اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-12

غزوۂ بدر اور غلبۂ روم کی پیشگوئی کا باہمی تعلق اور سورۂ روم میں بیان فرمودہ عظیم الشان پیشگوئی کے بارے میں ایمان افروز تفصیلی بیان

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 22؍ستمبر2023ء بمطابق 22؍تبوک1402ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)یو.کے

خطبہ جمعہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن واقعات کی پیشگوئی کی ہے ان میںسے ایک صاف اور صریح اور معرکۃ الآراء غلبۂ روم کی پیشگوئی تھی

بدر کی جنگ کے ساتھ رومی سلطنت کی فتح کا بھی ایک تعلق ہے

جب یہ آیت نازل ہوئی تو یہ مکے کی بات ہے، مکہ کے جو مشرکین تھے، پسند کرتے تھے کہ اہلِ فارس اہلِ روم پر غالب آ جائیں کیونکہ یہ اور وہ بت پرست تھے …
جبکہ مسلمان پسند کرتے تھے کہ اہلِ روم اہلِ فارس پر غالب آجائیں اس لیے کہ وہ اہلِ کتاب تھے

عرب کے نبیٔ اُمی کی پیشگوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور عین اس وقت جب مسلمانوں نے بدر کے میدان میں قریش کو شکست دی رومیوں نے ایرانیوں پر غلبہ حاصل کیا
مشرقی مقبوضات کا ایک ایک شہر واپس لے لیا اور ایرانیوں کو باسفورس اور نیل کے کناروں سے ہٹا کر پھر دجلہ و فرات کے ساحلوں کی طرف دھکیل دیا

اس زمانے کے بارے میں قرآن کریم میں جو پیشگوئیاں ہیں انہیں بھی دیکھنا چاہئے، والدین خود بھی قرآن کریم پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی یہ پیشگوئیاں دکھائیں کہ
کس طرح یہ اسلام کی سچائی پر ایک دلیل ہیں، اسلام کی سچائی کے ثبوت تو ہزاروں ہیں، پس والدین کو بھی اور نوجوانوں کو بھی اپنے علم کو بڑھانے کی ضرورت ہے

اس پیشگوئی کی خوبی یہ ہے کہ اگر آغازِ شکست سے آغازِ فتح تک جوڑیں تو بھی نو برس ہوتے ہیں اور اگر انجام شکست سے آغاز فتح تک جوڑیں تو بھی وہی نو برس ہوں گے

غزوۂ بدر اور غلبۂ روم کی پیشگوئی کا باہمی تعلق اور سورۂ روم میں بیان فرمودہ عظیم الشان پیشگوئی کے بارے میں ایمان افروز تفصیلی بیان

مکرم فراس علی عبدالواحد صاحب یوکے کی وفات پر ان کا ذکر خیراور نمازِ جنازہ غائب

 

اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ-

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۝ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝ مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۝ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۝

اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۝ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَ۝


