اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-01

جنگِ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کا بیان

نیز فلسطینی مظلومین کی دادرسی اور عالمی جنگ سے بچنے کیلئے دعا کی تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

فرمودہ 12؍ جنوری2024ء بمطابق 12؍صلح۔ 1403ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)یو.کے

’’لڑائی میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا تھا

کیونکہ آپؐبڑے خطرناک مقام میں ہوتے تھے۔ سبحان اللہ! کیا شان ہے‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے دن اپنے صحابہؓ کی ایک جماعت سے موت پر بیعت لی

جب بظاہر مسلمانوں کی پسپائی ہوئی تو وہ ثابت قدم رہے اور اپنی جان پر کھیل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنے لگے یہاں تک کہ ان میں سے کچھ شہید ہو گئے

ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ جب کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ رَجُلٌ یَشْرِیْ لَنَا نَفْسَهٗ؟

کون شخص ہے جو ہمارے لیے خود کو بیچ دے گا تو زیاد بن سکنؓ پانچ انصاری صحابہؓ کے ساتھ کھڑے ہوئے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ عمارہ بن یزید بن سکنؓ تھے

شدید زخمی زیادؓنے بڑی کوشش کے ساتھ اپنا سر اٹھایا اوراپنا منہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر رکھ دیا اوراسی حالت میں جان دے دی

جو صحابہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع تھے انہوں نے جو جان نثاریاں دکھائیں تاریخ ان کی نظیرلانے سے عاجز ہے، یہ لوگ پروانوں کی طرح آپؐکے ارد گرد گھومتے تھے

اورآپؐکی خاطراپنی جان پرکھیل رہے تھے، جووار بھی پڑتا تھا صحابہؓ اپنے اوپر لیتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبچاتے تھے اورساتھ ہی دشمن پربھی وارکرتے جاتے تھے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی دنیا کی جنگی تاریخ میں بہترین سپہ سالار اور پُرحکمت فوری فیصلوں کے مالک تسلیم کیے جاتے ہیں

جنگِ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کا بیان

نیز فلسطینی مظلومین کی دادرسی اور عالمی جنگ سے بچنے کیلئے دعا کی تحریک

اسرائیل اب لبنان کی سرحد کے ساتھ بھی حزب اللہ کے خلاف محاذ کھول رہا ہے اور جس سے حالات مزید خراب ہوں گے

اسی طرح امریکہ اور برطانیہ نے حوثی یمنی قبائل کے خلاف جو محاذ کھولا ہے یہ سب چیزیں جو ہیں یہ جنگ کو مزید وسیع کر رہی ہیں، پھیلا رہی ہیں

اور اب تو بہت سارے لکھنے والوں نے لکھ دیا ہے لکھ رہے ہیں کہ عالمی جنگ کے آثار بڑے قریب نظر آ رہے ہیں

پس دعاؤں کی بہت ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ انسانیت کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے

مکرم ابو حلمی محمد عکاشہ صاحب آف فلسطین،مکرمہ امتہ النصیر ظفر صاحبہ اہلیہ مکرم حیدر علی ظفر صاحب

مکرمہ نسیم اختر صاحبہ اہلیہ حبیب اللہ کاہلوں صاحب اور مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ رشید احمد ضمیر صاحب کا ذکر خیر اور نمازجنازہ غائب

خطبہ جمعہ

اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ-

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۝ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۝ مٰلكِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۝ اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ ۝

اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ۝ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ۥۙ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّیْنَ ۝

