اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ-
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ
اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَ
قرآنِ کریم کا مقام اور مرتبہ اور محاسن گذشتہ چند ہفتوں سے بیان ہو رہے ہیں۔ اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ قرآن کے نزدیک مذہب کا منصب کیا ہے اور انسانی قویٰ پر اس کا کیا تصرف ہےاور ہونا چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’ یہ سوال کہ مذہب کا تصرف انسانی قویٰ پر کیا ہے انجیل نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔کیونکہ انجیل حکمت کے طریقوں سے دور ہے۔ لیکن قرآنِ شریف بڑی تفصیل سے بار بار اس مسئلہ کو حل کرتا ہے کہ مذہب کا یہ منصب نہیں ہے کہ انسانوں کی فطرتی قویٰ کی تبدیل کرے اور بھیڑئیے کو بکری بنا کر دکھلائے۔‘‘ یعنی طاقتور کو بالکل ہی کمزور بنا کر دکھائے ’’بلکہ مذہب کی صرف علت غائی یہ ہے کہ جو قویٰ اور ملکات فطرتاً انسان کے اندر موجود ہیں۔‘‘ جو صلاحیتیں ہیں جو طاقتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کو دی ہوئی ہیں ’’ان کو اپنے محل اور موقعہ پر لگانے کے لئے رہبری کرے۔مذہب کا یہ اختیار نہیں ہے کہ کسی فطرتی قوت کو بدل ڈالے۔ ہاں یہ اختیار ہے کہ اس کو محل پر استعمال کرنے کے لئے ہدایت کرے اور صرف ایک قوت مثلاً رحم یا عفو پر زور نہ ڈالے بلکہ تمام قوتوں کے استعمال کے لئے وصیت فرمائے۔‘‘یہ نہ کہے کہ صرف رحم کرو اور معاف کرو بلکہ ضرورت کے مطابق جس چیز کی اس موقع پر ضرورت ہے اسے استعمال کرنے کی تلقین کرے۔ اصل غرض اصلاح اور بہتری ہے اور یہ مقصد جس طرح بھی پورا ہو اسے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ فرماتے ہیں کہ رحم یا عفو پر زور نہ ڈالے بلکہ تمام قوتوں کے استعمال کے لیے وصیت فرمائے ’’کیونکہ انسانی قوتوں میں سے کوئی بھی قوت بری نہیں بلکہ افراط اورتفریط اور بداستعمالی بری ہے اور جو شخص قابل ملامت ہے وہ صرف فطرتی قویٰ کی وجہ سے قابل ملامت نہیں بلکہ ان کی بداستعمالی کی وجہ سے قابل ملامت ہے۔‘‘
(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد12صفحہ340-341)
اس کی ایک چھوٹی سی مثال یوں ہے کہ ایک جسمانی طور پر طاقتور آدمی ہے اگر اپنی طاقت کے اظہار کے لیے وہ ظلم ہی کرتا رہے یا صاحبِ اختیار ہے تو ظلم کرتا رہے۔ دوسروں کے لیے نرم دلی نہ ہو۔ موقع محل پر اپنے قویٰ کا اظہار نہ ہو بلکہ اپنی برتری ثابت کرنا اور رعب قائم کرنا ہی مقصد ہو تو پھر ایسا شخص برا کہلائے گا۔ اس کی صلاحیتیں جو ہیں وہ بری نہیں لیکن اس کا استعمال برا ہے، اس کا عمل برا ہے۔
اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ آپ علیہ السلام کی بعثت کا مقصد صداقتِ قرآن کو ثابت کرنا اور قائم کرنا ہے۔ آپؑفرماتے ہیں:’’یہ بات واقعی سچ ہے کہ جو مسلمان ہیں یہ قرآن شریف کو بالکل نہیں سمجھتے لیکن اب خدا کا ارادہ ہے کہ صحیح معنے قرآن کے ظاہر کرے۔ خدا نے مجھے اسی لئے مامور کیا ہے اور میں اس کے الہام اور وحی سے قرآنِ شریف کو سمجھتا ہوں۔ قرآن شریف کی ایسی تعلیم ہے کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں آ سکتا اور معقولات سے ایسی پُر ہے کہ ایک فلاسفر کو بھی اعتراض کا موقع نہیں ملتا۔‘‘ (ملفوظات جلد 6صفحہ 167 ایڈیشن 1984ء)
پھر عظمتِ قرآن بیان فرماتے ہوئے آپؑجماعت کو نصیحت فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف پر تدبر کرو۔ اس میں سب کچھ ہے۔ نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانہ کی خبریں ہیں وغیرہ۔ بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بہ تازہ ملتے ہیں۔ انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ اس کی تعلیم اس زمانہ کے حسبِ حال ہو توہو لیکن وہ ہمیشہ اور ہر حالت کے موافق ہرگز نہیں۔‘‘ جس زمانے میں حضرت عیسیٰ آئے اس زمانے کے حسبِ حال تھی لیکن اب نہیں۔ ’’یہ فخر قرآنِ مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہرمرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قویٰ کی تربیت فرمائی ہے اور جو بدی ظاہر کی ہے اُس کے دور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے۔ اس لئے قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد9 صفحہ 122 ایڈیشن 1984ء)
قرآن کریم پر تدبر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑمزید فرماتے ہیں کہ ’’رسم اور بدعات سے پرہیز بہتر ہے۔ اس سے رفتہ رفتہ شریعت میں تصرف شروع ہو جاتا ہے۔ بہتر طریق یہ ہے کہ ایسے وظائف میں جو وقت اس نے صرف کرنا ہے وہی قرآن شریف کے تد برمیں لگاو ے۔‘‘
(ملفوظات جلد 6صفحہ 266 ایڈیشن 1984ء)
لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وظیفہ بتا دیں، چھوٹی سی بات بتا دیں تا کہ اسی پہ نظر ہو، ہم وقت لگائیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ نہیں قرآنِ شریف پر غور کرنے پر وقت لگاؤ۔بعض لوگ وظائف میں ہی وقت صرف کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور جو وظائف اور ذکر کر رہے ہوتے ہیں ان کا مطلب ہی بعضوں کو نہیں آتا اور سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی روحانی بہتری کا واحد ذریعہ ہے۔ آپؑ نے فرمایا اس کے بجائے یہ وقت قرآن کریم پر غور پر خرچ کرو تو زیادہ بہتر ہے۔ روحانی ترقی اسی سے حاصل کر سکتے ہو۔ غیر احمدی مسلمانوں میں تو بہت سی بدعات اس ذریعہ سے راہ پا گئی ہیں لیکن بعض احمدی بھی اس کے زیر اثر آ گئے ہیں اس لیے ہمیں بچنا چاہیے اور قرآن شریف کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اگلے ہفتے جمعرات سے ان شاء اللہ یا بعض جگہ بدھ سے رمضان بھی شروع ہو رہا ہے تو اس رمضان میں ہمیں خاص طور پر قرآن کریم کو پڑھنے پڑھانے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
