خطبہ جمعہ
اس بات پر جماعت جرمنی کو اللہ تعالیٰ کا بہت شکر گزار ہونا چاہئے کہ اُس نے اِس جلسے کی وجہ سے اسلام کی حقیقی تعلیم کو لوگوں پر ظاہر کرنے کی توفیق دی
جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ گذشتہ ہفتہ کامیابی سے منعقد ہوا، پس سب سے پہلے تو ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے ہمیں ایک وقفے کے بعد
وسیع پیمانے پر عام حالات کے مطابق جلسہ منعقد کرنے کی توفیق عطا فرمائی، اس پر سب انتظامیہ کو بھی اور شاملین جلسہ کو بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے
جہاں جہاں مہمانوں کو تکلیف ہوئی ہے وہاں جلسےکی انتظامیہ کے افسران بھی ذمہ دار ہیں
اور امیر صاحب کو اس بات کو خاص طور پر نوٹ کرنا چاہئے، دیکھنا چاہئے ،کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری بھی ہے
باقی انتظامی معاملوں میں تو کمیاں برداشت ہو جاتی ہیں لیکن جلسہ سننے کے انتظامات میں کوئی کمی برداشت نہیں ہوسکتی
میں نے یہی دیکھا ہے کہ جہاں افسر عاجزی سے اور محنت سے کام کرنے والا ہو وہ تمام شعبہ بہتر ہوتا ہے
ہر خادم، ہر ناصر اور لجنہ کی ہر ممبر کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی طرف سے بہت محنت کی لیکن افسران کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے
ترقی کرنے والی قومیں اپنی کمزوریوں پر نظر رکھیں تو تبھی کامیاب ہوتی ہیں
بلا شبہ اس تقریب نے مجھے روحانی طور پر بحال کیا،تمام تنظیمیں، مرد، عورتیں یہاں تک کہ بچے بھی منظّم تھے،
مجھے ان دنوں جماعت احمدیہ کے متعلق بہت سی دلچسپ چیزیں سیکھنے کو ملیں مثلاً رواداری اور دوسروں کو باوجود اختلافات کے قبول کرنا (ڈاکٹر ویرونیکا ستولی لووا)
خلیفۂ وقت کے مختلف موضوعات پر خطابات نے مجھے متاثر کیا، مقدونیا کے ایک صحافی ہونے کی حیثیت سے
مجھے جلسے پر بہت سے احمدی مسلمانوں سے بات کرنے کی توفیق ملی، جنہوں نے ہمیشہ مسکراہٹ کے ساتھ مجھ سے بات کی،
میں جلسے کی صفائی اور تمام تنظیم سے بہت متاثر ہوں، آپ کا ماٹو محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں واقعی طور پر دکھائی دیا اور اسی ماٹو سے امن ہوسکتا ہے (سینادر اسیموو صاحب)
اس پورے جلسے نے میرے دل پر ایک گہرا اثر ڈالا اور خاص طور پر بیعت اور نماز کے دوران میں اپنے جذبات پہ قابو نہیں پا سکی، پوری بیعت کی تقریب کے دوران روتی رہی،
اس لمحے کو میں زندگی بھر نہیں بھولوں گی کہ کس طرح تمام احمدی خلیفہ کے ہاتھ پر ایک جان ہوکر بیعت میں شامل ہوئے (مارٹینا صاحبہ از سلواکیہ)
جلسہ میں شامل ہوکر مجھے اسلام کی تعلیم، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے اصل مقام کا تعارف حاصل ہوا اور یہ بھی پتہ لگا کہ اسلام دراصل ایک امن پسند مذہب ہے (اُنڈرسکا از سلواکیہ)
یہاں جلسے میں مَیں نے اسلام دیکھا ہے، دوسرے مسلمانوں سے آپ کے پاس واضح فرق خلافت ہے اور اسکی وجہ سے آپ کے پاس اتحاد بھی ہے (پروفیسر ڈاکٹر رجیپ شکورتی صاحب)
میرے ذہن میں ایک اہم بات نقش کر گئی ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے قلمی جہاد کا تصور ہمارے سامنے رکھا جس کی میں سو فیصد تصدیق کرتی ہوں (لیا صاحبہ از جارجیا)
مَیں نے خلیفہ کے خطابات کو غور سے سنا اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آپ لوگوں کو کافر کہنا بالکل غلط ہے، آپ بھی دوسرے فرقوں کی طرح اسلام کا ایک فرقہ ہیں (مسٹر ویسل از جارجیا)
میرے لیے جلسہ سالانہ علم کی دنیا میں ایک ایسا باغ ہے جو تعاون اور بھائی چارے کو فروغ دیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ ایک ایسا موقع تھا جہاں آپ کی کمیونٹی کے مثالی کام اور
مسلسل کوششوں کو دکھایا گیا کہ کس طرح جماعت احمدیہ معاشرے کو فائدہ پہنچانے کی خاطر منصوبے بنا رہی ہے اور اقدامات کر رہی ہے (اونی جشاری صاحب از کوسوو)
مَیں نے جلسے کو بہت غور سے سنا اور لوگوں کو دیکھااور جماعت احمدیہ کے ان اوصاف کا ذکر کروں گا جو کہ
اب دیگر دینی جماعتوں میں ختم ہورہے ہیں اور وہ احمدیوں کے اعلیٰ اخلاق ہیں (آرزو کریم صاحب از تاجکستان)
جلسے کے دوسرے ہی دن احمدیت کی صداقت میرے دل میں گھر کر گئی،میں نے بیعت کرنے کا ارادہ کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کی توفیق دی (محمد علی صاحب)
میرے لیے بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ جلسہ سالانہ میں مختلف رنگوں کے لوگ سب خوشی سے ملے اور
