خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ30؍جون 2023ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے
تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
سَوَادْ بِنْ غَزِیّہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کے عجیب اظہار کا واقعہ گذشتہ خطبہ میں بیان ہوا تھا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ نے سیرت خاتم النبیین میں اس واقعہ کے بارے میںلکھا ہے کہ رمضان 2ہجری کی سترہ تاریخ اور جمعہ کا دن تھا اورعیسوی حساب سے 14مارچ 623 عیسوی تھی۔ صبح اٹھ کر سب سے پہلے نماز ادا کی گئی اور پرستارانِ احدیت کھلے میدان میں خدائے واحد کے حضور سربسجود ہوئے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد پرایک خطبہ فرمایا اور پھر جب ذرا روشنی ہوئی تو آپ نے ایک تیر کے اشارہ سے مسلمانوں کی صفوں کودرست کرنا شروع کیا۔ ایک صحابی سواد نامی صف سے کچھ آگے نکلا کھڑا تھا آپ نے اسے تیر کے اشارہ سے پیچھے ہٹنے کو کہا مگر اتفاق سے آپ کے تیر کی لکڑی اس کے سینہ پر جا لگی۔ اس نے جرأت کے انداز سے عرض کیا۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کوخدا نے حق وانصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے مگر آپ نے مجھے ناحق تیر مارا ہے واللہ میں تو اس کا بدلہ لوں گا۔ صحابہ انگشت بدنداں تھے کہ سواد کوکیا ہوگیا ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ اچھا سواد تم بھی مجھے تیر مار لو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ سے کپڑا اٹھا دیا۔ سواد نے فرطِ محبت سے آگے بڑھ کر آپ کاسینہ چوم لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ سواد یہ تمہیں کیا سوجھی۔ اس نے رقت بھری آواز میں عرض کیا یارسول اللہ دشمن سامنے ہے کچھ خبر نہیں کہ یہاں سے بچ کر جانا ملتا ہے یا نہیں۔ میں نے چاہا کہ شہادت سے پہلے آپ کے جسم مبارک سے اپنا جسم چھوجائوں۔
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوں کو سیدھا کر لیا تو صحابہ سے فرمایا جب تک میں تمہیں حکم نہ دوں تم حملہ نہ کرنا اور اگر دشمن تم سے قریب آ جائے تو ان کو تیر اندازی کر کے پیچھے دھکیلنا کیونکہ فاصلے سے تیر اندازی اکثر اوقات بیکار ثابت ہوتی ہے اور تیر ضائع ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح تلواریں بھی اس وقت تک نہ سونتنا جب تک دشمن بالکل قریب نہ آ جائے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک خطبہ کا ذکر آتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے سامنے خطبہ دیا جس میں جہاد کی ترغیب دی اور صبر کی تلقین فرمائی۔ فرمایا مصیبت کے وقت صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ پریشانیاں دور فرماتا ہے اور غموں سے نجات عطا فرماتا ہے۔ سختی کے مقامات میں صبر ایسی چیز ہے جس سے اللہ غم کو دور کر دیتا ہے دکھ سے نجات دیتا ہے۔ آخرت میں اس کے ساتھ نجات پاؤ گے یعنی صبر دکھانے کے ذریعہ۔ اللہ کا دامن مضبوطی سے تھام لو کہ وہ تم سے راضی ہو جائے۔ اس جگہ تم اپنے رب کی آزمائش پر پورا اترو۔ تم اس کی رحمت اور مغفرت کے مستحق ہو جاؤ گے جس کا اس نے تم سے وعدہ کیا ہے۔ اس کا وعدہ حق ہے اس کی بات سچ ہے اس کی سزا شدید ہے۔ میں اور تم لوگ اللہ کے ساتھ ہیں جو حی و قیوم ہے۔ ہم اس سے اپنی فتح کیلئے دعا کرتے ہیں اس کا دامن تھامتے ہیں اسی پر توکل کرتے ہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور مسلمانوں کو بخش دے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا تھا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ بنو ہاشم اور کچھ دوسرے لوگ قریش کے ساتھ مجبوراً آئے ہیں خوشی سے نہیں آئے وہ ہم سے لڑنا نہیں چاہتے۔ پس تم میں سے جو کوئی بنو ہاشم کے کسی آدمی سے ملے تو اس کو قتل نہ کرے اور جو ابوالبختری سے ملے وہ اس کو قتل نہ کرے اور جو عباس بن عبدالمطلب سے ملے تو وہ ان کو بھی قتل نہ کرے۔ حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ نے کہا کہ ہم اپنے باپوں بیٹوں بھائیوں اور رشتہ داروں کو تو قتل کریں اور عباس کو چھوڑ دیں۔ اللہ کی قسم اگر میں عباس کو ملا تو میں ضرور اسے قتل کر دوں گا۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے حضرت عمر بن خطاب سے فرمایا کہ کیا رسول اللہ کے چچا پر تلوار ماری جائے گی؟ حضرت عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے اجازت دیں کہ میں تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں۔ حضرت ابوحذیفہ بعد میں کہا کرتے تھے کہ میں اس کلمہ کی وجہ سے چین میں نہیں رہا اور ہمیشہ اس سے ڈرتا رہا سوائے اس کے کہ شہادت میری اس بات کا کفارہ کر دے چنانچہ حضرت ابوحذیفہ جنگ یمامہ کے دن شہید ہو گئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ قرآن شریف میں بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کافروں پر فتح پانے کا وعدہ دیا گیا تھا مگر جب بدر کی لڑائی شروع ہوئی جو اسلام کی پہلی لڑائی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رونا اور دعا کرنا شروع کیا اور دعا کرتے کرتے یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے کہ اَللّٰھُمَّ اِنْ اَھْلَکْتَ ھٰذِہِ العِصَابَةَ وَلَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضَ اَبَدًا یعنی اے میرے خدا اگر آج تو نے اس جماعت کو جو صرف تین سو تیرہ آدمی تھے ہلاک کر دیا تو پھر قیامت تک کوئی تیری بندگی نہیں کرے گا۔ ان الفاظ کو جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے سنا تو عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس قدر بیقرار کیوں ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے تو آپ کو پختہ وعدہ دے رکھا ہے کہ میں فتح دوں گا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ سچ ہے مگر اس کی بے نیازی پر میری نظر ہے یعنی کسی وعدے کا پورا کرنا خدا تعالیٰ پر حق واجب نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے اس لئے ہمیں ہر دفعہ ہر وقت خوفزدہ رہنا چاہئے فکر مند رہنا چاہئے جب آپ سائبان میں دعا کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اونگھ طاری ہوئی پھر یکایک بیدار ہوئے اور فرمایا اے ابوبکر خوش ہو جاؤ تمہارے پروردگار کی مدد آگئی ہے۔ یہ دیکھو جبرائیل اپنے گھوڑے کی باگ تھامے اسے چلاتے آ رہے ہیں اس کے پاؤں پر غبار کے نشان ہیں۔
میدان بدر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر بن عوام کو میمنہ پر مقرر کیا مقداد بن عمرو کو میسرہ پر اور قیس بن ابی صعصاع کو ساقہ یعنی پیادہ فوج پر مقرر کیا۔ لشکر کی بالعموم قیادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگلی صفوں میں تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کو اپنی ہدایات کا پابند کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک پیش قدمی نہ کرے جب تک میں اس کے آگے نہ ہوں۔ اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے اسلحہ کے بامقصد استعمال کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا جب دشمن تمہارے پہنچ میں آ جائے تو تیر چلانا اور تیروں کو حتی الامکان بچا کر رکھا۔
حضور انور نے فرمایا سائبان میں دعا کرنے کا واقعہ جنگ شروع ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے کیونکہ یہ واقعہ لکھا اس طرح گیا ہےجس سے سمجھا جاتا ہے کہ شاید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنگ میں شامل نہیں ہوئے۔ آپ شامل تھے۔ دعا جنگ سے پہلے آپ نے کی جس کے نتیجہ میں فرشتوں کی مدد اللہ تعالیٰ نے بھیجی۔حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ ہم بدر کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ لیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کے قریب تر تھے۔ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب مجاہدین سے زیادہ سخت جنگ کرنے والے تھے۔
