جماعتی نظام میں ہر عہدہ یا خدمت امانت ہے
عہدیداروں کو ہمیشہ یادرکھناچاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خدمت کا موقع دیا ہے، پس ہر قسم کے ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر خدمت سرانجام دیں
لوگوں میں یہ احساس اجاگر کریں کہ نظام جماعت ایک دوسرے کی ہمدردی اور خیال رکھنے کیلئے بنایا گیاہے
خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ18؍اگست 2023ءبمقام مسجدمبارک ، اسلام آباد(ٹلفورڈ)یو.کے
تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ یقیناً اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ امانت اسکے اہل کے سپرد کرو۔ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی عہدہ یا مقام جس میں لوگوں کے معاملات دیکھنے کا اختیار دیا گیا ہو تو یہ بھی ایک امانت ہے۔پس اس لحاظ سے ہمارے جماعتی نظام میں بھی ہر عہدہ یا خدمت امانت ہے۔
جماعتی نظام میں ہر سطح پر عہدے داروں کو منتخب کیا جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب بھی تم اس مقصد کیلئے انتخاب کرو تو اس بات کو مدنظر رکھو کہ منتخب افراد امانت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔
انتخاب کے وقت رشتے داری کا خیال نہیں رکھنا چاہیے۔بعض دفعہ بعض عہدےدار مرکزی طور پر یا خلیفہ وقت کی طرف سے بھی مقرر کردیے جاتے ہیں۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ غور کرکے جو بہترین شخص میسر ہو اسے مقرر کیا جائے۔ لیکن کبھی اندازے کی غلطی بھی ہوسکتی ہے۔ یا عہدے حاصل کرنے کے بعد لوگوں کے مزاج بھی بدل جاتے ہیں، اور عاجزی اور محنت سے کام کرنے کی روح برقرار نہیں رہتی۔ بہرحال ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ دعا کرکے اپنے میں سے بہترین لوگ منتخب کریں۔ عموماً یہی کوشش ہوتی ہے کہ جو شخص بڑھ بڑھ کر اس لیے آگے آرہا ہو تاکہ اسے عہدہ دیا جائے اس کے سپرد خدمت نہ کی جائے۔ اگر ایسے شخص کا نام منتخب ہوکر آ بھی جائے تو بھی مرکز یا خلیفہ وقت، اگر اسکے حالات سے واقف ہو تو اس کی منظوری نہیں دی جاتی۔ یہ طریق عین آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ہے۔ ایک مرتبہ دو افراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی کہ فلاں خدمت ہمارے سپرد کی جائے، ہم اس کے اہل ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے سپرد میں کوئی خدمت کرتا ہوں اللہ تعالیٰ اسکی مدد فرماتا ہے۔جو خواہش کرکے کوئی کام خود اپنے ذمے لے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مدد نہیں ہوتی۔ اسکے کام میں برکت نہیں پڑتی۔پس کبھی بھی عہدے کی خواہش نہیں ہونی چاہیے۔ ہاں! خدمتِ دین کا شوق ہونا چاہیے۔ وہ کسی بھی رنگ میں ہو۔
حضور انور نے فرمایا:اس سال بعض ملکوں میں ذیلی تنظیموں کے انتخابات ہونے ہیں۔ان تنظیموں کے ممبران میں سے جو بھی مجلسِ انتخاب کے ممبر بنیں انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق دعا اور انصاف کے ساتھ اپنی رائے دہی کا حق استعمال کریں۔
اسکے ساتھ ساتھ میں عہدے داروں کو بھی ان کی ذمہ داریاں یاد دلانا چاہتا ہوں۔ عہدے داروں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خدمت کا موقع دیا ہے۔پس ہر قسم کے ذاتی مفاد سے بالا تر ہوکر خدمت سر انجام دیں۔ بعض عہدے داروں کے رویوں میں عاجزی نہ ہونے کی شکایات آتی ہیں۔ یہاں تک کہ بعض عہدےداروں کے متعلق رپورٹ ملتی ہے کہ سلام تک کا جواب نہیں دیتے۔ ایسے رویے دکھانے والے اپنی اصلاح کریں اور ہر بچے بڑے سے پیار اور عاجزی سے ملیں۔آپ کو افراد جماعت کی خدمت کیلئے مقرر کیا گیا ہے نہ کہ افسر شاہی کا رعب ڈالنے کیلئے۔ اپنے اندر عاجزی پیدا کریں۔ جو بھی ذمہ داری سپرد کی گئی ہے اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اپنی تمام تر صلاحیتیں اس خدمت کو بہترین رنگ میں ادا کرنے کیلئے صرف کرنی ہیں۔ یہ سوچ ہو گی تو تبھی صحیح کام کرنے کی روح بھی پیدا ہو گی اور افراد جماعت کا بھی تعاون رہے گا۔ اکثر عہدیدار جو شکایت کرتے ہیں کہ بعض شعبوں میں افراد جماعت تعاون نہیں کرتے۔ بیشک یہ افراد کی بھی ذمہ داری ہے کہ جن لوگوں کو انہوں نے خود خدمت کے لئے چنا ہے ان سے تعاون بھی کریں لیکن ساتھ ہی عہدیداران کا بھی کام ہے کہ اپنے بہترین نمونے لوگوں کے سامنے قائم کریں۔
اسی طرح بہت زیادہ استغفار، اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ایک سیکرٹری تربیت پنجوقتہ نماز ادا نہیں کرتا تو وہ دوسروں کو نماز کی ادائیگی کا کیسے کہہ سکتا ہے؟ اسی طرح اگر کوئی عہدے دار صحیح شرح سے چندہ ادا نہیں کرتا تو وہ دوسروں کو مالی قربانی کی طرف کیسے توجہ دلائے گا؟ اگر سیکرٹریان تربیت اپنے اعلیٰ نمونوں کے ساتھ پیار اور محبت سے افراد جماعت کی تربیت کریں تو وہ ایک انقلابی تبدیلی پیدا کرسکتے ہیں۔
