اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-01-26

مرکز احمدیت قادیان دارالامان میں 127ویں جلسہ سالانہ کا کامیاب و بابرکت انعقاد

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ کا مقصد دینی و روحانی اور اخلاقی ترقی بیان فرمایا اور اس پر بہت شدت سے زور دیا
یہی مقصد ہے جس کے حصول کے لئے دنیا کے ہر ملک میں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے جلسہ سالانہ منعقد ہوتا ہے

1891 کے جلسہ میں 75 اور 1892 کےجلسہ میں 327 ؍افراد شامل ہوئے
آج اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش اس قدر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ملک میں ہمیں ہزاروں کی تعداد میں شاملین دکھا رہا ہے
کیا یہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کا اور اسکے وعدوں کا جو اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے ثبوت نہیں ہے؟ یقینا ًہے!

ایک ہی وقت میں تمام ملک میری باتیں سن رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں اور ہم ان کو دیکھ رہے ہیں
یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اپنے وعدے کو پورا کرنے کا اظہار ہے

ہمیں اس فضل سے فیض اٹھانے اور اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کرنی ہونگی، اپنے عہد اور اپنے وعدے کو
جو ہم نے جماعت میں شامل ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا ہے پورا کرنا ہو گا،اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہونگی

شرائط بیعت میں سے دوسری شرط بیعت کے حوالے سے کچھ باتیں کروں گا
اگر اس کے مطابق ہم اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں تو اپنے اندر بھی اور دنیا میں بھی ایک انقلاب عظیم پیدا کر سکتے ہیں

دوسری شر ط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نو برائیوں کا ذکر کیاہے اور یہ برائیاں ایسی ہیں جن کو چھوڑنے سے انسان روحانی اور اخلاقی طور پر ترقی کر سکتا ہے

آج لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کو بنے ہوئے بھی سو سال ہو گئے ہیں لجنہ کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جائزہ لیں کہ اس سو سال میں کس حد تک لجنہ نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کی ہے

ہر شامل جلسہ جو کسی بھی طرح جلسہ میں شامل ہے یہ عہد کرے کہ ہم نے پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنی ہے
اور عہد بیعت کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ نبھانا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے

mta انٹرنیشنل کے ذریعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اسلام آباد یوکے سے شرکائے جلسہ سے بصیرت افروز اختتامی خطاب

کووِڈ 19 کے بعد پوری صلاحیت کے ساتھ جلسے کا انعقاد ۔ تینوں دن جلسہ کے پروگراموں کی لائیو اسٹریمنگ اور اسکے ذریعہ اندرون و بیرون ملک جلسہ سے وسیع استفادہ ۔ لائیو اسٹریمنگ کے ذریعہ بیاسی ہزار پانچ سو افراد نےجلسہ کی کارروائی دیکھی اور سنی ۔ 14500عشاق احمدیت کی جلسہ میں شمولیت ۔ 37 ممالک کی نمائندگی ۔بعض افریقین ممالک کے جلسے اور اختتامی خطاب میں ان کی شمولیت ۔ اختتامی خطاب میںمسجد مبارک اسلام آبادمیں 1404، بیت الفتوح میں 1200 ، مسجد فضل میں 400 احباب کا اجتماع ۔ نماز تہجد۔ درس القرآن اور ذکر الٰہی سے معمور ماحول ۔ علماء کرام کی پُر مغز تقاریر ۔ 9 ملکی و غیرملکی زبانوں میںجلسہ کے پروگراموں کا رواں ترجمہ ۔ احباب جماعت کی معلومات میں اضافہ کیلئے تربیتی امور پر مشتمل ڈاکیومنٹری اور مختلف معلوماتی نمائشوں کاانعقاد ۔ نکاحوں کے اعلانات ۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں جلسہ کی کوریج ۔ پرسکون و خوشگوار ماحول میں جلسہ کی تمام کارروائی کی تکمیل٭ (منصور احمد مسرور،منتظم رپورٹنگ)

(تیسری وآخر قسط)


دوسرا دن دوسرا اجلاس


دوسرے دن کا دوسرا اجلاس جلسہ پیشوایان مذاہب کے طور پر منایا جاتا ہے جس کیلئے مختلف مذاہب کےرہنماؤں اور سادھو سنتوں، گوروؤں اور پنڈتوں اور چرچ کے فادروں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ سیاسی رہنما بھی تشریف لاتے ہیں جوجلسہ اور جماعت احمدیہ کی تعلیمات کے تئیں اپنے نیک خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ اجلاس زیر صدارت مکرم سیّد تنویر احمد صاحب صدر مجلس وقف جدید منعقد ہوا۔تلاوت قرآن مجید مکرم لقمان احمد تقی صاحب متعلم جامعہ احمدیہ قادیان نے کی۔آپ نے سورۃ النمل کی آیات 61 تا64کی تلاوت کی جن کا اُردو ترجمہ مکرم عطاء اللہ نصرت صاحب نائب ناظر بیت المال آمد نے پیش کیا۔بعدہٗ مکرم مبشر احمد خادم صاحب استاذ جامعہ احمدیہ قادیان نے بزبان پنجابی ’’ امن عالم اور اسلام‘‘ کے عنوان پر تقریر کی۔ بعدہٗ صدر اجلاس کی اجازت سے مکرم تنویر احمد خادم صاحب نے اسٹیج پر تشریف فرما غیر مسلم معززین کا تعارف کروایا اور اُن میں سے بعض کو جلسہ سالانہ قادیان سے متعلق اپنے خیالات پیش کرنے کی دعوت دی۔ جن مہمانان کرام نے اپنے خیالات پیش کئے ان کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔


ڈاکٹر بلجیت کور صاحبہ منسٹر آف افیئرز گورنمنٹ آف پنجاب:


انہوں نے فرمایا کہ آج کا دن میرے لئے بہت ہی فخر کا دن ہے جو میں آج آپ کے درمیان 127 ویں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کا شرف حاصل کررہی ہوں۔ اس جلسہ میں تمام شاملین کو مَیں خوش آمدید کہتی ہوں۔ آپ کی جماعت آج جو ساری دُنیا میں امن کا پیغام دے رہی ہے یہ سب سے اہم و ضروری پیغام ہے جس کی اس وقت دُنیا کو ضرورت ہے۔ ایسے پیغام کو دُنیا بھر میں پھیلانے کیلئے انسان کو خود سے بھی لڑنا پڑتا ہےتبھی خدا بھی ہماری مدد کرتا ہے۔ اس چھوٹی سی بستی سے بانی جماعت احمدیہ نے جو پیغام دیا ہے وہ آج ساری دُنیا میں پھیل چکا ہے ۔ آپ نے ہمارے ہندوستان کی اصل تصویر کو دُنیا کے سامنے رکھا ہے۔ جماعت کا اصل مقصد پیار محبت و امن ہے۔ ہندوپاک کی تقسیم کے وقت اگرچہ کہ ظلم و بربریت کا نہایت گھناؤنا کھیل کھیلا گیا لیکن اُس وقت بھی انسانیت سے محبت کرنے والے لوگ موجود تھے جنہوں نے یہ نہیں  دیکھا کہ مظلوم ہندو ہے یا مسلمان اور اس کی انہوں نے مدد کی۔ اور انسانیت کا یہ جذبہ آج بھی ہمارے دلوں میں قائم ہے جسے کوئی ختم نہیں کرسکتا۔


جگروپ سنگھ سیکھواں :


