اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-01-18

مرکز احمدیت قادیان دارالامان میں 128ویں جلسہ سالانہ کا کامیاب و بابرکت انعقاد

(قسط دوم)

پہلا دن دوسرا اجلاس

جلسہ سالانہ قادیان 2023ء کے پہلے روز کا دوسرا اجلاس ٹھیک سوادوبجےدوپہر شروع ہوا۔ یہ اجلاس مکرم رفیق احمد صاحب مالاباری وکیل اعلیٰ تحریک جدید قادیان کی زیر صدارت منعقد ہوا اور حسب دستور تلاوت قرآن مجید سے پروگرام کا آغاز ہوا ۔مکرم حافظ عمیر عباس نائک صاحب مربی سلسلہ دفتر شعبہ وقف نو بھارت نے سورۃ الانفال آیات 20تا 25 کی تلاوت کی سعادت پائی۔ بعدہ تفسیر صغیر سے ترجمہ مکرم ڈاکٹر جاوید احمد لون صاحب ناظر دیوان قادیان نے پیش کیا ۔مکرم سعید احمد صاحب ملکانہ مربی سلسلہ نظامت جائیداد قادیان نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کےمنظوم کلام ’’وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اسکا ہے محمد دلبر میرا یہی ہے‘‘ میں سے چند اشعار خوش الحانی سے پڑھ کر سنائے ۔
اس اجلاس کی پہلی تقریر بعنوان ’’سیرت صحابہ حضرت عثمانؓ اورحضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ‘‘ مکرم مولانا زین الدین حامد صاحب ناظم دارالقضاء قادیان نےکی ۔
فاضل مقرر نے اپنی تقریر میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب ؓ کی سیرت مختصر اور جامع رنگ میں وقت کی رعایت سے بیان کی۔ آپ نےفرمایا کہ حضرت عثمانؓ اول المبائعین میں سے تھے ۔حضرت عثمان ؓ بہت نیک ،باعزت اور شریف نوجوان تھے ۔انہیں آغاز اسلام میں ہی بیرون ملک میں تبلیغ کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔ہزاروں غلاموں کو آزاد کیا ۔غیر معمولی مالی خدمات کی سعادت بھی ملتی رہی ۔ اسلام کے سفیر کے طور پر حضرت عثمانؓ کا حدیبیہ میں خدمت سرانجام دینا آپ کی زندگی کا نہایت اہم واقعہ ہے۔ مسجد نبوی کی توسیع میں آپ کا اہم کردار رہا۔ حضورؓ کی ایک نمایاں خدمت قرآن کریم کی کتابت ہے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کےد ورخلافت میں حضور کا دست وبازو بن کر خدمات کی توفیق بھی ملی ۔آپ کےد ورِ خلافت میں کئی اہم کام ہوئے۔ملک پر ملک فتح ہوئے آپؓنے اسلام کی سربلندی ،اشاعت قرآن اور خلافت کے قیام کیلئے اپنا جان ،مال ،وقت اور عزت سب کچھ قربان کردیا۔بڑی وفا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کےکاموں میں لگے رہے اور فتنوں  کے وقت باوجود طاقت اور قدرت کے امن کا شہزادہ بن کر صبر کا ایسا نمونہ دکھایا کہ آنے والی نسلیں قیامت تک آپ کے پاک نمونہ سے سبق حاصل کرتی رہیں گی۔انشاء اللہ ۔
حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کا تذکرہ بھی بہت خوش اسلوبی سے کیا گیا چنانچہ فاضل مقرر نے اپنی تقریر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کےاِس بزرگ صحابی کی سیرت کے چنیدہ واقعات پیش کئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا موصوف کے ساتھ شفقت بےپایاں کا گوناگوں رنگ میں اظہار ہوتا رہا ہے۔ آپؓ حضورعلیہ السلام کےبڑے داماد بھی بنے ۔حضرت نواب صاحب ایک مردم شناس، قدردان معاملہ فہم اور وفادار بزرگ تھے۔ ان کی فطرت میں سخاوت کا طبعی جوش تھا۔ حضرت حکیم نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ سے بھی حددرجہ اخلاص رکھتے تھے اوران کی خدمت کی بھی توفیق ملتی رہی۔ آپ نےمتعدد مواقع پر مالی قربانی کی مختلف تحریکات میں حصہ لیا ۔تقریر کے آخر پر فرمایا کہ ان دونوں اصحاب کے واقعات سے ’’وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ‘‘کی اصل تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔ دونوں کی سیرت کے واقعات میں کسی قدر مماثلتیں پائی جاتی ہیں ۔
اس اجلاس کی دوسری تقریر بعنوان ’’خطبات وخطابات حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سےا ستفادہ کی اہمیت وبرکات ‘‘ مکرم مولانا منیر احمد صاحب خادم ایڈیشنل ناظراصلاح وارشادجنوبی ہندنے بیان فرمائی ۔
فاضل مقرر نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ ہم وہ خوش قسمت جماعت ہیں جنہیں وہ خلیفہ عطاہوا ہے جسے اللہ تعالیٰ بسطت فی العلم کے تحت علوم روحانیہ اور جسمانیہ میں وسعت فرماتا رہتا ہے ۔اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اس دور میں خلافت علی منھاج نبوت کے ذریعہ ظاہر ہونے والے ارشادات واحکامات کی کیا قدر وقیمت ہے اور خلافت اپنی عظمت اور رفعت میں نبوت کی برکات کو سمیٹے ہوئے ہے ۔
