اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-01-19

مرکز احمدیت قادیان دارالامان میں 127ویں جلسہ سالانہ کا کامیاب و بابرکت انعقاد

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ کا مقصد دینی و روحانی اور اخلاقی ترقی بیان فرمایا اور اس پر بہت شدت سے زور دیا
یہی مقصد ہے جس کے حصول کے لئے دنیا کے ہر ملک میں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے جلسہ سالانہ منعقد ہوتا ہے

1891 کے جلسہ میں 75 اور 1892 کےجلسہ میں 327 ؍افراد شامل ہوئے
آج اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش اس قدر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ملک میں ہمیں ہزاروں کی تعداد میں شاملین دکھا رہا ہے
کیا یہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کا اور اسکے وعدوں کا جو اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے ثبوت نہیں ہے؟ یقینا ًہے!

ایک ہی وقت میں تمام ملک میری باتیں سن رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں اور ہم ان کو دیکھ رہے ہیں
یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اپنے وعدے کو پورا کرنے کا اظہار ہے

ہمیں اس فضل سے فیض اٹھانے اور اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کرنی ہونگی، اپنے عہد اور اپنے وعدے کو
جو ہم نے جماعت میں شامل ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا ہے پورا کرنا ہو گا،اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہونگی

شرائط بیعت میں سے دوسری شرط بیعت کے حوالے سے کچھ باتیں کروں گا
اگر اس کے مطابق ہم اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں تو اپنے اندر بھی اور دنیا میں بھی ایک انقلاب عظیم پیدا کر سکتے ہیں

دوسری شر ط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نو برائیوں کا ذکر کیاہے اور یہ برائیاں ایسی ہیں جن کو چھوڑنے سے انسان روحانی اور اخلاقی طور پر ترقی کر سکتا ہے

آج لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کو بنے ہوئے بھی سو سال ہو گئے ہیں لجنہ کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جائزہ لیں کہ اس سو سال میں کس حد تک لجنہ نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کی ہے

ہر شامل جلسہ جو کسی بھی طرح جلسہ میں شامل ہے یہ عہد کرے کہ ہم نے پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنی ہے
اور عہد بیعت کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ نبھانا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے

mta انٹرنیشنل کے ذریعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اسلام آباد یوکے سے شرکائے جلسہ سے بصیرت افروز اختتامی خطاب

کووِڈ 19 کے بعد پوری صلاحیت کے ساتھ جلسے کا انعقاد ۔ینوں دن جلسہ کے پروگراموں کی لائیو اسٹریمنگ اور اسکے ذریعہ اندرون و بیرون ملک جلسہ سے وسیع استفادہ ۔ لائیو اسٹریمنگ کے ذریعہ بیاسی ہزار پانچ سو افراد نےجلسہ کی کارروائی دیکھی اور سنی ۔ 14500عشاق احمدیت کی جلسہ میں شمولیت ۔ 37 ممالک کی نمائندگی ۔بعض افریقین ممالک کے جلسے اور اختتامی خطاب میں ان کی شمولیت ۔ اختتامی خطاب میںمسجد مبارک اسلام آبادمیں 1404، بیت الفتوح میں 1200 ، مسجد فضل میں 400 احباب کا اجتماع ۔ نماز تہجد۔ درس القرآن اور ذکر الٰہی سے معمور ماحول ۔ علماء کرام کی پُر مغز تقاریر۔ 9 ملکی و غیرملکی زبانوں میںجلسہ کے پروگراموں کا رواں ترجمہ ۔ احباب جماعت کی معلومات میں اضافہ کیلئے تربیتی امور پر مشتمل ڈاکیومنٹری اور مختلف معلوماتی نمائشوں کاانعقاد ۔ نکاحوں کے اعلانات ۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں جلسہ کی کوریج ۔ پرسکون و خوشگوار ماحول میں جلسہ کی تمام کارروائی کی تکمیل٭ (منصور احمد مسرور،منتظم رپورٹنگ)

 