آپؑفرماتے ہیں کہ ’’دل کی اگر سختی ہو تو اس کو نرم کرنے کے لیے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی با ر بار پڑھے۔ جہاں جہاں دعا ہو تی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمتِ الٰہی میرے بھی شامل حال ہو۔ قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چنتا ہے۔ پھر آگے چل کراَور قسم کا چنتا ہے۔ پس چاہیے کہ ہر ایک مقام کے مناسبِ حال فائدہ اٹھاوے۔’‘‘(ملفوظات جلد 6صفحہ 266 ایڈیشن 1984ء) آپؑنے فرمایا کہ اس سے روحانی ترقی ہوتی ہے کہ احکامات اور نواہی کو انسان اپنے اوپر لاگو کرے۔ جو اللہ تعالیٰ نے کرنے کے حکم دیے ہیں ان کو کرے۔ جن سے روکا ہے ان سے رکنے کی کوشش کرے۔ اس چیز کو دیکھے۔ یہی پھول ہیں جو اس باغ سے انسان چنتا ہے۔
آپؑنے فرمایا بعض لوگ تو اپنی علمیت کے زعم میں اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ قرآنِ کریم کی بعض سورتوں مثلاً آپؑنے مثال دی سورۂ یٰسین کی کہ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ فلاں طریق سے پڑھو تو برکت ہو گی ورنہ نہیں ہو گی۔(ماخوذ از ملفوظات جلد 6صفحہ 266 ایڈیشن 1984ء)یہ باتیں تو خدائی کے دعوے ہیں۔ پس اس قسم کی باتوں سے ہمیں خاص طور پر پرہیز کرنا چاہیے۔یہ بیان فرماتے ہوئے کہ قرآن سے اعراض کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک یہ جو اِعراضِ صُوری کہلاتا ہے اور دوسرا اعراضِ معنوی اور اس سے مراد کیا ہے؟ اعراض سے مراد یہ ہے کہ جس سے عمل نہ کرنا یا توصُوری طور پرانسان عمل نہیں کرتا یا معنوی طور پر عمل نہیں کرتا۔
اس کی یہ وضاحت فرمائی کہ’’قرآنِ شریف سے اعراض کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک صُوری اور ایک معنوی ۔ صُوری یہ کہ کبھی کلام الٰہی کو پڑھا ہی نہ جاوے۔ جیسے اکثر لوگ مسلمان کہلاتے ہیں مگر وہ قرآن شریف کی عبارت تک سے بالکل غافل ہیں اور ایک معنوی‘‘ دوسری صورت ہے ’’کہ تلاوت تو کرتا ہے مگر اس کی برکات وانوارو رحمتِ الٰہی پر ایمان نہیں ہوتا۔ پس دونوں اعراضوں میں سے کوئی اعراض ہو اس سے پر ہیز کرنا چاہئے۔‘‘ آپؑنے فرمایا کہ’’امام جعفرؑ کا قول ہے واللہ اعلم کہاں تک صحیح ہے کہ میں اس قدر کلام پڑھتا ہوں کہ ساتھ ہی الہام شروع ہو جاتا ہے مگر بات معقول معلوم ہوتی ہے‘‘ آپؑنے فرمایا۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ صحیح ہے کہ نہیں لیکن یہ بات معقول ہے۔ یعنی کہ انہوں نے یہ کہا یا نہیں کہا یہ تو پتا نہیں لیکن بات معقول ہے ’’کیونکہ ایک جنس کی شئ دوسری شئ کو اپنی طرف کشش کرتی ہے۔ اب اس زمانہ میں لوگوں نے صدہا حاشئے چڑھائے ہوئے ہیں۔ شیعوں نے الگ، سنیوں نے الگ۔‘‘ حضورؑ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ ایک شیعہ نے میرے والد صاحب سے کہا کہ میں ایک فقرہ بتلاتا ہوں وہ پڑھ لیا کرو تو پھر طہارت اور وضو وغیرہ کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘‘ بس وہ فقرہ ہی کافی ہے آپ کے لیے۔ وہی وضو ہے۔ وہی طہارت ہے۔ فرمایا کہ ’’اسلام میں کفر وبدعت الحاد زندقہ وغیرہ اسی طرح سے آئے ہیں کہ ایک شخص واحد کی کلام کو اس قدر عظمت دی گئی جس قدر کہ کلام الٰہی کو دی جانی چاہئے تھی۔ صحابہ کرامؓ اسی لئے احادیث کو قرآن شریف سے کم درجہ پر مانتے تھے۔‘‘واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ حضرت عمرؓ فیصلہ کرنے لگے تو ایک بوڑھی عورت نے اٹھ کر کہاکہ حدیث میں یہ لکھا ہے۔‘‘ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ منسوب ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ حدیثیں گو بعدمیں جمع کی گئی ہیں لیکن بعض دفعہ بعض صحابہ لکھ بھی لیا کرتے تھے۔’’تو آپؓ نے فرمایا‘‘ حضرت عمرؓ نے فرمایا’’کہ میں ایک بڑھیا کے لیے کتا ب اللہ کو ترک نہیں کر سکتا۔‘‘
(ملفوظات جلد 6صفحہ 266-267 ایڈیشن 1984ء)
یہ روایت ایک عورت کی ہے جو یہ کہتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا کلام تو اس سے مختلف ہے۔ جو اللہ کا کلام کہتا ہے وہی حقیقت ہے۔ پس حقیقت یہی ہے۔ اسی کو ہمیں اختیار کرنا چاہیے۔ اگر یہ نہیں ہوگا تو پھر بدعات پھیلتی چلی جائیں گی اور اسی وجہ سے بدعات مسلمانوں میں پھیلتی چلی جا رہی ہیں اور اس طرح قرآن کریم کی اصل تعلیم سے دُور کر رہی ہیں۔ اکثر مسلمانوں میں یہ باتیں نظر آتی ہیں جیساکہ ابھی میں نے مثال دی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ شیعہ عالم کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد کو یہ کہنا کہ ایک فقرہ ہے اس کو پڑھ لیا کریں تو پھر نہ وضو کی ضرورت نہ طہارت کی ضرورت۔ اکثریت تو عامۃ المسلمین کی جاہل ہے۔ نام نہاد علماء ان کو جس طرف لے جاتے ہیں وہ چل پڑتے ہیں اور بدعات پھیلتی چلی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود الزام ہم پر کہ ہم قرآنِ کریم کی تحریف کرتے ہیں۔
اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ مسلمانوں کی ترقی قرآن سے مشروط ہے آپؑفرماتے ہیں کہ’’جب تک مسلمان قرآن شریف کے پورے متبع اور پابند نہیں ہوتے وہ کسی قسم کی ترقی نہیں کر سکتے۔ جس قدر وہ قرآن شریف سے دور جا رہے ہیں اسی قدر وہ ترقی کے مدارج اور راہوں سے دور جا رہے ہیں۔ قرآنِ شریف پر عمل ہی ترقی اور ہدایت کا موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تجارت، زراعت اور ذرائع معاش سے جو حلال ہوں منع نہیں کیا مگر ہاں اس کو مقصود بالذات قرار نہ دیا جاوے بلکہ اس کو بطور خادمِ دین رکھنا چاہئے۔ زکوٰۃ سے بھی یہی منشا ہے کہ وہ مال خادمِ دین ہو۔‘‘
(ملفوظات جلد 8صفحہ 29-30 ایڈیشن 1984ء)
