حالت جنگ میں سرور کونین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا اسوۂ حسنہ
آپؐکی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی یعنی آپؐکے دل میں ان کیلئے کسی ذاتی دشمنی کے جذبات نہیں تھے
بلکہ اللہ تعالیٰ کے دین کو مٹانے والوں کے خلاف جنگ تھی، جو اللہ تعالیٰ کے دین کو مٹانا چاہتے تھے ان کے خلاف جنگ تھی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے اصول و قواعد مقرر فرمائےممعاہدوں کا بھی پاس کیا اور ان چیزوں پر انتہائی درجہ تک عمل بھی کیا
آجکل کی دنیا کی طرح نہیں کہ اصول و ضوابط تو بےشمار بنائے ہیں لیکن عمل کوئی نہیں بلکہ دوہرے معیار ہیں
آپؐکی زندگی تو قرآن کریم کے احکام کی عملی تفسیر تھی جہاں عدل و انصاف اور امن کا قیام بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اس تعلیم کی روشنی میں ہر پہلو پر حاوی اور اسکے اعلیٰ معیار قائم کرنے والا تھا
غزوۂ احد کے اسباب اور پس منظر کا تفصیلی تذکرہ
واقعات ثابت کرتے ہیں یہ جنگ بھی دشمن نے اپنی دشمنی کی آگ کی وجہ سے شروع کی تھی اور مجبوراً مسلمانوں کو بھی جنگ کیلئے نکلنا پڑا
فلسطین کے مظلومین کیلئے دعا کی مکرّر تحریک
فلسطینیوں کیلئے دعائیں کرتے رہیں،جنگ بندی ختم ہونے کے بعد پھر ان پر بلاتفریق بمباری ہو گی اور پھر معصوم شہید ہوں گے، کتنا ظلم ہو گا ؟اللہ بہتر جانتا ہے
ان کے مستقبل کے بارے میں بڑی طاقتوں کے ارادے جو ہیں وہ بڑے خطرناک ہیں، اس لیے ان کیلئے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے،اللہ تعالیٰ رحم فرمائے
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ یکم دسمبر2023ء بمطابق یکم فتح 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ-
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مٰلكِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ
اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ۥۙ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّیْنَ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کے حوالے سے کچھ بیان کروں گا۔ آپؐکی شخصیت کے پہلو اور آپؐکا اسوہ ان حالات میں کس طرح ہمارے سامنے آتا ہے۔
جنگ بدر کے حوالے سے ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح آپؐ نے قیدیوں کو سہولتیں مہیا فرمائیں۔ قیدی خود کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق کہ قیدیوں سے بہتر سلوک کرو صحابہؓ اپنی خوراک سے بہتر خوراک ہمیں دیا کرتے تھے۔ پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جب ان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ آیا تو بڑی آسان شرائط پر ان کو رہا کر دیا۔ بعض کا فدیہ تو صرف اتنا تھا کہ جن کو لکھنا پڑھنا آتا ہے وہ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔
یہ سب اس لیے تھا کہ آپؐکی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی۔یعنی آپؐکے دل میں ان کیلئے کسی ذاتی دشمنی کے جذبات نہیں تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کے دین کو مٹانے والوں کے خلاف جنگ تھی۔ جو اللہ تعالیٰ کے دین کو مٹانا چاہتے تھے ان کے خلاف جنگ تھی۔
بعض لوگ دشمن کی طرف سے اپنی مجبوریوں کی وجہ سے شامل ہوتے تھے۔ ایسی بھی کئی مثالیں ہیں۔ نہیں چاہتے تھے کہ وہ مسلمانوں سے لڑیں لیکن مجبوری تھی۔ ان کو آپؐ نے بہت سی سہولتیں مہیا فرمائیں۔ بعد میں ان میں سے بہت سے مسلمان بھی ہو گئے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے اصول و قواعد مقرر فرمائے۔ معاہدوں کا بھی پاس کیا اور ان چیزوں پر انتہائی درجہ تک عمل بھی کیا۔ آجکل کی دنیا کی طرح نہیں کہ اصول و ضوابط تو بےشمار بنائے ہیں لیکن عمل کوئی نہیں بلکہ دوہرے معیار ہیں۔ آپؐکی زندگی تو قرآن کریم کے احکام کی عملی تفسیر تھی جہاں عدل و انصاف اور امن کا قیام بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں۔
جیساکہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۰ۡوَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۰ۭ اِعْدِلُوْا۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۰ۡوَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(المائدۃ:9) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیںہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اس تعلیم کی روشنی میں ہر پہلو پر حاوی اور اسکے اعلیٰ معیار قائم کرنے والا تھا۔
جیساکہ میں نے کہا کہ آپؐکے غزوات میں آپؐکا طریق اور اسوہ کیا تھا۔ اس بارے میں جنگ بدر کے علاوہ باقی غزوات کے بارے میں بھی بیان کروں گا۔ ان میں سریات بھی آ جاتے ہیں یعنی وہ جنگیں جو آپؐنے اپنی زندگی میں دوسروں کی سرکردگی میں اور دوسروں کو سپہ سالار بنا کر روانہ فرمائیں۔ بہرحال یہ لمبی تاریخ ہے اس لیے اس میں بھی شاید چند خطبات لگیں۔
آج احد کے حوالے سے کچھ بیان کروں گا۔
جیساکہ واقعات ثابت کرتے ہیں یہ جنگ بھی دشمن نے اپنی دشمنی کی آگ کی وجہ سے شروع کی تھی اور مجبوراً مسلمانوں کو بھی جنگ کیلئے نکلنا پڑا۔اسکی تفصیل میں لکھا ہے کہ یہ غزوہ معرکۂ بدر کے ایک برس بعد شوال 3؍ہجری میں بروز ہفتہ پیش آیا۔ مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غزوہ احد شوال 3؍ہجری میں پیش آیا البتہ ایک قول یہ بھی ہے اور یہ شاذ قول ہے کہ یہ غزوہ 4؍ہجری میں پیش آیا۔ شوال کی تاریخ کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ زیادہ تر 7 اور 15؍شوال کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ ابن اسحاق ،ابن ہشام، ابن حزم، ابن خَیَّاط اور طبری وغیرہ نے صرف 15؍ شوال کا قول نقل کیا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے جمعہ کے روز بعد نماز عصر روانہ ہوئے اور بروز ہفتہ سورج بلند ہونے سے قبل میدان احد پہنچے۔ احد مدینہ کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ کانام ہے۔ یہ مدینہ سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر ہے۔ (دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ، جلد6،صفحہ456 ،ناشر بزم اقبال لاہور 2022ء)(سیرۃ الحلبیہ مترجم ،جلد2 نصف آخر، صفحہ132، مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)
