اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-26

ہجویہ اشعار کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل پر اُکسانے والے دشمنِ اسلام ابو عفک یہودی کے قتل کے واقعات کا مطالعاتی جائزہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 6؍اکتوبر2023ء بمطابق 6؍اخاء1402ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)یو.کے

اوّل تو عصماء اور ابوعَفَک یہودی کے قتل کے واقعات روایتاً اور درایتاً درست ثابت ہی نہیں ہوتے
اور اگر بالفرض انہیں درست سمجھا بھی جاوے تو وہ اُس زمانہ کے حالات کے ماتحت قابل اعتراض نہیں سمجھے جاسکتے

عصماء اور ابوعفک یہودی کے قتل کا ذکرکسی حدیث میں نہ پایا جانا بلکہ ابتدائی مؤرخین میں سے بعض مؤرخین کا بھی اسکے متعلق خاموش ہونا
اس بات کو قریباً قریباً یقینی طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ قصے بناوٹی ہیں اور کسی طرح بعض روایتوں میں راہ پاکر تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں

جس جہت سے بھی دیکھا جاوے یہ قصّے صحیح ثابت نہیں ہوتے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ
یا تو کسی مخفی دشمن اسلام نے کسی مسلمان کی طرف منسوب کر کے یہ قصے بیان کر دیئے تھے اور پھر وہ مسلمانوں کی روایتوں میں دخل پاگئے اور یا کسی کمزور مسلمان نے
اپنے قبیلہ کی طرف یہ جھوٹا فخر منسوب کرنے کیلئے کہ اس سے تعلق رکھنے والے آدمیوں نے بعض موذی کافروں کو قتل کیا تھا یہ روایتیں تاریخ میں داخل کر دیں، واللہ اعلم

یہ اللہ تعالیٰ کا شکر اور احسان ہے کہ ہمیں اس نے زمانے کے امامؑ کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی اور ہر بات کو ہم دیکھ کر، پرکھ کر
اور اس کی حقیقت کو سمجھ کر پھر بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کوئی بھی الزام اس قسم کا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر آتا ہو اس کو ردّ کرنے کی کوشش کرتے ہیں

ہجویہ اشعار کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل پر اُکسانے والے دشمنِ اسلام ابو عفک یہودی کے قتل کے واقعات کا مطالعاتی جائزہ

پروفیسر ڈاکٹر ناصر احمد خان صاحب المعروف پرویز پروازی آف کینیڈا، مکرم شریف احمد بھٹی صاحب آف ربوہ
پروفیسر عبدالقادر ڈاہری صاحب سابق امیر جماعت ضلع نوابشاہ اور پروفیسر ڈاکٹر محمد شریف خان صاحب آف امریکہ کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب

خطبہ جمعہ
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ-
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۝ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۝ مٰلكِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۝ اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ ۝
اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ۝ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ۥۙ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّیْنَ۝

عصماء کے قتل کا واقعہ جو گذشتہ خطبےمیں بیان کیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ بھی ہے۔ دوسرا واقعہ بھی محض ایک من گھڑت کہانی لگتی ہے۔ یہ دوسرا واقعہ ابوعفک یہودی کا قتل ہے۔ یہاں لکھا ہے کہ سیرت کی کتب میں ایک اَور فرضی واقعہ ابوعفک یہودی کے قتل کا بیان کیا جاتا ہے۔ اسکی تفصیل اس طرح ہے جو بیان کی جاتی ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا ۔ کون ہے جو میرے لیے اس خبیث یعنی ابوعفک سے نپٹ سکتا ہے؟ یعنی کون ہے جو اس کا کام تمام کر سکتا ہے اس کو مار سکتا ہے؟ یہ شخص یعنی ابوعفک بہت زیادہ بوڑھا آدمی تھا یہاں تک کہ کہا جاتا ہے اس کی عمر ایک سو بیس برس ہوچکی تھی مگر یہ شخص لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھڑکایا کرتا تھا اور اپنے شعروں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی اور گستاخی کیا کرتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر حضرت سالم بن عمیرؓ اٹھے۔ یہ ان لوگوں میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے بےحد رویا کرتے تھے۔ یہ غزوۂ بدر میں بھی شریک ہوئے تھے۔ غرض انہوں نے عرض کیا مجھ پر نذر یعنی منّت ہے کہ میں یا تو ابوعفک کو قتل کر ڈالوں گا اور یا اس کوشش میں اپنی جان دے دوں گا۔ چنانچہ اس کے بعد حضرت سالم بن عمیرؓ موقع کی تلاش میں رہنے لگے۔ ایک روز جبکہ رات کا وقت تھا اور شدید گرمی تھی تو ابوعفک اپنے گھر کے صحن میں سویا جو اس کے مکان کے باہر تھا۔ حضرت سالم ؓکو اس کی اطلاع ہوئی تو وہ فوراً روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر حضرت سالمؓ نے اپنی تلوار ابوعفک کے جگر پر رکھی اور اس پر پورا دباؤ ڈال دیا یہاں تک کہ تلوار اس کے پیٹ میں پار ہوکر بستر میں بندھ گئی اور ساتھ ہی خدا کے دشمن ابوعفک نے ایک بھیانک چیخ ماری۔ حضرت سالمؓ اس کو اسی حالت میں چھوڑ کر وہاں سے چلے آئے۔ ابوعفک کی چیخ سن کر فوراً ہی لوگ دوڑ پڑے اور اسکے کچھ ساتھی اسی وقت اسے اٹھا کر مکان کے اندر لے گئے مگر وہ خدا کا دشمن اس کاری زخم کی تاب نہ لا کر مر گیا۔ (السیرۃ الحلبیۃ، جلد3،صفحہ300، دارالمعرفہ بیروت 2012ء)
ایک سیرت کی کتاب میں یہ واقعہ اس طرح لکھا گیا ہے۔ لیکن یہ واقعہ بھی کسی معتبر سند سے مروی نہیں ہے۔ صحاح ستّہ میں بھی یہ مذکور نہیں۔