خلیفۂ وقت کے ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کی رو سے وہ آسمانی دودھ ہے جو سوا سوسال سے اپنوں اور بے گانوں پر برستا چلا جارہا ہے۔ اس مینہ نے ہر ایک کو فیضاب کیاہوا ہے۔ اس نے دنیا کے بادشاہوں کی بھی راہنمائی کی ہےاور دنیا کےہر علم کے ماہرین کی بھی بہترین رہنمائی کی ہے۔ پس خلیفہ وقت کے ارشادات کو سننا اورنہ صرف سننا بلکہ سننے کیلئے بے چین ہونا ہر مومن کی دائمی خوشحالی کی ضمانت ہے ۔یہ خطبات شعبہ ہائے زندگی کے مختلف مضامین پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ خطبات کے علاوہ یہ روحانی دودھ خلیفۃ المسیح کے خطابات کی شکل میں بھی اترتا ہے ۔ اس میں وہ خطابات بھی شامل ہیں جو غیروں کو کئےجاتے ہیں یہ خطابات بھی جہاں غیروں کیلئے مفید ہیں وہاں ہم احمدیوں کیلئے بھی ضروری ہیں۔
پھر حضرت خلیفۃ المسیح کی مجالس عرفان بھی اسی قدر اہمیت کی حامل ہیں کہ ان سے نہ صرف ہم انفرادی وجماعتی تربیتی ذمہ داریوں میں مدد لے سکتےہیں بلکہ دعوت الی اللہ کےحوالے سے بھی ان سے استفادہ کرکے ان پر عمل کرنا اور دنیا کوان تعلیمات سے آگاہ کرنا ضروری ہے ۔
پس اللہ تعالیٰ ہمیں حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے جملہ ارشادات کو بغورسننے اور ان پر عمل کرنے اور اولاددراولاد عمل پیرا ہوتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
اس اجلاس کی تیسری تقریر بعنوان ’’باشرح چندہ اور نظام وصیت کی اہمیت وبرکات‘‘ مکرم مولانا سید کلیم الدین احمد صاحب مربی وقاضی سلسلہ نے بیان فرمائی
فاضل مقرر نے اپنی تقریر کے پہلے حصہ میں  باشرح چندہ کی اہمیت وبرکات کے حوالے سے بعض امور پیش فرمائے چنانچہ فرمایا کہ مالی قربانی عبادت کا ایک حصہ ہے، اسکا تعلق حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں سے ہے۔ آنحضرت ﷺ کے صحابہ کی مالی قربانیوں کی طرح اس زمانہ میں بھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے صحابہ نے اسلام کی سربلندی کیلئے تن من دھن کی بازی لگادی اور ایسی مثالیں قائم کی ہیں جو بعد میں آنے والوں کیلئے مشعل راہ ہیں ۔ہم میں سے ہر شخص کو اس حوالے سے اپنا جائزہ لینا چاہئے۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں آپ کے خلفاء بھی مالی قربانی کے بارے میں ہمیں توجہ دلاتے رہتے ہیں ۔ پھر چندہ عام اور چندہ جلسہ سالانہ کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم شرح کے مطابق چندہ کی ادائیگی کررہے ہیں وغیرہ ۔ان لازمی چندوں کےبارہ میں دوباتوں کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ اپنے چندوں کا بجٹ آمد کےمطابق باشرح لکھوانا ہے اور دوسرے اسکی ادائیگی بھی باقاعدگی کے ساتھ کرتے رہنا ہے۔ آپ نےباشرح چندہ کے تعلق سے خلفائے کرام کے بعض اقتباسات پیش کئے نیز بتا یا کہ اگر کسی حقیقی مجبوری کی وجہ سے کوئی اپنے آپ کو باشرح چندہ اداکرنے کا متحمل نہیں پاتا تو کم شرح کی منظوری حاصل کرسکتا ہے لیکن اخفاءاور غلط بیانی کرکے گناہ گار نہیں بننا چاہئے ۔
آپ نےاپنی تقریر کےد وسرے حصہ میں نظام وصیت کی اہمیت وبرکات کا مختصر اور جامع تذکرہ فرمایا۔ نظام وصیت کے حوالے سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اقتباسات پیش کرکے فرمایا کہ نظام وصیت کے قیام کے جو عظیم الشان مقاصد ہیں انہیں سمجھے کی ضرورت ہے ۔اس بارہ میں حضور علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تعلمات پیش کرکے بتایا کہ ہمارے موجودہ امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نظام وصیت کی اہمیت وبرکات اور اس میں شمولیت کے حوالے سے باربار توجہ دلاتے چلے آرہےہیں ۔وہ احمدی احباب جو تاحال اس مقدس نظام میں شامل نہیں ہیں ان کیلئے  غوروفکر کا مقام ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتےہیں کہ
’’بعض لوگ کہہ دیتے ہیں ہمارے عمل ایسے ہیں کہ ہمیں وصیت کرتے ہوئے ڈرلگتا ہے ۔اگر ایسے عمل ہیں تب بھی وصیت کرنی چاہئے ۔ہوسکتا ہے کہ اس کی بدولت اللہ تعالیٰ ان میں نیکی کی روح پھونک دے ۔‘‘(خطاب سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ یوکے 4؍اکتوبر 2009ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضورا نور کی خواہش کے مطابق جلد از جلد اس نظام میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