جنگ اُحد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالہ سے ذکر ہو رہا تھا۔ اس حوالہ سے مزید تفصیل اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں دشمن سے سب سے زیادہ قریب تھے اور آپؐ کے ساتھ پندرہ افراد ثابت قدم رہے۔ آٹھ مہاجرین میں سے جو تھے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت طلحہؓ، زبیرؓ، عبدالرحمٰن بن عوفؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، ابوعبیدہ بن جراحؓ اور سات انصار میںسے حضرت حباب بن منذرؓ، ابودجانہؓ، عاصم بن ثابتؓ، حارث بن صِمَّہ،ؓ سہل بن حنیفؓ اور سعد بن معاذؓ اور بعض نے یہ کہا ہے کہ سعد بن عُبادہؓ تھے اور محمد بن مَسْلَمہ ؓبھی تھے۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ آپؐکے سامنے تیس افراد ثابت قدم رہے اور سارے یہی کہتے تھے کہ میرا چہرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کے سامنے رہے اور میری جان آپؐکی جان کے سامنے اور آپؐپر سلامتی ہو۔ (سبل الہدیٰ والرشاد، جلد4 ،صفحہ196-197، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت)آپؐ پر قربان ہو۔ آپؐپر سلامتی ہو اور میری جان قربان ہو۔
ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گیارہ افراد اور طلحہ بن عُبَید اللہؓ رہ گئے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات انصاری صحابہؓ اور ایک قریشی صحابیؓ کے درمیان تھے۔ اسی طرح ایک اَور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو افراد میں اکیلے رہ گئے۔ سات انصار میں سے اور دو قریش میں سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دسویں تھے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد ،جلد4 ،صفحہ203-202 ،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
مختلف روایات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہنے والے صحابہؓ کی تعداد مختلف بیان کی گئی ہے۔ ریسرچ سیل نے جو اپنا نوٹ دیا ہے اس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ تیس کا ذکر ملتا ہے۔ اس کی ایک توجیہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ صحابہؓ کی تعداد اس وقت کے لحاظ سے بدلتی رہی ہو گی۔ جس نے پندرہ دیکھے اس نے پندرہ بتا دیے جس نے جتنے دیکھے وہ بیان کر دیے۔ صحابہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے جاتے رہے ہوں گے جس کی وجہ سے تعداد میں فرق پڑتا رہا۔
بہرحال یہی صحیح لگتا ہے کیونکہ یہ تفصیل میں ہے جو گذشتہ خطبات میں پہلے بیان ہو چکی ہے کہ صحابہؓ آپؐکے گرد آتے تھے اور پھر دشمن کے حملے سے حلقہ ٹوٹ جاتا تھا ،بکھر جاتے تھے پھر اکٹھے ہوتے تھے۔
بہرحال بات یہی ہے کہ صحابہؓ ثابت قدمی کا نمونہ دکھاتے رہے اور کسی کو کسی قسم کا یہ خوف نہیں تھا کہ موت آئے گی۔ یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے دن اپنے صحابہؓ کی ایک جماعت سے موت پر بیعت لی۔ جب بظاہر مسلمانوں کی پسپائی ہوئی تو وہ ثابت قدم رہے اور اپنی جان پر کھیل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنے لگے یہاں تک کہ ان میں سے کچھ شہید ہو گئے۔
اس روز آٹھ افراد نے آپؐکے دستِ اقدس پر موت کی بیعت کی۔ ان بیعت کرنے والے خوش نصیبوں کے جو اسماء روایات میں بیان ہوئے ہیں وہ یہ ہیں: حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سہل بن حُنَیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابودُجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت حارث بن صِمَّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت حُباب بن مُنذِر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ان میں سے کوئی بھی شہید نہیں ہوا۔ (اصابہ، جزء 3، صفحہ 431، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء) (سبل الہدی والرشاد، جلد 4، صفحہ 198، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
علامہ زِمَخْشَرِی کی کتاب خَصَائِصِ عَشَرَہ میں ہے کہ اُحد کے دن حضرت زبیرؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بڑی ثابت قدمی کے ساتھ رہے اور انہوں نے اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے موت کی بیعت کی تھی۔ یعنی یہ عہد کیا تھا کہ آپؐکی حفاظت میں جان دے دیں گے مگر آپؐکا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔(سیرۃ الحلبیہ ،جلد 2، صفحہ 321، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے صحابہؓ کی ثابت قدمی اور جاںنثاری کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’جو صحابہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع تھے انہوں نے جو جان نثاریاں دکھائیں تاریخ ان کی نظیرلانے سے عاجز ہے۔ یہ لوگ پروانوں کی طرح آپؐکے ارد گرد گھومتے تھے اورآپؐکی خاطراپنی جان پرکھیل رہے تھے۔ جووار بھی پڑتا تھا صحابہؓ اپنے اوپر لیتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبچاتے تھے اور ساتھ ہی دشمن پربھی وارکرتے جاتے تھے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم .اے، صفحہ 495)
آپؓمزید لکھتے ہیں کہ’’یہ چند گنتی کے جان نثار اس سیلاب عظیم کے سامنے کب تک ٹھہر سکتے تھے جو ہرلحظہ مہیب موجوں کی طرح چاروں طرف سے بڑھتا چلاآتا تھا۔ دشمن کے ہرحملہ کی ہر لہر مسلمانوں کو کہیں کا کہیں بہا کر لے جاتی تھی مگرجب ذرا زور تھمتا تھا مسلمان بیچارے لڑتے بھڑتے پھر اپنے محبوب آقا کے گرد جمع ہوجاتے تھے۔ بعض اوقات تو ایسا خطرناک حملہ ہوتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عملاً اکیلے رہ جاتے تھے۔ چنانچہ ایک وقت ایسا آیا کہ آپؐکے اردگرد صرف بارہ آدمی رہ گئے اور ایک وقت ایسا تھا کہ آپؐکے ساتھ صرف دوآدمی ہی رہ گئے۔ ان جان نثاروں میں حضرت ابوبکرؓ،علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، سعدبن وقاصؓ، ابودجانہ انصاریؓ، سعدبن معاذؓ اور طلحہ انصاریؓ کے نام خاص طورپر مذکور ہوئے ہیں۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم. اے، صفحہ495-496) اس حوالے سے آپؐکے گرد صحابہؓ کی جو تعداد مختلف حوالوں میں آتی ہے اسکی وضاحت ہو جاتی ہے جیساکہ میں نے کہا تھا حملے کی وجہ سے کبھی کم ہوتے تھے کبھی زیادہ ہوتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عیسائیوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک الزام کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ عیسائیوں نے یہ الزام لگایا کہ آپؐنے جھوٹ بولنا یا غلط بیانی کرنا جائز قرار دیا۔ آپؑفرماتے ہیں کہ ہمارے سید و مولیٰ جناب مقدس نبوی کی تعلیم کا ایک اعلیٰ نمونہ اس جگہ ثابت ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جس توریہ کو آپ کا یسوع شیر مادر کی طرح تمام عمر استعمال کرتا رہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حتی الوسع اس سے مجتنب رہنے کا حکم دیا۔ توریہ کے لغوی معنی تو یہ ہیں کہ زبان پر کچھ کہنا اور دل میں کچھ ہونا یعنی ایسی بات کرنا جو دو معنی بھی رکھتی ہو۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے توریہ کے لفظ کو مزید تفصیل سے بیان کیا ہے۔ لغوی معنی تو میں نے بیان کیے۔ وضاحت اس طرح فرمائی کہ فتنہ کے وقت خوف سے ایک بات کو چھپانے کیلئے کسی اَور غرض سے یا کسی اَور مصلحت پر ایک راز کی بات مخفی رکھنے کی غرض سے ایسی مثالوں اور پیرایوں میں بیان کیا جائے کہ عقلمند ان باتوں کو سمجھ جائے اور نادان کی سمجھ میں نہ آئے۔ یعنی حکمت سے اس طرح بات کرنا کہ جھوٹ بھی نہ ہو اور اسکے معنی جو عقلمند ہے وہ سمجھ جائے کہ اصل حقیقت کیا ہے اور بیوقوف آدمی نہ سمجھ سکے۔ اسکا خیال دوسری طرف چلا جائے لیکن آپؑنے فرمایا کہ یہ اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کے خلاف ہے۔ یہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ یہ اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کے خلاف ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پہ کھل کے بیان فرمایا۔ پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تو کبھی ثابت نہیں کیا جا سکتا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عیسائیوں کے مطابق جس شخص کو وہ خدا کہتے ہیں اس کا تو یہ حال ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر غلط بیانی کی ہے۔
بہرحال اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آپؑ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حتی الوسع اس سے مجتنب رہنے کا حکم کیا ہے تا مفہوم کلام کا اپنی ظاہری صورت میں بھی کذب سے مشابہ نہ ہو مگر کیا کہیں اور کیا لکھیں کہ آپ کے یسوع صاحب اس قدر التزام سچائی کا نہ کر سکے۔ جو شخص خدائی کا دعویٰ کرے وہ تو شیرِببر کی طرح دنیا میں آنا چاہئے تھا نہ کہ ساری عمر توریہ اختیار کرکے اور تمام باتیں کذب کے ہمرنگ کہہ کر یہ ثابت کر دیوے کہ وہ ان افراد کاملہ میں سے نہیں ہے جو مرنے سے لاپرواہ ہو کر دشمنوں کے مقابل پر اپنے تئیں ظاہر کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ (جس کو تم خدا کہتے ہو وہ تو ساری عمر توریہ سے کام لیتا رہا ہے۔ جو خدا ہے بلکہ خدا کے نبی بھی نہیں کرتے) فرمایا اور جو اللہ پہ توکل کرنے والے ہوتے ہیں کسی مقام میں بزدلی نہیں دکھلاتے۔ مجھے تو ان باتوں کو یاد کرکے رونا آتا ہے کہ اگر کوئی ایسے ضعیف القلب یسوع کی اس ضعف حالت اور توریہ پر جو ایک قسم کا کذب ہے اعتراض کرے تو ہم کیا جواب دیں۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ جناب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم جنگ اُحد میں اکیلے ہونے کی حالت میں برہنہ تلواروں کے سامنے کہہ رہے تھے کہ میں محمد ہوں، میں نبی اللہ ہوں۔ میں ابن عبد المطلِب ہوں اور پھر دوسری طرف دیکھتا ہوں کہ آپ کا یسوع کانپ کانپ کر اپنے شاگردوں کو یہ خلاف واقعہ تعلیم دیتا ہے کہ کسی سے نہ کہنا کہ میں یسوع مسیح ہوں حالانکہ اس کلمہ سے کوئی اس کو قتل نہیں کرتا تو میں دریائے حیرت میں غرق ہو جاتا ہوں۔ فرماتے ہیں کہ میں دریائے حیرت میں غرق ہو جاتا ہوں کہ یا الٰہی یہ شخص بھی نبی ہی کہلاتا ہے جس کی شجاعت کا خدا کی راہ میں یہ حال ہے۔(ماخوذ از نور القرآن نمبر2،روحانی خزائن، جلد9، صفحہ 405تا 407)(ماخوذ از اردو دائرہ معارف، جلد6،صفحہ 737، زیر لفظ’’توریہ‘‘)
یہ حیرت کا اظہار حضرت عیسیٰ کیلئے آپؑنے الزامی جواب کے طور پر کیا ہے۔ یہ نہیں کہ آپؑ سمجھتے تھے کہ وہ نبی نہیں ہے اور نہ آپؑ کا یہ مطلب تھا کہ حضرت عیسیٰ نبی نہیں ہیں بلکہ کہتے ہیں جس نبی کو تم پیش کرتے ہو اور پھر اس کو خدا کا بیٹا کہتے ہو اس کا تو تمہاری کتابوں کے مطابق یہ حال ہے۔ پھر تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے ہو کہ آپؐنے جھوٹ بولنا یا بزدلی دکھانا جائز قرار دیا ہے۔
ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ جب کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ رَجُلٌ یَشْرِیْ لَنَا نَفْسَهٗ؟ کون شخص ہے جو ہمارے لیے خود کو بیچ دے گا تو زِیَاد بن سَکَن ؓ پانچ انصاری صحابہؓ کے ساتھ کھڑے ہوئے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ عُمَارہ بن یزید بن سکنؓ تھے۔
تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دادِشجاعت دیتے دیتے ایک ایک کر کے شہید ہوتے رہے حتی کہ ان میں سے آخری زِیَاد یا عُمارہ تھے یہ لڑتے رہے یہاں تک کہ ان کو کئی زخم لگے۔ پھر مسلمانوں کی ایک جماعت لَوٹ آئی اور مشرکین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دھکیل دیا۔ تو اسکے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زِیَاد بن سَکَن کو میرے پاس لاؤ۔ انہیں لایا گیا تو وہ اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو میرے اَور قریب کرو تو صحابہ کرامؓ نے ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کر دیا۔ آپؐنے اپنا قدم مبارک ان کی طرف کیا انہوں نے اپنا چہرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک پر رکھ دیا اور حضرت زیادؓ کی موت اس حالت میں ہوئی کہ ان کا رخسار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک پر تھا اور ان کے جسم پر چودہ زخم آئے تھے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد، جلد4 ،صفحہ203، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ’’ایک وقت جب قریش کے حملہ کی ایک غیرمعمولی لہر اٹھی تو آپؐنے فرمایا‘‘کون ہے جو اس وقت اپنی جان خدا کے رستے میں نثار کردے؟’’ ایک انصاری کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو وہ اورچھ اَورانصاری صحابی دیوانہ وارآگے بڑھے اوران میں سے ایک ایک نے آپؐکے اردگرد لڑتے ہوئے جان دے دی۔ اس پارٹی کے رئیس زیاد بن سکن تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دھاوے کے بعد حکم دیا۔‘‘وہ کفار کا ایک زبردست حملہ تھا جب وہ ذرا کم ہوا اور دوسرے صحابہؓ آ گئے اور جگہ ذرا صاف ہوگئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ’’کہ زیادؓ کواٹھا کرمیرے پاس لاؤ۔‘‘ زخمی پڑے تھے’’ لوگ اٹھا کر لائے اورانہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دیا۔ اس وقت زیادؓ میں کچھ کچھ جان تھی مگروہ دم توڑ رہے تھے۔ اس حالت میں انہوں نے بڑی کوشش کے ساتھ اپنا سر اٹھایا اوراپنا منہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر رکھ دیا اوراسی حالت میں جان دے دی۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ496)
