اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-08

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

فرمودہ2؍جون 2023ءبمقام مسجدبیت الفتوح (مورڈن)یو.کے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہماری زندگی کا محور ہےاسکے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی شریعت پر عمل بھی نہیں ہو سکتا

جنگ بدر کے حوالہ سے سرکار دو عالم سیّدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا دلنشین وایمان افروز تذکرہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ2؍جون 2023ءبمقام مسجدبیت الفتوح (مورڈن)یو.کے

تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
بدری صحابہ کی سیرت کے پہلو اور ان کا تعارف اور ان کی قربانیاں ایک سلسلہ خطبات میں میں بیان کرتا رہا ہوں۔ بہت سے لوگوں نے اس خواہش کا اظہار کیا اور مجھے لکھا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نہ بیان کی جائے تو تشنگی رہ جائے گی کیونکہ اصل محور تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی جس کے گرد صحابہ گھومتے تھے جس کے ساتھ جُڑ کر صحابہ نے قربانیاں کرنے کے بے مثال معیار حاصل کئے اور نئے نئے اسلوب سیکھے اور توحید کو پھیلانے اور خود اسکا عملی نمونہ بننے کے وہ معیار قائم کئے جو آپ ﷺ کی قوت قدسی اور اللہ تعالیٰ کے خاص محبوب ہونے کا ثبوت ہے۔ پس آپ کی سیرت کا بیان بھی ضروری ہے۔
حضور انور نے فرمایا:آنحضرت ﷺکی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر مختلف وقتوں میں گذشتہ سالوں میں خطبات دئیے بھی گئے ہیں لیکن بہرحال آپﷺ کی سیرت ایسی ہے کہ اسکے بیان کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ایک وصف ایسا ہے کہ جسکا احاطہ کئی خطبات میں بھی نہیں کیا جا سکتا اور یہ سیرت تو انشاء اللہ وقتاً فوقتاً بیان ہوتی بھی رہے گی بلکہ ہر خطبہ اور خطاب میں کوئی نہ کوئی پہلو کسی نہ کسی رنگ میں بیان ہوتا بھی رہتا ہے کیونکہ یہی ہماری زندگی کا محور ہے اور اسکے بغیر ہمارا دین ہمارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی شریعت پر عمل بھی نہیں ہو سکتا۔ بہر حال اس وقت میں جنگ بدر کے حوالے سے آپ ﷺ کی سیرت کے پہلو اور تاریخ کے واقعات بیان کروں گا اور یہ سلسلہ آئندہ کچھ خطبات میں بھی چلے گا۔ آپﷺ کا اسوہ ہی ہے جس نے صحابہ کو بے لوث قربانیوں کا جذبہ عطا فرمایا۔
حضور انور نے فرمایا: جنگ بدرکے حوالے سے بھی آپ ﷺکے اسوے کا بیان ضروری ہے۔ جنگ کے واقعات سے پہلے ان اسباب کا بھی بیان کرنا ضروری ہے جس وجہ سے جنگ ہوئی۔ اس لئے پہلے میں کچھ نہ کچھ پس منظر بیان کروں گا۔ اس پس منظر میں بھی آپ ﷺکی سیرت اور آپ کی لائی ہوئی خوبصورت تعلیم کے مختلف پہلو ظاہر ہو جاتے ہیں۔
