اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-01-18

غزوۂ اُحدکے دوران پیش آنے والے حالات و واقعات کا پُراثر تذکرہ نیز فلسطین کے مظلومین کیلئےدعا کی مکرّر تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 15؍ دسمبر2023ء بمطابق 15؍ فتح 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خشوع و خضوع اورعجز ونیازکے ساتھ بارگاہِ رَبّ العزّت میں فتح و کامیابی کیلئےدعائیں مانگ رہے تھے

کوئی کمانڈر خواہ کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ باریک، نفیس اور باحکمت جنگی منصوبہ بندی تیار نہیں کر سکتا

آپؐ نے اپنے لشکر کیلئےجنگی نقطہ نظر سے وہ مقام منتخب فرمایا تھا جو میدانِ جنگ میں سب سے بہترین مقام تھا

لوگوں کی جنگ کا فیصلہ ان کے جھنڈے والوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جھنڈے والا مضبوط ہو تو لوگوں کو حوصلہ رہتا ہے۔ جب وہ بھاگتا ہے تو لوگ بھی بھاگ کھڑے ہوتے ہیں

مشرکین کے علمبردار کا قتل ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خواب کی تصدیق تھی کہ ’’میں مینڈھے کے پیچھے سوار ہوں‘‘

ابودجانہؓ نے پوچھا اس (تلوار)کا حق کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اس سے کسی مسلمان کو قتل نہ کرنا اور اس کے ہوتے ہوئے کسی کافر کے مقابلے پر نہ بھاگنا

میرا دل اس بات پر تیار نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار ایک عورت پر چلاؤں اور عورت بھی وہ جس کے ساتھ اس وقت کوئی مرد محافظ نہیں (ابودجانہؓ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے ادب اور احترام کی ہمیشہ تعلیم دیتے تھے جس کی وجہ سے کفار کی عورتیں زیادہ دلیری سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی تھیں

غزوۂ اُحدکے دوران پیش آنے والے حالات و واقعات کا پُراثر تذکرہ نیز فلسطین کے مظلومین کیلئےدعا کی مکرّر تحریک

فلسطینیوں کیلئےبھی دعائیں کرتے رہیں ، ظلم کی انتہا دن بدن ہوتی چلی جا رہی ہے، بلکہ بڑھتی چلی جا رہی ہے،اللہ تعالیٰ اب ظالموں کی پکڑ کے سامان کرے اور

مظلوم فلسطینیوں کیلئےبھی آسانیاں پیدا فرمائے، مسلمان ممالک کو بھی عقل اور سمجھ دے کہ ان کی آواز ایک ہو اور وہ مسلمان بھائیوں کیلئےان کا حق ادا کرنے کیلئےکوشش کرنے والے ہوں

خطبہ جمعہ

اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ-

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۝ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۝ مٰلكِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۝ اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ ۝

اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ۝ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ۥۙ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّیْنَ۝

