’’اس لڑائی میں گو بڑا صدمہ مسلمانوں کو پہنچا اور عبداللہ بن جبیرؓ کی سپاہ کی خطا سے یہ بلا آئی مگر ایک فائدہ عظیم بھی حاصل ہوا کہ
منافقوں کا نفاق اور یہودیوں کا بغض وعناد صاف صاف عیاں ہو گیا اور خالص مسلمان ممتاز ہو گئے۔‘‘ (حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تاکیدی حکم کے باوجود بھی جب درّے کی حفاظت پر مامور اکثریت نے درّہ خالی کر دیا تو دشمن نے اس طرف سے حملہ کیا اور مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا
صحابہؓ کے بارے میں اس دنیاوی خواہش کیلئے درّے کو چھوڑنے کی بات دل کو لگتی نہیں… صحابہؓ کے بارے میں یہ کہنا بلکہ سوچنا بھی ان کی شان کے خلاف ہےہےکہ ان کو مال غنیمت کی پڑی ہوتی تھی
عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کی آخرت پر نظر تھی کہ وہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا میں سب سے بڑی کامیابی دیکھتے تھے، پس وہ یہ چاہتے تھے کہ
بالآخر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ راضی رہے اور یہ وقتی طور پر جو چیزیں دکھائی دے رہی ہیں بالکل بے معنی اور بے حقیقت ہیں، ہماری اصل نیکی ان کی رضا حاصل کرنا ہے
مسلمان اس وقت بے خبری کے عالم میں مال غنیمت جمع کرنے اور مشرکین کو قیدی بنانے میں مصروف تھے کہ اچانک مشرکوں کے گھڑ سوار دستے گھوڑے دوڑاتے ہوئے ان کے سروں پر پہنچ گئے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حمزہؓ کے قتل کی اطلاع ملی تو آپؐکو سخت صدمہ ہوا اور روایت آتی ہے کہ غزوۂ طائف کے بعد جب حمزہ کا قاتل
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تو آپؐنے اسے معاف تو فرما دیا مگر حمزہ کی محبت کااحترام کرتے ہوئے فرمایا کہ وحشی میرے سامنے نہ آیا کرے
اللہ نے آگ پر ہمیشہ کیلئے حرام کر دیا ہےکہ حمزہ کے گوشت میں سے کچھ بھی چکھے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جبرئیل نے آ کر مجھے خبر دی ہے کہ حمزہ بن عبدالمطلب کو سات آسمانوں میں اللہ اور اسکے رسولؐ کا شیر لکھا گیا ہے
غزوۂ اُحدکے دوران سید الشہداء حضرت حمزہؓ کی شہادت نیز دیگر پیش آمدہ حالات و واقعات کا تذکرہ ، مظلومینِ فلسطین کیلئے دعا کی مکرّر تحریک
مسلمان ملکوں کو ہی اللہ تعالیٰ ہمت دے کہ اپنی آواز میں زور پیدا کریں اور حقیقت میں ایک بن کے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں اوراس کو ختم کرنے کی کوشش کریں
مکرم شيخ احمد حسين ابو سردانہ صاحب شہید آف غزہ اور مکرم عثمان احمد گاکوريا صاحب آف کينيا کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خطبہ جمعہ
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ-
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مٰلكِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ
اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ۥۙ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّیْنَ
آج کل خطبات میں غزوۂ اُحد کا ذکرہو رہا ہے۔ جیساکہ ذکر ہوا تھا کہ مسلمانوں نے عام جنگ میں کافروں کو سخت نقصان پہنچایا اور وہ بھاگنے پر مجبور ہو گئے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تاکیدی حکم کے باوجود بھی جب درّے کی حفاظت پر مامور اکثریت نے درّہ خالی کر دیا تو دشمن نے اس طرف سے حملہ کیا اور مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایاجس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ جب مشرکوں کے پرچم بردار ایک ایک کر کے قتل ہو گئے اور کوئی شخص بھی اب پرچم اٹھانے یا اس کے قریب آنے کی ہمت نہ کر سکا تو ایک دم مشرک پسپا ہونے لگے اور پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے۔ ان کی عورتیں بھی جو کچھ ہی دیر پہلے پُرمسرت لہجوں اور پورے جوش و خروش سے دف بجا بجا کر گا رہی تھیں، دف پھینک کر پہاڑ کی طرف بھاگیں۔ مسلمانوں نے دشمن کو بھاگتے دیکھا تو وہ ان کا پیچھا کر کے ان کے ہتھیار لینے اور مال غنیمت جمع کرنے لگے۔ اسی وقت مسلمانوں کا وہ تیر انداز دستہ جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑی پر تعینات کر کے حکم دیا تھا کہ کسی بھی حال میں اپنی جگہ سے نہ ہلیں وہاں سے مال غنیمت جمع کرنے کیلئے بھاگا۔ یہ کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس دستے کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ نے ان کو سختی سے منع کیا کہ ان کو کسی حال میں بھی یہاں سے ہٹنے کا حکم نہیں ہے مگر وہ لوگ نہیں مانے اور کہنے لگے مشرکین کو شکست ہو گئی ہے، اب ہم یہاں ٹھہر کر کیا کریں گے؟ یہ کہہ کر وہ لوگ پہاڑ ی سے اتر آئے اور مالِ غنیمت جمع کرنے لگے۔ اگرچہ ان میں سے اکثر لوگ اپنی جگہ چھوڑ چکے تھے مگر ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ اور کچھ دوسرے صحابہؓ اپنی جگہ جمے رہے جن کی تعداد دس سے بھی کم ہو گی۔ انہوں نے نیچے جانے والوں سے کہا یعنی درّے سے جو نیچے اتر رہے تھے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی ہرگز نہیں کروں گا۔
ان کے امیر نے یہ کہا۔ اکثر مؤرخین اور سیرت نگار درہ چھوڑنے والے صحابہؓ کا ذکر کرتے ہوئے یہی بیان کرتے ہیں کہ ان کو مالِ غنیمت کی جلدی تھی اس لیے وہ اصرار کر رہے تھے کہ جب باقی سب لوگ مال غنیمت لُوٹ رہے ہیں تو ہم کیوں پیچھے رہیں جبکہ ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ انہیں روک رہے تھے کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حکم تھا کہ جو بھی ہو تم لوگ اپنی جگہ، اس جگہ سے نہیں ہٹو گے اس لیے ہمیں یہیں رہنا چاہئے لیکن ان لوگوں کی اکثریت نے امیر کی بات سے اتفاق نہیں کیا اور مالِ غنیمت لُوٹنے کیلئے درے سے نیچے اتر آئے۔ اکثر مؤرخین نے یہ لکھا ہے اور کتب حدیث اور تفسیر میں بھی عمومی طور پر یہی ذکر ملتا ہے کہ یہ صحابہؓ مال غنیمت کی جلدی کی وجہ سے درہ چھوڑ کر چلے گئے اور سورہ آل عمران کی آیت 153کہ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ کہ تم میں سے ایسے بھی تھے جو دنیا کی طلب رکھتے تھے اور تم میں ایسے بھی تھے جو آخرت کی طلب رکھتے تھے۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے اکثر مفسرین بھی یہی لکھتے ہیں کہ صحابہؓ مال غنیمت کے حصول کیلئے جلدی جانا چاہتے تھے لیکن صحابہؓ کے بارے میں اس دنیاوی خواہش کیلئے درّے کو چھوڑنے کی بات دل کو لگتی نہیں۔
اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے بھی ایک تفسیری نوٹ لکھا تھا جو غیرشائع شدہ ہے، وہ میں آگے اس کی تفسیر میں بیان کروں گا۔ اس سے پہلے کچھ بیان کر دوں یا پوری آیت پہلے بیان کر دیتا ہوں۔ پوری آیت اس طرح ہے کہ وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللہُ وَعْدَہٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِـاِذْنِہٖ۰ۚ حَتّٰٓي اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَآ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ۰ۭ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الْاٰخِرَۃَ۰ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْھُمْ لِـيَبْتَلِيَكُمْ۰ۚ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ۰ۭ وَاللہُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ(آل عمران: 153)اور یقیناً اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچا ثابت کر دکھایا جب تم اسکے حکم سے ان کی بیخ کنی کر رہے تھے تاآنکہ جب تم نے بزدلی دکھائی اور تم اصل حکم کے بارے میں باہم جھگڑنے لگے اور تم نے اس کے باوجود بھی نافرمانی کی کہ اس نے تمہیں وہ کچھ دکھلا دیا جو تم پسند کرتے تھے۔ تم میں ایسے بھی تھے جو دنیا کی طلب رکھتے تھے اور تم میں ایسے بھی تھے جو آخرت کی طلب رکھتے تھے پھر اس نے تمہیں ان سے پرے ہٹا لیا تا کہ تمہیں آزمائے اور جو بھی ہوا وہ یقیناً تمہیں معاف کر چکا ہے (یعنی اللہ تمہیں معاف کر چکا ہے) اور اللہ مومنوں پر بہت فضل کرنے والا ہے۔
یہ ہے آیت جس کی تفسیر میں یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ مالِ غنیمت یا اس جنگ کے حوالے سے یہ آیت ہے۔
صحابہؓ کے بارے میں یہ کہنا بلکہ سوچنا بھی ان کی شان کے خلاف ہے کہ ان کو مال غنیمت کی پڑی ہوتی تھی۔یہ لوگ تو اپنے بیوی بچے اور اپنی جانیں تک اپنے سب سے محبوب خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر نچھاور کر چکے تھے اور اس سے پہلے وہ اپنے اموال و اسباب بھی اسی راہ میں لُٹا چکے تھے۔ شہادت کے شوق میں تو جیساکہ واقعات بیان ہوئے ہیں یہ لوگ باہر نکل کر جنگ کرنا چاہتے تھے اور یہ جنگیں مالِ غنیمت حاصل کرنے کیلئے نہیں لڑی جا رہی تھیں۔ یہ تو مسلمانوں پہ الزام ہے۔ ہاں فتح کی صورت میں اموال غنیمت مل جانا ایک ضمنی بات تو ہو سکتی ہے لیکن صحابہؓ کا مطلوب و مقصود مال غنیمت حاصل کرنا ہرگز نہیں ہو سکتا تھا۔
بہرحال تاریخ اسلام میں اور اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح بیان کرتے ہوئے جو مؤرخین ہیں یا جو سیرت نگار ہیں یا محدّث ہیں یا مفسر ہیںلگتا ہے کہ ان بزرگوں کو کہیں غلطی لگی ہے اور محض کسی روایت کی سند وغیرہ پر اعتبار کر کے ان لوگوں نے اپنی سادگی میں یا اس پر یقین رکھ کے کہ یہ روایت صحیح ہو گی ایسا بیان کر دیا ہے کہ صحابہؓ مال غنیمت کیلئے نیچے اترے تھے۔ انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ عواقب اور اثرات کے لحاظ سے یہ بات کتنی زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے اور وہ بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہو یا آپؐ کی قوتِ قدسیہ سے فیضیاب ہونے والے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوں، ان کی شان کے کتنی منافی ہو سکتی ہے۔ بہرحال صحابہؓ کی قربانی اور جذبۂ شہادت کو دیکھ کر یہ بات یقین کرنی مشکل ہے کہ صحابہؓ صرف مالِ غنیمت حاصل کرنے کیلئے اس درہ کو چھوڑنے کیلئے جلدی کر رہے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب ان صحابہؓ نے دیکھا کہ مسلمانوں کو فتح ہو چکی ہے اور وہ دشمن کو بھگا رہے ہیں اور اس کا پیچھا کر رہے ہیں تو درے پر موجود صحابہؓ اس واضح فتح کی خوشی میں شامل ہونے کیلئے بے چین ہو گئے۔ اور فتح پر ختم ہوتی ہوئی اس جنگ کے آخری لمحات میں شامل ہونے کی تڑپ سے بے چین ہو رہے تھے کہ ہم بھی اس خوشی میں شامل ہو جائیں۔ وہ شاید سمجھ رہے ہوں کہ ہمارے دوسرے بھائی تو جہاد میں براہِ راست حصہ لے رہے ہیں اور ہم یہاں درّے میں کھڑے ہیں۔ تو جہاد میں شامل ہونے کا شوق جوش میں آیا کہ اب فتح تو ہو چکی ہے تو آج کے دن کے ختم ہوتے ہوئے جہاد میں عملاً بھی شامل ہو جائیں۔ اس فتح کی خوشی توکم از کم منا لیں۔ لیکن ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ جو زیادہ صاحبِ فراست ثابت ہوئے ان کی نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر تھی کہ خواہ کچھ بھی ہو یہاں سے نہیں ہٹنا یہ ان کا فیصلہ تھا اور درست فیصلہ تھا کہ جو بھی ہے ہمیں یہاں سے ہٹنا نہیں چاہئے۔
جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ کے غیر مطبوعہ نوٹس میں اس آیت کی کچھ تفسیر ملتی ہے۔ اسکے ساتھ آپؓنے لکھا ہے کہ’’مِنْکُمْ مَنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا۔اس جگہ دنیا سے مراد مال غنیمت نہیں بلکہ دنیا والی چیز مراد ہے اور آخرت سے مراد انجام اور آخری نتیجہ ہے۔ یہ خیال کرنا کہ انہیں یہ خیال آیا تھا کہ ہمیں مال غنیمت نہیں ملے گا واقعہ کے خلاف ہے کیونکہ بدر میں تو ان لوگوں کو بھی‘‘ مال غنیمت میں ’’حصہ ملا تھا جو بعض مجبوریوں کی وجہ سے جنگ میں شامل نہیں ہو سکے تھے اس لیے یہ خیال بالکل غلط ہے۔صحابہؓ کے متعلق دنیاداری کا خیال کرنا درست نہیں۔‘‘
یہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا۔ پھر فرمایا کہ ’’اصل بات یہ ہے کہ ان کو یہ خواہش تھی کہ ہم بھی اس جنگِ اُحد میں شریک ہوں۔ یہ بھی دنیوی خیال تھا کہ ہم اس غزوہ میں شامل ہوں اور کافروں کو ماریں۔ لُوٹ کے مال میں شامل ہونا اس جگہ مراد نہیں۔ فرماتا ہے کہ تم کو یہ خیال تھا کہ ہم غزوہ میں شامل ہونے والوں سے پیچھے نہ رہ جائیں مگر یہ بھی ایک دنیوی خیال ہے‘‘ دنیوی خیال اس لیے ہے کہ صرف لڑنا تو کوئی بات نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل نہ کرنا یہ دنیوی خیال بن جاتا ہے۔ ’’تمہیں تو حکم کی تعمیل کرنی چاہئے تھی اور بس‘‘ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل نہ کرنا چاہے وہ دین کی خاطر جنگ ہو رہی ہو اور آپؐنے اس سے منع کر دیا اور کہیں اَور جگہ ڈیوٹی لگا دی تو اس حکم کی تعمیل اصل میں دین ہے نہ کہ جنگ کرنا۔ پھر آپؓفرماتے ہیں کہ ’’وَمِنْکُمْ مَنْ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃ۔ فرماتا ہے کہ تمہارا افسر اور اس کے ساتھی تو آخرت کو چاہتے تھے۔ ان کے مدِنظر انجام اور نتیجہ تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس کا نتیجہ اچھا نہ ہو گا۔ وہ نافرمانی کے بد نتیجہ کو دیکھ رہا تھا۔ اس طرح اس کے ساتھی بھی اسے حق پر سمجھتے تھے۔ افسر اور اس کے ساتھ متفق لوگوں کی نظر اس بات کے آخری نتیجہ پر پہنچ رہی تھی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو جنگ میں شمولیت سے زیادہ اہم سمجھتے تھے۔‘‘ بات واضح ہو گئی۔ ’’لیکن برخلاف اس کے تمہاری نظر سطحی بات پر پڑی ہوئی تھی۔ ‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’یہ معنے صحابہؓ کی اس شان کے مناسبِ حال ہیں جو ان کے کاموں اور ان کی قربانیوں سے ظاہر ہوتی ہے۔‘‘ (غیرمطبوعہ نوٹس حضرت مصلح موعودؓ زیرآیت سورت آل عمران :153)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے حضرت مصلح موعودؓ کے اس نوٹ کا ذکر کرتے ہوئے اس کی وضاحت فرمائی کہ وہ دنیا چاہتے تھے یعنی ان سے جھگڑا کرنے والے اور دستے کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ یہ عقبیٰ چاہتے تھے۔ حضرت خلیفہ رابعؒ فرماتے ہیں کہ اس مضمون کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے نوٹس میں بیان کیا ہے اور ایک اچھا نکتہ بیان فرمایا ہے کہ یہاں دنیا سے مراد جو لوگ یہ لیتے ہیں کہ لُوٹ مار اور مال غنیمت، یہ درست نہیں ہے۔ وہ وقتی فتح کی طرف نظر رکھ رہے تھے اور دنیا سے مراد ان کی یہاں یہ ہے کہ وہ جو معاملہ پہلے ظاہرہو چکا ہے ان کی نظر اس پر تھی یعنی جو جنگ جیتی جا چکی تھی اورعبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کی آخرت پر نظر تھی کہ وہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا میں سب سے بڑی کامیابی دیکھتے تھے۔ پس وہ یہ چاہتے تھے کہ بالآخر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ راضی رہے اور یہ وقتی طور پر جو چیزیں دکھائی دے رہی ہیں بالکل بے معنی اور بے حقیقت ہیں۔ اصل ہماری نیکی ان کی رضا حاصل کرنا ہے۔
حضرت خلیفہ رابعؒنے آگے بیان کیا کہ پس حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ بحث ہی بے تعلق ہے کہ وہ دنیا چاہ رہے تھے اور وہ آخرت چاہ رہے تھے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا وہ تھی بھی کتنی سی۔ وہ عجیب و غریب سی بات نظر آتی ہے۔ پھر تفصیل بیان کی انہوں نے کہ وہ جو درّے کی حفاظت پر مامور تھے درّے سے بھاگے ہوں گے اس وقت تک تو سب چیزیں بٹ بھی چکی ہوں گی اور یہ خیال کہ ان کو یہ جلدی تھی کہ ہم جلدی سے وہاں جا کر شامل ہو جائیں۔ یہ کیوں نہیں سوچتے جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے حسنِ ظن کرو اپنے لوگوں پر کہ وہ اس خیال سے گئے تھے کہ سارے فتح کے شادیانے بجارہے ہیں، خوش ہو رہے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کھڑے ہیں، ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہوں گے تو ہم کیوں اس منظر سے پیچھے رہیں۔ تو بسا اوقات ایسا ہوتا ہے اور یہ فطرت کے عین مطابق ہے کہ جہاں جشن منایا جا رہا ہو، خوشی منائی جا رہی ہو، سب دوڑ دوڑ کر وہاں پہنچتے ہیں۔ خلیفہ رابع ؒکہتے ہیں یہاں بھی اپنے قیام کے دوران بارہا دیکھ چکے ہیں کہ کوئی اچھی خبر ہو تو یہاں کوئی مال غنیمت لُوٹنے تو لوگ نہیں آتے۔ لوگ پہنچتے ہیں اور خوشی میں حصہ لینے پہنچتے ہیں۔ تو ان کے نزدیک یہ تھا کہ اتنا مزہ آ رہا ہے۔ نیچے دیکھو یا جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ سارے لطف اٹھا رہے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد اکٹھے ہو کر۔ خدا کا وعدہ پورا ہوا ہے۔ ہم یہاں کھڑے اکیلے، ہم بھی وہاں جاتے ہیں لیکن حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آخرت پر نظر تھی کہ اس وقت خوشی سے یہ بہت زیادہ مزے کی بات ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر الگ ایک طرف بیٹھے رہیں۔ جو ہمیں حکم دیا گیا ہے اس کی تعمیل کریں۔ اور جو اس کا لطف ہے وہ دراصل وہ لطف نہیں ہے جو وہاں خوشی میں ہے۔ (ماخوذ از درس القرآن،5رمضان المبارک 16؍فروری 1994ء)
