نوٹ:پنڈت میلا رام وفاؔ ایڈیٹر اخبار وِیر بھارت دہلی کی ایک نظم بدر 28؍جولائی 1953ء سے پیش ہے۔
یہ نظم شاعرنے خود قادیان میں تشریف لاکر اور احمدیہ جماعت کے حالات کو مشاہدہ کر کے لکھی تھی۔
نیک بندوں سے کبھی خالی نہیں ہوتا جہاں
ابتدائے آفرنیش سے ہے ایسا انتظام
آج بھی مرزا بشیر الدین احمد ، اَے ندیم
اس جہاں میں ایک ہیں نیکی مجسم لاکلام
موجزن سینے میں ہر دم اپنےبیگانے کادرد
اور خواہاں دیکھنے کے ہر کسی کو شاد کام
خلق کی خدمت میں حاجتمند کی امداد میں
امتیاز ہندو و مسلم سے بالا تر مدام
سینکڑوں بیوائیں تقسیم وطن کے بعد بھی
دل کی گہرائی سے ہیں ان کی دعاگو صبح وشام
بیسیوں محتاج ہندو درجنوں محتاج سکھ
سب وظیفے پارہے ہیں آج تک بالالتزام
قادیاں میں اور گردوپیش کے دیہات میں
ہے زباںزد ان کے خیراتی شفا خانے کا نام
مختصر یہ ہے کہ ہرانداز سے ہر رنگ میں
ہر طرف جاری ہے سال وماہ جوئے فیض عام
اور پیرو ان کے یعنی احمدیہ فرقہ کے لوگ
گامزن رہتے ہیں راہ حق پر روز وشب تمام
آدمیت کا نمونہ ان کا ہے ایک ایک فرد
سربسر انسانیت کے پیکر ان کے خاص وعام
حلم کی ، اخلاص کی، اخلاق کی زندہ مثال
خوش مزاج وخوش خصال وخوش خیال وخوش کلام
آشتی و امن ہے ان کا اصولِ اوّلین
اور سارے مذہبوں کے ہادیوں کا احترام
مسلک ان کا حافظ شیراز کا یہ قول ہے
’’بامسلماں اللہ اللہ، با بر ہمن رام رام ‘‘
سمجھو ہر شرنارتھی کو اپنا مہمان عزیز
ان کا ہے جزو عمل حضرت کا یہ زریں پیام
ان روایاتِ حسین کا جو علمبردار ہے
پہنچے اس فرقہ کے رہبر کو عقیدت کا سلام
…٭…٭…٭…