جبل احد موجودہ مسجد نبویؐ سے تقریباً چار کلو میٹر شمال کی سمت ہے۔ آجکل مدینہ منورہ کی آبادی کہتے ہیں اس پہاڑی کے دامن تک پہنچ چکی ہے بلکہ اسکے ارد گرد بھی پھیلی ہوئی ہے۔ احد پہاڑ حرم میں داخل ہے۔ احد شرقاً غرباً پھیلا ہوا ہے جس کی لمبائی چھ کلومیٹر بنتی ہے اور اس پہاڑی کا رنگ سرخی مائل ہے۔(اٹلس سیرت النبی ؐ،صفحہ 245،مطبوعہ دار السلام ریاض)(ماخوذ از اردو دائرہ معارف، جلد 2، صفحہ 31، پنجاب یونیورسٹی لاہور)
سیرت خاتم النبیینؐ میں غزوۂ احد کی تاریخ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے پندرہ شوال تین ہجری 31؍ مارچ 624عیسوی بروز ہفتہ بیان کی ہے۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ 487)
اسکی مزید تفصیل اس طرح ہے۔ اس غزوہ کا سبب یہ ہوا کہ جب غزوہ بدر میں قریش کو ایک عبرتناک شکست ہوئی تو قریش کے سرکردہ لوگوں میں سے جیسے عبداللہ بن ابی ربیعہ، عِکْرِمَہ بن ابو جہل اور صَفْوَان بن امیہ، اسود بن مُطَّلِب، جُبیر بن مُطْعَم، حارث بن ہشام، حُوَیْطَبْ بن عبدالعُزّٰی اور قریش کے کچھ دوسرے سرکردہ ابوسفیان کے پاس آئے جن کا اس تجارتی قافلے میں مال تھا جو جنگ بدر کا سبب بنا تھا۔ یہ تجارتی مال مکہ میں لا کر حسب دستور دارالندوہ میں رکھ دیا گیا اور ان کے مال کوان تک نہیں پہنچایا گیا کیونکہ جب یہ مال ابوسفیان لے کر آیا تو مکہ کے لوگ جنگ بدر کیلئے گئے ہوئے تھے۔ جنگ بدر کے کچھ عرصہ بعد ان لوگوں نے آ کر ابوسفیان سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمارے بےشمار آدمیوں کو قتل کر دیا ہے۔ اس لیے اس مال تجارت سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑنے کیلئے جنگ کی تیاری کریں۔ ممکن ہے ہم اپنے مقتولوں کا بدلہ لینے میں کامیاب ہو سکیں۔ پھر ان لوگوں نے مزید کہا۔
ہم خوشی سے اس بات پر تیار ہیں کہ اس مال تجارت کے نفع سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے ایک لشکر تیار کیا جائے۔
یہ سن کر ابوسفیان نے کہا کہ میں اس تجویز کو منظور کرتا ہوں اور بنو عبدمناف میرے ساتھ ہیں۔اس کے بعد قریش نے مال میں سے نفع الگ کر کے جس کی مالیت پچاس ہزار دینار تھی اصل مال مالکوں کو دے دیا اور ایک قول یہ ہے کہ جو نفع علیحدہ کیا گیا وہ پچیس ہزار دینار تھا۔(سیرۃ الحلبیہ مترجم، جلد2 نصف آخر، صفحہ133-134، مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)(سیرت انسائیکلوپیڈیا، جلد 6،صفحہ 145،مطبوعہ دار السلام ریاض)
بہرحال جو نفع تھا وہ اس جنگ کیلئے دے دیا گیا۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی کہ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَسَيُنْفِقُوْنَهَا ثُمَّ تَكُوْنُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُوْنَ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى جَهَنَّمَ يُحْشَرُوْنَ (الانفال:37) یقیناً وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا اپنے مال خرچ کرتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے روکیں۔ پس وہ ان کو اسی طرح خرچ کرتے رہیں گے۔ وہ مال ان پر حسرت بن جائیں گے پھر وہ مغلوب کر دیے جائیں گے اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا جہنم کی طرف اکٹھے کر کے لے جائے جائیں گے۔ (سبل الھدیٰ والرشاد، جلد4، صفحہ182، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اس ایک اہم سبب کے علاوہ کچھ اَور امور بھی تھے جو کہ اس جنگ کے اسباب قرار دیے جا سکتے ہیں۔
جیساکہ گذشتہ خطبہ میں بھی ذکر ہو چکا ہے کہ غزوۂ بدر کے بعد اہل مکہ کا شام جانا محال ہو چکا تھا کیونکہ مکہ اور شام کی تجارت کا رستہ مدینہ کے مضافات سے گزرتا تھا جسے مسلمانوں کی طرف سے بند کر دیا گیا تھا اور کفار کے سابقہ ظلم و ستم کے باعث ان کا وہاں سے قافلوں سمیت گزرنا دشوار ہوتا جا رہا تھا جس کی وجہ سےقریش کو اپنی معاشی موت نظر آ رہی تھی اور تجارتی راستے کی بندش غزوات اور سرایا میں شکست اور بدر میں سرداران قریش کا قتل اور ستر مشرکین کی گرفتاری جیسے امور ان کی شہرت اور معاشرتی حالت پر بدنما داغ تھے جنہیں دھونے کیلئے اور اپنی معاشرتی ساکھ بحال رکھنے کیلئے وہ انتقام لینا چاہتے تھے تا کہ قریش مکہ کی گرتی ہوئی سیاسی اور مذہبی ساکھ کو بحال کیا جا سکے۔( ماخوذ ازدائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ، جلد 6،صفحہ 434، ناشر بزم اقبال لاہور 2022ء)
دوسری طرف جنگ بدر کے بعد قریش مکہ کو دو مزید شرمناک ذِلّتوں کا سامنا کرنا پڑا جن کی وجہ سے ابوسفیان سمیت مکہ والوں کا غیض و غضب اَور بڑھ گیا اور انہوں نے مسلمانوں سے انتقام لینے کیلئے ایک باقاعدہ مسلح جنگ کرنے کا پختہ عزم کیا۔
چنانچہ ایک مصنف نے غزوہ ٔاحد کا ایک سبب یہ بیان کیا ہے کہ قریش کو بعض مہمات میں ناکامی ہوئی اور اس کی وجہ سے ان میں رنج و غم اور انتقام کا جذبہ بہت زیادہ ہو گیا۔چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ ابوسفیان جو بدر کے میدان میں اترے بِنا اپنے تجارتی قافلوں کو محفوظ راستوں سے واپس مکہ لایا تھا اسے اہل مکہ کے طعنوں کا مسلسل سامنا کرنا پڑا۔اس نے مسلمانوں سے انتقام لینے کی قسم کھائی اور قریش کو باور کروایاتھا کہ وہ مدینہ جا کر مسلمانوں سے بھر پور جنگ کرے گا۔ ابوسفیان نے اپنی قسم پوری کرنے کیلئے دو سو افراد کا لشکر بھی تیار کرلیا اور مدینہ پہنچ بھی گیا مگر کھلی جنگ کا حوصلہ نہ کر سکا اور مدینہ کے نواح میںچند درخت گرا کر، کھیت جلا کر اور دو افراد کو قتل کر کے فرار ہو گیا۔