پس ایک مومن کو اپنی زندگی کا مقصد صرف دنیا کمانا نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کا جو مقصدِ پیدائش بتایا ہے کہ صحیح عابد بن کے رہنا، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنا ہمیں اس کی تلاش کرنی چاہیے۔ زکوٰۃ اور خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم بھی اس لیے ہے کہ وہ مال صرف اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے ہی نہ ہو بلکہ اس کو دین کی ترقی، حقوق اللہ اور حقوق العباد کے لیے بھی خرچ کیا جائے۔
آپؑفرماتے ہیں کہ قرآن جواہرات کی تھیلی ہے اور لوگ اس سے بے خبر ہیں۔فرمایا کہ ’’افسوس ہے کہ لوگ جوش اور سرگرمی کے ساتھ قرآن شریف کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ جیساکہ دنیا دار اپنی دنیا داری پر یا ایک شاعر اپنے اشعار پر غور کرتا ہے ویسا بھی قرآن شریف پر غور نہیں کیا جاتا۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’بٹالہ میں ایک شاعر تھا۔اس کا ایک دیوان ہے۔ اس نے ایک دفعہ ایک مصرعہ کہا‘‘فارسی میں مصرعہ ہے کہ
’’صبا شرمندہ مے گردد بہ روئے گل نگہ کردن‘‘
یعنی صبا پھول کے چہرے پر نظر کرنے سے شرمندہ ہو جاتی ہے۔ ’’مگر دوسرے مصرعہ کی تلاش میں برابر چھ مہینے سرگردان و حیران پھرتا رہا۔‘‘ تلاش کرتا رہا، سوچتا رہا۔ ’’بالآخر ایک دن ایک بزاز کی دوکان پر کپڑا خریدنے گیا۔ بزاز نے کئی تھان کپڑوں کے نکالے پر اس کو کوئی پسند نہ آیا۔ آخر بغیر کچھ خریدنے کے جب اٹھ کھڑا ہوا تو بزاز‘‘ کپڑا بیچنے والا جو دکاندار تھا وہ’’ناراض ہوا کہ تم نے اتنے تھان کھلوائے اور بے فائدہ تکلیف دی۔ اس پر اس کو دوسرا مصرعہ سوجھ گیا اور اپنا شعر اس طرح سے پورا کیا
صبا شرمندہ مے گردد بروئے گل نگہ کردن کہ رخت غنچہ را وا کرد و نتوانست تہ کردن‘‘
کہ صبا پھول کے چہرے پر نظر کرنے سے شرمندہ ہو جاتی ہے کہ اس نے غنچے کے لباس کو وا کر دیا مگر اس کو سمیٹ نہ سکی۔ آپؑفرماتے ہیں ’’جس قدر محنت اس نے ایک مصرعہ کے لئے اٹھائی‘‘اس شاعر نے’’اتنی محنت اب لوگ ایک آیت قرآنی کے سمجھنے کے لئے نہیں اٹھاتے۔‘‘فرمایا’’قرآن جواہرات کی تھیلی ہے اور لوگ اس سے بے خبر ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد 2صفحہ 343-344 ایڈیشن 1984ء)
پھر آپؑنے فرمایا: ’’جس قدر اسرار اور رموز قرآن شریف میں ہیں تورات اور انجیل میں وہ کہاں؟ پھر قرآن شریف تمام امور کو صرف دعویٰ ہی کے رنگ میں بیان نہیں کرتا جیسے کہ توریت یا انجیل جو دعویٰ ہی دعویٰ کرتی ہیں بلکہ قرآن شریف استدلالی رنگ رکھتا ہے۔‘‘ دلیل کا رنگ رکھتا ہے۔ ’’کوئی بات وہ بیان نہیں کرتا جس کے سا تھ اس نے ایک قوی اور مستحکم دلیل نہ دی ہو۔ جیسی قرآنِ شریف کی فصا حت وبلاغت اپنے اندر ایک جذب رکھتی ہے۔جس طرح پر اس کی تعلیم میں معقولیت اور کشش ہے ویسے ہی اس کے دلائل مؤثر ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد3صفحہ 243-244 ایڈیشن 1984ء)
پس کوئی اَور کتاب قرآن کریم کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور اس میں آگے آپؑیہ بھی فرماتے ہیں کہ جس طرح قرآن کریم تمام کتابوں سے بڑھ کر ہے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام بھی سب انبیاء سے بڑھ کر ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد3صفحہ 244 ایڈیشن 1984ء)
پس جب قرآن پڑھو تو پھر جو بات قرآن کریم میں دیکھو تو وہیں اسکی دلیل بھی تلاش کرو۔ پھر قرآن کریم کی اس خوبی کا ذکر فرماتے ہوئے کہ قرآن کے مقابل کوئی سحر نہیں ٹھہر سکتا آپؑفرماتے ہیں:’’یاد رکھنا چاہیے کہ ہم تو قرآن شریف پیش کرتے ہیں جس سے جادو بھاگتا ہے اسکے بالمقابل کوئی باطل اور سحر نہیں ٹھہر سکتا۔ ہمارے مخالفوں کے ہاتھ میں کیا ہے جسکو وہ لئے پھرتے ہیں ۔ یقیناً یاد رکھو کہ قرآن شریف وہ عظیم الشان حربہ ہے کہ اسکے سامنے کسی باطل کو قائم رہنے کی ہمت ہی نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی باطل پرست ہمارے سامنے اور ہماری جماعت کے سامنے نہیں ٹھہرتا اور گفتگو سے انکار کر دیتا ہے۔ یہ آسمانی ہتھیار ہے جو کبھی کند نہیں ہوسکتا ۔‘‘
(ملفوظات جلد 5 صفحہ27 ایڈیشن 1984ء)
پس یہ بات ہمیں اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ ہم قرآنِ کریم پر غور و تدبر کی طرف زیادہ توجہ دیں تا کہ اپنی روحانی اور علمی حالت بھی بہتر کریں اور مخالفین کا ردّ بھی کر سکیں۔
اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ قرآن کی تابعداری سے خدا تعالیٰ ملتا ہے اگر قرآن کریم کی کامل اطاعت کی جائے تو فرمایا ’’ہمارا صرف ایک ہی رسول ہے اور صرف ایک ہی قرآنِ شریف اس رسول پر نازل ہوا ہے جس کی تابعداری سے ہم خدا کو پاسکتے ہیں۔ آج کل فقراء کے نکالے ہوئے طریقے اور گدی نشینوں اور سجادہ نشینوں کی سیفیاں‘‘ (سیفی کہتے ہیں منتر یا وظیفہ جو کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے چالیس دن تک مسلسل پڑھا جاتا ہے)فرمایا یہ سیفیاں جو ہیں’’اور دعائیں اور درود اور وظائف یہ سب انسا ن کو مستقیم راہ سے بھٹکا نے کا آلہ ہیں۔ سو تم ان سے پر ہیز کرو۔ ان لو گو ں نے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے خا تم الا نبیاء ہو نے کی مہر کو تو ڑنا چا ہا گو یا اپنی الگ ایک شریعت بنا لی ہے۔ تم یا درکھو کہ قر آن شریف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فر مان کی پیروی اور نماز روزہ وغیرہ جو مسنون طریقے ہیں ان کے سوا خدا کے فضل اور برکات کے دروازے کھولنے کی اور کوئی کنجی ہے ہی نہیں۔ بُھولا ہوا ہے وہ جو ان راہوں کو چھوڑ کر کوئی نئی راہ نکالتا ہے۔ ناکام مرے گا وہ جو اللہ اور اس کے رسول کے فرمودہ کا تابعدار نہیں بلکہ اور اور راہوں سے اسے تلاش کرتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 125 ایڈیشن 1984ء)(جہانگیر اردو لغت صفحہ923، جہانگیر بکس لاہور)
