اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




 خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

فرمودہ7؍جولائی 2023ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

آنحضرت ﷺنے فرمایا: جو شخص آج کے دن صبر کے ساتھ ثواب سمجھ کر جنگ کرے گا اور پیٹھ پھیر کر نہ بھاگے گا خدا اس کو جنت میں داخل کرے گا
جنگ بدر کے حوالہ سے سرکار دو عالم سیّدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا دلنشین وایمان افروز تذکرہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ7؍جولائی 2023ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ بدر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا:
عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عتبہ کے درمیان چلتا ہوا نکلا اور صفوں سے آگے نکل کر مبارزت طلب کی۔ انصار کے کچھ نوجوانوں نے اس کو جواب دیا۔ عتبہ نے کہا ہمارا ارادہ تو صرف اپنے چچا کے بیٹوں سے لڑنے کا ہے اور ساتھ ہی بلند آواز میں پکار کر کہا اَے محمد (ﷺ) ہمارے رشتہ داروں میں سے ہمارے برابر کے لوگوں کو ہمارے مقابلے پر بھیجو تو نبی ﷺنے فرمایا: اٹھو اَے حمزہ اٹھو اے علی اٹھو اَے عبیدہ بن حارث۔ حضرت حمزہ آپ کے چچا تھے اور علی اور عبیدہ دونوں حضور ﷺکے چچازاد تھے۔ حمزہ عتبہ کی طرف بڑھے اور حضرت علی شیبہ کی طرف ۔ دونوں نے اپنے حریف کو مار گرایا۔ عبیدہ اور ولید میں دو جھڑپوں کا تبادلہ ہوا اور دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو زخمی کر کے کمزور کر دیا۔ حضرت حمزہ اور حضرت علی اپنے ساتھی حضرت عبیدہ بن حارث کو اپنی فوج میں اٹھا لائے تو ان کا پاؤں کٹ چکا تھا۔ جب ان کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا میں شہید نہیں ہوں؟ آپ نے فرمایا بیشک تم شہید ہو۔ حضرت عبیدہ جو آنحضرت ﷺ کے چچازاد تھے ان زخموں سے جانبر نہ ہو سکے اور بدر سے واپسی پر راستے میں انتقال کیا۔
اس موقع پر ابوجہل نے ایک دعا کی تھی کہ اے خدا ہم میں سے جو شخص قریبی رشتہ داریوں کو توڑتا ہے اور ایسی باتیں بیان کرتا ہے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں سنی تو آج اسے ہلاک کر۔
جنگ کی حالت کا نقشہ ایک جگہ اس طرح کھینچا گیا ہے کہ میدان کارزار میں کشت و خون کا میدان گرم تھا۔ مسلمانوں کے سامنے ان سے تین گنا جماعت تھی جو ہر قسم کے سامان حرب سے آراستہ ہو کر اس عزم کے ساتھ میدان میں نکلی تھی کہ اسلام کا نام و نشان مٹا دیا جاوے اور مسلمان بیچارے تعداد میں تھوڑے، سامان میں تھوڑے، غربت اور بے وطنی کے صدمات کے مارے ہوئے ،ظاہری اسباب کے لحاظ سے اہل مکہ کے سامنے چند منٹوں کا شکار تھے مگر توحید اور رسالت کی محبت نے انہیں متوالا بنا رکھا تھا اور اس چیز نے جس سے زیادہ طاقتور دنیا میں کوئی چیز نہیں یعنی زندہ ایمان نے ان کے اندر ایک فوق العادت طاقت بھر دی تھی۔ وہ اس وقت میدان جنگ میں خدمت دین کا وہ نمونہ دکھا رہے تھے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہر ایک شخص دوسرے سے بڑھ کر قدم مارتا تھا اور خدا کی راہ میں جان دینے کیلئے بیقرار نظر آتا تھا۔ حمزہ اور علی اور زبیر نے دشمن کی صفوں کی صفیں کاٹ کر رکھ دیں۔
مسلمانوں کے پہلے شہید کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب کے آزاد کردہ غلام حضرت مھجہ کو ایک تیر کا ہدف بنایا گیا جس سے وہ شہید ہو گئے۔ یہ مسلمانوں کے پہلے شخص تھے جنہوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس کے بعد بنی عدی بن نجار کے قبیلہ کے ایک شخص حضرت حارثہ بن سراقہ نے شہادت حاصل کی۔ آپ حوض سے پانی پی رہے تھے کہ آپ کی طرف ایک تیر پھینکا گیا جو آپ کی گردن میں پیوست ہو گیا اس طرح آپ درجہ شہادت پر فائز ہو گئے۔