جنگ بدر کے اسباب بیان کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺکی مکی زندگی میں جو مظالم قریش نے مسلمانوں پر کئے اور جو جو تدابیر اسلام کو مٹانے کی انہوں نے اختیار کیں وہ ہر زمانہ میں ہر قسم کے حالات کے ماتحت کسی دو قوموں میں جنگ چھڑ جانے کا کافی باعث ہیں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ سخت تحقیر آمیز استہزا اور نہایت دلآزار طعن وتشنیع کے علاوہ کفار مکہ نے مسلمانوں کو خدائے واحد کی عبادت اور توحید کے اعلان سے جبراً روکا۔ ان کو نہایت بے دردانہ طورپر مارا اور پیٹا۔ ان کے اموال کو ناجائز طور پر غصب کیا۔ ان کا بائیکاٹ کر کے ان کو ہلاک وبرباد کرنے کی کوشش کی۔ ان میں سے بعض کو ظالمانہ طور پر قتل کیا۔ ان کی عورتوں کی بے حرمتی کی۔ حتی کہ ان مظالم سے تنگ آ کر بہت سے مسلمان مکہ کو چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ پھر مسلمانوں کے آقا اور سردار کو جسے وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے سخت تکالیف پہنچائی گئیں اور ہر قسم کے دکھوں میں مبتلا کیا گیااور بالآخر مکہ کی قومی پارلیمنٹ میں سارے قبائل قریش کے نمائندوں کے اتفاق سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ محمد رسول اللہ کوقتل کر دیا جاوےاوراس کیلئے کہاں  تک اُن کی طاقت تھی انہوںنے کوشش کی مگر مسلمانوں کو ان کے آقا کی طرف سے صبر اور عفو کاحکم تھالیکن جب قریش کے مظالم کاپیالہ لبریز ہوکر چھلکنے لگ گیا اور خداوند عالم کی نظر میں اتمام حجت کی میعاد پوری ہو گئی۔ تب خدا نے اپنے بندے کو حکم دیا کہ تواس بستی سے نکل جاکہ اب معاملہ عفو کی حد سے گزر چکا ہے اوروقت آگیا ہے کہ ظالم اپنے کیفرکردار کو پہنچے۔
جب تک آنحضرت ﷺ مکہ میں مقیم رہے آپ ﷺ نے ہرقسم کے مظالم برداشت کئے لیکن قریش کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی کیونکہ اول تو پیشتر اسکے کہ قریش کے خلاف کوئی کارروائی کی جاتی سنت اللہ کے مطابق ان پر اتمام حجت ضروری تھا اور اس کیلئے مہلت درکار تھی۔ دوسرے خدا کایہ منشا تھا کہ مسلمان اس آخری حد تک عفو اور صبر کانمونہ دکھلائیں کہ جسکے بعد خاموش رہنا خودکشی کے ہم معنی ہو جاوے جو کسی عقل مند کے نزدیک مستحسن فعل نہیں سمجھا جا سکتا۔ تیسرے مکہ میں قریش کی ایک قسم کی جمہوری حکومت قائم تھی اورآنحضرتﷺ اسکے شہریوں میں سے ایک شہری تھے۔ پس حسن سیاست کاتقاضا تھا کہ جب تک آپ مکہ میں رہیں آپ اس حکومت کا احترام فرمائیں اور خود کوئی امن شکن بات نہ ہونے دیں اورجب معاملہ عفو کی حد سے گزر جاوے تو آپ وہاں سے ہجرت کر جائیں۔ چوتھے یہ بھی ضروری تھا کہ جب تک خدا کی نظر میں آپﷺ کی قوم اپنی کارروائیوں کی وجہ سے عذاب کی مستحق نہ ہو جاوے اوران کو ہلاک کرنے کا وقت نہ آ جاوے آپ ان میں مقیم رہیں اورجب وہ وقت آ جاوے توآپ وہاں سے ہجرت فرما جائیں کیونکہ سنت اللہ کے مطابق نبی جب تک اپنی قوم میں موجود ہو ان پر ہلاک کر دینے والا عذاب نہیں آتا اورجب ہلاکت کاعذاب آنے والا ہو تو نبی کو وہاں سے چلے جانے کا حکم ہوتا ہے۔ ان وجوہات سے آپ ﷺ کی ہجرت اپنے اندر خاص اشارات رکھتی تھی مگر افسوس کہ ظالم قوم نے نہ پہچانا اور ظلم وتعدی میں بڑھتی گئی ورنہ اگراب بھی قریش باز آ جاتے اوردین کے معاملہ میں جبر سے کام لینا چھوڑ دیتے اور مسلمانوں کو امن کی زندگی بسر کرنے دیتے تو خدا ارحم الراحمین ہے اوراس کا رسول بھی رحمتہ للعالمین تھا یقینا اب بھی انہیں معاف کردیا جاتا اور عرب کو وہ کشت وخون کے نظارے نہ دیکھنے پڑتے جواس نے دیکھے مگر تقدیر کے نوشتے پورے ہونے تھے۔ آنحضرت ﷺ کی ہجرت نے قریش کی عداوت کی آگ پر تیل کا کام دیا اور وہ آگے سے بھی زیادہ جوش وخروش کے ساتھ اسلام کو مٹانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