کچھ عرصہ پہلے غزوۂ بدر کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غزوےسے تعلق میں واقعات بیان کیے تھے۔ آج بدر کے حوالے سے ہی بعض متعلقہ باتیں اور واقعات پیش کروں گا۔ ان کا تاریخ میں ذکر ہے اور جاننا بھی ضروری ہے۔ جیساکہ پہلے خطبات میں ذکر ہوچکا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین روز تک میدانِ بدر میں مقیم رہے۔
تیسرے روز آپؐنے سواریوں کے کجاوے کسنے کا ارشاد فرمایا۔ میدانِ بدر سے ہی آپؐنے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ اور حضرت زید بن حارثہ ؓکو مدینہ کی جانب بدر کی فتح کی خوشخبری کا پیغام دیتے ہوئے بھیجا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف واپسی کا سفر شروع کیا۔ اس فتح نصیب قافلے کے ساتھ قریش مکہ کے ستر قیدی بھی تھے۔ (السیرۃ الحلبیہ، جلد2،صفحہ 420، 425، 426 ،باب غزوۃ بدر الکبریٰ، دارالمعرفہ بیروت)(صحیح البخاری، کتاب المغازی، حدیث نمبر3986)
کتبِ تاریخ میں مذکور ہے کہ راستے میں ہی ان میں سے دو قیدیوں کو ان کے سنگین جنگی جرائم کے تحت اس وقت کے عام دستور کے مطابق قتل کر دیا گیا تھا جن میں سے ایک نضر بن حارث اور دوسرا عقبہ بن ابی معیط تھا۔ لیکن اس پہ سب تاریخ دانوں کا اتفاق نہیں ہے۔
علامہ ابن اسحاقؒ کہتے ہیں کہ بدر سے واپسی پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفراء کے مقام پر پہنچے تو نضر بن حارث کو قتل کیا گیا اور حضرت علیؓ نے اسے قتل کیا تھا۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، صفحہ438،دارالکتب العلمیۃ بیروت2001ء)
سیرت حلبیہ میں مذکور ہے کہ نضر حالتِ قید میں تھا کہ اس نے اپنے ساتھی سے کہا: اللہ کی قسم! محمدؐ مجھے قتل کرنے والا ہے کیونکہ اس نے مجھے ایسی نظر سے دیکھا ہے جس میں مجھے موت نظر آئی ہے۔ اس شخص نے نضر سے کہا اللہ کی قسم! ایسا صرف رعب کی وجہ سے ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو رعب تم پہ پڑا ہے اس کی وجہ سے تمہیں لگ رہا ہے۔ تو نضر نے مصعب بن عمیر سے کہا: اے مصعب! اس شخص کی نسبت تم رحمی رشتہ داری میں میرے زیادہ قریب ہو۔ پس تم اپنے ساتھی سے بات کرو کہ وہ مجھے قیدیوں میں ایک شخص بنا دے۔ اللہ کی قسم! وہ مجھے قتل کرنے والا ہے تواس پر مصعب نے کہا تم اللہ کی کتاب کے بارے میں فلاں اور فلاں بات کہا کرتے تھے اور تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ اور یہ کہا کرتے تھے اور تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓکو ایذا اور تکلیف دیا کرتے تھے۔(السیرۃ الحلبیہ ،جلد2، صفحہ 429-430،باب غزوۃ بدر الکبریٰ، دارالمعرفہ بیروت) تو یہ پرانی باتیں تمہارے ساتھ ہیں ۔ اگر تم قتل ہو رہے ہو تو اس جرم میں ہو سکتا ہے ہو رہے ہو۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ نضر بن حارث کی بہن قُتَیلہ بنت حارث نے اپنے بھائی کی موت پر کچھ اشعار کہے۔ بعض کے نزدیک یہ اس کی بیٹی نے کہے تھے اور بعد میں اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان اشعار کا علم ہوا تو آپؐبہت زیادہ روئے یہاں تک کہ آپؐکی داڑھی تر ہو گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ اشعار مجھے اس یعنی نضر بن حارث کے قتل سے پہلے پہنچتے تو میں اس پر احسان کرتے ہوئے اسکو معاف کر دیتا۔(السیرۃ الحلبیہ، جلد 2 ،صفحہ430،باب غزوۃ بدر الکبریٰ، دارالمعرفہ بیروت) (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، صفحہ 510-511، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
لیکن بعض سیرت نگار اس طرح کے اشعار اور ان پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رونے کی روایت کی تردید کرتے ہیں۔ بعض تو واقعے کی تردید کرتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کیا صحیح ہے۔ اگر واقعی یہ واقعہ ہوا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نرم دل سے یہ اظہار بعید نہیں ہے۔ آپؐبہت نرم دل کے واقع ہوئے تھے۔ رحم آپؐکے دل میں تھا۔ اسی طرح نضر بن حارث کے بارے میں یہ بھی روایت آتی ہے کہ وہ قتل نہیں ہوا جیساکہ مَیں نے کہا بلکہ زندہ رہا تھا اور غزوۂ حنین میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سو اونٹ تالیف قلب کے طور پر دیے تھے۔ (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ ،جلد 1،صفحہ 482 ،دارالکتب العلمیۃ)
پھر میدانِ بدر سے واپسی پر دوسرے قتل کا جو ذکر تاریخ میں آتا ہے وہ عقبہ بن ابی معیط تھا۔ اس کو مدینےکے راستے میں عِرْق ظَبْیَہ مقام پر قتل کیا گیاتھا۔ حضرت عاصم بن ثابت انصاریؓ نے عقبہ کو قتل کیا اور ایک روایت کے مطابق حضرت علیؓ نے اسے قتل کیا۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، صفحہ 438-439، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ایک مصنف لکھتا ہے کہ نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط دونوں اسلام کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکا نے والوں میں سے تھے اور مسلمانوں پر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑنے والوں کے سرغنہ تھے۔(اللؤ لؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا، جلد5،صفحہ 490-491،مکتبہ دارالسلام)اس لیے ان کو یہ سزا ملی۔
بہرحال ان دونوں قتل ہونے والوں کے بارے میں خلاصہ یہ ہے کہ دونوں کے بارے میں حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ واقعی ان دونوں قیدیوں کو راستے میں قتل کیا بھی گیا تھا کہ نہیں کیونکہ بعض ایسی روایات بھی ہیں جن میں بڑی وضاحت سے یہ موجود ہے کہ عقبہ بن ابی معیط بدر کے میدان میں ہی قتل ہو گیا تھا۔(السیرۃ النبویہ لابن ہشام ،صفحہ477، دارالکتب العلمیۃ2001ء)
