اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-15

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ9؍جون 2023ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

جنگ بدر سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سرایا اور غزوات کا مختصرتذکرہ

جنگ بدر کے حوالہ سے سرکار دو عالم سیّدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا دلنشین وایمان افروز تذکرہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ9؍جون 2023ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سیّدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ہجرت کے بعد کے ابتدائی حالات،جنگ بدر کے اسباب اور کفار مکہ کی کارروائیوں کے خلاف عمل اور ان کے منصوبوں کو روکنے کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جوکارروائی فرمائی اس کا کچھ ذکر ہوا تھا۔ جنگ بدر سے قبل کچھ سرایا اور غزوات بھی ہوئے ان کا مختصرا ذکر پہلے کروں گا پھر کفار مکہ کی جنگ کیلئے تیاری کے کچھ حالات بھی بیان کروں گا انشاء اللہ۔
سریہ حضرت حمزہ: یہ پہلا سریہ تھا جو رمضان ایک ہجری میں ہوا ۔ اسے سریہ سیف البحر کہتے ہیں۔ اس کا جھنڈا سفید تھا اور اس کے علمبردار ابو مرصد غنوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ یہ سریہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان سن ایک ہجری میں بھیجا اور اپنے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کو اس کا امیر بنایا۔ ان کے ساتھ تیس مہاجر سوار تھے۔ یہ لوگ عیص کے اطراف میں بحیرہ احمر کے ساحل تک گئے ۔ عیص رابق کے شمال میں تقریباً تیس کلو میٹر کے فاصلے پر ایک جگہ ہے اور مدینہ منورہ سے رابق کا فاصلہ تقریباً دو سو چالیس کلو میٹر ہے۔
سریہ عبیدہ بن حارث : شوال سن ایک ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبیدہ بن حارث کو ساٹھ مہاجرین کی کمان دے کر رابق کے قریب ثنیۃ المرا ۃ روانہ کیا۔ وہاں ابوسفیان اور اس کے دو سو سواروں سے ان کا آمنا سامنا ہوا۔ دونوں طرف سے چند تیر چلائے گئے مگر باقاعدہ لڑائی نہیں ہوئی۔
سریہ حضرت سعد بن ابی وقاص : سن ایک ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو بیس آدمیوں کا امیر بنا کر روانہ کیا اور حکم دیا کہ وہ خرار وادی سے آگے نہ جائیں۔ ان کا مقصد قریش کے تجارتی قافلے کو روکنا تھا لیکن جب یہ دستہ خرار پہنچا تو انہیں پتہ چلا کہ قافلہ کل یہاں سے گزر گیا ہے لہٰذا وہ بغیر کسی تصادم کے واپس آ گئے۔
غزوہ ودان : صفر دو ہجری میں ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ ستر مہاجرین کے ساتھ ابوا یا ودان کی طرف گئے۔ مؤرخ ابن سعد کے نزدیک یہ پہلا غزوہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس شریک ہوئے۔ آپ ابوا کے مقام تک پہنچے آپ کا ارادہ قریش کے تجارتی قافلے کو روکنا تھا لیکن وہ آپ کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی نکل چکا تھا۔
غزوہ بواط: ربیع الاول سن دو ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دو صحابہ کی معیت میں قریش کے قافلے کو روکنے کیلئے نکلے۔ اس قافلے میں امیہ بن خلف بھی موجود تھا اور سو دیگر قریشی تھے اور دو ہزار پانچ سو اونٹ تھے۔ آپ رضوا کے نواح میں بواط پہنچے مگر وہاں کسی سے سامنا نہ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ لوٹ آئے۔
غزوہ عشیرہ : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ مکہ سے نکلا ہے اور مکہ والوں نے اس تجارتی قافلے میں اپنا سارا مال لگا دیا تھا اس لئے کہ جو منافع ہو وہ مسلمانوںکے خلاف جنگ میں استعمال ہو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو ہجری میں مدینہ سے ڈیڑھ سو یا دو سو افراد کے ساتھ عازم سفر ہوئے۔ جب آپ عشیرہ مقام پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ قریش کا تجارتی قافلہ آپ کے پہنچنے سے چند روز پہلے ہی وہاں سے جا چکا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان بنو مدلج کے علاقہ میں ینبوع کے نواح میں ایک علاقے کا نام عشیرہ تھا۔ آپ نے چند روز وہاں قیام فرمایا اور بنو مدلج اور بنو ضمرہ میں سے اسکے حلیفوں سے صلح کا معاہدہ کیا اور اس کے بعد مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ یہ قریش مکہ کا وہی تجارتی قافلہ تھا جس کی شام سے واپسی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ اس کے تعاقب میں نکلے تھے اور بدر کا معرکہ پیش آیا تھا۔
