اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-08-17

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

فرمودہ11؍اگست 2023ءبمقام مسجدمبارک ، اسلام آباد(ٹلفورڈ)یو.کے

جماعت احمدیہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور افضال وانعامات کا ایمان افروز تذکرہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ11؍اگست 2023ءبمقام مسجدمبارک ، اسلام آباد(ٹلفورڈ)یو.کے

تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی جماعت پرہر دن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہوتی ہے۔ اس کا ذکر جلسہ کی رپورٹ میں ہوتا ہے لیکن مختصر وقت میں سب کچھ بیان کرنا ممکن نہیں۔ ان میں سے چند آج بھی بیان کروں گا ۔
کنشاسا کےلوکل مشنری حمید صاحب لکھتے ہیں کہ ویرا شہر میں ہمارے ریڈیو پروگرام کو سُن کرمقامی امام مسجد عیسیٰ صاحب نے جماعت سے رابطہ کیااور مشن ہاؤس آئے، جماعت کے پیغام کو سمجھا اور بیعت کرلی۔ پھراپنے گاؤں جا کر تبلیغ کی اور چوبیس افراد احمدیت میں داخل ہوئے۔ بعد میں ہمارے مبلغ صاحب نے اُس گاؤں کا دورہ کیا اور مزید آٹھ افراد جماعت میں داخل ہوئے۔اس طرح وہاں نئی جماعت قائم ہوگئی ۔
کنشاسا کے ایک صوبے، مائین دومبےکے ایک گاؤں میں معلم عمر منور صاحب کو تبلیغ کے لیے بھیجا گیا۔وہاں انہوں نے پمفلٹ تقسیم کیے۔جس کے دوران بعض شریر لوگوں نے پتھر مارےاور شور مچایا۔معلم صاحب پتھروں سے بچتے ہوئے تبلیغ کرتے رہے۔لوگ ان کے صبر و تحمل سے بہت متاثر ہوئے۔وہاں کی مسجد میں جا کر انہوں نے لوگوں کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیے۔چالیس بیالیس افراد نے جماعت کی تبلیغ سے متاثر ہوکر بیعت کرلی اور نئی جماعت قائم ہوگئی۔
گنی بساؤ کے امام تمانے کہتے ہیں کہ آج تک ہم جماعت کے بارے میں یہی سنتے آئے ہیں کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن و حدیث کو نہیں مانتے۔ آج ہم نے جلسہ میں آپ کے خلیفہ کو دیکھا اور سنا۔انہوں نے اللہ تعالیٰ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن و حدیث کی نصائح فرمائی ہیں۔ مجھے یقین ہوگیا ہے کہ جماعت کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا ہورہاہےاور جھوٹا پروپیگنڈا ہمیشہ الٰہی جماعتوں کے خلاف ہوتا ہے۔ اس لیے میں آج سے جماعت احمدیہ میں داخل ہوتا ہوں۔
برونڈی کے ایک قصبہ میں سنی مسجد کے امام نے بہت کوشش کی کہ جماعت کی مسجد کو بند کروایا جائے ۔لیکن اسکی ایک نہ چلی۔ ہمارے معلم صاحب کو بلایا اور وفات مسیح کے بارے میں بحث شروع ہوئی۔ ہمارے معلم نے جب دلائل دیے تو ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور جماعت پر کفر کا فتویٰ لگادیا۔ انہی کے ایک شخص نے کہا کہ اس جماعت کا اسلام سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن آپ کا نہیں۔ آپس میں ہی ان کی لڑائی ہوگئی اور حکومت نے تین ماہ کیلئے اُن کی مسجد کو بند کردیا۔ اب یہ طریق نام نہاد علماء پاکستان کی طرح ہر جگہ اختیار کررہے ہیں کہ احمدیوں کی مسجدیں بند کرواؤ یا مینار اور محرابیں گرادو ۔جبکہ پاکستان کے کسی قانون میں نہیں لکھا کہ احمدیوں کو مینار بنانے کی اجازت نہیں ہے۔لیکن حکومت ان نام نہادمولویوں کے سامنےگھٹنےٹیکنے پر مجبور ہے اور یہ مولوی نقصان پہنچانے کی اپنی پوری کوشش کررہے ہیں ۔لیکن انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن یہ خود ہی سب مر جائیں گے۔