(دوسری قسط)
مورخہ 24 دسمبر 2022 بروز ہفتہ
دوسرا دن پہلا اجلاس


دوسرے دن کاپہلا اجلاس زیر صدارت محترم منیراحمدصاحب حافظ آبادی سیکرٹری مجلس کارپردازبہشتی مقبرہ قادیان منعقدہوا۔ تلاوت قرآن مجید مکرم راشد خطاب صاحب صدرمجلس انصااللہ کبابیر نے کی۔آپ نےسورۃ النور کی آیات31تا33کی تلاوت کی۔ ترجمہ مکرم مولوی جمال شریعت صاحب نائب انچارج شعبہ نورالاسلام قادیان نے پیش کیا۔بعدہٗ مکرم مولوی مرشد احمد ڈار صاحب استاذ جامعہ احمدیہ قادیان نے نہایت خوش الحانی سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا منظوم کلام
اے دوستو! جو پڑھتے ہو امّ الکتاب کو
اَب دیکھو میری آنکھوں سے اِس آفتاب کو
پہلی تقریر:اس اجلاس کی پہلی تقریر محترم مولانا محمدحمیدکوثر صاحب ناظردعوتِ الی اللہ مرکزیہ شمالی ہند قادیا ن نے ’’اسلامی پردہ اوراِس کی ضرورت واہمیت اوربرکت ‘‘ کے عنوان پر کی۔آپ نے دین اسلام کے کامل و مکمل ہونے کے حوالہ سے قرآنی آیات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات پیش کرنے کے بعد پردہ کی ضرورت و اہمیت پر ایک واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ چنڈی گڑھ میں ایک صحافیہ نے مجھ سے سوال کیا کہ حجاب کی کیاضرورت ہے؟ تومَیں نے اُس سے سوال کیا کہ آپ نے اتنالمبا گرم کوٹ اور گرم چادر کیوں اوڑھ رکھی ہے؟ اس نے جواب دیا ،سردی سے بچنے کیلئے۔ مَیں نے اُسے کہا جس طرح آپ کو سردی سے بچنے کیلئے گرم چادر اورلمباکوٹ پہننے کی ضرورت ہے اسی طرح ایک مسلم خاتون گندی اورناپاک نظروں سے بچنے کیلئے پردہ کرنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔پھر اس میں اعتراض کیا ہے؟الحمدللہ اس جواب سے وہ مطمئن ہوگئیں۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا اَلْـحَیَاءُ مِنَ الْاِیْمَانِ یعنی حیا ایمان میں سے ہے۔جب شرم و حیا ختم ہوجاتی ہے اور مرد و عورت میں بلا روک ٹوک میل ملاپ ہو تو پھر فحاشیت وبائی بیماری کی طرح پھیلتی ہے۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اِذَالَمْ تَسْتَحْیِیْ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ یعنی جب حیا اُٹھ جائے توپھر انسان جوچاہے کرے۔ فارسی میں مثل مشہورہے کہ بےحیاباش ہرچہ خواہی کن۔اسلام نے بے حیائی اور فحاشی کے سدباب کیلئے مؤمن مرداور عورت کو غض بصر کا حکم دیاہے۔پھربھی اسلامی حجاب کو شدیدتنقید کا نشانہ بنایاجارہاہے۔حقیقی مسلمان ان اعتراضات سے کبھی متاثر نہ ہوں گے ان شاء اللہ۔ہماے خالق حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ نے مرداورعورت کو معاشرہ میں صحیح طورپر روحانی اورجسمانی کردار اداکرنے کیلئے کچھ سنہرے اصول تجویزفرمائے ہیں۔یہ اصول تکلیف کیلئے نہیں ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقٰی(طٰہٰ:3) یعنی ہم نے تجھ پر قرآن اس لئے نہیں اُتارا کہ تُو دکھ میں مبتلا ہو ۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں :
’’خداکی پاک کتاب میں دونوں مرداورعورت کیلئے یہ تعلیم فرمائی گئی ہے… ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچائیں یعنی ان کی پرشہوت آوازیں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں ۔اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہوکر سر پر آجائے یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں۔ ‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی ،روحانی خزائن، جلد 10، صفحہ 341)
نامحرم عورتوں کو آزادی سے دیکھنے کے خطرات کے بارہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’ہرایک پرہیزگار جواپنے دل کو پاک رکھنا چاہتاہے اس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بےمحابانظراُٹھاکر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کیلئے اس تمدنی زندگی میں غض بصرکی عادت ڈالنا ضروری ہے اوریہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اسکی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آجائےگی۔‘‘