جب آنحضرتﷺ مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے چلے آئے تو قریش نے مدینہ کے رئیس عبداللہ بن ابی اور اسکے ساتھیوں کے نام ایک دھمکی آمیز خط لکھا۔ انہوں نے لکھا کہ تم نے ہمارے ساتھی کو پناہ دی ہے اور اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ضرور تم اس سے جنگ کرو یا اسے جلا وطن کر دو یا ہم سب متحد ہو کر تم پر حملہ آور ہوں گے اور تمہارے جنگوؤں کو قتل کر دیں گے اور تمہاری عورتوں کو اپنے ماتحت کر دیں گے۔ اسی طرح قریش مکہ نے قبائل عرب کا دورہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف ان کو اکسانا شروع کیا۔
چنانچہ اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ہی سیرت خاتم النّبیین میں لکھا ہے کہ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ جب قریش نے دیکھا کہ اوس وخزرج مسلمانوں کی پناہ سے دستبردار نہیں ہوتے اور اندیشہ ہے کہ اسلام مدینہ میں جڑ نہ پکڑ جاوے تو انہوں نے دوسرے قبائل عرب کا دورہ کر کر کے ان کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا شروع کر دیا اور چونکہ بوجہ خانہ کعبہ کے متولی ہونے کے قریش کا سارے قبائل عرب پر ایک خاص اثر تھا اس لئے قریش کی انگیخت سے کئی قبائل مسلمانوں کے جانی دشمن بن گئے اورمدینہ کایہ حال ہو گیا کہ گویا اس کے چاروں طرف آگ ہی آگ ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں ذکر ملتا ہے کہ حضرت ابی بن کعب بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺاور آپ کے اصحاب مدینہ میں تشریف لائے اور انصار نے انہیں پناہ دی تو تمام عرب ایک قوس کی مانند یعنی ایک جان ہو کر ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ چنانچہ ان دنوں مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ وہ راتوں کو بھی ہتھیار لگاکرسوتے تھے اور دن کو بھی ہتھیار لگائے پھرتے تھے اوروہ ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ دیکھئے ہم اس وقت تک بچتے بھی ہیں یا نہیں کہ ہمیں امن کی راتیں گزارنے کا موقع ملے گا اور اللہ کے سوا کسی کاڈر نہ رہے گا۔خود سرورکائناتﷺ کایہ حال تھا کہ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ جب شروع شروع میں آنحضرت ﷺمدینہ میں تشریف لائے تو دشمن کے حملہ کے اندیشہ سے آپ راتوں کوجاگا کرتے تھے۔