مورخہ30؍دسمبر 2023ء بروز ہفتہ

دوسرا دن پہلا اجلاس

دوسرے دن کاپہلا اجلاس زیر صدارت محترم منیراحمدصاحب حافظ آبادی سیکرٹری مجلس کارپرداز بہشتی مقبرہ قادیان منعقد ہوا۔ تلاوت قرآن مجیدمکرم لقمان احمدتقی صاحب متعلم جامعہ احمدیہ قادیان نے کی جبکہ ترجمہ مکرم مولوی شیخ مجاہد احمد شاستری صاحب مینیجرہفت روزہ اخباربدر قادیان نے پیش کیا۔بعدہ مکرم دبیراحمد شمیم صاحب قادیان نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا منظوم کلام نہایت خوش الحانی سےپڑھ کر سنایا۔
اس اجلاس کی پہلی تقریر محترم حمید اللہ حسن صاحب امیرومبلغ انچارج ضلع حیدرآباد نے ’’شہدائے احمدیت کی عدیم المثال قربانیاں ،شعر:خوں شہیدانِ امت کا اے کم نظر،رائیگاں کب گیاتھاکہ اب جائےگا ‘‘ کے عنوان پر کی۔
آپ نے ابتداء میںسورۃ البقرۃ کی آیات 155 تا156کی تلاوت کرکےاسکا ترجمہ پیش کرنے کےبعد بتایاکہ حدیث میں ذکر ہے کہ شہید کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر پڑنے سے قبل ہی شہید کو بخش دیا جاتا ہے ۔ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ جب جب دنیا کی ہدایت کیلئے انبیاء دنیا میں آتے رہے تب تب زمانے کے فرعونوں اور نمرودوں نے ان پاک وجودوں اور ان کے متبعین سے نہ صرف استہزا کیابلکہ ان کی پاک جماعتوں کو مٹانے کیلئے ہر قسم کے ظلم کو روا رکھا اور ظلم اور بربریت کی ایسی داستانیں رقم کیں جس کے ذکر سے آج بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔آگ میں ڈال کر جلانے کی کوشش کی گئی۔سر پر آرا رکھ کر جسم کے دو ٹکڑے کئے گئے۔دونوں ٹانگیں اونٹوں سے باندھ کرمختلف سمت میں دوڑا کر جسم کو چیر دیا گیا ۔ کبھی حضرت سمیہ ؓ جیسی غریب خاتون کو شہید کیا گیا۔ تو کبھی حضرت حمزہ ؓ کا کلیجہ کچا چبایا گیا۔کبھی بئر معونہ تو کبھی کربلا کا میدان ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
’’ اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے۔ وہ کیا ہے ہمارا اسی راہ میں مرنا یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے۔‘‘ ( فتح اسلام،صفحہ 11)
آپ نے حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب، سید الشہداء حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب ، مکرم افضل کھوکھر صاحب ، مکرم اشرف کھوکھر صاحب ،مکرم مرزا غلام قادر صاحب ، شہدائے لاہور، شہدائے بورکینافاسو اور سید طالع احمد کی دردناک شہادت کا ذکر فرمایا۔
فاضل مقرر نےآخر پرحضرت مسیح موعو علیہ السلام کادرج ذیل اقتباس پیش کرکےاپنی تقریر ختم کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا ۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا ۔ خد افرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گااور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا انشاء اللہ ۔پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیوں کے ابتلاوں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے۔‘‘ ( الوصیت )
اسکے بعد اجلاس کی دوسری تقریر مکرم مظفراحمد ناصر صاحب ناظراصلاح وارشادمرکزیہ قادیان نے ’’جماعت احمدیہ کا روشن مستقبل :حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اورخلفاء کرام کےارشادات کی روشنی میں‘‘کی۔
آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہ سنّت چلی آ رہی ہے کہ جب کوئی مامور من اللہ دنیا میں مبعوث کیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کا دائمی وعدہ اس کے نبی اور رسول کے حق میں پورا ہوتے ہوئے دنیا مشاہد ہ کرتی ہے کہ ’’میں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔‘‘
جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اذنِ الٰہی سے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بنیاد رکھی اس زمانہ میں آپ بالکل اکیلے تھے ۔ کوئی دنیاوی مددگار اور ہمنوا نہ تھا۔ ہاں زمین و آسمان کا خالق ، قادر وتوا نا خدا ، جس نے آپ کوبھیجا تھا، وہ آپؑکے ساتھ تھا۔ پھر اسی علّام الغیوب خدا سے خبر پا کر آپؑنے اعلان فرمایا:
’’دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دُنیا میں بڑی قبولیت پھیلائے گا اور یہ سلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا اور دنیا میں اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہوگا ۔ یہ باتیں انسان کی باتیںنہیں یہ اُس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔‘‘(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن، جلد 17، صفحہ 182 )
کاروان احمدیت جس کا آغاز چالیس افراد سے ہوا ، آج اس کی تعداد کروڑ ہا کروڑ تک جا پہنچی ہے اور ہر سال لاکھوں کی تعداد میں بڑھ رہی ہے۔ دنیا کا کوئی معروف ملک نہیں جہاں یہ شجر احمدیت نہ لگ چکا ہو۔ حق تویہ ہے کہ ہر نیادن احمدیت کی ترقی کا پیغام لے کر طلوع ہوتا ہے اور عالم احمدیت پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا ۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے کس تحدّی اور جلال کے ساتھ فرمایا ہے۔
’’اے تمام لوگوسن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہے کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامرادر کھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا۔ یہاں تک کہ قیامت آجائے گی…ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہوکر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا…میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوںسو میرے ہاتھ سے وہ تخم بو یا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے ۔ ‘‘( تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن، جلد 20، صفحہ 66-67)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد اللہ تعالی کے فضل سے قرآنی بشارات اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق خلافت احمدیہ کے عظیم الشان دور کا آغاز ہوا جس کے مظہر خامس سیدنا و اما منا حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آج عالمگیر جماعت احمدیہ کی قیادت فرما ر ہے ہیں ۔
فاضل مقرر نےجماعت احمدیہ کے عظیم الشان روشن مستقبل کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ،حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ، حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے اقتباسات پیش کرنے کےبعد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا مندرجہ ذیل اقتباس پیش کیا۔ جس میں حضور فرماتے ہیں:’’ جماعت احمدیہ کو چونکہ اب دنیا میں عظیم غلبے عطا ہونے والے ہیں اور جماعت احمدیہ کے حق میں گزشتہ انبیاء کے وعدے پورے ہونے کے دن قریب آرہے ہیں…اس پہلو سے لازم ہے کہ ہم اپنی اصلاح کی طرف پہلے سے بڑھ کر متوجہ ہوں۔“(خطبہ جمعہ 27 ؍جولائی 1990 )
کُفر کی کالی گھٹا ، کافور ہوگی ایک دن
اَحمدیت ہی رہے گی، ربّ کعبہ کی قسم!

تاثرات وتعارفی تقاریر


سب سے پہلے محترم حفیظ بن صالح صاحب ریجنل منسٹر W.A.آف غانانے انگریزی زبان میں اپنے تاثرات بیان کئے۔موصوف نے اپناتعارف کروانے کے بعدجلسہ سالانہ کی مبارک دیتےہوئے اپنے ملک میں احمدیت کی ترقی کیلئے دعاکی درخواست کی۔ جس کا اردو ترجمہ مکرم عطاءالمجیب لون صاحب صدرمجلس انصاراللہ بھارت نے پیش کیا۔
دوسرےنمبرپرمکرم سُنارٹوصاحب نیشنل سیکرٹری امورخارجہ انڈونیشیا نےاپناتعارف پیش کرنے کے بعد اپنے تاثرات بیان کرتےہوئے انڈونیشامیں ہونے والی مخالفت کاذکرکیا اور اپنے ملک میں جماعت احمدیہ کی ترقیات کے حوالہ سے دعاکی درخواست کی۔ جس کا اردو ترجمہ محترم محموداحمدوردی صاحب انچارج انڈونیشین ڈیسک نے پیش کیا۔
تیسرےنمبرپرمکرم مولاناصالح احمدصاحب مربی سلسلہ بنگلہ دیش نے اپناتعارف کروانے کے بعد بنگلہ دیش میں جماعتِ احمدیہ کے موجودہ حالات کاذکرکرکے اپنے ملک میں احمدیت کی ترقی کیلئے دعاکی درخواست کی۔
اس اجلاس کی تیسری تقریر مکرم کےطارق احمد صاحب ایڈیشنل ناظراصلاح وارشاد نورالاسلام قادیان نے ’’عالمی تباہی کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کاانتباہ اور درد مندانہ نصائح اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان پرکی۔
آپ نے بتایاکہ آج دنیا میں ایک بے یقینی اور خوف کی فضا ہےاور جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ عالم انسانیت کو اس وقت دیگر دنیاوی ضروریات کے ساتھ ساتھ امن و آشتی اور سکون کی جس قدر ضرورت ہے وہ شاید اس سے قبل کبھی نہیں رہی۔ دو عالمی جنگیں اور کروڑوں لوگوں کا خون بھی عالمی طاقتوں کو امن کی اہمیت باور نہیں کرا سکا اور تیسری عالمی جنگ کے خطرات پیدا ہو چکے ہیں۔ اس تناظر میں دنیا میں انسانیت کا ہمدرد اور اسکی بے لوث خدمت اور دعائیں کرنیوالا ایک مقدس وجود خلیفہ وقت کا وجود باجود ہے۔