اس جنگ کو جنگ سویق کہا جاتا ہے۔اس کا بیان بھی مَیں گذشتہ خطبات میں کر چکا ہوں۔ ابوسفیان کی کوشش تو یہ تھی کہ مکہ کے لوگ آئندہ اسے یہ طعنہ نہ دیں کہ میدان بدر میں تم اپنے قبیلے والوں کو چھوڑ کر واپس آ گئے تھے مگر اس ناکام مہم کے بعد تو لوگ ابوسفیان کی اس بچگانہ حرکت پر باقاعدہ فقرے کسنا شروع ہو گئے تھے۔لہٰذا ابوسفیان اب اپنی انا کی تسکین کی خاطر بھی مسلمانوں کے ساتھ ایک بڑی جنگ کیلئے بھرپور کوششیں کر رہا تھا۔ جیساکہ گذشتہ خطبات میںقَرَدَہ میں ہزیمت کے بارے میں ذکر ہو چکا ہے۔ابوسفیان کی مدینہ کے خلاف ناکام مہم کے بعد قریش نے اپنا ایک بڑا تجارتی قافلہ راستہ بدل کر عراق کی شاہراہ سے شام کو روانہ کیا تھا جس میں سونے کے زیورات، چاندی کے ظروف اور دیگر سامان تجارت جن کی مالیت کا اندازہ تقریباً ایک لاکھ درہم تھا۔ جب یہ قافلہ قردہ چشمہ پر اتر رہا تھا تو حضرت زید بن حارثہؓ نے مدینہ کی حدود کے اندر قافلہ ٔقریش کو روک لیا تھا۔ تمام مال تجارت قریش سے چھین کر مدینہ لے کر پہنچے تھے۔ جنگ بدر میں بدترین شکست کے بعد اہل قریش کیلئے قردہ کا واقعہ بہت بڑی ہزیمت تھی۔ یعنی وہ اس وقت مدینہ کے قریب ہی تھا اور ان کی آتش انتقام دوچند ہو گئی تھی۔ غزوۂ احدکی وجوہات میں سے ایک یہ واقعہ بھی تھا۔(غزوات و سرایا از علامہ محمد اظہر فرید،صفحہ156-157 ،مطبوعہ فریدیہ پرنٹنگ پریس ساہیوال)
بہرحال بہت سی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے کفار جنگ کی تیاری کرتے رہے اور اس کیلئے قریش کی طرف سے ارد گرد کے قبائل کو بھی شمولیت کی دعوت دی گئی جس کی تفصیل یوں ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ کن جنگ کیلئے جب سرمایہ جمع ہو گیا تب اگلے مرحلے کی تیاری شروع ہوئی۔ قریش تو برسر پیکار تھے ہی مگر انہوں نے گردو نواح کے مختلف قبائل کو اس جنگ میں شامل کرنے کیلئے مختلف طریقے اختیار کیے۔ کسی کے پاس انفرادی طور پر اور کسی کے ہاں وفد کی صورت میں گئے۔ کسی کو لالچ دیا تو کسی کو مذہبی اور علاقائی غیرت و حمیت دلا کر ساتھ ملا لیا۔ اس کام کیلئے عمرو بن عاص، ھُبَیْرَہ بن ابی وَہْباور عبداللہ بن زِبَعْرٰی،مُسَافِحْ بن عَبد ِمَنَافاور ابو عُزّہ جُمَحِی وغیرہ کو بھیجا گیا۔ یہ ابو عُزّہ جُمَحِی وہی تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں میں سے آزاد کیا تھا۔ اس وقت اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ اے محمد !صلی اللہ علیہ وسلم میری پانچ بیٹیاں ہیں جن کا میرے سوا کوئی سہارا نہیں۔ مجھے معاف فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف معاف کیا بلکہ اسے بغیر فدیہ کے آزاد بھی کر دیا۔ یہ آپؐ کا اسوہ تھا۔ اس وقت اس نے عہد و پیمان بھی کیا کہ آئندہ نہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑوں گا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کسی کی مدد کروں گا مگر غزوۂ احد کے موقع پر صفوان بن امیہ کی طرف سے انعام و اکرام کے لالچ میں اس نے اپنے اس عہد کو توڑ دیا اور اپنے اشعار سے اہل عرب کو جوش انتقام پر ابھارنے لگا۔ یہ شعراء جا کر قبائل کو اکساتے۔ ماضی یاد کروا کر ابھارتے اور ساتھ ملنے کی دعوت دیتے۔ قبائل کِنَانَہاہل تَہَامَہ اور دوسرے قبائل میں سے بےشمار لوگوں نے ان کی ہاں میں ہاںملائی اور ریاست مدینہ پر شب خون مارنے کی ہر طرف سے یقین دہانی کروائی اور یقین دہانی ہی نہیں کروائی بلکہ شمولیت بھی کی۔(کتاب المغازی، جلد 1، صفحہ 110-111 ،بدر القتال، عالم الکتب بیروت 1984ء)(ماخوذ از دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ ،جلد6،صفحہ436، ناشر بزم اقبال لاہور 2022ء)
کفار کی ان تیاریوں کی جو وہ جنگ کیلئے کر رہے تھے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہو گئی جس کی تفصیل اس طرح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کی ان جنگی تیاریوں اور جوش و خروش کی اطلاع آپؐکے چچا حضرت عباسؓ نے بھیجی جو مکہ میں تھے۔ حضرت عباسؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ایک خط کے ذریعہ دی تھی جو انہوں نے بَنُو غِفَار کے ایک شخص کے ہاتھ بھیجا تھا۔ حضرت عباسؓ نے اس شخص کو خط لے جانے کیلئے اجرت پر تیار کیا تھا اور اس سے یہ شرط کی تھی کہ وہ تین دن رات مسلسل سفر کر کے مدینہ پہنچے اور آپؐ کو یہ خط حوالے کر دے۔ چنانچہ اس نے دن رات سفر کیا اور تیسرے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت قبا میں تھے جب اس شخص نے یہ خط آپؐ کو پہنچایا تو آپؐنے اسکی مہر توڑی اور اسکے بعد اُبَی بن کعب کو خط دے کر سنانے کیلئے کہا۔ ابی بن کعب نے خط آپؐ کو سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُبَی سے اس خط اور خبر کو چھپانے کیلئے فرمایا۔ (ماخوذ از سیرۃ الحلبیہ، جلد2 ،صفحہ296، دارالکتب العلمیۃ)
ایک دوسری جگہ ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود سعد بن ربیع کے گھر تشریف لے گئے اور ان کو حضرت عباسؓ کے خط کے بارے میں بتایا اور فرمایا مجھے بھلائی کی امید ہے تم اس خبر کو مخفی رکھنا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد کے گھر تشریف لائے تھے تو ان کی اہلیہ ان کے پاس آئیں اور کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے؟ گھر کے اندر سے سن رہی تھیں جو باتیں ہوئیں۔ سعد نے کہا تمہیں اس سے کیا؟ اس نے کہا میں نے ساری باتیں سن لی ہیں اور جب اس نے یہ سب کچھ بتا دیا تو سعد نے کہا انا للّٰہ۔ پھر کہا میرا خیال نہ تھا کہ تم ہماری باتیں سن رہی ہو گی۔ وہ اپنی بیوی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور اس کا معاملہ آپؐ کو سنایا اور عرض کیا: یا رسول اللہؐ! مجھے ڈر ہوا کہ کہیں بات لوگوں میں پھیل جائے اور آپؐسمجھیں کہ میں نے یہ راز افشا کیا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مجھے راز پوشیدہ رکھنے کا فرمایا تھا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ٹھیک ہے جانے دو۔(سبل الھدیٰ و الرشاد ،جلد 4، صفحہ 182-183، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1993ء)