ہر عہدےدار کو اپنے شعبے کی بہتری کیلئے کم از کم دو نفل روزانہ پڑھنے چاہئیں۔اگر تربیت کا شعبہ فعال ہوجائے تو دیگر شعبے خود بخود ستّر فیصد تک کام کرنے لگیں گے۔
ذیلی تنظیموں کو بھی ہر سطح پر اپنے آپ کو فعال کرنا ہوگا۔ عہدے دار سٹیج پر بیٹھنے کیلئے نہیں ہیں۔ہر عہدیدار کو کارکن بن کر اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔یاد رکھیں آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہے۔ عہدےداروں کا یہ بھی کام ہے کہ افرادِ جماعت سے ذاتی تعلق قائم کریں، ان کی خوشیوں اور غموں میں شامل ہوں۔ لوگوں میں یہ احساس اجاگر کریں کہ نظام جماعت ایک دوسرے کی ہمدردی اور خیال رکھنے کیلئے بنایا گیا ہے۔ یہی سوچ ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والی ہے۔اللہ کرے کہ خلافت احمدیہ کو ہمیشہ ایسے سلطان نصیر عطا ہوں جو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے کام سر انجام دیں ۔
عہدے داروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ عاملہ کے اجلاسوں اور میٹنگز میں شامل ہوکر اپنی رائے کا اظہار کردینا اور یہ سمجھ لینا کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا یہ کافی نہیں۔ لوگوں کی بہتری کیلئے منصوبہ بندی کرنا اور پھر اس پر عمل کروانا انتہائی ضروری امر ہے۔ دستیاب وسائل کے اندر رہتے ہوئے بہترین حکمتِ عملی کے ساتھ لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھیں۔
آج کل رشتے ناطے کا شعبہ بہت بڑا چیلنج لیے ہوئے ہے۔ اس کیلئے وسیع منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کو مل کر اس کیلئے کام کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں بھی شعبہ تربیت کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے نوجوانوں کی صحیح تربیت ہو تو ہم آنحضرتﷺ کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ رشتے کے معاملے میں دولت، خاندان اور خوبصورتی کی بجائے دین کو فوقیت دو۔
امورِ عامہ کا شعبہ بھی نہایت اہم ہے۔ عموماً سمجھا جاتا ہے کہ اس شعبے کا کام لوگوں کو سزائیں دلوانا یا سختی سے لوگوں کو تنبیہ کرنا ہے۔ اس شعبے میں کام کرنے والوں کو پتا ہونا چاہیے کہ ان کا صرف یہ کام نہیں، یہ کام کا صرف ایک حصّہ ہے۔ سختی سے تنبیہ کرنا تو بہرحال ان کا کام نہیں۔ یہ تو صرف وہاں ضروری ہوتا ہے جہاں انتہائی ضرورت ہو، اور تب ہی اس کی سفارش کی جاتی ہے۔ اگر شعبہ تربیت فعال ہو تو افراد جماعت کے آپس کے جھگڑوں سے متعلق امور عامہ کے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔امور عامہ کا کام لوگوں کو سزائیں دلانا نہیں بلکہ سزاؤں سے بچانا ہے اور اس کیلئے انہیں ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔
بعض اوقات عہدےداروں کے رویے افراد جماعت میں نظامِ جماعت کے خلاف بدظنی پیدا کردیتے ہیں۔ افراد جماعت کو میں یہ بتادوں کہ ہر خط جو یہاں خلیفہ وقت کے دفتر میں پہنچے اسے کھولا بھی جاتا ہے، پڑھا بھی جاتا ہے اور اس پر کارروائی بھی کی جاتی ہے۔ اگر کہیں تاخیر ہوتی ہے تو وہ متعلقہ جماعت میں ہوتی ہے اور اس طرح یہ عہدےدار افراد جماعت اور خلیفہ وقت میں دوریاں پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔
جن عہدےداروں کے سپرد ضرورت مند افراد کی امداد کا کام ہے انہیں بالخصوص یاد رکھنا چاہیے کہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہرگز تاخیر اور سستی نہ کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو امام یعنی عہدیدار نادار اور مستحق لوگوں کیلئے اپنے دروازے بند کرتا ہے، خدا اس کی ضروریات کیلئے آسمان پر دروازے بند کردیتا ہے۔ پس اگر ایسی سوچ رکھنے والا کوئی عہدےدار یا ان کے دفتر میں ایسا کوئی کارکن ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے لوگوں کی حاجتیں پوری کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔ درخواست لے کر دراز میں رکھ دینا اور لمبے عرصے تک کارروائی ہی نہ کرنا یہ بہت بڑا جرم ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جہاں کہیں بھی تم ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ لوگوں سے خوش اخلاقی اور حسن سلوک سے پیش آؤ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ اور معاذ بن جبل کو یمن کے دو علیحدہ حصوں کی طرف والی مقرر کرکے بھیجا تو انہیں یہ نصیحت فرمائی کہ آسانی پیدا کرنا، مشکلیں نہ پیدا کرنا۔ محبت اور خوشی پھیلانا اور نفرت نہ پنپنے دینا۔یہ نصیحت ہر عہدےدار کو راہ نما اصول کے طور پر ہمیشہ اپنے سامنے رکھنی چاہیے۔
پس ہر عہدےدار کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم نے اپنے اندر روحانی خوبصورتی پیدا کرنی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
…٭…٭…٭…