جبکہ نضر بن حارث کے بارے میں دونوں طرح کی روایات ہیں۔ اسکے قتل کیے جانے کی بھی اور یہ بھی کہ قتل نہیں ہوا تھا بلکہ بعد میں زندہ رہا اور غزوۂ حنین کے موقعےپر اسلام قبول کر لیا تھا گو کہ یہ روایات قدرے کمزور سمجھی جاتی ہیں۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓنے سیرت خاتم النبیینؐ میں بدر کے قیدیوں میں سے قتل ہونے والے ان دونوں کا جو ذکر کیا ہے وہ اس طرح ہے کہ’’بعض مؤرخین نے قید ہونے والے رؤساء میں عقبہ بن ابی معیط کا نام بھی بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ماتحت حالتِ قیدمیں قتل کردیا گیا تھا مگر یہ درست نہیں ہے۔ حدیث اورتاریخ میں نہایت صراحت کے ساتھ یہ روایت آتی ہے کہ عقبہ بن ابی معیط میدانِ جنگ میں قتل ہوا تھا۔‘‘ جنگ کے دوران ہوا تھا، قیدی نہیں بنا تھا۔’’اور ان رؤساء مکہ میں سے تھا جن کی لاشیں ایک گڑھے میں دفن کی گئی تھیں، البتہ نضر بن حارث کا حالتِ قید میں قتل کیا جانا اکثر روایات سے ظاہر ہوتا ہے اور اس کے قتل کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جوان بےگناہ مسلمانوں کے قتل کے براہِ راست ذمہدارتھے جو مکہ میں کفار کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔ اور اغلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ربیب حار ث بن ابی ہالہ جوابتداء اسلام میں نہایت ظالمانہ طورپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے سامنے قتل کئے گئے تھے، ان کے قتل کرنے والوں میں نضر بن حارث بھی شامل تھا۔ لیکن یہ یقینی ہے کہ نضر کے سوا کوئی قیدی قتل نہیں کیا گیا اور نہ ہی اسلام میں صرف دشمن ہونے اورجنگ میں خلاف حصہ لینے کی وجہ سے قیدیوں کے قتل کرنے کا دستور تھا، چنانچہ اس کے متعلق بعد میں ایک معیّن حکم بھی قرآن شریف میں نازل ہوا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ گو بہت سی روایات میں نضر بن حارث کے قتل کئے جانے کاذکر آتا ہے لیکن بعض ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ قتل نہیں کیا گیا تھا بلکہ بدر کے بعد مدت تک زندہ رہا اور بالآخر غزوۂ حنین کے موقعہ پر مسلمان ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو گیا تھا مگر مقدم الذکر‘‘ یعنی پہلی ’’روایات کے مقابلہ میں یہ روایتیں عموماً کمزور سمجھی گئی ہیں۔ واللہ اعلم
بہرحال اگرقیدیوں میں سے کوئی شخص قتل کیا گیا تو وہ صرف نضر بن حارث تھا جو قصاص میں قتل کیا گیا تھااوراس کے متعلق بھی یہ روایت آتی ہے کہ جب اسکے قتل کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بہن کے وہ دردناک اشعارسنے جن میں آپؐسے رحم کی اپیل کی گئی تھی تو آپؐنے فرمایا کہ اگریہ اشعار مجھے پہلے پہنچ جاتے تو میں نضرکو معاف کر دیتا۔ بہرحال نضر کے سوا کوئی قیدی قتل نہیں کیا گیا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ366-367)
یہ جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓکا نتیجہ ہے یہ انہوں نے تاریخی کتب سے اخذ کیا۔
غزوۂ بدر میں مشرکین کے بڑے بڑے سرداروں سمیت ستر کفار مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے اور ستر ہی مسلمانوں کے ہاتھوں قیدی ہوئے۔ قیدیوں کی تعداد کے حوالے سے انچاس اور چوہتر کی تعداد کے اقوال بھی ملتے ہیں، بعض روایتیں ہیں لیکن مشہور اور درست ستر کافروں کا گرفتار ہونا ہی ہے۔(ماخوذ از دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ ،جلد6، صفحہ245 ،دارالمعارف لاہور)
تاریخ کی مختلف کتب میں یہ ستر ہی لکھا ہے۔ صحیح بخاری میں ایک روایت میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐکے صحابہؓ نے بدر کے دن مشرکوں کے ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا یعنی ستر قیدی اور ستر مقتول تھے۔ (صحیح البخاری، کتاب المغازی، حدیث نمبر3986)
مشرکین کے قیدی جو جنگِ بدر کے بعد اسلام میں شامل ہوئے انہوں نےاسلام قبول کیا، ان کے بارے میں لکھا ہے کہ صحابہ کرامؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسیرانِ بدر سے بہت حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔ ان قیدیوں میں کچھ خوش نصیب ایسے تھے جو اسلام کی تعلیمات اور صحابہ کرامؓ کے اخلاقِ عالیہ سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئے۔ ان میں سے بعض کے اسمائے گرامی انہوں نے تفصیل سے لکھے بھی ہیں۔ عباس بن عبدالمطلب، عقیل بن ابوطالب، نوفل بن حارث ، ابوالعاص بن ربیع، ابو عزیز ان کا نام زُرَارہ بن عُمیر عَبْدَرِی تھا سائب بن ابو حُبَیش، خالد بن ہِشام مخزومی، عبداللہ بن ابوسائب، مُطَّلِب بن حَنْطَبْ ابو وَدَاعَہ سَہْمِی، عبداللّٰہ بن اُبَیّ بِنِ خَلَف جُمَحِّی، وَہْب بن عُمیرجُمَحّی ،سُہَیل بن عمرو عَامِرِی، عبداللہ بن زَمْعَہ جو ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہؓ کے بھائی تھے۔ قیس بن سائِب اور نِسْطَاس جو امیہ بن خَلَف کا غلام تھا۔ سائب بن عُبَید۔ان سب نے بدر کے دن اپنا فدیہ ادا کر کے اسلام قبول کر لیا تھا۔ (سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، جلد 4، صفحہ 78-79، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
بدر کی جنگ کے ساتھ رومی سلطنت کی فتح کا بھی ایک تعلق ہے۔
رومی سلطنت کی فتح کی ہی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی اور اس کا تعلق جیساکہ مَیں نے کہا جنگِ بدر سے بھی ہے اس لیے یہاں اس کا بیان بھی مناسب ہے۔ نبوت کے پانچویں سال میں سورۂ روم نازل ہوئی جس میں رومی سلطنت کے غلبے کی بابت پیشگوئی کی گئی تھی۔(دلائل النبوۃ للبیہقی، جلد7، صفحہ 143، باب ذکر السور التی نزلت بمکۃ… ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1988ء)(سیرت النبیؐ از علامہ شبلی نعمانی، جلد2حصہ سوم ،صفحہ 315،ادارہ اسلامیات ستمبر2002ء)
اس کی تفصیل تو مَیں آگے بیان کروں گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے سورۃ الروم کی ابتدائی آیات نازل فرمائیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکے کے اطراف میں اس سورت کی ان آیات کو پڑھتے ہوئے اعلان کرنے لگے کہ الۗمّۗ۔ غُلِبَتِ الرُّوْمُ۔فِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ وَہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَيَغْلِبُوْنَ۔ فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ(الروم:2تا 5) یعنی اہلِ روم مغلوب کیے گئے قریب کی زمین میں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد پھر ضرور غالب آ جائیں گے تین سے نو سال کے عرصے تک۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو یہ مکّے کی بات ہے، مکّہ کے جو مشرکین تھے پسند کرتے تھے کہ اہلِ فارس اہلِ روم پر غالب آ جائیں کیونکہ یہ اور وہ بت پرست تھے۔ فارس کے لوگ، ایرانی لوگ بت پرست تھے، آتش پرست تھے اور مکّے کے لوگ بھی بت پرست تھے۔ وہ پسند کرتے تھے کہ فارس کے لوگ غالب آ جائیں اور مسلمان پسند کرتے تھے کہ اہلِ روم اہلِ فارس پر غالب آجائیں اس لیے کہ وہ اہلِ کتاب تھے۔
