(2388)حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مَیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھاجب آپؐنے اُحد پہاڑ کو دیکھا تو آپؐنے فرمایا یہ (پہاڑ)میرے لئے سونا بنادیا جائے تو بھی مجھے پسند نہیں کہ اس میں سے ایک دینار میرے پاس تین دن سے زیادہ رہے، بجز اُس دینار کے جو قرضہ اَدا کرنے کیلئے رکھوں۔ پھر آپؐنے فرمایا جتنا زیادہ کوئی دولت مند ہے اتناہی زیادہ وہ محتاج ہے ، سوائے اُس شخص کے جو مال اس اس طرح خرچ کرے۔
اِنَّ الْاَکْثَرِیْنَ ھُمُ الْاَقَلُّوْنَ:حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب فرماتے ہیں :یہ جملہ جو امع الکلم میں سے ہے اوراس کا مفہوم یہ ہے کہ دولتمندی روپیہ جمع کرنے میں نہیں ہے بلکہ اکثر دولت مند اخلاق فاضلہ سے محروم ہونے کی وجہ سے تہی دست ہیں۔ دولت مندی دولت جمع کرنے میں نہیں بلکہ دائیں بائیں خرچ کرنے میں ہے یعنی دینی اور دنیاوی ضرورتوں میں خرچ کرنے سے دولت کی غرض پوری ہوتی ہے ۔ وہ شخص جس نے روپیہ جمع رکھا اور حقوق کی ادائیگی میں خرچ نہ کیا، وہی سب سے زیادہ قلاش ہے۔ مگر جس شخص نے اپنی دولت سے حقوق ادا کیے، وہی دراصل غنی ہے کہ اس نے دولت کی اصل غرض حاصل کر لی ۔ آنحضرت ﷺ کا دولت سے متعلق یہ نظر یہ غایت درجہ حکیمانہ ہے اور آپؐکی پاکیزہ صفات نفس کی وسعت آپؐکے اس قول سے ظاہر ہے کہ اگر اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی آپؐکے پاس ہو تو اس سے آپؐکی خوشی صرف اس وقت پوری ہوگی کہ جب حقوق کی ادائیگی میں وہ سب کا سب خرچ ہوجائے۔
(صحیح بخاری ، جلد 4،کتاب الاستقراض،، مطبوعہ 2008قادیان )