اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-04-13

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ7؍اپریل2023ءبمقام مسجدبیت الفتوح یو.کے

ہمارے نزدیک تو مؤمن وہی ہے جو قرآن شریف کی سچی پیروی کرے اور قرآن شریف کو ہی خاتم الکتب یقین کرے
فلسطین میں آجکل بڑا فساد برپاہے ،فلسطین کے مسلمانوں کے لئے بھی دعا کریں، اللہ تعالیٰ انہیں ظالموں کے ظلم سے بچائے
اور مسلم دنیا کے لیڈروں کو بھی عقل دے کہ وہ اپنے مفادات سے باہر نکل کر مسلمانوں کے عمومی مفادات کی حفاظت کرنے والے ہوں
خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ7؍اپریل2023ءبمقام مسجدبیت الفتوح یو.کے

 

تشہد،تعوذاورسورۃ الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
الله تعالیٰ نے آنحضرت صلی الله علیہ و سلم پر دین و شریعت کو کامل اور مکمل کیا تو قرآن کریم میں یہ اعلان فرمایا: اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاکہ آج کے دن مَیں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور مَیں نے اسلام کو تمہارے لیے دین کے طور پر پسند کر لیا۔پس یہ الله تعالیٰ کا مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہے کہ اُن کے لیے ایک کامل اور مکمل شریعت عطا فرمائی ۔
جب الله تعالیٰ اِس تعلیم کے متعلق اَکْمَلْتُ کا اعلان فرماتا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ انسان کی تمام تر صلاحیتیں خواہ اخلاقی، روحانی یا جسمانی ہوں اِن کا حصول قرآن کریم پر عمل کرنے سے ہی ہو سکتا ہے اور اَتْمَمْتُکہہ کر یہ اعلان پوری قوت سے فرما دیا کہ جو کچھ بھی انسان کی ضروریات تھیں اُن کو ہر لحاظ سے پورا کرنے والاصرف قرآن کریم ہے،کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کا قرآن کریم نے احاطہ نہ کیا ہو چاہے وہ انسان کی مادی ضروریات ہیں یا روحانی اور اخلاقی معیاروں کو حاصل کرنے کے ذرائع اور طریقے ہیں۔
اِس آیت کے ساتھ قرآن کریم نے یہ اعلان فرما دیا کہ اب انسان کی بقا اِس تعلیم کے ساتھ ہی وابستہ ہے اور یہ تعلیم کُل زمانہ اور تمام دنیا کے انسانوں کے لیے ہے۔اور قرآن کریم سے پہلے نازل ہونے والی ساری تعلیمات جو مختلف انبیاء پر اُتریں وہ وقتی اور اُس زمانہ کے لحاظ سے تھیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس کی وضاحت میں اعلان فرمایا کہ اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ کی بعثت کا مقصدبھی پورا ہو گیا اور آپؐہی وہ کامل اور آخری نبی ہیں جن پر اِس کمال درجہ کی شریعت نازل ہوئی۔
معترضین اعتراض کرتے ہیں کہ جب یہ عقیدہ ہے اور قرآن کریم کو آخری شریعت اور آنحضرتؐکو آخری نبی مانتے ہیں تو پھر مسیح موعودؑ کےدعاوی کی کیا حیثیت ہے اور آپؑکے اِس زمانہ میں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ تو اِس کا جواب آپؑنے ایک جگہ اِس طرح بھی بیان فرمایا ہے کہ اگر تم اسلامی تعلیم پر عمل کر رہے ہوتے تو پھربے شک میرے آنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن زمانہ کی عمومی حالت اور خاص طور پر مسلمانوں کی اپنی حالت اِس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ کسی معلّم کی ضرورت ہے۔