قادیان کے جلسہ سالانہ میں تمام شاملین و حاضرین کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ قادیان بہت ہی مقدس بستی ہے جہاں آج ہم 127 واں جلسہ سالانہ منارہے ہیں۔ پوری دُنیا سے لوگ بہت ہی محبت اور خلوص سے اس بستی میں آتے ہیں۔ اس بستی سے پوری دُنیا میں امن اور محبت کا پیغام جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ بستی پوری دُنیا میں مشہور ہے۔ آج تھرڈ ورلڈوار ہمارے سروں پر کھڑی ہے۔ دوسری طرف جماعت کے خلیفہ پوری دُنیا کو امن اور محبت کا پیغام دے رہے ہیں جس کو آج پوری دُنیا میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ حضور کا یہ قدم قابل تعریف ہے۔ دُنیا کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جنگ تباہی لاتی ہے جبکہ ہمیں امن کی ضرورت ہے۔ہمارے خاندان کا جماعت سے بہت ہی پرانا اور گہرا تعلق ہے۔ ہم ہروقت جماعت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مَیں شکرگزار ہوں کہ مجھے یہاں آنے کی دعوت دی گئی۔


سوامی آدیش پوری صاحب آف ہماچل، نمائندہ ہندو مذہب :


انہوں نے تمام حاضرین کو خوش آمدید کہا اور جلسہ کی مبارک باد پیش کی۔انہوں نے کہا کہ تمام مذہبی راہنماؤںکا ایک ہی مقصد ہوتا ہےکہ یہ انسانیت کی تعلیم دیتے ہیں اور باہم ایک دوسرے سے محبت کرنے اور بھائی چارے کا سبق سکھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی سارے انسان کو ایک جیسا ہی بنایا ہے۔ کسی کے خون سے کبھی یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ہندو ہے اور یہ مسلمان ہے ۔ سب کا خون ایک جیسا ہی ہے۔ جماعت احمدیہ جو ساری دُنیا میں امن اور محبت اور بھائی چارے کی تعلیم کو پھیلارہی ہے یہ جماعت کی طرف سے ایک بہت ہی قابل تعریف کام ہے۔آج سب ایک دوسرے کو کافر کہنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کافر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو ٹھکراتا ہے اور ان کی قدر نہیں کرتا۔ وہ لوگ بہت ہی خوش قسمت ہونگے جو آج سے ایک سو ستائیس سال قبل پہلے جلسہ سالانہ میں  شریک ہونگے۔ حضرت مرزا غلام احمد کی سچی تعلیمات آج اس جلسہ کے ذریعہ سے پوری دُنیا میں پھیل رہی ہے۔ آخر پر انہوں نے جلسہ سالانہ کی تعریف میںاپنی ایک نظم پڑھی جو انہوں نے جلسہ سے کچھ ہی دیر پہلے لکھی تھی۔


فتح جنگ سنگھ باجوہ لیڈر بی جے پی حلقہ قادیان:


انہوں نے نعرہ تکبیر سے اپنے خطاب کا آغاز کیا۔ بعدہٗ تمام شاملین جلسہ کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا اور ان کے خاندان کا جماعت سے پرانا اور بڑا گہرا ناطہ ہے۔ بانی جماعت احمدیہ کے امن کے پیغامات اور جماعت کا ماٹو محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں قابل تعریف ہے۔تقسیم کے وقت قادیان میں چند گنتی کے احمدی رہ گئے تھے مگر آج یہ ساری دُنیا میں پھیل چکے ہیں۔ جماعت کے موجودہ خلیفہ آج ساری دنیا کو انسانیت کی تعلیم دے رہے ہیں۔ امن اور شانتی کا پیغام پھیلارہے ہیںجو بہت ہی قابل تعریف ہے۔ آج دُنیا کو امن اور پیار اور محبت کی ضرورت ہے۔ انسانیت کو بچانے کیلئے اُسی امن کی ضرورت ہے جس کے قیام کیلئے جماعت جد و جہد کررہی ہے۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ جماعت کے خلیفہ قادیان تشریف لائیں۔ آپ سب کو 127 ویں جلسہ سالانہ کی مبارک باد۔


کیشو مُراری داس صاحب، صدر اِسکان ٹیمپل دہلی:


انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مَیں جماعت احمدیہ کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے یہاں آنے کی دعوت دی۔ مَیں جماعت کے تقریباً سارے پروگراموں میں  شامل ہوتا ہوں کیونکہ جماعت ہمیشہ محبت اور امن ہی کی بات کرتی ہے۔ جماعت کا ماٹو بھی پیار اور محبت ہی کا پیغام دیتا ہے۔ اس ماٹو نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ جب میں  نے جماعت کے متعلق معلومات حاصل کیں تو مجھے جماعت کی تعلیمات کا علم ہوا۔ جس طرح قرآن و حدیث میں امن کی محبت کی تعلیم ہے اسی طرح گیتا میں بھی امن اور محبت کی تعلیم ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب مجھے جماعت کا ماٹو محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں بتایا گیا تو مجھے بڑا عجیب ہوا کہ ایک مسلمان کا محبت اور امن سے کیا رشتہ ہوسکتا ہے۔ لیکن جب مَیں نے اسلام کا مطالعہ کیا تو پھر مجھے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث میں واقعی امن اور محبت کی تعلیم ہے۔ ہم سب کا یہ مقصد ہونا چاہئے کہ ہم اس دُنیا میں اچھے کام کرکے خدا کے حضور حاضر ہوں۔ جب تک ہمارا کام اور ہمارا عمل اچھا نہیں ہوگا تب تک ہمارا کسی مذہب کو ماننا بے فائدہ ہوگا۔ ہر ایک کو اپنے مذہب کی نیک تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا تب ہی اس زندگی کا کوئی فائدہ ہے۔ جماعت احمدیہ کی تعلیمات زمانہ کی ضرورت کے عین مطابق ہے۔


گورندرسنگھ گورا ، ممبر SGPC:


اسٹیج پر تشریف رکھنے والے تمام معززین اور شاملین جلسہ کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت کے تمام کام، اس کی تعلیمات اور اسکا ماٹو سب کیلئے ایک نیک نمونہ ہے۔ جماعت کا پیغام آج ساری دُنیا میں پھیل چکا ہے۔ اچھے اور نیک لوگ وہ ہوتے ہیں جو خواہ ہندو ہوں یا مسلمان یا کسی اور مذہب کے ہوں وہ اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ اور دوسروں کی تعلیمات کی عزت کرتے ہیں۔ جماعت اپنے عمل سے یہ ثابت کرتی ہے کہ اس کو سب سے محبت ہے اور نفرت کسی سے نہیں ہے۔


پرتاپ سنگھ باجوہ ایم ایل اے حلقہ قادیان:


انہوں نے تمام حاضرین کو خوش آمدید کہا اور جلسہ پر مدعو کئے جانے کی وجہ سے شکریہ ادا کرتے ہوئے جماعت کی تعلیمات کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بہت سے ممالک میں جانے کا موقع ملا ہے مَیں جہاں بھی جاتا ہوں  کوشش کرتا ہوں کہ وہاں جماعت کے احباب سے ملاقات کروں اور اس سے مَیں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہر جگہ ہر ملک میں جماعت نے وہاں کے لوگوں کے ساتھ ، سیاستدانوں  کے ساتھ، حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات بنائے ہیں۔ اپنی نیک نامی پیدا کی ہے۔ وہاں کے باشندوں اور انتظامیہ کے ساتھ گھل مل کر اور مل جل کر کام کرتے ہیں اور اُن میں ایک اپنا اثر پیدا کیا ہے۔ آج اس موقع پر مَیں جماعت کے خلیفہ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ قادیان تشریف لائیں ہم سب آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ اس پاک بستی سے جو امن و محبت کا پیغام ساری دُنیا میں پھیلایاجارہا ہے وہ بہت ہی قابل تعریف اور وقت کی ضرورت ہے۔


امن شیر کلسی صاحب ایم ایل اے حلقہ بٹالہ:


انہوں نے کہا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے آپ کے درمیان حاضر ہونے کا موقع ملا۔ مَیں آپ سب کا شکر گزار ہوں۔ جماعت کو جہاں ہماری ضرورت ہوگی ہم جماعت کا ساتھ دیں گے۔ ہم جماعت کے ساتھ کھڑے ہیںاور آپ کے اقدامات کو اور آپ کے کاموں کو سراہتے ہیں۔