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے غزوۂ اُحد کا ذکرہو رہا تھا۔ اسکی مزید تفصیل اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ احدمیں جب پڑاؤ فرمایا تو مسلمانوں کی فوج پر ایک طرف سے عقب میں احد پہاڑ تھا جس کی وجہ سے مسلمان فوج پشت کے حملے سے محفوظ ہو گئی تھی۔ البتہ ایک طرف پہاڑی درّہ تھا اور یہ مقام ایسا تھا کہ دشمن موقع پر اس جگہ سے حملہ آور ہو سکتا تھا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نزاکت اور خطرے کو محسوس کرتے ہوئےپچاس تیر انداز صحابہ کرامؓ کے ایک دستہ پرعبداللہ بن جُبیرؓ کو امیر بنایا اور اسے درّے پر متعیّن فرمایا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ487)
ان تیر اندازوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایات دی تھیں اس حوالے سے بخاری میں یہ الفاظ ملتے ہیں: إِنْ رَأَيْتُمُوْنَا تَخْطَفُنَا الطَّيْرُ فَلَا تَبْرَحُوْا مَكَانَكُمْ هٰذَا حَتّٰى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ، وَإِنْ رَأَيْتُمُوْنَا هَزَمْنَا الْقَوْمَ وَأَوْطَأْنَاهُمْ، فَلَاتَبْرَحُوْا حَتّٰى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ۔ فرمایا کہ اگر تم ہمیں دیکھو کہ ہمیں پرندے اُچک رہے ہیں تو ہرگز اپنی اس جگہ سے نہ ہٹنا یہاں تک کہ میں تمہاری طرف پیغام بھیجوں اور اگر تم ہمیں دیکھو کہ ہم نے دشمن قوم کو شکست دے دی اور ہم نے ان کو پامال کر دیا ہے تو بھی نہ ہٹنا یہاں تک کہ میں تمہاری طرف پیغام بھیجوں ۔(صحیح بخاری،کتاب الجھاد والسیر، باب ما یکرہ من التنازع والاختلاف فی الحرب روایت نمبر3039)
بخاری کی ہی ایک اَور روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نہ ہٹنا اگر تم ہمیں دیکھو کہ ہم ان پر غالب آ گئے ہیں اور تم نہ ہٹنا اگر تم ہمیں دیکھو کہ وہ ہم پر غالب آ گئے ہیں ۔ تم ہماری مدد نہ کرنا۔(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوہ ا،حد حدیث 4043) کسی بھی صورت میں تم نے چھوڑنا نہیں ۔
ایک سیرت نگار لکھتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم دشمن کے گھڑسوار دستوں کو ہم سے دُور رکھنا تا کہ وہ ہمارے پیچھے سے حملہ آور نہ ہو سکیں اگر ہمیں فتح ہو تو تم اپنی جگہ ٹھہرے رہنا تا کہ وہ ہمارے پیچھے سے نہ آ جائیں تم اپنی جگہ کو لازم پکڑنا ، وہاں سے نہ ہٹنا ۔اور جب تم ہمیں دیکھو کہ ہم نے ان کو شکست دے دی ہے اور ہم ان کے لشکر میں داخل ہو گئے ہیں تو تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا ۔اور اگر تم دیکھو کہ ہم قتل کیے جا رہے ہیں تو ہماری مدد نہ کرنا اور نہ ہمارا دفاع کرنا اور ان کو تیر مارنا کیونکہ گھوڑے تیروں کی وجہ سے آگے نہیں بڑھتے۔ بےشک ہم تب تک غالب رہیں گے جب تک تم اپنی جگہ قائم رہو گے۔ اور پھر فرمایا اے اللہ! میں تجھے ان پر گواہ بناتا ہوں ۔(سبل الھدیٰ والرشاد، جلد4، صفحہ190 ،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ایک مصنف نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا کہ اگر دیکھو کہ ہم مال غنیمت سمیٹ رہے ہیں تو ہمارے ساتھ شریک نہ ہونا۔ ہر حالت میں ہماری حفاظت کرنا۔(سیرت انسائیکلو پیڈیا، جلد6،صفحہ 231، دارالسلام)
ایک سیرت نگار پچاس تیر اندازوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جس شخص کو میدانِ کارزار کے دیکھنے اور اس جبل الرُّماۃ کے جائے وقوعہ سے جو وادی قَناۃ کے کنارے پر ٹکا ہوا ہے واقفیت حاصل کرنے کا موقع میسر آیا ہے اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم عسکری تجربے کا علم ہو جائے گا جس سے آپؐمعرکوں کی منصوبہ بندی اور فوجی قویٰ کی تنظیم کی وسیع مہارت اور تیاری کے ممتاز مواقع کے انتخاب میں جو معرکہ جیتنے کیلئےضروری ہوتے ہیں ممتاز تھے۔( غزوہ احد از محمد احمد باشمیل، صفحہ 101-102، مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی)
ایک مصنف نےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ماہرانہ جنگی حکمت عملی کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ جنگی حکمت عملی ایسی بہترین اور نفیس تھی جس سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فوجی قیادت کی عبقریت کا پتہ چلتا ہے یعنی غیر معمولی صلاحیّت کا پتہ چلتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ کوئی کمانڈر خواہ کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ باریک، نفیس اور باحکمت جنگی منصوبہ بندی تیار نہیں کر سکتا کیونکہ آپؐباوجودیکہ دشمن کے بعد میدانِ احد میں اترے تھے لیکن آپؐنے اپنے لشکر کیلئےجنگی نقطہ نظر سے وہ مقام منتخب فرمایا تھا جو میدانِ جنگ میں سب سے بہترین مقام تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کی بلندیوں کی اوٹ لے کر اپنی پشت اور دایاں بازو محفوظ کر لیا اور بائیں طرف سے وہ واحد شگاف یعنی درہ جس میں سے گزر کر دشمن اسلامی لشکر کی پشت پر پہنچ سکتا تھا اسے تیراندازوں سے بند کر دیا تھا اور پڑاؤ کیلئےمیدان سے قدرے بلند جگہ منتخب فرمائی کہ اگر خدانخواستہ شکست سے دوچار ہونا پڑے تو بھاگنے اور تعاقب کنندگان کی قید میں جانے کی بجائے اسلامی لشکر محفوظ پناہ گاہ تک بآسانی پہنچ جائے اور اگر دشمن قلب چیرتا ہوا اسلامی لشکر کے مرکز پر قبضے کیلئےپیش قدمی کرے تو اسے نہایت سنگین نقصان سے دوچار ہونا پڑے۔ اسکے برعکس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کو کھلے میدان میں نشیب کی طرف رہنے پر مجبور کر دیا۔ حالانکہ قریش کا خیال تھا کہ لشکرِ اسلام مدینہ سے نکل کر بالکل ان کے سامنے میدان میں اترے گا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکرِ اسلام کو نیم دائرے میں گھمایا اور دشمن کو مغرب میں چھوڑتے ہوئے ان کے عقب میں محفوظ ترین مقام کو منتخب فرمایا۔ جس مقام پر اسلامی لشکر موجود تھا وہ اب ایک بہترین پوزیشن میں تھا۔ احد اور عَیْنَین پہاڑوں کی وجہ سے پشت اور دایاں حصہ محفوظ تھا۔ بائیں طرف جبل رُماۃ پر تیر انداز درہ سنبھالے ہوئے تھے اور جنوب مشرقی حصہ جو جبل رُماۃ سے آگے تھا وہاں وادی قَناۃ کا عمودی کنارہ تھا جہاں سے دشمن کا حملہ کرنا ناممکن تھا۔(غزوات و سرایا از علامہ محمد اظہر فرید،صفحہ 166-167،مطبوعہ فریدیہ پرنٹنگ پریس ساہیوال)