سیرت کی بعض کتابوں میں اس واقعہ کا تذکرہ موجود ہے جیسے سیرت الحلبیہ، شرح زرقانی، طبقات الکبریٰ لابن سعد، سیرت النبویہؐ لابن ہشام ، البدایہ والنھایہ، کتاب المغازی للواقدی اور سبل الھدیٰ والرشاد وغیرہ میں لیکن تاریخ کی اکثر کتب میں یہ واقعہ درج نہیں ہے۔ مثلاً الکامل فی التاریخ، تاریخ طبری، تاریخ ابن خلدون وغیرہ جبکہ تاریخ کی بعض کتب جیسا پہلے بیان ہوا ہے مثلاً تاریخ الخمیس میں یہ واقعہ درج ہے۔
اس واقعہ کے متعلق بھی واقعہ عصماء کی طرح یہ شہادت بیان کی جاتی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت اور دشمنی میں لوگوں کو ابھارا کرتا تھا۔ جنگِ بدر کے بعد یہ بغض و حسد میں مزید بڑھ گیا اور کھلم کھلا باغی ہوگیا۔
قتل ابوعفک والی روایت کے اندرونی تضادات بھی اس واقعےکو مشتبہ کر دیتے ہیں مثلاً نمبر ایک قاتل میں اختلاف۔ ابن سعد اور واقدی کے نزدیک ابوعفک کے قاتل سالم بن عمیر تھے جبکہ بعض دیگر روایات میں سالم بن عمر کا ذکر ہے جبکہ ابن عُقبہ کے نزدیک سالم بن عبداللہ بن ثابت انصاری نے اسے قتل کیا۔ دوسرے یہ کہ قتل کے سبب میں اختلاف ہے۔ ابن ہشام اور واقدی کے نزدیک سالم نے خود جوش میں آ کر اسے قتل کیا جبکہ بعض روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے قتل کیا گیا۔(شرح زرقانی، جزء2،صفحہ347، دارالکتب العلمیۃ بیروت1996ء)(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، صفحہ887، دارالکتب العلمیۃ بیروت2001ء ) (کتاب المغازی للواقدی، جلد1، صفحہ 163،دارالکتب العلمیۃ 2013ء)(سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ،جلد 6، صفحہ 23، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
ابن ہشام نے اس طرح لکھا ہے۔ ایک تیسری بات مذہب کے اختلاف کے بارے میں ہے۔ ابن سعد کے نزدیک ابوعفک یہودی تھا جبکہ واقدی کے نزدیک یہ یہودی نہیں تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد 2، صفحہ 21، دارالکتب العلمیۃ بیروت1990ء) ( کتاب المغازی للواقدی، جلد 1، صفحہ 163،دارالکتب العلمیۃ2013ء)
پھر زمانہ قتل میں بھی اختلاف ہے۔ واقدی اور ابن سعد کے نزدیک یہ واقعہ عصماء بنت مروان کے قتل کے بعد کا واقعہ ہے جبکہ ابن اسحاق اور ابن ہشام وغیرہ کے نزدیک یہ واقعہ عصماء کے قتل سے پہلے کا ہے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد 2، صفحہ21-20، دارالکتب العلمیۃ بیروت1990ء) ( کتاب المغازی للواقدی، جلد1، صفحہ161، 163، دارالکتب العلمیۃ2013ء) (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، صفحہ 886- 887، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء )
ان واضح اختلافات سے بھی ظاہر ہے کہ یہ محض بناوٹی اور جعلی قصہ ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر بفرض محال ابوعفک کا قتل ہونا مان بھی لیا جائے تو اس کے دیگر جرائم سربراہ مملکت کو قتل کرنے پر اکسانا، ہجویہ شعر کہہ کر جنگ پر ابھارنا، امنِ عامہ کو خطرے میں ڈالنا اور جنگ کی آگ بھڑکانا ہی سزائے موت کیلئے کافی ہیں جن پر آج کل بھی سزائے موت دی جاتی ہے جب حکومت کے خلاف بغاوت ثابت ہوجائے۔ محض گالیاں دینا اس قتل کی وجہ نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح عصماء کے واقعہ کی طرح یہاں بھی ابوعفک کے قتل کے بعد یہود کا کوئی ردّعمل ثابت نہیں ہے۔
اس کے قتل پہ یہود کا کوئی ردّعمل ہونا چاہیے تھا لیکن کوئی ردّعمل ثابت نہیں ہے۔ پس ان کا خاموش رہنا اس واقعےکے فرضی ہونے پر دلیلِ قاطعہ ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ان واقعات کا زمانہ جنگِ بدر سے قبل یا معاً بعد کا بیان کیا جاتا ہے کہ فوری پہلے ہوا ہے یا پہلے تھا یا فوری طور پر ہوا اور جملہ مؤرخین کا اتفاق ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں کی پہلی مخاصمت غزوۂ بنو قینقاع ہے۔ اگر بدر سے پہلے بھی کوئی واقعہ ہوتا تو اس کے ذیل میں ضرور ذکر کرتے کہ اس طرح یہ واقعہ ہوا ہے اور یہود ابوعفک اور عصماء کے قتل کے واقعات کی بنا پر بجا طور پر مسلمانوں پر یہ اعتراض کر سکتے تھے کہ مسلمانوں نے عملی چھیڑ چھاڑ میں ان سے پہل کی ہے لیکن کہیں یہ ذکر نہیں ملتا کہ مدینے کے یہود نے ان واقعات کو لے کر کبھی کوئی ایسا سوال اٹھایا ہو۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے عصماء اور ابوعفک کے قتل کے فرضی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں جو بیان فرمایا ہے وہ اس طرح ہے کہ ’’جنگ بدر کے حالات کے بعد واقدی اور بعض دوسرے مؤرخین نے دو ایسے واقعات درج کئے ہیں جن کا کتبِ حدیث اور صحیح تاریخی روایات میں نشان نہیں ملتا اور درایتاً بھی غور کیا جائے تو وہ درست ثابت نہیں ہوتے مگر چونکہ ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک ظاہری صورت اعتراض کی پیدا ہوجاتی ہے اس لئے بعض عیسائی مؤرخین نے حسب عادت نہایت ناگوار صورت میں ان کا ذکر کیا ہے۔ یہ فرضی واقعات یوں بیان کئے گئے ہیں کہ مدینہ میں ایک عورت عصماء نامی رہتی تھی‘‘ عصماء کا دوبارہ یہاںذکر آ رہا ہے۔’’جو اسلام کی سخت دشمن تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہت زہر اگلتی رہتی تھی اور اپنے اشتعال انگیز اشعار میں لوگوں کو آپؐکے خلاف بہت اکساتی تھی اور آپؐکے قتل پر ابھارتی تھی۔ آخر ایک نابینا صحابی عُمیر بن عدیؓ نے اشتعال میں آکر رات کے وقت اس کے گھر میں جبکہ وہ سوئی ہوئی تھی اسے قتل کر دیا اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپؐنے اس صحابی کو ملامت نہیں فرمائی بلکہ ایک گونہ اس کے فعل کی تعریف کی۔‘‘ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ فعل کی تعریف کی۔ اسکا یہ مطلب نہیں کہ حقیقت میں کی۔ یہ واقعہ ہے جو بیان کیا جاتا ہے جس کا غلط ہونا پہلے میں ثابت کر چکا ہوں۔’’دوسرا واقعہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک بڈھا یہودی ابوعفک نامی مدینہ میں رہتا تھا۔ یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اشتعال انگیز شعر کہتا تھا اور کفار کو آپؐکے خلاف جنگ کرنے اور آپؐکو قتل کر دینے کیلئے ابھارتا تھا۔ آخر ایک دن اسے بھی ایک صحابی سالم بن عُمیؓر نے غصہ میں آکر رات کے وقت اسکے صحن میں قتل کر دیا۔‘‘ یہ بیان کیا جاتا ہے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓلکھتے ہیں کہ ’’واقدی اور ابن ہشام نے بعض وہ اشتعال انگیز اشعار بھی نقل کئے ہیں جو عَصْماء اور ابوعفک نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کہے تھے۔ ان دو واقعات کو سرولیم میور وغیرہ نے نہایت ناگوار صورت میں اپنی کتابوں کی زینت بنایا ہے۔‘‘ یہ جو مستشرقین ہیں انہوں نے ان کو لے کے بہانہ بنایا کہ دیکھو کتنے ظلم ہوئے۔’’مگر حقیقت یہ ہے کہ جرح اور تنقید کے سامنے یہ واقعات درست ثابت ہی نہیں ہوتے۔
پہلی دلیل جو ان کی صحت کے متعلق شبہ پیدا کرتی ہے یہ ہے کہ کتب احادیث میں ان واقعات کا ذکر نہیں پایا جاتا۔ یعنی کسی حدیث میں قاتل یا مقتول کا نام لے کر اس قسم کا کوئی واقعہ بیان نہیں کیا گیا۔ بلکہ حدیث تو الگ رہی بعض مؤرخین نے بھی ان کا ذکر نہیں کیا حالانکہ اگر اس قسم کے واقعات واقعی ہوئے ہوتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ کتب حدیث اور بعض کتب تاریخ ان کے ذکر سے خالی ہوتیں۔ اس جگہ یہ شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ چونکہ ان واقعات سے بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐکے صحابہؓ کے خلاف ایک گونہ اعتراض وارد ہوتا تھا اس لئے محدثین اور بعض مؤرخین نے ان کا ذِکر ترک کر دیا ہوگا، کیونکہ اوّل تو یہ واقعات ان حالات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے جن میں وہ وقوع پذیر ہوئے قابل اعتراض نہیں ہیں۔‘‘ اگر دیکھا بھی جائے کہ اس طرح اشتعال کر رہا ہے، حکومت کے خلاف بھڑکا رہا ہے، تو اگر ہوئے بھی تو قابل اعتراض نہیں تھے۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ جی مؤرخین نے اس لیے یا حدیث میں اس لیے ذکر نہیں آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض آتا تھا۔ ’’دوسرے جو شخص حدیث و تاریخ کا معمولی مطالعہ بھی رکھتا ہے اس سے یہ بات مخفی نہیں ہوسکتی کہ مسلمان محّدثین اور مؤرخین نے کبھی کسی روایت کے ذکر کو محض اس بنا پر ترک نہیں کیا کہ اس سے اسلام اور بانی اسلام پر بظاہر اعتراض وارد ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا مسلّمہ طریق تھا کہ جس بات کو بھی وہ ازروئے روایت صحیح پاتے تھے اسے نقل کرنے میں وہ اسکے مضمون کی وجہ سے قطعاً کوئی تامل نہیں کرتے تھے بلکہ ان میں سے بعض محدثین اور اکثر مؤرخین کا تو یہ طریق تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐکے صحابہؓ کے متعلق جو بات بھی انہیں پہنچتی تھی خواہ وہ روایت و درایت دونوں لحاظ سے کمزور اور ناقابلِ اعتماد ہو وہ اسے دیانتداری کے ساتھ اپنے ذخیرہ میں جگہ دے دیتے تھے اور اس بات کا فیصلہ مجتہد علماء پر یا بعد میں آنے والے محققین پر چھوڑ دیتے تھے کہ وہ اصول روایت و درایت کے مطابق صحیح و سقیم کا خود فیصلہ کر لیں اور ایسا کرنے میں ان کی نیت یہ ہوتی تھی کہ کوئی بات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐکے صحابہؓ کی طرف منسوب ہوتی ہے خواہ وہ درست نظر آئے یا غلط وہ جمع ہونے سے نہ رہ جاوے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی ابتدائی کتابوں میں ہر قسم کے رطب و یابس کا ذخیرہ جمع ہوگیا ہے مگر اسکے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ سب قابلِ قبول ہیں بلکہ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ان میں سے کمزور کو مضبوط سے جدا کر دیں۔
بہرحال اس بات میں ذرہ بھر بھی گنجائش نہیں کہ کسی مسلمان محدث یا مؤرخ نے کبھی کسی روایت کو محض اس بنا پر ردّ نہیں کیا کہ وہ بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہؓ کی شان کے خلاف ہے یا یہ کہ اسکی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا اسلام پر کوئی اعتراض وارد ہوتا ہے۔ چنانچہ کعب بن اشرف اور ابو رافع یہودی کے قتل کے واقعات جو عصماء اور ابوعفک کے مزعومہ واقعات سے بالکل ملتے جلتے ہیں …حدیث و تاریخ کی تمام کتابوں میں پوری پوری صراحت اور تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور کسی مسلمان راوی یا محدث یا مؤرخ نے ان کے بیان کو ترک نہیں کیا۔ اندریں حالات عصماء اور ابوعفک یہودی کے قتل کا ذکرکسی حدیث میں نہ پایا جانا بلکہ ابتدائی مؤرخین میں سے بعض مؤرخین کا بھی اسکے متعلق خاموش ہونا اس بات کو قریباً قریباً یقینی طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ قصّے بناوٹی ہیں اور کسی طرح بعض روایتوں میں راہ پاکر تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔
پھر اگر ان قصّوں کی تفصیلات کا مطالعہ کیا جاوے تو ان کا بناوٹی ہونا اَور بھی یقینی ہوجاتا ہے۔ مثلاً عصماء کے قصہ میں ابنِ سعد وغیرہ کی روایت میں قاتل کا نام عُمیر بن عدی بیان کیا گیا ہے، لیکن اس کے مقابلہ میں ابن دُرَیْد کی روایت میں قاتل کا نام عمیر بن عدی نہیں بلکہ غِشْمِیْر ہے۔ سُہَیلی ان دونوں ناموں کو غلط قرار دے کر یہ کہتا ہے کہ دراصل عصماء کو اسکے خاوند نے قتل کیا تھا جس کا نام روایتوں میں یزید بن زید بیان ہوا ہے۔ اور پھر بعض روایتوں میں یہ آتا ہے کہ مذکورہ بالا لوگوں میں سے کوئی بھی عصماء کا قاتل نہیں تھا بلکہ اس کا قاتل ایک نامعلوم الاسم شخص تھا جو اسی کی قوم میں سے تھا۔ مقتولہ کا نام ابنِ سعد وغیرہ نے عصماء بنت مروان بیان کیا ہے، لیکن علامہ ابن عبدالبَرّکا یہ قول ہے کہ وہ عصماء بنت مروان نہیں تھی بلکہ دراصل عمیر نے اپنی بہن بنتِ عدی کو قتل کیا تھا۔ قتل کا وقت ابنِ سعد نے رات کا درمیانی حصہ لکھا ہے لیکن زرقانی کی روایت سے دن یا زیادہ سے زیادہ رات کا ابتدائی حصہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مقتولہ اس وقت کھجوریں بیچ رہی تھی۔‘‘یہ ساری تفصیل میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں۔
پھر’’دوسرا واقعہ‘‘ جس کا اب ذکر ہورہا ہے وہ’’ابوعفک کے قتل کا ہے۔ اس میں ابنِ سعد اور واقدی وغیرہ نے قاتل کا نام سالم بن عمیر لکھا ہے لیکن بعض روایتوں میں اسکا نام سالم بن عمرو بیان ہوا ہے۔ اور ابنِ عُقبہ نے سالم بن عبداللہ بیان کیا ہے۔ اسی طرح ابوعفک مقتول کے متعلق ابن سعد نے لکھا ہے کہ وہ یہودی تھا لیکن واقدی اسے یہودی نہیں لکھتا۔ پھر ابنِ سعد اور واقدی دونوں سے یہ پتہ لگتا ہے کہ سالم نے خود جوش میں آکر ابوعفک کو قتل کر دیا تھا، لیکن ایک روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت سے قتل کیا گیا تھا۔ زمانہ قتل کے متعلق بھی ابن سعد اور واقدی اسے عصماء کے قتل کے بعد رکھتے ہیں لیکن ابنِ اسحاق اور ابو الرَّبِیع اسے عصماء کے قتل سے پہلے بیان کرتے ہیں۔ یہ جملہ اختلافات اس بات کے متعلق قوی شبہ پیدا کرتے ہیں کہ یہ قصے جعلی اور بناوٹی ہیں یا اگر ان میں کوئی حقیقت ہے تو وہ ایسی مستور ہے‘‘ چھپی ہوئی ہے’’کہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کیا ہے اور کس نوعیت کی ہے۔
ایک اَور دلیل ان واقعات کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ ان دونوں قصّوں کا زمانہ وہ بیان کیا گیا ہے جس کے متعلق جملہ مؤرخین کا اتفاق ہے کہ اس وقت تک ابھی مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کوئی جھگڑا یا تنازعہ رونما نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ تاریخ میں غزوہ بنی قینقاع کے متعلق یہ بات مسلّم طور پر بیان ہوئی ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ پہلی لڑائی تھی جو وقوع میں آئی اور یہ کہ بنو قینقاع وہ پہلے یہودی تھے جنہوں نے اسلام کی عداوت میں عملی کارروائی کی۔ پس یہ کس طرح قبول کیا جاسکتا ہے کہ اس غزوہ سے پہلے یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان اس قسم کا کشت و خون ہوچکا تھا اور پھر اگر غزوہ بنو قینقاع سے قبل ایسے واقعات ہوچکے تھے تو یہ ناممکن تھا کہ اس غزوہ کے بواعث وغیرہ کے بیان میں ان واقعات کا ذکر نہ آتا۔‘‘ جب غزوے کی وجوہات بیان کی گئیں تو ان واقعات کا ذکر نہ آتا۔ لکھا جانا چاہئے تھا کہ اس طرح ہمارے یہ دو قتل بھی ہوئے۔ ’’کم از کم اتنا تو ضروری تھا کہ یہودی لوگ جو ان واقعات کی بنا پر مسلمانوں کے خلاف ایک ظاہری رنگ اعتراض کا پیدا کر سکتے تھے کہ انہوں نے ان کے ساتھ عملی چھیڑ چھاڑ کرنے میں پہل کی ہے ان واقعات کے متعلق واویلا کرتے۔ اگر کسی تاریخ میں حتی کہ خود ان مؤرخین کی کتب میں بھی جنہوں نے یہ قصے روایت کئے ہیں قطعاً یہ ذکر نہیں آتا کہ مدینہ کے یہود نے کبھی کوئی ایسا اعتراض کیا ہو اور اگر کسی شخص کو یہ خیال پیدا ہو کہ شاید انہوں نے اعتراض اٹھایا ہو مگر مسلمان مؤرخین نے اس کا ذکر نہ کیا ہو تو یہ ایک غلط اور بے بنیاد خیال ہوگا کیونکہ جیساکہ بیان کیا جاچکا ہے کبھی کسی مسلمان محدث یا مؤرخ نے مخالفین کے کسی اعتراض پر پردہ نہیں ڈالا۔ چنانچہ مثلاً جب سریہ نخلہ والے قصہ میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں کے خلاف اشہر حرم کی بے حرمتی کا الزام لگایا تو مسلمان مؤرخین نے کمال دیانت داری سے ان کے اس اعتراض کو اپنی کتابوں میں درج کر دیا۔ پس اگر اس موقعہ پر بھی یہود کی طرف سے کوئی اعتراض ہوا ہوتا تو تاریخ اس کے ذکر سے خالی نہ ہوتی۔ الغرض جس جہت سے بھی دیکھا جاوے یہ قصّے صحیح ثابت نہیں ہوتے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو کسی مخفی دشمن اسلام نے کسی مسلمان کی طرف منسوب کر کے یہ قصے بیان کر دیئے تھے اور پھر وہ مسلمانوں کی روایتوں میں دخل پاگئے اور یا کسی کمزور مسلمان نے اپنے قبیلہ کی طرف یہ جھوٹا فخر منسوب کرنے کیلئے کہ اس سے تعلق رکھنے والے آدمیوں نے بعض موذی کافروں کو قتل کیا تھا یہ روایتیں تاریخ میں داخل کر دیں۔ واللہ اعلم۔
یہ تو وہ اصل حقیقت ہے جو ان واقعات کی معلوم ہوتی ہے، لیکن جیسا کہ‘‘ پہلے’’…اشارہ کیا ہے اگر یہ واقعات درست بھی ہوں تو پھر بھی ان حالات کو دیکھتے ہوئے جن کے ماتحت وہ وقوع پذیر ہوئے وہ قابل اعتراض نہیں سمجھے جاسکتے۔ ان ایام میں جو نازک حالت مسلمانوں کی تھی اسکا ذکر …کیا جاچکا ہے۔ ان کا حال بعینہٖ اس شخص کی طرح ہورہا تھا جو ایک ایسی جگہ میں گِھر جاوے جس کے چاروں طرف دُور دُور تک خطرناک آگ شعلہ زن ہو اور اس کیلئے کوئی راستہ باہر نکلنے کا نہ ہو اور پھر اسکے پاس بھی وہ لوگ کھڑے ہوں جو اسکے جانی دشمن ہیں۔ مسلمانوں کی ایسی نازک حالت میں اگر کوئی شریر اور فتنہ پرداز شخص ان کے آقا اور سردار کے خلاف اشتعال انگیز شعر کہہ کہہ کر لوگوں کو اس کے خلاف اکساتا اور اسکے قتل پر دشمنوں کو ابھارتا تھا، تو اس زمانہ کے حالات کے ماتحت اس کا علاج سوائے اس کے اَور کیا ہوسکتا تھا کہ ایسے شخص کو قتل کر دیا جاتا اور پھر یہ قتل بھی مسلمانوں کی طرف سے انتہائی اشتعال کی حالت میں ہوا۔ جس حالت میں کہ معمولی قتل بھی قصاص کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ چنانچہ مسٹر مارگولیس جیسا شخص ‘‘ یہ بھی orientalistہے۔’’جو عموماً ہر امر میں مخالفانہ پہلو لیتا ہے ان واقعات کی وجہ سے مسلمانوں کو قابلِ ملامت نہیں قرار دیتا۔ چنانچہ مسٹرمارگولیس لکھتے ہیں:
’’چونکہ عصماء نے اپنے اشعار میں اگر وہ اس کی طرف صحیح طور پر منسوب کئے گئے ہیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قتل پر ان کے دشمنوں کو عمداً ابھارا تھا۔ اس لیے اسکا قتل خواہ اسے دنیا کے کسی معیار کے مطابق ہی جج کیا جاوے ایک بے بنیاد اور ظالمانہ فعل نہیں سمجھا جا سکتا ۔اور پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اشتعال انگیزی کا وہ طریق جو ہجوکے اشعار کی صورت میں اختیار کیا گیا وہ عرب جیسے ملک میں دوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ خطرناک نتائج پیدا کرسکتا تھا …اور یہ بات کہ صرف مجرموں کو ہی قتل کیا گیا عرب کے رائج الوقت دستور پر ایک بہت بڑی اصلاح تھی کیونکہ‘‘ صرف جو مجرم تھا اس کو قتل کیا گیا ہے باقی لوگوں کو قتل نہیں کیا۔ کیونکہ ’’عربوں میں اشتعال انگیز اشعار کی وجہ سے صرف افراد تک معاملہ محدود نہیں رہتا تھا بلکہ سالم کے سالم قبائل میں خطرناک جنگ کی آگ مشتعل ہوجایا کرتی تھی۔ اسکی جگہ اسلام میں یہ صحیح اصول قائم کیا گیا کہ جرم کی سزا صرف مجرم کو ہونی چاہئے نہ کہ اس کے عزیزو اقارب کو بھی۔ ‘‘
مسٹر مارگولیس کو اگر ان قتلوں کے متعلق کوئی اعتراض ہے، تو اس طریق کی وجہ سے ہے جو اختیار کیا گیا یعنی یہ کہ کیوں نہ ان کے جرم کا باقاعدہ اعلان کر کے انہیں باضابطہ طور پر قتل کی سزا دی گئی۔ سو اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ اگر ان واقعات کو درست بھی سمجھا جاوے تو وہ بعض مسلمانوں کے محض انفرادی فعل تھے جو ان سے سخت اشتعال کی حالت میں سرزد ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حکم نہیں دیا تھا جیساکہ ابن سعد کے بیان سے یقینی طور پر پایا جاتا ہے۔ دوسرے اگر بالفرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہی سمجھا جاوے تو پھر بھی یقیناً اس زمانہ کے حالات ایسے تھے کہ اگر عصماء اور ابوعفک کے قتل کے متعلق باقاعدہ طور پر ضابطہ کا طریق اختیار کیا جاتا اور مقتولین کے متعلقین کو پیش از وقت اطلاع ہوجاتی کہ ہمارے آدمی قتل کئے جائیں گے تو اسکے نتائج بہت خطرناک ہوسکتے تھے اور اس بات کا سخت اندیشہ تھا کہ یہ واقعات مسلمانوں اور یہودیوں اور نیز مسلمانوں اور مشرکین مدینہ کے درمیان ایک وسیع جنگ کی آگ مشتعل کر دیتے۔‘‘حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ’’تعجب ہے کہ مسٹر مارگولیس نے جہاں محض قتل کے فعل کو عرب کے مخصوص حالات کے ماتحت جائز قرار دیا ہے وہاں طریقہ قتل کے متعلق ان کی نظر اس زمانہ کے مخصوص حالات تک کیوں نہیں پہنچی۔ اگر وہ اس پہلو میں بھی اس وقت کے حالات کو مدِ نظر رکھتے تو غالباً انہیں یقین ہوجاتا کہ جو طریق اختیار کیا گیا‘‘اگر یہ صحیح ہے کہ قتل کیا گیا تھا۔’’وہی اس وقت کے حالات اور امنِ عامہ کے مفاد کیلئے مناسب اور ضروری تھا‘‘ لیکن عملاً تو ہوا ہی نہیں۔
’’…خلاصہ کلام یہ کہ اوّل تو عصماء اور ابوعفک یہودی کے قتل کے واقعات روایتاً اور درایتاً درست ثابت ہی نہیں ہوتے اور اگر بالفرض انہیں درست سمجھا بھی جاوے تو وہ اس زمانہ کے حالات کے ماتحت قابل اعتراض نہیں سمجھے جاسکتے اور پھر یہ کہ جو بھی صورت ہویہ واقعاتِ قتل بہرحال بعض مسلمانوں کے انفرادی افعال تھے جو سخت اشتعال کی حالت میں ان سے سرزد ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق حکم نہیں دیا تھا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم .اے، صفحہ 446تا 451)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہ یہ الزام ہی غلط ہے کہ آپؐنے حکم دیا کہ ان کو قتل کرو۔ یہ سب من گھڑت باتیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔ ان مؤرخین نے جو لکھا، بعد میں چاہئے تو یہ تھا کہ اس کا صحیح طرح تجزیہ کیا جاتا۔
یہ اللہ تعالیٰ کا شکر اور احسان ہے کہ ہمیں اس نے زمانے کے امامؑ کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی اور ہر بات کو ہم دیکھ کر، پرکھ کر اور اس کی حقیقت کو سمجھ کر پھر بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کوئی بھی الزام اس قسم کا جو ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر آتا ہو اس کو ردّ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان علماء کو بھی عقل دے جو ان باتوں کو رائج کر کے صرف اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کہنے کو تو ایک طرف وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں ان کے عمل ہی ہیں جنہوں نے ان میں شدت پسندی پیدا کر دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی عقل عطا فرمائے۔
اس وقت مَیں بعض مرحومین کا ذکر بھی کروں گا جس میں سے پہلا ذکر ہے پروفیسر ڈاکٹر ناصر احمد خان صاحب جو پرویز پروازی صاحب کے نام سے مشہور تھے۔ گذشتہ دنوں کینیڈا میں ستاسی سال کی عمر میں انتقال فرما گئے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
