رمضان کا مہینہ سایہ فگن ہوا ہے
بخشش کی رُت ہے آئی رحمت کا دَر کھلا ہے
اَے مومنو یہ روزہ اللہ کے واسطے ہے
روزے کی ہے یہ عظمت کہ اجر خود خدا ہے
رکھتے ہیں جو بھی روزہ ایمان اور یقیں سے
بخشش ہے اس کی لازم فرمانِ مصطفیٰ ہے
خوشیاں بھی دو میسر صائم کے واسطے ہے
اِفطار کی خوشی ہے دِلدار کی لقا ہے
روزے کا ہے یہ مقصد کہ متقی بنیں ہم
تقویٰ اگر ہو حاصل سمجھو کہ سب ملا ہے
رمضان جو بھی پائے روزے تمام رکھے
موسم بہار کا یہ قسمت سے مل رہا ہے
برسات نور کی یوں جی چاہے سال بھر ہو
اَے کاش ایسا ہوتا پر یہ تو خواب سا ہے
بھوکے جو سو رہے ہیں کچھ فکر ان کی کر لو
پیغام ہر کسی سے ماہ صیام کا ہے
دن کو صیام ہو تو راتوں کو قیام بھی ہو
مقصود اس سے یارو محبوب کی رضا ہے
روزہ ہے ذکر پیہم عصیاں سے دُور رکھے
ربّ کے حضور رکھے کتنی بڑی عطا ہے
روزہ سپر ہے ایسا شیطان سے بچائے
رَیّان سے ملائے وہ سیدھا راستہ ہے
باحالِ صوم آئے اَے کاش موت اپنی
عاجز نصرؔ کی اکثر ربّ سے یہی دعا ہے