حضرت مصعب بن عمیرؓ کی شہادت کا بھی واقعہ لکھا ہے کہ حضرت مُصعب بن عمیرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے لڑ رہے تھے اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ آپؓکو ابن قمئہ نے شہید کیا۔(سیرت ابن ہشام ،صفحہ529، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
تاریخ میں آتا ہے کہ غزوۂ اُحد کے علمبردار حضرت مصعب بن عمیرؓ نے جھنڈے کی حفاظت کا حق خوب ادا کیا۔ غزوۂ احُد کے روز حضرت مصعبؓ جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے کہ ابنِ قَمِئہ نے جو گھوڑے پر سوار تھا حملہ آور ہو کر حضرت مصعبؓ کے دائیں بازو پر جس سے آپؓ نے جھنڈا تھام رکھا تھا تلوار سے وار کیا اور اسے کاٹ دیا۔ اس پر انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ سے تھام لیا۔ ابن قمئہ نے بائیں ہاتھ پر وار کر کے اسے بھی کاٹ ڈالا تو آپؓ نے دونوں بازوؤں سے اسلامی جھنڈے کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کے بعد ابن قمئہ نے تیسری مرتبہ نیزے سے حملہ کیا اور حضرت مصعبؓ کے سینے میں گاڑ دیا۔ نیزہ ٹوٹ گیا، حضرت مصعبؓ گر پڑے اس پر بنو عبدالدار میں سے دو آدمی سُوَیْبِط بن سَعدِ بنِ حَرْمَلَہؓ اور ابو رُوم بن عُمَیر ؓآگے بڑھے اور جھنڈے کو ابوروم بن عمیرؓ نے تھام لیا اور وہ انہی کے ہاتھ میں رہا یہاں تک کہ مسلمان واپس ہوئے اور مدینہ میں داخل ہو گئے۔(الطبقات الکبریٰ ،جزء3،صفحہ89 ،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
یہ تاریخ کی ایک کتاب نے لکھا ہے لیکن بعض دوسری روایات کے مطابق اسکے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا حضرت علی ؓکو دےد یا۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھا ہے کہ ’’قریش کے لشکر نے قریباً چاروں طرف گھیرا ڈال رکھا تھا اوراپنے پے درپے حملوں سے ہرآن دباتا چلاآتا تھا۔ اس پر بھی مسلمان شاید تھوڑی دیربعد سنبھل جاتے مگر غضب یہ ہوا کہ قریش کے ایک بہادر سپاہی عبداللہ بن قمئہ نے مسلمانوں کے علمبردار مصعب بن عمیرؓ پر حملہ کیا اور اپنی تلوار کے وار سے ان کا دایاں ہاتھ کاٹ گرایا۔ مصعبؓ نے فوراً دوسرے ہاتھ میں جھنڈا تھام لیا اورابن قمئہ کے مقابلہ کیلئے آگے بڑھے مگراس نے دوسرے وار میں ان کا دوسرا ہاتھ بھی قلم کر دیا۔ اس پر مصعبؓ نے اپنے دونوں کٹے ہوئے ہاتھوں کوجوڑ کر گرتے ہوئے اسلامی جھنڈے کو سنبھالنے کی کوشش کی اور اسے چھاتی سے چمٹا لیا۔ جس پر ابن قمئہ نے ان پر تیسرا وار کیا اور اب کی دفعہ مصعب ؓشہید ہوکر گر گئے۔ جھنڈا توکسی دوسرے مسلمان نے فوراًآگے بڑھ کر تھام لیا مگر چونکہ مصعبؓ کا ڈیل ڈول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا تھا ابن قمئہ نے سمجھاکہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مار لیا ہے۔ یایہ بھی ممکن ہے کہ اس کی طرف سے یہ تجویز محض شرارت اوردھوکہ دہی کے خیال سے ہو۔ بہرحال اس نے مصعب کے شہید ہوکر گرنے پرشور مچادیا کہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مار لیا ہے۔ اس خبر سے مسلمانوں کے رہے سہے اوسان بھی جاتے رہے اور ان کی جمعیت بالکل منتشر ہوگئی۔‘‘(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ493)
جیسا کہ بیان ہو اہے کہ میدانِ اُحد میں چند لمحات کی لاپرواہی نے اسلامی لشکر کی فتح کو وقتی پسپائی میں بدل دیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی دنیا کی جنگی تاریخ میں بہترین سپہ سالار اور پُرحکمت فوری فیصلوں کے مالک تسلیم کیے جاتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کی بدلتی ہوئی صورتحال پر گہری نظر رکھی۔ چار گنا بڑے لشکر کے سامنےسے اپنے منتشر اور کمزور لشکر کو اس انداز میں محفوظ کیا کہ دشمن اسلامی لشکر کو پوری طرح کچل دینے کے بد ارادے پر عمل نہ کر سکا۔حضرت مصعب بن عمیر ؓکی شہادت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی لشکر کا جھنڈا حضرت علیؓ کو عطا کیا۔ آپؓنے اسلامی لشکر کا عَلم ہاتھ میں لیا اور فتح کے نشہ میں چُور دشمنوں کے سامنے ڈٹ گئے۔ آپؓ کی تلوار ضرب پر ضرب لگا رہی تھی۔ منتشر اسلامی لشکر کے حوصلے بحال کر رہی تھی۔ حضرت علیؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع چند نفوس پر مشتمل اسلامی لشکر کی چھوٹی سی جماعت کے ساتھ مل کر ایسی جنگ لڑی کہ مشرکین کے نرغے سے نکلنے کا راستہ بن گیا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں اس مختصر جماعت نے راستہ بنایا اور میدانِ جنگ میں موجود منتشر اسلامی لشکر کی طرف بڑھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر حوصلے ہارتے جا رہے تھے۔ اس لیے مشرکین مکہ نے بھی اسلامی لشکر کی واپسی کو ناکام بنانے کیلئے تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہٹنے کی حکمت عملی بھی ایسی کامیاب تھی کہ مٹھی بھر نفری نیم دائرے کی شکل میں کندھے سے کندھا ملائے دشمن کے حملوں کو ناکام بناتے ہوئے غیر محسوس انداز میں گھاٹی کی طرف کھسک رہی تھی۔ دشمن نے گھیراڈالنے کیلئے بھرپور طاقت کا استعمال کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےان حملہ آوروں کا ہجوم چیر کر راستہ بنا ہی لیا۔ (غزوات و سرایا، صفحہ 199-201،مطبوعہ فریدیہ پرنٹنگ پریس ساہیوال)
جنگ اُحد کے موقع پر نیند اور غنودگی کے طاری ہونے کا بھی ذکر ملتا ہے کہ صحابہؓ جو جنگ لڑ رہے تھے ان پہ نیند کی کیفیت طاری ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی صورت پیدا کر دی کہ اونگھ ان کو آ گئی۔ اسکی تفصیل اس طرح ہے۔