بہرحال ایک طرف جب کفار کا لشکر بری طرح شکست کھا کر پیٹھ پھیر کر بھاگ رہا تھا اور دوسری طرف پہاڑی درے پر متعین پچاس میں سے چالیس کے قریب مجاہدین درہ چھوڑ کر نیچے اتر گئے تو اسی وقت خالد بن ولید نے دیکھا کہ وہ پہاڑی درہ جہاں تیر اندازوں کا دستہ جما ہوا تھا، خالی ہو چکا ہے، صرف چند آدمی باقی رہ گئے ہیں۔ خالد بن ولید اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے۔ یہ دیکھتے ہی وہ عکرمہ بن ابوجہل کو ساتھ لے کر اپنے گھڑ سوار دستے کے ساتھ پلٹے۔ انہوں نے پہاڑی پر پہنچ کر ان چند لوگوں پر حملہ کر دیا جو تیر انداز دستے میں سے بچے کھچے وہاں موجود تھے۔ ان کا یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ ایک ہی ہلے میں انہوں نے اس دستے کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ اور ان کے چند ساتھیوں کو قتل کر دیا۔ ان لوگوں نے حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کی لاش کا مثلہ کیا یعنی ہاتھ پاؤں اور جسم کے دوسرے اعضاء کاٹ ڈالے۔ اس کے بعد قریش کے اس دستے نے نیچے اتر کر اچانک مسلمانوں کو گھیر لیا۔
مسلمان اس وقت بے خبری کے عالم میں مال غنیمت جمع کرنے اور مشرکین کو قیدی بنانے میں مصروف تھے کہ اچانک مشرکوں کے گھڑ سوار دستے گھوڑے دوڑاتے ہوئے ان کے سروں پر پہنچ گئے۔یہ لوگ عزیٰ اور ہبل کے نعرے لگا رہے تھے جو اُحد کے روز مشرکین کا شعار تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کے پاس پہنچتے ہی بے خبری میں ان کو تلواروں پر رکھ لیا۔ مسلمان بدحواس ہو گئے اور جدھر جس کا منہ اٹھا وہ اس طرف بھاگنے لگا۔ جو کچھ مالِ غنیمت انہوں نے جمع کیا تھا اور جتنے قیدی بنائے تھے ان سب کو چھوڑ کر مسلمان ہر طرف بکھر گئے۔ نہ ان کی صفیں باقی رہیں نہ ترتیب۔ ایک کو دوسرے کی کوئی خبر نہیں تھی۔ مشرکین کا پرچم اس وقت تک زمین پر پڑا ہوا تھا کہ اس نئی صورتحال کو دیکھ کر اچانک ایک عورت عمرہ بنت علقمہ نے اس کو اٹھا کر بلند کر دیا اور مشرکین کو اونچی آواز میں واپس بلانا شروع کیا۔ بھاگتے ہوئے مشرکین نے اپنے پرچم کو سربلند ہوتے دیکھا تو وہ سمجھ گئے کہ جنگ کا پانسہ پلٹ چکا ہے اور سب کے سب پلٹ کر پھر اپنے جھنڈے کے گرد جمع ہو گئے۔ (سیرۃ الحلبیہ، جلد2 ،صفحہ308 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ایک مصنف نے لکھا ہے کہ قریش کے خاک و خون میں لت پت جھنڈے کو عمرہ بنت علقمہ نامی خاتون نے پکڑ کر بلند کر دیا۔ وہ زور زور سے اسے لہرانے لگی اور میدان سے فرار ہونے والوں کو ملامت کرنے لگی۔ وہ کفار مکہ کو پلٹ آنے کیلئے پکار رہی تھی۔ یوں شکست خوردہ کفار واپس میدان احد میں اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے آگے اور پیچھے کی طرف سے مسلمانوں کو گھیر لیا۔ مسلمان بے فکری کی بنا پر صف بندی ختم کر چکے تھے اس لیے اب ان کی کوئی ترتیب نہ تھی۔ (دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ، جلد6،صفحہ486-487،بزم اقبال لاہور)
اس روز مسلمانوں کی خاصی تعداد نےجامِ شہادت نوش کیا۔پہلے جو فتح ہوئی تھی اب وہ شکست کے ابتلا میں تبدیل ہو چکی تھی۔ ایک مصنف اس وقت کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مسلمانوں نے تیر اندازوں کی غلطی کے بعد اپنی تنظیم کو کھو دیا اور ان کی صفیں درہم برہم ہو گئیں اور انہوں نے غنائم کو اپنے ہاتھوں سے پھینک دیا اور بدحواسی کے عالم میں ایک دوسرے کو مارنے لگے اور ان میں سے بہت سے لوگ سرگرداں ہو گئے۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں جائیں خصوصاً مشرکین کے منادی کے اعلان کے بعد کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل ہو گئے ہیں۔ یہ ایک سخت آزمائش تھی جس میں بہت سے مسلمان اپنے بھائیوں کے ہاتھوں بلا ارادہ قتل ہو کر گر پڑے۔ بعض دفعہ غلطی سے مسلمانوں نے مسلمانوں کو بھی قتل کر دیا اور متوقع تھا کہ دشمنوں کی کثرت تعداد جس نے خالد کی کارروائی کے بعد دوبارہ اپنے آپ کو منظم کر لیا تھا مسلمانوں کی قلیل تعداد کو تباہ کر دے گی اور ان کا خاتمہ کر دے گی۔(غزوۂ احد از محمد احمد باشمیل، صفحہ 140-141،نفیس اکیڈمی کراچی 1989ء)لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ نے پھر فضل فرمایا اور وہ دشمن جو چاہتے تھے وہ تو نہیں ہوا۔
حضرت حذیفہؓ کے والد یمان کا مسلمانوں کے ہاتھوں غلطی سے قتل ہونے کے بارے میں لکھا ہے کہ صحابہؓ کے ایک دوسرے کو قتل کرنے کی ایک مثال حضرت حذیفہؓ کے والد یمان تھے جنہیں مسلمانوں نے ناواقفیت میں شہید کر دیا تھا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کی جنگ کیلئے تشریف لے گئے تو ثابت بن وقش اور حُسیل بن جابر جن کا نام یمان تھا اور یہ حذیفہ بن یمان کے باپ تھے، وہ دونوں عمر رسیدہ تھے اور اس قلعہ میں تھے جس میں مسلمانوں کی عورتیں اور بچے حفاظت کیلئے پناہ گزین تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ دونوں بوڑھے قلعہ میں بند بیٹھے تھے۔ باتیں کرنے لگے، کہنے لگے کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں ہم؟ ہماری زیادہ عمر تو باقی نہیں رہی۔ بڈھے ہو چکے ہیں ہم۔اگر ہم آج نہیں مرے تو کل ضرور مر جائیں گے۔ کیا ہم اپنی تلواریں نہ اٹھائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا ملیں۔ شاید اللہ تعالیٰ ہمیں شہادت نصیب فرما دے۔ پھر یہ دونوں تلوار پکڑ کر کفار پر جا پڑے اور لوگوں میں مل جل گئے۔ یعنی مسلمان تو جہاںیہ جانتے تھے کہ یہ دونوں بزرگ جنگ میں شامل ہی نہیں ہیں اور مدینہ میں موجود ہیں جبکہ یہ اب میدانِ جنگ میں پہنچ کر لڑائی میں شامل ہو چکے تھے اور مسلمان انہیں فوری طور پر پہچان نہیں سکے، پتہ ہی نہیں لگا کہ یہ کون ہیں۔ ثابت بن وقش کو تو کفار نے شہید کر دیا اور حذیفہ کے باپ کو مسلمانوں نے ناواقفیت میں شہید کر دیا۔ حذیفہ نے کہا اللہ کی قسم! یہ تو میرا باپ ہے جو شہید ہو گئے۔ انہوں نے دیکھا تو کہا یہ تو میرا باپ ہے۔ مسلمانوں نے کہا اللہ کی قسم! ہم نے ان کو نہیں پہچانا، غلطی سے شہید ہو گئے۔ اور واقعی انہوں نے سچ کہا تھا۔ حذیفہ نے کہا خدا تم کو معاف کرے وہ ارحم الراحمین ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں حذیفہ کو ان کے باپ کا خون بہا دینا چاہا۔ غلطی سے مسلمانوں سے شہید ہو گئے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا خون بہا دیا جائے مگر حذیفہ نے نہیں لیا، انہوں نے انکار کر دیا اور مسلمانوں کو معاف کر دیا۔ اس سے حذیفہ کی قدر و منزلت خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے نزدیک بہت زیادہ ہوئی۔ (سیرۃ النبویہ لابن ہشام، صفحہ537-538، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اس جنگ میں حضرت حمزہؓ کی شہادت بھی ہوئی تھی۔ ان کا واقعہ بھی لکھا ہے کہ عمیر بن اسحاق سے اس طرح مروی ہے کہ احد کے روز حمزہ بن عبدالمطلبؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے دو تلواروں سے جنگ کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میں اسداللہ یعنی خدا کا شیر ہوں۔ یہ کہتے ہوئے کبھی آگے جاتے اور کبھی پیچھے ہٹتے۔ وہ اسی حالت میں تھے کہ یکایک پھسل کر گرے۔ انہیں وحشی اسود نے دیکھ لیا۔ ابواسامہ نے کہا کہ اس نے انہیں نیزہ کھینچ کر مارا اور قتل کر دیا۔ (الطبقات الکبریٰ، جلد 3، صفحہ 8، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی جو لکھا ہے وہ اس طرح ہے کہ ’’حضرت حمزہؓ جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچاہونے کے علاوہ آپؐکے رضاعی بھائی بھی تھے۔ نہایت بہادری کے ساتھ لڑ رہے تھے اورجدھر جاتے تھے ان کے سامنے قریش کی صفیں پھٹ پھٹ جاتی تھیں مگر دشمن بھی ان کی تاک میں تھا اورجبیربن مطعم اپنے ایک حبشی غلام وحشی نامی کو خاص طور پر آزادی کاوعدہ دے کر اپنے ساتھ لایا تھا کہ جس طرح بھی ہو حمزہ کو جنہوں نے جبیر کے چچا طعیمہ بن عدی کوبدر کے موقعہ پر تلوار کی گھاٹ اتارا تھا قتل کرکے اس کے انتقام کو پورا کرے۔ چنانچہ وحشی ایک جگہ پر چھپ کر ان کی تاک میں بیٹھ گیا اورجب حمزہ کسی شخص پر حملہ کرتے ہوئے وہاں سے گزرے تو اس نے خوب تاک کر ان کی ناف کے نیچے اپنا چھوٹا سانیزہ مارا جو لگتے ہی بدن کے پار ہوگیا۔ حمزہ لڑکھڑاتے ہوئے گرے مگرپھر ہمت کرکے اٹھے اورایک جست کرکے وحشی کی طرف بڑھنا چاہا مگر پھر لڑکھڑا کر گرے اورجان دے دی اوراس طرح اسلامی لشکر کاایک مضبوط بازو ٹوٹ گیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حمزہ کے قتل کی اطلاع ملی تو آپؐکو سخت صدمہ ہوا اور روایت آتی ہے کہ غزوۂ طائف کے بعد جب حمزہ کا قاتل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تو آپؐنے اسے معاف تو فرما دیا۔ مگر حمزہ کی محبت کااحترام کرتے ہوئے فرمایا کہ وحشی میرے سامنے نہ آیا کرے۔
اس وقت وحشی نے اپنے دل میں یہ عہد کیا کہ جس ہاتھ سے میں نے رسول خدا کے چچا کوقتل کیا ہے۔ جب تک اسی ہاتھ سے کسی بڑے دشمنِ اسلام کوتہ تیغ نہ کرلوں گا چین نہ لوں گا۔‘‘ اب مسلمان ہو گیا تھا نظریات بدل گئے، خیالات بدل گئے۔ ’’چنانچہ حضرت ابوبکرؓکے عہد خلافت میں اس نے جنگ یمامہ میں نبوت کے جھوٹے مدعی مسیلمہ کذاب کوقتل کرکے اپنے عہد کو پورا کیا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ492-493)
حضرت حمزہؓ کی نعش کی بے حرمتی بھی کی گئی۔روایت ہے کہ ابوسفیان کی بیوی ہند غزوۂ احد کے دن لشکروں کے ہمراہ آئی۔ اس نے اپنے باپ کا انتقام لینے کیلئے جو بدر میں حضرت حمزہؓ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا تھایہ نذر مان رکھی تھی کہ مجھے موقع ملا تو میں حمزہ کا کلیجہ چباؤں گی۔ جب یہ صورتحال ہو گئی اور حضرت حمزہؓ پر مصیبت آ گئی تو مشرکین نے مقتولین کا مثلہ کر دیا، ان کی شکلیں بگاڑ دیں۔ ناک کان وغیرہ عضو کاٹے۔ وہ حمزہ کے جگر کا ایک ٹکڑہ لائے۔ ہند اسے لے کر چباتی رہی کہ کھا جائے مگر جب وہ اس کونگل نہ سکی تو پھینک دیا۔ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے آگ پر ہمیشہ کیلئے حرام کر دیا ہےکہ حمزہ کے گوشت میں سے کچھ بھی چکھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد 3، صفحہ 8، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ ؓکی نعش کے پاس آ کر جن جذبات کا اظہار کیا اور آپؓ کو بلند مقام کی جو خوشخبری دی اس کے بارے میں روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت حمزہ ؓکی نعش کو دیکھا تو ان کا کلیجہ نکال کر چبایا گیا تھا۔ ابن ہشام کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں جب حضرت حمزہ ؓکی نعش پر آ کر کھڑے ہوئے تو فرمانے لگے کہ اے حمزہ!تیری اس مصیبت جیسی کوئی مصیبت مجھے کبھی نہیں پہنچے گی۔ میں نے اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر آج تک نہیں دیکھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبرئیل نے آ کر مجھے خبر دی ہے کہ حمزہ بن عبدالمطلب کو سات آسمانوں میں اللہ اور اسکے رسول کا شیر لکھا گیا ہے۔(سیرت ابن ہشام، صفحہ 395، دار ابن حزم بیروت 2009ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید دشمنوں میں سے ایک ہندہ تھی جو اتنی سخت مخالف تھی کہ جنگِ احد کے موقعہ پر لوگوں کو شعر پڑھ پڑھ کر بھڑکاتی تھی کہ جاؤ اور اسلامی لشکر پر حملہ کرو اور جب ایک خطرناک موقعہ مسلمانوں کیلئے آیا تو اس نے کہا کہ جو شخص حضرت حمزہؓ کا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے کلیجہ نکال کر میرے پاس لے آئے گا اور اسی طرح ان کا ناک اور ان کے کان کاٹ کر لے آئے گا میں اسے انعام دوں گی۔ چنانچہ حضرت حمزہؓ کی نعش کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا گیا۔ جنگ کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی کہ آپؐکے چچا کی ایسی بےحرمتی کی گئی ہے تو طبعی طور پر آپؐ کو تکلیف ہوئی اور آپؐنے فرمایا کہ جب دشمنوں نے اس قسم کے ظالمانہ سلوک کی ابتدا کر دی ہے تو میں بھی ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کروں گا۔ تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐپر وحی نازل ہوئی کہ ان کے اس ظالمانہ سلوک کے باوجود آپ کو ایسا کوئی اقدام نہیں کرنا چاہئے اور عفو اور درگذر سے کام لینا چاہئے۔‘‘(تفسیر کبیر، جلد6، صفحہ 353۔354 ،زیر آیت سورۃ النور آیت نمبر 47) چنانچہ اسلام میں منع کر دیا گیا۔