انوراگ سود صاحب آف ہوشیار پور:


انہوں نے کہا کہ جلسہ سالانہ میں شمولیت کی دعوت دینے کیلئے ساری جماعت کا شکرگزار ہوں۔ آپ سب بہت خوش نصیب ہیں جو جماعت سے جڑے ہوئے ہیں۔ میرا تعلق ہوشیارپور شہر سے ہے جہاں سے جماعت کا بھی بہت پرانا اور گہرا رشتہ ہے۔ حضور جب 2005 میں  قادیان تشریف لائے تھے تو آپ ہوشیار پور بھی تشریف لائے تھے ۔ اس موقع پر حضور نے میرے گھر کو بھی برکت عطا فرمائی تھی اور دعائیں دی تھیں۔ جماعت کی جو محبت کی تعلیم ہے اس پر چل کر پوری دُنیا میں امن قائم کیا جاسکتا ہے اور دنیا کو تباہی سے بچایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مَیں حضور انور سے کئی مرتبہ یوکے میں بھی مل چکا ہوں۔ جماعت کی تعلیمات کی اس وقت دُنیا کو ضرورت ہے۔ دیگرمذاہب بھی اسی طرح امن کی تعلیمات دیتے ہیں۔ جماعت احمدیہ اس اسٹیج پر تمام مذاہب کے نمائندگان کو بلاکر جو عزت دیتی ہے وہ بہت ہی قابل تعریف ہے۔ تمام مذاہب کی عزت کرنا جماعت کی بہت بڑی خوبی ہے۔ امریکہ کے ایک شہر میں ابھی حال ہی میں جماعت کو مسجد تعمیر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی وہ جماعت کی سچائی کی دلیل ہے۔ میں اس موقع پر حضور سے درخواست کرتا ہوں کہ حضور قادیان تشریف لائیں ہم سب آپ کے منتظر ہیں۔
ان احباب کے علاوہ اور بھی بعض معزز شخصیات اسٹیج پر تشریف فرماتھیںجن کا مکرم تنویر احمد خادم صاحب نے تعارف کرایا اور انہیں شال کا تحفہ دیکر ان کی عزت افزائی کی۔
…٭…٭…٭…


مورخہ 25 دسمبر 2022 بروز اتوار
تیسرا دن پہلا اجلاس


تیسرے دن کے پہلے اجلاس کی کارروائی 10بجکر 5 منٹ پر تلاوت قرآن مجید سے شروع ہوئی۔ مکرم حافظ فاروق اعظم صاحب انسپکٹر مجلس خدام الاحمدیہ بھارت نے سورۃ آلِ عمران کی آیات 103 تا 106کی تلاوت کی۔ان آیات کریمہ کا اردو ترجمہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاکسار منصور احمد مسرور ایڈیٹر ہفت روزہ بدر نے پیش کیا۔اسکے بعدمکرم دبیر احمد شمیم صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے منظوم کلام؎
وہ قصیدہ میں کروں وصف مسیحا میں رقم
فخر سمجھیں جسے لکھنا میرے دست و قلم
میں سے چند اشعار نہایت خوش الحانی سے سنائے۔


تقریر اوّل:


اس اجلاس میں علماء کرام کی تین تقاریر ہوئیں ۔ پہلی تقریرمکرم کے. طارق احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ بھارت نے’’خلافت عافیت کا حصار ‘‘ کے موضوع پر کی۔ آپ نے خلافت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ نظام خلافت وہ با برکت آسمانی نظام قیادت ہے جو اللہ تعالیٰ جماعت مومنین کو اُن کی روحانی بقا اور ترقی کیلئے عطا فرماتا ہے۔ یہ ایک عظیم انعام ہے جو ایمان اور عمل صالح کی بنیادی شرائط سے مشروط ہے۔اس خدائی موہبت کی حیثیت ایک حبل اللہ کی ہے۔اس خدائی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا جماعت مؤمنین کیلئے ان کے ایمان کی تصدیق بھی ہے اور امن وامان اور روحانی ترقیات کی ضمانت بھی۔
آج جب لادینیت عروج پر ہےاور لوگ اپنے خالق و مالک کو بھول رہے ہیں اور اسکی وجہ سے انفرادی و اجتماعی بے امنی اور بے سکونی کا شکار ہو رہے ہیں، ہمارے پیارے امام دنیا کو حقیقی حصارِ عافیت یعنی خدا تعالیٰ کو پہچاننے کی طرف متوجہ فرما رہے ہیں۔ حضور انور نے بڑے ہی ٹھوس دلائل سے ثابت فرمایا ہے کہ دُنیا میں حقیقی اور پائیدار امن کا قیام خدا تعالیٰ کی ذات کو پہچاننے اور اُس کے حقوق ادا کرنے، حقوق العباد کی ادائیگی اور قیامِ انصاف سے ہی ہوسکتا ہے۔سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ جرمنی 2022ء کے موقعہ پر فرمایا کہ :
’’حقیقی امن دنیا میں لانے کیلئے یہی عقیدہ اور اس پر عمل کارگر ہو گا کہ دُنیا کا ایک خدا ہے، جو یہ چاہتا ہے کہ سب لوگ امن میں رہیں۔حقیقی امن اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک ایک بالا ہستی کو تسلیم نہ کیا جائے، جب تک اس کی محبت دل میں پیدا نہ ہو۔ اوریہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ امن دینے والا ہے صرف اسلام نے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پیش کیا ہے۔امن اس وقت تک قائم ہو ہی نہیں سکتا جب تک لوگوں کے اندر حقیقی مواخات پیدا نہ ہو اور حقیقی مواخات ایک خدا کو مانے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔‘‘
سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دنیا کے مختلف سربراہان مملکت کو بھی قیام امن کی طرف اپنے خطوط کے ذریعہ توجہ دلائی ہے:
مورخہ 8؍مارچ 2012ء کو حضور انور ایدہ اللہ نے امریکہ کے صدر باراک اوباما کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’دنیا میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ ضروری محسوس کیا کہ آپ کی طرف یہ خط روانہ کروں کیونکہ آپ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر کے منصب پر فائز ہیں اور یہ ایسا ملک ہے جو سُپرپاور ہے …میری آپ سے بلکہ تمام عالمی لیڈروں سے یہ درخواست ہے کہ دنیا میں امن کے قیام کیلئے اپنا کردار ادا کریں…اللہ تعالیٰ آپ کو اور تمام عالمی لیڈروں کو یہ پیغام سمجھنے اور اس پر عمل کرنےکی توفیق بخشے۔‘‘
خلافت کے زیرِ سایہ حصارِ عافیت میں آنے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ کورونا وبا کے پھوٹنے کے بعد دنیا کے اکثر مذہبی حلقے جو اجتماعی عبادات بجا لاتے ہیں تذبذب کا شکار ہوکر افراط و تفریط میں مبتلا نظر آئے۔ مسلمان حلقوں میں مسجد کی جگہ گھروں میں پنج وقتہ نماز اور نمازِ جمعہ کی ادائیگی سے متعلق بحثیں چھڑ گئیں اور بعض جگہ تو نوبت تصادم تک پہنچی۔ کچھ نے ایسی زیادتی کی کہ باوجود رخصت کے مسجد میں حاضر ہوکر بلا احتیاط باجماعت نماز ادا کرنا ضروری قرار دیا اور نتیجۃً نقصان اٹھایا اور کچھ ایسے تھے کہ احتیاط کے نام پر عبادات کو ہی ترک کر بیٹھے۔ لیکن امام جماعت احمدیہ عالمگیر نے 27؍ مارچ 2020ء کو اپنے دفتر سے نشر کیے جانے والے خصوصی پیغام میں دنیا بھر کے احمدیوں کو وبائی حالات میں گھروں میں نمازیں اور جمعے ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔ اس پر خلیفۂ وقت کا دست و بازو، نظامِ سلسلہ حرکت میں آیا اور ہر ممکن ذریعہ سے احمدیوں کو گھروں میں عبادات بجا لانے کے مسائل سکھا ئے گئے۔ نتیجۃً ہر احمدی گھربلا تأمل گھروں میں عبادات بجا لانے لگا۔ الغرض جہاں امامِ وقت کو نہ ماننے والے تذبذب کا شکار ہوئے وہیں خلافت کی برکت سے نہ خوف اور پریشانی پیدا ہوئی اور نہ ہی فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی ہوئی۔ ایسا بھلا کیوں نہ ہوتا! وہ ’عافیت کے حصار‘ میں جو تھے۔
پس نظام خلافت کی اگر ایک طرف بنیادیں ایمان کی مستحکم چٹان پر قائم ہیں تو دوسری طرف اس کی فصیلیں عرش ربُّ العالمین کو چھو رہی ہیں جہاں خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اور حفظ و امان کے جلوے ہر وقت جلوہ فگن ہوتے ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں کے نتیجہ میں اور آپ کے تسلی اور حوصلہ دینے والے الفاظ کے ذریعہ سے افراد جماعت کو اطمینان قلب حاصل ہوتا ہےاور ان کو امن و امان کی ضمانت ملتی ہے۔
ایک جگہ حضور انور احمدیوں کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ دنیا بڑی خوفناک تباہی کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ نہ مسلمانوں میں انصاف رہا ہے، نہ غیر مسلموں میں انصاف رہا ہے اور نہ صرف انصاف نہیں رہا بلکہ سب ظلموں کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ پس ایسے وقت میں دنیا کی آنکھیں کھولنے اور ظلموں سے باز رہنے کی طرف توجہ دلا کر تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کا کردار صرف جماعت احمدیہ ہی ادا کر سکتی ہے۔ اس کیلئے جہاں ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے دائرے میں عملی کوشش کرنی چاہئے، وہاں عملی کوشش کے ساتھ ہمیں دعاؤں کی طرف بھی بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مسلمان ممالک کی ناانصافیوں اور شامتِ اعمال نے جہاں اُن کو اندرونی فسادوں میں مبتلا کیا ہوا ہے وہاں بیرونی خطرے بھی بہت تیزی سے اُن پر منڈلا رہے ہیں بلکہ اُن کے دروازوں تک پہنچ چکے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ بڑی جنگ منہ پھاڑے کھڑی ہے اور دنیا اگر اُسکے نتائج سے بے خبر نہیں تو لاپرواہ ضرور ہے۔ پس ایسے میں غلامانِ مسیح محمدی کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے دنیا کو تباہی سے بچانے کیلئے دعاؤں کا حق ادا کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا حق ادا کرنے والا بنائے اور دنیا کو تباہی سے بچا لے۔ ‘‘ (الفضل انٹرنیشنل17؍مئی2013ء)