حضرت زبیر بن عوامؓ بیان کرتے ہیں کہ جب جنگ اُحد کا رخ پلٹا تو میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پایا۔
جب ہم سب بدحواس اور خوفزدہ تھے اور ہم پر نیند نازل کر دی گئی۔ ایسی حالت تھی کہ لگتا تھا کہ اونگھ کی حالت ہم پر طاری ہو گئی۔ چنانچہ ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کی ٹھوڑی اس کے سینے پر نہ ہو یعنی نیند اور غنودگی کی حالت میں سر نیچے ڈھلک گئے تھے۔
کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے مُعَتِّب بن قُشَیر کی آواز خواب میں سنائی دے رہی ہے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اگر ہمیں فیصلہ کا اختیار ہوتا تو ہم کبھی یہاں اس طرح قتل نہ کیے جاتے۔ معتب بن قشیر انصاری صحابی تھے اور بیعت عقبہ،غزوۂ بدر اور اُحد میں شامل ہوئے تھے۔ میں نے جب اس طرح خواب کی حالت میں دیکھا تو ان کے اس جملہ کو یاد کر لیا۔ اس موقع کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاسًا يَّغْشٰى طَاۗىِٕفَۃً مِّنْكُمْ۝۰ۙ وَطَاۗىِٕفَۃٌ قَدْ اَہَمَّـتْھُمْ اَنْفُسُھُمْ يَظُنُّوْنَ بِاللہِ غَيْرَ الْحَـقِّ ظَنَّ الْجَاہِلِيَّۃِ۝۰ۭ يَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَيْءٍ۝۰ۭ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّہٗ لِلہِ(آل عمران: 155)کہ پھر اس نے تم پر غم کے بعد تسکین بخشنے کی خاطر اونگھ اتاری جو تم میں سے ایک گروہ کو ڈھانپ رہی تھی جبکہ ایک وہ گروہ تھا کہ جنہیں ان کی جانوں نے فکر مند کر رکھا تھا۔ وہ اللہ کے بارہ میں جاہلیت کے گمانوں کی طرح ناحق گمان کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کیا اہم فیصلوں میں ہمارا بھی کوئی عمل دخل ہے؟ تُو کہہ دے کہ یقیناً فیصلے کا اختیار کلیۃً اللہ ہی کو ہے۔
حضرت کعب بن عمرو انصاریؓ نے بیان کیا ہے کہ غزوۂ اُحد کے دن ایک موقع پر مَیں اپنی قوم کے چودہ آدمیوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا اس پر ہم پر اونگھ طاری ہوئی جو بطور امن کے تھی یعنی بڑی سکون والی اونگھ تھی۔ جنگی حالت تھی لیکن وہ ایسی اونگھ تھی جو ہمیں سکون دے رہی تھی۔ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کے سینے سے دھونکنی کی طرح خراٹوں کی آواز نہ نکل رہی ہو۔ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ بِشْر بن بَرَاء بن مَعْرُورؓ کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کر گر گئی اور انہیں تلوار گرنے کا احساس بھی نہ ہوا حالانکہ مشرکین ہم پر چڑھے آ رہے تھے۔ (السیرۃ الحلبیۃ، جلد2،صفحہ310، دار الکتب العلمیۃ بیروت)(اسد الغابہ، جلد5 ،صفحہ216، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒنے یہ لکھا ہے کہ بہرحال یہ ہو سکتا ہے کہ ان کو یہ محسوس ہوا ہو کہ تلوار گر گئی کیونکہ اس وقت ایسی حالت میں نیند تو تھی لیکن ان کے ہاتھوں میں جو ہتھیار تھے مضبوطی سے قائم ہوتے تھے۔ یہ گرنے لگتے تھے تو جھٹکا لگتا تھا۔ بہرحال یہاں لفظ نُعاس استعمال ہوا ہے۔ اس کی تفسیر اس طرح ہے کہ اَمَنَةً نُّعَاسًامختلف پہلوؤں سے اس کے جو تراجم ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے۔ خلاصۃً یہ معنی بنے گا کہ غم کے بعد تم پر ایسا سکون نازل فرمایا جسے نیند کہہ سکتے ہیں یا ایسی اونگھ عطا کی جو امن کی حامل تھی یا وہ امن دیا جو نیند کا سا اثر رکھتا تھا یا نیند میں شامل تھا۔ اَمَنَةً نُّعَاسًا کا یہ مطلب ہے کہ اونگھ۔ وقتی طور پر یوں سر جھکا کر غوطہ کھا جانے کو بھی کہتے ہیں لیکن یہاں نُعاس کا معنی اس قسم کی اونگھ نہیں ہے بلکہ وہ کیفیت ہے جو بیداری اور نیند کے درمیان کی کیفیت ہوتی ہے۔ سونے سے پہلے ایک بیچ کی ایسی منزل آتی ہے جہاں تمام اعصاب کو ایک سکون مل جاتا ہے اور وہی گہرا سکون ہے۔ اگر وہ سکون اسی طرح جاری رہے تو پھر نیند میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں انسان اگر چل رہا ہے تو گرے گا نہیں ۔گرنے سے پہلے اسے جھٹکا لگ جاتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ میں کس کیفیت میں تھا لیکن اگر نیند آ جائے تو پھر اپنے اعصاب پر، اپنے اعضاء پر کوئی اختیار نہیں رہتا۔ بہرحال ہو سکتا ہے کہ بِشْرِ بنِ بَرَاء کو اس حالت میں اس طرح کی گہری نیند بھی آ گئی ہو لیکن باوجود جنگ کی حالت کے وہ تھی سکون کی کیفیت اور انسان گر جاتا ہے اور اگر اس کو صحیح بھی مانا جائے تو اسی وجہ سے اسکے ہاتھ ذرا ڈھیلے ہوئے تو تلوار گر گئی۔ بہرحال یہ حالت ایسی ہوتی ہے جس میں فوری احساس بھی ہو جاتا ہے کہ میں گہری نیند میں جا رہا ہوں اور پھر انسان جھٹکے سے جاگ جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں ایک ایسی سکون کی حالت عطا کی جو نیند سے مشابہ تھی مگر نیند کی طرح اتنی گہری نہیں تھی کہ تمہیں اپنے اوپر، اپنے اعضاء پر کوئی اختیار نہیں رہے۔ وہ سکینت تو بخش رہی تھی مگر تمہیں بیکار نہیں کر رہی تھی۔
اسی طرح حضرت ابوطلحہ ؓکہتے ہیں اور یہ بخاری کی حدیث میں ہے کہ اُحد کے دن عین جنگ میں ہم کو اونگھ نے آ دبایا اور یہ وہ اونگھ ہے جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ حضرت طلحہ ؓکہتے ہیں کہ تلوار میرے ہاتھ سے گرنے کو ہوتی تھی۔ میں تھام لیتا تھا۔ پس یہ حدیث بتا رہی ہے کہ ایسی نیند کی کیفیت نہیں تھی کہ ہاتھوں سے چیزیں نیچے جا پڑیں یا چلتے چلتے ہم گر جائیں۔ تسکین تھی، سکینت تھی مگر پھر بھی ایک حد تک ہمیں اپنے اعضاء پر اختیار حاصل تھا۔ پھر گرنے کو ہوتی تھی تو پھر تھام لیتے تھے۔ یعنی یہ اونگھ کا ایک حصہ کوئی اچانک یونہی نہیں آیا بلکہ یہ ایک کیفیت تھی جو اُن لوگوں پر کچھ عرصہ چلتی رہی۔