پاکستان میں ہمارے قرآن کی اشاعت پر پابندی ہے ترجمہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بعض لوگوں پر ایسے کیسز درج ہوئے ہیں کہ تم قرآن کیوں سن رہے تھے۔یہ نام نہاد مسلمانوں کا اسلام ہے۔ اس کے مقابل پر اللہ تعالیٰ ہمارے راستے کھول رہا ہے۔ تنزانیہ کے ایک معلم صاحب نے بتایا کہ تیس کلومیٹر دُور سے ایک شخص کا فون آیا کہ وہ قرآن کریم کا سواحیلی ترجمہ خریدنا چاہتے ہیں۔ اُسے بتایا گیا کہ اُن کے علاقے میں مل جاتا ہے ۔لیکن اُس نے کہا کہ مجھے جماعت کا ترجمہ اور تفسیرپسند ہے اور یہی چاہیے۔
مغربی دنیا میں بھی بعض ممالک جیسے سویڈن اور ڈنمارک وغیرہ میں قرآن کریم کی توہین کی جارہی ہے۔ وہیں پرجب اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کی جاتی ہے تو مخالفین کے رویے بدل جاتے ہیں۔آج جماعت احمدیہ ہی قرآن کریم کے مقام کو بلند کرنے اور اس کی تعلیم پھیلانے میں کوشاں ہے۔
قرآن کریم کی اشاعت اور اسلامی تعلیمات پر لٹریچر کا لوگوں پر کس طرح اثر ہوتا ہے اس بارے میں اور واقعہ بھی بیان کرتا ہوں۔ گولاگھاٹ بک فیئر کے موقع پر ایک مسلمان پروفیسر شبانہ یاسمین صاحبہ نےجب ہمارے سٹال کو دیکھا تو بہت خوش ہوئی اور سیدھا آ کر قرآن مجید کا آسامی ترجمہ اٹھایا اور اپنے ساتھی پروفیسر صاحب سے کہنے لگی کہ آج میرا یہ خواب پورا ہوگیا ہے۔ میں ایک لمبے عرصہ سے قرآن کریم کے آسامی ترجمہ کی تلاش میں تھی۔ میرے ایک استاد تھے جنہوں نے بارہا مجھ سے قرآن مجید کے آسامی ترجمہ کا مطالبہ کیا تھا ۔لیکن میرے پاس قرآن کریم کا آسامی ترجمہ نہ ہونے کی وجہ سےان کو نہیں دے سکی ۔ اس وجہ سے مجھے سخت ندامت ہوتی تھی اور اپنے مسلمان ہونے پر افسوس ہوتا تھا۔ میرے استاد کی وفات کے بعد آج مجھے یہ قرآن کریم ملا ۔
دھیما جی بک فیئر میں ایک ہندو خاتون بانتی دوباراس آئی تھی۔ یہ لارڈ شیوا کا مندر بنا رہی ہیں اور اس کی تبلیغ کرتی ہے ۔ جب اس نے ہمارے سٹال کو دیکھا تو حیران رہ گئی کہ اس علاقے میں جہاں مسلمانوں کی آبادی بہت کم ہے وہاں ایک اسلامی سٹال لگا ہے۔ اس نے ہمارے سٹال پر آ کر گفتگو کی۔ بہت خوش ہو کر واپس گئی۔ اگلے روز پھر واپس آئی۔ سٹال میں موجود تمام لوگوں کیلئے پھل وغیرہ لائی ۔نیز قرآن مجید کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اس نے قرآن مجید خریدتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ آج میری زندگی کا ایک خواب آپ نے پورا کر دیا ہے۔
