لاہوری جماعت کی آج کوئی خبر نہیں ملتی، اب کوئی اس کا نام لیوا نہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ابتدائی ایام میں انہیں کوئی خاص شان و شوکت حاصل رہی ہے۔ شروع سے ہی یہ بے بسی اور لاچارگی اور اختلافات کا شکار رہے ہیں، کیونکہ انہوں نے خلافت جیسی قیمتی متاع سے اپنا دامن چھڑا لیا تھا جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے اقبال کا ستارہ ہر روز ایک نئی شان کے ساتھ طلوع ہوتا، اور آپؓکی قیادت میں جماعت ہر روز ترقی کی نئی شاہراہوں پر قدم رکھتی۔ لاہوری جماعت کی بیچارگی وبے بسی پر یہ دلچسپ نظم مندرجہ بالا عنوان سےالفضل میں شائع ہوئی تھی جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
آج سُن لیجئے کچھ مجھ سے بیانِ لاہور
محفلِ ناز میں تھے جمع بُتانِ لاہور
شکوۂ بُت شکنی کر رہے تھے آپس میں
تنگ، محمود کے حملوں سے ہے جانِ لاہور
شاہ صاحب نے تو سرپیٹ لیا اور کہا
اچھا ہونے کا نہیں یہ خفقانِ لاہور
شیخ جی بولے کہ قسمت ہی بُری تھی افسوس
سرد پڑنے لگی جلدی ہی دکانِ لاہور
صوفی صاحب نے کہا ، سیفیاں پڑھ پڑھ کے تھکے
گڑ گئی اپنے ہی سینے میں سنانِ لاہور
خان صاحب نے کہاں خوہ یہ قادیں والا
بڑھ گیا قُرق ہی کریگا مکانِ لاہور
مولوی نے کہا پڑھتے ہوئے انا للہ
بے نمک ہوگئی ہے آہ یہ نانِ لاہور
پیر فرتوت نے فرمایا کہ احبابِ کرام
کوئی لیتا نہیں میری یہ کمانِ لاہور
خواجۂ وقت پکارا کہ میں پہلے ہی سے
دوستو! چھوڑ چکا ہوں یہ جہانِ لاہور
ایک صاحب نے کہا ڈیم یہ شوری والا
یونہی دکھلاتا رہا سبز جنان لاہور
اک دریچے سے یہ حسرت بھری آواز آئی
ہائے کیوں مٹتی چلی جاتی ہے شانِ لاہور
ڈال کر ماتھے پہ بل کہنے لگا ان کا کبیرؔ
سخت ناکام رہا میرا زمانِ لاہور
شان مُرشد کی گھٹائی کہ بڑھے عالَم میں
شان میری کہ ہوں میں روح و روانِ لاہور
پیش کچھ بھی نہ کئی، ایسا نصیبہ اُلٹا
مجھ پہ غالب رہے وہ چند بلانِ لاہور
’’میرزا‘‘ کو جو نبی کہتے ہیں غالی بن کر
قادیان کو جو سمجھتے ہیں ’’امانِ لاہور‘‘
اِتنے میں آگیا محمود، زمن کا سرہنگ
دمبخود رہ گئے دشت سے بتانِ لاہور
جلسہ سالانہ تھا؟ یا جمع ہوئے تھے اکمل
قبر حرمان زدہ پر فاتحہ خوانِ لاہور
(مطبوعہ الفضل 15فروری 1923ء)