ترمذی ابواب التفسیر میں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ غزوۂ اُحد کے دن مَیں سر اٹھا کردیکھنے لگا تو ہر آدمی اونگھتے اونگھتے اپنی ڈھال کے نیچے جھک رہا تھا۔ جاگنے کی وجہ سے یا تھکاوٹ کی وجہ سے ان صحابہؓ کی بہت بُری حالت ہوگئی تھی اور ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سکون کی کیفیت مل رہی تھی۔ کہتے ہیں کہ یعنی ایسا ہی نظارہ ہوا کہ جو عام تھا۔ کوئی اتفاقاً ایک تھکے ہوئے مجاہد کے اوپر اطلاق پانے والی کیفیت نہیں تھی بلکہ تمام مجاہدین جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ میں دشمن کے خلاف برسرپیکار تھے ان سب پر اچانک گویا آسمان سے ایک چیز اتری ہے اور اس حالت نے ان کو ڈھانپ لیا۔ اس وقت ان کو اس چیز کی، سکون کی، اپنے اعصاب کو ریفریش کرنے کی، ان کو تازہ دم کرنے کی شدید ضرورت تھی اور یہ سونے کا وقت نہیں تھا اور جب ایسی حالت ہو، جب ایسی تھکاوٹ کی حالت ہو تو ایسی حالت انسانوں پر طاری ہو جاتی ہے۔ بہرحال ساری قوم بیک وقت ایک ایسی نیند کی حالت میں چلی جائے جبکہ لڑائی ہو رہی ہو اور دشمن سے سخت خطرہ بھی درپیش ہو یہ اعجاز ہے۔ ایک معجزہ ہے۔ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے۔ بعض لوگوں کے ساتھ ہو جاتا ہے لیکن یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں۔ یہ ایک معجزہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص سکون کی کیفیت ان کو اس وقت عطا کی گئی تھی۔(ماخوذ از درس القرآن بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ6؍رمضان المبارک، 17؍فروری 1994ء)
علامہ عبدالرزاق نے زُہری سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخِ انور پر اُحُد کے دن تلوار سے ستر وار کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ان تمام کے شر سے بچایا۔ ابن حَجَر عَسْقَلَانی بیان کرتے ہیں کہ یہ بھی احتمال ہے کہ زُہری نے ستر سے حقیقتاً ستر ہی مراد لیے ہوں یا اس کثرت میں مبالغہ مراد ہو سکتا ہے۔ (سبل الہدی والرشاد، جلد4، صفحہ198، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’لڑائی میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا تھا کیونکہ آپؐ بڑے خطرناک مقام میں ہوتے تھے۔ سبحان اللہ! کیا شان ہے۔
اُحد میں دیکھو کہ تلواروں پر تلواریں پڑتی ہیں۔ ایسی گھمسان کی جنگ ہورہی ہے کہ صحابہ ؓبرداشت نہیں کر سکتے مگر یہ مردِ میدان سینہ سپر ہو کر لڑ رہا ہے۔ اس میں صحابہ ؓکا قصور نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا۔ بلکہ اس میں بھید یہ تھا کہ تارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کا نمونہ دکھایا جاوے۔‘‘
آپؑفرماتے ہیں کہ ’’ایک موقع پر تلوار پر تلوار پڑتی تھی اور آپؐنبوت کا دعویٰ کرتے تھے کہ محمد رسول اللہ مَیں ہوں۔ کہتے ہیں حضرتؐ ‘‘ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم’’کی پیشانی پر سترزخم لگے مگر زخم خفیف تھے۔ یہ خلقِ عظیم تھا۔‘‘ (ملفوظات، جلد1،صفحہ 115، ایڈیشن 2022ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گڑھے میں گرنے کے واقعہ کے بارے میں روایت اس طرح بیان ہوئی ہے کہ ابوعامر فاسق نے میدان احُد میں بہت سے گڑھے جگہ جگہ کھود دیے تھے تا کہ مسلمان بے خبری میں ان میں گرتے رہیں اور نقصان اٹھاتے رہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی بےخبری میں ان میں سے ایک گڑھے میں گر پڑے۔ آپؐپر غشی طاری ہو گئی اور آپؐکے دونوں گھٹنے زخمی ہو گئے۔ حضرت علیؓ نے جلدی سے بڑھ کر آپؐ کو ہاتھوں میں لیا اور حضرت طَلْحہ بن عُبَید اللہؓ نے آپؐکو اوپر اٹھا کر باہر نکالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرنے کا سبب بدبخت ابن قمئہ بنا تھا کیونکہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر کے تلوار کا وار کیا تھا۔ تلوار آپؐکی گردن پر پڑی۔ اگرچہ تلوار نے آپؐپر کوئی اثر نہیں کیا مگر اسکی چوٹ سے آپؐکی گردن مبارک میں اتنا سخت جھٹکا آیا کہ اسکے بعد ایک مہینے یا اس سے زائد تک آپؐکی گردن میں تکلیف رہی۔ ساتھ ہی اس نے آپؐپر پتھر چلانے شروع کیے جن میں سے ایک پتھر آپؐکے پہلو میں لگا۔ ادھر عُتبہ بن ابی وقاص نے جو حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکا بھائی تھا اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک پتھر کھینچ مارا جو آپؐکے منہ پر لگا اور آپؐکا نچلا رباعی دانت یعنی سامنے والے دو دانتوں اور نوکیلے دانت کے درمیان والا دانت ٹوٹ گیا۔ ساتھ ہی اس سے نچلا ہونٹ پھٹ گیا۔ امام ابن حجر عسقلانیؒ بیان کرتے ہیں کہ دانت کا ایک ٹکڑہ ٹوٹا تھا جڑ سے نہیں اکھڑا تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جو اسی عتبہ کے بھائی تھے انہیں جب علم ہوا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے والا ان کا یہ بھائی تھا تو وہ جوش انتقام میں اسکے تعاقب میں لشکر کے اندر گھس گئے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت جتنی حرص مجھے اسے قتل کرنے کی تھی شاید ہی دنیا میں کسی اَور چیز کی کبھی اتنی ہوئی ہو لیکن عتبہ انہیں چقمہ دے کر نکل گیا۔ وہ واپس پلٹ کر ایک بار پھر اس کی تلاش میں گئے لیکن وہ ہر بار طرح دیتا رہا۔ اور جب تیسری مرتبہ جانے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ سے فرمایا اے بندہ خدا !کیا تیرا جان دینے کا ارادہ ہے؟ حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ یوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منع فرمانے سے میں رک گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ بن ابی وقاص کے خلاف یہ دعا کی کہ اَللّٰهُمَّ لَا یَحُوْلُ عَلَیْهِ الْحَوْلُ حَتّٰى یَمُوْتَ كَافِرًا۔اے اللہ! اس پر ایک سال نہ گزرے کہ وہ کافر ہونے کی حالت میں مر جائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐکی یہ دعا اس طرح قبول فرمائی کہ اسی دن حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ نے اس کو قتل کر دیا۔ حضرت حاطبؓکہتے ہیں کہ جب میں نے عتبہ بن ابی وقاص کی شرمناک جسارت دیکھی تو میں نے فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ عتبہ کدھر گیا ہے؟ آپؐ نے اس سمت اشارہ کیا جس طرف وہ گیا تھا۔ میں فوراً اسکے تعاقب میں روانہ ہوا یہاں تک کہ ایک جگہ مَیں اس کو پانے میں کامیاب ہو گیا۔ میں نے فوراً ہی اس پر تلوار کا وار کیا جس سے اسکی گردن کٹ کر دُور جا گری۔ میں نے بڑھ کر اس کی تلوار اور گھوڑے پر قبضہ کیا اور اسے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپؐنے یہ خبر سن کر دو مرتبہ یہ فرمایا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْکَ۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْکَ۔ یعنی اللہ تم سے راضی ہو گیا۔ اللہ تم سے راضی ہو گیا۔