اٹھو کے ساعت آئی اور وقت جارہا ہے
پسر مسیح دیکھو کب سے جگا رہا ہے
عالمی بحران کی ان اذیت ناک ساعتوں میں اللہ تعالیٰ کا رحم وکرم ہم پر خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کے روپ میں سایہ فگن ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ اپنی پوری آب وتاب سے پورا ہوتاہواہم احمدی ہر آن ہر جہت مشاہدہ کر رہے ہیںکہ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُم دِینَہُمُ الَّذِی ارتَضٰی لَہُم وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّنۡۢ بَعدِ خَوفِہِم اَمنًا یعنی اللہ تعالیٰ مومنین کیلئےاُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کیلئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔
آج دنیا میں امن عامہ کی جس قدر کوششیں خلافت احمدیہ نے کی ہیں اس کی کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا وجود ہی ہے جو نہ صرف دنیا کو تیسری عالمی جنگ سے مدت سے مسلسل خبردار کررہا ہے بلکہ دنیا کو اس ہولناک تباہی سے بچانے کیلئے درمندانہ نصائح بھی کر رہا ہے۔ امن، صلح جوئی اور آشتی کی کوششیں کرنے والا ایک ہی عالمی رہنما ہے اور ہماری خوش قسمتی ہےکہ ہم اسکے ماننے والے ہیں۔ مگر وہ جو اُسے نہیں مانتے، وہ اُن کیلئے بھی ایسے ہی درد رکھتا اور دعائیں کرتا ہے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’جنگ کے حالات جس تیزی سے شدت اختیار کر رہے ہیں اور اسرائیلی حکومت اور بڑی طاقتیں جس پالیسی پر عمل پیرا ہیں اس سے عالمی جنگ اب سامنے نظر آرہی ہے۔ بعض اسلامی ممالک کے سربراہان، روس، چین اور بعض مغربی تجزیہ نگاروں نے بھی اب تو یہ کھل کر کہنا اور لکھنا شروع کردیا ہے کہ اس جنگ کا دائرہ اب وسیع ہوتا نظر آرہا ہے اور اگر فوری طور پر جنگ بندی کی پالیسی نہ اپنائی گئی تو دنیا کی تباہی ہے۔ سب کچھ خبروں میں آرہا ہے، آپ سب کے سامنے ساری صورتِ حال ہے اس لیے احمدیوں کو دعاؤں پر زور دینا چاہئے۔ ہر نماز میں ایک سجدہ یا کم از کم کسی ایک نماز میں ایک سجدہ تو ضرور اس کیلئے ادا کرنا چاہئے، اس میں دعا کرنی چاہئے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ10 ؍نومبر2023)
اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جانے کا ذریعہ بنائے۔ اللہ تعالیٰ احسن رنگ میں ہمیں فرض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

دوسرا دن دوسرا اجلاس

دوسرے دن کے دوسرے اجلاس کی صدارت محترم سید تنویر احمد صاحب صدر مجلس وقف جدید قادیان نے کی۔ مکرم طارق احمد لون صاحب آف کشمیر نے سورۃ الحجرات آیت 12تا14کی تلاوت کی۔جس کاترجمہ مکرم نور الدین ناصر صاحب صدر عمومی لوکل انجمن احمدیہ قادیان نے سنایا۔مکرم مرشد احمدڈار صاحب اور ان کے ساتھیوں نے ترانہ پیش کیا۔
محترم تنویر احمد صاحب خادم نائب ناظر دعوت الی اللہ شمالی ہند نے ’’ ہمدردی خلق‘‘کے عنوان سے پنجابی زبان میں تقریرکی۔
آپ نے قرآن وحدیث ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے حوالہ سے ہمدردی خلق پر تقریر فرمائی اور بتایا کہ اسلام میں ہمدردی خلق کی بہت تاکید کی گئی ہے اور اسلامی تعلیم کا ایک بڑا حصہ بنی نوع انسان کی ہمدردی اور اس سے شفقت پر مشتمل ہے۔
دوسرے دن کا دوسرا اجلاس جلسہ پیشوایان مذاہب کے طور پر منایا جاتا ہے جس کیلئے مختلف مذاہب کے رہنماؤں اور سادھو سنتوں، گوروؤں اور پنڈتوں اور چرچ کے فادروں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ سیاسی رہنما بھی تشریف لاتے ہیں جوجلسہ اور جماعت احمدیہ کی تعلیمات کے تئیں اپنے نیک خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔مکرم تبویر احمد خادم صاحب نائب ناظر دعوت الی اللہ نے باری باری مہمانان کرام کا تعارف کروایا اور ان سے اپنے خیالات کے اظہار کیلئے گزارش کی۔ ذیل میں معزز مہمانوں کے تاثرات پیش ہیں۔
اویناش کھنہ صاحب(سابق ایم .پی اورسینئر بی جے پی لیڈر )