اس جنگ میں صحابہ کا جوش جہاد جو دیکھنے میں آیا اس کے بارے میں لکھا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص آج کے دن صبر کے ساتھ ثواب سمجھ کر جنگ کرے گا اور پیٹھ پھیر کر نہ بھاگے گا خدا اس کو جنت میں داخل کرے گا۔ یہ سن کر زبیر بن حمام نے جو بنی سلمی میں سے تھے کہاکہ واہ واہ میرے اور جنت کے درمیان میں صرف اتنا ہی وقفہ ہے کہ یہ لوگ مجھ کو قتل کر دیں اور پھر اپنی تلوار پکڑ کر اس قدر لڑے کہ شہید ہو گئے۔ عوف بن حارث نے جو عفراء کے بیٹے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی کس بات سے خوش ہوتا ہے۔ فرمایا دشمن کو زرہ وغیرہ لباس حرب سے خالی ہو کر قتل کر نے سے۔ اس پر انہوں نے اپنی زرہ اتار کر پھینک دی اور بہت سے کافروں کو قتل کرنے کے بعد خود بھی شہید ہو گئے۔
ابوجہل کو عفراءکے دو بیٹوں مُعاذ اور مُعَوِّذ نے قتل کیا۔ یہ دونوں شِکروں کی طرح اس پر جھپٹے اور اس کو مار ڈالا۔حضرت معاذ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوںکو باتیں کرتے سنا کہ ابوالحکم تک کسی کی رسائی نہ ہو سکے گی چنانچہ میں نے ارادہ کر لیا کہ ضرور اس پر حملہ کروں گا اور میں اس پر جھپٹ پڑا اور تلوار کی ایک ضرب سے اس کا پاؤں ساق تک کاٹ دیا۔ اس کے بیٹے عکرمہ نے میرے کندھے پر وار کیا اور میرا ہاتھ اڑا دیا۔ صرف جلد کے سہارے وہ میرے پہلو میں اٹکا رہا۔ تمام دن میں اسی طرح لڑتا رہا جب تکلیف زیادہ ہوئی تو میں نے اس پر پاؤں رکھ کر جسم سے علیحدہ کر دیا ۔
حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا ہر امت کا فرعون ہوتا ہے۔ اس امت کا فرعون ابوجہل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بری طرح قتل کیا۔ عفراء کے دونوں بیٹوں اور ملائکہ نے اسے قتل کیا اور عبداللہ بن مسعود نے اس کا کام تمام کیا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :ابو جہل کو فرعون کہا گیا ہے۔مگر میرے نزدیک وہ تو فرعون سے بڑھ کر ہے فرعون نے تو آخر کہا کہ اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِيْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓا اِسْرَاۗءِيْلَ کہ میں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں مگر وہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں۔ مگر یہ آخر تک ایمان نہ لایا مکہ میں سارا فساد اسی کا تھا اور بڑا متکبر اور خود پسند ،عظمت اور شرف کو چاہنے والا تھا ۔
مشرکین کی طرف کنکریاں پھینکنے کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ سائبان سے باہر آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چاروں طرف نظر دوڑائی توکشت وخون کا میدان گرم پایا۔ اس وقت آپ نے ریت اورکنکر کی ایک مٹھی اٹھائی اوراسے کفار کی طرف پھینکا اورجوش کے ساتھ فرمایا۔ شاھتِ الوجوہ دشمنوں کے منہ بگڑ گئے۔ اورساتھ ہی آپ نے مسلمانوں سے پکار کر فرمایا یکدم حملہ کرو۔ مسلمانوں کے کانوں میں اپنے محبوب آقا کی آواز پہنچی اورانہوں نے تکبیر کا نعرہ لگا کر یکدم حملہ کر دیا۔ دوسری طرف آپ کا مٹھی بھر کر ریت پھینکنا تھا کہ ایسی آندھی کا جھونکا آیا کہ کفار کی آنکھیں اورمنہ اورناک ریت اورکنکر سے بھرنے شروع ہو گئے۔ آپ نے فرمایا یہ خدائی فرشتوں کی فوج ہے جو ہماری نصرت کوآئی ہے اورروایت میں مذکور ہے کہ اس وقت بعض لوگوں کویہ فرشتے نظر بھی آئے۔ بہرحال عتبہ، شیبہ اورابوجہل جیسے رئوسائے قریش توخاک میں مل ہی چکے تھے۔ مسلمانوںکے اس فوری دھاوے اور آندھی کے اچانک جھونکے کے نتیجہ میں قریش کے پائوں اکھڑنے شروع ہو گئے اور جلد ہی کفار کے لشکر میں بھاگڑ پڑ گئی اور تھوڑی دیر میں میدان صاف تھا۔
جنگ بدر میں فرشتوں کے نزول کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُرْدِفِيْنَ۔ جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اس نے تمہاری التجا کو قبول کر لیا اس وعدے کے ساتھ کہ میں ضرور ایک ہزار قطار در قطار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔
غزوہ بدر میں نزول ملائکہ کی تصدیق آنحضرتﷺ نے بھی فرمائی ہے۔ نبی کریمﷺ نے بدر کے روز فرمایا یہ جبرئیل ہیں انہوں نے اپنے گھوڑے کی لگام کو پکڑا ہوا ہے اور جنگی آلات سے آراستہ ہیں۔ حضرت جبرئیل نبی کریم ﷺکے پاس آئے اور کہا آپ ﷺ مسلمانوں میں اہل بدر کو کیا مقام دیتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا بہترین مسلمان یا ایسا ہی کوئی کلمہ فرمایا۔ جبرئیل نے کہا اور اسی طرح وہ ملائکہ بھی افضل ہیں جو جنگ بدر میں شریک ہوئے۔ سہیل بن عمرو جو اس وقت کافر تھے وہ کہتے ہیں کہ میں نے بدر کے دن چتکبرے گھوڑوں پر سفید لوگوں کو دیکھا وہ آسمان اور زمین کے درمیان تھے اور قریشی افراد کو قتل کر رہے تھے اور قیدی بنا رہے تھے۔ غرض بدر میں فرشتوں کو صرف مسلمانوں نے ہی نہیں دیکھا بلکہ کفار نے بھی دیکھا ہے۔
مشرکین کی شکست کے بارے میں لکھا ہے کہ تھوڑی دیر بعد مشرکین کے لشکرمیں ناکامی اور اضطراب کے آثار نمودار ہو گئے۔ ان کی صفیں مسلمانوں کے تابڑ توڑ حملوں سے درہم برہم ہونے لگیں۔ معرکہ اپنے انجام کے قریب جا پہنچا پھر مشرکین کے جتھے بے ترتیبی کے ساتھ پیچھے ہٹے اور ان میں بھگدڑ مچ گئی۔ مسلمانوں نے مارتے کاٹتے اور پکڑتے باندھتے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ ان کو بھر پور شکست ہو گئی۔
پھر ایک جگہ لکھا ہے کہ یہ معرکہ مشرکین کی شکست فاش اور مسلمانوں کی فتح مبین پر ختم ہوا اور اس میں چودہ مسلمان شہید ہوئے۔ چھ مہاجرین میں سے اور آٹھ انصار میں سے لیکن مشرکین کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ ان کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر قید کئے گئے جو عموماً قائد اور سردار اور بڑے بڑے سربرآوردہ حضرات تھے۔
خطبہ کے آخر پر حضور انور نے فرمایا:کچھ دعاؤں کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں۔ فلسطین کے مسلمانوں کیلئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کیلئے آسانیاں پیدا فرمائے۔ مظلوموں کی دادرسی فرمائے۔ ان کو ایسی لیڈرشپ عطا فرمائے جو ان کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ان کو صحیح رہنمائی کرنے والے ہوں اور انہیں ظلموں سے نکالنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ اسی طرح سویڈن میں اور بعض دوسرے ملکوں میں آزادی رائے اور مذہبی آزادی کے نام پر غلط کام کرنے والوں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے اور اس بہانے سے جو مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں ، قرآن کریم کی بے حرمتی کرتے ہیں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہی ان کے پکڑ کا سامان فرمائے۔ اس میں بھی مسلمان حکومتوں کا قصور ہے جن میں پھوٹ کی وجہ سے اسلام مخالف طاقتیں اس قسم کی غلط حرکتیں کرتی ہیں۔ پس مسلمان رہنماؤں اور امہ کیلئے بہت دعائیں کریں اس کی بہت ضرورت ہے۔ پھر فرانس میں جو حالات ہیں یہاں بھی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ردّعمل جو ہے مسلمانوں کا وہ بھی غلط ہے ۔ توڑ پھوڑ سے تو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ مسلمانوں کو اپنے عمل اسلامی تعلیم کے مطابق کرنے ہوں گے۔ جب مسلمانوں کے قول و فعل اسلامی تعلیم کے مطابق ہوں گے تو تبھی کامیابیاں بھی ملیں گی۔
بہرحال ہم تو دعا کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر مسلمان دنیا کیلئے اور عمومی طور پر تمام دنیا کیلئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ظلم سے محفوظ رکھے اور دنیا میں امن و امان کی صورتحال بھی پیدا ہو جائے۔ سب ایک دوسرے کا حق ادا کرنے کی اہمیت کو سمجھنے والے ہوں ورنہ دنیا جس طرف جا رہی ہے بہت دفعہ میں کہہ چکا ہوں بہت بڑی تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔
اسی طرح پاکستان میں جو احمدی ہیں ان کیلئے بھی بہت دعا کریں اللہ تعالیٰ انہیں بھی ہر شر سے محفوظ رکھے۔

…٭…٭…٭…