اس حملے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر جو خَود تھا وہ بھی ٹوٹ گیا نیز دشمن کے مسلسل حملوں میں آپؐکا چہرۂ مبارک بھی زخمی ہو گیا اور جِلد پھٹ گئی۔ آپؐکے چہرۂ مبارک پر وار کرنے والا ایک حملہ آور عبداللہ بن شہاب زہری تھا جس نے بعد میں اسلام قبول کر لیا۔(سیرۃ الحلبیۃ، جلد2 ،صفحہ 317، دارالکتب العلمیۃ بیروت) (فتح الباری، جلد7،صفحہ464،حدیث4070،قدیمی کتب خانہ کراچی)
یہ تفصیل مزید چل رہی ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گی۔
اس وقت میں کچھ مرحومین کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں۔ پہلا ذکر مکرم ابوحلمی محمد عکاشہ صاحب آف فلسطین کا ہے۔ شریف عودہ صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ چند روز قبل غزہ کے علاقے کے ہمارے احمدی بھائی محمد عکاشہ صاحب کو نہایت سنگدلی سے شہید کر دیا گیا ہے۔ ان کی لاش ان کے گھر سے کچھ فاصلے پر ملی ہے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
مرحوم نہایت مخلص احمدی تھے۔ عمر پچھتر سال تھی۔ اپنے اصلی گاؤں سے ہجرت کر کے غزہ کے علاقہ جبالیا میں پناہ گزینوں کے کیمپ میں رہتے تھے۔ ان کے سات بیٹے اور پانچ بیٹیاں اور تینتیس پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں۔ ان کے پوتے بتاتے ہیں کہ کئی ہفتوں سے ان سے رابطہ منقطع تھا۔ عارضی جنگ بندی کے دوران انہیں ڈھونڈھنے گیا تو انہیں گھر میں نہیں پایا۔ پھر ان کے گھر سے سو میٹر دُور بکھری ہوئی لاشوں میں ان کی لاش ملی۔ انہیں سر میں گولی مار کر شہید کیا گیا تھا۔
غزہ کے ایک احمدی یاسر شاہین صاحب کہتے ہیں کہ مرحوم نے دس سال قبل ڈش لگوائی تو مجھے کہا کہ ایم ٹی اے چینل ڈھونڈنے میں میری مدد کرو۔ اس موقع پر ان کے ذریعہ مجھے احمدیت کا پتا چلا۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے جماعت کے بارے میں مجھے مزید تعارف کروایا اور بعض کتب ارسال کیں۔ پھر کچھ عرصہ تک ہمارے درمیان بحث چلتی رہی۔ اس کے بعد میں نے استخارہ کیا اور اپنی اہلیہ کے ساتھ بیعت کی توفیق ملی۔ میری بیعت پر محمد عکاشہ صاحب بہت خوش تھے۔ اس کے بعد ہمارے تعلقات مضبوط ہوتے گئے۔ وہ کئی کئی گھنٹوں تک مجھے مختلف قرآنی آیات کی تفسیر بتاتے۔ تفسیر کبیر سے اقتباسات سناتے اور ناسخ منسوخ جیسے مسائل سمجھاتے۔ ان کا طرز بیان نہایت پسندیدہ تھا۔ ایک عرصہ سے ایک کتاب تالیف کر رہے تھے اور مجھے بلا کر کتاب سناتے اور اسے بہتر کرتے اور مختلف امور زیر بحث لاتے۔ ان کا ارادہ تھا کہ اپنے گھر کو بڑا کر کے اس میں ایک لائبریری بنائیں جس میں جماعتی کتب کی فوٹو کاپیاں بنائیں مگر ان کا خاندان احمدیت کی وجہ سے ان پر ظلم کرتا تھا اس لیے ان کا یہ ارادہ پورا نہ ہو سکا۔ انہی کے ذریعہ غزہ جماعت کے ساتھ میرا تعارف ہوا۔ ہم سب ان کی بیٹھک میں ان سے ملاقاتیں کرتے۔ آخری سالوں میں خرابی صحت کے باعث اکثر گھر میں ہی رہتے تھے اور بمشکل حرکت کرتے تھے۔
غزہ کے ایک اَور احمدی ہیں عِوَض صاحب۔ کہتے ہیں مرحوم کا قد اونچا، جسم نحیف اور داڑھی سفید تھی۔ ان کی نیکی اور تقویٰ کا اثر فوراً ہی مخاطب پر ہو جاتا تھا۔ ہمیشہ ذکر الٰہی اور جماعتی کتب پڑھنے میں مصروف رہتے تھے۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ ان کے گھر کے پاس جماعت کی ایک مسجد بنے۔ 2014ء کی جنگ کے بعد انہوں نے اپنے ہاتھ سے ایک مضمون لکھا جس میں لکھا کہ ایک دن آنے والا ہے جب قبروں پر بمباری ہو گی اور ان کے کتبے اور پتھر ادھر ادھر بکھر جائیں گے۔ پھر بعینٖہ اسی طرح ہوا۔ باوجود مشکلات میں گھرے ہوئے ہونے کے ہر ملنے والے سے ہمیشہ مسکرا کر ملتے تھے۔ بہت سخی، ذہین اور دوسروں کی سوچ کو بہت جلد پڑھ لینے والے تھے۔
ایک ڈاکٹر یوسف صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ برادرم ابوحلمی بہت مخلص اور سچے احمدی تھے۔ احمدی ہونے سے پہلے ہی ان کی سوچ اور معاملات احمدیوں والے تھے۔ اس لیے جماعت کا علم ہوتے ہی آپ نے فوراً بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد مشائخ اور ارد گرد کے لوگوں سے جماعت کے بارے میں گفتگو کرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے انہیں اپنے قریبیوں کی طرف سے بھی بہت مخالفت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ آخری عمر میں بیساکھیوں کے سہارے چل کر جمعہ اور اجلاسات میں سب سے پہلے حاضر ہوتے تھے حالانکہ انہیں بہت تکلیف اور راستے میں مخالفین کی وجہ سے خطرات کا سامنا بھی ہوتا تھا۔ چندے بھی دوسروں سے پہلے ادا کرتے حالانکہ تنگدست تھے۔ ان کی تمنا تھی کہ جماعت اور اسکے افکار ساری دنیا میں غالب آ جائیں کیونکہ اسی میں انسانیت کی ساری مشکلات کا حل ہے۔ ان کا ارادہ تھا کہ اپنا گھر اور زمین کا ایک ٹکڑہ جماعت کو دے دیں تاکہ وہاں مسجد اور جماعتی مرکز بنے مگر مخالف رشتہ دار اس میں روک بن گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی دعاؤں کا وارث بنائے۔ ان کے بچے اور عزیز احمدیت اور حقیقی اسلام کو سمجھنے والے ہوں اور پھر امن اور سلامتی دیکھنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کے علاقوں میں امن قائم فرمائے۔ ظالم کے ہاتھ روکے اور ظلم کا خاتمہ فرمائے۔
اسرائیل اب لبنان کی سرحد کے ساتھ بھی حزب اللہ کے خلاف محاذ کھول رہا ہے اور جس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔ اسی طرح امریکہ اور برطانیہ نے حوثی یمنی قبائل کے خلاف جو محاذ کھولا ہے یہ سب چیزیں جو ہیں یہ جنگ کو مزید وسیع کر رہی ہیں، پھیلا رہی ہیں اور اب تو بہت سارے لکھنے والوں نے لکھ دیا ہے اور لکھ رہے ہیں کہ عالمی جنگ کے آثار بڑے قریب نظر آ رہے ہیں۔ پس دعاؤں کی بہت ضرورت ہے اللہ تعالیٰ انسانیت کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے۔