تقریر دوم:


اس اجلاس کی دوسری تقریر محترم مولانا نعمت اللہ نواز صاحب نائب ناظم ارشاد وقف جدیدنے’’ تبلیغ اور دعوت الی اللہ کی اہمیت اور برکات‘‘ کے موضوع پر کی۔ فاضل مقرر نے سورۃ حٰم سجدہ آیت نمبر34وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ کی تلاوت کے بعدانبیاء اور مرسلین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت اوراللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق فتوحات اور دوسری اقوم پر ان کے غلبہ کا ذکر کرتے ہوئے آنحضور ﷺ کی قوت قدسیہ کا ذکر کیا کہ کس طرح آپ ﷺ نے جاہل طبع اور وحشی لوگوں کو با خدا انسان بنایا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام تبلیغ و دعوت الی اللہ کی اہمیت و برکات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں  :
حضرت رسول کریم ﷺ کے اصحاب کا نمونہ دیکھنا چاہئے۔ وہ ایسے نہ تھے کہ کچھ دین کے ہوں اور کچھ دنیا کے۔ وہ خالص دین کے بن گئے تھے اور اپنا جان و مال سب اسلام پر قربان کرچکے تھے۔ ایسے ہی آدمی ہونے چاہئیں جو سلسلہ کے واسطے واعظین مقرر کئے جائیں ۔ وہ قانع ہونےچاہئیں اور دولت و مال کا ان کو فکر نہ ہو ۔ حضرت رسول کریم ﷺجب کسی کو تبلیغ کے واسطے بھیجتے تھے تو وہ حکم پاتے ہی چل پڑتا تھا نہ سفر خرچ مانگتا تھااور نہ ہی گھر والوں کے افلاس کا عذر پیش کرتا تھا۔ یہ کام اُس سے ہوسکتا ہے جو اپنی زندگی کو اس کیلئے وقف کردے۔ متقی کو خداتعالیٰ آپ مدد دیتا ہے وہ خدا کے واسطے تلخ زندگی کو اپنے لئے گوارا کرتا ہے…خدا اسکو پیا ر کرتا ہے جو خالص دین کے واسطے ہوجائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کچھ آدمی ایسے منتخب کئے جائیں جو تبلیغ کے کام کے واسطے اپنے آپ کو وقف کردیں اور دوسری کسی بات سے غرض نہ رکھیں ۔ ہر قسم کے مصائب اُٹھائیں اور ہر جگہ جائیں اور خدا کی بات پہنچائیں ۔ صبر اور تحمل سے کام لینے والے آدمی ہوں ۔ ان کی طبیعتوں میں جوش نہ ہو۔ ہر ایک سخت کلامی اور گالی کو سن کر نرمی کےساتھ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہوں ۔ جہاں دیکھیں کہ شرارت کا خوف ہے وہاں سے چلے جائیں اور فتنہ فساد کے درمیان اپنے آپ کو نہ ڈالیں اور جہاں دیکھیں کہ کوئی سعید آدمی ان کی بات کو سنتا ہے اس کو نرمی سے سمجھائیں ۔جلسوں اور مباحثوںکے اکھاڑوں سے پرہیز کریں کیونکہ اس طرح فتنہ کا خوف ہوتا ہے۔ آہستگی اور خوش خلقی سے اپنا کام کرتےہوئےچلے جائیں ۔
(ملفوظات، جلد 7،صفحہ نمبر 1)
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو تبلیغ و دعوت الی للہ کا بے انتہا شوق تھا ۔ آپ کا اپنا نمونہ یہ تھا کہ حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا:
پاخانہ پیشاب پر بھی مجھے افسوس آتا ہے کہ اتنا وقت ضائع ہو جاتا ہے، یہ بھی کسی دینی کام میں لگ جائے۔ اور فرمایا:کوئی مشغولی اورتصرف جو دینی کاموں میں حارج ہو اور وقت کا کوئی حصہ لے ،مجھے سخت ناگوار ہے۔ نیز فرمایا : جب کوئی دینی ضروری کام آپڑے تو میں اپنے اوپر کھانا پینا اور سونا حرام کر لیتا ہوں، جب تک وہ کام نہ ہوجائے۔ فرمایا: ہم دین کیلئے ہیں اور دین کی خاطر زندگی بسر کرتے ہیں۔ بس دین کی راہ میں ہمیں کوئی روک نہ ہونی چاہئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں  :
’’آج دُنیا کے جو حالات ہیں احمدی ہی دُنیا کو بتا سکتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ سے دُوری کا نتیجہ ہے۔ ہمارا کام تبلیغ کرنا ہے ہدایت دینا یا نہ دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ انسان عالم الغیب نہیں ہے اس لئے ہم نہیں جانتے کہ کس شخص پر اثر ہوگا اس لئے ہم نتائج کے بارہ میں ذمہ دار نہیں ہیں۔ ہم سے بس اتنا پوچھا جائے گا کہ کیا ہم نے اپنا تبلیغ کا فرض پورا کیا ہے یا نہیں اور اپنی حیثیت کے مطابق لوگوں تک پیغام پہنچایا ہے یا نہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ مؤرخہ 8 ستمبر 2017ء)


