اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-04-06

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ31؍مارچ2023ء

قرآن کریم تمام دنیا کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے،قرآن اُن تمام صداقتوں کو اپنے اندر رکھتا جو آسمان سےمختلف نبیوں کے ذریعہ زمین کے باشندوں کوپہنچائی گئی تھیں
قرآن شریف حکمت ہے اور مستقل شریعت ہے اور ساری تعلیموں کا مخزن ہے،قرآن شریف کا پہلا معجزہ اسکی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہےاور دوسرا معجزہ اسکی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں
منور احمد خورشید صاحب، اقبال احمدمنیر صاحب مبلغین سلسلہ آف پاکستان، سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ آف قادیان کی وفات پران کا ذکر خیر
خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ31؍مارچ2023ءبمقام مسجدمبارک، اسلام آباد (ٹلفورڈ)یو.کے

 

تشہد،تعوذاورسورۃالفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:آج کل ہم رمضان کے مہینے سے گزر رہے ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے جس میں ایک روحانی ماحول بن جاتا ہے۔ روزوں کے ساتھ عبادتوں کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے۔ قرآن کریم پڑھنے اور سننے کی طرف توجہ ہوتی ہے۔روزوں کا حقیقی فیض اُٹھانا ہے تو قرآن کریم پڑھنے کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے۔ رمضان کو قرآن کریم کے ساتھ خاص نسبت ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ یعنی رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا وہ قرآن جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت بنا کر بھیجا گیا ہے۔24رمضان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی ہوئی۔ ہر رمضان میں جبرئیل علیہ السلام آپؐکے ساتھ قرآن کریم کا دور مکمل کیا کرتے تھے اور آخری رمضان میں دو مرتبہ یہ دور مکمل ہوا۔ہمیں بھی اس مہینے میں خاص طور پر قرآن کریم پڑھنے،اس کی تفسیر پڑھنے اورسُننے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ قرآن کریم کی اہمیت اس کے محاسن اس کے روشن دلائل کے بارے میں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خوب کھول کر ہمیں بتایا ہےاور کچھ عرصہ سے آپؑکے اُن ارشادات کو مَیں اپنے خطبات میں بیان کر رہا ہوں۔ آج بھی قرآن کریم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ اقتباسات پیش کروں گا۔آپؑفرماتے ہیں  :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرشریعت اور نبوت کا خاتمہ ہوچکا ہے۔اب کوئی شریعت نہیں آسکتی۔ قرآن کریم خاتم الکتب ہے اس میں اب ایک شوشہ یا نکتہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض اور برکات اور قرآن شریف کی تعلیم اور ہدایات کے ثمرات کا خاتمہ نہیں ہوگیا۔وہ ہر زمانے کے لیے تازہ بتازہ موجود ہیں اور اُنہی فیوضات اور برکات کے ثبوت کے لیے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکرسب کو مخاطب کرکے فرمایا کہ قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعًا (الاعراف:۱۵۹)تُو کہہ دے کہ اے انسانو! یقیناًمیں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ اس لیے ضروری تھا کہ قرآن شریف اُن تعلیمات کا جامع ہوتا جو وقتاًفوقتاً جاری رہ چکی تھیں اور اُن تمام صداقتوں کو اپنے اندر رکھتا جو آسمان سےمختلف نبیوں کے ذریعہ زمین کے باشندوں کوپہنچائی گئی تھیں۔قرآن کریم کے مدنظر تمام نوع انسان تھا نہ کہ کوئی خاص قوم اور ملک اور زمانہ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ اعلان کہ میں سب دنیا کی طرف اللہ کا رسول ہوں یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ قرآن کریم تمام دنیا کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
قرآن شریف حکمت ہے اور مستقل شریعت ہے اور ساری تعلیموں کا مخزن ہے۔ اس طرح پرقرآن شریف کا پہلا معجزہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہےاور دوسرا معجزہ اس کی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی مکی زندگی ساری پیشگوئیوں سے بھری ہوئی ہے۔پھرتیرہ سو سال بعد قائم ہونے والے سلسلے کی اور اُسوقت کے آثار و علامات کی پیشگوئیاں کیسی عظیم الشان اور لانظیر ہیں یعنی مسیح موعودؑ کے زمانے کی پیشگوئیاںاور ابھی تک اس شان سے پوری ہورہی ہیں کہ دنیا کی کوئی کتاب ان پیشگوئیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں جابجا تاکید ہے کہ عقل فہم تدبر اور ایمان سے کام لیا جائے۔قرآن مجید اور دوسری کتابوں میں یہی مابہ الامتیاز ہےاورکسی کتاب نے اپنی تعلیم کو عقل اور تدبراور آزاد نکتہ چینی کے آگے ڈالنے کی جرأت ہی نہیں کی۔
