اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ-
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ
اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَ
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہوہ کلمہ ہے جو توحید کی بنیاد ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو آگ پر حرام کر دیا جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پڑھا۔
(صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ، باب المساجد فی البیوت … الخ حدیث 425)
پس جب اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے اس کی توجہ چاہتے ہوئے، اس کی طرف جھکتے ہوئے، اپنی توجہ کو خالص اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہوئے انسان لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنتا ہے۔ اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آگ کو اللہ تعالیٰ نے اس پر حرام کر دیا۔
(صحیح البخاری، کتاب الرقاق ،باب العمل الذی یبتغی بہ وجہ اللّٰہ … حدیث 6423)
ایک جگہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ پر اس کو حرام کر دے گا۔ اور یہی تعلیم تھی جو تمام انبیاء لے کر آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ سب سے افضل کلمہ جو میں نے اور مجھ سے پہلے نبیوں نے کہا وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗہے۔ (مؤطا امام مالک ،کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی الدعاء، حدیث 501، جلد 1، صفحہ 536، مطبوعہ مکتبۃ البشریٰ کراچی)
پس یہ تعلیم ہے جو تمام انبیاء کی ہے لیکن بدقسمتی سے انہی انبیاء کی قوموں نے جنہوں نے یہ تعلیم دی تھی اس تعلیم کو براہِ راست یا بالواسطہ بھول کر شرک کا ذریعہ بنا لیا۔ اصل تعلیم کو بھول گئے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت میں شامل کر کے وہ کامل تعلیم دی جس نے شرک کا بکلی خاتمہ کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کا حقیقی سبق دے کر ہماری دنیا و عاقبت سنوارنے کے سامان فرمائے۔
پس اب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی تعلیم پر عمل کرے گا اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار خالص ہو کر کرے گا وہی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بھی بنے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بھی حصہ پائے گا جس کے بارے میں ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن میری شفاعت کے اعتبار سے لوگوں میں سے سب سے زیادہ خوش بخت شخص وہ ہو گا جس نے اپنے خالص دل یا اپنے خالص نفس کے ساتھ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہکا اقرار کیا ہو گا۔
(صحیح البخاری، کتاب العلم ،باب الحرص علی الحدیث، حدیث 99)
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کیلئے خالص دل کے ساتھ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار ہے جس میں دنیا کی ملونی نہ ہو وہی آپ کی شفاعت کا حصہ دار ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ آخری اور کامل نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے شفاعت کا اختیار دیا۔ آپ پر ایمان بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ضروری ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مقام کا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ذکر فرمایا ہے۔ فرمایا:کوئی شخص ایسا نہیں جو صدق دل سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہاور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہکی گواہی دے مگر اللہ تعالیٰ اسے آگ پر حرام کر دے۔ (صحیح البخاری کتاب العلم باب من خص بالعلم قوماً دون قوم … حدیث 128)ایک جگہ خالی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہے دوسری جگہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ بھی شامل ہے۔ پس اب توحید کا اقرار اور اعلان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کے آخری اور کامل نبی ہونے کے اقرار کے بغیر ممکن نہیں۔ آپؐہی ہیں جنہوں نے اپنی امّت میں شرک کے مکمل طور پر ختم کرنے کا اعلان فرمایا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے اس شخص سے مکمل طور پر بیزاری کا اعلان فرمایا جو کسی بھی رنگ میں معمولی سے شرک کا بھی اظہار کرنے والا ہو۔ مگر باوجود اسکے مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو اس قسم کے مخفی شرک کے مرتکب ہیں جن کی اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے مناہی فرمائی ہے۔
ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے اسلامی احکام کو کھول کر ان کی گہرائی اور حکمت کے ساتھ ہمیں بتایا۔ جہاں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی گہرائی کے بارے میں ہمیں بتایا وہاں مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں بھی ہمیں بتایا۔
اس وقت میں اس سلسلے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اقتباسات پیش کروں گا جو اس مضمون پر بڑی خوبصورتی سے روشنی ڈالتے ہیں اور ہمیں بھی اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ اس مضمون کی گہرائی کو سمجھتے ہوئے ہمیں کس طرح اپنے جائزے لینے چاہئیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمودہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ (المائدۃ:4)کی تشریح آپ ہی فرما دی کہ اس میں تین نشانیوں کا ہونا از بس ضروری ہے۔‘‘ آپ نشانیاں بیان کر رہے تھے جس میں پہلا تھا اَصْلُهَا ثَابِتٌ (ابراہیم: 25) جس کی جڑیں مضبوطی سے قائم ہوں۔ دوسری نشانی ہے فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِ (ابراہیم: 25) کہ اس کی شاخیں آسمان کی بلندی تک پہنچی ہوئی ہیں۔ تیسری نشانی تُؤْتِیْٓ اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍ(ابراہیم: 26)ہر وقت تازہ پھل دیتی ہے۔ پس اسلام ہی وہ دین ہے جو اس معیار پر پورا اترتا ہے۔