قرآن کریم کی ایک خوبی آپؑنے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم نے ہر قوم کے نبی پر ایمان لانا ضروری قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن وہ قابلِ تعظیم کتاب ہے جس نے قوموں میں صلح کی بنیاد ڈالی اور ہر ایک قوم کے نبی کو مان لیا اور تمام دنیا میں یہ فخر خاص قرآن شریف کو حاصل ہے جس نے دنیا کی نسبت ہمیں یہ تعلیم دی کہ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ وَ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ (آل عمران: 85) یعنی تم اے مسلمانو! یہ کہو کہ ہم دنیا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں تفرقہ نہیں ڈالتے کہ بعض کو مانیں ا ور بعض کو ردّ کر دیں۔‘‘ آپ نے چیلنج فرمایا کہ ’’اگر ایسی صلح کار کوئی اور الہامی کتاب ہے تو اس کا نام لو۔‘‘
(پیغام صلح ، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 459)
قرآن کریم کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ قرآن کریم میں ظاہری ترتیب کا التزام ہے۔ اس بارے میں آپؑفرماتے ہیں کہ’’قرآنِ کریم ظاہری ترتیب کا اشد التزام رکھتا ہے۔ اور ایک بڑا حصہ قرآنی فصاحت کا اسی سے متعلق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترتیب کا ملحوظ رکھنا بھی وجوہِ بلاغت میں سے ہے بلکہ اعلیٰ درجہ کی بلاغت یہی ہے جو حکیمانہ رنگ اپنے اندر رکھتی ہے۔ جس شخص کے کلام میں ترتیب نہیں ہوتی یا کم ہوتی ہے ایسے شخص کو ہم ہرگز بلیغ و فصیح نہیں کہہ سکتے۔‘‘ یعنی کہ بلیغ وہ ہے جو مضمون ایسا بیان کرنے والا ہو جو باموقع بھی ہو اور باتیں پوری طرح اس مضمون کا احاطہ کیے ہوئے بھی ہوں اور فصیح ایسے خوبصورت الفاظ استعمال کیے جائیں جو خوبصورت مطالب بھی بیان کر سکیں اور ترتیبِ الفاظ بھی ان میں ہو۔ پس آپؑنے فرمایا ایسے شخص کو ہم ہرگز بلیغ و فصیح نہیں کہہ سکتے ’’بلکہ اگر کوئی شخص حد سے زیادہ ترتیب کا لحاظ اٹھا دے تووہ ضرور دیوانہ اور پاگل ہوتا ہے کیونکہ جس کی تقریر منتظم نہیں اس کے حواس بھی منتظم نہیں۔‘‘اگر ترتیب نہیں، اُس میں کوئی ربط نہیں پایا جاتا تو پھر اس کا مطلب ہے وہ پاگل ہے، مجنون ہے۔ ’’پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کا وہ پاک کلام جو بلاغت فصاحت کا دعویٰ کرکے تمام اقسام سچائی کے لئے بلاتا ہے ایسا اعجازی کلام اس ضروری حصہ فصاحت سے گرا ہوا ہو کہ اس میں ترتیب نہ پائی جائے۔‘‘ (تریاق القلوب ، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 456-457 حاشیہ)
پس قرآن کریم تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور فصاحت و بلاغت سے پُر ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس میں ترتیب نہ ہو۔ جس طرح بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ قرآن کریم کے دو معجزوں کا ذکر فرماتے ہوئے آپؑفرماتے ہیں کہ ’’بجز قرآن شریف کے اَور کوئی ذریعہ آسمانی نوروں کی تحصیل کا موجود نہیں اور خدا نے اس غرض سے کہ حق اور باطل میں ہمیشہ کے لئے مابہ الامتیاز قائم رہے اور کسی زمانہ میں جھوٹ سچ کا مقابلہ نہ کر سکے امتِ محمدیہ کو انتہاء زمانہ تک یہ دو معجزے یعنے اعجاز کلام قرآن اور اعجاز اثر کلام قرآن عطا فرمائے ہیں۔‘‘ یعنی ایک قرآن کا، ایک کلام کا اعجاز ہے اور ایک اس کلام کے اثر کا اعجاز ہے۔ دو معجزے ہیں ’’جن کے مقابلہ سے مذاہب باطلہ ابتداء سے عاجز چلے آتے ہیں۔ اور اگر صرف اعجازِ کلام قرآن کا معجزہ ہوتا اور اعجازِ اثر قرآن کا معجزہ نہ ہوتا تو امت مرحومہ محمدیہ کو آثار اور انوار ایمان میں کیا زیادتی ہوتی کیونکہ مجرد زہد اور عفت اعجاز کی حد تک نہیں پہنچ سکتا۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ 292-293 بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 1)قرآن کریم کی تعلیم سے اثر بھی ہوتا ہے اگر حقیقی طور پر اس کو اپنایا جائے۔
پھر قرآن کریم کی پیروی سے اس جہان میں آثارِ نجات کا ظہوراس بارے میں آپؑنے فرمایا کہ ’’قرآن شریف جو آنحضرت کی اِتباع کا مدار علیہ ہے ایک ایسی کتاب ہے جس کی متابعت سے اسی جہان میں آثار نجات کے ظاہر ہوجاتے ہیں کیونکہ وہی کتاب ہے کہ جو دونوں طریق ظاہری اور باطنی کے ذریعہ سے نفوسِ ناقصہ کو بمرتبۂ تکمیل پہونچاتی ہے اور شکوک اور شبہات سے خلاصی بخشتی ہے۔‘‘ جن لوگوں میںنفوسِ ناقصہ ایسے ہیں جن میں کمی ہے۔ ان کی کمی کو، کمزوری کو نہ صرف یہ قرآن کریم دُور کرتا ہے بلکہ اعلیٰ معیار تک بھی لے کے جاتا ہے۔ فرمایا کہ ’’ظاہری طریق سے اس طرح پر کہ بیان اس کا ایسا جامع دقائق و حقائق ہے کہ جس قدر دنیا میں ایسے شبہات پائے جاتے ہیں کہ جو خدا تک پہنچنے سے روکتے ہیں جن میں مبتلا ہوکر صدہا جھوٹے فرقے پھیل رہے ہیں اور صدہا طرح کے خیالات باطلہ گمراہ لوگوں کے دلوں میں جم رہے ہیں سب کا رد معقولی طور پر اس میں موجود ہے۔‘‘قرآن کریم اتنے واضح طور پر دلیلیں اور حقائق بیان کرتا ہے کہ سب شبہات جو ہیں ان کو دور کرتا ہے۔ ہاں شرط سمجھنے کی ہے اور سمجھنے کے لیے جوسمجھانے والے ہیں ان کے کلام سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ فرمایا ’’اور جو جو تعلیم حقہ اور کاملہ کی روشنی ظلمت موجودہ زمانے کے لئے درکار ہے وہ سب آفتاب کی طرح اس میں چمک رہی ہے۔‘‘ موجودہ زمانہ میں بھی جو اندھیرے پھیل رہے ہیں۔ مذہب سے دُوری ہے، بے حیائی ہے، لغویات ہیں اور خدا تعالیٰ سے دوری ہے، یہ سب جو اندھیرے ہیں ان کو دور کرنے کے لیے اور روشنی حاصل کرنے کے لیے قرآن کریم کی طرف رجوع کرو اس میں یہ سب کچھ موجود ہے۔