تقریر سوم:


اس اجلاس کی تیسری تقریر مکرم عطاء المجیب لون صاحب صدر مجلس انصار اللہ بھارت نے ’’حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے قبولیت دُعا کے ایمان افروز واقعات اور دعاؤں کےمتعلق حضور انور کی تحریکات و نصائح‘‘ کے موضوع پر کی۔
آپ نے سورۃ انفال آیت 25 يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ۝۰ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہٖ وَاَنَّہٗٓ اِلَيْہِ تُحْشَــرُوْنَ کی تلاوت کی اور فرمایا کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور آنحضرت ﷺ کی بشارات کے مطابق خلافت کا نظام جماعت احمدیہ میں قائم ہے۔قبولیت دعا کے ذریعہ جس طرح حضرت مسیح موعود ؑ اپنے ماننے والوں کو روحانی طور پر زندہ کرتے رہے اُسی طرح آپؑکے بعد آپ کی جانشینی میں ہر خلیفۂ وقت بھی زندہ کرتا رہا اور اب بھی یہ سلسلہ خلافت خامسہ میں اپنی پوری شان کے ساتھ جاری ہے۔
دعا کی اہمیت و برکات کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں  :
دعا ایک زبردست طاقت ہے جس سے بڑے بڑے مشکل مقام حل ہو جاتے ہیں اور دُشوار گزار منزلوں کو انسان بڑی آسانی سے طے کر لیتا ہے۔جو شخص کثرت سے دعاؤں میں لگا رہتا ہے وہ آخر خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو کر اپنے مقاصد کو پا لیتا ہے۔یقینا سمجھو کہ دعا بڑی دولت ہے۔ جو شخص دعا کو نہیں چھوڑتا اُسکے دین اور دنیا پر آفت نہ آئے گی۔ وہ ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہے جس کے ارد گرد مسلح سپاہی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں۔ لیکن جو دعاؤں سے لاپروا ہے وہ اُس شخص کی طرح ہے جو خود بے ہتھیار ہے اور اس پر کمزور بھی ہے اور پھر ایسے جنگل میں ہے جو درندوں اور موذی جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔ وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی خیر ہرگز نہیں ہے۔ ایک لمحے میں وہ موذی جانوروں کا شکار ہو جائے گا۔ اور اس کی ہڈی بوٹی نظر نہ آئے گی۔ اس لئے یاد رکھو کہ انسان کی بڑی سعادت اور اُس کی حفاظت کا اصل ذریعہ ہی یہی دعا ہے۔ یہی دعا اُس کیلئے پناہ ہے اگر وہ ہر وقت اُس میں لگا رہے۔ (ملفوظات، جلدنمبر 7،صفحہ 192، مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)
بعدہٗ فاضل مقرر نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قبولیت دعا کے ایمان افروز واقعات بیان فرمائے اور آخر پر حضور انور کا درج ذیل ارشاد پڑھ کر سنایا :
’’ آج ہم نے نہ صرف اپنی بقا کیلئے، اپنی ذات کی بقا کیلئے، اپنے خاندان کی بقا کیلئے، جماعت احمدیہ کی ترقیات کیلئے دعاؤں کی طرف توجہ دینی ہے بلکہ امت مسلمہ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر پوری انسانیت کی بقا کیلئے دعاؤں کی طرف توجہ کرنی ہے جس کی آج بہت ضرورت ہے۔ پس ہر احمدی کو ان دنوں میں (ان دنوں سے میری مراد ہے ہمیشہ ہی) اور آج کل خاص طور پر جب حالات بڑے بگڑ رہے ہیں، بہت زیادہ اپنے ربّ کے حضور جھک کر دعائیں کرنی چاہئیں۔ مضطر کی طرح اسے پکاریں۔ بے قرار ہوکر اسے پکاریں۔ آج امت مسلمہ جس دور سے گزر رہی ہے اور مسلمان ممالک جن پریشانیوں میں مبتلا ہیں اس کا حل سوائے دعا کے اور کچھ نہیں۔ اور دعا کے اس محفوظ قلعے میں جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر فرمایا آج احمدی کے سوا اور کوئی نہیں۔ پس امت مسلمہ کیلئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اندرونی اور بیرونی فتنوں سے نجات دے۔ ان کو اس پیغام کو سمجھنے کی توفیق دے جو آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت ﷺ نے مسلم امت کو دیا تھا۔ یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا سے ظلم ختم کرے۔ انسان اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف رجوع کرے۔ اسے پہچان کر اپنی ضدوں اور اناؤں کے جال سے باہر نکلے۔ خداتعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کو آواز نہ دے بلکہ اسکی طرف جھکے۔ اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو سمجھنے والاہو، اس بات کو سمجھنے والا ہو کہ میری طرف آؤ،خالص ہو کر مجھے پکارو تاکہ میں تمہاری دعاؤں کو سن کر اس دنیا کو جس کو تم سب کچھ سمجھتے ہو، جو کہ حقیقت میں عارضی اور چند روزہ ہے، تمہارے لئے امن کا گہوارہ بنا دوں تاکہ پھر نیک اعمال کی وجہ سے تم لوگ میری دائمی جنت کے وارث بنو۔ (خطبہ جمعہ 11اگست 2006ء)
…٭…٭…٭…


تیسرا دن اختتامی اجلاس


آج تیسرے دن کے اختتامی اجلاس کا آغاز حسبِ روایات سلسلہ تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزم سفیر الدین نے کی جس کاترجمہ مکرم مولوی نورالدین صاحب ناصر نے پیش کیا۔مکرم مولوی نصرمن اللہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پاکیزہ منظوم کلام خوش الحانی سے سنایا۔بعدہٗ مکرم ناظر صاحب اعلیٰ صدرانجمن احمدیہ قادیان نے شکریہ احباب پیش کرتے ہوئے مقامی طورپر اختتامی دعا کروائی۔بعدہٗ جلسہ سالانہ قادیان 2022 کی خوبصورت جھلکیاں بصورت ڈاکومنٹری ایم ٹی اے انٹرنیشنل سے دکھائی گئیںجسے تمام حاضرین، جلسہ گاہ میں بیٹھے ہوئے پورے ذوق و شوق اور انہماک سے سنتے اور دیکھتے رہے۔ یہ ایک ڈاکومنٹر ی تھی جس میں تینوںدن کے جلسہ گاہ کے پروگراموں کے علاوہ جلسہ سالانہ کے انتظامات ، مہمانوں کی آمداور ان کا جوش وجذبہ، نمائشیں اورقادیان کے مقدس مقامات کی جھلکیاں بھی دکھائی گئیں۔