اس بارے میں سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓنے بھی لکھا ہے، کہتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور احد کے دامن میں ڈیرہ ڈال دیا۔ ایسے طریق پرکہ احد کی پہاڑی مسلمانوں کے پیچھے کی طرف آگئی اور مدینہ گویا سامنے رہا۔ اور اس طرح آپؐنے لشکر کا عقب محفوظ کر لیا۔ عقب کی پہاڑی میں ایک درہ تھا جہاں سے حملہ ہوسکتا تھا۔ اسکی حفاظت کا آپؐنے یہ انتظام فرمایا کہ عبداللہ بن جبیر کی سرداری میں پچاس تیرانداز صحابی وہاں متعین فرمادیئے اوران کو تاکید فرمائی کہ خواہ کچھ ہوجاوے وہ اس جگہ کونہ چھوڑیں اور دشمن پرتیر برساتے جائیں ۔ آپؐکو اس درہ کی حفاظت کا اس قدر خیال تھا کہ آپؐنے عبداللہ بن جبیر سے بہ تکرار فرمایا کہ دیکھو یہ درہ کسی صورت میں خالی نہ رہے۔ حتیٰ کہ اگر تم دیکھو کہ ہمیں فتح ہوگئی ہے اوردشمن پسپا ہوکر بھاگ نکلا ہے تو پھر بھی تم اس جگہ کو نہ چھوڑنا اوراگر تم دیکھو کہ مسلمانوں کوشکست ہوگئی ہے اوردشمن ہم پر غالب آگیا ہے توپھر بھی تم اس جگہ سے نہ ہٹنا۔ حتیٰ کہ ایک روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ ’’اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمارا گوشت نوچ رہے ہیں تو پھر بھی تم یہاں سے نہ ہٹنا حتی ٰکہ تمہیں یہاں سے ہٹ آنے کاحکم جاوے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ487-488)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’آخر آپؐاحد پر پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپؐنے ایک پہاڑی درہ کی حفاظت کیلئے پچاس سپاہی مقررکئے اور سپاہیوں کے افسر کو تاکید کی کہ وہ درّہ اتنا ضروری ہے کہ خواہ ہم مارے جائیں یا جیت جائیں تم اِس جگہ سے نہ ہلنا۔ اِس کے بعد آپؐبقیہ ساڑھے چھ سو آدمی لے کر دشمن کے مقابلہ کیلئے نکلے جو اَب دشمن کی تعداد سے قریباً پانچواں حصہ تھے۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم، جلد 20،صفحہ 249)
تیر اندازوں کے دستے کو پہاڑی پر مقرر کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مطمئن ہو گئے اور صفوں کو تیار کرنے لگے اور سالاروں کی ذمہ داریاں تقسیم کرنے لگے۔ بظاہر نظر مسلمانوں کی کفار کی نسبت سے پوزیشن بہت کمزور تھی۔ تعداد کے لحاظ سے بھی کمزور، سازوسامان کے لحاظ سے بھی کمزور، ہتھیاروں کی عمدگی کے لحاظ سے بھی فریقین میں بہت تفاوت تھا۔ عددی نسبت کے لحاظ سے ایک مسلمان کم از کم چار مشرکین کے مقابلے میں تھا۔ اس طرح مشرکین کی فوج سواروں کے دستے کے ہتھیار سے بھی ممتاز تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ اسلامی فوج کے اکثر جوان بے زرہ تھے اور ان میں صرف ایک سو زرہ پوش تھے جبکہ مکی فوج یعنی کافروں کی فوج میں سات سو زرہ پوش تھے اور یہ تعداد ساری مدنی فوج کے برابر تھی۔ ( غزوہ احد از محمد احمد باشمیل، صفحہ 103، مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی )
مشرکین کے لشکر نے اپنی فوج کی دس صفیں ترتیب دے رکھی تھیں جبکہ اسلامی لشکر کی صرف دو صفیں تھیں اور پچاس تیر انداز درے پر تعینات تھے مگر میدانِ جنگ کا اہم ترین اور مضبوط مقام مسلمانوں کے پاس تھا۔(غزوات و سرایا از علامہ محمد اظہر فرید ،صفحہ 174 ،مطبوعہ فریدیہ پرنٹنگ پریس ساہیوال)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کے میمنہ پر حضرت زبیر بن عوام ؓکو اور میسرہ پر منذر بن عمر غنویؓ کو مقرر کیا اور فرمایا مشرکین کا جھنڈا کس نے اٹھایا ہوا ہے؟ جواب دیا گیا طلحہ بن ابی طلحہ نے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم وعدہ پورا کرنے کے ان سے زیادہ حقدار ہیں تو جھنڈا حضرت علیؓ سے لے کر مصعب بن عمیرؓ کو دے دیا۔
ان کا تعلق اسی قبیلے سے یعنی بنو عبدالدار بن قُصی سے تھا جس میں سے قریش کا علمبردار تھا ۔یعنی قریش کے جس قبیلے کے شخص نے جھنڈا اٹھایا ہوا تھا اسی قبیلے کے مسلمان کے ہاتھ میں آپؐنے اپنا جھنڈا دیا۔ لکھنے والا لکھتا ہے کہ اسلام سے قبل علمبرداری کی ذمہ داری اسی خاندان کے سپرد تھی یعنی بنوعبدالدار کے اور عہد نبھانے سے مراد قُصی کا عہد یعنی قومی وفاداری کا عہد نبھانا ہے۔ جس کے بارے میں آپؐنے فرمایا ہم عہد نبھانے والے ہیں اور اس دن مسلمانوں کا شعار یعنی نعرہ اَمِت اَمِت تھا۔ (سبل الہدیٰ والرشاد، جلد4 ،صفحہ190-191، دارالکتب العلمیۃ بیروت) (شرح زرقانی ،جلد2 ،صفحہ398، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خشوع و خضوع اور عجز و نیاز کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں فتح و کامیابی کیلئے دعائیں مانگ رہے تھے۔
اسلامی لشکر کی صفوں میں انصار دائیں اور بائیں تھے یعنی میمنہ اور میسرہ پر انصار مدینہ تھے اور قلب لشکر جہاں دوران جنگ دشمن کا مکمل دباؤ ہوتا ہے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کے ساتھ موجود تھے۔ اس وقت مہاجرین کے ساتھ درمیان میں آپؐتھے۔ آپؐکا مرکز قیام دوسری صف کے پیچھے بالکل درمیان میں تھا پہلی صف کے پیچھے فوری طور پہ درمیان میں دوسری صف میں آپؐ کھڑے تھے۔ آپؐنے صحابہ کرامؓ کو حکم دے رکھا تھا کہ ہماری طرف سے احکامات ملنے سے قبل پیش قدمی نہ کی جائے۔(غزوات و سرایا از علامہ محمد اظہر فرید،صفحہ 174 ،مطبوعہ فریدیہ پرنٹنگ پریس ساہیوال)
صحیح مسلم میں روایت ہے، حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دن یہ دعا فرما رہے تھے:اَللّٰهُمَّ، إِنَّكَ إِنْ تَشَأْ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ کہ اے اللہ! اگر تُو چاہے تو زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ (صحیح مسلم، کتاب الجھاد والسیر، باب استجاب الدعاء ،حدیث1743)
یعنی اگر تُو نے مدد نہ کی تو پھر تو یہی حال ہو گا۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ بدر کے دن یہ دعا کی تھی وہاں بھی ذکر ہوا تھا۔ مسلم کی شرح میں لکھا ہے کہ ممکن ہے کہ دونوں مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی ہو۔ وَاللّٰہ اَعْلَمُ۔(المنہاج شرح صحیح مسلم از نووی کتاب الجہاد والسیر، باب استحباب الدعاء بالنصر … صفحہ 1341 ،مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2002ء)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن جحشؓ نے کہا تم میرے ساتھ آؤ ہم مل کر اللہ سے دعا مانگیں گے۔وہ لوگ ایک جگہ پر الگ ہو گئے تو حضرت سعدؓ نے یوں دعا مانگی کہ اے میرے رب !کل جب ہماری دشمن سے مڈھ بھیڑ ہو تو میرا سامنا طاقتور سخت جنگجو سے ہو۔ میں تیری رضا کی خاطر اس کے ساتھ لڑوں اور وہ میرے ساتھ لڑے، پھر تو مجھے اس پر فتح دے میں اس کو قتل کروں اور اس کا سازو سامان لوٹ لوں ۔
پھر عبداللہ بن جحش ؓکھڑے ہوئے اور انہوں نے یوں دعا مانگی کہ اے اللہ!کل میرا سامنا کسی ایسے شخص سے ہو جو بہت طاقتور اور سخت جنگجو ہو میں تیری رضا کی خاطر اس سے لڑوں اور وہ مجھ سے لڑے، پھر وہ مجھے پکڑ کر میرے کان اور ناک کاٹ ڈالے، پھر کل جب میں تجھ سے ملوں تو تُو مجھ سے پوچھے۔ اے اللہ کے بندے! تیرے کان اور ناک کس وجہ سے کٹے ہوئے ہیں؟ تو میں کہوں یا اللہ! تیری اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا میں یہ میرے ساتھ ہواہے۔ پھر وہ خدا فرمائے ہاں تُو نے سچ کہا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے فرمایا کہ اے میرے بیٹے! عبداللہ بن جحش ؓکی دعا میری دعا سے اچھی تھی۔میں نے اسی دن شام کے وقت عبداللہ کو دیکھا کہ اسکے کان اور ناک ایک دھاگے میں لٹک رہے تھے۔(مستدرک علی الصحیحین، کتاب الجہاد،حدیث 2409 ،جلد 3 ،صفحہ 907، مکتبہ نزار مصطفیٰ ریاض2000ء) یعنی دشمن نے ان کا مُثلہ کیا تھا۔