فرمایا کہ یہ سب آفتاب کی طرح اس میں چمک رہی ہے۔ سورج کی طرح روشن ہے اس میں’’اور تمام امراض نفسانی کا علاج اس میں مندرج ہے اور تمام معارف حقہ کا بیان اس میں بھرا ہوا ہے اور کوئی دقیقہ علم الٰہی نہیں کہ جو آئندہ کسی وقت ظاہر ہوسکتا ہے اور اس سے باہر رہ گیا ہو۔ اور باطنی طریق سے اس طور پر کہ اس کی کامل متابعت دل کو ایسا صاف کر دیتی ہے۔‘‘ یہ شرط ہے کامل متابعت ۔ متابعت ہو اور کامل ہو تو دل کو ایسا صاف کر دیتی ہے ’’کہ انسان اندرونی آلودگیوں سے بالکل پاک ہوکر حضرت اعلیٰ سے اتصال پکڑلیتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔’’اور انوارِ قبولیت اس پر وارد ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور عنایاتِ الٰہیہ اس قدر اس پر احاطہ کرلیتی ہیں کہ جب وہ مشکلات کے وقت دعا کرتا ہے تو کمال رحمت اور عطوفت ۔‘‘ یعنی بڑی مہربانی اور رحمت اور شفقت اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے۔’’سے خداوند کریم اس کا جواب دیتا ہے اور بسا اوقات ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ اگر وہ ہزار مرتبہ ہی اپنی مشکلات اور ہجوم غموں کے وقت میں سوال کرے تو ہزارہا مرتبہ ہی اپنے مولیٰ کریم کی طرف سے نہایت فصیح اور لذیذ اور متبرک کلام میں محبت آمیز جواب پاتا ہے اور الہام الٰہی بارش کی طرح اس پر برستا ہے اور وہ اپنے دل میں محبت الٰہیہ کو ایسا بھرا ہوا پاتا ہے جیسا ایک نہایت صاف شیشہ ایک لطیف عطر سے بھرا ہوتا ہے اور انس اور شوق کی ایک ایسی پاک لذت اس کو عطا کی جاتی ہے کہ جو اس کی سخت سخت نفسانی زنجیروں کو توڑ کر اور اس دخانستان سے باہر نکال کر ۔‘‘یعنی گندی ہوا اور آلودہ ہوا ہے، دھواں ہے اس سے باہر نکال کر ’’محبوب حقیقی کی ٹھنڈی اور دلآرام ہوا سے اس کو ہر دم اور ہر لحظہ تازہ زندگی بخشتی رہتی ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ 345-349 بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 2)
پھر آپؑنے فرمایا کہ قرآن کریم یقینی اور قطعی کلام ہے۔
فرماتے ہیں کہ ’’قرآنِ شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کر ہمارے ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں۔ وہ خدا کا کلام ہے۔ وہ شک اور ظن کی آلائشوں سے پاک ہے۔‘‘
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی ، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 209)
اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ قرآنِ کریم اقوامِ دنیا کو متحد کرنے آیا ہے آپؑفرماتے ہیں کہ ’’خدا نے پہلے متفرق طور پر ہر ایک امت کو جدا جدا دستورالعمل بھیجا اور پھر چاہا کہ جیساکہ خدا ایک ہے وہ بھی ایک ہو جائیں تب سب کو اکٹھا کرنے کے لئے قرآن کو بھیجا اور خبر دی کہ ایک زمانہ آنے والا ہے کہ خدا تمام قوموں کو ایک قوم بنا دے گا اور تمام ملکوں کو ایک ملک کر دے گا اور تمام زبانوں کو ایک زبان بنادے گا۔‘‘
(نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 428)
لوگ کہتے ہیں کہ مختلف مذاہب کیوں آئے؟ اس لیے کہ اس وقت تک ان کی عقل اور شعور اور جو وسائل تھے وہ اتنے تھے کہ اپنے زمانے میں محدود رہیں۔ پہلے زمانے میں الگ الگ بھیجے۔ اب ایک زمانہ ایسا آ گیا جب سب اکٹھے ہو سکتے ہیں تو ایک کامل شریعت قرآن کریم کی شکل میں ہمیں بھجوا دی اور فرمایا کہ تمام ملکوں کو ایک ملک بنا دے گا اور تمام زبانوں کو ایک زبان بنادے گا۔ آج دنیا میں گلوبل ولیج کی ایک ٹرم (term)استعمال ہوتی ہے کہ دنیا ایک ہو چکی ہے، ایک شہر کی حیثیت بن چکی ہے۔ بہرحال قرآن کریم ہی وہ کلام ہے جو باوجود اس کے کہ دنیا میں مختلف زبانیں بولنے والے بھی ہیں اور بولی جاتی ہیں لیکن دنیا میں جہاں بھی مسلمان ہیں جس قوم کے بھی مسلمان ہیں وہ اسے عربی زبان میں پڑھتے ہیں اور اسی طرح پانچ نمازوں میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ قرآن کریم کا پہلی کتب اور انبیاء پر احسان ہے آپؑفرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف نے پہلی کتابوں اور نبیوں پر احسان کیا ہےجو اِن کی تعلیموں کو جو قصہ کے رنگ میں تھیں علمی رنگ دیدیا ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی شخص ان قصوں اور کہانیوں سے نجات نہیں پاسکتا جب تک وہ قرآن شریف کو نہ پڑھے کیونکہ قرآن شریف ہی کی یہ شان ہے کہ وہ اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ۔ وَّمَا هُوَ بِالْهَزْلِ (الطارق:14-15) وہ میزان، مہیمن، نور اور شفاء اور رحمت ہے۔ جو لوگ قرآن شریف کو پڑھتے اور اسے قصہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے قرآن شریف نہیں پڑھا بلکہ اس کی بے حرمتی کی ہے۔ ہمارے مخالف کیوں ہماری مخالفت میں اس قدر تیز ہوئے ہیں؟ صرف اسی لئے کہ ہم قرآن شریف کو جیساکہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سراسر نور، حکمت اور معرفت ہے، دکھا نا چاہتے ہیں اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن شریف کو ایک معمولی قصے سے بڑھ کر وقعت نہ دیں۔ ہم اس کو گوارا نہیں کر سکتے۔ خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآن شریف ایک زندہ اور روشن کتاب ہے۔ اس لئے ہم ان کی مخالفت کی کیوں پروا کریں۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ155 ایڈیشن 1984ء)
قرآنِ کریم کی عظمت بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ’’قرآن کریم کی عظمت کے بڑے بڑے دلائل میں سے یہ بھی ہے کہ اس میں عظیم الشان علوم ہیں جو توریت و انجیل میں تلاش کرنے ہی عبث ہیں ۔‘‘ فضول ہیں۔ وہ وہاں مل ہی نہیں سکتے۔’’ اور ایک چھوٹے اور بڑے درجہ کا آدمی اپنے اپنے فہم کے موافق ان سے حصہ لے سکتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد4صفحہ381 ایڈیشن 1984ء)قرآن کریم کے علوم سے۔
پس اس کے معانی اور مطالب پر غور کرنے کی ہر ایک کو عادت ڈالنی چاہیے تا کہ خدا تعالیٰ کے کلام کی خوبصورتی کا بھی ہمیں پتہ چلے۔ قرآن کریم کے اوامر و نواہی کے بارے میں آپؑفرماتے ہیں:’’قرآن شریف میں اول سے آخر تک اوامر و نواہی اور احکام الٰہی کی تفصیل موجود ہے اور کئی سو شاخیں مختلف قسم کے احکام کی بیان کی ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد8صفحہ374 ایڈیشن 1984ء)