بہرحال اَصْلُهَا ثَابِتٌ کی وضاحت کرتے ہوئے جو پہلی نشانی ہے آپؑفرماتے ہیں کہ ’’… اصول ایمانیہ جو پہلی نشانی ہے جس سے مراد کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہے۔‘‘یعنی اَصْلُهَا ثَابِتٌ کو اگر ثابت کرنا ہے تو اس کی پہلی نشانی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہے۔ فرمایا کہ ’’اس کو اس قدر بسط سے قرآن شریف میں ذکر فرمایا گیا ہے کہ اگر میں تمام دلائل لکھوں تو پھر چند جزو میں بھی ختم نہ ہوں گے۔‘‘کتابیں لکھی جائیں گی۔ ’’مگر تھوڑا سا ان میں سے بطور نمونہ کے ذیل میں لکھتا ہوں جیسا کہ ایک جگہ یعنی سیپارہ دوسرے سورۃ البقر میں فرماتا ہے اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ الْفُلْكِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَ بَثَّ فِیْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(البقرۃ : 165)
یعنی تحقیق آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے او ررات اور دن کے اختلاف اور ان کشتیوں کے چلنے میں جو دریا میں لوگوں کے نفع کیلئے چلتی ہیں اور جو کچھ خدا نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کیا اور زمین میں ہر ایک قسم کے جانور بکھیر دیئے اور ہواؤں کو پھیرا اور بادلوں کو آسمان اور زمین میں مسخر کیا۔ یہ سب خدا تعالیٰ کے وجود اور اسکی توحید اور اسکے الہام اور اسکے مُدَّبِّرْ بِالْاِرَادَہْ ہونے پر نشانات ہیں۔‘‘فرمایا کہ’’اب دیکھئے اس آیت میں اللہ جل شانہ نے اپنے اس اصول ایمانی پر کیسا استدلال اپنے اس قانونِ قدرت سے کیا۔‘‘ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کو ثابت کیا ہے، قانون قدرت سے یہ دلیل دی ہے۔’’یعنی اپنی ان مصنوعات سے جو زمین و آسمان میں پائی جاتی ہیں جن کے دیکھنے سے مطابق منشاء اس آیت کریمہ کے صاف صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بیشک اس عالم کا ایک صانع قدیم اور کامل اور وَحْدَہٗ لَاشَرِیْک اور مُدَّبِّرْ بِالْاِرَادَہْ اور اپنے رسولوں کو دنیا میں بھیجنے والا ہے۔ وجہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی تمام یہ مصنوعات اور یہ سلسلہ نظام عالم کا جو ہماری نظر کے سامنے موجود ہے یہ صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ یہ عالم خود بخود نہیں بلکہ اس کا ایک موجد اور صانع ہے جس کیلئے یہ ضروری صفات ہیں کہ وہ رحمان بھی ہو اور رحیم بھی ہو اور قادر مطلق بھی ہو اور واحد لا شریک بھی ہو اور ازلی ابدی بھی ہو اور مُدَّبِّرْ بِالْاِرَادَہْ بھی ہو اور مستجمع جمیع صفات کاملہ بھی ہو اور وحی کو نازل کرنے والا بھی ہو۔‘‘
(جنگ مقدس، روحانی خزائن، جلد6،صفحہ 123تا125)
پس لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ صرف ایک معبود ہونے کا خیال ہی دل میں پیدا نہیں کرتا بلکہ اس بات کو بھی دل میں راسخ کرتا ہے اور کرنا چاہیے کہ ہمارا خدا وہ واحد خدا ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا اور ہر مخلوق کا خالق ہے اور اسکے اذن سے ہی یہ تمام نظامِ کائنات چل رہا ہے اور تمام حاجات کیلئے ہم نے اسکے حضور ہی جھکنا ہے۔ پس جب یہ ایمان کی حالت ہو جائے تو وہ کامل ایمان ہوتا ہے جس میں شرک کی ملونی ہو ہی نہیں سکتی اور یہی وہ ایمان ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خالص ہو کرلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پر ایمان لانے والوں پر جہنم کی آگ حرام ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’استعانت کے متعلق یہ بات یادرکھنا چاہئے کہ اصل استمداد کا حق اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے۔‘‘
جس سے مدد طلب کی جاتی ہے یا کوئی مدد دینے والا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ ہی اسکا حق رکھتا ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی وہ کامل ہستی ہے جس سے مدد چاہی جانی چاہیے ۔کوئی اَور اس طرح اس کا حق رکھ ہی نہیں سکتا نہ اس میں طاقت ہے۔ ’’اور اسی پر قرآن کریم نے زوردیا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ۔ پہلے صفاتِ الٰہی رب، رحمٰن، رحیم، مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کا اظہار فرمایا۔ پھر سکھایا اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔یعنی عبادت بھی تیری کرتے ہیں اور استمداد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں۔‘‘مدد بھی اس عبادت کرنے کیلئے تجھ سے ہی چاہتے ہیں۔ تیری مدد کے بغیر ہماری عبادت بھی نہیں ہو سکتی۔’’اس سے معلوم ہوا کہ اصل حق استمداد کا اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے۔ کسی انسان، حیوان، چرند پرند غرضیکہ کسی مخلوق کیلئے نہ آسمان پر نہ زمین پر یہ حق نہیں ہے مگر ہاں دوسرے درجہ پر ظلی طور سے یہ حق اہل اللہ اور مردانِ خدا کو دیا گیا ہے۔‘‘ اللہ کے اذن سے ان کی دعاؤں سے مدد بھی ہوتی ہے۔ فرمایا کہ’’ہم کو نہیں چاہئے کہ کوئی بات اپنی طرف سے بنا لیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے اندر اندر رہنا چاہئے۔ اسی کا نام صراطِ مستقیم ہے اور یہ امر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہسے بھی بخوبی سمجھ میں آسکتا ہے۔ اسکے پہلے حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا محبوب و معبوداور مطلوب اللہ تعالیٰ ہی ہونا چاہئے۔ اور دوسرے حصے سے رسالتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت کا اظہار ہے۔‘‘ (ملفوظات ،جلد2،صفحہ53-54 ،ایڈیشن1984ء)
پھر آپؑفرماتے ہیں:’’جب سے کہ انسان پیدا ہوا ہے اس وقت تک کہ نابود ہوجائے خدا کا قانونِ قدرت یہی ہے کہ وہ توحید کی ہمیشہ حمایت کرتا ہے۔