لندن سے نشریات


حسب سابق امسال بھی سیدنا حضورانورایدہٗ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ قادیان کے آج کے اختتامی اجلاس سے حاضرین کو ازراہ شفقت خطاب کرنا تھا۔ اس کے لئے لندن میں باقاعدہ اسٹیج بنایا گیا تھا اور اس پر ویسا ہی بینر لگایا گیا تھاجیسا کہ قادیان کے اسٹیج پر لگایا گیا تھا۔حضور پُرنور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہندوستانی وقت کے مطابق ٹھیک 4 بجے جلسہ گاہ کے ہال میں تشریف لائے اور اسٹیج پر رونق افروز ہوئے۔ تلاوت قرآن کریم مکرم فیروز عالم صاحب نے کی اور تلاوت شدہ آیات کا اُردو ترجمہ بھی پیش کیا۔ نظم مکرم ناصرعلی عثمان نے پیش کی ۔بعدہٗ نعرۂ تکبیر کی پُرجوش اور ولولہ انگیز صداؤں کے جلومیں سیدنا امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ڈائس پر تشریف فرماہوئے اور نہایت بصیرت افروز خطاب شروع فرمایا۔
خلاصہ خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کے جلسہ سالانہ کا آخری دن ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تین دن اللہ تعالیٰ کی برکات سمیٹتے ہوئے گزر گئے۔ بعض افریقن ممالک جن میں نائیجیریا، آئیوری کوسٹ، گنی بساؤ، گنی کناکری، ٹوگو، برکینا فاسو، مالی اور زمبابوے شامل ہیں یہاں بھی ان دنوں میں جلسہ سالانہ ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایم.ٹی.اے کے ذریعہ ہمیں ایک دوسرے کو دیکھنے اور سننے کی بھی توفیق دی ہے۔ ایک ہی وقت میں تمام ملک میری باتیں سن رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں اور ہم ان کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اپنے وعدے کو پورا کرنے کا اظہار ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس جلسہ کا مقصد دینی و روحانی اور اخلاقی ترقی بیان فرمایا اور اس پر بہت شدت سے زور دیا۔ یہی مقصد ہے جسکے حصول کیلئے آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں جہاں جماعت احمدیہ باقاعدہ قائم ہے جلسہ سالانہ منعقد ہوتا ہے۔ 1891ء کے مختصر جلسہ میں 75 افراد شامل تھےاورجو چند گھنٹوں میں ختم ہو گیا تھا ۔ اور 1892ء کے باقاعدہ جلسہ میں 327 ؍افراد شامل ہوئے۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش اس قدر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ملک میں ہمیں ہزاروں کی تعداد میں شاملین دکھا رہا ہے۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کا اور اسکے وعدوں کا جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے ثبوت نہیں ہے۔ یقینا ًہے۔ اگر اعتراض کرنے والوں اور عقل کے اندھوں کی آنکھیں بند نہ ہوں تو یہی ایک بات انہیں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی دکھانے کیلئے کافی ہے۔ بہرحال ان کو نظر آئے یا نہ آئے یہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہیں اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدوں کا پورا ہونا ہے جس کے نظارے ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ یہ صرف منہ کی بات نہیں، سب دنیا دیکھ رہی ہے، کیمرے کی آنکھ اور ٹی وی کی سکرین ہمیں یہ نظارے دکھلا رہی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے اس فضل و احسان پر ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں۔ ہم جلسہ میں شامل ہونے کیلئے جمع تو ہو گئے، دنیا میں مختلف جگہوں پر بیٹھے ہوئے سن بھی رہے ہیں اس کے نظارے بھی دیکھ رہے ہیں لیکن ہمیں اس فضل سے فیض اٹھانے اور اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کرنی ہوں گی اور اپنے عہد اور اپنے وعدے کو جو ہم نے جماعت میں شامل ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا ہے پورا کرنا ہو گا۔ اس کیلئے ہمیں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی۔
جلسہ سالانہ کے حوالے سے عائدہونے والی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضورانور نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر ہم نے اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں اور اُسوہ کے مطابق کرنے اور شرائط بیعت کی پاسداری کرنے کاعہد کیاہے۔ان شرائط بیعت میں سے دوسری شرط بیعت کے حوالے سے کچھ باتیں کروں گا۔ اگر اسکے مطابق ہم اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں تو اپنے اندر بھی اور دنیا میں بھی ایک انقلاب عظیم پیدا کر سکتے ہیں۔ ہم نے جو عہد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا ہے اس کی دوسری شرط یہ ہے کہ :
’’جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔‘‘
حضور پُرنورنے فرمایا:اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نو برائیوں کا ذکر کر دیا ہے اور یہ برائیاں ایسی ہیں جن کو چھوڑنے سے انسان روحانی اور اخلاقی طور پر ترقی کر سکتا ہے۔
حضور پُرنُور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مذکورہ بالا برائیوں سے بچنے کے متعلق قرآن کریم و احادیث مبارکہ میں جو احکامات بیان ہوئے ہیں اُنہیں بیان کرنے کے بعد اس تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات بھی پیش فرمائےاور موجودہ حالات میں اِن برائیوں نے انسانی اخلاق پر جو انتہائی زہریلا اثر چھوڑا ہے ، اور ان برائیوں سے فی زمانہ بچنے کی کس قدر اہمیت و ضرورت ہے، اس پر آپ نے تفصیلی روشنی ڈالی۔
حضور انور نے جھوٹ کے متعلق فرمایا کہ سب سے اہم بات ہمیں یہ یاد رکھنی چاہئے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم کرنے کیلئے کی ہے۔ اگر ہم نے جھوٹ کا سہارا لینا شروع کر دیا تو پھر ہم خدا کی بادشاہت قائم کرنے کی بجائے شیطان کی بادشاہت دنیا میں قائم کرنے والے بن رہے ہوں گے۔ پس بہت فکر اور سوچنے کا مقام ہے۔
پھر زنا سے بچنے کے متعلق فرمایاکہ آجکل کے زمانے میں تو میڈیا نے اسکے پھیلانے کی تمام حدیں توڑ دی ہیں ۔ ان فحشاء کی ترویج بھی اصل میں دہریت پھیلانے والوں کا ایجنڈا ہے جو انسان کوخدا تعالیٰ سے اور مذہب سے دُور لے جانا چاہتے ہیں ۔ پس ہمیں بہت کوشش سے اس جہاد میں بھی حصہ لینا ہو گا۔
پھر بدنظری سے بچنے کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں،قرآن شریف میں یہ بھی تعلیم ہے کہ بدن کے اُن تمام سوراخوں کومحفوظ رکھیں جن کی راہ سے بدی داخل ہوسکتی ہے۔ اس حکم کی وسعت صرف ظاہری طور پر دیکھنے تک نہیں ہے، بلکہ آجکل جو میڈیا دکھاتا ہے، یا کمپیوٹر ہے، یا ٹی وی پر جو غلط اور ننگے پروگرام آتے ہیں ان تک بھی اس حکم کی وسعت پھیلی ہوئی ہے۔پس ایسے پروگراموں کے دیکھنے سے بھی ہمیں احتیاط کرنی چاہئے ۔نوجوانوں کو خاص طور پر اس طرف توجہ دیناچاہئے ۔ حضور انور نے فرمایا اس تعلق میں تو بعض بڑوں کی بھی شکایات آتی ہیں۔اگر اللہ تعالیٰ کی رضا ہم نے حاصل کرنی ہے تو پھر اس قدر باریکی میں جا کر ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہو گی اور اپنے بچوں کو بھی سمجھانا ہو گا۔
حضور پُرنورنے فرمایا: پھر ایک برائی جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کو خاص طور بچنے کی تلقین فرمائی ہے اور اسے شرائط بیعت میں رکھ کر عہد لیا ہے وہ ہے فسق و فجور۔ فرمایا: یہ فسق آجکل دنیا میں ہر جگہ ہر شہر میں پھیلا ہوا ہے۔ پس ہمیں اپنی اور اپنے بچوں کی اس لحاظ سے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔
فرمایا:پھر جس بات پر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عہد بیعت کیا وہ خیانت نہ کرنا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خیانت ، ہر قسم کے ظلم،فساد اور بغاوت کےطریق اورنفسانی جوشوں سے ہمیشہ بچتے رہنے سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات پیش فرمائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: وہ بات مانو جس پر عقل اور کانشس کی گواہی ہے۔ اور خدا کی کتابیں اس پر اتفاق رکھتی ہیں۔ خدا کو ایسے طور سے نہ مانو جس سے خدا کی کتابوں میں پھوٹ پڑ جائے۔زنا نہ کرو، جھوٹ نہ بولو اور بدنظری نہ کرو اور ہر ایک فسق اور فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کی راہوں سے بچو۔ اور نفسانی جوشوں سے مغلوب مت ہو اور پنج وقت نماز ادا کرو کہ انسانی فطرت پر پنج طور پر ہی انقلاب آتے ہیں اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شکر گزار رہو ۔ اس پر درود بھیجو کیونکہ وہی ہے جس نے تاریکی کے زمانے کے بعد نئے سرے خدا شناسی کی راہ سکھائی ہے۔
حضور پُرنورنے فرمایا: پس یہ ہے ہمارا لائحہ عمل ۔ اگر ہم اسکے مطابق عمل کر لیں تو ہم ایک عظیم انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ ہرایک شرط بیعت اپنے اندر بے پناہ حکمتیں رکھے ہوئے ہے۔ ایک احمدی کو اپنے ایمان کو صیقل کرنے کیلئے ان پر غور کرتے رہنا چاہئے تبھی ہم بیعت کے حق ادا کرنے والے بن سکیں گے۔ جیسا کہ میں نے کہا وقت کی رعایت سے میں نے صرف ایک شرط بیعت کو بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ پس جلسہ سالانہ میں شاملین چاہے وہ قادیان میں شامل ہونے والے ہیں یا افریقہ کے ممالک کے،جہاں جلسے ہو رہے ہیں وہاں بیٹھے ہوئے جلسے سن رہے ہیں یا وہ سننے والے جو دنیا میں مختلف جگہوں پر بیٹھے ہیں اور ایم.ٹی.اے کے ذریعہ سے جلسہ سن رہے ہیں ہم سب کیلئے ایک لائحہ عمل ہے یہ۔
حضور پُرنور ایدہ اللہ نے فرمایا: آج لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کو بنے ہوئے بھی سو سال ہو گئے ہیں لجنہ کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جائزہ لیں کہ اس سو سال میں کس حد تک لجنہ نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کی ہے اور بیعت کا حق ادا کرنے والا اپنے آپ کو بنایا اور کوشش کی اور کس حد تک اپنے بچوں اور اپنی نسل کو بیعت کا حق ادا کرنے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعاوی سے جوڑنے والا اور ماننے والا بنایا ہے۔ اگر ہم نے اسکے مطابق اپنی نسلوں کی اُٹھان کی ہے تو یقیناً لجنہ اماء اللہ کی ممبرات اللہ تعالیٰ کی شکر گزار بندیاں ہیں۔ پس یہ جائزے آج لینے کی ضرورت ہے اور جہاں کمیاں رہ گئی ہیں وہاں ایک عزم کے ساتھ عہد کریں کہ ہم نے لجنہ کی اگلی صدی میں اس عہد کے ساتھ قدم رکھنا ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو عہد بیعت کا حق ادا کرنے والا بنائیں گی۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اسی طرح ہر شامل جلسہ جو کسی بھی طرح جلسہ میں شامل ہے یہ عہد کرے کہ ہم نے پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنی ہے اور عہد بیعت کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ نبھانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
قادیان میں جو جلسہ کی حاضری تھی جو کچھ دیر پہلے آ گئی تھی اس کے مطابق وہاں تقریباً ساڑھے چودہ ہزار لوگ موجود ہیں اور سینتیس ممالک کی وہاںنمائندگی ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جلسہ سے فیض پانے کی توفیق عطا فرمائے۔ دنیا میں ہر جگہ جہاں لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جن ملکوں کے میں نے نام لئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی جلسہ سے فیض پانے کی توفیق عطا فرمائے۔ دعا کرلیں اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفظ و امان میںرکھے۔
اسکے بعدحضورانورنے دعاکروائی اور ایم ٹی اے کی وساطت سے پوری دُنیا سے احمدی اس دُعا میں شامل ہوئے۔بعدہٗ قادیان سے مردانہ وزنانہ جلسہ گاہ سے ترانے پیش کئے گئے۔آخر پر حضور انور نے مسجد مبارک اسلام آبادمیںموجود احباب کی حاضری 1404، اوربیت الفتوح کی حاضری 1200 ، اور مسجد فضل کی حاضری 400 بتائی اور فرمایا کہ یوکے دیگر مراکز میں بھی اجتماعی طور پر احباب شامل ہیں اس طرح یوکے ہی میں ہزاروں کی تعداد میں شاملین ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس جلسہ کے جملہ فیوض وبرکات وانوار کوہماری زندگیوں کا مستقل حصہ بنائے اور نسلاً بعد نسلٍ اس کا فیض ہمیشہ جاری وساری رہے۔آمین۔
…٭…٭…٭…