آپؑنے اپنے لٹریچر ، تحریرات اور کتب میں ہر جگہ یہ فرمایا ہے کہ مَیں آنحضرتؐکی غلامی میں آپؐکی شریعت اور دین اور قرآن کریم کی تعلیم کو دُنیا میں پھیلانے آیا ہوں ۔یہی کام ہے جسے آپؑنے سرانجام دیا اور اِسی کے جاری رکھنے کے لیے جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا اور یہی کام ہے جو جماعت احمدیہ آپؑکے لٹریچر اور آپؑکی بیان کردہ قرآنی تفسیر کے مطابق کر رہی ہے۔ پس اِس بات پر ہر احمدی کو غور کرنا چاہیے کہ اِس مقصد کو ہم کس حد تک پورا کر رہے ہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ دس شرائطِ بیعت میں بھی یہ بات شامل ہے کہ قرآن کریم کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کروں گا۔پس اگر ہم میں سے ہر ایک اس رمضان میں اس ہدایت پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلے تو نہ صرف ہم اپنی روحانیت میں ترقی کرنے والے ہوں گے بلکہ ہمارا معاشرہ بھی جنت نظیر معاشرہ بن جائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن شریف جیسے مراتب علمیہ میں اعلیٰ درجہ کمال تک پہنچاتا ہے ویسا ہی مراتب عملیہ کے کمالات بھی اسی کے ذریعہ سے ملتے ہیں اور آثار و انوار قبولیت حضرت احدیت اُنہیں لوگوں میں ظاہرہوتے رہے ہیں اور اب بھی ظاہر ہوتے ہیں جنہوں نے اِس پاک کلام کی متابعت اختیار کی ہے۔پس طالب حق کے لئے یہی دلیل جس کو وہ بچشم خود معائنہ کرسکتا ہے کافی ہے یعنی یہ کہ آسمانی برکتیں اور ربانی نشان صرف قرآن شریف کے کامل تابعین میں پائے جاتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : فرقان مجید نے اپنی فصاحت اور بلاغت کو صداقت اور حکمت اور ضرورت حقہ کے التزام سے ادا کیا ہے اور کمال ایجاز سے تمام دینی صداقتوں کا احاطہ کر کے دکھایا ہے۔ چنانچہ اس میں ہر یک مخالف اور منکر کے ساکت کرنے کے لئے براہین ساطعہ بھری پڑی ہیں اور مؤمنین کی تکمیل یقین کے لئے ہزارہا دقائق حقائق کا ایک دریا، عمیق اور شفاف اس میں بہتا ہوا نظر آتا ہے۔ جن امور میں فساد دیکھا ہے انہی کی اصلاح کے لئے زور مارا ہے جس شدت سے کسی افراط یا تفریط نے غلبہ پایا ہے اسی شدت سے اس کی مدافعت بھی کی ہے۔ مذاہب باطلہ کے ہر ایک وہم کو مٹایا۔کوئی صداقت نہیں ہے جس کو بیان نہیں کیا۔ کوئی فرقہ ضالہ نہیں ہے جس کا ردّ نہیں لکھا۔ اور پھر کمال یہ کہ کوئی کلمہ نہیں کہ بلا ضرورت لکھا ہواور کوئی بات نہیں کہ بے موقع بیان کی ہو اور کوئی لفظ نہیں کہ لغو طور پر تحریر پایا ہواور پھر باوصف انتظام ان امور کے فصاحت کا وہ مرتبہ دکھلایا جس سے زیادہ تر متصور نہیں ہو سکتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : جب ایک منصف قرآن شریف کو دیکھے تو فی الفور اسے معلوم ہوگا کہ اس قدر حجم میں قلیل المقدار ہے کہ انسان صرف تین چار پہر کے عرصہ میں ابتدا سے انتہا تک بفراغ خاطر اس کو پڑھ سکتا ہے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ یہ بلاغت قرآنی کس قدر بھارا معجزہ ہے کہ علم کے ایک بحرِ ذخار کو تین چار جز میں لپیٹ کر دکھلا دیا۔ اور حکمت کے ایک جہان کو صرف چند صفحات میں بھر دیا۔ کیا کبھی کسی نے دیکھا یا سنا کہ اس قدر قلیل الحجم کتاب تمام زمانہ کی صداقتوں پر مشتمل ہو ؟کیا عقل کسی عاقل کی انسان کے لئے یہ مرتبہ عالیہ تجویز کرسکتی ہے کہ وہ تھوڑے سے لفظوں میں ایک دریا حکمت کا بھردے جس سے علم دین کی کوئی صداقت باہر نہ ہو۔حضور انور نے فرمایاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہاں قرآن کا وید سے موازنہ کر رہے تھے اور ثابت فرمایا کہ وید میں تو ایسا بیان ہی نہیں جو قرآن کریم میں ہے۔ اور پھر لمبی عبارتیں ہیںوید کی جنہیں پڑھنا ہی مشکل ہے۔ آپ نے ہر مذہب کو چیلنج کیا تھا کہ آؤ میں یہ سب خوبیاں تمہیں قرآن کریم میں دکھاتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ جس نے اس طرح دنیا کو چیلنج کیا ہو۔ پھر بھی ہم پر الزام کہ نعوذ باللہ ہم قرآن کریم کی توہین کرنیوالے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