غزوہ بدر الاولیٰ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ عشیرہ سے مدینہ واپس تشریف لائے ابھی دس روز بھی نہ گزرے تھے کہ کرز بن جابر نے مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسکے تعاقب میں نکلے۔ اس غزوہ کو غزوہ بدر الاولیٰ اس لئے کہتے ہیں کیونکہ بدر کے ایک جانب سفوان مقام تک مسلمانوں کا لشکر پہنچا تھا۔
سریہ عبداللہ بن جحش: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب کے مہینہ میں حضرت عبداللہ بن جحش کو آٹھ مہاجرین کے ہمراہ روانہ فرمایا۔ ان میں انصار کا کوئی شخص نہ تھا اور انہیں ایک خط لکھ کر دیا اور ہدایت فرمائی کہ اس خط کو دو دن سفر طے کرنے کے بعد دیکھنا اور اس میں دئیے گئے حکم کے مطابق عمل کرنا اور اپنے کسی ساتھی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہ کرنا۔ جب حضرت عبداللہ بن جحش نے دو دن سفر کرنے کے بعد وہ حکمنامہ کھول کر پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ جب تم میرے اس خط کو کھول کر دیکھو تو اپنا سفر جاری رکھو یہاں تک کہ مقام نخلہ میں جوطائف اور مکہ کے درمیان ہے جا پہنچنا اور وہاں قریش کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور ان کے حالات سے ہمیں آگاہ کرنا۔
غزوہ بدر الکبری: قرآن کریم میں اس غزوہ کو یوم الفرقان قرار دیا گیا ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ ابو سفیان، قریش کا تجارتی قافلہ لے کر شام سے واپس آ رہا ہے جس میں ایک ہزار اونٹ تھے اور اس میں قریش کا بہت بڑا سرمایہ تھا۔یہ وہی قافلہ تھا جس کے تعاقب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے بھی نکلے تھے اور مقام عشیرہ تک پہنچ گئے تھے لیکن یہ قافلہ شام کی جانب جا چکا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قافلے کی واپسی کی اطلاع پا کر مسلمانوں کو اپنے ساتھ نکلنے کی دعوت دی ۔
دوسری طرف ابوسفیان کو اس کے جاسوسوں کی طرف سے یہ خبر ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو لے کر اس کے تجارتی قافلے پر حملہ کرنے کیلئے روانہ ہو چکے ہیں۔چنانچہ ابوسفیان بڑی ہوشیاری کے ساتھ معلومات لیتے ہوئے مسلمانوں کے اس لشکر سے بچتے ہوئے سفر جاری رکھے ہوئے بدر کے چشمہ پر پہنچا یہاں پہنچ کر اسے معلوم ہواکہ مدینہ والے اس کے قریب ہی کہیں ہیں چنانچہ وہ اپنے ساتھیوںکو معروف راستے سے ہٹا کر ساحل سمندر کی طرف نکل گیا اور بدر کو ایک طرف چھوڑتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ گیا۔
حضور انور نے فرمایا: قریش کے سرداروں کے بارے میں لکھا ہے کہ قریش کے پانچ سردار امیہ بن خلف، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ ،زمعہ بن اسود اور حکیم بن حزام نے تیروں کے ذریعہ قرعہ ڈالا کہ جنگ پر جانا چاہئے یا نہیں جس سے انکار والا تیر نکلا کہ یہ لوگ جنگ میں نہ جائیں یعنی وہ تیر نکلا جس پر لکھا ہوا تھا کہ مت جاؤ۔ لہٰذا ان سب نے مل کر فیصلہ کر لیا کہ یہ لوگ جنگ میں نہیں جائیں گے مگر پھر ان کے پاس ابوجہل آیا اور اس نے انہیں لے جانے پر اصرار کیا ۔ اس سلسلہ میں عقبی بن ابو معیط اور نضر بن حارث نے بھی ابوجہل کا ساتھ دیا اور ان لوگوں کو ساتھ لے جانے پر اصرار کیا۔ عتبہ اور شیبہ کے غلام نے ان سے کہا کہ خدا کی قسم آپ دونوں جنگ میں نہیں بلکہ اپنی قتل گاہ میں جا رہے ہیں۔ اس پر ان دونوں نے جنگ میں نہ جانے کا فیصلہ کر لیا تھا مگر ابوجہل کا اصرار اتنا بڑھا کہ یہ دونوں اس نیت سے سب کے ساتھ جانے پر تیار ہو گئے کہ راستے سے واپس آ جائیں گے۔
حضور انور نے فرمایا:جنگ کیلئے کفار کی تیاری اور روانگی کی مزید تفصیل انشاء اللہ آئندہ بیان ہوگی ۔

…٭…٭…٭…