اب اس عورت کو تنبیہ بھی کر دی ہو گی۔ ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ احتیاطی تدبیر اختیار کی جبکہ دوسری طرف یہود مدینہ اور منافقین نے مشہور کر دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی اچھی خبر موصول نہیں ہوئی۔ اس طرح ان منافقین اور دشمنوں کو خبث باطن کے اظہار اور طعن و تشنیع کا ایک اَور موقع مل گیا۔ انہوں نے اس خبر میں رنگ آمیزی کر کے اسے خوب پھیلایا اور اسلام کے ماننے والوں کو اپنی طرف سے خوفزدہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اسی طرح یہ خبر مدینہ کے اطراف و اکناف میں پھیل گئی اور ہر ایک چوکنا ہوگیا۔ ہر طرف یہی شور و غوغا تھا کہ مشرکین مکہ پھر جنگ کیلئے آ رہے ہیں۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، جلد 6،صفحہ 443، ناشر بزم اقبال لاہور 2022ء)
علامہ ابن عبدالبر کا بیان ہے کہ حضرت عباسؓ مشرکوں کی خبریں لکھ کر آپؐکی طرف ارسال کر رہے تھے۔ مکی مسلمان عباسؓ کو اپنا سہارا خیال کرتے تھے جبکہ عباسؓ چاہتے تھے کہ میں مدینہ میں آپؐکے پاس چلا جاؤں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لکھا کہ آپؓ کا مکہ میں رہنا زیادہ بہتر ہے۔ حضرت عباسؓ کی ارسال کردہ خبریں بڑی تفصیلی ہوتی تھیں۔ ایک خط میں وہ لکھتے ہیں کہ قریش کا لشکر آپؐکی طرف روانہ ہو چکا ہے ان کے پہنچنے تک ان سے مقابلے کی حتی المقدور تیاری کر لیجیے۔ یہ کُل تین ہزار کا لشکر ہے جس کے آگے دو سو گھڑ سوار ہیں ان میں سات سو زرہ پوش ہیں اور تین ہزار اونٹ ہیں اور وہ اپنا تمام تر اسلحہ ساتھ لا رہے ہیں۔(السیرۃ النبویۃ،از علی محمد صلابی،مترجم جلد2، صفحہ561 ،مطبوعہ دارالسلام)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت عباس ؓکی اطلاع کا ذکر کرتے ہوئے اس طرح لکھا ہے کہ’’جس تجارتی قافلہ کا ذکر جنگ بدر کے حالات میں گزر چکاہے اسکے منافع کاروپیہ جس کی مالیت پچاس ہزار دینار تھی رؤسائے مکہ کے فیصلہ کے مطابق ابھی تک دارالندوہ میں مسلمانوں کے خلاف حملہ کرنے کی تیاری کے واسطے محفوظ پڑا تھا۔ اب اس روپے کو نکالا گیا اوربڑے زورشور سے جنگ کی تیاری شروع ہوئی۔ مسلمانوں کواس تیاری کاعلم بھی نہ ہوتا اورلشکر کفار مسلمانوں کے دروازوں پرپہنچ جاتا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیدار مغزی نے تمام ضروری احتیاطیں اختیار کررکھی تھیں یعنی آپؐ نے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلبؓ کوجو دل میں آپؐکے ساتھ تھے مکہ میں ٹھہرے رہنے کی تاکید کررکھی تھی اوروہ قریش کی حرکات وسکنات سے آپؐکو اطلاع دیتے رہتے تھے۔ چنانچہ عباس بن عبدالمطلبؓ نے اس موقعہ پر بھی قبیلہ بنوغفار کے ایک تیزرو سوار کو بڑے انعام کا وعدہ دے کر مدینہ کی طرف روانہ کیا اور ایک خط کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوقریش کے اس ارادے سے اطلاع دی اوراس قاصد کوسخت تاکید کی کہ تین دن کے اندر اندر آپؐکو یہ خط پہنچا دے۔ جب یہ قاصد مدینہ پہنچا تواتفاق سے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے حوالی قُباء‘‘ یعنی قریب کی جگہ ’’میں تشریف لے گئے ہوئے تھے۔ چنانچہ یہ قاصد آپؐکے پیچھے وہیں قُباء میں پہنچا اور آپؐکے سامنے یہ بندخط پیش کر دیا۔ آپؐنے فوراً اپنے کاتب خاص اُبَی بن کعب انصاریؓ کویہ خط دیا اور فرمایا کہ اسے پڑھ کر سناؤ کہ کیا لکھا ہے۔ اُبَی نے خط پڑھ کر سنایا تواس میں یہ وحشت ناک خبردرج تھی کہ قریش کاایک جرار لشکر مکہ سے آ رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خط سن کر اُبَی بن کعبکوتاکید فرمائی کہ اسکے مضمون سے کسی کو اطلاع نہ ہو۔‘‘(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ 482-483)
بہرحال یہ لشکر روانہ ہوا اور اس کی تفصیل میں مزیدلکھا ہے کہ قریش کا لشکر 5؍شوال کو مکہ سے نکلا۔(سبل الہدیٰ والرشاد، جلد 4، صفحہ 183، دار الکتب العلمیۃ)
اس جنگ میں قریش کی قیادت ابوسفیان کے ہاتھ میں تھی۔ شاہسواروں کا نگران خالد بن ولید تھا اور عَلَمبردار بنو عبدالدَّار تھے۔ نیز بھالے اٹھائے ہوئے، زرہیں پہنے، ڈھالیں تھامے اور تیر کمان ساتھ لیے اپنے سینوں کو جوش انتقام سے بھر کرتین ہزار جنگجو افراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کیلئے مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔
ان میں سے دو ہزار نو سو قریش اور ان کے موالی اور دیگر قبائل میں سے تھے جبکہ سو کنانہ قبائل میں سے تھے۔ سات سو زرہیں، دو سو گھوڑے اور تین ہزار اونٹ ہمراہ لیے تھے جیسا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ راستے میں کھانے کیلئے ذبح کیے جانے والے اونٹ اس کے علاوہ تھے۔ بجانے کیلئے دف اور پینے کیلئے خاص مقدار میں شراب بھی ساتھ اٹھائی۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ، جلد6،صفحہ441، ناشر بزم اقبال لاہور 2022ء)(غزوہ احد از محمد احمد باشمیل، صفحہ 75)
پھر ایک سیرت کی کتاب میں لکھا ہے کہ قریش نے حضرت عباسؓ کو اپنے ساتھ اس جنگ میں لے جانے کی کوشش کی مگر عباسؓ نے عذر کر دیا اور قریش کی اس لاپرواہی کا ذکر کیا جو جنگ بدر کے موقع پر ان کے ساتھ کی گئی تھی کہ وہ گرفتار ہوئے تھے کسی نے ان کی رہائی میں ان کی مدد نہیں کی۔ (سیرت الحلبیہ ،جلد 2، صفحہ 296، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