جتنے نبی اس نے بھیجے سب اسی لئے آئے تھے کہ تا انسانوں اور دوسری مخلوقوں کی پرستش دور کر کے خدا کی پرستش دنیا میں قائم کریں اور ان کی خدمت یہی تھی کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا مضمون زمین پر چمکے جیساکہ وہ آسمان پر چمکتا ہے۔ سو ان سب میں سے بڑا وہ ہے جس نے اس مضمون کو بہت چمکایا۔ جس نے پہلے باطل الہٰوں کی کمزوری ثابت کی۔‘‘ جھوٹے جو معبود تھے ان کی کمزوری ثابت کی’’اور علم اور طاقت کے رو سے ان کا ہیچ ہونا ثابت کیا۔ اور جب سب کچھ ثابت کر چکا تو پھر اس فتح نمایاں کی ہمیشہ کیلئے یادگار یہ چھوڑی کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ۔اس نے صرف بے ثبوت دعویٰ کے طور پر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ نہیں کہا بلکہ اس نے پہلے ثبوت دے کر اور باطل کا بطلان دکھلا کر پھر لوگوں کو اس طرف توجہ دی کہ دیکھو! اس خدا کے سوا اَور کوئی خدا نہیں جس نے تمہاری تمام قوتیں توڑ دیں اور تمام شیخیاں نابود کر دیں۔ سو اس ثابت شدہ بات کو یاد دلانے کیلئے ہمیشہ کیلئے یہ مبارک کلمہ سکھلایا کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ۔‘‘ (مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن، جلد 15،صفحہ 65)
فتح مکہ کے موقع پر ہزاروں بت پرستوں نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی برتری دیکھی۔
ابوسفیان سے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم پر ابھی بھی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی حقیقت روشن نہیں ہوئی؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں بالکل سمجھ چکا ہوں کہ اللہ کے سوا اگر کوئی معبود ہوتا تو ہماری کچھ تو مدد کرتا۔ یہ تین سو ساٹھ بت ہم نے رکھے ہوئے ہیں کچھ تو ہماری مدد کرتے جن کی ہم عبادت کرتے ہیں۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، صفحہ739، اسلام ابی سفیان … مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)(صحیح البخاری، کتاب المظالم ،باب ھل تکسر الدنان … الخ حدیث 2478)
ایک مخالف کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’آپ کا یہ کہنا کہ حضرت مقدس نبوی کی تعلیم یہ ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کہنے سے گناہ دُور ہو جاتے ہیں۔ یہ بالکل سچ ہے اور یہی واقعی حقیقت ہے۔‘‘تم یہ کہتے ہو ناںگناہ ختم ہو جاتے ہیں ٹھیک ہے بالکل سچ ہے ’’کہ جو محض خدا کو واحد لا شریک جانتا ہے اور ایمان لاتا ہے کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی قادر یکتا نے بھیجا ہے تو بے شک اگر اس کلمہ پر اس کا خاتمہ ہو تو نجات پا جائے گا آسمانوں کے نیچے کسی کی خودکشی سے نجات نہیں ہرگز نہیں۔‘‘کسی کے مرنے سے نجات نہیں ہوتی۔ ہاں کوئی تمہاری خاطر مر جائے تو اس سے بھی نجات نہیں ہو گی۔ کلمہ سے نجات پائے گا ’’اور اس سے زیادہ کون‘‘ فرمایا کہ’’اس سے زیادہ کون پاگل ہوگا کہ ایسا خیال بھی کرے‘‘ کہ کلمہ سے نجات نہیں پا سکتا۔ مگر خدا کو واحد لا شریک سمجھنا۔ یہ غور کرلو۔ یہ سوچ لو۔ یہ simpleکہہ دینا، سادہ رنگ میں کہہ دینا نہیں ہے۔’’مگر خدا کو واحد لا شریک سمجھنا اور ایسا مہربان خیال کرنا کہ اس نے نہایت رحم کرکے دنیا کو ضلالت سے چھڑانے کیلئے اپنا رسول بھیجا جس کا نام محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے یہ ایک ایسا اعتقاد ہے کہ اس پر یقین کرنے سے روح کی تاریکی دُور ہوتی ہے اور نفسانیت دُور ہوکر اسکی جگہ توحید لے لیتی ہے۔ آخر توحید کا زبردست جوش تمام دل پر محیط ہوکر اسی جہان میں بہشتی زندگی شروع ہوجاتی ہے۔‘‘
حقیقت جاننی چاہیے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا مطلب کیا ہےمُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا مطلب کیا ہے تو پھر جنت اس دنیا میں ہی شروع ہو جاتی ہے۔
فرمایا کہ’’جیسا تم دیکھتے ہوکہ نور کے آنے سے ظلمت قائم نہیں رہ سکتی ایسا ہی جب لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا نورانی پرتو دل پر پڑتا ہے تو نفسانی ظلمت کے جذبات کالمعدوم ہو جاتے ہیں۔‘‘ ختم ہو جاتے ہیں۔’’گناہ کی حقیقت بجز اسکے اَور کچھ نہیں کہ سرکشی کی ملونی سے نفسانی جذبات کا شور و غوغا ہو جس کی متابعت کی حالت میں ایک شخص کا نام گناہگار رکھا جاتا ہے اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے معنی جو لغت عرب کے مَوارِدِ استعمال سے معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ لغت میں اسکا جو بہت زیادہ مطلب ہے’’وہ یہ ہیں کہ لَا مَطْلُوْبَ لِیْ وَ لَا مَحْبُوبَ لِیْ وَ لَا مَعْبُوْدَ لِیْ وَ لَا مُطَاعَ لِیْ اِلَّا اللّٰہُ۔یعنی بجز اللہ کے اَور کوئی میرا مطلوب نہیں اور محبوب نہیں اور معبود نہیں اور مطاع نہیں۔‘‘(نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن، جلد9،صفحہ 418-419) جب یہ حالت پیدا ہو جائے تو یقیناً پھر زندگی بھی جنت بن جاتی ہے اور بخشش کے سامان اس دنیا میں ہی شروع ہو جاتے ہیں۔
پھر کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی وضاحت کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ’’اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام دیئے ہیں۔ بعض ان میں سے ایسے ہیں کہ ان کی بجاآوری ہر ایک کو میسر نہیں ہے۔ مثلاً حج۔ یہ اس آدمی پر فرض ہے جسے استطاعت ہو۔‘‘ہر ایک پہ حج فرض نہیں ہے۔’’پھر راستہ میں امن ہو۔‘‘ یہ بھی ضروری ہے حج کیلئے۔ ’’پیچھے جو متعلقین ہیں ان کے گزارہ کا بھی معقول انتظام ہو۔‘‘ گھر والے جو پیچھے چھوڑ کے جا رہے ہو ان کے کھانے پینے کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ ان کو بھوکا چھوڑ کے تو حج کرنے چلے جاؤ۔ ’’اور اسی قسم کی ضروری شرائط پوری ہوں تو حج کر سکتا ہے۔ ایسا ہی زکوٰۃ ہے۔ یہ وہی دے سکتا ہے جو صاحبِ نصاب ہو۔‘‘ جس پر فرض ہو زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔’’ایسا ہی نماز میں بھی تغیرات ہو جاتے ہیں۔‘‘ کبھی سفر میں بیماری میں قصر بھی ہو جاتی ہے جمع بھی ہو جاتی ہے ’’لیکن ایک بات ہے جس میں کوئی تغیر نہیں اور وہ ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ۔