ایک جگہ آپؑنے فرمایا کہ تلاوت کرتے ہوئے انہیں تلاش کرنا چاہیے اور پھر ان کو زندگی کا حصہ بنانا چاہیے۔ تبھی ہم خدا تعالیٰ کے کلام سے حقیقی فیض پا سکتے ہیں۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد8صفحہ376 ایڈیشن 1984ء)
قرآن کریم کے محاسن بیان کرتے ہوئے ایک جگہ آپؑنے فرمایا: ’’جاننا چاہئے کہ قرآن کریم وہ یقینی اور قطعی کلام الٰہی ہے جس میں انسان کا ایک نقطہ یا ایک شعشہ تک دخل نہیں اور وہ اپنے الفاظ اور معانی کے ساتھ خدائے تعالیٰ کا ہی کلام ہے اور کسی فرقہ اسلام کو اس کے ماننے سے چارہ نہیں۔ ’’ یعنی اس کے ماننے کے سوا چارہ نہیں۔’’اس کی ایک ایک آیت اعلیٰ درجہ کا تواتر اپنے ساتھ رکھتی ہے وہ وحی متلوّ ہے۔‘‘ یعنی ایسی وحی ہے جو بار بار پڑھی جانے والی وحی ہے ’’جس کے حرف حرف گنے ہوئے ہیں۔ وہ بباعث اپنے اعجاز کے بھی تبدیل اور تحریف سے محفوظ ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 384 )
ان کی ترکیب ایسی ہے کہ یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ تبدیلی ہو ہی نہیں سکتی۔ جو کرے گا وہ کس طرح یہ کہہ سکتا ہے کہ قرآنِ کریم میں تحریف کرلی ہے۔ قرآن کریم بگڑتا تو اس کی اصلی حالت رہ ہی نہیں سکتی اور وہ نفس مضمون بھی رہ نہیں سکتا۔ پھر قرآن کریم کے الفاظ کی گہرائی اور مطالب کی خوبی بیان فرماتے ہوئے آپؑنے فرمایا کہ ’’قرآنِ کریم کے دقائق و معارف و حقائق بھی زمانہ کی ضرورت کے موافق ہی کھلتے ہیں۔ مثلاً جس زمانہ میں ہم ہیں اور جن معارف فرقانیہ کے بمقابل دجالی فرقوں کی ہمیں اس وقت ضرورت آپڑ ی ہے وہ ضرورت ان لوگوں کو نہیں تھی جنہوں نے اِن دجالی فرقوں کا زمانہ نہیں پایا۔ سو وہ باتیں ان پر مخفی رہیں اورہم پر کھولی گئیں۔‘‘
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ451)
مضمون موقع اور محل اور زمانے کے لحاظ سے اس میں سے نکلتا چلا جاتا ہے۔ اس زمانے میں ضرورت نہیں تھی۔ اس زمانے میں جیسی جیسی تفسیریں ہوئیں اس زمانے کے حالات کی تھیں۔ آج جو ہو رہی ہیں وہ آج کے زمانے کے حالات کے لیے ہیں اور یہ سب قرآن کریم سے ہی استنباط ہوتی ہیں، اسی سے تفسیر ملتی ہے۔ انہی الفاظ کو غور کرنے سے ان کے معانی واضح ہوتے ہیں۔ پس جو ایسی کتاب ہے وہی تاقیامت رہنے والی کتاب ہو سکتی ہے کہ ضرورت کے مطابق الفاظ میں سے مطالب نکلتے چلے جائیں۔ پھر قرآن کریم کی خوبصورتی بیان فرماتے ہوئے آپؑنے فرمایا کہ ’’ بَطْنِی معارف قرآن کریم کے جن کا وجود احادیثِ صحیحہ اور آیات بینہ سے ثابت ہے فضول طور پر کبھی ظہور نہیں کرتے بلکہ یہ معجزہ فرقانی ایسے ہی وقت میں اپنا جلوہ دکھاتا ہے جبکہ اس روحانی معجزہ کے ظہور کی اشد ضرورت پیش آتی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ465)
معارف بھی ملتے ہیں اور صحیح احادیث سے بھی ان کا استنباط کیا جا سکتا ہے اور بَیِّنجو کھلی کھلی آیات ہیں وہ بھی اس کا ثبوت دیتی ہیں۔
پھر آپؑنے فرمایا : ’’قرآن شریف میں سب کچھ ہے مگر جب تک بصیرت نہ ہو کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔‘‘
بصیرت شرط ہے۔ ’’قرآن شریف کو پڑھنے والا جب ایک سال سے دوسرے سال میں ترقی کرتا ہے تو وہ اپنے گذشتہ سال کو ایسا معلوم کرتا ہے کہ گویا وہ تب ایک طفل مکتب تھا کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس میں ترقی بھی ایسی ہے۔‘‘یہ نہیں کہ ہم نے ایک دفعہ پڑھ لیا تو اس کو سب کچھ علم حاصل ہوگیا بلکہ ایک سال غور کرنے کے بعد جب اگلے سال میں قدم رکھتا ہے، دوبارہ غور شروع کرتا ہے تو پھر سمجھتا ہے وہ جو پہلے میں پڑھ کے آیا ہوں وہ تو کچھ بھی نہیں تھا، وہ تو بچوں والی باتیں تھیں جو کہ ابتدائی چیزیں تھیں جو مجھے سمجھ آئی تھیں۔ اب میں اصل مقام پہ پہنچا ہوں اورپھر اس طرح ہر سال ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ فرمایا ’’جن لوگوں نے قرآن شریف کو ذوالوجوہ کہا ہے میں ان کو پسند نہیں کرتا۔ انہوں نے قرآن شریف کی عزت نہیں کی۔ قرآن شریف کو ذوالمعارف کہنا چاہئے۔‘‘ معارف سے پُر کہنا چاہیے۔ اس میں بےشمار معارف ہیں۔’’ہرمقام میں سے کئی معارف نکلتے ہیں اور ایک نکتہ دوسرے نکتہ کا نقیض نہیں ہوتا‘‘اسے توڑنے والا نہیں ہوتا، اس کو ردّ کرنے والا نہیں ہوتا’’مگر زود رنج، کینہ پرور اور غصہ والی طبائع کے ساتھ قرآن شریف کی مناسبت نہیں ہے اور نہ ایسوں پر قرآن شریف کھلتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 2صفحہ221 ایڈیشن 1984ء)
یہ تو غور کرنے والوں اور پاک لوگوں اوراللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے والے لوگوں، اس سے علم حاصل کرنے کی دعا کرنے والے لوگوں پر ہی اس کے حقائق کھلتے ہیں۔
فرماتے ہیں ’’قرآن کریم بلا شبہ جامع حقائق و معارف اور ہر زمانہ کی بدعات کامقابلہ کرنے والا ہے۔ اس عاجز کا سینہ اس کی چشم دید برکتوں اور حکمتوں سے پُر ہے۔‘‘ اس زمانے میں، ہمارے زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں جنہوں نے اس کے معارف اور حقائق ہم پر ظاہر فرمائے اور آپؑکے کلام سے اس کی مزید تشریح ہوتی ہے اور اس کو سمجھ کے اگر پڑھا جائے تو قرآنِ کریم کی خوبیوں کا اور تعلیم کا اور معارف کا علم مزید بڑھتا ہے۔ فرمایا’’… بلاشبہ ہماری بھلائی اور ترقی علمی اور ہماری دائمی فتوحات کے لئے قرآن ہمیں دیا گیا ہے اور اس کے رموز اور اسرار غیر متناہی ہیں جو بعد تزکیہ نفس اشراق اور روشن ضمیری کے نظریہ سے کھلتے ہیں۔‘‘فرمایا ’’خداتعالیٰ نے جس قوم کے ساتھ کبھی ہمیں ٹکرا دیا اس قوم پر قرآن کے ذریعہ سے ہی ہم نے فتح پائی۔ وہ جیسا ایک اُمی دیہاتی کی تسلی کرتا ہے ویسا ہی ایک فلسفی معقولی کو اطمینان بخشتا ہے۔ یہ نہیں کہ وہ صرف ایک گروہ کیلئے اترا ہے دوسرا گروہ اس سے محروم رہے۔ بلاشبہ اس میں ہر یک شخص اور ہریک زمانہ اور ہریک استعداد کے لئے علاج موجود ہے۔ جو لوگ معکوس الخلقت اور ناقص الفطرت نہیں وہ قرآن کی ان عظمتوں پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘ یعنی اپنی پیدائش کو نہ سمجھنے والے جو کم عقل لوگ ہیں یا ترقی کی بجائے زوال کی طرف جانے والے لوگ ہیں، روحانی لحاظ سے کم عقل ہیں ایسے لوگوں کو تو قرآن فائدہ نہیں پہنچاتا لیکن اگر وہ ایسے نہیں ہیں تو عظمتوں پر ایمان لانا ان کے لیے لازمی ہے اور وہ ایمان لاتے ہیں ’’اور ان کے انوار سے مستفید ہوتے ہیں۔‘‘