یہاں حضرت حمزہ ؓکی بہن کا بھی واقعہ لکھا ہے کہ کس طرح انہوں نے صبر و رضا اور اطاعت کا قابل رشک نمونہ دکھایا۔ حضرت زبیرؓ سے مروی ہے کہ غزوۂ احد کے دن اختتام پر ایک عورت سامنے سے بڑی تیزی کے ساتھ آتی ہوئی دکھائی دی۔ قریب تھا کہ وہ شہداء کی لاشیں دیکھ لیتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اچھا نہیں سمجھا کہ کوئی خاتون وہاں آئے اور لاشوں کی جو بہت بری حالت تھی کیونکہ اکثر کا مثلہ ہوا ہوا تھا دیکھ سکے۔ اس لیے فرمایا کہ اس عورت کو روکو، اس عورت کو روکو۔ حضرت زبیرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے غور سے دیکھا کہ یہ تو میری والدہ ہیں۔ حضرت صفیہؓ ہیں۔ چنانچہ میں ان کی طرف دوڑتا ہوا گیا اور شہداء کی لاشوں تک پہنچنے سے قبل ہی میں نے انہیں جا لیا۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر میرے سینے پر ہاتھ مار کر مجھے پیچھے دھکیل دیا۔ ایک مضبوط خاتون تھیں۔ وہ کہنے لگیںکہ پرے ہٹو! میں تمہاری کوئی بات نہیں مانوں گی۔ میں نے عرض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓکو روکنے کا کہا ہے کہ آپؓ ان لاشوں کومت دیکھیں۔ یہ سنتے ہی وہ رک گئیں اور اپنے پاس موجود دو کپڑے نکال کر فرمایا۔ یہ دو کپڑے ہیں جو میں اپنے بھائی حمزہ کیلئے لائی ہوں کیونکہ مجھے ان کی شہادت کی خبر مل چکی ہے۔ تو بہرحال انہوں نے بیٹے کی بات تو نہیں مانی، اس کو دھکا مار کر پیچھے کر دیا لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ سنا تو اطاعت میں فوری طور پر رک گئیں۔ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سنا وہیں باوجود غم کی حالت کے ہوش و حواس قائم رکھے اور اطاعت کی۔
پھر کہنے لگیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو۔ رک تو میں گئی ہوں، نہیں جاتی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ مجھے پتہ چل چکا ہے کہ میرا بھائی حمزہ شہید ہو چکا ہے اور کفار نے ان کی لاش کا مثلہ کر دیا ہوا ہے۔ میں صرف اس کو دیکھنا چاہتی ہوں اور وعدہ کرتی ہوں کہ کوئی واویلا نہیں کروں گی، صبر کروں گی۔ چنانچہ جب حضرت زبیرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں جانے دو۔ ٹھیک ہے دیکھ لیں جا کے۔ وہ اپنے بھائی کی نعش کے پاس جا کر بیٹھ گئیں اور شیر جیسے بہادر شہید کو یوں دیکھ کر بے اختیار آنکھوں سے آنسو کی نہرجاری ہو گئی لیکن زبان سے کوئی حرف نہ نکالا۔ ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے پاس تشریف لے آئے اور ان کے پاس آ کر بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہونے لگے۔ بہادر اور صابر بہن نے کچھ دیر اشکوں سے خراجِ عقیدت پیش کیا اور اٹھ کھڑی ہوئیں اور اپنے بیٹے سے کہنے لگیں کہ اپنے بھائی کیلئے دو چادریں لائی ہوں، جیساکہ پہلے بتایا تھا۔ شہادت کی خبر مجھے مل چکی تھی اس لیے میں لے آئی تھی۔ تم انہیں ان کپڑوں میں دفن کر دینا۔ راوی کہتے ہیں کہ جب ہم حضرت حمزہ ؓکو ان دو کپڑوں میں کفن دینے لگے تو دیکھا کہ ان کے پہلو میں ایک انصاری شہید ہوئے پڑے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا تھا جو حضرت حمزہؓ کے ساتھ کیا گیا تھا۔ ہمیں اس بات پر شرم محسوس ہوئی کہ حضرت حمزہ ؓکو دو کپڑوں میں کفن دیں اور اس انصاری کو ایک کپڑا بھی میسر نہ ہو اس لیے ہم نے یہ طے کیا کہ ایک کپڑے میں حضرت حمزہ ؓکو اور دوسرے میں اس انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کفن دیں۔ اندازہ کرنے پر معلوم ہوا کہ دونوں حضرات میں سے ایک زیادہ لمبے قد کا ہے۔ ہم نے قرعہ اندازی کی اور جس کے نام جو کپڑا نکلا اسے اسی کپڑے میں دفن کر دیا۔ (مسند احمد بن حنبل، جلد1،صفحہ 452، حدیث 1418 ،عالم الکتب بیروت)(ماخوذ از خطابات طاہرؒ،تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت، صفحہ 364تا365،طاہر فاؤنڈیشن2006ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت حمزہؓ لشکر کفار کو پریشان دیکھ کر قلبِ لشکر میں گھس گئے۔ گویا مسلمانوں کی فتح ہو چکی تھی کہ عبداللہ بن جبیرؓ کے ساتھی آنحضرتؐ کے حکم کو فراموش کرکے باامید مال غنیمت مورچہ چھوڑ نیچے اتر آئے۔ دشمن مورچہ خالی دیکھ کر سواروں کو سمیٹ فوج اسلام کے عقب پر آ گرے۔ جنگ عظیم ہوئی۔ حضرت امیر حمزہؓ اور عبداللہ بن جبیرؓ شہید ہوئے۔ حضرت علیؓ اور حضرت عمرؓاور حضرت صدیق رضی اللہ عنہم بھی مجروح ہوئے۔ ہندہ بنت عتبہ زوجہ ابوسفیان نے امیر حمزہؓ کا جگر چیرکر چبایا اور مسلمان مقتولوں کے گوش وبینی‘‘ یعنی کان اور ناک ’’کاٹ کر اور ان کے ہار بنا کر گلے میں پہنے۔ یہ بے ادبیاں شہیدوں کی لاشوں سے دیکھ کر مسلمانوں کی آنکھوں میں خون اتر آیا یہاں تک کہ خود آنحضرتؐ پر ایسی رقت طاری ہوئی اور ایسا غیظ آیا کہ آپؐ نے بھی حکم دیا کہ اب جو تمہاری فتح ہو تو تم بھی کفار کی لاشوں سے ویسا ہی سلوک کرنا۔ چنانچہ اپنے عزیز جاںنثار چچا امیر حمزہؓ کو دیکھ کر فرمایا: لَأُمَثِّلَنَّ بِسَبْعِیْنَ مِنْهُمْ مَكَانَكَیعنی تیرے عوض میں ان کے ستر کو مثلہ کروں گا مگر فطری رحم جبلی لینت نے بشری عارضی غضب پر غالب آ کر آیت ذیل کے نزول کی تحریک کہ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ (النحل: 127) ایسے موقع اور ایسی حالت میں یہ صبر سبحان اللہ۔ سچ ہے وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ(الانبیاء: 108)‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمۃ للعالمین ہونے کی اس میں آپ نے تعریف بیان فرمائی ہے۔ خلیفہ اولؓ فرماتے ہیں ’’پس اس روز سے لاشوں کی پامالی کرنے اور ان کے مثلہ کرنے کی رسمِ قبیح جو اگلے زمانے کی سب قوموں میں جاری تھی مسلمانوں میں قطعاً حرام ہو گئی اور صرف اسلام ہی کو یہ فخر عطا ہوااس لڑائی میں گو بڑا صدمہ مسلمانوں کو پہنچا اور عبداللہ بن جبیرؓ کی سپاہ کی خطا سے یہ بلا آئی مگر ایک فائدہ عظیم بھی حاصل ہوا کہ منافقوں کا نفاق اور یہودیوں کا بغض وعناد صاف صاف عیاں ہو گیا اور خالص مسلمان ممتاز ہو گئے۔‘‘ (فصل الخطاب ،حصہ اوّل، صفحہ126تا127)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید دشمنوں میں سے ایک ہندہ تھی۔‘‘ بعض اردو کتب میں ہندہ لکھا ہے۔ اصل میں اس کا ہند نام ہے۔ ’’جو اتنی سخت مخالف تھی کہ جنگِ احد کے موقعہ پر لوگوں کو شعر پڑھ پڑھ کر بھڑکاتی تھی کہ جاؤ اور اسلامی لشکر پر حملہ کرو اور جب ایک خطرناک موقعہ مسلمانوں کیلئے آیا تو اس نے کہا کہ جو شخص حضرت حمزہؓ کا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے کلیجہ نکال کر میرے پاس لے آئے گا اور اسی طرح ان کا ناک اور ان کے کان کاٹ کر لے آئے گامیں اسے انعام دوں گی چنانچہ حضرت حمزہ ؓکی نعش کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا گیا۔ جنگ کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی کہ آپؐ کے چچاکی ایسی بے حرمتی کی گئی ہے تو طبعی طورپر آپؐ کو تکلیف ہوئی اور آپؐنے فرمایا کہ جب دشمنوں نے اس قسم کے ظالمانہ سلوک کی ابتدا کردی ہے تو میں بھی ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کروں گا۔ تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐپر وحی نازل ہوئی کہ ان کے اس ظالمانہ سلوک کے باوجود آپؐکو ایسا کوئی اقدام نہیں کرنا چاہئے اور عفو اور درگذر سے کام لینا چاہئے۔‘‘(تفسیر کبیر ،جلد6،صفحہ 353۔354)
جنگ کی باقی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔
جیسا کہ میں فلسطینیوں کیلئے دعاکیلئے بھی کہتا رہتا ہوں۔دعا کریں۔ ظلم کے خلاف حقیقی عمل کی دنیا کو اللہ تعالیٰ توفیق دے۔گو آوازوں میں تو کچھ بلندی پیدا ہونی شروع ہوئی ہے، باتیں بھی کرتے ہیں کہ ظلم ہو رہا ہے، ظلم ہورہا ہے۔ لیکن لگتا ہے اسرائیلی حکومت سے سب خوفزدہ ہیں یا فطرتاً یہ مغربی دنیا مسلمانوں کے خلاف جو نفرت ہے اس کی وجہ سے یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں پر ظلم یا ختم نہ ہوں یا جو کوشش ہونی چاہئے اس طرح کوشش نہ ہو۔ یہ نہیں دیکھتے کہ معصوم بچے ہیں، مظلوم عورتیں ہیں، بوڑھے ہیں، ان پہ ظلم ہو رہے ہیں۔ توبہرحال ان پہ تو ہم زیادہ اعتماد نہیں کر سکتے لیکن کوشش بہرحال کرتے رہنا چاہئے، ان کو سمجھاتے بھی رہنا چاہئے اور دعا بھی کرتے رہنا چاہئے۔
مسلمان ملکوں کو ہی اللہ تعالیٰ ہمت دے کہ اپنی آواز میں زور پیدا کریں اور حقیقت میں ایک بن کے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں اوراس کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔
نماز کے بعد مَیں دو جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔ پہلا جنازہ ہے مکرم شیخ احمد حسین ابوسردانہ صاحب جو غزہ میں رہتے تھے۔محمد شریف عودہ صاحب نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ گذشتہ دنوں غزہ میں اسرائیلی بمباری میں ہمارے یہ بزرگ احمدی شیخ احمد حسین ابو سردانہ صاحب شہید ہوئے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مرحوم موجودہ جنگ میں غزہ میں شہید ہونے والے پہلے احمدی ہیں۔ شیخ احمد ابوسردانہ صاحب کی عمر تقریباً چورانوے94سال تھی۔ آپ الازہر یونیورسٹی سے فارغ التحصیل علماء میں سے ہیں۔1970ء میں موصوف اپنے بعض دوستوں کے ساتھ حائفہ تشریف لائے۔ چونکہ وہ عید کا دن تھا خدائی تصرف کے تحت مرحوم نماز عید کیلئے اپنے دوستوں کے ساتھ کبابیر پہنچے۔ مولانا بشیر الدین عبیداللہ صاحب مرحوم مبلغ سلسلہ نے خطبہ عید کے دوران ظہور امام مہدی کا ذکر فرمایا جس سے مرحوم شیخ ابو سردانہ صاحب کی دلچسپی بڑھ گئی۔ انہوں نے ساتھ بیٹھے ہوئے احمدی علاؤ الدین عودہ صاحب سے کہا کہ مولانا بشیر الدین عبیداللہ سے میری تفصیلی ملاقات کروا دو۔ دوران گفتگو انہوں نے مولانا صاحب سے کہا کہ مجھے میرے والد مرحوم کی نصیحت ہے کہ اگر تمہیں اپنی زندگی میں امام مہدیؑ کی آمد کی خبر ملے تو ضرور بیعت کرنا چنانچہ اسی روز مکرم شیخ احمد ابوسردانہ صاحب نے بیعت کی۔ ان کی بیعت کو دیکھ کر ان کے بعض ساتھیوں نے بھی بیعت کی۔ مرحوم اپنے علاقے میں ایک معزز عالم کے طور پر ہردلعزیز تھے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے البتہ ان کے عزیزوں میں سے بعض مخلص احمدی موجود ہیں۔ بیعت کے بعد مرحوم حسب توفیق کبابیر بھی جاتے رہے اور کبابیر کے احمدیوں سے رابطہ میں رہے۔ خلافت سے بہت محبت کرنے والے تھے اور کئی دفعہ انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ سچے احمدی ہیں۔
قرآن مجید سے غیرمعمولی لگاؤ تھا۔ ہر ہفتہ میں ایک بار مکمل قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے بلکہ انہوں نے مجھے جو پیغام بھیجا تھا اس ریکارڈنگ میں بھی ذکر ہے۔ سابق قاضی القضاۃ فلسطین شیخ محمد حسین ابوسردانہ،مرحوم احمد ابو سردانہ صاحب کے بھائی تھے۔ ان کی اہلیہ جو دوسری بیوی ہیں وہ بھی اس حادثہ میں زخمی ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو شفا دے۔