اصل یہی بات ہے اور باقی جو کچھ ہے وہ سب اسکے مُکمَّلَا تہیں۔
توحید کی تکمیل نہیں ہوتی جب تک عبادات کی بجا آوری نہ ہو۔’’ عبادات نہیں بجا لاؤ گے تو توحید مکمل نہیں ہوتی۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا حق ادا نہیں ہوتا۔ ‘‘اسکے یہی معنی ہیں کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کہنے والا اس وقت اپنے اقرار میں سچا ہوتا ہے کہ حقیقی طور پر عملی پہلو سے بھی وہ ثابت کر دکھائے کہ حقیقت میں اللہ کے سوا کوئی دوسرا محبوب و مطلوب اور مقصود نہیں ہے۔ ’’ پس یہ شرط ہے ایمان کی۔صرف زبانی اقرار نہیں۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہا ہے تو پھر اپنے عمل سے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کر کے، اسکی عبادات بجا لا کر، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کر کے ثابت کرنا ہو گا کیونکہ یہ اللہ کے حکم ہیں اور اپنے محبوب کی خاطر اور جس کو حاصل کرنا مقصود ہے اسکی خاطر اور جس کی طلب کی جاتی ہے اسکی خاطر اسکے حکموں پر عمل کرنا ضروری ہے تب ایک انسان لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا حقیقی عامل بنتا ہے۔ اس پر عمل کرنے والا بنتا ہے۔ ماننے والا بنتا ہے۔ فرمایا ’’جب اس کی یہ حالت ہو اور واقعی طور پر اس کا ایمانی اور عملی رنگ اس اقرار کو ظاہر کرنے والا ہو تو وہ خدا تعالیٰ کے حضور اس اقرار میں جھوٹا نہیں۔‘‘ یہ بات ہو جائے تو بڑی اچھی بات ہے پھر جھوٹا نہیں ہے۔ ’’ساری مادی چیزیں جل گئی ہیں اور ایک فنا ان پر اسکے ایمان میں آگئی ہے۔‘‘ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہنے سے تمام مادی چیزیں جل گئیں صرف اللہ تعالیٰ مطلوب اور مقصود اور محبوب ہو گیا۔ تو یہ ایمانی کیفیت آ گئی۔ ’’تب وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہمنہ سے نکالتا ہے اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ جو اسکا دوسرا جزو ہے وہ نمونہ کیلئے ہے کیونکہ نمونہ اور نظیر سے ہر بات سہل ہو جاتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام نمونوں کیلئے آتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمیع کمالات کے نمونوں کے جامع تھے کیونکہ سارے نبیوں کے نمونے آپؐمیں جمع ہیں۔‘‘ (ملفوظات، جلد3،صفحہ82-83 ،ایڈیشن1984ء)
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا حقیقی مفہوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا۔ اللہ تعالیٰ کے جو حکم تھے ان پر صحیح عمل اور ان کی تشریح اور ان کی تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اور آپ ہی وہ کامل نمونہ تھے جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہکو کامل کرکے دکھایا، اس پر عمل کو کامل کر کے دکھایا۔
پھر ہمیں نصیحت کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’بیعت رسمی فائدہ نہیں دیتی۔ ایسی بیعت سے حصہ دار ہونا مشکل ہوتا ہے۔ اسی وقت حصہ دار ہو گا جب اپنے وجود کو ترک کر کے بالکل محبت اور اخلاص کے ساتھ اسکے ساتھ ہو جاوے۔‘‘
جس کی بیعت کی ہے پورے محبت اور اخلاص کے ساتھ اسکے ساتھ ہو جاؤ تب بیعت فائدہ دے گی۔ فرمایا کہ ’’منافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سچا تعلق نہ ہونے کی وجہ سے آخر بے ایمان رہے۔‘‘نہوں نے بھی ظاہری بیعتیں کی تھیں۔ ’’ان کو سچی محبت اور اخلاص پیدا نہ ہوا ۔ اس لئے ظاہری لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ان کے کام نہ آیا۔‘‘فرمایا’’تو ان تعلقات کو بڑھانا بڑا ضروری امر ہے۔ اگر ان تعلقات کو وہ‘‘ یعنی’’(طالب ) نہیں بڑھاتا اور کوشش نہیں کرتا تو اس کا شکوہ اور افسوس بے فائدہ ہے۔ محبت و اخلاص کا تعلق بڑھانا چاہئے۔ جہاں تک ممکن ہو اس انسان‘‘ یعنی ’’(مرشد) کے ہمرنگ ہو۔ طریقوں میں اور اعتقاد میں۔‘‘ فرمایا کہ’’نفس لمبی عمر کے وعدے دیتا ہے۔‘‘ انسان سوچتا رہتا ہے کہ ابھی تو بڑی لمبی عمر پڑی ہے۔ ابھی تو میں جوان ہوں۔’’یہ دھوکا ہے۔ عمر کا اعتبار نہیں ہے۔ جلدی راستبازی اور عبادت کی طرف جھکنا چاہئے اور صبح سے لے کر شام تک حساب کرنا چاہئے۔‘‘
(ملفوظات، جلد1،صفحہ5 ،ایڈیشن1984ء)
اپنا کہ میں کیا کر رہا ہوں ۔کس حد تک میں نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پر عمل کیا ہے۔ یہ آپؑنے ہمیں نصیحت فرمائی ہے۔
پھر ایک جگہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کو سمجھنے اور اس کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ’’میرا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مسلمان سست ہو جاویں۔‘‘ کلمہ پڑھ لیا تو سست ہو جاؤ۔’’اسلام کسی کو سست نہیں بناتا۔ اپنی تجارتوں اور ملازمتوں میں بھی مصروف ہوں مگر میں یہ نہیں پسند کرتا کہ خدا کیلئے ان کا کوئی وقت بھی خالی نہ ہو۔‘‘ کہہ تو رہے ہیں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ لیکن اللہ کا حق ادا کرنا ہے تو ان کو کوئی وقت ہی نہیں ملتا دنیا میں مصروف ہیں۔ ’’ہاں تجارت کے وقت پر تجارت کریں اور اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت کو اس وقت بھی مد نظر رکھیں تاکہ وہ تجارت بھی ان کی عبادت کا رنگ اختیار کر لے۔ نمازوں کے وقت پر نمازوں کو نہ چھوڑیں۔ ہر معاملہ میں کوئی ہو دین کو مقدم کریں۔‘‘ دین مقدم کرنا ضروری ہے۔ ہم اپنے عہد میں دنیا کے معاملوں میں یہ عہد بھی کرتے ہیں کہ دنیا کے مقابلے میں ہم دین مقدم کریں گے۔ فرمایا ’’دنیا مقصود بالذات نہ ہو۔‘‘