(الحق لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4صفحہ 110)
فرماتے ہیں کہ ’’مجھے فرمایا گیا ہے کہ تمام ہدایتوں میں سے …‘‘ یہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ ’’تمام ہدایتوں میں سے صرف قرآنی ہدایت ہی صحت کے کامل درجہ پر اور انسانی ملاوٹوں سے پاک ہے۔‘‘
(اربعین نمبر 1، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 345)
پھر آپؑنے فرمایا۔’’ہمارا تو مذہب یہ ہے کہ علوم طبعی جس قدر ترقی کریں گے اور عملی رنگ اختیار کریں گے قرآنِ کریم کی عظمت دنیا میں قائم ہو گی۔‘‘(ملفوظات جلد2صفحہ87 ایڈیشن 1984ء) پس ہمارے دنیاوی علوم میں جو تحقیق کرنے والے ہیں ان کو بھی قرآن کریم سے مدد لینی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سارے ایسے ہیں جو لیتے ہیں۔ اپنے مضامین لکھتے بھی ہیں۔ اور قرآنِ کریم کی برتری ثابت کرنی چاہیے کہ کس طرح اس میں علوم چھپے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالسلام صاحب بھی ہمیشہ اسی اصول پر کام کرتے رہے۔ پھر آپؑنے فرمایا۔ ’’قرآن شریف بلا ریب غیر محدود معارف پر مشتمل ہے اور ہر یک زمانہ کی ضرورتِ لاحقہ کا کامل طور پر متکفل ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ اول، روحانی خزائن جلد3صفحہ261 )
فرماتے ہیں کہ ’’جو معارف و حقائق و کمالات حکمت و بلاغت قرآنِ شریف میں اکمل اور اتم طور پر پائے جاتے ہیں یہ عظیم الشان مرتبہ اور کسی کتاب کو حاصل نہیں۔‘‘ (توضیح مرام، روحانی خزائن جلد3صفحہ86)
فرمایا’’قرآنِ شریف کو خدا تعالیٰ نے خیر کہا ہے۔ چنانچہ فرمایا۔ وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا (البقرۃ:270) پس قرآنِ شریف معارف اور علوم کے مال کا خزانہ ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآنی معارف اور علوم کا نام بھی مال رکھا ہے۔ دنیا کی برکتیں بھی اسی کے ساتھ آتی ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ 328 ایڈیشن 1984ء)
پھر ایک تنبیہ کرتے ہوئے آپؑنے فرمایا کہ ’’یقیناً یاد رکھو جو گناہ سے باز نہیں آتا وہ آخر مرے گا اور ضرور مریگا۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور رسل کو اسی لئے بھیجا اور اپنی آخری کتاب قرآن مجید اسلئے نازل فرمائی کہ دنیا اس زہر سے ہلاک نہ ہو بلکہ اسکی تاثیرات سے واقف ہو کر بچ جاوے۔‘‘ (ملفوظات جلد7 صفحہ 185 ایڈیشن 1984ء)
پس ہر احمدی کا یہ بھی کام ہے کہ جہاں وہ اپنی حالت قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے وہاں دنیا کو بھی اس تعلیم سے آگاہ کرے اور روحانی اور مادی تباہی سے انہیں بچائے۔ آپؑفرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت ﷺ خاتم النبیین ہیں اور قرآنِ شریف خاتم الکتب۔ اب کوئی اَور کلمہ یا کوئی اَور نماز نہیں ہو سکتی۔ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا کر کے دکھایا اور جو کچھ قرآن شریف میں ہے اس کو چھوڑ کر نجات نہیں مل سکتی۔ جو اس کو چھوڑے گا وہ جہنم میں جاوے گا۔ یہ ہمارا مذہب اور عقیدہ ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 8صفحہ 252 ایڈیشن 1984ء)
جو یہ عقیدہ رکھتا ہو وہ قرآن کریم اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا مرتکب کس طرح ہو سکتا ہے؟ کاش کہ یہ بات عامۃ المسلمین کو بھی سمجھ آ جائے اور وہ شر پسند علماء کے چنگل سے نکل کر زمانے کے امام کو پہچاننے والے بنیں۔
پھر آپؑنے فرمایا’’یقینی اور کامل اور آسان ذریعہ شناخت اصولِ حقہ کا اور ان سب عقائد کا کہ جن کے علم یقینی پر ہماری نجات موقوف ہے صرف قرآن شریف ہے۔
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1صفحہ 77)
فرماتے ہیں ’’خدا تعالیٰ نے توفرمایا ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:10) ہم ہی نے اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی محافظت کریں گے۔ یعنی جب اس کے معانی میں غلطیاں وارد ہوں گی تو اصلاح کے لئے ہمارے مامور آیا کریں گے۔‘‘ اور اپنے اس وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مامورِ زمانہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو بھیجا۔
آپؑفرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر غور کرو اور دیکھو زمانے کی کیا حالت ہے۔ غیر مذاہب کے لوگ پکڑ پکڑ کر تمہیں اپنے دین سے ہٹا رہے ہیں، دجالی چالیں چل رہے ہیں لیکن تم آنے والے مسیح و مہدی کو دجال کہہ کر اس سے مسلمان دنیا کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔ آپؑنے فرمایا کہ تم میرے اوپر مت خیال کرو۔ یہ نہ خیال کرو کہ میں آ گیا میں نے یہ دعویٰ کیا۔ زمانے کو دیکھو۔ صدی کی ابتدا اور بیرونی حملوں اور اندرونی اعمال کو دیکھ کر خود غور اور فکر کرو کہ آیا دجال کی ضرورت ہے اس زمانے میں یا مہدی اور مسیح کی۔ آپؑنے فرمایا کہ تعصّب بری بلا ہے۔ تعصّب والوں نے تو کسی رسول کو بھی نہیں مانا۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 7صفحہ 230 ایڈیشن 1984ء)
