اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-03-30

خلاصہ خطبہ جمعہ  فرمودہ24؍مارچ2023ءبمقام مسجدمبارک، اسلام آباد (ٹلفورڈ)یو.کے

آج مسلمان اگر اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ جو مسیح و مہدی آنے والا تھا وہ آگیااور آنحضرتﷺ کا حقیقی غلامِ صادق یہی ہے
اور اسکی بیعت میں آنا آنحضورﷺ کے حکم کےموجب ضروری ہے تو مسلمان، دُنیا میں اپنی برتری دوبارہ قائم کرلینگے ورنہ انکا یہی حال رہنا ہے جو ہے
دنیاکے سبھی احمدیوں کیلئے اور پاکستان، بورکینا فاسو اور بنگلہ دیش کے احمدیوں کیلئے نیز دُنیا کے تباہی سے بچنے کیلئے دعا کی تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ24؍مارچ2023ءبمقام مسجدمبارک، اسلام آباد (ٹلفورڈ)یو.کے

 

تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سورہ جمعہ کی آیات 3 اور 4کی تلاوت فرمائی۔ ہُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۝۰ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝۳ۙ وَّاٰخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِہِمْ۝۰ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۴
ترجمہ:: وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سےایک عظیم رسول مبعوث کیاوہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اورانہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔ اور ان ہی میں سے دوسروں کی طرف بھی( اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا( اور) صاحبِ حکمت ہے۔
حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا :
23مارچ کا دن جماعت احمدیہ میں یومِ مسیح موعود کےنام سے جانا جاتا ہے۔ کل 23؍مارچ تھی۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے اور رسول اللہﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق زمانےکے امام مسیح موعود و مہدی معہودؑ کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی ۔
23؍مارچ1889ءکو آپؑنے لدھیانے میں بیعت لےکر مخلصین کی جماعت قائم فرمائی۔ سورہ جمعہ کی جن آیات کی مَیں نے تلاوت کی ہے ان میں آنحضرتﷺ کے غلامِ صادق کے آنے اور اس کے ذریعے ایک جماعت کے قیام کی خوش خبری دی گئی ہے۔اسکے علاوہ بھی دیگر آیات اور احادیث میں یہ خوش خبری موجود ہے۔ اس وقت مَیں ان آیات کی وضاحت اورآنیوالے مسیح موعود کےزمانے کی مختلف نشانیاں جو بیان ہوئی ہیں انکی تفصیل حضرت مسیح موعودؑ کےالفاظ میں بیان کرونگا۔ اسی طرح آپؑکا دعویٰ کیا تھا وہ بھی مختصر طور پر آپؑکے الفاظ میں پیش کرونگا۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ خداوہ خدا ہے جس نے ایسے وقت میں رسول بھیجا کہ لوگ علم اور حکمت سے بےبہرہ ہوچکے تھے۔ عُلومِ حکمیہ دینیہ جن سےتکمیلِ نفس ہو اور نفوسِ انسانی اپنے کمال کو پہنچے بالکل گم ہوگئے تھے۔ تب ایسے وقت میں خداتعالیٰ نے اپنا رسول اُمّی بھیجا اور اس رسول نے ان کے نفسوں کو پاک کیااور علم الکتاب اور حکمت سے ان کو مملو کیا یعنی نشانوں اور معجزات سے مرتبہ یقینِ کامل تک انکو پہنچایا۔ پھر فرمایا: ایک گروہ اور ہے جو آخری زمانے میں ظاہر ہوگاوہ بھی اول تاریکی و گمراہی میں ہوں گے تب خدا ان کو بھی صحابہ کے رنگ میں لائے گا۔ یہانتک کہ انکا صدق اور یقین بھی صحابہ کے صدق اور یقین کی مانند ہوجائیگا۔حدیثِ صحیح میں ہےکہ آنحضرت ﷺ نے اس حدیث کیوقت سلمان فارسیؓ کے کندھے پرہاتھ رکھا اور فرمایا لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ اس زمانے کی نسبت فرمایاگیاہے کہ قرآن آسمان پر اٹھایا جائے گا یہی وہ زمانہ ہے جو مسیح موعود کا زمانہ ہے۔ یہ فارسی الاصل وہی ہے جس کا نام مسیح موعود ہے۔
فرمایا:اس آیت کےمعنی یہ ہیں کہ کمال ضلالت کےبعد ہدایت اور حکمت پانے والے اور آنحضرت ﷺ کے معجزات اور برکات کو مشاہدہ کرنے والے دو ہی گروہ ہیں اول صحابہ اور دوسرا گروہ جو مانند صحابہ ہیں وہ مسیح موعود کا گروہ ہے۔ کیونکہ یہ گروہ بھی آنحضرت ﷺ کے معجزات کو دیکھنے والا ہے۔ آج کل ایسا ہی ہوا ہے۔چنانچہ تیرہ سو برس بعد آنحضرت ﷺ کے معجزات کا دروازہ کھل گیا ہے اورلوگوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے کہ خسوف و کسوف رمضان میں موافق حدیث دارقطنی اور فتاویٰ ابنِ حجر کے ظہور میں آگیا۔ پھر ذو السنین ستارہ بھی جس کا نکلنا مہدی اور مسیح موعود کے وقت میں بیان کیا گیا تھا ہزاروں لوگوں نے نکلتا ہوا دیکھ لیا۔ ایسا ہی جاوا کی آگ بھی ہزاروں لوگوں نے مشاہدہ کی۔ ایسا ہی طاعون کا پھیلنا اور حج سےروکے جانا بھی سب نے بچشم خود مشاہدہ کرلیا۔ملک میں ریل کا تیار ہونا اور اونٹوں کا بےکار ہونا یہ سب آنحضرتﷺ کے معجزات تھے جو اس زمانے میں اسی طرح دیکھے گئے جیسے صحابہ نےمعجزات کو دیکھا تھا ۔ اسی وجہ سے اللہ جلّ شانہٗ نے اس آخری گروہ کو منھم کے لفظ سے پکارا تاکہ یہ اشارہ کرے کہ معائنہ معجزات میں یہ بھی صحابہ کے رنگ میں ہیں۔سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاجِ نبوت کا کس نے پایا ہے۔
ہماری جماعت کو کئی وجوہ سے صحابہ کی جماعت سے مشابہت ہے۔ وہ خدا کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اوریقین پاتے ہیں جیسے صحابہ نے پایا۔ وہ خدا کی راہ میں لوگوں کی لعن طعن، ہنسی، ٹھٹھے اور بدزبانی اور قطع رحم کا صدمہ اٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اٹھایا۔ وہ خدا کے نشانوں اور آسمانی مدد سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسے صحابہ نےحاصل کی۔بہتیرے ان میں سے ہیں کہ نماز میں روتے ہیں اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ روتے تھے۔ بہتیرے ان میں سے وحی و الہام سے مشرف ہوتے ہیں جیسے صحابہ ہوتے تھے۔
جیسے یہ جماعت صحابہ سے مشابہ ہے ویسے ہی وہ شخص جو اس جماعت کا امام ہے وہ آنحضرتﷺ سے مشابہت رکھتا ہے جیسا کہ خود آنحضرتﷺ نے مہدی معہود کی یہ صفت بیان فرمائی کہ وہ آپؐ سے مشابہ ہوگا۔ دو مشابہت اس کے وجود میں ہوں گی ایک مشابہت حضرت مسیحؑ کے وجود سے جس کی وجہ سے وہ مسیح کہلائے گا اور دوسری مشابہت آنحضرتﷺ سےجس کی وجہ سے وہ مہدی کہلائے گا۔