عبداللہ بن عمرو بن حرام ؓنے بیان کیا کہ میں نے احد سے ایک دن پہلے خواب میں مبشر بن عبدالمنذر کو دیکھا۔ ان دونوں نے جو جو دعا کی تھی ان کی دعائیں قبول ہوئیں۔ ایک نے دشمن پہ فتح پائی دوسرے نے بھی خوب جنگ کی اور آخر میں شہید بھی ہوئے۔ تو بہرحال یہ دونوں کی دعاؤں کا قصہ ہے۔
پھر لکھا ہے کہ عبداللہ بن عمرو بن حرامؓ نے بیان کیا کہ میں نے احد سے ایک دن پہلے خواب میں مبشر بن عبدالمنذر کو دیکھا ۔ یہ جنگِ بدر میں شہید ہوئے تھے۔ وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ بس آپ چند دنوں میں ہمارے پاس آنے والے ہیں ۔ میں نے پوچھا آپ کہاں ہیں ؟ فرمانے لگے جنت میں ۔ اس میں جہاں چاہتے ہیں سیر کرتے پھرتے ہیں۔یعنی جنت میں ۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ بدر کے دن شہید نہیں ہو گئے تھے؟ کہنے لگے ہاں ۔ پھر مجھے دوبارہ زندہ کر دیا گیا۔ اس خواب کا ذکر حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرامؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپؐنے فرمایا اے ابوجابر! یہ شہادت کی خوشخبری ہے۔(مستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابہ، حدیث 4979، جلد 3، صفحہ 413، دارالفکر بیروت 2002ء)(سبل الہدیٰ، جلد 4، صفحہ 75 ،مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ حضرت جابرؓ نے بیان کیا کہ آپؓکے والد احد کے دن شہید ہو گئے۔(معرفۃ الصحابہ لابی نعیم، جلد3 ،صفحہ194،روایت نمبر4356 ،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اسکی مزید تفصیل میں لکھا ہے کہ مشرکین نے سَبَخَہ کے مقام پر صفیں بنائیں اور جنگ کی خوب تیاری کی۔ وہ تین ہزار تھے ان کے پاس دو سو گھوڑے تھے جو آگے آگے تھے۔ پھر انہوں نے گھوڑوں کی میمنہ پر خالد بن ولید اور میسرہ پر عکرمہ بن ابوجہل کو مقرر کیا تھا اور پیدل چلنے والوں پر صفوان بن امیہ کو اور بعض نے کہا کہ عمرو بن عاص کو اور تیر اندازوں پر عبداللہ بن ابی ربیعہ کو۔ یہ سارے لوگ بعد میں اسلام بھی لےآئے تھے۔ انہوں نے جھنڈا طلحہ بن ابی طلحہ کو دیا جو عبدالدار میں سے تھا۔ یہ اس جھنڈے کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم زیادہ حق رکھتے ہیں اس کی تفصیل بھی یہاں کچھ بیان ہوئی ہے۔ طلحہ بن ابی طلحہ کو جھنڈا دیا جو بنو عبدالدار میں سے تھا اور ابوسفیان نے بنو عبدالدار کے جھنڈے والوں کو برانگیختہ کرتے ہوئے کہا: اے بنو عبدالدار! بدر کے دن بھی تم نے ہمارا جھنڈا اٹھایا تھا تو ہماری جو حالت ہوئی تم نے دیکھ لی۔
لوگوں کی جنگ کا فیصلہ ان کے جھنڈے والوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جھنڈے والا مضبوط ہو تو لوگوں کو حوصلہ رہتا ہے۔ جب وہ بھاگتے ہیں تو لوگ بھی بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ۔
اگر جھنڈے والا بھاگ جائے تو لوگ بھی پھر خوف سے بھاگ جاتے ہیں ۔ پس یا تو تم ہمارے جھنڈے کو سنبھالو اور یا ہمارے رستے سے ہٹ جاؤ۔ ہم تمہاری طرف سے کافی ہو جائیں گے۔ ان کو غیرت دلانے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ کیا ہم اپنے جھنڈے کو تمہارے حوالے کر دیں ۔ عنقریب معلوم ہو جائے گا جب ہماری مڈھ بھیڑ ہو گی کہ ہم کیا کرتے ہیں ۔ (سبل الہدیٰ والرشاد، جلد4 ،صفحہ191، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
سب سے آخر میں قریش کی خواتین کے خیمے تھے جو مسلسل دف بجا بجا کر مقتولین بدر کا تذکرہ کر کے جنگجوؤں کے جوش و جذبہ کو گرما رہی تھیں اور سابقہ ہزیمت کی تلافی پر انہیں ابھار رہی تھیں ۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ ،جلد6،صفحہ470)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓاسکی تفصیل سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھتے ہیں کہ ’’اپنے عقب کو پوری طرح مضبوط کرکے آپؐنے لشکر اسلامی کی صف بندی کی اورمختلف دستوں کے جداجدا امیر مقرر فرمائے۔ اس موقعہ پر آپؐکو یہ اطلاع دی گئی کہ لشکرقریش کاجھنڈا طلحہ کے ہاتھ میں ہے۔ طلحہ اس خاندان سے تعلق رکھتا تھاجوقریش کے مورث اعلیٰ قُصَیّبن کلاب کے قائم کردہ انتظام کے ماتحت جنگوں میں قریش کی علمبرداری کا حق رکھتا تھا۔ یہ معلوم کرکے‘‘ جب آپؐ کو یہ پتہ لگا تو ’’آپؐنے فرمایا:
’’ہم قومی وفاداری دکھانے کے زیادہ حق دار ہیںچنانچہ آپؐنے حضرت علیؓ سے مہاجرین کاجھنڈا لے کر مصعب بن عمیرؓ کے سپرد فرما دیا جو اسی خاندان کا ایک فرد تھا جس سے طلحہ تعلق رکھتا تھا۔
دوسری طرف قریش کے لشکر میں بھی صف آرائی ہوچکی تھی۔ ابو سفیان امیرالعسکر تھا‘‘ سپہ سالار تھا۔ ’’میمنہ پر خالدبن ولید کمانڈر تھا اور میسرہ پرعکرمہ بن ابوجہل تھا۔ تیر انداز عبداللہ بن ربیعہ کی کمان میں تھے۔ عورتیں لشکر کے پیچھے دفیں بجابجا کر اوراشعار گاگاکر مردوں کوجوش دلاتی تھیں ۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ488)
بہرحال جب دونوں لشکروں کی صف بندی ہو رہی تھی تو ابوسفیان نے پکار کر انصاری مسلمانوں سے کہا کہ اے گروہ اوس و خزرج! تم لوگ ہمارے اور ہمارے خاندان والوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ۔ ہمیں تم سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس پر انصار نے ابوسفیان کو بہت برا بھلا کہا اور اس کو سخت لعنت ملامت کی۔(سیرۃ الحلبیہ، جلد2 ،صفحہ303، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
جنگ کا آغاز اب ہوتا ہے۔جنگ کیلئےسب سے پہلے ابتدا ابوعامر فاسق نے کی۔ اس کو جاہلیت میں راہب کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام فاسق رکھا تھا۔ یہ شخص مدینہ سے بھاگ کر مکہ چلا گیا تھا اور قریش سے کہتا تھا کہ جب میں اپنی قوم سے جا کر ملوں گا تو ساری قوم میرے ساتھ ہو جائے گی۔ اس کو یہ غلط فہمی تھی کہ جب میں تمہارے ساتھ وہاں جاؤں گا میں اپنا نام لوں گا تو انصار مسلمانوں کو چھوڑ کے میرے ساتھ آ جائیں گے۔ بہرحال یہ اپنی قوم کے پچاس آدمیوں کے ساتھ نمودار ہوا اور کہا جاتا ہے کہ پندرہ لوگ اس کے ساتھ مکہ سے گئے تھے اور باقی مختلف قبیلوں سے جمع کیے ہوئے اور اہل مکہ کے غلام تھے۔ اس نے آواز دی۔ اے اوس کی جماعت! میں ابوعامر ہوں۔ تو انصار نے کہا اے فاسق! اللہ تیری آنکھ کو ٹھنڈا نہ کرے۔ جب اس نے انصار کا یہ جواب سنا تو کہا میری قوم کو میرے بعد شر پہنچا ہے۔ پھر اس نے بڑی سخت لڑائی کی۔ پھر ان پر پتھر پھینکنے لگا۔(سیرۃ النبی لابن ہشام ،صفحہ525، دارالکتب العلمیۃ بیروت)(سبل الہدیٰ والرشاد، جلد4 ،صفحہ191، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ابوعامر کے بیٹے حضرت حنظلہ ؓمسلمانوں کی جانب سے اس جنگ میں شامل تھے۔ یہ مسلمان ہو گئے تھے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ اپنے باپ کو خود قتل کریں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایسا کرنے سے روک دیا۔ (سیرۃ الحلبیہ، جلد2 ،صفحہ327،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اب یہ جنگی حالات ہیں اس کے باوجود ہوش و حواس بھی قائم رکھنے کیلئےآپؐنے یہ فرمایا۔ نہیں، تم نے نہیں کرنا۔ اس کو کوئی اَور قتل کرے گا ۔چنانچہ ابوعامر کے بعد مشرکوں کی طرف سے ایک شخص جو اونٹ پر سوار تھا میدان میں نکل کر آیا اور مبارزت طلب کی۔ لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے یہاں تک کہ اس نے تین مرتبہ للکارا تو حضرت زبیر ؓنکل کر اس کی طرف بڑھے اور ایک دم زور سے اچھلے اور اونٹ پر اس کے برابر پہنچ کر اس کی گردن پکڑ لی پھر دونوں میں اونٹ کے اوپر ہی زور آزمائی ہونے لگی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان میں جو بھی پہلے زمین کو چھوئے گا وہی قتل ہو جائے گا۔ اسی دوران وہ مشرک اونٹ پر سے نیچے گرا اور اس کے اوپر حضرت زبیر ؓگرے۔ انہوں نے فوراً ہی اس مشرک کو قتل کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر ؓکی تعریف کی اور فرمایا:ہر نبی کا حواری ہوتا ہے میرا حواری زبیر ہے۔اور فرمایا: اگر اس مشرک کے مقابلے کیلئےزبیر نہ نکلتا تو مَیں خود نکلتا۔(سیرت الحلبیہ، جلد2 ،صفحہ 303، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
جب لوگوں میں مُٹھ بھیڑ ہوئی اور ایک دوسرے کے قریب ہوئے تو ہند بنت عتبہ عورتوں کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور وہ عورتیں دف بجانے لگیں تو ہند نے اشعار میں کہا۔ دیکھو! اے بنو عبدالدار دیکھو! اپنی پشتوں کی حفاظت کرنے والو۔ آگے بڑھو اور خوب شمشیر کے جوہر دکھاؤ ہم معزز لوگوں کی بیٹیاں ہیں ۔ گا گا کر یہ اشعار پڑھ رہی تھیں ۔ہم گداز قالینوں پر چلتی ہیں، ہماری گردنوں پر موتی آویزاں ہیں، ہماری مانگ میں کستوری بھری ہوئی ہے۔ اگر تم پیش قدمی کرو گے تو ہم تمہیں گلے لگائیں گی اور اگر تم نے پیٹھ پھیر لی تو ہم تم سے روٹھ جائیں گی اور اس کنارہ کشی پر ہمیں کوئی افسوس نہیں ہوگا۔ ان کے جذبات بھڑکانے کی کوشش کی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اشعار سنے تو فرمایا: اَللّٰهُمَّ بِكَ أَجُوْلُ وَبِكَ أَصُوْلُ وَ فِیْکَ اُقَاتِلُ حَسْبِیَ اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ۔ اے اللہ !تیرے ساتھ میں چکر لگاتا ہوں اور تیرے ساتھ ہی حملہ کرتا ہوں اور تیری رضا کیلئےقتال کرتا ہوں ۔ مجھے اللہ کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کارساز ہے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد ،جلد4 ،صفحہ191-192،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اُن کا ایک دنیاوی ذریعہ تھا ۔یہاںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا ذریعہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
بہرحال اب دونوں فوجوں میں باقاعدہ لڑائی شروع ہو گئی۔ اس دن لوگوں نے بہت سخت لڑائی کی اور جنگ خوب بھڑکی۔ ابودجانہ انصاریؓ، طلحہ بن عبیداللہؓ، حمزہ بن عبدالمطلبؓ، علی بن ابوطالبؓ، انس بن نَضرؓ اور سعد بن ربیعؓ وغیرہ نے جنگ میں خوب شجاعت دکھائی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنی مدد نازل کی اور اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور مسلمانوں نے مشرکین کو تلوار سے خوب قتل کیا یہاں تک کہ ان کو لشکر سے بھگا دیا یا ان کے لشکر کو بھگا دیا۔ مشرکین کے گھڑ سواروں نے مسلمانوں پر تین مرتبہ حملہ کیا ہر دفعہ ان کو تیروں کے ذریعہ پسپا کیا گیا۔ حضرت عمر ؓنے اس روز اپنے بھائی زیدؓ کو کہا اے میرے بھائی! میری زرہ پہن لے تو زیدؓ نے کہا میں بھی شہادت کا اسی طرح خواہش مند ہوں جیسے آپؓ ہیں۔ تو ان دونوں بھائیوں نے زرہ نہیں پہنی۔ شہادت کے شوق میں بغیر زرہ کے جنگ کی۔ جب اس دن لڑائی شدت اختیار کر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے جھنڈے کے نیچے بیٹھ گئے اور علی ؓکو پیغام بھجوایا کہ جھنڈا لے کر آگے بڑھیں ۔ اس پر حضرت علیؓ آگے بڑھے اور کہا میں ابو القُصَم ہوں ۔ اس پر مشرکوں کی صفوں میں سے ایک شخص نکلا ۔یہ طلحہ بن ابوطلحہ تھا ۔اس کے ہاتھ میں مشرکوں کا پرچم تھا۔ کیونکہ جنگوں میں پرچم اٹھانے کا اعزاز بنو عبدالدار کے خاندان کے ساتھ مخصوص تھا۔ کیونکہ قریشی پرچم عبدالدار نے ہی بنایا تھا۔ طلحہ بن ابوطلحہ نے مبارزت طلب کی۔ کون ہے جو میرے مقابلے کو آئے گا؟ اس نے کئی بار مسلمانوں کو للکارا مگر کوئی شخص بھی اس کی طرف نہیں نکلا۔ آخر طلحہ نے پکار کر کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیو! تمہارا تو یہ خیال ہے کہ تمہارے مقتول یعنی شہید جنت میں جاتے ہیں اور ہمارے مقتول جہنم میں جاتے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ اس نے کہا کہ اے محمد کے ساتھیو! (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارا خیال تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جلدی جلدی تمہاری تلوار کی دھار پر رکھ کر جہنم میں جھونکتا ہے اور تمہیں ہماری تلواروں سے قتل کرا کر فوراً جنت میں داخل کر دیتا ہے اس لیے تم میں سے کو ن ہے جو مجھے اپنی تلوار کے ذریعہ جلد از جلد جہنم میں پہنچا دے یا جلد از جلد میری تلوار کے ذریعہ جنت میں پہنچ جائے۔ اس نے بھڑکانے کی کوشش کی۔کہنے لگا کہ لات و عزیٰ کی قسم تم جھوٹے ہو۔ اگر تم اپنے اس عقیدے پر یقین رکھتے تو یقیناً تم میں سے کوئی نہ کوئی اس وقت میرے مقابلے کیلئےنکل آتا۔ یہ سن کر حضرت علیؓ نکل کر مقابلے کیلئےاس کے سامنے پہنچ گئے۔ دونوں میں تلواروں کے وار شروع ہو گئے اور حضرت علیؓ نے اسے قتل کر دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ دونوں لشکروں کے درمیان میں یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل ہوئے۔ اچانک حضرت علیؓ اس پر جھپٹے اور اس کو پچھاڑ دیا اسکی ٹانگ کاٹ دی اور اسے زمین پر گرا دیا۔ اس طرح اس کے جسم کے پوشیدہ اعضاء ظاہر ہو گئے ۔اس وقت طلحہ نے کہا اے میرے بھائی! میں خدا کا واسطہ دے کر تم سے رحم کی بھیک مانگتا ہوں ۔ یہ سن کر حضرت علیؓ وہاں سے لوٹ آئے اور اس پر مزید وار نہیں کیا ۔اس پر بعض صحابہؓ نے حضرت علیؓ سے کہا کہ آپؓنے اسے قتل کیوں نہیں کیا؟ حضرت علیؓ نے کہا کہ اس کا ستر کھل گیا تھا اور اس کا رخ میری طرف تھا اس لیے مجھے اس پر رحم آ گیا اور میں نے یہ جان لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ہلاک کر دیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم نے اس کو کس لیے چھوڑ دیا؟ حضرت علیؓ نے عرض کیا اس نے خدا کا واسطہ دے کر مجھ سے رحم کی بھیک مانگی تھی۔ آپؐ نے فرمایا اسے قتل کر دو۔چنانچہ حضرت علیؓ نے اسے قتل کر دیا۔