھا بھلا بتاؤ کہ ایلی ایلی لما سبقتانی سے کیا مطلب ہے؟ابی ابی کر کے کیوں نہ پکارا؟ عبرانی میں ایل خدا کو کہتے ہیں۔ اسکے یہی معنی ہیں کہ رحم کراور فضل کر اور مجھے ایسی بے سروسامانی میں نہ چھوڑ یعنی میری حفاظت کر۔
حدیث میں آتا ہےکہ اگر انسان خدا کی طرف ایک بالشت بھر جاتا ہے تو خدا اُس کی طرف ہاتھ بھر آتا ہے اگرانسان چل کرآتا ہے تو خدا تعالیٰ دوڑ کر آتا ہے۔یعنی اگر انسان خدا کی طرف توجہ کرے تو اللہ تعالیٰ بھی رحمت، فضل اور مغفرت میں انتہادرجہ کا اس پر فضل کرتا ہے لیکن اگر خدا سے منہ پھیر کر بیٹھ جاوے تو خدا تعالیٰ کو کیا پروا ہ ہے۔قرآن شریف نے اللہ تعالیٰ کے دو نام پیش کئے ہیں۔ الْحیّ اور القیّوم۔ الْحیّ کے معنی ہیں خدا زندہ اور دوسروں کو زندگی عطا کرنے والا ہےاور القیّومخود قائم اور دوسروں کے قیام کااصلی باعث ہے۔ہر ایک چیز کا ظاہری، باطنی قیام اور زندگی انہی دونوں صفات کے طفیل سے ہے۔ پس حیّ کا لفظ چاہتا ہے کہ اُس کی عبادت کی جائےجیسا کہ اس کا مظہرسورہ فاتحہ میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ ہے اورالقیوم چاہتا ہے کہ اُس سے سہارا طلب کیا جائےاس کو اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کے لفظ سے ادا کیا گیا ہے۔ انسان کو خدا کی ضرورت ہر حال میں لاحق رہتی ہے۔اس لئے ضروری ہواکہ خدا سے طاقت طلب کرتےرہیں اور یہی حقیقی استغفارہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اعمال صالحہ اور عبادت میں ذوق و شوق اپنی طرف سے نہیں ہو سکتا۔ یہ خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق پر ملتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ انسان گھبرائے نہیں اور خدا تعالیٰ سے اس کی توفیق اور فضل کے واسطے دعائیں کرتا رہے۔ عبادت کا ذوق شوق بھی اللہ تعالیٰ سے مانگے۔ اور ان دعاؤں میں تھک نہ جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےفرمایا کہ خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوا اورتدبیر پر بھروسہ کرنا حماقت ہے۔ اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی پیدا کرلو کہ معلوم ہو کہ گویا نئی زندگی استغفار کی زندگی ہے۔استغفار کی کثرت کرو۔ جن لوگوں کو کثرت اشغال دنیا کے باعث کم فرصتی ہے اُن کو سب سے زیادہ ڈرنا چاہیے۔ ملازمت پیشہ لوگوں سے اکثر فرائض خداوندی فوت ہوجاتے ہیں ۔اس لیے مجبوری کی حالت میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاءکی نمازوں کاجمع کرکے پڑھ لینا جائز ہے۔ بہت مجبوری ہے تو پڑھ لو جمع کرکے ۔لیکن اصل میں یہی ہے کہ اپنے وقت پراد کی جائیں نمازیں۔حقوق اللہ اور حقوق العباد میں ظلم و زیادتی نہ کرو۔اپنے فرائض منصبی نہایت دیانتداری سے بجا لاؤ۔
پس استغفار اور توبہ کا تبھی فائدہ ہے جب بنیادی احکامات کو بھی سامنے رکھ کر صحیح پیروی کی جائے۔ نمازوں کی ادائیگی میں باقاعدگی ہو،حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بھی صحیح ادائیگی ہو۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ یہ مت کہو کہ توبہ منظور نہیں ہوتی۔ یادرکھو کہ تم اپنے اعمال سے کبھی بچ نہیں سکتے۔ ہمیشہ فضل بچاتا ہے نہ اعمال۔پھر فرمایا :اے خدائےکریم ورحیم!ہم سب پر فضل کر کہ ہم تیرے بندےہیں اور تیر ے آستانہ پر گرے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کا وارث بنائے اور ہم توبہ و استغفارکے حقیقی مفہوم کو سمجھتے ہوئے استغفار کی حقیقت کوسمجھتے ہوئے استغفاراور توبہ کرنے والے ہوں۔
خطبہ جمعہ کے آخر پرحضور انور نے4مرحومین اور ان کی جماعتی خدمات کا تذکرہ فرمایا اور بعد نماز جمعہ ان مرحومین کی نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

…٭…٭…٭…