انہوں نے اس کا ذکر حضرت ابوبکرؓسے کیا اور حضرت ابوبکرؓنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپؐنے فرمایا وہ ضرور غالب آ جائیں گے یعنی رومی غالب آ جائیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس کا ذکر مشرکین سے کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان اور اپنے درمیان ایک مدت مقرر کر لو یعنی شرط رکھ لو۔ اگر ہم غالب آ گئے تو ہمارے لیے یہ اور یہ ہو گا اور اگر تم غالب آگئے تو تمہارے لیے یہ اور یہ ہو گا تو انہوں نے پانچ سال کی مدت رکھی۔ ایک روایت کے مطابق چھ سال کی مدت رکھی۔ شرح سنن الترمذی تحفۃ الاحوذی میں لکھا ہے کہ روم کے فارس پر غلبے کے دن مومن خوش ہوئے اور انہیں اس بات کا علم بدر کے دن ہوا جب جبرئیل علیہ السلام اس غلبے کی خبر کے ساتھ ان کی یعنی مشرکین کے خلاف بدر میں ان کی مدد کی خوشخبری لے کر نازل ہوئے تھے۔ (تحفۃ الاحوذی شرح سنن الترمذی، جلد 2، صفحہ2169، مکتبہ بیت الافکار الدولیہ)(سنن الترمذی ،ابواب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ الروم ،حدیث 3194)یہ تعلق ہے بدر کے ساتھ اس کا کہ جس دن بدر کی فتح ہوئی ہے اسی دن رومیوں کی فتح کی بھی خوشخبری ملی۔
صحیح بخاری کی ایک روایت ہے، اس کی شرح میں علامہ بدر الدین عینیؒ غلبۂ روم والی پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب اہلِ فارس اور اہلِ روم کے درمیان جنگ ہوئی تو مسلمان اہلِ فارس پر اہلِ روم کی فتح کو پسند کرتے تھے کیونکہ وہ اہلِ کتاب تھے۔ اہلِ روم کے ساتھ مسلمانوں کی ہمدردی اس لیے تھی کہ اہلِ روم اہلِ کتاب تھے جبکہ کفار قریش اہلِ فارس کی فتح کو پسند کرتے تھے کیونکہ وہ مجوسی تھے اور کفارِ قریش بھی بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ پس اس بات پر حضرت ابوبکرؓ اور ابوجہل کے درمیان شرط لگ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہاں بِضْع کا لفظ ہے اور بِضْع تو نو برس یا سات برس پر اطلاق پاتا ہے۔ پس مدت کو بڑھا دو۔ پھر انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پس اہلِ روم غالب آ گئے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:الۗمّۗ۔ غُلِبَتِ الرُّوْمُ۔ فِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ وَہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَيَغْلِبُوْنَ۔ فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ۝۰ۥۭ لِلہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْۢ بَعْدُ۝۰ۭ وَيَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ بِنَصْرِ اللہِ(الروم: 2تا 6) ترجمہ یہ ہے۔الۗمّۗ۔ اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ۔یعنی میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ اہلِ روم مغلوب کیے گئے قریب کی زمین میں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد پھر ضرور غالب آ جائیں گے۔ تین سے نو سال کے عرصےتک۔ حکم اللہ ہی کا چلتا ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی اور اس دن مومن بھی اپنی فتوحات سے بہت خوش ہوں گے جو اللہ کی نصرت سے ہو گی۔ اور شعبی کہتے ہیں کہ اس وقت شرط لگانا حلال تھا۔(ماخوذ از عمدۃ القاری، شرح صحیح البخاری، جلد7،صفحہ29 ،دار الفکر بیروت )
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن واقعات کی پیشگوئی کی ہے ان میںسے ایک صاف اور صریح اور معرکۃ الآراء غلبۂ روم کی پیشگوئی تھی۔
عرب کے دونوں اطراف میں روم اور فارس کی حکومتیں قائم تھیں۔ اس وقت ایران کا تاجدار خسرو اور روم کا فرمانروا ہرقل تھا۔ ان دونوں سلطنتوں میں ایک مدت سے معرکہ آرائیوں کا سلسلہ قائم تھا۔ بعثت نبویؐ کے پانچویں سال 614ء میں ان دونوں ہمسایہ سلطنتوں میں ایک خونریز جنگ شروع ہو گئی۔ اگرچہ ان دونوں قوموں میں کسی قوم نے مذہبِ اسلام قبول نہیں کیا تاہم رومی حضرت عیسیٰؑ کے پیرو اور اہلِ کتاب تھے اور ایرانیوں کے عقائد مشرکین مکہ کے عقائد کے ساتھ مطابقت رکھتے تھے اس لیے لازمی طور پر مسلمانوں کو رومی عیسائیوں کے ساتھ اور مشرکین مکہ کو ایرانیوں کے ساتھ ہمدردی تھی۔ اس لیے مسلمانوں اور کفار قریش دونوں کو جنگ کے نتیجہ کا شدت کے ساتھ انتظار تھا۔ ان دونوں سلطنتوں کےحدوددریائے دجلہ اور فرات کے کناروں پر آ کر ملتے تھے۔ رومی سلطنت مشرق میں ایشیائے کوچک حدود عراق، شام، فلسطین اور مصر میں پھیلی ہوئی تھی۔ ایرانیوں نے دو طرفہ حملہ کیا۔ ایک طرف تو وہ دجلہ اور فرات کے کنارے سے شام کی طرف بڑھے اور دوسری طرف ایشیائے کوچک کی جانب آذربائیجان سے آرمینیا ہو کر موجودہ اناطولیہ میں داخل ہو گئے اور دونوں طرف سے رومیوں کو پیچھے ہٹاتے ہٹاتے سمندر میں ان کو دھکیل دیا۔ شام کی سمت میں انہوں نے یکے بعد دیگرے اس ارضِ مقدس کا ایک ایک شہر رومیوں سے چھین لیا۔ 614ء میں فلسطین اور اس کا مقدس شہر یروشلم ایرانیوں کے زیر سایہ آ گیا۔کنیسوں کو مسمار کر دیا گیا۔ مذہبی شعائر کی توہین کی گئی۔ شہنشاہِ ایران کے قصرِ اقامت کی تیس ہزار مقتول سروں سے آرائش کی گئی، قتل کر کے ان کے سر قصر میں رکھے گئے۔ ایرانی فتوحات کا سیلاب اس سے آگے بڑھ کر 616ء میں پوری وادیٔ نیل یعنی مملکتِ مصر پر محیط ہو گیا اور آخر اسکندریہ کے ساحل پر جا کر تھما اور دوسری طرف تمام ایشیائے کوچک کو زیروزبر کرتا ہوا باسفورس کے ساحل پر جا کر رکااور قسطنطنیہ کی دیواروں سے جا ٹکرایا۔ شہنشاہِ روم کے دارالسلطنت کے سامنے ایران کے فاتح لشکر نے جا کر اپنے خیمے کھڑے کر دیے اور اب رومیوں کے بجائے عراق و شام اور فلسطین و مصر و ایشیائے کوچک کے وسیع علاقوں میں ایرانی حکومت قائم ہو گئی۔ ہر جگہ آتش کدے تعمیر ہوئے اور مسیح کے بجائے آگ اور سورج کی جبری پرستش کو رواج دیا گیا۔ رومی سلطنت کی اس تباہی کو دیکھ کر رومی شہنشاہ کی وسیع مملکت میں بغاوتیں کھڑی ہو گئیں۔ افریقہ میں بھی شورش ہوئی۔ خود قسطنطنیہ کے قریب یورپ میں مختلف قومیں قتل و غارت گری میں مصروف ہو گئیں۔ غرض اس وقت سلطنت روما کے پرزے پرزے اڑ گئے تھے۔