مشرکین کے علمبردار کا قتل ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خواب کی تصدیق تھی کہ ’’میں مینڈھے کے پیچھے سوار ہوں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور بلند آواز سے اللہ اکبر! کہا تو مسلمانوں نے بھی اللہ اکبر! کہا اور مشرکین پر ایسا سخت حملہ کیا کہ ان کی صفیں تتر بتر ہو گئیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ مختلف گروہوں میں ہو گئے اور دشمن کو تلواروں سے کاٹنا شروع کر دیا یہاں تک کہ ان کو ان کے سامنے سے دُور کر دیا۔ طلحہ کے قتل کے بعد مشرکوں کا پرچم اس کے بھائی ابوشیبہ عثمان بن ابوطلحہ نے لے لیا ۔پھر حضرت حمزہؓ نے اس پر حملہ کیا ۔اس کا ہاتھ کندھے تک کاٹ ڈالا اور ان کی تلوار اس کی ہنسلی تک کاٹ گئی۔ حضرت حمزہؓ اس کو قتل کرنے کے بعد یہ کہتے ہوئے وہاں سے واپس ہوئے کہ میں حاجیوں کے ساقی یعنی عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۔ اس کے بعد مشرکوں کے پرچم کو عثمان اور طلحہ کے بھائی نے اٹھا لیا جس کا نام ابوسعید بن ابوطلحہ تھا۔ اس پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے تیر چلایا جو اس کے سینے میں لگا اور اس طرح اس کو بھی قتل کر دیا۔ اس کے بعد طلحہ بن ابو طلحہ جس کو حضرت علیؓ نے قتل کیا تھا اس کے بیٹے مُسَافِع نے پرچم اٹھایا تو حضرت عاصم بن ثابتؓ نے اس پر تیر چلایا اور وہ بھی قتل ہو گیا ۔اس کے بعد مُسَافِع کے بھائی حارث بن طلحہ نے پرچم سنبھالا تو پھر حضرت عاصمؓ نے تیر چلایا اور اس کو بھی قتل کر دیا۔
طلحہ کے ان دونوں بیٹوں مُسَافِع اور حارث کی ماں بھی مشرک لشکر کے ساتھ تھی۔ اس عورت کا نام سلافہ تھا ۔جس کے بھی حضرت عاصم ؓکا تیر لگتا وہی بیٹا وہاں سے زخمی ہو کر لوٹتا اور ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹ جاتا۔ سلافہ کہتی تجھے کس نے زخمی کیا ؟بیٹا جواب میں کہتا میں نے اس شخص کی آواز سنی ہے اس نے مجھ پر تیر چلانے کے بعد کہا تھا لے اسے سنبھال میں ابوافلح کا بیٹا ہوں ۔ چنانچہ اس نے منت مانی یعنی اس کی ماں نے کہ اگر عاصم بن ثابت کا سر میرے ہاتھ لگا تو اس میں شراب بھر کر پیئوں گی۔ اور اس نے اعلان کیا کہ جو شخص بھی عاصم بن ثابت کا سر کاٹ کر میرے پاس لائے گا تو میں اسے سو اونٹ انعام میں دوں گی مگر حضرت عاصمؓ اس غزوۂ احد میں شہید نہیں ہوئے۔ ان کی شہادت سریہ رجیع میں ہوئی تھی۔ غرض ان دونوں بھائیوں کے قتل کے بعد ان کے تیسرے بھائی کلاب بن طلحہ نے پرچم اٹھایا جسے حضرت زبیرؓ نے قتل کر دیا۔ ایک قول کے مطابق اسے قُزْمَاننے قتل کیا تھا اس کے بعد ان کے بھائی جلاس بن طلحہ نے پرچم اٹھایا تو اس کو حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ نے قتل کردیا۔ اس طرح یہ چاروں بھائی یعنی مُسَافِع، حارث، کلاب اور جلاس اپنے باپ طلحہ کی طرح وہیں قتل ہو گئے اور ان کے ساتھ ہی ان کے دونوں چچا عثمان اور ابوسعید بھی اسی دن غزوۂ احد کے دن قتل ہو گئے۔
ان کے بعد قریشی پرچم اَرْطَاۃ بن شرحبیل نے اٹھایا تو اس کو حضرت علیؓ نے قتل کر دیا۔ ایک قول ہے کہ حضرت حمزہؓ نے قتل کیا۔ اسکے بعد شریح بن قَارِظْ نے پرچم سنبھالا تو وہ بھی قتل ہو گیا مگر اسکے قاتل کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔ اسکے بعد یہ پرچم ابوزید بن عمرو نے اٹھایا۔ اس کو قُزْمَان نے قتل کر دیا۔ اسکے بعد شرحبیل بن ہاشم کے بیٹے نے پرچم بلند کیاتو اس کو بھی قُزْمَاننے قتل کر دیا۔ اسکے بعد ان لوگوں کے غلام صوّاب نے یہ پرچم اٹھا لیا۔ یہ ایک حبشی شخص تھا ۔یہ لڑتا رہا یہاں تک کہ اس کا ہاتھ کٹ گیا۔ یہ جلدی سے بیٹھ گیا اور اپنے سینے اور گردن کے سہارے سے پرچم کو اٹھائے رہا یہاں تک کہ اس کو بھی قُزْمَاننے قتل کر دیا۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کے قاتل حضرت سعد بن ابی وقاصؓ تھے اور ایک قول کے مطابق حضرت علیؓ تھے۔ بہرحال جب جملہ جھنڈا بردار مارے گئے تو مشرکین شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوئے اور ان کی عورتیں ان کی ہلاکت کی بددعائیں دے رہی تھیں۔
جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا تھا کہ علمبردار مارا جائے گا۔ وہ سب مارے گئے اور مسلمان ان کا تعاقب کر کے ان کوقتل کر رہے تھے یہاں تک کہ ان کو لشکر سے دُور کر دیا۔
قریش کے لشکر کے ساتھ آنے والی عورتیں بھی بھاگ گئیں۔ اس پر قریش کی شکست پر کوئی شک باقی نہ رہا۔ مسلمان مشرکین کے لشکر میں داخل ہو گئے اور مال غنیمت سمیٹنا شروع کر دیا۔(سیرۃ الحلبیہ، جلد2 ،صفحہ303 تا 305 ،دارالکتب العلمیۃ بیروت)( سبل الہدیٰ مترجم ،جلد 4، صفحہ 184تا 186)
حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ اس بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’سب سے پہلے لشکر قریش سے ابوعامر اوراسکے ساتھی آگے بڑھے … یہ قبیلہ اوس میں سے تھا اورمدینہ کا رہنے والا تھا اورراہب کے نام سے مشہور تھا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو اس کے کچھ عرصہ بعد یہ شخص بغض وحسد سے بھرگیا اوراپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مکہ چلا گیا اور قریش مکہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف اکساتا رہا۔ چنانچہ اب جنگِ احد میں وہ قریش کا حمایتی بن کر مسلمانوں کے خلاف شریک جنگ ہوا۔ اور یہ ایک عجیب بات ہے کہ ابوعامر کابیٹا حنظلہ ایک نہایت مخلص مسلمان تھا اوراس جنگ کے موقعہ پراسلامی لشکر میں شامل تھا اورنہایت جانبازی کے ساتھ لڑتا ہوا شہید ہوا۔ ابو عامر چونکہ قبیلہ اوس کے ذی اثر لوگوں میں سے تھا اس لئے اسے یہ پختہ امید تھی کہ اب جو میں اتنے عرصہ کی جدائی کے بعد مدینہ والوں کے سامنے ہوں گا تو وہ میری محبت میں فوراً محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر میرے ساتھ آملیں گے۔ اسی امید میں ابوعامر اپنے ساتھیوں کوہمراہ لے کر سب سے پہلے آگے بڑھا اوربلند آواز سے پکار کرکہنے لگا۔ ’’اے قبیلہ اوس کے لوگو! میں ابو عامرہوں۔‘‘ انصار نے یک زبان ہو کر کہا۔ ’’دُور ہو جا اے فاسق! تیری آنکھ ٹھنڈی نہ ہو‘‘ اورساتھ ہی پتھروں کی ایک ایسی باڑماری کہ ابو عامر اوراس کے ساتھی بدحواس ہوکر پیچھے کی طرف بھاگ گئے۔ اس نظارہ کو دیکھ کر قریش کاعلمبردار طلحہ بڑے جوش کی حالت میں آگے بڑھا اوربڑے متکبّرانہ لہجہ میں مبارز طلبی کی۔ حضرت علیؓ آگے بڑھے اور دوچار ہاتھ میں طلحہ کوکاٹ کر رکھ دیا۔ اس کے بعد طلحہ کابھائی عثمان آگے آیا اور ادھر سے اس کے مقابل پرحضرت حمزہؓ نکلے اورجاتے ہی اسے مار گرایا۔ کفار نے یہ نظارہ دیکھا تو غضب میں آکر عام دھاوا کر دیا۔ مسلمان بھی تکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھے اور دونوں فوجیں آپس میں گتھم گتھا ہو گئیں ۔
… الغرض قریش کے علمبردار کے مارے جانے کے بعد دونوں فوجیں آپس میں گتھم گتھا ہوگئیں اور سخت گھمسان کا رن پڑا اورایک عرصہ تک دونوں طرف سے قتل وخون کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر آہستہ آہستہ اسلامی لشکر کے سامنے قریش کی فوج کے پاؤں اکھڑنے شروع ہوئے۔ چنانچہ مشہور انگریز مؤرخ سرولیم میورلکھتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کے خطرناک حملوں کے سامنے مکی لشکر کے پاؤں اکھڑنے لگ گئے۔ قریش کے رسالے نے کئی دفعہ یہ کوشش کی کہ اسلامی فوج کے بائیں طرف عقب سے ہوکر حملہ کریں ۔ مگر ہردفعہ ان کو ان پچاس تیراندازوں کے تیر کھا کر پیچھے ہٹنا پڑا جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے وہاں خاص طور پر متعیّن کیے ہوئے تھے۔