بہت سی عورتوں نے بھی جوش انتقام میں جنگ میں مَردوں کے ہمراہ جانے کیلئے اصرار کیا۔اس پر ایک شخص نے مجلس مشاورت میں کہا کہ ہم سروں پر کفن باندھ کر جا رہے ہیں۔ اگر اپنے مقتولوں کا بدلہ نہ لے سکے تو زندہ واپس نہیں آئیں گے۔ اس لیے عورتوں کا ساتھ ہمارے لیے مفید ثابت ہو گا۔ یہ ہمارے جوش کو ابھاریں گی اور ہمیں بدر کے واقعات یاد دلا کر آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کریں گی۔
نوفل بن معاویہ دِیْلِی نے کہا یہ خواتین ہماری عزت و آبرو ہیں اگر ہمیں شکست ہو گئی تو ان کی بےحرمتی سے ہمارا وقار خاک میں مل جائے گا۔ مختلف رائیں سامنے آئیں۔ ابوسفیان کی بیوی ہند بھی اس موقع پر موجود تھی۔ جب یہ دونوں طرح کی رائیں مردوں کی طرف سے آگئیں تو یہ عورت بولی کہ اے لوگو! اس بات سے نہ گھبراؤ کہ تم زندہ بچ کر نہیں آ سکو گے۔ تم لوگ بدر سے بھی بحفاظت واپس آ گئے تھے اور تم نے اپنی خواتین کو بھی دیکھ لیا تھا۔ تم ہمیں اس جنگ میں ساتھ جانے سے منع نہیں کر سکتے۔ یہی غلطی تم نے بدر میں کی تھی جب تم لوگوں نے اپنی خواتین کو واپس لوٹا دیا تھا۔ اگر یہ خواتین معرکۂ بدر کے وقت تمہارے ساتھ موجود ہوتیں تو تم لوگوں کو غیرت دلا کر آگے بڑھاتیں۔ افسوس! بدر کے میدان میں ہمارے پیارے عزیز دشمنوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ (حیات محمد ﷺ از محمد حسین ہیکل، صفحہ379،مکتبہ بک کارنر جہلم)
بہرحال قریش کے سرداروں نے ہند کی بات سے اتفاق کیا اور وہ عورتوں کو لشکر کے ساتھ لے جانے پر راضی ہو گئے۔ فوج کے ساتھ جانے والی عورتوں کی تعداد پندرہ بیان کی گئی ہے (غزوہ احد از محمد احمد باشمیل، صفحہ 76)جن میں ابوسفیان نے اپنی بیوی ہند بنت عتبہ کو شامل کیا۔اسی طرح عکرمہ بن ابی جہل نے اپنی بیوی ام حکیم بنت حارث بن ہشام کو ساتھ لیا۔اورحارث بن ہشام نے اپنی بیوی فاطمہ بنت ولید کو ساتھ لیا۔اور صفوان بن امیہ نے اپنی بیوی بَرْزَہ بنت مسعود کو ساتھ لیا جو عبداللہ بن صفوان کی ماں تھیں۔ ابن اسحاق نے کہا ہے کہ عمرو بن عاص اپنی بیوی رَیْطَہ بنت مُنَبِّہ کے ساتھ نکلا اور طلحہ بن ابی طلحہ نے اپنی بیوی سُلَافَہ بنت سعد کو ساتھ لیا۔ یہ طلحہ کے بیٹوں مُسَافِعْ اور جُلَاس اور کِلَاب کی ماں تھی اور یہ سب اُحد کے دن قتل ہوئے تھے۔اور خُنَاس بنت مالک جو قبیلہ بنو مالک میں سے تھی اپنے بیٹے ابی عزیز بن عُمَیر کے ساتھ ہوئی۔ یہ حضرت مصعب بن عمیرؓ کی ماں تھیں۔اور عَمْرَہ بنت عَلْقَمَہ جو قبیلہ بنو حارث میں سے تھی وہ بھی لشکر کے ساتھ ہوئی۔
جنگ کے دوران ہند بنت عتبہ جب وحشی کے پاس آتی یا وحشی اس کے پاس آتا تو یہ اس سے کہتی کہ اَبُو دَسْمَہ،یہ وحشی کی کنیت ہے کہ ایسا کام کرنا جس سے ہمارے دلوں کو آرام پہنچے۔ یہ حبشی غلام تھا۔ وحشی کے پاس ایک نیزہ تھا جو بہت کم خطاکرتا تھا اور جس کے لگ جاتا تھا اس کو زندہ نہیں چھوڑتا تھا۔ وحشی جُبَیر بن مُطْعِم کا غلام تھا۔ اس نے وحشی کو بلا کر کہا کہ تُو بھی لشکر کے ساتھ جا اور اگر تُو نے حمزہ کو شہید کر دیا یا مار دیا تو میں تجھے آزاد کر دوں گا کیونکہ حمزہ نے میرے چچا طُعَیْمَہ بن عدی کو قتل کیا ہے۔
اس لشکر نے مدینہ کے مقابل پر احد کے میدان میں بطن سَبَخَہ میں وادی قَنَاۃ کے کنارے پر واقع جبل عَیْنَیْن پر ڈیرہ ڈالا ۔ سَبَخَہ بھی مدینہ میں جبل عینین اور جُرْفْ کے پاس کی جگہ ہے اور جرف مدینہ سے تین میل شمال کی جانب ایک جگہ ہے اور عینین احد کی ایک پہاڑی کانام ہے۔ احد کے اور اس کے درمیان ایک وادی ہے اور قَنَاۃ مدینہ اور احد کے درمیان مدینہ کی تین مشہور وادیوں میں سے ایک وادی ہے۔(السیرۃ النبویہ لابن ہشام، صفحہ 522،دارالکتب العلمیۃ بیروت)(فرہنگ سیرت، صفحہ87،146، 216، 239زوار اکیڈمی کراچی) (سیرۃ الحلبیہ، جلد 2، صفحہ 296، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
یہ اس کا محل وقوع ہے۔جنگ کی تفصیلات کے بارے میں مزیدلکھا ہے کہ حضرت عباسؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لشکر قریش کے متعلق معلومات فراہم کیں اور عمرو بن سالم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین مکہ کی روانگی کی اطلاع پہنچائی۔ اس پر ابوسفیان حواس باختہ ہوگیا،اس کو پتہ لگ گیا۔ ہوا یوں کہ عمرو بن سالم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مقام ذی طُوٰی سے لشکر قریش سے علیحدہ ہو کر جلدی جلدی مدینہ پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لشکر کفار کی چڑھائی کی خبر دی۔ عمرو بن سالم کا یہ دستہ مدینہ سے واپسی پر ابواءکے مقام پر ابوسفیان کے لشکر سے رات کے وقت آگے نکل گیا ۔یعنی وہ وہاں تھے تو ان کو کراس کر گیا۔ صبح ہوئی تو ابوسفیان مکہ کی طرف واپس چلا گیا۔ ابوسفیان کو رستے میں بتایا گیا کہ عمرو بن سالم اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ وقت شب مکہ کی طرف نکل گیا ہے۔ ابوسفیان گھبراتے ہوئے بولا: میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ ضرور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں جا کر اسے ہماری پیش قدمی کی اطلاع دے کر آیا ہے۔ اس نے اسے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے متعلق تمام معلومات فراہم کر دی ہیں اور اسے پہلے سے ہی چوکنا کر دیا ہے۔ اب ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی مسلمان خود کو قلعوں میںمحفوظ کر چکے ہوں گے۔ اس طرح تو ہم ان کا کوئی نقصان نہیں کر سکیں گے اور نہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے۔ صفوان بن امیہ فوری بولا کہ اگر وہ قلعوں سے باہر میدان میں ہمارے ساتھ مقابلے کیلئے نہ نکلیں گے تو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اوس اور خزرج کی کھجوروں کے باغ کاٹ لیں گے جس کا وہ کبھی ازالہ نہیں کر سکیں گے اور وہ اپنے مال و غلہ سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور اگر وہ صحرا میں لڑائی کیلئے قلعوں سے باہر آ نکلے تو بھی پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہماری تعداد ان کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ہمارے اسلحے سے بھی ان کے اسلحہ کا کوئی جوڑ نہیں۔ ان کے پاس گھوڑے نہیں ہمارے پاس تو بہت گھوڑے ہیں۔ ہم جنگ میں ان کا جانی اور مالی نقصان کرنے کی طاقت رکھتے ہیں جبکہ وہ ہم سے یوں نہیں لڑ سکتے۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، جلد 6، صفحہ 443-444 ،ناشر بزم اقبال لاہور 2022ء)