جنگ کا نتیجہ جب ایسا خلافِ امید ظاہر ہوا تو مسلمانوں کو یقیناً رنج اور کفار کو مسرت حاصل ہوئی اور انہوں نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ جس طرح ہمارے بھائی غالب ہوئے ہیں اسی طرح اگر تم ہم سے لڑتے تو ہم بھی غالب ہوتے۔ اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کافروں نے کہا ہم مسلمانوں پر غالب ہو جائیں گے۔ اس وقت رومیوں کی جو افسوسناک حالت تھی وہ تو جیسا ہم نے دیکھا بہت بُری حالت تھی۔ وہ اپنے مشرقی مقبوضات کا ایک ایک چپہ کھو چکے تھے۔ خزانہ خالی تھا۔ فوج منتشر تھی۔ ملک میں بغاوتیں پیدا تھیں۔ شہنشاہِ روم ہرقل ہمہ تن عیاش، بے پروا، سست اور مبتلائے اوہام تھا۔ ایسا بڑا بادشاہ تھا جو کسی قابل نہیں تھا۔ ایرانیوں کا فاتح سپہ سالار قسطنطنیہ کے دروازے پر پہنچ کر رومیوں کے سامنے حسبِ ذیل شرائط پیش کرتا ہے کہ رومی باج ادا کریں۔ ایک ہزار ٹالنٹ سونا، ایک ہزار ٹالنٹ چاندی، (ٹالنٹ قدیم یونانی پیمانہ ہے جو آجکل کے تقریباً تیئس کلو گرام وزن کے برابر ہے) ایک ہزار ریشم کے تھان، ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار کنواری لڑکیاں ایرانیوں کے حوالے کریں۔
رومیوں کی کمزوری کی یہ حالت تھی کہ انہوں نے ان شرمناک شرائط کو قبول کر لیا۔ اس پر بھی جب رومی قاصد شہنشاہِ ایران کے دربار میں مصالحت کا پیغام لے کر گیا تو مغرور خسرو نے جو جواب دیا وہ یہ تھا: ٹھیک ہے تم نے قبول کر لیا لیکن مجھ کو یہ نہیں، جو چیزیں یہ لے کے آیا ہے یہ نہیں، بلکہ خود ہرقل زنجیروں میں بندھا ہوا میرے تخت کے نیچے چاہئے۔ بادشاہ روم جو ہے وہ میرے تخت کے نیچے مجھے چاہئے اور اس وقت تک صلح نہیں کروں گا جب تک شہنشاہِ روم اپنے مصلوب خدا کو چھوڑ کر سورج دیوتا کے آگے سر نہ جھکائے گا۔ عیسائیت سے توبہ نہیں کرے گا۔ تو لکھنے والے نے لکھا ہے کہ کارزارِ عالم کا یہ نقشہ تھا کہ معرکۂ جنگ سے بہت دُور ایک خشک اور بنجر زمین کی سنسان پہاڑی سے ایک شہزادۂ امن نمودار ہوا اور واقعاتِ عالم کے بالکل خلاف یہ پیشگوئی فرمائی جس کی آیتیں میں آگے پڑھوں گا اور جو قرآن شریف میں ہے۔ پس یہ تفصیل میں نے اس لیے بیان کی ہے کہ پیشگوئی کی جو شان ہے اس کا پتہ لگے۔
یہ پیشگوئی کیا تھی جیساکہ مَیں نے پہلے بھی پڑھا۔ دوبارہ پڑھتا ہوں: الۗمّۗ۔ غُلِبَتِ الرُّوْمُ۔ فِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ وَہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَيَغْلِبُوْنَ۔ فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ۝۰ۥۭ لِلہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْۢ بَعْدُ۝۰ۭ وَيَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ بِنَصْرِ اللہِ۝۰ۭ يَنْصُرُ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ۔وَعْدَ اللہِ۝۰ۭ لَا يُخْلِفُ اللہُ وَعْدَہٗ(الروم: 2تا 7) مَیں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ اہلِ روم مغلوب کیے گئے قریب کی زمین میں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد پھر ضرور غالب آ جائیں گے۔ تین سے نو سال کے عرصے تک۔ حکم اللہ ہی کا چلتا ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی اور اس دن مومن بھی اپنی فتوحات سے بہت خوش ہوں گے جو اللہ کی نصرت سے ہو گی۔ وہ نصرت کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور وہ کامل غلبہ والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔
لکھنے والے نے لکھا ہے کہ یہ پیشگوئی واقعات کے لحاظ سے اس قدر مستبعداور ناقابلِ یقین تھی یعنی یہ بہت دُور کی بات لگتی تھی کہ کفار نے اس کے صحیح ہونے کی صورت میں کئی اونٹوں کے ہارنے کی مسلمانوں سے شرط لگائی۔ اب مسلمانوں اور کافروں کو بڑی شدت سے واقعات کے پہلو کا انتظار تھا۔ آخر چند سال بعد دنیا نے خلافِ امید پلٹا کھایا۔ تاریخِ زوالِ روم کا مشہور مصنف اور مؤرخ ایڈورڈ گبن(Gibbon) ہرقل کے احوال بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ‘‘شہنشاہ جو اپنی ابتدائی اور آخری زندگی میں مستی، عیاشی اور اوہام کا غلام اور رعایا کے مصائب کا نامرد تماشائی تھا۔ جس طرح صبح و شام کا کہر آفتاب نصف النہار کی روشنی سے پھٹ جاتا ہے دفعۃً 621ء میں محلوں کا آرکاڈیوس (Arcadius)، میدانِ جنگ کا سیزر (Caesar) بن گیا۔ یعنی یہی شہنشاہِ روم جو تھا اور روم وہرقل کی عزت چھ مہمات کے ذریعہ نہایت شاندار طریقے سے بچا لی گئی۔‘‘
انہوں نے آرکاڈیوس کی جو مثال دی ہے یہ رومی سلطنت کا ایک بادشاہ تھا جس کا زمانہ 408قبل مسیح اور 378قبل مسیح تک ہے۔ بڑا مضبوط تھا۔ اسی طرح سیزر بھی ایک پرانا فوجی جرنیل تھا۔
بہرحال جس وقت ہرقل اپنی بقیہ فوج لے کر قسطنطنیہ سے چلا لوگوں کو معلوم ہوتا تھا کہ عظیم روما کے آخری لشکر کا منظر دنیا کے سامنے ہے لیکن عرب کے نبیٔ اُمی کی پیشگوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور عین اس وقت جب مسلمانوں نے بدر کے میدان میں قریش کو شکست دی رومیوں نے ایرانیوں پر غلبہ حاصل کیا۔ مشرقی مقبوضات کا ایک ایک شہر واپس لے لیا اور ایرانیوں کو باسفورس اور نیل کے کناروں سے ہٹا کر پھر دجلہ و فرات کے ساحلوں کی طرف دھکیل دیا۔
اس عظیم الشان پیشگوئی کی صداقت کے اثر نے دنیا کو محو حیرت کر دیا۔ قریش کے بہت سے لوگ اس صداقت کو دیکھ کر مسلمان ہو گئے اور جو غیر ہیں وہ اس پیشگوئی کے قائل ہو رہے ہیں۔ اس حیرت ناک پیشگوئی کی سچائی سے متحیر ہو کر واقعہ کے ساڑھے بارہ سو برس کے بعد ایڈورڈ گبن کہتا ہے،جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )مشرق کی دو عظیم الشان سلطنتوں کے ڈانڈے پر بیٹھ کر ان دونوں کی ایک دوسرے کو تباہ کر دینے والی روز افزوں کوششوں کی ترقی کو دلی مسرت کے ساتھ بغور مطالعہ کر رہا تھا اور عین اس وقت جبکہ ایرانیوں کو پیہم کامیابیاں حاصل ہو رہی تھیں اس نے اس پیشگوئی کی جرأت کی کہ چند سال میں فتح و ظفر رومی عَلم پر سایہ فگن ہو گی۔ جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی تھی کوئی پیشگوئی اس سے زیادہ دُور از قیاس نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ یقین ہی کوئی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ہرقل کی بارہ سال کی حکومت نے اس بات کا اعلان کر دیا تھا کہ رومی شہنشاہی کا شیرازہ جلد بکھر جائے گا۔‘‘