آپ نے سب سے پہلے تمام معزز افراد و حاضرین جلسہ کا شکریہ ادا کیا سب کو سلام کا تحفہ پیش کیا۔ نیز فرمایا آج مجھے یہاں آکر بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے اور میں آپ سب حاضرین کو اس عظیم جلسہ کی بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ یہاں تمام مذاہب کے معزز افراد شامل ہیں ۔ اور آپ کی کوشش محبت کو پھیلانے کی قابل تعریف ہے۔ آپ کے اس جلسہ میں آکر دل کو سکون ملتا ہے۔ آپ کے اس بھائی چارے کو اللہ مزید ترقی عطا فرمائے۔ دنیا آج تباہی و بربادی کی طرف بڑی تیزی سے جا رہی ہے۔ ہر طرف مذہب کے نام پر نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔ اسی وجہ سے آج محبت کی بہت ضرورت ہے۔ تمام مذاہب بھی امن ،شانتی ،پیار، محبت ،بھائی چارےکی تعلیم دیتے ہیں ۔ ہم سب کو بھی مل کر اس محبت کے پیغام کو آگے بڑھانا چاہئے۔ انہوںنے کہا کہ مجھے حضور انور سے لندن میں ملاقات کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔ قادیان آکر ان کی ملاقات کی یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔ موصوف نے پانی کی قدر کرنے اور اس کوضائع ہونے سے بچانے کی بھی اپیل کی اور آخر پر سب کو جلسہ کی مبارکبادپیش کی۔
کلدیپ سنگھ دھالیوال صاحب( این آر آئی منسٹر حکومت پنجاب)
آپ نے سب سے پہلے تمام معزز افراد و حاضرین جلسہ کا شکریہ ادا کیا سب کو سلام کا تحفہ پیش کیا اورفرمایااس جلسہ میں جو انسانیت کی بات کہی گئی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اس دور میں ہمارے چاروں طرف نفرت کی بات ہی پھیلائی جا رہی ہے لیکن آپ لوگ اس روحانی جلسہ سے پوری دنیامیں پیار محبت اور امن کی بات پھیلا رہے ہو۔ آپ کا نعرہ محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں بہت عظیم نعرہ ہے۔ آج دنیا کو اسکی بہت ضرورت ہے۔ آپ کے درمیان آکر مجھے بہت خوشی ہوئی ۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اگر ہم سب انسانیت کی فلاح و بہبودی چاہتے ہیں ترقی چاہتے ہیں تو اس پیغام کو دنیا بھر میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔
جگروپ سنگھ سیکھواں صاحب( حلقہ انچارج عام آدمی پارٹی ضلع گورداسپور )
آپ نے سب سے پہلے تمام معزز افراد و حاضرین جلسہ کا شکریہ ادا کیا سب کو سلام کا تحفہ پیش کیا۔ نیز فرمایایہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں کئی سالوں سے آپ کے اس عظیم الشان جلسہ میں شامل ہونے کی سعادت پا رہا ہوں۔ مجھے اس جلسہ میں دعوت دینے کیلئے میں انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کی جماعت کے ساتھ ہمارا بہت اچھا تعلق ہے۔ قادیان کی سر زمین بہت پاک زمین ہے۔ یہاں سے جماعت پوری دنیا میں پھیلی ہے۔ جماعتی تعلیم بہت عمدہ ہے۔ آج دنیا کو ’’ محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں‘‘ کے ماٹو کی ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا میں جنگوں کا دور چل رہا ہے۔ ہر طرف لڑائی جاری ہے۔ اس وقت پوری دنیا کو امن کی ضرورت ہے۔ آج حضور انور بھی پوری دنیا میں پیار وامن کا ہی پیغام دے رہے ہیں۔ جسکی دنیا کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ حضور کی دنیا میں امن کی تمام کوششیں قابل تعریف ہیں۔
مکرم سومنت رائے صاحب( فادر بشپ نارتھ انڈیا امرتسر )
آج بہت خوشی کا دن ہے جو ہر سال کی طرح  امسال بھی جماعت اپنا عظیم الشان جلسہ سالانا منعقد کر رہی ہے۔ میں آپ سب افراد کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ یہاں جو بھی افراد دور دراز سے شامل ہوئے ہیں ان سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ موصوف نے بائیبل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خدا بہت خوبصورت وجود ہے۔ اگر ہم خدا سے محبت کریں گے اور اس سے جڑیں گے تو خدا بھی ہم سے محبت کرے گا ہماری مدد کرے گا۔ خدا سے جُڑ کر ہی ہم اس دنیا کو خوبصورت بنا سکتے ہیں اور اس دنیا میں پیار و محبت، امن کی فضا قائم کر سکتے ہیں۔فتح جنگ سنگھ باجوہ( MLAحلقہ قادیان )
آپ نے فرمایا کہ قادیان شہر ایک پاک جگہ ہے ۔جو پیغام اس شہر سے دیا گیا وہ آج 212 ممالک میں پھیل چکا ہے۔ پوری دنیا میں جہاں بھی افراد جماعت ہیں سب بہت محبت اور پیار سے ملتے ہیں۔ ہمارے خاندان میں سے جب بھی کوئی کسی باہر کے ملک جاتا ہے آپ کے لوگ بہت عزت دیتے ہیں ۔ یہ اسی پاک زمین کی محبت کی تعلیم کا نتیجہ ہے۔ آپ لوگ خوش قسمت ہو جو اس جماعت کے ممبر ہوجو دنیا بھر میں پیار ، محبت ، اخوت ، آپسی بھائی چارے کا پیغام دے رہی ہے۔ ہمارے بزرگوں کا بھی جماعت کے ساتھ بہت پیار و محبت والا رشتہ رہا ہے۔