جلسہ مستورات


مورخہ 25 دسمبر 2022،جلسہ سالانہ قادیان کے تیسرے روز کے پہلے سیشن میں لجنہ اماءِ اللہ بھارت نے اپنا جلسہ منعقد کیا۔ اجلاس کی صدارت محترمہ بشریٰ طیبہ غوری صاحبہ اعزازی ممبر لجنہ اماء اللہ بھارت نے کی۔ مکرمہ امۃ الرحمٰن خادم صاحبہ نے تلاوت کی اور اُردو ترجمہ پیش کیا۔ مکرمہ امۃ الباسط بشریٰ صاحبہ نے حضرت مسیح  موعود علیہ السلام کا پاکیزہ منظوم کلام پڑھا۔ اجلاس کی پہلی تقریر محترمہ ڈاکٹر منصورہ الہ دین صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ قادیان نے ’’ تربیت اولاد اور احمدی ماؤں کی ذمہ داریاں، محبت الٰہی، نماز، تلاوت، خلافت سے محبت اور اعلیٰ اخلاق‘‘ کے عنوان پر کی۔ اسکے بعد مکرمہ مریم صدیقہ صاحبہ آف کڈلائی کیرلہ نے نظم ’’ بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے‘‘ پڑھی۔ اجلاس کی دوسری تقریر محترمہ بشریٰ پاشا صاحبہ نے ’’لجنہ اماء اللہ کی نئی صدی کا آغاز اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان پر کی۔ اس کے بعد کیرلہ کی ممبرات نے بزبان ملیالم ترانہ پیش کیا۔ بعدہٗ صدر اجلاس نے سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ و ناصرات الاحمدیہ بھارت کے موقع پر موصول ہونے والا حضور انور کا بصیرت افروز پیغام پڑھ کر سنایا اور دعا کروائی۔
…٭…٭…
مورخہ 21 دسمبر تا 27 دسمبر مسجد اقصی اور مسجد انوار میںاور جلسہ کے تین دن قادیان کی تمام مساجد میں باجماعت نماز تہجد کا اہتمام کیا گیا۔ تہجد کی نماز کیلئے شعبہ تربیت کی طرف سے جگانے کا انتظام تھا۔ درود شریف اور پاکیزہ اشعار پڑھ کر نماز تہجد کیلئے احباب کو بیدار کیا گیا۔نماز فجر کے بعد تفسیر کبیر سے قرآن مجید کا درس دیا گیا۔قادیا ن کے تمام محلہ جات اور جلسہ گاہ میں تربیتی بینرز لگائے گئے۔
…٭…٭…
جلسہ کےتینوں دن سردی اپنے عروج پرتھی تاہم احباب نے پورے ذوق و شوق کے ساتھ جلسہ سنا۔ حضور انور ایدہ اللہ کے خطاب کے وقت باوجود موسم بہت سرد ہونے کے جلسہ گاہ کھچاکھچ بھرا ہوا تھااور احباب نے ہمہ تن گوش ہوکر حضور انور کا بصیرت افروز خطاب سنا۔افریقہ کے کئی ممالک کے جلسے بھی انہی دنوں میں تھے وہ بھی اپنے اپنے جلسہ گاہ میں ہزاروں کی تعداد میں بیٹھے ہوئے حضور انور کا خطاب سن رہے تھے۔یہ نظارہ بہت ہی شاندار اور بصیرت افروز تھا۔حضور انور نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ یہ بھی احمدیت کی صداقت کی ایک دلیل ہے۔ جلسہ گاہ میں نصب بڑی بڑی LED میں افریقن ممالک میں جلسہ گاہ میں بیٹھے ہوئے احباب کا نظارہ بار بار دکھایا جارہا تھا۔اسی طرح قادیان کا جلسہ گاہ ، بہشتی مقبرہ ، مسجد مبارک ، مسجد اقصیٰ اور منارۃ المسیح کا نظارہ بھی دکھایا جارہا تھا۔رات کے وقت منارۃ المسیح اور مسجد اقصیٰ کا سفید روشنیوں میں نہایا ہوا نظارہ بہت ہی پرکشش اور دلکش تھا۔
…٭…٭…
جلسہ سالانہ کی مکمل کارروائی لائیو اسٹریمنگ کے ذریعہ دکھائی جاتی رہی جس سے نہ صرف ہندوستان کی جماعتوں نے بھرپور استفادہ کیابلکہ بیرون ملک بھی جلسہ کا پروگرام دیکھا گیا شعبہ سمعی بصری کےمطابق بیاسی ہزار پانچ سو افراد نے لائیو اسٹریمنگ کے ذریعہ جلسہ سالانہ کی کارروائی دیکھی اور سنی۔
…٭…٭…
امسال مہمانوں کی رہائش کیلئے 22 قیام گاہیں تیار کی گئیں۔35 نظامتوں کے ناظمین، نائب ناظمین و معاونین دن رات خدمت بجالانے میں مصروف رہے۔ 3 لنگر خانوں میں کھانے تیار کئے گئےجبکہ روٹی پلانٹ میں جدید مشین کے ذریعہ دن رات ہزاروں کی تعداد میں مہمانوں کیلئے روٹیاں بنتی رہیں۔
…٭…٭…
مردانہ جلسہ گاہ سے9زبانو ں میں تقاریر و دیگر پروگراموں کاترجمہ کیاگیا۔(1) انگریزی (2) بنگلہ (3) کنڑ (4) ملیالم (5) تامل (6) تیلگو (7) عربی (8) انڈونیشین (9) رشین۔ جبکہ سیدناحضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ اور اختتامی خطاب اور ڈاکومنٹری کا ترجمہ رواں کیاگیاہے۔ترجمہ سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد روزانہ تقریباً ایک ہزار تھی۔دوزبانوںتامل اورملیالم میں ترجمہ Live Streamingکے ذریعہ بھی نشر ہوتا رہا ہے۔مستورات کے جلسہ میںاِن 5 زبانوں میں ترجمہ کیاگیاہے۔(1)انگریزی(2)بنگلہ (3)ملیالم (4) تامل(5)انڈونیشن۔
…٭…٭…
جلسہ کے موقع پر احباب کرام کی خواہش ہوتی ہے کہ قادیان کی مقدس بستی میں ان کے بچوں کے نکاحوں کے اعلانات ہوں ۔ چنانچہ جلسہ کے دوسرے دن بعد نماز مغرب و عشاء مسجد دارالانوار میں نکاحوں کے اعلانات ہوئے۔
…٭…٭…
جلسہ سالانہ قادیان کا ایک اہم شعبہ’’شعبہ خدمت خلق‘‘بھی ہے ، جس کے تحت بنیادی طور پر نظم وضبط اور حفاظتی ڈیوٹیاںسرانجام دی جاتی ہیں۔ امسال ہندوستان کی مختلف صوبہ جات کی مجالس سے 536 خدام رضا کاران شعبہ خدمت خلق کے تحت خدمات سرانجام دینے کیلئے قادیان تشریف لائے۔ اور قادیان کے کم و بیش 300 خدام نے بھی اس شعبہ کے تحت ڈیوٹیاں سرانجام دیں۔ اس کے علاوہ انصارصف دوم کی ایک ٹیم اور لجنہ اماء اللہ کی ایک ٹیم نے بھی شعبہ خدمت خلق کے تحت خدمات بجا لا رہی تھیں۔
…٭…٭…


