اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

فرمودہ14؍جولائی 2023ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

آنحضرتﷺ نے فرمایا: اَے اللہ عَمرو بن ہشام ،عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف ، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید پر گرفت کر
حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نے خود ان کو بدر کے دن گرے ہوئے دیکھا پھر ان کو بدر کے گڑھے میں گھسیٹ کر پھینکاگیا
جنگ بدر کے حوالہ سے سرکار دو عالم سیّدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا دلنشین وایمان افروز تذکرہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ14؍جولائی 2023ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جنگ بدر کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور واقعات کے بارے میں ذکر ہو رہاتھا۔ جنگ بدر ختم ہوئی اور کفار کو اللہ تعالیٰ نے ان کے بد انجام تک پہنچایا۔ ستر کفار مارے گئے جن میں سے بہت سے رؤوسا اور سردار بھی تھے۔ہجرت سے قبل ایک مرتبہ جبکہ آنحضرتﷺ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے قریش کے چند افراد کے کہنے پر ان میں سے سب سے بدبخت نے نبی کریمﷺ کے کندھوں کے درمیان جانور کی بچہ دانی رکھ دی جبکہ آپ سجدے میں تھے۔ نبیﷺ سجدے کی حالت میں ہی رہے اور وہ لوگ ہنستے رہے۔ حضرت فاطمہ علیہا السلام کو کسی نے بتایا ۔وہ چھوٹی لڑکی تھیں دوڑتی ہوئی آئیں اور نبیﷺ سجدہ کی حالت میں رہے یہاں تک کہ انہوں نے اس کو آپؐکے اوپر سے ہٹا دیا۔ جب رسول اللہﷺ نماز پڑھ چکے تو آپ نے دعا کی۔ اَے اللہ تو قریش کی گرفت کر اَے اللہ تو قریش کی گرفت کر اَے اللہ تُو قریش کی گرفت کر۔پھرآپ نے نام لئے اَے اللہ عمرو بن ہشام اور عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ اور امیہ بن خلف ، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید پر گرفت کر۔ حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نے خود ان کو بدر کے دن گرے ہوئے دیکھا ۔ پھر ان کو بدر کے گڑھے میں گھسیٹ کر پھینکاگیا پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ گڑھے والے لعنت کے نیچے ہیں۔
حضرت عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں بدر میں قتل ہونے والے مشرکین کی قتل گاہیں دکھا دی تھیں۔ آپ یہ قتل گاہیں دکھاتے ہوئے فرماتے جاتے تھے کہ کل انشاء اللہ یہ عتبہ بن ربیعہ کی قتل گاہ ہو گی یہ شیبہ بن ربیعہ کی قتل گاہ ہو گی یہ امیہ بن خلف کی قتل گاہ ہو گی یہ ابوجہل بن ہشام کی قتل گاہ ہو گی اور یہ فلاںکی قتل گاہ ہو گی۔ آپ ﷺ اپنے دست مبارک زمین پر رکھ کر یہ نشاندہی فرماتے جاتے تھے اور پھر اگلے دن غزوہ بدر میں جو لوگ مرے ان کی لاشیںاس جگہ سے ذرا بھی ادھر ادھر نہیں تھیں۔
حضرت ابوطلحہ انصاری سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جنگ بد رکے دن سرداران قریش میں سے چوبیس آدمیوں کی نسبت حکم دیا اور انہیں بدر کے کنووں میں سے ایک کنوئیں میں ڈال دیا گیا اور آپ جب کسی قوم پر غالب آتے تو میدان میں تین راتیں قیام فرماتے جب آپﷺ بدر میں ٹھہرے اور تیسرا دن ہوا تو آپ نے اپنی اونٹنی پر کجاوہ باندھنے کا حکم فرمایا چنانچہ اس پر کجاوہ باندھا گیا۔ پھر آپ چلے اور آپ کے صحابہ بھی آپ کے ساتھ چلے اورصحابہ کہنے لگے ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کسی غرض کیلئے ہی چلے ہیں۔ آپﷺ اس کنوئیں کی منڈیر پر پہنچ کر کھڑے ہو گئے جہاں ان کو کافروں کو پھینکا گیا تھا ۔ آپ ان کے اور ان کے باپوں کے نام لے کر پکارنے لگے کہ اَے فلاں، فلاں کے بیٹے اَے فلاں فلاں کے بیٹے ہم نے تو سچ سچ پا لیا جو ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا تھا آیا تم نے بھی واقعی وہ پا لیا ہے جو تمہارے ربّ نے تم سے وعدہ کیا تھا۔ حضرت ابوطلحہ انصاری اس حدیث کے روای کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ آپ ان لاشوں سے کیا باتیں کر رہے ہیں جن میں جان نہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے ان باتوں کو جو میں کہہ رہا ہوں۔