اپنے دعویٰ کی نسبت آپؑفرماتے ہیں کہ جب خداتعالیٰ نے زمانے کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اور زمانےکو طرح طرح کے فسق اور معصیت اور گناہ سے بھرا ہوا دیکھ کر مجھے تبلیغ حق اور اصلاح کے لیے مبعوث فرمایا۔ اور یہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ لوگ تیرھویں صدی ہجری کو ختم کرکےچودھویں صدی کے سر پرپہنچ گئے تھے۔ تب مَیں نے اس حکم کی پابندی سے عام لوگوں میں بذریعہ تحریری اشتہارات اور تقریروں کے یہ ندا کرنی شروع کی کہ اس صدی کے سر پر جو تجدیدِ دین کےلیے آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں۔تا وہ ایمان جو زمین پر سے اٹھ گیا ہے اسے دوبارہ قائم کروں۔
اس پر کیا دلیل ہے کہ آنے والے مسیح موعود آپؑ ہی ہیں اس حوالے سےآپؑفرماتے ہیں کہ اس کا جواب یہ ہے کہ جس زمانے اور جس ملک اور جس قصبے میں مسیح موعود کا ظاہرہونا قرآن شریف اور احادیث سےثابت ہوتا ہے اور جن افعالِ خاصّہ کو مسیح کے وجود کی علّتِ غائی ٹھہرایا گیا ہے اور جن حوادثِ ارضی و سماوی کو مسیح موعود کے ظاہر ہونے کی علامات ٹھہرایاگیا ہے اور جن عُلوم و معارف کو مسیح موعود کا خاصّہ ٹھہرایا گیاہے وہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے مجھ میں اور میرے زمانے میں اور میرے ملک میں جمع کردی ہیں۔
سلسلہ کی ترقیات کےمتعلق آپؑفرماتے ہیں کہ آج سے 23برس پہلے براہین احمدیہ میں یہ الہام موجود ہے کہ لوگ کوشش کریں گے کہ اس سلسلے کو مٹادیں۔ ہرایک مکر کام میں لائیں گے مگر خدا تعالیٰ اس سلسلے کی تائید ہمیشہ فرمائے گا۔ حضورانور نے فرمایا آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کواللہ تعالیٰ نے براہینِ احمدیہ میں فرمایا تھا کہ فصاحت و بلاغت کے چشمے تیرے لبوں پر جاری کیے گئے۔ اس نشان کا ثبوت حضورؑ کی کتابیں ہیں۔ کئی کتابیں عربی بلیغ میں تالیف کرکے ہزارہا روپے کے انعام کے ساتھ شائع کی گئیں لیکن کوئی مقابلے کےلیےنہ آیا۔
دعا کی قبولیت کے نشانات کے حوالے سے حضورانور نے طالبِ علم عبدالکریم ولد عبدالرحمٰن ساکن حیدرآباد دکن کی مثال پیش فرمائی جو قادیان میںپڑھنے آئے تھے اور انہیںپاگل کتّے نے کاٹ لیا تھا۔ عبدالکریم کو علاج کیلئے کسولی بھیج دیا گیا جہاں اُن کا چند دنوں تک علاج ہوتا رہا۔ پھر وہ قادیان آگئے اور کچھ دن کے بعد اُن میں آثار دیوانگی کے ظاہر ہوئے۔ اور ڈاکٹروں نے اسے لاعلاج قرار دے دیا تھا لیکن وہ آپؑکی دعا سے ٹھیک ہوگیا۔ حضورانور نے ڈاکٹر الیگزینڈر ڈوئی، غلام دستگیر قصوری اور چراغ دین جمونی کی مثالیں بھی پیش فرمائیں۔
حضورانور نے فرمایا آج مسلمان اگر اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ جو مسیح و مہدی آنے والا تھا وہ آگیااور آنحضرتﷺ کا حقیقی غلامِ صادق یہی ہے اور اس کی بیعت میں آنا آنحضورﷺ کے حکم کےموجب ضروری ہے تو مسلمان دنیا میں اپنی برتری دوبارہ قائم کرلیں گے ورنہ ان کا یہی حال رہنا ہے جو ہے۔
خطبے کے آخر میں حضور انور نے دُنیا کے سبھی احمدیوں کے لئے عموماً اور پاکستان، برکینا فاسو اور بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لئے خصوصا دُعا کی تحریک فرمائی۔ نیز دنیا کے تباہی سے بچنے کے لیے دعا کی تحریک فرمائی۔
…٭…٭…