یہ انہوں نے اپنا خیال ظاہر کیا ہے۔ بہرحال مدینہ کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے قریش نے جب اَبْوَاء مقام پر پڑاؤ ڈالا تو ہند بنت عتبہ نے ابوسفیان کو کہا کہ تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کی قبر کو کھود ڈالو کیونکہ ان کی قبر اَبْوَاء میں ہے۔ اگر وہ تمہارے کسی ایک آدمی کو قید کریں تو تم ہر شخص کے فدیہ میں ان کی والدہ کا ایک عضو دے دینا۔ عجیب شیطانی مشورہ تھا۔ ابوسفیان نے یہ بات قریش کو کہی اور کہا یہ ایک رائے ہے تو قریش نے جواب دیا کہ تم اس دروازے کونہ کھولو ورنہ بَنُو بِکر ہمارے مُردوں کی قبریں کھودیں گے۔ (سبل الھدیٰ و الرشاد، جلد4 ،صفحہ183،دارالکتب العلمیۃ)
یہ بڑی خطرناک رائے ہے یہ نہ مانو۔ بہرحال یہ لوگ راستے میں جہاں بھی پڑاؤ کرتے وہاں اونٹ ذبح کیے جاتے ۔خواتین شعر پڑھ کر خوب گرماتیں۔ شراب سے بھرے جام پیش کرتیں۔ مرثیے پڑھ کر خود بھی آہ و فغاں کرتیں،دوسروں کو بھی ڈراتیں اور جوش انتقام دلاتیں۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ، جلد6 ،صفحہ441، ناشر بزم اقبال لاہور 2022ء)
کفار کا یہ قافلہ اسی طرح آگے بڑھتا رہا ۔اور دوسری طرف مسلمان بھی اپنے طور پر تیاری میں تھے۔اس بارے میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فَضَالَہ کے بیٹوں انس اور مونس کو جمعرات کی رات شوال کے پہلے عشرہ میں جاسوسی کیلئے بھیجا۔ (سبل الہدیٰ ،جلد 4 ،صفحہ 183، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
’’ غالباً اسی موقعہ پر آپؐنے مسلمانوں کی تعداد و طاقت معلوم کرنے کیلئے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ مدینہ کی تمام مسلمان آبادی کی مردم شماری کی جاوے۔چنانچہ مردم شماری کی گئی تو معلوم ہواکہ اس وقت تک کُل پندرہ سو مسلمان متنفس ہیں۔ اس وقت کے حالات کے ماتحت اسی تعداد کو بہت بڑی تعداد سمجھا گیا ۔چنانچہ بعض صحابہؓ نے تو اس وقت خوشی کے جوش میں یہاں تک کہہ دیا کہ کیا اب بھی جبکہ ہماری تعداد ڈیڑھ ہزار تک پہنچ گئی ہے ہمیں کسی کا ڈر ہو سکتا ہے؟ مگر انہی میں سے ایک صحابی کہتے ہیں کہ اسکے بعد ہم پر ایسے ایسے سخت وقت آئے کہ بعض اوقات ہمیں نماز بھی چھپ کر ادا کرنی پڑتی تھی۔ ایک موقعہ پر اس سے پہلے بھی آپؐنے مسلمانوں کی مردم شماری کروائی تھی تو اس وقت چھ اور سات سو کے درمیان تعداد نکلی تھی۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ 483)
بہرحال دونوں صحابہؓ جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر گیری کیلئے بھیجا تھا مقام عَقِیْقمیں قریش کو جاملے اور واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے اور ان کو کافروں کے لشکر کی خبر دی۔ یہ عَقِیق جو ہے اس نام کی بھی جزیرۃ العرب میں کئی وادیاں ہیں اور سب سے اہم وادی مدینہ کی وادی عقیق ہے جو مدینہ کے جنوب مغرب سے شمال مشرق تک پھیلی ہوئی ہے اور اس میں مدینہ منورہ کی ساری وادیاں آ کر شامل ہو جاتی ہیں۔ (فرہنگ سیرت، صفحہ204 ،زوار اکیڈمی کراچی)
بہرحال ان دونوں نے آ کے بتایا کہ ان کفار کے لشکر نے اپنے اونٹ اور گھوڑے مقام عُرَیض کی کھیتی میں چھوڑے ہیں۔ عُرَیض بھی مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک نخلستان ہے۔ (سیرت انسائیکلوپیڈیا، جلد6،صفحہ 65-66)
انہوں نے وہاں کوئی سبزہ نہیں چھوڑا سب کچھ چر گئے ہیں۔ مشرکین بدھ کے دن وادی قَنَاۃ پر اترے۔جمعرات اور جمعہ کے دن ان کے اونٹ اس وادی کا سبزہ کھاتے رہے۔ انہوں نے کوئی سبزہ نہ چھوڑا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُبَاب بن مُنْذِرؓ کو بھی ان کی طرف بھیجا۔ انہوں نے ان کو دیکھا اور لَوٹ آئے اور ان کی تعداد اور سامان کا اندازہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کی حالت کسی کو نہ بتانا۔ حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ۔ اَللّٰهُمَّ بِكَ أَجُوْلُ وَبِك أَصُوْلُ ۔ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے۔اے اللہ!تیرے ساتھ ہی میں چکر لگاتا ہوں اور تیرے ساتھ ہی میں حملہ کرتا ہوں۔ اور اوس اور خزرج کے سرداروں حضرت سعد بن معاذؓ، حضرت اُسَید بن حُضَیرؓ اور حضرت سعد بن عُبَادہؓ نے مشرکین کے رات کے حملے کے خطرے کی وجہ سے جمعہ کی رات کو ہتھیاروں سے لیس ہو کر مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پرگزاری اور مدینہ کا بھی صبح تک پہرہ دیا۔(سبل الھدیٰ والرشاد، جلد4 ،صفحہ 183-184، دارالکتب العلمیۃ بیروت)(سیرۃ الحلبیہ، جلد2 ،صفحہ297، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
مشرکین مکہ کے لشکر نے مسلمانوں کے مدینہ سے خروج سے قبل وادی قُنَاۃ کی نمکین اور دلدلی زمین پر پڑاؤ کیا تھا (ماخوذ از غزوہ احد از محمد احمد باشمیل، صفحہ 97)
مدینہ منورہ کے مشرق اور مغرب اور جنوب میں کھجور کے گھنے باغ تھے ان میں سے گزرتے ہوئے کسی بستی یا محلے پر حملہ آسان نہیں تھا کیونکہ باغوں میں دشمن کا صرف ایک ایک آدمی بمشکل آگے بڑھ سکتا تھا۔ اس صورت میں حملہ آور بآسانی مارے جاتے۔ صرف شمال سے حملہ ہو سکتا تھا اس لیے قر یش نے شمالی اور مغربی جانب پڑاؤ ڈالا تھا ۔پھر پوری آبادی ایک مقام پر نہ تھی بلکہ پہاڑوں کے درمیان وسیع میدان میں بکھری ہوئی بستیاں یا محلے آباد تھے۔ بعض قبائل نے اپنی زمینوں اور باغوں کے پاس آبادی کا انتظام کر لیا تھا اور کئی دو منزلہ گڑھیاں بنا لی گئی تھیں۔وہ ہر خطرے کے وقت بچوں اور عورتوں کو گڑھیوں کی بالائی منزل پر پہنچا دیتے اور خود فارغ البال ہو کر حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے۔ (غزواۃ النبیﷺ از مولانا ابو الکلام آزاد، صفحہ 63-64)