جب قریش میدان بدر میں اترے تو انہوں نے عمیر بن وھب کو بھیجا کہ جاؤ دیکھو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کتنے جنگجو ہیں؟ تو عمیر نے اپنے گھوڑے کو لشکر اسلام کے گرد دوڑایا اور پھر قریش مکہ کے پاس آ کر کہا کہ میرے نزدیک تو یہ لوگ تین سو کے اندازے میں کچھ کم یا زیادہ ہوں گے۔ مگر اے قریش میں نے دیکھا ہے کہ تم پر بلائیں موت کو لے کر نازل ہو رہی ہیں۔ میں نے ایسی اونٹنیاں دیکھی ہیں جو موتوں کو اٹھائے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کوئی قتل نہ کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ ہم میں سے ایک ایک آدمی کو قتل کر لے۔ اگر انہوں نے اپنی گنتی کے مطابق ہمارے آدمیوں کو قتل کر ڈالا تو اس کے بعد زندگی میں کیا لطف رہے گا۔ اب جو تم مناسب سمجھو کرو۔ حکیم بن حزام یہ باتیں سن کر عتبہ بن ربیعہ کے پاس آیا اور اسے کہا کہ تُو قریش میں برگزیدہ اور سردار ہے لہٰذا لوگوں کو واپس لے جاؤ اور عمرو بن حضرمی کا خون بہا ادا کر دو۔ عتبہ نے کہا مجھے منظور ہے۔ پس تم ابن حنظلہ یعنی ابوجہل کے پاس جاؤ۔ چنانچہ حکیم بن حزام اس مقصد کیلئے ابوجہل کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے عتبہ نے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ وہ دیت ادا کر دے گا تم قریش کو واپس لے چلو۔ ابوجہل کہنے لگا کہ عتبہ نے جب سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے وہ ڈر گیا ہے اور بزدلی کا مظاہرہ کرنے لگا ہے۔ ہرگز نہیں۔ بخدا ہم نہیں لوٹیں گے یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان فیصلہ کر دے۔ ابوجہل نے یہ بھی کہا کہ عتبہ اس لئے ہمیں جنگ سے روک رہا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ مسلمان ہمارے لئے اونٹ کے ایک نوالے کی طرح ہیں یعنی بہت ہی آسانی سے ہم انہیں قتل کر دیں گے اور ان مسلمانوں میں عتبہ کا بیٹا بھی ہے۔ عتبہ کے یہ بیٹے حضرت ابوحذیفہ تھے جو مسلمانوں کی طرف سے میدان بدر میں موجود تھے۔ جب عتبہ کو ابوجہل کی طرف سے بزدلی کے اس طعنے کی خبر پہنچی تو اس نے کہا اس بزدل یعنی ابوجہل کو جلد معلوم ہو جائے گا کہ کون بزدل ہے اور ڈرا ہوا ہے۔
جب فوجیں ایک دوسرے کے بالکل آمنے سامنے تھیں تو قدرت الٰہی کاایک عجیب تماشہ یہ ہوا کہ اس وقت لشکروں کے کھڑے ہونے کی ترتیب ایسی تھی کہ اسلامی لشکر قریش کو اصلی تعداد سے زیادہ بلکہ دوگنا نظرآتا تھا۔ جس کی وجہ سے کفار مرعوب ہوئے جاتے تھے اوردوسری طرف قریش کا لشکر مسلمانوں کو ان کی اصلی تعداد سے کم نظر آتا تھا۔ جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے دل بڑھے ہوئے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دور سے عتبہ کو دیکھا تو فرمایا۔ اگر لشکرکفارمیں سے کسی میں شرافت ہے تو اس سرخ اونٹ کے سوار میں ضرور ہے۔ اگر یہ لوگ اس کی بات مان لیں توان کیلئے اچھا ہو لیکن جب حکیم بن حزام ابوجہل کے پاس آیا اوراس سے لڑائی نہ کرنے اور واپس چلنے کی تجویزبیان کی تو وہ فرعونِ امت بھلا ایسی باتوں میں کب آنے والا تھا چھٹتے ہی بولا۔ اچھا اچھا اب عتبہ کواپنے سامنے اپنے رشتہ دار نظر آنے لگ گئے ہیں۔ اور پھر اس نے عمرو بن حضرمی کے بھائی عامر حضرمی کوبلاکر کہاتم نے سنا تمہارا حلیف عتبہ کیا کہتا ہے اوروہ بھی اس وقت جبکہ تمہارے بھائی کا بدلہ گویا ہاتھ میں آیا ہوا ہے۔ عامر کی آنکھوں میں خون اتر آیا اوراس نے عرب کے قدیم دستور کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑ کر اور ننگا ہوکر چلانا شروع کیا واعمراہ واعمراہ کہ ہائے افسوس میرا بھائی عمروبغیر انتقام کے رہا جاتا ہے۔ ہائے افسوس میرا بھائی بغیر انتقام کے رہا جاتا ہے۔ اس صحرائی آواز نے لشکر قریش کے سینوں میں عداوت کے شعلے بلند کردیئے اور جنگ کی بھٹی اپنے پورے زورسے دہکنے لگ گئی۔
اور پھر اس کے بعد جب جنگ شروع ہوئی ہے اس کی تفصیل حضور انور نے فرمایاآئندہ بیان ہو گی۔
…٭…٭…٭…