آخری شرعی کتاب قرآن کریم جس کا پڑھنا، سننا، رکھنا بھی پاکستان میں احمدیوں پر بین ہےاور ایک بہت بڑا جرم ہے۔ وہی کتاب ہے جس کے ذریعہ جماعت احمدیہ دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچا رہی ہے اور دنیا کی اصلاح کر رہی ہے۔ مائیکرونیشیا کے مبلغ شرجیل صاحب کہتے ہیں کچھ عرصہ پہلے ایک شخص سائمن گیڈن نےجماعت سے رابطہ کر کے قرآن پاک کا نسخہ حاصل کیا ۔کچھ عرصہ گزر نے کے بعد ایک دن اچانک ان کا میسج آیا کہ میں ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ جب مسجد آئے تو کہنے لگے کہ پوری زندگی بائبل کو بہت تفصیل سے میں نے پڑھاہے۔ لیکن کوشش کے باوجود اس کی تعلیم دل میں نہیں بیٹھتی۔ سمجھ نہیں آئی کچھ بھی۔ لیکن جب سے قرآن کریم پڑھنا شروع کیا ہے تو ایسے لگا کہ اس کا ہر لفظ دل میں سیدھا داخل ہو رہا ہے۔ وہ اس بات پر حیران تھے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں ساری زندگی غلط تھا اور قرآن کریم کی تعلیم سے محروم رہا۔اب موصوف نہ صرف جماعت میں داخل ہو گئے ہیں بلکہ بڑی دلیری سے اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں۔
برکینا فاسو مہدی آباد کے سعید و جیکا صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب ہمارے گاؤں کی اکثریت نے احمدیت قبول کرلی تو ہمارے ایک عزیز نے ہمیں سعودی عرب بلایا اور خانہ کعبہ دکھا کر کہا کہ وہابیت اختیار کرو احمدیت چھوڑ دو۔ میں نے کہااس مقدس مقام کے سائے میں کھڑا ہوکر دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں کوئی ایسا موقع نہ آئے کہ مجھے احمدیت چھوڑنی پڑے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے پہلے حالتِ ایمان میں موت دے دے۔ان کا عزیز برکینا فاسو ملنے واپس آیا تو الحاج ابراہیم صاحب نے تبلیغ کی اوروہ احمدی ہوگیا۔
نائیجیریاکے رہائشی ایک شخص کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔اس سے قبل وہ مخالف گروہ کے سرگرم رکن تھے۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد ان کوشدید مخالفت کا سامناہوا۔ایک روزجب وہ کھیتوں میں کام کررہے تھےتو شدید طوفان آیا۔ اس وقت مخالفین کی یہ بات ان کی ذہن میں آئی کہ ایک روز تم کام سے واپس آؤگے تو اپنا گھر تباہ و برباد دیکھو گے۔تو انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ !اگر یہ جماعت تیری جماعت ہے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام وہی موعود مہدی ہیں جن کی خوشخبری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی تو میرا گھر گرنے نہ دینا۔واپس آیا توان کا مکان کا ہر کمرہ محفوظ پایا۔کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا تھا ۔جبکہ اِرد گِرد کے تمام گھر تباہ ہوگئے تھے۔ ان کویقین ہوگیا کہ یہ ایک الٰہی جماعت ہے۔
دنیا کے مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کی تائیدات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ جنہوں نے ہمیں حقیقی اسلام کی تعلیم دی۔یہ واقعات احمدیت کی سچائی کی دلیل ہیں اور لوگوں کے ایمان کو مضبوط کررہے ہیں۔اللہ تعالیٰ دنیا کی بھی نظریں کھولے اور ایمان اور یقین کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضور انور نے فرمایا کہ ان دنوں میں کووڈ کی وبا دوبارہ پھیل رہی ہے لوگوں کو احتیاط کرنی چاہیے۔
حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ کے آخر پر چار مرحومین کا ذکر خیرفرمایا اور بعد ازنماز جمعہ ان مرحومین کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

…٭…٭…٭…