مسلمانوں کی طرف سے اُحد کے میدان میں بھی وہی شجاعت ومردانگی اور موت و خطر سے وہی بے پروائی دکھائی گئی جوبدر کے موقعہ پرانہوں نے دکھائی تھی۔‘‘
یہ انگریز مؤرخ لکھ رہا ہے۔ ’’مکہ کے لشکر کی صفیں پھٹ پھٹ جاتی تھیں ۔ جب اپنی خود کے ساتھ سرخ رومال باندھے ابودجانہ ان پر حملہ کرتا تھا اوراس تلوار کے ساتھ جو اسے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دی تھی چاروں طرف گویا موت بکھیرتا جاتا تھا۔ حمزہ اپنے سر پرشترمرغ کے پروں کی کلغی لہراتا ہواہرجگہ نمایاں نظر آتا تھا۔ علی اپنے لمبے اورسفید پھریرے کے ساتھ اورزبیر اپنی شوخ رنگ کی چمکتی ہوئی زرد پگڑی کے ساتھ بہادران اِلْیَڈ کی طرح جہاں بھی جاتے تھے دشمن کے واسطے موت وپریشانی کاپیغام اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔‘‘ یہ جو اِلْیَڈ کا ذکر کیا ہے ولیم میور نے یہ یونانی کہانیوں کے ہیرو ہیں جو بڑے سخت جنگجو تھے۔ بہرحال وہ کہتا ہے کہ ’’یہ وہ نظارے ہیں جہاں بعد کی اسلامی فتوحات کے ہیرو تربیت پذیرہوئے۔‘‘
غرض لڑائی ہوئی اور بہت سخت ہوئی اورکافی وقت تک غلبہ کاپہلو مشکوک رہا۔ لیکن آخر خدا کے فضل سے قریش کے پاؤں اکھڑنے لگے اوران کے لشکر میں بدنظمی اورابتری کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ قریش کے علمبردار ایک ایک کرکے مارے گئے اور ان میں سے تقریباً نو شخصوں نے باری باری اپنے قومی جھنڈے کواپنے ہاتھ میں لیا مگر سارے کے سارے باری باری مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے۔‘‘ جیساکہ تفصیل میں بیان ہوا ہے۔ ’’آخر طلحہ کے ایک حبشی غلام صواب نامی نے دلیری کے ساتھ بڑھ کر عَلَم اپنے ہاتھ میں لے لیا مگر اس پر بھی ایک مسلمان نے آگے بڑھ کروار کیا اورایک ہی ضرب میں اس کے دونوں ہاتھ کاٹ کر قریش کاجھنڈا خاک پر گرا دیا لیکن صواب کی بہادری اور جوش کابھی یہ عالم تھا کہ وہ بھی اس کے ساتھ ہی زمین پر گرا اور جھنڈے کواپنی چھاتی کے ساتھ لگاکراسے پھر بلند کرنے کی کوشش کی مگر اس مسلمان نے جوجھنڈے کے سرنگوں ہونے کی قدروقیمت کو جانتاتھا اوپرسے تلوار چلاکر صواب کو وہیں ڈھیر کر دیا۔ اسکے بعد پھرقریش میں سے کسی شخص کو یہ جرأت اورہمت نہیں ہوئی کہ اپنے عَلَم کو اٹھائے۔ ادھر مسلمانوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پاکر تکبیر کانعرہ لگاتے ہوئے پھر زور سے حملہ کیا اوردشمن کی رہی سہی صفوں کوچیرتے اور منتشر کرتے ہوئے لشکر کے دوسرے پار قریش کی عورتوں تک پہنچ گئے اور مکہ کے لشکر میں سخت بھاگڑ پڑ گئی اوردیکھتے ہی دیکھتے میدان قریباً صاف ہو گیا۔ حتی کہ مسلمانوں کیلئے ایسی قابلِ اطمینان صورت حال پیدا ہو گئی کہ وہ مال غنیمت کے جمع کرنے میں مصروف ہو گئے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ488تا 491)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے کہ ’’لڑائی ہوئی اوراللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے تھوڑی ہی دیر میں ساڑھے چھ سو مسلمانوں کے مقابلہ میں تین ہزار مکہ کا تجربہ کار سپاہی سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا۔
مسلمانوں نے ان کا تعاقب شروع کیا تو ان لوگوں نے جو پشت کے درہ کی حفاظت کیلئے کھڑے تھے انہوں نے اپنے افسر سے کہا اب تو دشمن کو شکست ہو چکی ہے اب ہمیں بھی جہاد کاثواب لینے دیا جائے۔ افسر نے ان کواِس بات سے روکا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یاد دلائی مگر انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا تھا صرف تاکید کیلئے فرمایا تھا ورنہ آپؐ کی مراد یہ تو نہیں ہو سکتی تھی کہ دشمن بھاگ بھی جائے تو یہاں کھڑے رہو۔ یہ کہہ کر انہوں نے درہ چھوڑ دیا اور میدانِ جنگ میں کود پڑے۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم ،جلد20،صفحہ 249)
اور یہ نافرمانی کی وجہ سے پھر بعد میں جو نتائج ظاہر ہوئے ان کا ذکر بھی آئندہ ہوگا۔
ابودجانہؓ کی تلوار کے بارے میں جس طرح ولیم میور نے لکھا ہے۔ اس کی تفصیل میں بھی لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار لے کر اس کا حق ادا کرنے والے صحابی کون تھے؟
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں اس بارے میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے دن ایک تلوار پکڑی اور فرمایا مَنْ یَاْخُذُ مِنِّیْ ھٰذَا کہ اسے مجھ سے کون لے گا؟ تو سب نے اپنے ہاتھ بڑھائے اور ان میں سے ہر ایک نے کہا مَیں مَیں ۔آپؐنے پھر فرمایا: فَمَنْ یَاْخُذُہٗ بِحَقِّہٖ کہ کون اس کو اس کے حق کے ساتھ لے گا؟ حضرت انسؓ کہتے ہیں اس پر لوگ رک گئے تو حضرت سماک بن خرشہ ابودجانہؓ نے کہا کہ میں اس کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں ۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے تلوار لی اور مشرکوں کے سرپھاڑ دیے ۔یعنی اس کا حق ادا کیا۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، باب من فضائل ابی دجانہ، حدیث 6353) یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔
ابن عتبہ نے لکھا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار دکھائی تو حضرت عمرؓ نے اس کو طلب کیا تو آپؐ نے اعراض کیا۔ پہلے حضرت عمرؓ نے مانگنے کی کوشش کی پھر حضرت زبیرؓ نے مانگی تو آپؐنے اعراض کیا، ان کو بھی نہیں دی۔ تو ان دونوں نے اس سے دل میں افسوس کیا اور ایک روایت میں ہے کہ زبیر نے تین مرتبہ تلوار مانگی۔ ہر دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراض کیا۔ حضرت علیؓ نے کھڑے ہو کر مطالبہ کیا تو آپؐنے فرمایا بیٹھ جاؤ۔(سبل الھدیٰ والرشاد ،جلد4 ،صفحہ192،دارالکتب العلمیۃ بیروت)ان کو بھی نہیں دی۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ اس موقع پر جن اصحابؓنے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ تلوار ان کو عنایت کی جائے ان میں حضرت ابوبکرؓ بھی تھے ۔(شرح زرقانی، جلد 2، صفحہ 404، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ایک روایت میں آتا ہے کہ جب آپؐنے فرمایا:اس کوحق کے ساتھ کون استعمال کرے گا؟ابودجانہؓ نے پوچھا اس کا حق کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس سے کسی مسلمان کو قتل نہ کرنا اور اس کے ہوتے ہوئے کسی کافر کے مقابلے پر نہ بھاگنا ۔یعنی ڈٹ کے مقابلہ کرنا۔اس پر حضرت ابودجانہؓ نے عرض کیا۔ میں اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابودجانہؓ کو تلوار دی تو انہوں نے اس سے مشرکین کے سر پھاڑ دیے۔ انہوں نے اس موقع پر یہ اشعار پڑھے کہ

أَنَا الَّذِیْ عَاھَدَنِیْ خَلِیْلِیْ
وَنَحْنُ بِالسَّفْحِ بصفا لَدَی النَّخِیْلِ
اَنْ لَّا أَقُوْمَ الدَّھْرَ فِی الْکَیُوْلِ
أَضْرِبْ بِسَیْفِ اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ

مَیں وہ ہوں جس سے میرے دوست نے وعدہ لیا ہے جبکہ ہم سَفح مقام پر کھجور کے درختوں کے پاس تھے اور وہ وعدہ یہ ہے کہ میں لشکر کی پچھلی صفوں میں نہ کھڑا ہوں اور اللہ اور رسولؐ کی تلوار سے دشمنوں سے لڑائی کروں ۔
بہرحال حضرت ابودجانہؓ یہ لے کر پھر بڑی تفاخرانہ چال چلتے ہوئے لشکر کی صفوں کے درمیان چلنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اِنَّ ھٰذِہٖ مِشْیَۃٌ یُبْغِضُھَا اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلَّا فِیْ ھٰذَا الْمُقَامِکہ یہ ایسی چال ہے جو اللہ عزّوجلّ کو ناپسند ہے سوائے اس مقام کے یعنی جنگ کے موقع پر۔(الاصابہ ،جلد 7، صفحہ 100، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)(اسد الغابہ، جلد 2، صفحہ 317، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
یہ جس طرح چل رہے ہیں ۔
حضرت ابودجانہؓ کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ مبارزت میں جب کفار قریش کو ہزیمت اٹھانی پڑی تو کفار نے یہ نظارہ دیکھا تو غضب میں آکر عام دھاوا کردیا۔ مسلمان بھی تکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھے اور دونوں فوجیں آپس میں گتھم گتھا ہوگئیں۔غالباً اسی موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا: کون ہے جو اسے لے کر اس کا حق ادا کرے؟ بہت سے صحابہؓ نے اس فخر کی خواہش کیلئےاپنے ہاتھ پھیلائے جن میں حضرت عمرؓ اور حضرت زبیرؓ بلکہ بعض روایات کی رُو سے حضرت ابوبکرؓ وحضرت علیؓ بھی شامل تھے۔ مگر آپؐنے اپنا ہاتھ روکے رکھا اور یہی فرماتے گئے۔ کوئی ہے جو اس کا حق ادا کرے؟ آخر ابودجانہ انصاریؓ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور عرض کیا۔ یارسول اللہؐ! مجھے عنایت فرمائیے۔ آپؐنے یہ تلوار انہیں دے دی اورابو دجانہؓ اسے ہاتھ میں لے کر بڑے تبخترکی چال سے، بڑے اکڑتے ہوئے فخر کے ساتھ کفار کی طرف آگے بڑھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا: خدا کو یہ چال بہت ناپسند ہے مگر ایسے موقع پر ناپسند نہیں ۔ زبیر جو غالباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار لینے کے سب سے زیادہ خواہش مند تھے اورقرب رشتہ کی وجہ سے اپنا حق بھی زیادہ سمجھتے تھے دل ہی دل میں پیچ وتاب کھانے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تلوار نہیں دی اورابودجانہ کو دے دی ہے اوراپنی اس پریشانی کو دُور کرنے کیلئےانہوں نے دل میں عہد کیا کہ میں اس میدان میں ابودجانہ کے ساتھ ساتھ رہوں گا اوردیکھوں گا کہ وہ اس تلوار کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ابودجانہ نے اپنے سر پر ایک سرخ کپڑا باندھا اوراس تلوار کو لے کر حمد کے گیت گنگناتا ہوا مشرکین کی صفوں میں گھس گیا اورمیں نے دیکھا کہ وہ جدھر جاتا تھا گویا موت بکھیرتا جاتا تھا اور میں نے کسی آدمی کو نہیں دیکھا جو اس کے سامنے آیا ہو اور پھر وہ بچا ہو۔ حتی کہ وہ لشکر قریش میں سے اپنا راستہ کاٹتا ہوا لشکر کے دوسرے کنارے نکل گیا جہاں قریش کی عورتیں کھڑی تھیں ۔ ہند زوجہ ابوسفیان جوبڑے زورشور سے اپنے مردوں کو جوش دلارہی تھی اس کے سامنے آئی اور ابو دجانہ نے اپنی تلوار اس کے اوپر اٹھائی۔ جس پر ہند نے بڑے زور سے چیخ ماری اوراپنے مردوں کوامداد کیلئےبلایا مگر کوئی شخص اس کی مدد کو نہ آیا لیکن میں نے دیکھا کہ ابودجانہ نے خودبخود ہی اپنی تلوار نیچی کرلی اوروہاں سے ہٹ آیا۔ زبیر روایت کرتے ہیں کہ اس موقع پر میں نے ابودجانہ سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ پہلے تم نے تلوار اٹھائی اورپھر نیچی کر لی۔ اس نے کہامیرا دل اس بات پر تیار نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار ایک عورت پر چلاؤں اور عورت بھی وہ جسکے ساتھ اس وقت کوئی مرد محافظ نہیں ۔ یہ ہے اسلامی جنگ کا اصول۔
زبیر کہتے ہیں کہ میں نے اس وقت سمجھا کہ واقعی جو حق رسول اللہ ؐکی تلوار کاتھا وہ اس نے ادا کیا۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ489-490)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس موقع کا ذکر بیان فرمایا کہ ایک صحابیؓ کے پوچھنے پر کہ اس عورت پر تلوار اٹھا کر پھر اسے قتل کیوں نہ کیا؟ تو اس پر ابودجانہ نے کہا کہ میرے دل نے برداشت نہ کیا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تلوار کو ایک کمزور عورت پر چلاؤں ۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے ادب اور احترام کی ہمیشہ تعلیم دیتے تھے جس کی وجہ سے کفار کی عورتیں زیادہ دلیری سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی تھیںاس بات سے بھی پتہ لگتا ہے کہ کیوں یہ واقعہ ہوا۔ اس لیے ہوا کہ آپؐ عورتوں کے احترام کی تعلیم دیتے تھے اور عورتیں اس کی وجہ سے پھر زیادہ دلیر ہو گئی تھیں اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی تھیں مگر پھر بھی مسلمان ان باتوں کو برداشت کرتے چلے جاتے تھے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر، جلد 2،صفحہ 421، 422)
پس یہ ہیں اسلامی جنگوں کے اصول۔ان شاء اللہ باقی آئندہ۔
فلسطینیوں کیلئےبھی دعائیں کرتے رہیں۔ ظلم کی انتہا دن بدن ہوتی چلی جارہی ہے، بلکہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اب ظالموں کی پکڑ کے سامان کرے اور مظلوم فلسطینیوں کیلئےبھی آسانیاں پیدا فرمائے۔ مسلمان ممالک کو بھی عقل اور سمجھ دے کہ ان کی آواز ایک ہو اور وہ مسلمان بھائیوں کیلئےان کا حق ادا کرنے کیلئےکوشش کرنے والے ہوں۔

…٭…٭…٭…