یہ تو بیرونی خطرات تھے۔ مدینہ کے اندر بھی حالات اتنے سازگار نہ تھے جیسا کہ اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ مدینہ کے اندر یہ حالت تھی کہ ابھی تک ایک معتدبہ حصہ اوس وخزرج کاشرک پرقائم تھا اورگووہ بظاہر اپنے بھائی بندوں کے ساتھ تھے لیکن ان حالات میں ایک مشرک کاکیا اعتماد کیا جا سکتا تھا۔ پھر دوسرے نمبر پر منافقین تھے جو بظاہر اسلام لے آئے تھے مگر درپردہ اسلام کے دشمن تھے اور مدینہ کے اندر انکا وجود خطرناک احتمالات پیدا کرتا تھا۔ تیسرے درجہ پر یہود تھے جن کے ساتھ گو ایک معاہدہ ہو چکا تھا مگر ان یہود کے نزدیک معاہدہ کی کوئی قیمت نہ تھی۔ غرض اس طرح خود مدینہ کے اندر ایسا مواد موجود تھا جو مسلمانوں کے خلاف ایک مخفی ذخیرہ بارود سے کم نہ تھا اور قبائل عرب کی ذرا سی چنگاری اس بارود کو آگ لگانے اور مسلمانانِ مدینہ کو بھک سے اڑا دینے کیلئے کافی تھی۔ اس نازک وقت میں جس سے زیادہ نازک وقت اسلام پر کبھی نہیں آیا آنحضرت ﷺ پرخدا کی وحی نازل ہوئی کہ اب تمہیں بھی ان کفار کے مقابلہ میں تلوار استعمال کرنی چاہئے جو تمہارے خلاف تلوار لے کر سراسر ظلم وتعدی سے میدان میں نکلے ہوئے ہیں اورجہاد بالسیف کااعلان ہو گیا۔
جہاد فرض ہونے کے بعد رسول کریم ﷺنے کفار کے شر سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کیلئے ابتدا چار تدابیر اختیار کیں۔اول آپ نے خود سفر کرکے آس پاس کے قبائل کے ساتھ باہمی امن وامان کے معاہدے کرنے شروع کئے تاکہ مدینہ کے اردگرد کاعلاقہ خطرہ سے محفوظ ہوجائے۔ دوسرے آپ نے چھوٹی چھوٹی خبر رساں پارٹیاں مدینہ کے مختلف جہات میں روانہ کرنی شروع فرمائیں تا کہ آپ کو قریش اوران کے حلفاء کی حرکات وسکنات کاعلم ہوتا رہے اور قریش کوبھی یہ خیال رہے کہ مسلمان بے خبر نہیں ہیں۔ تیسری بات ان پارٹیوں کے بھجوانے میں ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ تااس ذریعہ سے مکہ اوراسکے گردونواح کے کمزوراورغریب مسلمانوں کو مدینہ کے مسلمانوں میں آملنے کاموقع مل جاوے۔ چوتھی تدبیر آپ نے یہ اختیار فرمائی کہ آپ نے قریش کے ان تجارتی قافلوں کی روک تھام شروع فرما دی جو مکہ سے شام کی طرف آتے جاتے ہوئے مدینہ کے پاس سے گزرتے تھے کیونکہ یہ قافلے جہاں جہاںسے گزرتے تھے مسلمانوں کے خلاف عداوت کی آگ لگاتے جاتے تھے اور ظاہر ہے کہ مدینہ کے گردونواح میں اسلام کی عداوت کا تخم بویا جانا مسلمانوں کیلئے نہایت خطرناک تھا۔ چنانچہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جن باتوں نے بالآخر قریش کو صلح کی طرف مائل ہونے پر مجبور کیا ان میں ان کے تجارتی قافلوں کی روک تھام کابہت بڑا دخل تھا۔
حضور انور نے فرمایا:بہر حال یہ سلسلہ ابھی چلے گا۔ فرمایا: اس وقت میں چند مرحومین کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں ان کی نماز جنازہ ادا ہو گی ان میں سے ایک جنازہ حاضر ہے جو مکرم خواجہ منیر الدین قمر صاحب کا ہے باقی جنازے غائب ہیں۔
بعدہ حضور انور نے مکرم خواجہ منیر الدین قمر صاحب۔ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب پوتے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ وبیٹے مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نواسےحضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ۔ مکرمہ سیدہ امتہ الباسط صاحبہ اہلیہ مکرم سید محمود احمد صاحب اسلام آباد۔مکرم شریف احمد بندیشہ صاحب فیصل آباد پاکستان کا ذکر خیر فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور درجات بلند کرے آمین ۔

…٭…٭…٭…