آپ قادیان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد مولانا احمد خان صاحب نسیم مبلغ سلسلہ تھے۔ پھر بڑا لمبا عرصہ ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد مقامی رہے اور وہ بھی بڑے دبنگ قسم کے آدمی تھے۔ جماعتوں کو انہوں نے بڑا آرگنائز کیا۔ ان کی والدہ رحمت بی بی تھیں۔ پروازی صاحب نے قادیان میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پھر میٹرک کے بعد انہوں نے کالج میں داخلہ نہیں لیا کیونکہ تعلیم الاسلام کالج اس وقت لاہور میں ہوتا تھا۔ پھر جب کالج ربوہ میں شفٹ ہوا تو انہوں نے وہاں کالج میں داخلہ لیا۔ 1958ء میں بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ 1960ء میں یونیورسٹی اوریئنٹل کالج سے ایم اے کیا اور 68ء میں پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پروفیسر ناصر پروازی صاحب 1960ء میں اردو میں ایم اے کرنے کے بعد لیکچرر مقرر ہوئے اور تدریس کا آغاز انہوں نے حکومت کے گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ سے کیا۔ پھر ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ الفضل میں، ماہنامہ مصباح میں، خالد وغیرہ میں ان کے مضامین شائع ہوتے تھے۔ اسی طرح شعر و شاعری سے بھی ان کوخاص شغف تھا۔ اچھے شعر کہا کرتے تھے۔ جب تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں بن گیا تو وقف کر کے 1961ء میں یہ وہاں آ گئے اور 1969ء تک لیکچرر کے طور پر کام کیا۔ 1969ء سے 75ء تک تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں اردو ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ کے طور پر مقرر کیے گئے۔ 1975ء سے 79ء تک اوساکا یونیورسٹی آف فارن سٹڈیز (Osaka University of Foreign Studies) جاپان میں وزیٹنگ پروفیسر مقرر ہوئے جہاں خدمات کے دوران انہوں نے پاکستان اور جاپان کے بہترین تعلقات کی بڑی کوشش کی۔ ٹوکیو میں جماعت کے قیام کے سلسلےمیں بھی انہوں نے مدد کی۔ 1979ء میں یہ واپس آگئے تو پھر کالج قومیائے جانے کے بعد پاکستان کے مختلف کالجوں میں یہ اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر پڑھاتے رہے۔ 86ء سے 90ء تک یہ بطور اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں پڑھایا کرتے تھے۔ احمدی ہونے کی وجہ سے اس دَور میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر جب نوبت گرفتاری تک پہنچ گئی تو سب چھوڑ چھاڑ کے یہاں یوکے آ گئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھر ان کے حکم سے سویڈن ہجرت کی اور وہاں 1991ء سے 2001ء تک اُپسالہ یونیورسٹی (Uppsala University) سویڈن میں پروفیسر کے طورپر خدمات انجام دیتے رہے۔ سویڈن میں قیام کے دوران نوبیل پرائز کمیٹی فار لٹریچر کے رکن بھی بنے اور سولہ سال خدمات سرانجام دیتے رہے۔ 2003ء میں کینیڈا ہجرت کر گئے ۔دنیائے ادب اور تعلیم کے میدان میں آپ کا نام کافی مشہور ہے۔ ان کی اہلیہ امۃ المجید صاحبہ بنت مولوی محمد احمد صاحب جلیل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو دو بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔
ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ تریسٹھ سال کا ہمارا ساتھ تھا۔ ہر اونچ نیچ، خوشی غمی، عسر و یسر میں انہوں نے خوب ساتھ نبھایا اور کیونکہ میں والدین کی بڑی بیٹی تھی، ربوہ میں رہی۔ انہوں نے بھی، (پروفیسر پروازی صاحب نے بھی) کبھی مجھے ان کی خدمت سے نہیں روکا بلکہ میرے سے بڑھ کر ان کا خیال رکھا۔ کہتی ہیں ان کا سلوک میرے سب رشتے داروںسے یعنی اپنے سسرالی رشتےداروںسے بھی بہت مثالی تھا۔ ایتائے ذی القربیٰ کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ انتہائی محبت اور اخلاص سے رشتےداروںسے پیش آیا کرتے تھے۔ ان کی ہر خوشی غمی میں شریک ہونا۔
ان کے بیٹے طاہر احمد خان کہتے ہیںکسی بھی حال میں اور حالت میں چہرے پر مسکراہٹ ہی ہوتی تھی۔ ہمیشہ خلافتِ احمدیہ سے والہانہ محبت کرتے رہے اور لکھا ہے کہ تادم مرگ میرے سے ان کا رابطہ رہا اور دعا کی درخواست کرتے رہے۔ گذشتہ دنوں شدید بیماری میں بھی جب ڈاکٹر جواب دے چکے تھے اور ان سے ہاتھ سے لکھنا بھی مشکل تھا پہلے تو پیغام بھیجتے رہے پھر بعض دفعہ بڑی شکستہ تحریر میں اپنے ہاتھ سے اپنے بستر سے لیٹے لیٹے ہی دعا کا خط لکھ کے مجھے بھجوایا کرتے تھے۔ بڑا اخلاص و وفا کا تعلق تھا۔ ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ جاپان میں قیام کے دوران والد صاحب کو انسائیکلو پیڈیا کا انعام ملا جو اس زمانے میں ایک بڑا انعام ہوتا تھا وہ انہوں نے خلافت لائبریری کو donateکر دیا۔ 1980ء کی دہائی میں علامہ اقبال گولڈ میڈل فار لٹریچر سے بھی نوازا گیا لیکن احمدی ہونے کی وجہ سے ان کو بلایا نہیں گیا اور ان کا میڈل گھر میں بھیج دیا گیا۔
ان کی بیٹی امۃ الودود کہتی ہیں میرے والد کو قرآن کریم سے عشق تھا۔ بلا ناغہ روزانہ پورے سیپارے کی تلاوت کرتے تھے اور کہتی ہیں کبھی مجھے کسی مضمون یا تقریر کیلئے کوئی حوالہ چاہئے ہوتا تو ایک منٹ میں بتا دیتے کہ فلاں سورت کی فلاں آیت میں یہ تلاش کرو۔ کہتی ہیں کہ ہمارے والد نے ہمیں خلافت سے محبت سکھائی۔ confidence دیا کہ اپنے دل کی بات بیان کر سکوں اور خلیفہ وقت سے تعلق پیدا کر سکوں۔