دنیا نہ مقصود بالذات ہو۔’’اصل مقصود دین ہو۔ پھر دنیا کے کام بھی دین ہی کے ہوں گے۔ صحابہ کرامؓ کو دیکھو کہ انہوں نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی خدا کو نہیں چھوڑا۔ لڑائی اور تلوار کا وقت ایسا خطرناک ہوتا ہے کہ محض اسکے تصور سے ہی انسان گھبرا اٹھتا ہے۔ وہ وقت جبکہ جوش اور غضب کا وقت ہوتا ہے ایسی حالت میں بھی وہ خدا سے غافل نہیں ہوئے۔ نمازوں کو نہیں چھوڑا۔ دعاؤں سے کام لیا۔ اب یہ بد قسمتی ہے کہ یوں تو ہر طرح سے زور لگاتے ہیں، بڑی بڑی تقریریں کرتے ہیں‘‘ لوگ۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی باتیں کرتے ہیں’’جلسے کرتے ہیں کہ مسلمان ترقی کریں مگر خدا سے ایسے غافل ہوتے ہیں کہ بھول کر بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ پھر ایسی حالت میں کیا امید ہو سکتی ہے کہ ان کی کوششیں نتیجہ خیز ہوں جبکہ وہ سب کی سب دنیا ہی کیلئے ہیں۔‘‘ کوششیں دنیا کیلئے کر رہے ہیں۔ نام مسلمانوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ اللہ کے دین کا استعمال کر رہے ہیں۔
فرمایا ’’یاد رکھو جب تک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ دل و جگر میں سرایت نہ کرے اور وجود کے ذرے ذرے پر اسلام کی روشنی اور حکومت نہ ہو کبھی ترقی نہ ہو گی۔‘‘ (ملفوظات، جلد2،صفحہ158-159، ایڈیشن1984ء)
ترقی کرنی ہے تو پھر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے مفہوم کو سمجھنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کو مقصود بالذات بنانا ہوگا نہ کہ دنیا کو۔ پھر کلمہ طیبہ کی حقیقت اور اسکے معنی بیان کرتے ہوئے اور کس طرح ہمیں اسے سمجھ کر اس پہ عمل کرنا چاہیے آپؑ فرماتے ہیں:’’میں کئی بار ظاہر کر چکا ہوں کہ تمہیں صرف اتنے پر خوش نہیں ہونا چاہئے کہ ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے قائل ہیں۔ جو لوگ قرآن پڑھتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صرف زبانی قِیْل و قَال سے کبھی راضی نہیں ہوتا اور نہ نری زبانی باتوں سے کوئی خوبی انسان کے اندر پیدا ہوسکتی ہے جب تک عملی حالت درست نہ ہو۔‘‘ زبانی باتیں تو کوئی چیز نہیں ہیں اصل میں عمل چیز ہے۔’’جب تک عملی حالت درست نہ ہو کچھ بھی نہیں بنتا۔ یہودیوں پر بھی ایک زمانہ ایسا آیا تھا کہ ان میں نری زبان درازی ہی رہ‘‘گئی تھی ’’اور انہوں نے صرف زبانوں کی باتوں پر ہی کفایت کر لی تھی۔ زبان سے تو وہ بہت کچھ کہتے تھے مگر دل میں طرح طرح کے گندے خیالات اور زہریلے مواد بھرے ہوتے تھے۔ یہی وجہ تھی جو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر طرح طرح کے عذاب نازل کئے اور ان کو مختلف مصیبتوں میں ڈالا اور ذلیل کیا یہاں تک کہ انہیں سؤر اور بندر بنایا۔‘‘ فرمایا کہ ’’اب غور کا مقام ہے۔ کیا وہ تورات کو نہیں مانتے تھے؟ وہ ضرور مانتے تھے اور نبیوں کے بھی ماننے والے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اتنی ہی بات کو پسند نہ کیا کہ وہ نرے زبان سے ماننے والے ہوں اور ان کے دل زبان سے متفق نہ ہوں۔‘‘ زبان سے تو کہتے ہوں لیکن دل اس پر عمل نہ کر رہے ہوں جو زبان کہہ رہی ہے۔ فرمایا’’خوب یادرکھنا چاہئے اگر کوئی شخص زبان سے کہتا ہے کہ میں خدا کو وَحْدَہٗ لَاشَرِیْک مانتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاتا ہوں۔ اور ایسا ہی اور ایمانی امور کا قائل ہوں لیکن اگر یہ اقرار صرف زبان ہی تک ہے اور دل معترف نہیں تو یہ زبانی باتیں ہوں گی۔‘‘ منہ سے کہہ دینا کافی نہیں ہے جب تک دل سے آواز نہ اٹھے۔’’اور نجات اس سے نہیں مل سکے گی جب تک انسان کا دل ایمان نہ لائے۔ اور اس کا ایمان لانایہی ہوگا کہ وہ عملی حالت میں ان امور کو ظاہر کردے اُس وقت تک کوئی بات بنتی نہیں۔‘‘ عملی حالت کیا ہے؟ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل جو قرآن کریم میں وضاحت سے بیان ہوئے ہیں۔
فرمایا کہ ’’میں سچ کہتاہوں کہ اصل مرادتب ہی حاصل ہوتی ہے جب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو اور درحقیقت دنیا پر دین کو مقدم کر دے۔‘‘ صرف عہد کرنے سے نہیں ہوگا عملی طور پر دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہو گا۔
فرمایا ’’یاد رکھو مخلوق کو انسان دھوکہ دے سکتاہے اور لوگ یہ دیکھ کر کہ پنج وقت نماز پڑھتا ہے یا اور نیکی کے کام کرتا ہے دھوکہ کھا سکتے ہیں۔‘‘ لوگ دیکھنے والے ہیں کسی کے عمل کو نماز پڑھتے دیکھ کے، مسجد میں آ کے نفل پڑھتے دیکھ کے کہہ سکتے ہیں بڑا پنجوقتہ نمازی ہے، مسجد میں آتا ہے۔ کوئی اور نیکی کا کام کیا ہے۔ چندے دے رہا ہے۔ بڑا نیک آدمی ہے۔ لوگ دھوکاکھا سکتے ہیں ‘‘مگر خدا تعالیٰ دھوکہ نہیں کھا سکتا۔ اس لئے اعمال میں ایک خاص اخلاص ہونا چاہئے۔‘‘ اعمال جو بجا لانے ہیں ان میں بھی ایک اخلاص ہونا چاہیے اور اخلاص وہی ہو گا جو خالصۃً اللہ تعالیٰ کی خاطر ہو۔ ’’یہی ایک چیز ہے جو اعمال میں صلاحیت اور خوبصورتی پیدا کرتی ہے۔‘‘ فرمایا’’اب یادرکھنا چاہئے کہ کلمہ جو ہم ہر روز پڑھتے ہیں اس کے کیا معنی ہیں ؟ کلمہ کے یہ معنی ہیں کہ انسان زبان سے اقرار کرتا ہے اور دل سے تصدیق کہ میرا معبود، محبوب اور مقصود خدا تعالیٰ کے سوا اَور کوئی نہیں۔‘‘
جیساکہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے۔ آپؑنے فرمایا کہ ’’اِلٰہ کا لفظ محبوب اور اصل مقصود اور معبود کیلئے آتا ہے۔‘‘ سب سے زیادہ محبت اس سے ہو اور وہی مقصد ہو جس کو حاصل کرنے کی انسان کی غرض ہو نہ کہ دنیاوی چیزیں اور عبادت صرف اسی کی کی جائے کوئی مخفی شرک بھی نہ ہو۔ فرمایا کہ ’’اِلٰہ کا لفظ محبوب اور اصل مقصود اور معبود کیلئے آتا ہے۔ یہ کلمہ قرآن شریف کی ساری تعلیم کا خلاصہ ہے جو مسلمانوں کو سکھایا گیا ہے۔ چونکہ ایک بڑی اور مبسوط کتاب کا یاد کرنا آسان نہیں۔‘‘پورا قرآن شریف یاد کرنا تو آسان نہیں ہے’’اس لئے یہ کلمہ سکھا دیا گیا تاکہ ہر وقت انسان اسلامی تعلیم کے مغز کو مدنظر رکھے۔‘‘ اور مغز کیا ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ۔ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے۔ وہی میرا مطلوب ہے، وہی میرا مقصود ہے، وہی میرا محبوب ہے۔’’اور جب تک یہ حقیقت انسان کے اندر پیدا نہ ہو جاوے سچ یہی ہے کہ نجات نہیں۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہےمَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّةَیعنی جس نے صدق دل سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کو مان لیا وہ جنت میں داخل ہو گیا۔ لوگ دھوکہ کھاتے ہیں۔‘‘اس کی وضاحت میں آپؑفرماتے ہیں کہ ’’اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ طوطے کی طرح لفظ کہہ دینے سے انسان جنت میں داخل ہو جاتاہے۔ اگر اتنی ہی حقیقت اسکے اندر ہوتی تو پھر سب اعمال بے کار اور نکمے ہو جاتے۔‘‘ صرف لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہنے سے جنت میں داخل ہو جاؤ پھر تو عمل سارے ختم ہو گئے۔ قرآنِ کریم میں جو اتنے بڑے احکامات ہیں ان کی ضرورت ہی کیا تھی۔’’اور شریعت (معاذ اللہ) لغو ٹھہرتی۔ نہیں۔ بلکہ اسکی حقیقت یہ ہے کہ وہ مفہوم جو اسی میں رکھا گیا ہے وہ عملی رنگ میں انسان کے دل میں داخل ہو جاوے۔ جب یہ بات پید اہو جاتی ہے تو ایسا انسان فی الحقیقت جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔‘‘ جب اس حقیقت کو انسان سمجھ لے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے مفہوم کو تو پھر جنت میں داخل ہوتا ہے۔ ’’نہ صرف مرنے کے بعد بلکہ اسی زندگی میں وہ جنت میں ہوتاہے۔‘‘
ایک اَور جگہ دوسری ایک مجلس میں آپؑذکر فرما رہے تھے۔ دوسرے اخبار نے اس کو زائد وضاحت سے اس طرح بھی لکھا ہے۔ آپؑنے فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ الفاظ سے تعلق نہیں رکھتا۔ وہ دلوں سے تعلق رکھتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ درحقیقت اس کلمہ کے مفہوم کو اپنے دل میں داخل کر لیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی عظمت پورے رنگ کے ساتھ ان کے دلوں میں بیٹھ جاتی ہے وہ جنت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جب کوئی شخص سچے طور پر کلمہ کا قائل ہو جاتا ہے تو بجز خدا کے اور کوئی اس کا پیارا نہیں رہتا۔‘‘ سچے طور پر کلمہ پڑھ لیا تو پھر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی پیارا رہ ہی نہیں سکتا ’’بجز خدا کے کوئی اسکا معبود نہیں رہتا‘‘ کوئی ایسا شخص ہو ہی نہیں سکتا جسکی مخفی طور پر بھی عبادت ہو۔’’اور بجز خدا کے کوئی اسکا مطلوب باقی نہیں رہتا۔‘‘ کوئی ایسی چیز رہتی نہیں جسکا وہ طالب ہو۔ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔’’وہ مقام جو ابدال کا مقام ہے اور وہ جو قطب کا مقام ہے اور وہ جو غوث کا مقام ہے وہ یہی ہے کہ کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پر دل سے ایمان ہو اور اسکے سچے مفہوم پرعمل ہو۔‘‘
بہرحال پھر اسی تسلسل میں آگے فرمایا کہ ’’یہ سچی بات ہے اور جلد سمجھ میں آجاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے سوا انسان کا کوئی محبوب اور مقصود نہ رہے تو پھر کوئی دکھ یا تکلیف اسے ستاہی نہیں سکتی۔‘‘
اگر انسان یہ سمجھ لے کہ میری تکلیفیں بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر ہی ہیں تو پھر وہ اسے ستا نہیں سکتیں۔ ان تکلیفوں سے پریشان نہیں ہوتا۔ اس کو پتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ولی کی مدد کیلئے فوراً پہنچتا ہے اور اس کو بعض حالات میں بلکہ اکثر اوقات اس کو سکونِ قلب بھی عطا فرماتا ہے۔
فرمایا ’’یہ وہ مقام ہے جو ابدال اور قطبوں کو ملتاہے۔‘‘ اگر مقصد خداتعالیٰ کی ذات ہو، ذات کا حصول ہو، دنیا کی چیزیں نہ ہوں تو پھر فکر نہیں رہتی۔ صحابہؓ نے اس نقطے کو سمجھا۔ یہ نہیں کہ قطب اور ابدال اور خاص خاص لوگ ہیں صرف انہی کو ملتا ہے۔ صحابہؓ نے، اکثریت صحابہ نے اس مقام کو حاصل کیا۔ اس نقطے کو سمجھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان صحابہ کو ہمارے لیے اسوہ بھی بنا دیا۔
پھر آپؑنے فرمایا کہ ’’آپ یہ خیال نہ کریں کہ ہم کب بتوں کی پرستش کرتے ہیں۔‘‘ یہ کہنے کے بعد کہ بڑا مقام ہے عام آدمیوں کیلئے بھی فرما دیا کہ تم صرف یہ نہ کہو کہ بس ہم بتوں کی پرستش نہیں کرتے اس لیے ہمارے لیے یہی کافی ہے’’ہم بھی تو اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ دینا کافی ہے۔ فرمایا’’یاد رکھو یہ تو ادنیٰ درجہ کی بات ہے کہ انسان بتوں کی پرستش نہ کرے۔ ہندو لوگ جن کو حقائق کی کوئی خبر نہیں اب بتوں کی پرستش چھوڑ رہے ہیں۔‘‘ یعنی توحید کی حقیقت کا ان کو علم نہیں ہے تب بھی وہ بتوں کی پرستش چھوڑ رہے ہیں۔’’معبود کا مفہوم اسی حد تک نہیں کہ انسان پر ستی یا بت پرستی تک ہو۔‘‘ یہی معبود نہیں ہے کہ انسان انسانوں کو نہ پوجے یا بتوں کو نہ پوجے۔’’اور بھی معبود ہیں۔‘‘ اسکے علاوہ بھی معبود ہیں۔ صرف یہ ظاہری معبود نہیں۔’’اور یہی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ہوائے نفس اور ہو س بھی معبود ہیں۔‘‘نفس کی خواہشات جو ہیں اور ہوس جو ہے وہ بھی معبود بن جاتے ہیں جب وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر کھڑے ہوں، جب لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ سے دُور لے جانے والے ہوں۔ فرمایا’’جو شخص نفس پرستی کرتا ہے یا اپنی ہواوہوس کی اطاعت کر رہا ہے اور اس کیلئے مر رہا ہے وہ بھی بت پرست اور مشرک ہے۔‘‘ فرمایا ’’یہ لَا نفی جنس ہی نہیں کرتا بلکہ ہر قسم کے معبودوں کی نفی کرتا ہے۔‘‘ یعنی کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ میں یہ کہنا کہ صرف ظاہری معبود نہیں ہیں ایک مادی چیز کی نفی نہیں کر رہا بلکہ کوئی بھی چیز جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر لاؤ اور وہ اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتا۔ پس فرمایا ہر قسم کے معبودوں کی نفی کرتا ہے یہ سمجھنا چاہیے لَا اِلٰہَ سے۔ ’’خواہ وہ اَنْفُسِی ہوں یا آفاقی۔‘‘ اندرونی اور مادی ہوں یاظاہری اور دنیاوی چیزیں ہوں۔’’خواہ وہ دل میں چھپے ہوئے بت ہیں یاظاہری بت ہیں۔ مثلاً ایک شخص بالکل اسباب ہی پر توکل کرتا ہے تو یہ بھی ایک قسم کا بت ہے۔ اس قسم کی بت پرستی تپ دق کی طرح ہوتی ہے۔‘‘