ہرقل کی طبیعت میں اس فوری انقلاب اور واقعات کی رُو سے اس حیرت ناک تغیر اور اسکے اسباب کی تفصیل میں تاریخِ روم کے مصنفین نے عجیب عجیب باتیں پیدا کی ہیں لیکن انہیں کیا معلوم، یہ بات علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب سیرت النبیؐ میں لکھتے ہیں کہ انہیں کیا معلوم کہ اس خونی معرکےسے دُور ایک پیغمبرانہ ہاتھ رومیوں کی مدد کیلئے دراز تھا اور وہی اس انقلاب اور تغیر کا سب سے بڑا روحانی سبب تھا۔ مستدرک اور جامع ترمذی میں ہے کہ روم و فارس کی جنگ جب شروع ہوئی تو مشرکین ایرانیوں کے طرفدار تھے کیونکہ وہ بھی بت پرست تھے اور مسلمان رومیوں کے طرفدار تھے کیونکہ وہ اہلِ کتاب تھے۔ اس وقت ایرانی روم کو دباتے جا رہے تھے، اس پر سورۂ روم کی پیشگوئی نازل ہوئی۔ حضرت ابوبکرؓنے چِلّا چِلّا کر تمام مشرکین کو یہ پیشگوئی سنائی۔ مشرکین نے کہا کہ اس پیشگوئی کیلئے کوئی سال مقرر کرو۔ حضرت ابوبکرؓ نے پانچ سال کی شرط کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو فرمایا کہ بِضْعِ سِنِیْنَ کا لفظ تین سے نو تک بولا جاتا ہے۔ اس لیے دس سال سے کم کی مدت مقرر کرنی چاہئے تھی۔ چنانچہ اس تشریح کے مطابق نویں سال غزوۂ بدر کے موقع پر پیشگوئی پوری ہوئی اور رومی غالب آ گئے۔
بعض نوجوان اور جوانی میں قدم رکھنے والے بچے بھی پوچھتے ہیں، کئی خط لکھتے ہیں، پچھلے ہفتےبھی بعض خط آئے کہ ہمیں کس طرح پتہ چلے کہ اسلام سچا مذہب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سچے نبی ہیں، باقی نہیں؟ یہاں کے ماحول نے ان پر یہ اثر ڈالنا شروع کر دیا ہےکہ ان کو اسلام کی سچائی کے بارے میں شک پڑنا شروع ہو گیا ہے۔ انہیں اس تاریخ اور غیروں کے اس اظہار سے یقین کر لینا چاہئے اور پھر اس زمانے کے بارے میں قرآن کریم میں جو پیشگوئیاں ہیں انہیں بھی دیکھنا چاہئے۔ والدین خود بھی قرآن کریم پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی یہ پیشگوئیاں دکھائیں کہ کس طرح یہ اسلام کی سچائی پر ایک دلیل ہیں۔ اسلام کی سچائی کے ثبوت تو ہزاروں ہیں۔ پس والدین کو بھی اور نوجوانوں کو بھی اپنے علم کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
صرف سوال کر دینا کافی نہیں ہے۔ اگر سوال کرنا ہے تو خود علم حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اسی طرح جو ہماری تنظیمیں ہیں، ان کو بھی اس بارے میں بھی ان کو علم دینا چاہئے۔ یہ سوال کئی دفعہ مجھ سے پوچھا گیا ہے۔ بہرحال یہ وضاحت ضروری تھی اس لیے مَیں نے یہاں ذکر کر دیا۔ اب اصل مضمون کی طرف آتا ہوں۔
غزوۂ بدر ہجرت کے پہلے سال اور بعثت کے چودھویں برس پیش آیا تھا۔ اس سے نو برس پہلے بعثت کا پانچواں سال ہو گا۔ اس بنا پر پیشگوئی کا زمانہ پانچ بعثت اور اس کے پورے ہونے کا زمانہ چودہ بعثت یا ایک ہجری ہے۔ بعض لوگوں نے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا زمانہ صلح حدیبیہ کا سال یعنی چھ ہجری بیان کیا ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ شاید لوگوں کو اس سے دھوکا ہوا ہے کہ صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ قاصدِ نبوی جب اسلام کا دعوت نامہ لے کر قیصر کے پاس گیا تو اس وقت وہ قیصر فتح کا شکریہ ادا کرنے کیلئے شام آیا ہوا تھا اور معلوم ہےکہ قاصد صلح حدیبیہ کے زمانےمیں روانہ ہوئے تھے اس لیے لوگوں نے یہ سمجھا کہ حصولِ فتح کی بھی یہی تاریخ ہے مگر یہ مغالطہ ہے اور بالکل ظاہر ہے کہ فتح کی تاریخ نہیں بلکہ فتح کے جشن کی تاریخ ہے۔
اس وقت وہ جشن منانے کیلئے آیا ہوا تھا۔ بہرحال تاریخ کی مطابقت سے یہ بات ثابت ہے کہ 609ء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی۔ 610ء سے روم اور فارس کی چھیڑ چھاڑ شروع ہوئی۔ 613ء میں اعلان جنگ ہوا۔ 614ء سے رومیوں کی شکست کا آغاز ہوا۔ 616ء میں رومی شکست تکمیل کو پہنچ گئی۔ 622ء سے پھر رومیوں نے حملہ شروع کیا۔ 623ء سے ان کی کامیابی کا آغاز ہوا اور 625ء میں ان کی فتح تکمیل کو پہنچ گئی۔ اس ترتیب سے دیکھیں تو ظاہر ہوگا کہ اس پیشگوئی کی خوبی یہ ہے کہ اگر آغازِ شکست سے آغازِ فتح تک جوڑیں تو بھی نو برس ہوتے ہیں اور اگر انجام شکست سے آغاز فتح تک جوڑیں تو بھی وہی نو برس ہوں گے۔
اس فتح کی تکمیل کے بعد ہرقل پھر وہی سست اور عیاش قیصر بن گیا جو پہلے تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دستِ قدرت نے صرف اس پیشگوئی کے پورا کرنے کیلئے چند سال کے واسطے اس کے دل و دماغ کو بیدار کیا اور دست و بازو کو ہوشیار کر دیا۔ پیشگوئی کی تکمیل کے بعد پھر پہلے کی طرح تعیش اور کاہلی نے اس کو عیش و غفلت کے بستر پر سلا دیا۔ (ماخوذ از سیرت النبی ﷺ از علامہ شبلی نعمانی، جلد2حصہ سوم، صفحہ 313تا 316،ادارہ اسلامیات ستمبر 2002ء)(انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا، جلد2،صفحہ341)(انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا، جلد4،صفحہ938)
یہ سارا بھی علامہ شبلی نعمانی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے۔
رومیوں کی فتح کے بارے میں بعض جگہ تاریخ کا جو اختلاف ہے اسے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس طرح حل کیا ہے کہ ’’بعض روایات میں یہ مروی ہوا ہے کہ فتح روم صلح حدیبیہ کے زمانہ میں حاصل ہوئی تھی مگر یہ دونوں روایتیں متضاد نہیں ہیں کیونکہ دراصل روم کی فتح کازمانہ جنگِ بدر سے لے کر صلح حدیبیہ کے زمانہ تک پھیلا ہوا تھا۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم .اے، صفحہ 377)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’آپؐابھی مکہ میں ہی تھے کہ عرب میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ ایرانیوں نے رومیوں کو شکست دے دی ہے۔ اِس پر مکہ والے بہت خوش ہوئے کہ ہم بھی مشرک ہیں اور ایرانی بھی مشرک۔ ایرانیوں کا رومیوں کو شکست دے دینا ایک نیک شگون ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ مکہ والے بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب آجائیں گے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے بتایا کہ غُلِبَتِ الرُّوْمُ۔ فِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ وَہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَيَغْلِبُوْنَ۔ فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ(الروم:3تا 5) رومی حکومت کو شام کے علاقہ میں بے شک شکست ہوئی ہے لیکن اِس شکست کو تم قطعی نہ سمجھو۔ مغلوب ہونے کے بعد رومی پھر 9 سال کے اندر غالب آجائیں گے۔ اِس پیشگوئی کے شائع ہونے پر مکہ والوں نے بڑے بڑے قہقہے لگائے یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بعض کفار نے سو سو اونٹ کی شرط باندھی کہ اگر اتنی شکست کھانے کے بعد بھی روم ترقی کر جائے تو ہم تمہیں سو اونٹ دیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو تم ہمیں سو اونٹ دینا۔ بظاہر اِس پیشگوئی کے پورا ہونے کا امکان دُور سے دُور تر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ شام کی شکست کے بعد رومی لشکر متواتر کئی شکستیں کھاکر پیچھے ہٹتا گیا یہاں تک کہ ایرانی فوجیں بحیرہ مار مورا(Marmara Sea) کے کناروں تک پہنچ گئیں۔ قسطنطنیہ اپنی ایشیائی حکومتوں سے بالکل منقطع ہو گیا اور روم کی زبردست حکومت ایک ریاست بن کر رہ گئی مگر خد اکا کلام پورا ہونا تھا اور پورا ہوا۔