ہمارے نزدیک تو مؤمن وہی ہے جو قرآن شریف کی سچی پیروی کرے اور قرآن شریف کو ہی خاتم الکتب یقین کرے۔اور اسی شریعت کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں لائے تھے اسی کو ہمیشہ تک رہنے والی مانے اور اس میں ایک ذرہ بھر اور ایک شعشہ بھی نہ بدلے اور اس کی اتباع میں فنا ہو کر اپنا آپ کھو دے اور اپنے وجود کا ہر ذرّہ اسی راہ میں لگائے عملا اور علما اس کی شریعت کی مخالفت نہ کرے تب پکا مسلمان ہوتا ہے۔ حضور انور نے فرمایا: ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم اس میں پورا اترتے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ قرآن کریم کے آخری کتاب ہونے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : قرآن شریف ایسے زمانے میں آیا تھا کہ جس میں ہر ایک طرح کی ضرورتیں جن کا پیش آنا ممکن ہے، پیش آ گئی تھیں۔ یعنی تمام امور اخلاقی اور اعتقادی اور قولی اور فعلی بگڑ گئے تھے اور ہر ایک قسم کا افراط اور تفریط اور ہر ایک نوع کا فساد اپنے انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ اس لئے قرآن شریف کی تعلیم بھی انتہائی درجہ پر نازل ہوئی۔ پس انہی معنوں سے شریعت فرقانی مکمل ٹھہری اور پہلی شریعتیں ناقص رہیں کیونکہ پہلے زمانوں میں وہ مفاسد کہ جن کی اصلاح کے لئے الہامی کتابیں آئیں وہ انتہائی درجہ پر نہیں پہنچے تھے اور قرآن شریف کے وقت میں وہ سب اپنے انتہا کو پہنچ گئے تھے۔ فرمایا: پہلی کتابیں اگر ہر ایک طرح کے خلل سے محفوظ بھی رہتیں پھر بھی وہ بوجہ ناقص ہونے تعلیم کے، ضرور تھا کہ کسی وقت کامل تعلیم یعنی فرقان مجید ظہور پذیر ہوتا۔ مگر قرآن شریف کے لئے اب یہ ضرورت پیش نہیں کہ اس کے بعد کوئی اور کتاب بھی آوے کیونکہ کمال کے بعد اور کوئی درجہ باقی نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : آج روئے زمین پر سب الہامی کتابوں میں سے ایک فرقان مجید ہی ہے کہ جس کا کلامِ الٰہی ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہے۔ جس کے عقائد ایسے کامل اور مستحکم ہیں جو براہین قویہ ان کی صداقت پر شاہد ناطق ہے جس کے احکام حق محض پر قائم ہیں۔ جس کی تعلیمات ہریک طرح کی آمیزش شرک اور بدعت اور مخلوق پرستی سے بکلی پاک ہیں۔ جس میں توحید اور تعظیم الٰہی اور کمالات حضرت عزت کے ظاہر کرنے کے لئے انتہا کا جوش ہے۔ جس میں یہ خوبی ہے کہ سراسر وحدانیت جنابِ الٰہی سے بھرا ہوا ہے اور کسی طرح کا دھبہ نقصان اور عیب اور نالائق صفات کا ذاتِ پاک حضرت باری تعالیٰ پر نہیں لگاتا اور کسی اعتقاد کو زبردستی تسلیم کرانا نہیں چاہتابلکہ جو تعلیم دیتا ہے اس کی صداقت کی وجوہات پہلے دکھلا لیتا ہے اور ہرایک مطلب اور مدعا کو حجج اور براہین سے ثابت کرتا ہے۔
خطبہ کے آخر پر حضور انور نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم پر حقیقی طور پر عمل کرنے والا،اس کو سمجھنے والا اور اپنی زندگیاں اسکے مطابق گزارنے والا بنائے۔ رمضان کے بعد بھی اس نعمت سے فیض اٹھانے کی اسی طرح کوشش کرتے رہیں جس طرح رمضان میں کر رہے ہیں۔ رمضان میں جماعت کے مخالفین کے شر سے بچنے کے لئے بھی خاص طور پر دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ ہر شریر کے ہاتھ کو روکے اور ان کی پکڑ کے سامان فرمائے۔ دنیا کےفتنہ و فساد سے بچنے کے لئے بھی عمومی طور پر بہت دعا کریں۔ اسی طرح فلسطین میں بھی آجکل بڑا فساد برپا ہے فلسطین کے مسلمانوں کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ظالموں کے ظلم سے بچائے اور مسلم دنیا کے لیڈروں کو بھی عقل دے کہ وہ اپنے مفادات سے باہر نکل کر مسلمانوں کے عمومی مفادات کی حفاظت کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس رمضان میں ہمارے لئے رحمتوں اور برکتوں کے دروازے پہلے سے بڑھ کر کھولے۔
…٭…٭…٭…