ٹی بی کے مریض کی طرح ہوتی ہے’’جو اندر ہی اندر ہلاک کر دیتا ہے۔ موٹی قسم کے بت تو جھٹ پٹ پہچانے جاتے ہیں اور ان سے مَخْلَصی حاصل کرنا بھی سہل ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ لاکھوں ہزاروں انسان ان سے الگ ہوگئے اور ہورہے ہیں۔ یہ ملک جو ہندوؤں سے بھرا ہوا تھا کیا سب مسلمان ان میں سے ہی نہیں ہوئے؟‘‘ یہ جو مسلمان ہوئے ہیں یہ بھی تو بت پرست تھےجو مسلمان ہوئے ہیں۔ ’’پھرانہوں نے بت پرستی کو چھوڑا یا نہیں چھوڑا؟ اور خود ہندوؤں میں بھی ایسے فرقے نکلتے آتے ہیں۔‘‘ پہلے بھی جیساکہ ذکر فرمایا’’جو اب بت پر ستی نہیں کرتے۔
لیکن یہاں تک ہی بت پرستی کا مفہوم نہیں ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ موٹی بت پرستی چھوڑ دی ہے مگر ابھی تو ہزاروں بت انسان بغل میں لئے پھرتا ہے اور وہ لوگ بھی جو فلسفی اور منطقی کہلاتے ہیں وہ بھی ان کو اندر سے نہیں نکال سکتے۔‘‘ فلسفی اور منطقی کہلاتے ہیں، بڑے فلسفے جھاڑتے ہیں، بڑی دلیلیں پیش کرتے ہیں لیکن ان کے دلوں میں بت ہیں۔ اپنے علم کےزعم ہیں، وہی ان کو بت بنائے ہوئے ہیں۔ اپنے نظریات ہیں، وہی ان کے بت بنے ہوئے ہیں۔
وہ انہیں نہیں نکال سکتے۔ فرمایا ’’اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے سوا یہ کیڑے اندر سے نکل نہیں سکتے۔ یہ بہت ہی باریک کیڑے ہیں اور سب سے زیادہ ضرر اور نقصان ان کا ہی ہے۔ جو لوگ جذباتِ نفسانی سے متاثر ہوکر اللہ تعالیٰ کے حقوق اور حدود سے باہر ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر حقوق العباد کو بھی تلف کرتے ہیں وہ ایسے نہیں کہ پڑھے لکھے نہیں بلکہ ان میں ہزاروں کو مولوی فاضل اور عالم پاؤ گے اور بہت ہوں گے جو فقیہہ اور صوفی کہلاتے ہوں گے مگر باوجود ان باتوں کے وہ بھی ان امراض میں مبتلا نکلیں گے۔‘‘ حقوق العباد اگر ادا نہیں کر رہے تب بھی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا مفہوم بھول جاتے ہیں۔ ’’ان بتوں سے پر ہیز کرنا ہی تو بہادری ہے۔‘‘ بڑے بڑے لوگ تم سمجھو گے بہت نیک لوگ ہیں لیکن نہیں، بت ان کے اندر بھی ہیں۔
ان بتوں سے پرہیز کرنا بہادری ہے۔ مکمل طور پراللہ کا حق ادا کرنا، مکمل طور پر بندوں کے حق اداکرنا تب لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا صحیح مفہوم پتا لگتا ہے اور یہی بہادری ہے۔
’’اور ان کو شناخت کرنا ہی کمال دانائی اور دانشمندی ہے۔‘‘فرمایا’’یہی بت ہیں جن کی وجہ سے آپس میں نفاق پڑتا ہے اور ہزاروں کُشت وخون ہو جاتے ہیں۔ ایک بھائی دوسرے کا حق مارتا ہے اور اسی طرح ہزاروں ہزار بدیاں ان کے سبب سے ہوتی ہیں۔ ہر روز اور ہرآن ہوتی ہیں اور اسباب پر اس قدر بھروسہ کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کو محض ایک عضوِ معطل قرار دے رکھا ہے۔‘‘فرمایا ’’بہت ہی کم لوگ ہیں جنہوں نے توحید کے اصل مفہوم کو سمجھا ہے اور اگر انہیں کہا جاوے تو جھٹ کہہ دیتے ہیں کیا ہم مسلمان نہیں اور کلمہ نہیں پڑھتے؟ مگر افسوس تو یہ ہے کہ انہوں نے اتنا ہی سمجھ لیا ہے کہ بس کلمہ منہ سے پڑھ دیا اور یہ کافی ہے۔ میں یقیناً کہتاہوں کہ اگر انسان کلمہ طیبہ کی حقیقت سے واقف ہو جاوے اور عملی طور پر اس پر کاربند ہو جاوے تو وہ بہت بڑی ترقی کر سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔
یہ امر خوب سمجھ لو کہ میں جو اس مقام پر کھڑا ہوں میں معمولی واعظ کی حیثیت سے نہیں کھڑا ہوں اور کوئی کہانی سنانے کیلئے نہیں کھڑا ہوں بلکہ میں تو ادائے شہادت کیلئے کھڑا ہوں۔ میں نے وہ پیغام جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے پہنچا دینا ہے۔ اس امر کی مجھے پروا نہیں کہ کوئی اسے سنتا ہے یا نہیں سنتا اور مانتا ہے یا نہیں مانتا۔ اسکا جواب تم خود دو گے۔ مَیں نے فرض ادا کرنا ہے۔ مَیں جانتا ہوں بہت سے لوگ میری جماعت میں داخل تو ہیں اور وہ توحید کا اقرار بھی کرتے ہیں مگر میں افسوس سے کہتاہوں کہ وہ مانتے نہیں۔
جو شخص اپنے بھائی کا حق مارتا ہے یا خیانت کرتاہے یا دوسری قسم کی بدیوں سے باز نہیں آتا۔ میں یقین نہیں کرتا کہ وہ توحید کا ماننے والا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ اسکو پاتے ہی انسان میں ایک خارق عادت تبدیلی ہو جاتی ہے۔‘‘
توحید کو ماننے والے میں تو ایک تبدیلی پیدا ہونی چاہیے۔’’اس میں بغض، کینہ، حسد، ریا وغیرہ کے بت نہیں رہتے اور خدا تعالیٰ سے اس کا قرب ہوتا ہے۔
یہ تبدیلی اسی وقت ہوتی ہے اور اسی وقت وہ سچا موحد بنتا ہے جب یہ اندرونی بت تکبر، خود پسندی، ریا کاری، کینہ و عداوت، حسدو بخل، نفاق و بد عہدی وغیرہ کے دُور ہو جاویں۔ جب تک یہ بت اندر ہی ہیں اس وقت تک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہنے میں کیونکر سچا ٹھہر سکتاہے؟‘‘
پس اس رمضان میں ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے کہ ان بتوں سے بھی اپنے آپ کو پاک کریں تا کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے حقیقی مفہوم کو ہم سمجھ سکیں اور اس پر ایمان لانے والے ہوں۔ فرمایا ’’کیونکہ اس میں توکّل کی نفی مقصود ہے۔ پس یہ پکی بات ہے کہ صرف منہ سے کہہ دینا کہ خدا کو وَحْدَہٗ لَاشَرِیْک مانتا ہوں کوئی نفع نہیں دے سکتا۔ ابھی منہ سے کلمہ پڑھتا ہے اور ابھی کوئی امر ذرا مخالفِ مزاج ہوا اور غصہ اور غضب کو خدا بنا لیا۔ میں بار بار کہتا ہوں کہ اس امر کو ہمیشہ یادرکھنا چاہیے کہ جب تک یہ مخفی معبود موجود ہوں ہرگز توقع نہ کرو تم اس مقام کو حاصل کر لو گے جو ایک سچے موحد کو ملتاہے جیسے جب تک چوہے زمین میں ہیں مت خیال کرو کہ طاعون سے محفوظ ہو۔ اسی طرح پر جب تک یہ چوہے اندر ہیں‘‘یعنی کہ برائیوں کے چوہے۔ ’’اس وقت تک ایمان خطرہ میں ہے۔ جو کچھ میں کہتا ہوں اسکو خوب غور سے سنو اور اس پر عمل کرنے کیلئے قدم اٹھاؤ۔‘‘ فرمایا’’پس کلمہ کے متعلق خلاصہ تقریر کا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمہارا معبود اور محبوب اور مقصود ہو اور یہ مقام اسی وقت ملے گا جب ہر قسم کی اندرونی بدیوں سے پاک ہو جاؤ گے اور ان بتوں کو جو تمہارے دل میں ہیں نکال دو گے۔‘‘