ایک اَور سیرت نگار لکھتا ہے کہ دشمن کی فوج نے مسلمانوں کی فوج کے درمیان اور مدینہ کے درمیان جس میں منافقین، یہود اور جنگ سے عاجز مسلمانوں اور عورتوں اور بچوں کے سوا کوئی شخص باقی نہ رہا تھا رکاوٹ ڈالتے ہوئے صبح کی۔ (ماخوذ از غزوہ احد از محمد احمد باشمیل، صفحہ 99)
حضرت مرزا بشیر احمدؓ اس کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ غالباًرمضان 3؍ہجری کے آخر یاشوال کے شروع میں قریش کالشکر مکہ سے نکلا۔لشکر میں دوسرے قبائل عرب کے بہت سے بہادر بھی شامل تھے۔ ابو سفیان سردار لشکر تھا۔ لشکر کی تعداد تین ہزارتھی جس میں سات سو زرہ پوش شامل تھے۔ سواری کا سامان بھی کافی تھا۔یعنی دو سو گھوڑے اور تین ہزار اونٹ تھے۔ سامان حرب بھی کافی وشافی تھا۔ عورتیں بھی ساتھ تھیں ہند زوجہ ابوسفیان اور عکرمہ بن ابوجہل، صفوان بن امیہ، خالد بن ولید اوردوسرے لوگوں کی بیویاں تھیں۔ یہ عورتیں عرب کی قدیم رسم کے مطابق گانے بجانے کا سامان اپنے ساتھ لائی تھیں تاکہ اشتعال انگیز اشعار گا کر اور دفیں بجا کر اپنے مردوں کو جوش دلاتی رہیں۔قریش کا یہ لشکر دس گیارہ دن کے سفر کے بعد مدینہ کے پاس پہنچا اورچکر کاٹ کر مدینہ کے شمال کی طرف احد کی پہاڑی کے پاس ٹھہر گیا۔ اس جگہ کے قریب ہی عُرَیْض کاسرسبز میدان تھا جہاں مدینہ کے مویشی چرا کرتے تھے اورکچھ کھیتی باڑی بھی ہوتی تھی۔ قریش نے سب سے پہلے اس چراگاہ پر حملہ کرکے اس میں من مانی کی اور غارت مچائی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے مخبروں سے لشکر کے قریب آجانے کی اطلاع موصول ہوئی تو آپؐ نے اپنے ایک صحابی حُبَاب بن مُنْذِرؓ کو روانہ فرمایا کہ جاکر دشمن کی تعداد اور اسکا پتہ کریں اورپھر یہ بھی آپؐنے فرما دیا کہ اگر دشمن کی طاقت زیادہ ہو اور مسلمانوں کیلئے خطرہ کی صورت ہو تو جیساکہ پہلے ذکر ہو چکا ہے آپؐنے فرمایا کہ ذکر نہیں کرنا بلکہ علیحدگی میں مجھے اطلاع دینی ہے تاکہ مسلمانوں میں بددلی نہ پھیلے۔ بہرحال حُبابؓخفیہ راستے سے گئے اور نہایت ہوشیاری سے تھوڑی دیر میں واپس آ گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری صورتحال عرض کی۔ اب لشکر کی آمد کی خبر مدینہ میں پھیل چکی تھی اور عُرَیض پر جو اِن کا حملہ تھا اس کی اطلاع بھی عام ہوچکی تھی کس طرح انہوں نے باغ اجاڑا ہے۔ گوعامۃ الناس کولشکر کفار کے تفصیلی حالات کا علم نہیں دیاگیا مگر پھر بھی یہ رات مدینہ میں سخت خوف اورخطرہ کی حالت میں گزری۔ خاص خاص صحابہؓ نے ساری رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کے اردگرد پہرہ دیا۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم. اے، صفحہ483-484)
جب جنگ احد کی تیاری کیلئے مشاورت ہوئی تو اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات میں نے ایک خواب دیکھی ہےکہ ایک گائے ہے جو ذبح کی جارہی ہے اور اپنی تلوار یعنی ذوالفقار کی دھار میں مَیں نے دندانہ پڑا دیکھا ہے۔ ایک روایت میں یہ لفظ ہے کہ میری تلوار کا دستہ ٹوٹ گیا ہے۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ میں نے دیکھا میری تلوار ذوالفقار میں دستہ کے پاس دراڑ آگئی ہے۔ یہ دونوں باتیں کسی مصیبت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ میں ایک مضبوط زرہ میں ہاتھ ڈال رہا ہوں ۔ایک روایت میں یوں ہے کہ میں ایک مضبوط زرہ پہنے ہوئے ہوں اور میں ا یک مینڈھے پر سوار ہوں۔ صحابہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپؐنے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے؟ آپؐنے فرمایا: جہاں تک گائے کا تعلق ہے تو اس سے یہ اشارہ ہے کہ میرے کچھ صحابہؓ شہید ہوں گے۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ ذبح ہونے والی گائے سے یہ تعبیر لی ہے کہ ہم میں سے کچھ شہید ہوں گے ۔اور جہاں تک میری تلوار میں دراڑ کا تعلق ہے تو اس سے یہ اشارہ ہے کہ میرے گھر والوں یا خاندان میں سے کوئی شخص قتل ہو گا۔ ایک روایت میں یہ لفظ ہےکہ میری تلوار کی دھار میں دندانوں کا مطلب ہے کہ نقصان تم لوگوںمیں سے کسی کا نہیں ہوگا یعنی غیر خاندان والوں میں سے نہیں ہوگا۔ یہاں فُلُولکا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں تلوار کی دھار کا کہیں سے کند ہو جانا یا پھر تلوار کے دستہ میں شگاف پڑنا یا اس کا ٹوٹ جانا اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ دو حادثے پیش آئیں گے۔اور مضبوط زرہ کا مطلب مدینہ ہے ۔اور مینڈھے سے مراد ہے کہ میں دشمن کے حامیوں کو قتل کروں گا۔
بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر مشورہ مانگا۔ابن عُتْبَہ،ابنِ اسحاق اور ابن سعد وغیرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خواب جمعہ کی رات کو دیکھا ۔ جب صبح ہوئی تو آپ صحابہؓ کرام کے پاس تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی۔ پھر اپنا خواب بیان کیا اور فرمایا اگر تمہاری رائے ہو تو مدینہ میں قیام کرو اور عورتوں اور بچوں کو ہم قلعوں میں پہنچا دیں۔ اگر وہ لوگ باہر ٹھہریں گے تو بری جگہ پر ٹھہریں گے اور اگر ہمارے شہر میں داخل ہوں گے تو ہم گلیوں میں ان سے لڑائی کریں گے اور ہم اِن کے راستے اُن سے زیادہ جانتے ہیں اور ٹیلوں کے اوپر سے بھی ان پر پتھراؤ وغیرہ کیا جائے گا۔ ان لوگوں نے ہر طرف سے مدینہ کو تعمیر کے ذریعہ سے محفوظ کر دیا تھا۔ مدینہ ایک قلعہ کی طرح تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو رائے دی یہی اکابر مہاجرین اور انصار کی رائے تھی اور عبداللہ بن اُبَی نے بھی یہی رائے دی۔ البتہ مسلمانوں کی ایک جماعت نے کہا جن میں اکثریت نوجوان صحابہؓ کی تھی اور یہ لوگ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے اور شہادت کے خواہش مند تھے اور دشمن سے لڑنے کے خواہاں تھے کہ یا رسول اللہؐ!