(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ سورۃ النور ،جلد6،صفحہ 94)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’ مَیں سمجھتاہوں کہ اس مضمون کو کھولنے کی مزید ضرورت ہے کیونکہ بعض خطوط سے اندازہ ہوتاہے کہ ابھی بہت سے ایسے ہیں جو اس حکم کی اہمیت کو یعنی پردے کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ کوئی کہہ دیتاہے کہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کیلئے کیا صرف پردہ ہی ضروری ہے؟ کیااسلام کی ترقی کا انحصار صرف پردہ پر ہی ہے؟کئی لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ فرسودہ باتیں ہیں، پرانی باتیں ہیں۔ اور ان میں نہیں پڑنا چاہئے، زمانے کے ساتھ چلنا چاہئے۔ گو جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت معمولی ہے لیکن زمانے کی رَو میں بہنے کے خوف سے دل میں بے چینی پیدا ہوتی ہے اور اس معمولی چیز کو بھی معمولی نہیں سمجھناچاہئے۔ ایسے لوگوں کو میراایک جواب یہ ہے کہ جس کا م کوکرنے یا نہ کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اور اس کامل اور مکمل کتاب میں اس بارہ میں احکام آ گئے ہیں اور جن اوامر و نواہی کے بارہ میں آنحضرتﷺ ہمیں بتا چکے ہیں کہ یہ صحیح اسلامی تعلیم ہے تو اب اسلام اور احمدیت کی ترقی اسی کے ساتھ وابستہ ہے۔ چاہے اسے چھوٹی سمجھیں یا نہ سمجھیں اور یہ آخری شرعی کتاب جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پراتاری ہے اس کی تعلیم کبھی فرسودہ اور پرانی نہیں ہوسکتی۔ اس لئے جن کے دلوں میں ایسے خیالات آتے ہیں وہ اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور استغفار کریں … تومردوں کیلئے تو پہلے ہی حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو۔ اوراگر مرد اپنی نظریں نیچی رکھیں گے توبہت سی برائیوں کا تو یہیں خاتمہ ہوجاتاہے۔‘‘(خطبہ جمعہ30جنوری 2004ء خطبات مسرورجلد 2صفحہ 85)
دوسری تقریر:اسکے بعد مکرم مولانامظفراحمدناصر صاحب ناظر اصلاح وارشادمرکزیہ قادیان نے ’’نماز باجماعت اور تلاوت قرآن کریم کی اہمیت و برکات‘‘ کے موضوع پر تقریرکی۔ آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نماز کی فضیلت و اہمیت کے متعلق جو احکامات بیان فرمائے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز قائم کرنے والوں کو اللہ نے عظیم الشان بشارات سے نوازا ہے، ان کیلئے بڑے بڑے انعامات کا وعدہ ہے اور اس میں سستی اختیار کرنے والوں کیلئے اللہ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے ۔ نماز متقیوں کی نشانی ہے کیونکہ متقی ہی دراصل نماز کو قائم کرتے ہیں ۔ نماز وقت پر ادا کی جانے والی سب سے اہم عبادت ہے ۔ نماز بے حیائی اور نا پسندیدہ باتوں سے روکتی ہے۔ نماز سے اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری اور اسکے احکام کی بجا آوری اور اسکی راہ میں مالی قربانیوں کی توفیق ملتی ہے ۔ نماز خدا کو یاد کر نے اور اس کا شکر ادا کر نے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے ۔ اللہ اور اس کا رسول اور مومن نماز قائم کرنے والوں کو اپنا دوست رکھتے ہیں ۔ اسلام کی بنیاد جن پانچ ارکان پر قائم ہے ان میں دوسر ا اہم رکن نماز ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا نماز کو چھوڑ نا انسان کو شرک اور کفر کے قریب کر دیتا ہے ۔فرمایا۔ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا بندوں سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے ۔ اگر یہ حساب ٹھیک رہا تو وہ کامیاب ہو گیا اور اس نے نجات پالی ۔ اگر یہ حساب خراب ہوا تو وہ نا کام ہو گیا اور گھاٹےمیں رہا۔آپﷺ کی شدید خواہش تھی کہ آپ کی امت نماز پر کار بند ہو جائے۔
سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں : ” اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو ۔ آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقوی کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالی کو دیکھتے ہو۔ ‘‘
(کشتی نوح، روحانی خزائن، جلد 19 صفحہ15)
سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نماز باجماعت کی اہمیت کے متعلق فرماتے ہیں:
’’نماز با جماعت کی ضرورت کو عام طور پر مسلمان بھول گئے ہیں اور یہ ایک بڑا موجب مسلمانوں کے تفرقہ اور اختلاف کا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس عبادت میں بہت سی شخصی اور قومی برکتیں رکھی تھیں مگر افسوس کہ مسلمانوں نے انہیں بھلا دیا۔ قرآن کریم نے جہاں بھی نماز کا حکم د یا نماز با جماعت کا حکم دیا ہے ۔ خالی نماز پڑھنے کا کہیں بھی حکم نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز با جما عت اہم اصول دین میں سے ہے بلکہ قرآن کریم کی آیات کو دیکھ کر کہ جب بھی نماز کا حکم بیان ہوا ہے نماز باجماعت کے الفاظ میں ہوا ہے ۔ تو صاف طور پریہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک نماز صرف تبھی ادا ہوتی ہے کہ باجماعت ادا کی جائے ۔ سوائے اسکے کہ نا قابل علاج مجبوری ہو ۔ پس جو کوئی شخص بیمار ی یا شہر سے باہر ہونے یا نسیان یا دوسرے مسلمان کے موجود نہ ہونے کے عذر کے سوا نماز باجماعت کو ترک کرتا ہے خواہ وہ گھر پر نماز پڑھ بھی لے تو اس کی نماز نہ ہوگی ۔ اور وہ نماز کا تارک سمجھا جائےگا۔‘‘