(ملفوظات ،جلد9 ،صفحہ101تا 108، معہ حاشیہ صفحہ نمبر 104 ایڈیشن 1984ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ رمضان کے ان بقایا دنوں میں خاص طورپر کوشش اور دعا سے اپنے اندر کی تمام بدیوں کو نکالنے والے بن جائیں۔
ہر قسم کے مخفی سے مخفی شرک سے بھی بچنے والے ہوں۔ ہر قسم کے بتوں کو نکالنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہی صرف ہمارا معبود اور مقصود اور محبوب بن جائے۔ کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی حقیقت کو ہم سمجھنے والے ہوں اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا جب ہم اقرار کریں تو ہمارے سامنے عملی زندگی گزارنے کیلئے وہ حسین اسوہ ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے قائم فرمایا۔ اور یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ہو سکتیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کیلئے ہمیں ایک عملی جہاد اور روحانی جہاد کرنا ہو گا۔
رمضان کے آخری عشرے میں ہم لیلۃ القدر کی باتیں کرتے ہیں تو لیلۃ القدر تو حقیقت میں اس وقت ملتی ہے جب ہم اپنا سب کچھ، اپنا ہر قول اور فعل اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق کرنے کیلئے تیار ہو جائیں اورا س پر عمل کرنے والے ہوں اور پھر اسے مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں اور یہی وہ حقیقی نشانی ہے جو لیلۃالقدر کے پانے کی ہے۔
یہ عارضی نشانیاں کہ ہم نے روشنی دیکھ لی، ہم نے فلاں چیز دیکھ لی، ہمیں اس طرح محسوس ہوا، بارش آ گئی اور خوشبو آ گئی، فلاں چیز آ گئی یہ تو عارضی چیزیں ہیں اصل نشانی یہ ہے کہ کیا انقلاب ہمارے دلوں میں پیدا ہوا۔
بعض جماعتوں نے دعاؤں کے بھی خاص پروگرام میری اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے بنائے ہیں کہ اگر ہم خالص ہو کر تین دن دعائیں کریں تو اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ظاہر ہو سکتا ہے۔ اگر تو ہم نے یہ تین دن خاص طور پر اس لیے مقرر کیے ہیں کہ یہ تین دن دعاؤں میں لگا لواور پھر اپنی پرانی طرز زندگی پر آ جاؤ اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے حقیقی مقصد کو بھول جاؤ تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کے حال کو جانتا ہے، ہماری نیتوں کو جانتا ہے۔ اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
پس اگر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کیلئے یہ دن دعاؤں میں گزارنا چاہتے ہیں تو پھر اس عہد کے ساتھ گزارنے ہوں گے کہ اب یہ دن ہماری زندگیوں کا مستقل حصہ بن جائیں گے اور پھر یہ تکلیفیں جو مخالف ہمیں پہنچا رہا ہے ان کو دور کرنے کیلئے خدا تعالیٰ اپنی خاص تائید و نصرت ظاہر فرمائے گا۔ ان شاء اللہ۔ اور اپنے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ ہمارا ولی بن جائے گا جب ہم اللہ تعالیٰ کے ہو جائیں گے۔ بہرحال میں نے تو یہ بھی کہا تھا کہ ہر فردِ جماعت بلا استثنا اپنی ایسی حالت پیدا کرے پھر یہ انقلاب ہو گا۔
پس یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر یہ حالت پیدا نہیں ہوتی تو تین دن کے بعد یہ نہ سمجھ لیں جنہوں نے پروگرام بنائے ہوئے ہیں کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو نہیں سنتا یا کوئی انقلاب پیدا نہیں ہونا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ ہے کہ آپ کو اور آپ کی جماعت کو وہ جلد یا کچھ عرصہ بعد فتوحات عطا فرمائے گا۔ ہاں اگر ہم اپنی حالتوں میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کر لیں اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے اپنا معبود اور مقصود اور محبوب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو بنا لیں، دنیا سے زیادہ ہمیں خدا تعالیٰ سے محبت اور اس کو پانا ہمارا مقصود ہو تو یہ انقلاب جلدی بھی آ سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ بے نیاز بھی ہے۔ اس کی باتوں میں شرائط بھی ہوتی ہیں۔ پس ہمیں مستقل اپنی حالتوں میں تبدیلیاں پیدا کرنے کا عہد کرنا ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رمضان کا آخری عشرہ جہنم سے نجات کا عشرہ ہے۔(الجامع لشعب الایمان، جزو 5، صفحہ 223-224، فضائل شھر رمضان، حدیث 3336، مکتبۃ الرشد الریاض 2003ء) اور پھر ،جیسا کہ بیان ہوا ،یہ بھی فرمایا کہ جس نے کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ دل سے پڑھا اس پر جہنم کی آگ بھی حرام ہو گئی۔ تو یہ سب باتیں اس طرف توجہ دلاتی ہیں کہ انسان کے عمل ضروری ہیں اور مستقل عمل ضروری ہیں۔
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے اور اس کو تفصیل سے میں نے بیان کیا ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کہنے کے ساتھ عمل کرنا بہت ضروری ہے۔
پس اس آخری عشرے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے، حقیقی طور پر لیلۃ القدر حاصل کرنے کیلئے ہمیں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کے کلمہ کو اپنے دل و دماغ کی آواز بنانا ہو گا، اپنے ہر عمل پر لاگو کرنا ہوگا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ان دنوں میں دنیا کے عمومی امن و استحکام کیلئے بھی دعا کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ انسانیت پر رحم اور فضل فرمائے۔
…٭…٭…٭…