اس جنگ میں آنحضورﷺ کے معجزات کا ذکر بھی ملتاہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ عکاشہ بن محصن بدر کے دن اپنی تلوار کے ساتھ لڑائی کرتے رہے یہاں تک کہ وہ ان کے ہاتھ میں ٹوٹ گئی۔ وہ رسول کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ایک لکڑی ان کو عنایت کی اور فرمایا اے عکاشہ تم اس سے کافروں کے ساتھ جنگ کرو۔ عکاشہ نے اس کو ہاتھ میں لے کر لہرایا تو وہ لکڑی آپ کے ہاتھ میں تلوار بن گئی جو کافی لمبی تھی جس کا لوہا بہت سخت تھا اور اسکی رنگت سفید تھی۔ آپ اسکے ساتھ جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرما دی۔ راوی کہتا ہے اس تلوار کا نام عون تھا۔
بعد کی جنگوں میں بھی وہ اس تلوار کے ساتھ داد شجاعت دیتے رہے یہاں تک کہ مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ میں انہوں نے شہادت پائی۔
پھر لعاب دہن اور دست اقدس کی تاثیر کا ذکر بھی ملتا ہے ۔ حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ غزوہ بدر کے روز ان کی آنکھ پر ضرب لگی انکی آنکھ ان کے رخسار پر بہہ نکلی یعنی ڈیلا نکل کے باہر آ گیا۔ آنحضور ﷺ نے حضرت قتادہ کو اپنے پاس بلایا اور اپنی ہتھیلی پر انکی آنکھ رکھی پھر اسے اس کی جگہ پر رکھ دیا یعنی واپس آنکھ میں ڈیلا ڈال دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں یاد تک نہ رہا کہ ان کی کسی آنکھ کو تکلیف پہنچی تھی بلکہ یہ آنکھ دوسری آنکھ سے زیادہ خوبصورت لگتی تھی۔
مکہ میں کافروں کی شکست کی خبر کس طرح پہنچی اس کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ مشرکین نےتتر بتر ہو کر گھبراہٹ کے عالم میں مکہ کا رخ کیا۔ شرم و ندامت کے سبب ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح مکہ میں داخل ہوں۔ سب سے پہلے جو شخص مکہ میں قریش کی شکست کی خبر لے کر داخل ہوا وہ حیسمان بن ایاس بن عبداللہ تھا۔ یہ بعد میں مسلمان ہو گیا تھا۔ لوگوں نے اس سے پوچھا کہ پیچھے کیا خبر ہے؟ اس نے کہا عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابوالحکم بن ہشام یعنی ابوجہل اور امیہ بن خلف اور مزید کچھ سرداروں کے نام لئے کہ یہ قتل ہو گئے ہیں۔ لوگوں کو اسکی بات کا یقین نہیں آیا۔ صفوان بن امیہ جو حطیم میں بیٹھا تھااس نے یہ سن کر کہا کہ سمجھ نہیں آتا شاید یہ شخص دیوانہ ہو گیا ہے۔ بطور امتحان اس سے دریافت تو کرو کہ صفوان بن امیہ کہاں ہے۔ اپنے بارے میں اس نے پچھوایا۔ لوگوں نے پوچھا صفوان بن امیہ کا کیا ہوا۔ اس نے کہا وہ دیکھو وہ تو حطیم میں بیٹھا ہے۔ میں پاگل نہیں ہوا میں دیکھ رہا ہوں سب کچھ۔ بخدا اسکے باپ اور بھائی کو قتل ہوتے ہوئے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس پر انہیں یقین ہوا کہ یہ شخص سچی خبر دے رہا ہے۔
اہل مدینہ کو فتح کی خوشخبری کس طرح ملی۔اسکے بارے میں لکھا ہے کہ رسول اللہﷺ حضرت عبداللہ بن رواحہ کوبالائی مدینہ کی طرف اور حضرت زید بن حارثہ کو نشیبی مدینہ کی طرف بھیجا ۔ حضرت اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں میں اپنے والد حضرت زید بن حارثہ کی طرف اس وقت آیا جب لوگ آپ کو گھیرے ہوئے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام، زمعہ بن اسود ابوالبختری، عاص بن ہشام، امیہ بن خلف اور حجاج کے دونوں بیٹے نبیع اور منبع کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے جبکہ مدینہ میں یہ صورتحال تھی کہ منافقین اور یہود نے افواہوں کا بازار گرم کر رکھا تھا کہ مسلمانوںکو بری طرح شکست ہو چکی ہے اور یہ کہ نعوذ باللہ محمدﷺ بھی قتل ہو چکے ہیں۔ انہی افواہوں کے اندھیروں میں حضرت زید آنحضرتﷺ کی اونٹنی پر جو مدینہ میں داخل ہوئے تو یہود اور منافقین نے اور بڑھ بڑھ کر کہنا شروع کر دیا کہ دیکھا محمدﷺ قتل ہو چکے ہیں اور اونٹنی پر زید آ رہے ہیں۔ اور جب زیدنے یہ بتانا شروع کیا کہ عتبہ بھی مارا گیا شیبہ بھی مارا گیا ابوجہل بھی مارا گیا امیہ بھی مارا گیا تو اس پر منافقین نے کہنا شروع کر دیا کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ لگتا ہے کہ مسلمانوں کی شکست اور محمدﷺ کی وفات کی وجہ سے زید اپنے ہوش و حواس کھو چکے اس لئے یہ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ جو کفار کا ردّعمل مکہ میں تھا وہی ردّعمل منافقین اور یہود کا مدینہ میںبھی ہوا۔ حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ کیونکہ میں یہ ساری باتیں مدینہ میں سن رہا تھا اس لئے میں اپنے والد زید کو ایک طرف لے کر گیا اور پوچھا کہ ابا جو تم کہہ رہے ہو کیا واقعی سچ ہے ؟ کہنے لگا کہ بیٹا بخدا ایسا ہی ہوا ہے اور جو میں کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے۔ اہل مدینہ یہ اطلاع ملتے ہی فتحیاب قافلے کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے امڈ آئے ۔ مسلمان اس فتح پر شاداں و فرحاں تھے۔ انہیں آنحضرت ﷺ کی واپسی کا شدت سے انتظار تھا۔ اس غزوہ میں تمام مسلمان شامل نہ ہوئے تھے کیونکہ مدینہ سے روانہ ہوتے ہوئے جنگ کا خیال ہی نہ تھا۔ آپﷺ کی آمد کا سن کر کچھ مسلمان استقبال کیلئے مدینہ سے باہر چلے گئے۔ مقام روحہ پر ان کی آپﷺ سے ملاقات ہوئی۔ ان کی خوشی قابل دید تھی۔ یہ آپﷺ کو کفار پر فتح کی مبارکباد دینے لگے۔ پھر رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے وہاں موجود تمام مسلمانوں نے آپﷺ کا استقبال کیا۔
اس فتح سے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے ایک سو پچاس اونٹ اور دس گھوڑے ملے۔ اس کے علاوہ ہر قسم کا سامان ہتھیار کپڑے اور بیشمار کھالیں رنگا ہوا چمڑہ اور اون وغیرہ تھی جو مشرک اپنے ساتھ تجارت کیلئے لے کر آئے تھے۔ رسول کریمﷺ نے اپنا حصہ بھی صحابہ کے حصہ کے برابر رکھا تھا۔ اس جنگ میں ایک تلوار صحابہ نے آنحضور ﷺ کیلئے رکھ لی اور اونٹوں میں سے ایک اونٹ ابوجہل کی ملکیت میں سے آنحضورﷺ کو ملا تھا جس کی ناک میں چاندی کا حلقہ تھا۔ اس تلوار اور اونٹ کو بھی کتب سیرت میں خاص اہمیت دی گئی ہے جسکی تفصیل یہ ہے کہ جس تلوار کا اوپر ذکر ہوا ہے اسکا نام ذوالفقار تھا اور اسکا مالک ایک مشرک عاص بن منبع بن حجاج تھا جو بدر میں مارا گیا تھا۔ بعض روایات کے مطابق یہ تلوار ابوجہل کی تھی۔ رسول اللہﷺ نے اس تلوار کا نام ذوالفقار برقرار رکھا۔ ذوالفقار کی وجہ تسمیہ میں کہا گیا ہے کہ اس تلوار میں دندانے یا کھدی ہوئی لکیریں تھیں۔ اس تلوار کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ تلوار بعد میں نبی کریمﷺ سے جدا نہیں ہوئی۔ آنحضرت ﷺ نے غزوات میں اس تلوار کو اپنے پاس رکھا۔ نبی کریمﷺ کے بعد یہ تلوار عباسی خلفاء کے پاس رہی۔
اسی طرح ابوجہل کا جو اونٹ نبی کریمﷺ کو غزوہ بدر میں بطور مال غنیمت ملا تھا وہ نبی کریمﷺ کے پاس رہا یہاں تک کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہﷺ اسے قربانی کے طور پر لے کر گئے۔
مدینہ پہنچ کر آنحضرتﷺ نے قیدیوں کے متعلق مشورہ کیا کہ ان کے متعلق کیا کرنا چاہئے۔ حضرت ابوبکرنے عرض کیا کہ میری رائے میں تو ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ آخر یہ لوگ اپنے ہی بھائی بند ہیں اور کیا تعجب کہ کل کوانہی میں سے فدایانِ اسلام پیدا ہو جائیں۔آنحضرتﷺ نے حضرت ابوبکر کی رائے کوپسند فرمایا اورحکم دیا کہ جو مشرکین اپنا فدیہ وغیرہ ادا کردیں انہیں چھوڑ دیا جاوے۔ چنانچہ بعد میں اسی کے مطابق الٰہی حکم نازل ہوا۔
خطبہ جمعہ کے آخر پر حضور انور نے مکرم رانا عبدالحمید خان صاحب کاٹھگڑی مربی سلسلہ نائب ناظم مال وقف جدید پاکستان اور مکرمہ نصرت جہاں احمد صاحبہ اہلیہ مکرم مبشر احمد صاحب مربی سلسلہ امریکہ کا ذکر خیر فرمایا ور نماز جمعہ کے بعد ہر دو مرحومین کی نماز جنازہ غائب ادا کی۔

٭٭