انتہائی مایوسی کی حالت میں روم کے بادشاہ نے اپنے سپاہیوں سمیت آخری حملہ کیلئے قسطنطنیہ سے خروج کیا اور ایشیائی ساحل پر اتر کر ایرانیوں سے ایک فیصلہ کن جنگ کی طرح ڈالی۔ رومی سپاہی باوجود تعداد اور سامان میں کم ہونے کے قرآن کریم کی پیشگوئی کے مطابق ایرانیوں پر غالب آئے۔ ایرانی لشکر ایسا بھاگا کہ ایران کی سرحدوں سے ورے اس کا قدم کہیں بھی نہ ٹھہرا اور پھر دوبارہ رومی حکومت کے افریقی اور ایشیائی مفتوحہ ممالک اس کے قبضہ میں آگئے۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم ،جلد20، صفحہ445)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ابو جہل سے شرط لگائی اور قرآن شریف کی وہ پیشگوئی مدار شرط رکھی کہ الۗمّۗ۔غُلِبَتِ الرُّوْمُ۔ فِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ وَہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَيَغْلِبُوْنَ۔ فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ(الروم:2تا 5) اور تین برس کا عرصہ ٹھہرایا تو آپؐ پیشگوئی کی صور ت کو دیکھ کر فی الفور دُور اندیشی کو کام میں لائے اور شرط کی کسی قدر ترمیم کرنے کیلئے ابو بکر صدیق کو حکم فرمایا اورفرمایاکہ بِضْعِ سِنِیْنَ کا لفظ مجمل ہے اور اکثر نو برس تک اطلاق پاتا ہے۔‘‘(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن، جلد 3، صفحہ 310-311 )
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزید فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرتؐ کے زمانہ میں ایرانی لوگ مشرک تھے اور قیصرِ روم جو کہ عیسائی تھا دراصل موحّد تھا‘‘اور یہ بھی ایک وجہ ہے مسلمانوں کی ملنے کی۔ آپ فرماتے ہیں کہ قیصر روم جو عیسائی تھا دراصل موحد تھا ’’اور مسیح کو ابن اللہ نہیں مانتا تھا اور جب اس کے سامنے مسیح کا وہ ذکر جو قرآن میں درج ہے پیش کیا گیا تو اس نے کہا کہ میرے نزدیک مسیح کادرجہ اس سے ذرہ بھی زیادہ نہیں جو قرآن نے بتلایا ہے۔ حدیث میں بھی اسکی گواہی بخاری میں موجود ہے کہ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ یہ وہی کلام ہے جو کہ توریت میں ہے اور اسکی حیثیت نبوت سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اسی پر یہ آیت نازل ہوئی کہ الۗمّۗ۔غُلِبَتِ الرُّوْمُ۔ فِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ وَہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَيَغْلِبُوْنَ۔ فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ(الروم:2تا 5) یعنی روم اب مغلوب ہوگیا ہے مگر تھوڑے عرصہ میں (9 سال میں) پھر غالب ہوگا۔ عیسائی لوگ نہایت شرارت سے کہتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے دونوں طاقتوں کااندازہ کر لیا تھا اور پھر فراست سے یہ پیشگوئی کردی تھی۔ ہم کہتے ہیں کہ اسی طرح مسیح بھی بیماروں کو دیکھ کر اندازہ کر لیا کرتا تھا جو اچھے ہونے کے قابل نظر آتے تھے ان کا سلبِ امراض کر دیتا۔’’ یہاں پھر موازنہ کر رہے ہیں اور پھر آپؑنے اصل میں ان کے اعتراض کا جواب دیا ہے۔ ‘‘اس طرح توسارے معجزات ان کے ہاتھ سے جاتے ہیں۔ یَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ اس دن مومنوں کو دو خوشیاں ہوں گی ایک تو جنگِ بدر کی فتح دوسرے روم والی پیشگوئی کے پورا ہونے کی۔‘‘ (ملفوظات، جلد3،صفحہ 298-299، ایڈیشن 2022ء)
اگر یہ اعتراض ہے کہ جنگ کو دیکھ لیا تھا تو جنگِ بدر میں تو حالات ایسے نہیں تھے۔ اس کی فتح کی خوشخبری بھی تو ساتھ ہی تھی اور یہ دونوں خوشخبریاں اکٹھی ملیں۔
مزید فرماتے ہیں کہ’’قرآن شریف بہت سی پیشگوئیوں سے بھرا پڑا ہے جیساکہ روم اور ایران کی سلطنت کی نسبت ایک زبردست پیشگوئی قرآن شریف میں موجود ہے۔ اور یہ اس وقت کی پیشگوئی ہے جبکہ مجوسی سلطنت نے ایک لڑائی میں رومی سلطنت پر فتح پائی تھی اور کچھ زمین ان کے ملک کی اپنے قبضہ میں کر لی تھی تب مشرکینِ مکہ نے فارسیوں کی فتح اپنے لیے ایک نیک فال سمجھی تھی اور اس سے یہ سمجھا تھا کہ چونکہ فارسی سلطنت مخلوق پرستی میں ہمارے شریک ہے ایسا ہی ہم بھی اس نبی کا استیصال کریں گے جس کی شریعت اہلِ کتاب سے مشابہت رکھتی ہے۔ تب خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ پیشگوئی نازل فرمائی کہ آخرکار رومی سلطنت کی فتح ہوگی اور چونکہ روم کی فتح کی نسبت یہ پیشگوئی ہے اس لئے اس سورت کا نام سورۃ الرو م رکھا گیا ہے اورچونکہ عرب کے مشرکوں نے مجوسیوں کی سلطنت کی فتح کو اپنی فتح کیلئے ایک نشان سمجھ لیا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں یہ بھی فرما دیا کہ جس روز پھر روم کی فتح ہوگی اس روز مسلمان بھی مشرکوں پر فتحیاب ہوں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔
اس بارہ میں قرآن شریف کی آیت یہ ہے۔الۗمّۗ۔غُلِبَتِ الرُّوْمُ۔ فِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ وَہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَيَغْلِبُوْنَ۔ فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ(الروم:2تا 5) (ترجمہ) مَیں خدا ہوں جو سب سے بہتر جانتا ہوں۔ رومی سلطنت بہت قریب، زمین میں مغلوب ہو گئی ہے اوروہ لوگ پھر نو سال تک تین سال کے بعد مجوسی سلطنت پر غالب ہو جائیں گے اس دن مومنوں کے لئے بھی ایک خوشی کا دن ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور تین سال کے بعد نو سال کے اندر پھر رومی سلطنت ایرانی سلطنت پر غالب آگئی اور اسی دن مسلمانوں نے بھی مشرکوں پر فتح پائی کیونکہ وہ دن بدر کی لڑائی کا دن تھا جس میں اہل اسلام کو فتح ہوئی تھی۔‘‘(چشمہ معرفت ، روحانی خزائن، جلد 23، صفحہ320)