رمن بحل صاحب فرزند خوشحال بحل صاحب( چیئر مین پنجاب ہیلتھ سسٹم کارپوریشن )
انہوںنے فرمایا:مَیں جماعت احمدیہ کو مشکور ہوں کہ والد صاحب کی وفات کے بعد بھی جماعت کی طرف سے مجھے بہت عزت و احترام دیا گیا ۔ جماعت احمدیہ کے میرے پر بہت سے احسان ہیں۔ میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔یہ جماعت پھولوں کے خوبصورت گلدستہ کی مانند ہے۔ جو تمام دنیا میں نمایا ں ہے۔ قادیان پوری دنیا کے امن کا مرکز ہے۔ جماعت کی امن ، پیار محبت کی تعلیم قابل تعریف ہے۔آج دنیا کو اسکی بہت ضرورت ہے۔ میں جماعت کے بانی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی تعلیمات کی وجہ سے ہی آپ کی جماعت پوری دنیا میں امن کی تعلیم پھیلا رہی ہے۔ جماعت کا نعرہ محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں بہت عظیم نعرہ ہے۔ ہمیں اسکو اپنی زندگیوں میں اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس جلسہ کی تعلیمات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔
سنت باباسکھدیو سنگھ جی بیدی(گورو نانگ دیو جی کی 16 ویں پیڑھی )
آپ نے فرمایا قادیان جو حضرت اقدس مسیح  موعود علیہ السلام کی پاک زمین ہے اس سر زمین پر آپ سب بھائیوں کو میرا سلام ۔ آج یہاں آپ سب کو ایک ساتھ جمع دیکھ کر مجھے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ میں آپ سب کو اس عظیم الشان جلسہ کی مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے آ پ کے رو برو ہونے کا موقع ملا۔ مذہب سب کو جوڑتا ہے توڑتا نہیں ہے۔ انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے۔ آج اسکی بہت ضرورت ہے۔ ہمیں ایک دوسروں کی کمزوریوں ، خامیوں ، برائیوں کو اُجاگر کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ دوسروں کی اچھائیوں نیکیوں کو پھیلانے اوراپنانے کی ضرورت ہے۔ سب کی عزت و احترام کرنے کی ضرورت ہے تا کہ پوری دنیا میں امن قائم ہو سکے۔ سارے مذاہب کے پیر پیغمبروں نے یہی تعلیم دی ہے۔ مجھے حضور انور سےلندن میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ انشاء اللہ آگے بھی ملاقات کرتا رہوں گا۔
مکرم امن شیر سنگھ صاحب شیری کلسی(ایم ایل اے عام آدمی پارٹی لقہ بٹالہ)
آپ نے فرمایاکہ آپ کے اس جلسہ کے سٹیج سے تمام مذاہب کے راہنمائوں کو بولنے کا پیارمحبت اور امن کی بات کرنے کا موقعہ دیا گیا ہے۔ جن کا تعلق الگ الگ مذاہب ، پارٹیوں سے ہے ۔یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ جماعت ایک گلدستہ ہے۔سب امن پیار بھائی چارے کی بات کر رہے ہیں جس کی آج دنیا کو بہت ضرورت ہے۔ جو پیار ہمدردی ، بھائی چارے امن کا پیغام یہاں سے دیا جا رہا ہے یہی حقیقی پیغام ہے۔ اس پاک زمین پر ہر رنگ و نسل ، مذاہب ، کلچر کے لوگ جمع ہیں یہی حقیقی خوبصورتی ہے۔
مکرم ڈاکٹر راج کمار صاحب ایم ایل اے حلقہ چھبے وال وال ہوشیار پور ( ڈپٹی لیڈر آف آپوزیشن پنجاب اسمبلی)
آپ نے فرمایاقادیان کی اس مقدس سر زمین پر اس جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کا اعزاز ملا ۔آپ سب حاضرین جو دور دراز سے سفر کر کے اس الٰہی جلسہ میں شامل ہونے کی غرض سے یہاں قادیان آئے ہوآپ سب کو میں خوش آمدید کہتا ہوں۔یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے یہاں آنے اور آپ سب سے مخاطب ہونے کا موقع ملا۔ دنیا میں بہت کم جلسے ایسے ہوتے ہیں جہاں سے انسانیت کا نعرہ بلند ہوتا ہے ۔ یہ آج ہم سب کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ انسانیت کی خدمت سب سے عظیم کام ہے جو آپ کی جماعت کر رہی ہے۔ ہمیں آپسی رنجش کو ختم کر کے آپس میں پیار و محبت کو بڑھانا چاہئے۔ آج یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ انسانیت ہی سب سے بڑی چیزہے۔ ہمیں آج اس وقت ان حالات اور ایسے ماحول میں پیار و محبت کی ضرورت ہے۔ مذہب کا استعمال محبت کو پھیلانے کیلئے ہی کیا جانا چاہیئے ۔
مکرم پرتاپ سنگھ باجوہ صاحب ایم ایل اے قادیان(لیڈر آف آپوزیشن پنجاب اسمبلی )