قادیان دار الامان سے لائیو عربی نشریات بعنوان


اِسْمَعُوْا صَوْتَ السَّمَاء جَآءَ الْمَسِیْح جَآءَ الْمَسِیْح
قادیان دار الامان سے عربی پروگرام ’’اِسْمَعُوْا صَوْتَ السَّمَاءِ جَآءَ الْمَسِیْح جَآءَ الْمَسِیْح‘‘ کی نشریات مورخہ 15 تا 17 دسمبر 2022 بروز جمعرات، جمعہ اور ہفتہ ہندوستانی وقت کے مطابق رات30:10 تا 30:12 لائیو نشر ہوا جس میں قادیان اسٹوڈیو سے مکرم محمد شریف عودہ صاحب امیر جماعت احمدیہ کبابیر بطور میزبان اور مکرم محمد طاہر ندیم صاحب عربی ڈیسک لندن، مکرم ایمن المالکی صاحب آف کبابیر، مکرم راشد خطاب صاحب آف کبابیربطور مجیب شامل ہوئےاور ورچوئل طریق پر مصر سے ڈاکٹر اسامہ عبد العظیم صاحب اور کینیڈا سےمکرم ڈاکٹر وسام البراقی صاحب شامل ہوئے۔اس سہ روزہ پروگرام میں ’’عصر حاضر میں امام کی ضرورت‘‘ پر گفتگو ہوئی۔ علماء کرام نے احسن رنگ میں سوالات کے جوابات دئیے۔ پروگرام میں اس بات کا خصوصی تذکرہ کیا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس طرح لوگوں کی اصلاح کی اور ایک عظیم روحانی انقلاب برپا کیا۔
بعض احباب کے تأثرات
ضمکرم احمد شیبہ صاحب آف الجیزہ نے کہا کہ امام الزمان مسیح موعود کے ذریعہ پیدا کردہ روحانی انقلاب کی باتیں سن کر مجھے اپنی حالت یاد آگئی کہ بیعت سے قبل میری کیا حالت تھی اور اب کیا حالت ہے۔جماعت احمدیہ میں داخل ہوکر مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ میں اپنے آپ ہی شیطان سے نہیں لڑ سکتا تھا۔شیطان سے لڑنے کیلئے الٰہی خلیفہ کی بیعت ضروری ہے تا اس کی روحانی قوت سے اپنے آپ کو شیطان سے محفوظ رکھاجاسکے۔
ضمکرم عبد الرحمن صاحب آف فلسطین نے کہا کہ آپ کے پروگرام کا یہی خلاصہ ہے کہ جتنی بھی دنیا میں روحانی بیماریاں ہیں ان کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے مامور کو پہچاننا اور اس کی بیعت کرنا۔ اس کے بغیر روحانی امراض کا علاج نہیں کیا جا سکتا۔
ضمکرمہ مہا عودہ آف کبابیرنے کہا کہ mta3 العربیہ کے ذریعہ اس پروگرام نے ہمارے ایمانوں کو بڑھایا ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہمیں حضرت مسیح موعود ؑ سے مزید قربت ہو گئی ہے۔یہ پروگرام ہمارے ازدیاد علم کا بھی موجب رہا۔ ہمارے دل اس قسم کے پروگرامز کیلئے پیاسے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے۔
ضمکرم عصام الحورانی صاحبنے کہا کہ اللہ آپ سب کے کاموں میں برکت عطا فرمائے۔ آپ جو موضوع پیش کر رہے ہیں وہ انتہائی اہم ہے اور لوگوں کو اس طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ لوگوں کو سنجیدگی سے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرستادہ کی طرف آنا چاہئےکیونکہ دنیا کی تمام طاقتیں دنیا میں امن قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اور حقیقی الٰہی خلافت ہی امن قائم کر سکتی ہے کیونکہ وہی اللہ کی زمین میں مثیل ہے۔
ضمکرم محمد الکیال صاحب آف جرمنی نے کہا کہ ان پروگرامز کو دیکھنے کے بعد میں نے اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے اس جماعت کے ساتھ منسلک ہونے کی توفیق بخشی اور اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کی بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ ان پروگرامز کی وجہ سے میں جماعت سے اور خلافت سے مزید محبت کرنے لگا ہوں اور اس مبارک جماعت کی خدمت کیلئے مزید جذبہ پیدا ہوا۔
اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ قادیان کے بےحد بابرکت اور دور رس نتائج پیدا کرے اور تمام کارکنان کارکنات اور خدمت کرنے والوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔٭