خدا ہمارا محبت کا جو سرچشمہ ہے
حسیں یہ کائنات اسکا ہی کرشمہ ہے
سجایا گلشنِ عالم کو چاند تاروں سے
بہارِ حسن گلستاں جہاں آرا ہے
وہ لم یلد ہے ولم یولد و صمد بھی ہے
احد ہے مالک و مختار یار یکتا ہے
وہ نور ارض و سماء ہر جگہ ہے جلوہ گر
ہر ایک دیدہ وروں کا وہی نظارہ ہے
اسی کے قبضۂ قدرت ہے عزت و دولت
وہ پست و بالا کویوں عرش و فرش کرتا ہے
وہ لاشریک ہے معبود انس و جن و مَلِک
مدار کُنْ فَیَکُون سب کا وہی مبداء ہے
تمام کائنات کُنْسے وہ چلاتا ہے
وہ ہر شریک و شراکت سے پاک و بالا ہے
وہ مستوی ہے علی العرش لیک دل کے قریب
وہ پاس ہوتے ہوئے بھی بلند و بالا ہے
عجائباتِ جہاں دیکھ کر ہے حیرانی
کمال کا وہ مصور ہمارا مولا ہے
جہانِ فانی حسیں اس قدر منظم ہے
تو غیر فانی جہاں کون جانے کیسا ہے
کبھی جو چشمِ تصور میں جا کے دیکھا ہے
عجیب حیرتِ کون و مکان دیکھا ہے
صداقتوں کا خدا وہ ہے مقسط و منصف
ممیت و محیٖی قدیر و عظیم داتا ہے
تمام حمد کے لائق وہی ہے بس اک ذات
حیّ و قیوم ہے اور وہ ظاہر و پنہا ہے
وہ کس طرح سے ہوائوں کو باندھ رکھا ہے
وہ بادلوں کو فضائوں میں سادھ رکھا ہے
اسی سے زندگی قائم ہے ہر جہاں کی نصرؔ
اسی سے سوز تمنا قرار پاتا ہے