آپ ہمیں لے کر مدینہ سے باہر دشمن کے پاس چلیں۔ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم بزدل ہو گئے ہیں۔ عبداللہ بن اُبَیّ نے کہا یارسول اللہؐ! مدینہ میں ٹھہریں۔ مدینہ سے باہر نہ نکلیں۔ اللہ کی قَسم! ہم جب بھی مدینہ سے باہر دشمن سے لڑے ہیں تو شکست کھائی ہے اور جب بھی مدینہ میں کوئی دشمن لڑنے آیا ہے تو ہم فتح یاب ہوئے۔(ماخوذ از سیرۃ الحلبیہ، جلد2 ،صفحہ297-298، دارالکتب العلمیۃ بیروت)( سبل الہدیٰ، جلد4 ،صفحہ 185، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حمزہ بن عبدالمطلبؓ، سعد بن عُبادہؓ اور نُعمان بن مالکؓ نے بھی کہا یا رسول اللہ ؐ!ہمیں یہ ڈر ہے کہ اگر ہم مدینہ سے باہر نہ نکلے تو دشمن یہ سمجھے گا کہ ہم ان سے لڑنے سے بزدل ہو گئے ہیں اس وجہ سے باہر نہیں نکلے تو اس وجہ سے ان کی ہمارے خلاف جرأت بڑھے گی اور بدر میں آپؐ تین سو افراد کے ساتھ تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ان پر فتح دی اور آج ہم کثیر تعداد میں ہیں۔
اِیَاسبن اَوْسبن عَتِیکؓنے کہا بَنُوعَبْدُ الْاَشْہلیہ امید کرتے ہیں کہ ذبح کی ہوئی گائے ہم لوگ ہوں۔جو خواب میں دیکھا تھا کہ گائے ذبح کی جا رہی، انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ گائے ہم ہوں۔اور ان کے علاوہ دوسروں نے کہا یہ دو اچھائیوں میں سے ایک ہے ،کامیابی یا شہادت۔ اللہ کی قسم! عرب یہ لالچ نہ کریں کہ وہ ہمارے گھروں میں داخل ہو جائیں گے۔ حضرت حمزہؓ نے کہا اس کی قَسم جس نے آپؐپر کتاب نازل کی! میں آج کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک مدینہ سے باہر نکل کر میں اپنی تلوار سے ان کے ساتھ نہ لڑوں۔چنانچہ وہ جمعہ اور ہفتہ کے دن روزے سے رہے اور جب شہید ہوئے تو وہ روزہ سے تھے۔ (کتاب المغازی للواقدی، جلد 1، صفحہ 194)
نعمان بن مالک ؓنے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ!ہمیں جنت سے محروم نہ کریں۔ اس کی قَسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! میں جنت میں ضرور داخل ہوں گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیونکر؟ اس نے کہا کیونکہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور ایک روایت میں ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور بیشک محمد اللہ کے رسول ہیں اور میں جنگ کے دن نہیں بھاگوں گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تُو نے سچ کہا ہے۔ وہ اس جنگ میں شہید ہو گئے۔ مَالِک بن سِنَان خُدْرِی اور اِیَاس بن عَتِیک اور ایک جماعت نے لڑائی کیلئے نکلنے پر خوب ترغیب دلائی۔(سبل الھدیٰ والرشاد، جلد4 ،صفحہ 186،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی سیرت خاتم النبیینؐ میں اس کی تفصیل لکھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جمع کر کے ان سے قریش کے حملہ کے متعلق مشورہ مانگا کہ آیا مدینہ میں ہی ٹھہرا جائے یا باہر نکل کے مقابلہ کیا جائے۔ مشورہ سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے حملے اوران کے خونی ارادوں کاذکر فرمایا اور فرمایا کہ آج رات میں نے خواب بھی دیکھی ہے اور پھر وہ خواب سنائی جس کا ابھی ذکر ہو چکا ہے۔ صحابہؓ کے تعبیر پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گائے کے ذبح ہونے سے تو مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے صحابہؓ میں سے بعض کاشہید ہونا مراد ہے۔اورمیری تلوار کے کنارے کے ٹوٹنے سے میرے عزیزوں میں سے کسی کی شہادت کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے یا شاید خود مجھے اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے۔اورزرہ کے اندر ہاتھ ڈالنے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حملہ کے مقابلہ کیلئے ہمارا مدینہ کے اندر ٹھہرنا زیادہ مناسب ہے۔اور مینڈھے پرسوار ہونے والے خواب کی آپؐنے یہ تاویل فرمائی کہ اس سے کفار کے لشکر کاسردار یعنی علمبردار مراد ہے جو ان شاء اللہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارا جائے گا۔ اسکے بعد آپؐنے صحابہؓ سے مشورہ طلب کیا کہ موجودہ صورت حال میں کیا کرنا چاہئے؟ اور جیساکہ پہلے ذکر ہو چکا ہے صحابہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب سے متاثر ہو کر یا ویسے حالات دیکھ کر یہی مشورہ دیا کہ مدینہ میں ٹھہر کے مقابلہ کیا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی رائے کوپسند کیا لیکن اکثر صحابہؓ نے جو خاص طور پر نوجوان تھے، جو بدر کی جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے اور اپنی شہادت سے خدمت دین کا موقع حاصل کرنے کیلئے بے تاب تھے، بڑے اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ شہر سے باہر نکل کرکھلے میدان میں مقابلہ کرنا چاہئے۔ ان لوگوں نے اس قدر اصرار کیا اور اپنی رائے پیش کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جوش کو دیکھ کران کی بات مان لی اورفیصلہ فرمایا کہ ہم کھلے میدان میں نکل کر کفار کامقابلہ کریں گے اور پھر جمعہ کی نماز کے بعد آپؐنے مسلمانوں میں عام تحریک فرمائی کہ جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے اس غزوہ میں شامل ہو کر ثواب حاصل کریں۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ 484تا485)
تو اس کی یہ باقی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گی۔
فلسطینیوں کیلئے دعائیں کرتے رہیں۔جنگ بندی ختم ہونے کے بعد پھر ان پر بلا تفریق بمباری ہو گی اور پھر معصوم شہید ہوں گے۔ کتنا ظلم ہو گا ؟اللہ بہتر جانتا ہے۔ ان کے مستقبل کے بارے میں بڑی طاقتوں کے ارادے جو ہیں وہ بڑے خطرناک ہیں۔ اس لیے ان کیلئے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔
…٭…٭…٭…