ڈاکٹر عزیز حفیظ صاحب یہاں سے ہیومینٹی فرسٹ کے تحت وہاں جاتے رہے، ان کو ابوسردانہ صاحب سے ملنے کا موقع ملا۔ انہوں نے کہا جب میں ان کو ملنے گیا تو وہ میری عزت کیلئے اٹھنے کی کوشش کرنے لگے تو میں نے ان کو کہا بیٹھے رہیں۔ بڑے جذبات میں آ گئے اور اپنی چھڑی سے ہلکا سا ٹچ (touch)کر کے ان کو کہنے لگے کہ تم خلیفۃ المسیح کے نمائندے میرے سامنے کھڑے ہو تو میں کیسے بیٹھ سکتا ہوں۔ خلافت کا بڑا عزت اور احترام تھا۔ اور پھر انہوں نے ہاتھ پکڑ ا اور کہنے لگے کہ جس سرزمین سے تم تعلق رکھتے ہو وہاں مسیح موعودؑ آئے تھے۔ اور مسیح موعودؑ اور خلافت کیلئے ان کی محبت اس قدر تھی کہ ان کو دیکھ کر کہتے ہیں میں بھی اشکبار ہو گیا۔ پھر انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے ذریعہ موبائل پہ اپنا ایک پیغام بھی میرے نام بھیجا کہ میں پیغام ریکارڈ کروانا چاہتا ہوں۔ وہ پیغام وائرل بھی ہوا ہے، اس کا کچھ حصہ میں سنا بھی دیتا ہوں۔اس پیغام میں جو انہوں نے میرے نام بھیجا تھا،کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔ السلام علیکم خلیفۃ المسیح الخامس۔ میں ہر ہفتے ایک بار قرآن کریم کا مکمل دور کرتا ہوں اور ہر فجر کے وقت میں آپ کیلئے دعا کرتا ہوں اور اے میرے خلیفہ! میری مدد کریں مجھے بچائیں۔ میں مشکل روحانی مصیبت اور پریشانی میں ہوں۔ پھر کہتے ہیں کہ آپ کا ہر حکم پورا کرتا ہوں۔ اور آگے فرمایا کہ دنیا کو سچ کے سوا کیا چاہئے۔ اللہ کی راہ میں جہاد یہاں بہت مشکل ہے لیکن میں اس کیلئے پُرعزم ہوں۔ میں نے 1948ء کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔ میں نے تین سرحدی جنگوں میں کمانڈر کے طور پر خدمات انجام دیں اور سینا میں بےگھر ہو گیا تھا۔ میرے والد ایک مشہور صوفی تھے اور میرے بھائی محمد یہاں غزہ کے چیف جج تھے۔ میرے خاندان میں ایسے افراد بھی ہیں جو مجھے پریشان کرتے ہیں، ان کی ہدایت اور اصلاح کیلئے میرے لیے دعا کریں۔ پھر کہتے ہیں اس ضلع میں میرے پاس صرف چند ساتھی ہیں اور پھر انہوں نے بعضوں کے نام لیے کہ وہ مجھے بیٹے کی طرح عزیز ہیں جن میں ایک نوجوان طارق ابودیّا صاحب ہیں۔ کہتے ہیں میری کوئی اولاد نہیں ہے۔ پھر آگے دعا دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو برکت دے۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں قیامت کے دن تک اللہ تعالیٰ سے ملاقات تک آپ میری بیعت قبول فرمائیں یعنی کہ میں اپنی بیعت کی تجدید کرتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ میں سچے دل سے احمدی ہوں۔
پھر وہ کہتے ہیں کہ احمدیہ عقیدہ کے سوا میرا کوئی اَور عقیدہ نہیں ہے۔ بعض مخالفین نے کہا تھا کہ یہ احمدی نہیں ہیں یونہی احمدی مشہور کر رہے ہیں لیکن ان کا یہ ریکارڈڈ بیان سامنے ہے۔ اس کے بعد شاید اب وہ مخالفین چپ کر گئے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اہلیہ کو بھی شفا دے۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں فلسطینیوں کیلئے بھی قبول فرمائے اور وہاں امن بھی قائم فرمائے اور ان لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ ہے عثمان احمد گاکوریا صاحب ،کینیاکا۔ ان کی وفات بھی گذشتہ دنوں ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
ان کی جماعتی خدمات کا سلسلہ بہت لمبا ہے، کئی دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ 1932ء میں یہ پیدا ہوئے تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں ان کا جماعت سے تعارف ہوا۔ ایک پرانے بزرگ عرب احمدی مرحوم سالم عفیف صاحب کے ذریعہ سے ان کو جماعت کا تعارف ہوا۔ اس کے بعد آپ نے مکرم مولانا روشن دین صاحب مبلغ جماعت کے ذریعہ 1964ء میں بیعت کی اور جماعت میں شمولیت اختیار کی اور آخر تک اس عہد بیعت کو بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا۔ محکمہ تعلیم سے وابستہ رہے۔ کینیا کی آزادی کے بعد کوالے(Kwale)پولی ٹیکنیک سکول کے پہلے مقامی پرنسپل مقرر ہوئے۔ اسی طرح ایک دوسرے پولی ٹیکنیک کالج کے پہلے مقامی پرنسپل ہونے کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہوا جس کا آپ اکثر ذکر کرتے تھے۔ محکمہ تعلیم میں ہی اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ متعدد جماعتی کتب کا سواحیلی زبان میں ترجمہ کرنے کی سعادت ملی۔ نیروبی جماعت کے پہلے مقامی صدر ہونے کا بھی اعزاز آپ کو حاصل ہوا۔ اسی طرح کینیا جماعت کے اوّلین مقامی موصیان میں بھی آپ کا شمار ہوتا ہے۔ مرحوم بہت سے عمدہ اوصاف کے مالک، ایک بااصول انسان تھے۔ عمر کے آخری حصہ تک نماز تہجد میں باقاعدہ تھے۔ چندہ جات کی ادائیگی میں کبھی لاپروائی یا سستی نہیں کرتے تھے۔ مرکزی مبلغین کا آپ کے دل میں بہت احترام تھا۔ اگر کوئی احمدی کسی مرکزی مبلغ کے بارے میں کوئی غلط بات کرتا یا شکایت کے رنگ میں کوئی بات کرتا تو فورًا اسے روک دیتے بلکہ ناراضگی اور شدید ناپسندیدگی کا اظہار کرتے تھے اور ہمیشہ یہ نصیحت کرتے تھے کہ دیکھو! آج تمہیں ایمان کی روشنی سے جو متعارف کرایا ہے ان لوگوں نے ہی کرایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی جو تمہیں توفیق ملی ہے وہ ان کی وجہ سے ملی ہے ورنہ تم تو جہالت میں پڑے ہوئے تھے۔ اس لیے ان لوگوں کا تم پر یہ احسان ہے اور تمہاری نسلوں پر بھی احسان ہے، اس لیے ایسی باتیں نہ کیا کرو۔ تو بہرحال یہ تو ان کے اخلاق تھے۔
ہمارے مبلغین کو بھی، نئے جانے والوں کو بھی اب چاہئے کہ اپنے بھی وہ اعلیٰ معیار قائم کریں کہ مقامی لوگوں کیلئے ایک نمونہ بنیں۔
اسی طرح مرحوم کے اندر مہمان نوازی کی صفت بھی بہت زیادہ تھی۔ آپ کی تقریباً ساری اولاد جماعت سے جڑی ہوئی ہے اور کسی نہ کسی رنگ میں جماعتی خدمت کی توفیق بھی پا رہی ہے۔ آپ کے ایک بیٹے عبدالعزیز گاکوریا صاحب اس وقت صدر مجلس انصاراللہ کینیا ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کے نمونے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
…٭…٭…٭…