آپ نے فرمایاکہ آج اس جلسہ سالانہ کے موقع پر سارے لیڈر صاحبان اور جوبھی سیاسی و سماجی معزز شخصیات موجود ہیں میں ان تمام افراد کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔ یہ بہت خوشی کا موقع ہے۔ جب قادیان میں  سارے احمدی بھائی ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔ یہ سر زمین قادیان بزرگوں کی زمین ہے۔ سب کو ایک تڑپ ہوتی ہے اس پاک زمین میں آنے کی ۔ سب سال میں ایک مرتبہ اپنی اس پاک سر زمین کی زیارت کیلئے دور دراز سے سفر کر کے آتے ہیں۔ اسی طرح یہاں  کے مقامی افراد کو بھی ایک تڑپ ہوتی ہے کہ کب مہمان تشریف لائیں گے۔ مہمانوں کا انتظار ہوتا ہے۔ مجھے حضور انور سے ملاقات کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔ جماعت سے مجھے بہت پیار و عزت ملی ہے۔ مجھے اس بات پر فخر ہے۔ پوری دنیا میں جہاں جہاں  جماعت قائم ہے وہاں کے افراد جماعت اپنے نیک کاموں ، اپنے اچھے اعمال کی وجہ سے اپنا اور جماعت کا نام روشن کر رہے ہیں ۔جماعت نے جب بھی کوئی پیغام دیا ہے وہ پوری دنیا کیلئے ہوتا ہے۔ جماعت نے ہمیشہ امن ، پیار ، محبت ، اخوت ، بھائی چارے کی ہی بات کی ہے جو انسانیت کی فلاح و بہبودی کیلئے بہت ضروری ہے۔
مکرم انوراگ سود جی آف ہوشیار پور
انہوںنے فرمایاکہ میاں صاحب مرحوم(مرزا وسیم احمد صاحب) کے زمانہ سے جماعت سے جڑنے کا موقع ملا، انکے نیک اور اچھے کاموں کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ انکی ہدایات کی وجہ سے انکی محبت اور انکی راہنمائی کی وجہ سے ہی ہمیں بھی پورے ملک میں  خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ حضور انور سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ حضور انور نے ہمیشہ سے ہی ہمیں آنے والی تباہی سے آگاہ کیا ہے۔ آنے والی مشکلات ، پریشانیوں سے آگاہ کیا ہے۔ افراد جماعت بہت خوش قسمت ہیں جو ان کیلئے حضور انوراس قدر سوچتے ہیں ، اتنی فکر کرتے ہیں ، ہر وقت انکی راہنمائی کرتے ہیں ، ہر وقت ان کیلئے دعا کرتے رہتے ہیں۔ حضور انور نے ہمیشہ ہی سب کی بھلائی کی ہی بات کی ہے۔ انسانیت کی بقا کی بات کی ہے۔ امن پیار محبت کی بات کی ہے۔ آج ہم سب کو اسی امن ، پیار ، محبت ، بھائی چارے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ جماعت کی ان تعلیمات کی اس وقت دنیا کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ میں  ایک مرتبہ آپ سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے اس عظیم جلسہ میں بولنے کا موقع دیا ہے۔
پدم شری مکرم وجے کمار چوپڑہ صاحب( سی ایم ڈی ہند سماچار گروپ آف جالندھر)
تمام عہدیدران جماعت کو سلام ، دیگر معزز شخصیات کو سلام ، سارے مہمانان کرام شاملین جلسہ کو سلام۔ میں پہلے دو مرتبہ قادیان آچکا ہوں ۔ حضور انور کی ہوشیار پور آمد کے وقت ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ میں جماعت احمدیہ کا خاص شکریہ ادا کرنے کیلئے یہاں آیا ہوں ۔ جماعت ہمارے رام نومی کے جلوس کے وقت ہماری بہت مدد کرتی ہے۔ جس وقت مجھے رام نومی کے جلوس کے انتظامات کا موقع ملا اس وقت سے ہی میں اپنے اس مذہبی پروگرام میں تمام مذاہب کو شامل کرتا ہوں۔ جماعت احمدیہ بھی اس میں شامل ہوتی ہے۔ شروع شروع میں بعض لوگوں نے اسکی مخالفت بھی کی کہ کیوں میں اپنے اس پروگرام میں مسلم جماعت کو شامل کرتا ہوں لیکن جب سب کو معلوم ہوا کہ یہ جماعت شری رام چندر جی مہاراج کو بھی مانتی ہے، شری کرشن جی مہاراج کو بھی مانتی ہے اس بات نے سب کو بہت متأثر کیا۔ آپ کی جماعت کے ایک شاستری صاحب (مکرم مجاہد احمد شاستری ) اکثر ہمارے پروگراموں میں تقریر کرتے ہیں۔ لوگ ان کی تقریر سے بہت متأثر ہوتے ہیں۔ جتنا علم انہیں ہندو تعلیمات کا ہے شاید ہمیں بھی اتنا علم نہیں ہے۔
جماعت انسانیت کی خدمت کے بہت سے کام کر رہی ہے۔ سب کو مل کر ان کاموں کی کرنے کی ضروت ہے۔ میں جماعت کو ان عظیم کاموں کی مبارک باد دیتا ہوں۔ آپ کی جماعت ہوشیارپور میں بھی انسانیت کی خدمت کے بہت سے کام کر رہی ہے۔ فری میڈیکل کیمپ لگایا جاتا ہے۔ فری ادویات تقسیم کی جاتی ہیں۔ آپ اسی طرح نیک کام کرتے جائیں۔ آپ کے مخالفین خود بخود ہی راستہ سے ہٹ جائیں  گے۔ میں جماعت کی تعلیمات سے متأثر ہوں  جماعت کا ماٹو محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں یہ بہت بڑی چیز ہے۔ اس کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔
محترم صدر اجلاس کی طرف سے تمام حاضرین جلسہ کا شکریہ ادا کیا گیا تمام مقررین صاحبان کا شکریہ ادا کیا گیا اور جماعت کی طرف سے انہیں شال کا تحفہ پیش کیا گیا۔

(باقی آئندہ )

…٭…٭…٭…