قرآن شریف ایک محفوظ کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یقیناًیہ ایک عزت والا قرآن ہےاس کا وجود کاغذوں تک ہی محدودنہیں بلکہ وہ ایک چھپی ہوئی کتاب میں ہے جس کو صحیفۂ فطرت کہتے ہیں۔اس کی تعلیم کتھا کہانی نہیں جو مٹ جائے بلکہ جواسے سمجھے گا اور عمل کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرے گا۔اس کے اثرات اور اس کی گہرائی پاک لوگوں پر ہی کھلتی ہےاور اس کے لیے پاک لوگوں کی صحبت سے فیضیاب ہونے کی ضرورت ہے۔اس زمانے میں یہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ہی ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر جو بیان فرمایا اس کو ہمیں دیکھنا اورغور کرنا چاہیے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
قرآن کریم کا نام ذکر رکھا گیا ہے اس لیے کہ وہ انسان کی اندرونی شریعت یاد دلاتا ہےجو انسان کے اندر مختلف طاقتوں کی صورت میں رکھی ہے۔ حلم، ایثار، شجاعت، جبر،غضب اور قناعت وغیرہ۔ غرض جو فطرت باطن میں رکھی تھی قرآن نے اُسے یاد دلایا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن پر غور کرو، تدبر کرو، اس پر عمل تمہیں انسانی فطرت کے اعلیٰ معیار دکھائے گا۔پس اس نظر سے ہمیں قرآن کریم پڑھنا اورسمجھنا چاہیے۔آج کل آزادی کے نام پر بچوں اور بڑوں کے ذہنوں کو جو زہر آلود کیا جارہا ہےاس سے بھی ہم بچ سکیں گے۔اگر ہم جماعتی لٹریچر اور قرآن کریم کی تفاسیر پڑھیں گے تو والدین بچوں کے سوالات کا جواب بھی دے سکیں گے۔
اب زمانہ آگیا ہے جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ لوگ قرآن پڑھیں گےلیکن اُن کے حلق سے نیچےقرآن نہ اُترے گا۔ یہی ہم دیکھتے ہیں کہ بےشمار قاری ہیں بےشمار پڑھنے والے ہیں لیکن عمل کوئی نہیں۔کاش مسلمان عقل کریں اوراُس شخص کی طرف توجہ کریں جسے خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے اُس کی بات سُنیں، اپنے اندرونے دیکھیں، زمانے کی ضرورت دیکھیں، مسلمانوں کے عمومی حالات دیکھیں۔ صرف ظاہری فتووں سے زور دے کر اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں۔ قرآن کریم کی حقیقت کو سمجھیں۔بہرحال ہم احمدیوں کو اپنے ہر وقت جائزے لیتے رہنا چاہیے کہ ہم کس حد تک قرآن کریم کی تعلیم کی حقیقت کو سمجھتےاور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا کررہے ہیں۔
آج لوگوں کو اسلام کی بنیادی تعلیم اور تاریخ کا ہی نہیں پتا۔بس مولوی کے کہنے پر ناموس رسالت یا قرآن یا صحابہؓ کے نام پر جماعت احمدیہ کے خلاف نعرے لگانے اور نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔بنگلہ دیش سے کسی نےمجھے لکھا کہ جب جلوس آیا اورانہوں نے حملہ کیا تو ایک لڑکا پتھر ماررہا تھا۔ ہمارے ایک احمدی نے کہا کہ کیا یہ قرآن میں لکھا ہے ؟ کیا یہ اسلام کی تعلیم ہے؟ ہم تو کلمہ پڑھنے والے ہیں۔اُس نے فوراً پتھرنیچے پھینک دیا۔پس ایسے لوگ مولویوں کےجوش دلانے پر کام کرنے لگ جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان شریروں کے شر سے ہمیں محفوظ رکھے اور ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم اس رمضان میں بھی اور بعد میں بھی قرآن کریم کو سمجھنے، سیکھنے اور عمل کرنے والے ہوں۔
حضور انور نے رمضان میں خاص طور پر افراد جماعت کو دعاؤں کی طرف توجہ دلائی۔حضورِ انور نے فرمایا:رمضان میں دعاؤں کی طرف بھی خاص توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہر احمدی کو ہر شر سے بچائے اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں جو ناقابل اصلاح ہیں ان کو عبرت کا نشان بنائے تاکہ دوسرے لوگ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے بن سکیں۔دنیا کے لیے عمومی طور بھی دعا کریں، اللہ تعالیٰ جنگ کی آفات سے دنیا کو بچائے۔ (آمین)
خطبہ کے آخر پر حضور انور نے مولانا منور احمد خورشید صاحب مبلغ سلسلہ، اقبال احمدمنیر صاحب مبلغ سلسلہ آف پاکستان، سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ آف قادیان کی وفات پران کا ذکر خیر فرمایا اور نماز جمعہ کے بعد تمام مرحومین کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
مکرمہ سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے متعلق حضور انور نے فرمایا کہ یہ میاں عبدالعظیم صاحب درویش مرحوم قادیان کی اہلیہ تھیں۔ زمانہ درویشی میں صوبہ اڈیشہ سے شادی ہو کے آنے والی پہلی خاتون تھیں۔ مرحومہ نے اپنے خاوند کے ساتھ درویشی کا دور صبر اور شکر سے گزارا۔ صوم و صلوۃ کی نہایت پابند دعا گو نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ باقاعدہ تلاوت کرنے والی اور قرآن کریم دوسروں کو پڑھانے والی تھیں بہت سے بچوں اور عورتوں کو قرآن کریم پڑھنا سکھایا۔ درویشی کے دور میں جب آمدن کم تھی تو اپنے گزارے کے لئے مرغیاں پال لیتی تھیں بجائے اس کے کہ دوسروں پر نظر رکھیں۔ خدمت خلق کا جذبہ نمایاں تھا۔ قادیان میں عورتوں کی تجہیز و تکفین کے موقع پر یہ بڑی خدمت کیا کرتی تھیں۔ غسل وغیرہ دینے میں بھی مدد کرتیں۔ خلیفہ وقت سے خاص تعلق تھا۔ ہر تحریک میں حصہ لیتی تھیں۔ مرحومہ موصیہ بھی تھیں۔دوست محمدشاہد صاحب مرحوم مؤرخ احمدیت کی چچی تھیں ۔ ٭…٭…٭