ایک اَور ذکر ہے امتہ النصیر ظفر صاحبہ جو حیدر علی ظفر صاحب مربی سلسلہ جرمنی کی اہلیہ مرحومہ ہیں۔ گذشتہ دنوں وفات پا گئی تھیں۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔اللہ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ ان کے پسماندگان میں ان کے خاوند کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ ان کے نانا حضرت چودھری امین اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ حیدر علی ظفر صاحب لکھتے ہیں کہ میں مربی تھا، فیلڈ میں رہا ہوں تو مختلف اوقات میں تقریباً بارہ سال یہ مجھ سے علیحدہ رہی ہیں لیکن کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا اور ایک دفعہ کسی بات پہ کبھی کچھ ڈسٹرب رہی ہیں۔ جب میں نے پوچھا پہلے کیوں نہیں بتایا تو انہوں نے کہا اس لیے نہیں بتایا کہ آپ کو وہاں اپنے میدان عمل میںکسی قسم کی ڈسٹربنس نہ ہو۔ فرینکفرٹ کے حلقہ بیت السبوح کی صدر بھی رہیں۔ خلافت جوبلی کے سال میں ان کو بطور صدر لجنہ فرینکفرٹ میں خدمت کرنے کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز، روزہ کی بہت پابند تھیں۔ تہجد گزار تھیں۔ قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرنے والی، بہت صدقہ خیرات کرنے والی اور چندوں کی بروقت ادائیگی کرنےو الی تھیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
اگلا ذکر نسیم اختر صاحبہ اہلیہ حبیب اللہ کاہلوں صاحب گھٹیالیاں کا ہے۔ گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔اللہ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ وصیت کا تمام حساب وفات تک بالکل مکمل تھا۔حصہ جائیداد اپنی زندگی میں ادا کر دیا تھا۔ پسماندگان میں میاں کے علاوہ چھ بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ ایک بیٹی آپ کی زندگی میں وفات پا گئی تھی۔ اس کے بچوں کو بھی بڑی محبت سے رکھا ہے، تعلیم دلوائی۔ بیٹوں میں سے چار واقفین زندگی ہیں۔ ان کے ایک بیٹے نوید عادل صاحب مربی سلسلہ لائبیریا کے مشنری انچارج ہیں اور میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنی والدہ کے جنازے پہ شامل نہیں ہوئے۔ یہ کہتے ہیں کہ آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے والد مولا بخش صاحب کے ذریعہ آئی جنہوں نے خلافت ثانیہ کے دَور میں بیعت کی تھی۔ ان کا دینی علم اچھا تھا۔ بعض اوقات ملنے والے آپ سے پوچھا کرتے تھے کہ آپ کی تعلیم کتنی ہے لیکن دنیاوی تعلیم بھی بہت معمولی تھی۔ دینی علم کے شوق کے بارے میں اکثر بتایا کرتی تھیں کہ یہ ان کے والد محترم کی وجہ سے ہے کیونکہ وہ جو بھی درس وغیرہ مسجد میں سن کر آتے تھے، ہمیں گھر آ کر ضرور بتاتے تھے۔ اگر گھر میں اس طرح ڈسکشن ہو رہی ہو تو والدین کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ جماعت اور خلافت سے بے پناہ محبت تھی۔بہت نڈر اور دینی غیرت رکھنے والی تھیں۔ جماعت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کسی قسم کی بات برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ نمازوں کی بہت پابند، تہجد گزار، اعتکاف بھی باقاعدہ بیٹھا کرتی تھیں سوائے آخری چند سالوں کے۔ رمضان کے دنوں میں قرآن کریم کے بھی تین چار دَور مکمل کیا کرتی تھیں۔ چلتے پھرتے درود شریف اور ذکر الٰہی کیا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ اچانک گرنے کی وجہ سے ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ یہ لکھنے والے ان کے بیٹے عادل صاحب جو مربی ہیں کہتے ہیں کہ اس وقت ان کے چھوٹے بھائی وہاں گئے ہوئے تھے اور عین اس وقت جب ان کی واپسی تھی تو اس دن یہ گری ہیں اور ٹانگ ٹوٹ گئی توا نہوں نے ان کو کہا کہ تم اپنی ڈیوٹی پر جاؤ۔ اور ساتھ والے دوسرے گاؤں سے اپنے داماد کو بلایا۔ اس کے ساتھ ہسپتال گئیں اور اپنے بیٹے کو کہا کہ تمہارا کام یہ ہے کہ تمہیں دین کی خدمت کیلئے فوری طور پر جانا چاہئے۔
نوید عادل صاحب ہی کہتے ہیں کہ سات سال بعد رخصت پر گیا۔ ان سے ملاقات ہوئی تو اس وقت انہوں نے نصیحت کی کہ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔کوئی پتا نہیں کسی کا کہ کب وقت آجائے۔ اس لیے اگر ایسا وقت آتا ہے تو تم نے ڈیوٹی چھوڑ کے نہیں آنا۔ وہیں رہنا ہے جہاں تم ہو۔ اس لیے یہ اپنے سینٹر میں تھے اور یہ والدہ کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکے۔
اگلا ذکر مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ رشید احمد ضمیر صاحب بشیر آباد سٹیٹ کا ہے۔ یہ بھی گذشتہ دنوں وفات پا گئیں۔اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد محترم بہاول حق صاحب کے ذریعہ ہوا جنہوں نے 1948ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ انتہائی خوبیوں کی مالک تھیں۔ پنجوقتہ نمازوں کی پابند، تہجد کی پابند، بےلوث جماعتی خدمت کرنے والی، نیک پاکباز خاتون تھیں۔ کئی جماعتی عہدوں پر فائز رہیں۔ ان کو خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ لجنہ کی صدر بھی رہیں۔ تقریباً ساری زندگی ہی جماعتی خدمت میں گزاری ہے۔ سینکڑوں بچوں اور بچیوں کو قرآن کریم پڑھایا۔ پردے کا بہت خیال کرتی تھیں۔ بچیوں کو بھی پردے کی تلقین کرتی تھیں۔ خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں۔ غریبوں اور بیوگان کی ضرورت کا خیال رکھتیں۔ کئی غریب اور یتیم بچیوں کی شادیوں میں ان کی مدد کی۔ کئی بچیوں کو سلائی کڑھائی سکھائی۔ ہر جمعہ کے روز جمعہ کے وقت سے دو گھنٹے قبل مسجد چلی جاتی تھیں اور عورتوں والے حصہ کی صفائی خود کرتیں اور اسکے بعد نوافل ادا کرتیں۔ نہایت ایماندار تھیں۔ کئی خواتین اپنا زیور اور نقدی ان کی ایمانداری کی وجہ سے ان کے پاس امانت کے طور پہ رکھوا دیتی تھیں۔ کبھی انہوں نے کسی سے لڑائی نہیں کی۔ سختی نہیں کی۔ بدتمیزی نہیں کی۔ نہایت اعلیٰ اخلاق کی مالک تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ جب اپنی وصیت کی ہے تو ساتھ ہی بیٹیوں کی وصیت کروائی۔ اسی طرح گاؤں میں کئی خواتین کو بھی نظام وصیت میں شامل کروایا۔ پسماندگان میں ان کے شوہر کے علاوہ ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ مکرم عثمان احمد صاحب مربی سلسلہ رقیم پریس سیرالیون اور مکرم سعادت احمد صاحب مربی سلسلہ برکینا فاسو کی ساس تھیں اور ان کی دونوں بیٹیاں جو ہیں مربیان سے بیاہی ہوئی ہیں۔ یہ اپنی ماں کے آخری وقت میں وہاں موجود نہیں تھیں۔ اپنی اپنی خدمت کی جگہ پہ تھیں۔ ان کی بیٹی آصفہ صاحبہ کہتی ہیں کہ میں اپنے شوہر عثمان احمد صاحب کے ساتھ سیرالیون میں خدمت کی توفیق پا رہی ہوں۔ میدانِ عمل میں ہونے کی وجہ سے میں والدہ کے جنازے اور تدفین میں شامل نہیں ہو سکی۔ اسی طرح میری چھوٹی بہن مریم بشریٰ بھی برکینا فاسو میں ہے اور وہ بھی شامل نہیں ہو سکی۔ اللہ تعالیٰ ان کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ انکی دعائیں انکی اولاد کے حق میں پوری فرمائے۔

…٭…٭…٭…