پھر فرمایا’’اب غور کرکے دیکھو کہ یہ کیسی حیرت انگیز اور جلیل القدر پیشگوئی ہے۔ ایسے وقت میں یہ پیشگوئی کی گئی جب مسلمانوں کی کمزوراور ضعیف حالت خود خطرہ میں تھی۔ نہ کوئی سامان تھا نہ طاقت تھی۔ ایسی حالت میں مخالف کہتے تھے کہ یہ گروہ بہت جلد نیست و نابود ہو جائے گا۔ مدت کی قید بھی اس میں لگا دی اور پھر یَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ کہہ کر دوہری پیشگوئی بنادی یعنی جس روز رومی فارسیوں پر غالب آئیں گے اسی دن مسلمان بھی بامراد ہو کر خوش ہوں گے۔ چنانچہ جس طرح پر یہ پیشگوئی کی تھی اسی طرح بدر کے روز یہ پوری ہوگئی۔ ادھر رومی غالب آئے اور ادھر مسلمانوں کو فتح ہوئی۔‘‘ (ملفوظات، جلد2،صفحہ 387، ایڈیشن 2022ء)
بہرحال یہ سلسلہ ابھی چلے گا۔ یہ واقعات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ہیں۔ باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔ نماز کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرم فراس علی عبدالواحد صاحب (یو.کے)کا ہے۔ یہ گذشتہ دنوں سینتالیس سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔یہ عراقی الاصل تھے اور 2012ء میں بیعت کرکے جماعت میں شامل ہوئے تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ قرآن کریم بھی انہوں نے حفظ کر لیا تھا۔ بچپن میں ہی کیا ہوا تھا۔ بڑے ہوئے تو متشدد دینی راہ اختیار کرتے ہوئے بہت متشدّد قسم کے مسلمان ہو گئے تھے۔ انہوں نے گھر کا ٹی وی بھی بیچ دیا کہ یہ دیکھنا حرام ہے۔ سب تصویریں گھر کی پھاڑ دیں کہ یہ بھی حرام ہیں۔ ایک اچھے آرٹسٹ تھے۔ یعنی جب کسی مولوی کے تحت رہ کے دین کا علم حاصل کیا تو بالکل ہی fanatic ہو گئے اور ہر قسم کی تصویریں بنانے سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی۔ لیکن ان کے دل میں شکوک تھے کہ پتہ نہیں میں صحیح ہوں کہ نہیں۔ اسلام سچا ہے کہ نہیں؟ ایک عیسائی کلاس فیلو ان کا دوست تھا۔ کچھ عرصےکے بعد اس سے متاثر ہو گئے اور اسلام کے بارے میں جو شکوک تھے اور جو سوالات تھے ان کے جوابات نہ ملنے کی وجہ سے پھر یہ عیسائی ہو گئے۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پھر جوش میں آئی تو پھر انہوں نے دوبارہ اسلام قبول کر لیا۔ بہرحال یہ اچھے محنتی تھے، پڑھنے والے تھے۔ یونیورسٹی آف بصرہ سے انہوں نے ڈگری حاصل کی۔ وہاں کے کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن اور اکنامکس میں تعلیم حاصل کی۔ زبانیں سیکھنے کا شوق تھا۔ اس لیے انہوں نے اچھی انگریزی زبان سیکھی۔ فرنچ بھی سیکھی، سپینش سیکھی، جرمن سیکھی اور کسی قدر رشین زبان بھی جانتے تھے۔ 2009ء میں یہ اپنی اہلیہ کے ساتھ یہاں یوکے شفٹ ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہاں انہیں ایک بیٹی بھی دی۔ برطانیہ پہنچنے کے بعد فراس صاحب نے اتفاقاً ایم ٹی اے العربیہ دیکھا اور اس پر انہیں ان کے سوالات کے جوابات ملنے شروع ہو گئے۔ آخر ان کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اس حد تک گھر کر گئی کہ اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں لکھے گئے قصائد گنگناتے رہتے تھے۔ اسی دوران انہوں نے رؤیا میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا کہ ایک بڑی سفید مسجد میں خطاب فرما رہے ہیں اور آپؒ کے چہرہ مبارک سے نور نکل رہا ہے۔ پھر بعد میں ایک خوبصورت نوجوان کو دیکھا جو اخباری نمائندے کی طرح مائیکرو فون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہایت خوبصورت ناموں سے ذکر کرتے ہوئے لوگوں کو آپ کی اتباع کرنے کی تلقین کر رہا تھا۔ آخر انہوں نے اس بنا پر 2012ء میں بیعت کر لی۔ شیفلیڈ(Sheffield) کے ڈاکٹر بلال طاہر صاحب سے ان کا رابطہ ہوا۔ ان کے ذریعہ سے انہوں نے بیعت کی درخواست بھجوائی۔ پھر ان کے ساتھ مل کر سلسلےکی مختلف کتب اور سوال و جواب کا مطالعہ کیا اور بہت جلد جماعتی افکار و عقائد کی تبلیغ اور اعتراضات کے جواب دینے اور جماعت کا مؤثر علمی دفاع کرنے لگ گئے۔
اردن سے یزن رَبَابَعَہ صاحب لکھتے ہیں کہ برادرم فراس عبدالواحد صاحب بہت اچھے احمدی تھے۔ جماعتی کتب کا مطالعہ کرتے۔ معاندین اور مرتدّین کو جواب دیا کرتے تھے۔ وہ حقیقی طور پر اسلام احمدیت کا دفاع کرنے والے تھے۔ فیس بک پر احمدی احباب ان کو فارس احمدیت یعنی احمدیت کا گھڑ سوار جنگجو کہتے تھے۔ میری آنکھیں ان کا ذکر کرتے ہوئے نم ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
تمیم ابو دقہ صاحب لکھتے ہیں کہ فراس صاحب غیر معمولی محقق اور عربی اور انگریزی میں ترجمہ کرنے اور لکھنے کی بہترین صلاحیت رکھتے تھے۔ جماعتی ویب سائٹ پر سوالوں کے جواب دینے والی ٹیم کے سرگرم ممبر تھے۔ ان کے جوابات ہمیشہ مکمل اور مدلّل ہوا کرتے تھے جن کی تائید میں وہ جماعتی اور غیرجماعتی عربی اور انگریزی وساطت سے حوالے بیان کیا کرتے تھے۔ بعض عرب مرتدین اور منافقین نے جب فتنہ کھڑا کیا تو مرحوم فراس صاحب ان کے اعتراضات کے جواب دینے والوں اور ان کا مقابلہ کرنے والوں کی صف اوّل میں شامل تھے۔ اپنے کامل ایمان اور محبت کی وجہ سے بڑی شدت سے جماعت اور خلافت کا دفاع کرتے تھے۔
ڈاکٹر ایمن عودہ صاحب کہتے ہیں کہ مرحوم بھائی فراس عبدالواحد کو ان کے وسیع علم اور غیر معمولی ذہانت، ان کے مضامین اور تحریروں کے حوالے سے خاص طور پر جانتے تھے۔ انہیں جماعت میں شامل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا پھر بھی انہوں نے نہایت قلیل عرصےمیں جماعتی افکار و عقائد کے بارے میں گہرا علم حاصل کر کے اپنے مؤثر جوابات سے مخالفین کے منہ بند کر دیے تھے۔ مرحوم کو چند سال قبل ہماری عربی ویب سائٹ پر سوالوں کے جواب دینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جسے انہوں نے آخری وقت تک بڑی تندہی سے نبھایا۔ بڑی لگن اور خلوص سے کام کیا۔ سوال و جواب کی عربی ویب سائٹ’’بساط احمدی‘‘ پر ان کے تقریباً آٹھ سو آرٹیکل یا اعتراضات کے جوابات ان کی گہری علمی شخصیت ہونے اور جماعتی افکار و عقائد کو پھیلانے اور مخالفین کے اعتراضات کے جواب دینے کی لگن کی گواہی دیتے رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ ان کی اہلیہ اور بچی کا بھی کفیل ہو۔ صبر اور حوصلہ انہیں عطا فرمائے۔ ان کی نیک خواہشات اپنے اہل و عیال کیلئے قبول فرمائے۔ دعائیں قبول فرمائے اور اللہ تعالیٰ جماعت کو بھی ان جیسے مزید نعم البدل عطا فرمائے۔ نماز کے بعد ان شاء اللہ جیساکہ مَیں نے کہا نماز جنازہ ادا کروں گا۔

…٭…٭…٭…