( تفسیر کبیر، جلد اوّل، صفحہ 105، مطبوعہ قادیان2004)
تلاوت قرآن کریم کی اہمیت و برکات کے متعلق آپ نے فرمایا کہ :
 حضرت ابو اُمامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : قرآن کریم کی تلاوت کیا کرو کیونکہ قرآن کریم قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کیلئے شفیع بن کر آئے گا۔ (صحیح مسلم)
 حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن کا علم حاصل کرے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے۔ (صحیح بخاری)
 حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جسکے سینے میں قرآن کا کوئی حصہ بھی محفوظ نہیں وہ(سینہ) ویران گھر کی طرح ہے۔ (ترمذی)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جولوگ قرآن کوعزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے جولوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قر آن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسان کیلئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگرقرآن ۔ اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ “
(روحانی خزائن، جلد 19، صفحہ13)
تیسری تقریر:اجلاس کی تیسری تقریر مکرم پی .ایم. محمدرشید صاحب ناظر بیت المال خرچ ووکیل المال تحریک جدید قادیان نے ’’اسلام میںانفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت و برکات ‘‘ کے عنوان پرکی۔آپ نے فرمایا کہ اسلام نے بنی نوع انسان کے سامنےمادہ پرست لوگوں کے نظریہ سے بالکل برعکس ایک اچھوتا مالی نظام پیش کیا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ یہ نظام کسی انسان یا تنظیم کے غور و فکر کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس نظام کو پیش کرنے والاعلیم و خبیر عالم الغیب خدا ہےجس کے پاس آسمان اور زمین کے خزانے ہیں لیکن مادہ پرست دنیا اس حقیقت سے بالکل نا آشنا ہے۔ آجکل دنیا کے ہر گوشے سے، بینکوں یا ان سے منسلکہ دیگر سوسائٹیوں بلکہ ہر کس وناکس کی طرف سے بچت ، بچت کی تحریک اور آواز بلند ہورہی ہے گویا ان کے نزدیک مال کو سنبھال سنبھال کررکھنا مالی وسعت کا نام ہے۔ لیکن اسلام اس نظریے کویکسر ردکرتا ہے اور مالی وسعت اورحقیقی بچت کا راز بیان کرتے ہوئےاللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اُن لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ایسے بیج کی طرح ہے جو سات بالیں اُگاتا ہو ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ جسے چاہے (اس سے بھی) بہت بڑھا کر دیتا ہے اور اللہ وسعت عطا کرنے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے ۔(البقرہ:262)
اللہ تعالیٰ نے صرف مؤمنین کو ہی یہ اعزاز بخشا ہے کہ وہ انفاق فی سبیل اللہ میں حصہ لیںاور یہ مؤمنین کا ایک منفرد مقام و مرتبہ ہے کہ صرف انہیں سے اللہ تعالیٰ نے مالی قربانی کا مطالبہ کیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے انفاق فی سبیل اللہ کرنے والوں کو قابل رشک وجود قرار دیا ہے ۔ چنانچہ ایک موقع پر آپؐنے فرمایا : لَاحَسَدَ اِلَّا فِیْ اثْنَتَیْنِ رَجُلٌ اٰتَاہُ اللہُ مَالًا فَسَلَّطَہٗ عَلٰی ھَلَکَتِہٖ فِی الْحَقِّ وَرَجُلٌ اٰتَاہُ اللہُ حِکْمَۃً فَھُوَ  یَقْضِیْ بِھَا وَیُعَلِّمُھَا(بخاری)دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں  کرنا چاہئے ۔ ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اسے راہِ حق میں خرچ کردیا دوسرے وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ، دانائی اور علم و حکمت دی جس کی مدد سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا بھی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں : ’’مَیں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیرالدین اور امام الدین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں۔ وہ تینوں غریب بھائی بھی جو شاید تین آنہ یا چار آنہ روز مزدوری کرتے ہیں سرگرمی سے ماہوار چندہ میں شریک ہیں۔ ان کے دوست میاں عبدالعزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ باوجود قلت معاش کے ایک دن سو روپیہ دے گیا کہ مَیں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہوجائے۔ وہ سو روپیہ شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہو گا مگر للّہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن، جلد 11،صفحہ 314-313) (باقی آئندہ)
…٭…٭…٭…