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل دے اور یہ سمجھیں۔ قرآن کریم کی خوبیاں بیان فرماتے ہوئے آپؑنے فرمایا : ’’قرآن شریف میں دو امر کا التزام اول سے آخر تک پایا جاتا ہے۔ ایک عقلی وجوہ اور دوسری الہامی شہادت۔ یہ دونوں امر فرقان مجید میں دو بزرگ نہروں کی طرح جاری ہیں جو ایک دوسرے کے محاذی اور ایک دوسرے پر اثر ڈالتے چلے جاتے ہیں۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1صفحہ81 حاشیہ نمبر 4)یعنی برابر چل رہی ہیں۔ ایک دوسرے کے متوازی چل رہی ہیں اور اثر بھی دونوں ڈال رہی ہیں۔
فرمایا کہ ’’قرآنِ شریف کا یہ مقصد تھا کہ حیوانوں سے انسان بناوے اور انسان سے بااخلاق انسان بناوے اور بااخلاق انسان سے باخدا انسان بناوے۔‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10صفحہ329) اور عربوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مقصد پورا ہوا اور کمال رنگ میں پورا ہوا۔ چند سال کی بات ہے کہ مجھ سے ایک یہودی نے خود یہ ذکر کیا کہ مَیں مسلمان تو نہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ضرور مانتا ہوں کیونکہ اس زمانے کے جو عرب بدوؤں کی حالت تھی اور جس طرح انقلابی طور پر ان کو بدلا گیا ہے یہ ایک رسول کا ہی کام ہو سکتا ہے کوئی عام آدمی نہیں کر سکتا۔ وہی کر سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی تائیدات حاصل ہوں۔
آپؑفرماتے ہیں : ’’قرآن کریم کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اسی اُمّی نے کتاب اور حکمت ہی نہیں بتلائی بلکہ تزکیہ نفس کی راہوں سے واقف کیا اور یہاں تک کہ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ(المجادلۃ:23)‘‘ یعنی اُن کی وہ اپنے امر سے تائید کرتا ہے۔ یہاں’’تک پہنچا دیا۔ دیکھو اور پُرغور نظر سے دیکھو کہ قرآنِ شریف ہر طرز کے طالب کو اپنے مطلوب تک پہنچاتا اور ہر راستی اور صداقت کے پیاسے کو سیراب کرتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 1صفحہ 122 ایڈیشن 1984ء)
آپؑفرماتے ہیں: ’’اگرچہ ہر یک الہامِ الٰہی یقین دلانے کے لئے ہی آیا تھا لیکن قرآنِ شریف نے اس اعلیٰ درجہ یقین کی بنیاد ڈالی کہ بس حد ہی کر دی۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ80 حاشیہ نمبر4)
افراد جماعت کو قرآن کریم کی تعلیم پر مکمل عمل کروانے کے لیے آپؑنے فرمایا۔ اپنے شرائط بیعت میں بھی یہ رکھا۔ چنانچہ چھٹی شرط بیعت ، ششم جو ہے وہ یہ ہے ’’کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آئے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سر پر قبول کر لے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنی ہر ایک راہ میں دستور العمل قرار دے گا۔‘‘(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)لیکن علمائے سوء جو عقل کے اندھے ہیں ان کے نزدیک ہم پھر بھی قرآن کریم میں تحریف کرنے والے ہیں۔
آپؑفرماتے ہیں کہ ’’ہم الٰہی کلام کی کسی آیت میں تغییر اور تبدیل اور تقدیم اور تاخیر اور فقرات تراشی کے مجاز نہیں ہیں۔‘‘ نہ ہم تبدیلی کر سکتے ہیں۔ نہ کوئی تغیر پیدا کر سکتے ہیں۔ نہ اس سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ نہ اس میں کمی کر سکتے ہیں۔ نہ زیادتی کر سکتے ہیں۔ کسی قسم کے فقرے بنانے کے ہم مجاز نہیں ہیں ’’مگر صرف اس صورت میں کہ جب خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہو۔‘‘ہاں اگر کہیں ثابت ہو جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے تو پھر ٹھیک ہے ہمیں بتاؤ۔ فرمایا اور یہ ثابت ہو جائے کہ ایسا کیا ہو’’اور یہ ثابت ہو جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ بذات خود ایسی تغییر اور تبدیل کی ہے اور جب تک ایسا ثابت نہ ہو تو ہم قرآن کی توسیع اور ترتیب کو زیر و زبر نہیں کر سکتے اور نہ اس میں اپنی طرف سے بعض فقرات ملا سکتے ہیں اور اگر ایسا کریں تو عند اللہ مجرم اور قابلِ مؤاخذہ ہیں۔‘‘
(اتمام الحجۃ، روحانی خزائن جلد 8صفحہ291)
آپؑنے فرمایا جب ایسا ہو ہی نہیں سکتا تو پھر ہمیں مجرم کیوں ٹھہراتے ہو؟ اور اگر ہم نے ایسا کردیا تو پھر ہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک مجرم ہیں۔ پس جب خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم میں سے ہر قسم کی تحریف اور تبدیلی کی نفی کر دی اور قرآن کریم میں ہر قسم کی تحریف اور تبدیلی کی نفی کر کے یہ اعلان فرمادیا کہ اگر ہم ایسا کرنے والے ہوں تو مجرم ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے قابل مؤاخذہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل مؤاخذہ ہیں لیکن ہم پر الزام لگانے والے جو یہ لوگ ہیں اپنے آپ کو خدا تعالیٰ سے بھی بڑا سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تو بےشک ہمیں مجرم نہ بنائے لیکن ان لوگوں نے مجرم بناکر ہمارا مؤاخذہ ضرور کرنا ہے جو آج کل یہ شور مچاتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے شر سے ہر احمدی کو بچائے اور ان کے شر ان پر الٹائے۔
ہمیں حقیقی معنوں میں قرآن کریم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔پاکستان کے احمدیوں کے لیے اور پاکستان میں ملک کے عمومی حالات کے لیے دعا کریں۔ برکینا فاسو میں احمدیوں کے لیے اور ملک کے عمومی حالات کے لیے دعا کریں۔ بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لیے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو بھی محفوظ رکھے۔ وہاں پھر آج شاید مولویوں نے کچھ شور شرابہ کرنا تھا۔ دنیا کے ہر ملک میں جہاں جہاں احمدی ہیں ان کے لیے دعا کریں۔ رمضان بھی اب شروع ہو رہا ہے جیساکہ میں نے کہا تھا اس میں جہاں خاص طور پر قرآن کریم کو پڑھنے اور سمجھنے کی طرف توجہ دیں وہاں دعاؤں کی طرف بھی خاص توجہ دیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق بھی عطا فرمائے اور رمضان کے فیض سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 7؍اپریل 2023ء صفحہ 2تا7)
…٭…٭…٭…