ان کی دوسری بیٹی سعدیہ کہتی ہیں میرے والد خلافت کے شیدائی تھے۔ ہمیشہ ان کی گفتگو میں اور رویّے میں خلافت احمدیہ کیلئے انتہا درجےکی محبت اور ادب دیکھا۔ ہمیشہ دیکھتے تھے کہ ہمارے والد ہر کام سے پہلے خلیفہ وقت کو خط لکھتے تھے، دعا کی درخواست کرتے تھے اور بیماری کے آخری ایام میں بھی جب ڈاکٹر نے آ کر تشویش کا اظہار کیا، ناامیدی کی باتیں کیں تو ڈاکٹر کےان کے کمرے سے نکلتے ہی انہوں نے مجھے کہا کہ پین اور کاغذ لاؤ اور کمزور اور کانپتے ہاتھوں سے دعاکیلئے انہوں نے مجھے خط لکھا جیساکہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ خط لکھتے تھے۔ صدقہ بہت دیتے تھے۔ جتنی رقم ہوتی صرف صدقہ میں دے دیتے تھے۔
نائلہ محمود نواسی ہیں، ظفر محمود ان کے والد ہیں، کہتی ہیں میں نے اپنے نانا کے ذریعے سے دیکھا اور سیکھا کہ ایمان کیا ہے اور اللہ تعالیٰ سے سچی محبت کیسے نظر آتی ہے۔ کہتی ہیں مَیں آپ کی حالت اور آخری سانس تک مسلسل شہادت والی انگلی اٹھا اٹھا کر بار بار اللہ تعالیٰ کو دل سے الحمد للہ الحمدللہ کہنے پر حیران رہ جاتی تھی کہ آخری وقت میں بھی مستقل الحمدللہ پڑھتے رہے۔ کہتی ہیں ان کی محبت کو دیکھ کر میرے دل میں ایک شعلہ بھڑکا ہے کہ اللہ تعالیٰ، قرآن پاک اور خلافت سے جیسی محبت انہیں تھی ویسی مجھے بھی مل جائے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں اور نسل کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔
دوسرا جنازہ شریف احمد صاحب بھٹی ابن امیر خان صاحب بھٹی ربوہ کا ہے۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں اٹھاسی سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ ایک بیٹے حفاظت مرکز میں کام کر رہے ہیں۔ دوسرے بیٹے طاہر احمد بھٹی مربی سلسلہ سیرالیون میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔
ان کے بیٹے طاہر بھٹی صاحب، جو مربی ہیں لکھتے ہیں کہ میرے والد بیان کرتے تھے کہ جب پنڈت لیکھرام کے قتل کی پیشگوئی پوری ہوئی تو اس وقت ان کے والد محترم امیر خان صاحب بھٹی نوعمر تھے۔ ان کے بقول اس پیشگوئی کے پورا ہونے سے ان کے دل میں احمدیت کی صداقت گھر کر گئی تاہم بوجہ نوعمری قادیان جانے اور بیعت کرنے سے محروم رہے اور بعد میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔
1974ء میں پھوٹنے والے فسادات اور مخالفانہ حالات کے سبب، یہ اس وقت لالیاں ہوتے تھے وہاں سے چھوڑ کےربوہ آ گئے اور وہیں آباد ہوگئے۔ ٹیکسٹائل ملز میں یہ ملازمت کیا کرتے تھے ۔کبھی بھی اپنی احمدیت کو نہیں چھپایا۔ جہاں بھی جانا ہوتا پہلے دن ہی لوگوں کو بتا دیا کرتے تھے کہ میں احمدی ہوں۔ اگر میرے سے تعلق رکھنا ہے تو رکھو کیونکہ میں تو احمدی رہ کے ہی اپنی شناخت کرواؤں گا۔
ان کے بھائی لطیف احمد صاحب جرمنی میں ہیں کہتے ہیں ٹیکسٹائل مل میں ملازمت کرتے تھے تو ایک معاند احمدیت ان کے ڈیپارٹمنٹ میں آیا اور کہنے لگا کہ مجھے علم ہوا ہے کہ تم احمدی ہو تو آپ نے کہا ہوں احمدی۔ تو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دشنام طرازی کی۔ کہنے لگاکہ اب اس مل میں یا تم رہوگے یا میں۔ اور اس نے مل مالکان کو بھی فساد پر اکسانے کی بھرپور کوشش کی۔ آپ اسی وقت دعا میں لگ گئے کہ یا اللہ اپنے مسیح موعود ؑکی خاطر مدد کر اور اس شرارت کو ناکام کر دے۔ کہتے ہیں کچھ دیر بعد ایک ورکر نے آ کے ان کو بتایا کہ جو شخص آپ سے بدتمیزی کر رہا تھا وہ مل کے باہر پریشان بیٹھا ہے اور مل کے مالکان نے ایک سودے میں اس کی بڑی چوری پکڑی ہے اور اس کو مل سے فارغ کر دیا ہے۔
تہجد گزار، پنجوقتہ نمازوں کے پابند اور ہمیشہ دعاؤں میں مشغول رہنے والے انسان تھے۔ سلسلے کے لٹریچر کو بہت پڑھا کرتے تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد تو اَور بھی زیادہ پڑھنا شروع کر دیا۔ ہمیشہ سلسلے کی کوئی نہ کوئی تصنیف ان کے سرہانے موجود رہتی تھی اور اس کے مطالعےمیں مشغول رہتے۔ اور جب بھی خلفائے احمدیت کی طرف سے کوئی دعا کی تحریک ہوتی تو اس میں فوری طور پر مشغول ہوجاتے۔ درود شریف بہت زیادہ پڑھا کرتے تھے۔ ان کے مربی بیٹے کہتے ہیں کہ جب میں سکول میں چھٹی جماعت میں تھا تو مجھے کہا کرتے تھے کہ سکول آتے جاتے درود شریف پڑھا کرو اور انہوں نے، بھٹی صاحب نے اپنا بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں دن میں ہزار سے زائد مرتبہ درود شریف پڑھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔
اگلا ذکر ہے پروفیسر عبدالقادر ڈاہری صاحب کا جو سابق امیر جماعت ضلع نوابشاہ تھے۔ بانوے سال کی عمر میں یہ وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں ان کی ہیں۔
ان کے بیٹے ثمر احمد لکھتے ہیں کہ خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے والد رئیس محمد مقیم خان ڈاہری صاحب مرحوم کے ذریعے ہوا۔ عبدالقادر صاحب بڑے دلیر اور سچے انسان تھے۔ بیٹے لکھتے ہیں کہ معاشرے میں پسے ہوئے طبقات کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے تھے کیونکہ وہاں تو رواج کے مطابق بڑا معیوب سمجھا جاتا ہے کہ کسی غریب کو برابر میں بٹھایا جائے ۔ یونیورسٹی سے سندھی لٹریچر میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس دَور میں سندھ میں تعلیمی اداروں کی کمی تھی تو تعلیم کے شوق کی وجہ سے حیدرآباد میں ایک کالج میں بطور لیکچرر کام شروع کیا۔ ان کے شوق کو دیکھ کر وہاں کے پرنسپل نے ان کو کہا کہ نوابشاہ میں ایک تعلیمی ادارہ کھولیں اور eveningکلاسز وہاں شروع کریں۔ چنانچہ وہ کلاسیں کھولی گئیں اور اس نے بڑی ترقی کی۔ اس کے بعد وہ کالج بن گیا اور ان کی محنت کی وجہ سے سندھ کے مشہور کالجوں میں اس کا شمار ہونے لگا۔ اسی طرح سندھ کے تمام بڑے سیاسی گھرانوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے اور کھل کر ان کو بتاتے تھے کہ میرا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے اور بچوں کو بھی یہ کہا کہ کبھی خوف نہیں کرنا کہ اپنی احمدیت کو چھپاؤ اور سندھی میں ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ ہم تو احمدیت کے زیور پہنے ہوئے ہیں جو ایک امتیازی نشان ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر آپ کو سندھی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی سعادت بھی ملی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ارشاد کے مطابق تفسیر صغیر کا سندھی میں دو جلدوں پر مشتمل ترجمہ کرنے کا بھی موقع ملا ہے۔ قرآن مجید کے ترجمےاور منتخب آیات کے ایک پمفلٹ کی اشاعت پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ چار افراد پر 295-Cکا مقدمہ درج ہوا تھا جن میں آپ کا نام بھی شامل تھا۔ سندھی زبان کے علاوہ اردو زبان پر بھی اس قدر عبور حاصل تھا کہ جس کو بھی مخاطب ہوکر لکھتے وہ تحریر سے متاثر ہوتا۔ فضل عمر فاؤنڈیشن کے ممبر بھی رہے۔ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے سٹوڈنٹ بھی آپ سے راہنمائی لینے کیلئے آتے تھے۔ آپ کا حلقہ احباب بڑا وسیع تھا۔ سندھی زبان میں ایک کتاب بھی لکھی جو تعلیمی ماہرین اور شاگردوں کی راہنمائی کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اسکے علاوہ سندھ کے ڈاہر قبیلے کے بارے میں ڈکشنری میں موجود مواد کو جس میں تضحیک آمیز زبان استعمال کی گئی تھی آپ نے قرآن کریم کے احکامات کی روشنی میں متعدد حکام کو دلائل سے قائل کیا اور اس ڈکشنری سے تضحیک آمیز الفاظ منہاکروائے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔
ایک ذکر اَور ہے جو پروفیسر ڈاکٹر محمد شریف خان صاحب کا ہے جو آجکل امریکہ میں تھے۔ چوراسی سال کی عمر میں یہ وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔
1939ء میں تنزانیہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے والد ڈاکٹر حبیب اللہ خان صاحب کے ذریعہ آئی جنہوں نے تنزانیہ میں احمدیت قبول کی تھی۔ شریف خان صاحب نے ابتدائی تعلیم قادیان سے حاصل کی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے 1954-55ءکے خطبات کے نتیجے میں آٹھویں کلاس میں زندگی وقف کر دی۔ پھر 1963ء میں پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل لیتے ہوئے ایم ایس سی زوآلوجی کیا۔ 96ء میں پنجاب یونیورسٹی سے زوآلوجی میں پی ایچ ڈی کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق 63ء میں خدمت کیلئے تعلیم الاسلام کالج سے وابستہ ہوئے اور 98ء میں اپنی ریٹائرمنٹ تک انہیں پینتیس سال خدمت کی توفیق ملی۔ دنیا بھر کے رسائل میں پروفیسر صاحب کے دو سو پچاس کے قریب ریسرچ پیپر شائع ہوئے ہیں۔ آپ کا پہلا تحقیقی مقالہ 1972ء میں شائع ہوا جو رپٹائلز (Reptiles)کے بارے میں ان کا مضمون تھا۔ بہت ریسرچ کیا کرتے تھے اور سانپوں اور چھپکلیوں وغیرہ کے،کیڑوں وغیرہ کے بارے میں اور قدرت کے حشرات الارض ہیں ان کے بارے میں بڑی تحقیق تھی۔
مَیں بھی ان کا شاگرد رہا ہوں۔ ہماری کلاس کو باہر لے جایا کرتے تھے اور پھر جا کے یہ چیزیں دکھایا کرتے تھے کہ قدرت نے کیا کیا چیزیں پیدا کی ہیں اور کس کس طرح کے کیڑے اس میں پائے جاتے ہیں اور کس قسم کی قسمیں ہیں۔
2002ء میں انہیں پاکستان میں Zoologist Of The Yearکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
مجیب اللہ چودھری صاحب امریکہ لکھتے ہیں کہ 2008ء میں مَیں نے مسجد کا چندہ اکٹھا کرنے کے سلسلے میں بات کی تو کہنے لگے ہمارے پاس پیش کرنے کیلئے کچھ نہیں ہے لیکن انہوں نے کہا گھر آجاؤ۔ گھر گیا تو بیگم بھی ان کی آ گئیں اور ایک پوٹلی نکال کر سامنے رکھ دی اور جو زیور تھا ان کے ماں باپ کی طرف سے یا سسرال کی طرف سے جو کچھ بھی ملا تھا وہ سامنے پیش کر دیا کہ یہی ہمارے پاس ہے یہ لے جاؤ۔ بڑے شریف النفس اور عاجز انسان تھے ۔ طلباء سے ہمیشہ گھل مل کر دوستوں کی طرح رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
ان کی یہ بعض باتیں بعد میں آئی ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے ظفر اللہ صاحب بھی لکھتے ہیں کہ کچھ سائنسدان امریکہ اور کینیڈا سے پروفیسر ڈاکٹر شریف خان صاحب سے ملنے ربوہ آئے اور بقول ان سائنسدانوں کے پاکستان میں رپٹالوجی(reptology) یعنی جو رپٹائلز وغیرہ ہیں ان کے اوپر کہتے ہیں کہ شریف خان صاحب سے بڑا اَور کوئی ماہر پاکستان میں نہیں ہے۔ بہت ماہر تھے۔
ان کے بیٹے راشد زبیر کہتے ہیں جوانی سے ہی تہجد گزار اور صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے اور مسجد قمر میں نماز کی امامت بھی کروایا کرتے تھے۔ باجماعت نماز کے علاوہ قرآن کریم کی تلاوت اور تفسیر پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اس پر مطالعہ بھی بہت وسیع تھا۔
مشہود احمد خان ان کا پوتا ہے۔ کہتا ہے ہمارے دادا نے جو بڑی روحانی شخصیت تھے اور گہرا سائنسی ادراک بھی تھا انہوں نے ہمیں سکھایا کہ خدا کی ہستی کا ثبوت فطرت میں پایا جاتا ہے۔نمازوں کو بروقت ادا کرنے کی اور قرآن کریم کا مطالعہ کرنے پر بہت زور دیا کرتے تھے۔ خلافت احمدیہ سے بہت زیادہ محبت تھی اور ہمیشہ خلیفہ وقت کو خط لکھتے اور خطبات سننے کی طرف اپنی بھی توجہ تھی اور گھر والوں کو بھی توجہ دلاتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔

…٭…٭…٭…