آپس میں سب ایک فیملی کے افراد کی طرح پیار و محبت سے ملے اور تین دنوں میں مجھے کسی قسم کا کوئی جھگڑا نظر نہیں آیا (دوالا کیمرون کے چیف امام)
امام جماعت نے ایسی تعلیم پیش کی کہ ہر مسلمان کو اپنے دین پر فخر کرنا چاہئے، ہم سب کو عملی طور پر اس تعلیم کو پوری دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہئے (دوالا، کیمران کے چیف امام)
جماعت احمدیہ جرمنی کو جلسہ سالانہ کے حوالے سے بعض نصائح، جلسے پر تشریف لانے والے مہمانوں کے تاثرات، نیز میڈیا کوریج کا تذکرہ
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ-
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ
اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَ
اللہ تعالیٰ کا بےحد فضل اور احسان ہے کہ جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ گذشتہ ہفتہ کامیابی سے منعقد ہوا۔ پس سب سے پہلے تو ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے ہمیں ایک وقفہ کے بعد وسیع پیمانے پر عام حالات کے مطابق جلسہ منعقد کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔
اس پر سب انتظامیہ کو بھی اور شاملین جلسہ کو بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔
کارکنوں کو اس بات پر خاص طور پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق دی۔ اسی طرح شاملین کو بھی ان کارکنوں کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے جلسے کے دنوں میں ان کی خدمت کی کوشش کی۔ اس وسیع انتظام میں اور نئی جگہ میں بہت سی کمیاں رہ گئی ہوں گی بلکہ رہیں اور بعض لحاظ سے بعض مہمانوں کو تکلیف بھی برداشت کرنی پڑی ہوگی اور بعض باتیں جو مجھے پہنچی ہیں، تکلیفیں ہوئیںبھی ،لیکن کیونکہ دینی مقصد کیلئے آئے تھے اس لیے عموماً مہمانوں نے کوئی شکوہ شکایت نہیں کیا لیکن میرے پتہ کرنے پر مجھے پتہ چلا ہے کہ بعض انتظامات صحیح نہیں تھے۔ بعض تو مَیں نے خود محسوس کیے۔ جہاں تک کارکنوں کا تعلق ہے انہوں نے تو عموماً بڑی محنت سے اپنے فرائض انجام دیے۔ معاونین ہیں یا دوسرے کارکن ہیں، جہاں ان کی طرف سے کوئی کمزوریاں ظاہر ہوئیں یا اس شعبے میں کوئی کمزوری ظاہر ہوئی تو وہ عموماً ان کے افسران کی غلط ہدایات کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ اس لیے جہاں جہاں مہمانوں کو تکلیف ہوئی ہے وہاں جلسےکی انتظامیہ کے افسران بھی ذمہ دار ہیں اور امیر صاحب کو اس بات کو خاص طور پر نوٹ کرنا چاہئے، دیکھنا چاہئے، کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری بھی ہے۔ ان کو استغفار کرنا چاہئے اور آئندہ کیلئے اپنی کمیوں کو اپنی سرخ کتاب میں لکھ کر اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اس جگہ پر آئندہ وہ بہتر انتظام کر بھی سکتے ہیں کہ نہیں یا کہیں اَور انتظام کیا جائے۔
عمومی طور پر بعض مشکلات کا بعض دفعہ سامنا کرنا پڑا جو یہ ہیں۔ کسی نے مجھے لکھا کہ ایسکیلیٹر (escalator) خراب تھے، اوپر نیچے جانے میں دقّت پیدا ہوئی۔ لفٹ کام نہیں کر رہی تھی، اس سے دقت پیدا ہوئی۔ رہائش تو دے دی لیکن غسل خانے کی بہت کمی تھی یا پانی کا انتظام صحیح نہیں تھا۔ کارلسروئے میں جب انہوں نے جگہ لی تھی تو وہاں شروع میں یہ لوگ مجھے لے کر گئے تھے اور میں نے یہ دیکھا تھا اور وہاں انہیں توجہ دلائی تھی کہ غسل خانوں اور پانی کا انتظام بھی صحیح ہونا چاہئے۔ اسی طرح آواز کو میں نے وہاں مختلف جگہوں پہ کھڑے ہوکے چیک کیا تھا اور وہ ہال چھوٹے بھی تھے لیکن اس کے باوجود وہاں کمی نظر آ رہی تھی جس کو حل کرنے کی کوشش کی گئی اور کچھ حد تک حل کر لیا گیا لیکن یہاں اس بات کو صحیح طرح سے دیکھا نہیں گیا۔ مجھے اس دفعہ اس جگہ کی تفصیل تو انہوں نے نہیں بتائی تھی، بس تعریفی رپورٹس بھجواتے رہے کہ یہ بہت اچھی جگہ ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ افسران کی غلط ہدایات کی وجہ سے سیکیورٹی والے بلا وجہ بعض روکیں ڈالتے رہے۔ عمومی طور پر تو انہوں نے اچھا کام کیا ہے لیکن بعض جگہ انفرادی طور پہ ایسی باتیں ہوئیں اور اسی وجہ سے لجنہ کو شکایت ہے کہ وہاں لجنہ کی طرف کھانا پہنچانے میں بھی دقّت پیدا ہوتی رہی۔
سیکیورٹی والوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ان کا کام صرف روکنا نہیں بلکہ راہنمائی کرنا بھی ہے اور اس شعبہ کی ایک ایسی ٹیم ہونی چاہئے جو مہمانوں کو سہولت سے معیّن جگہ پر پہنچائے اور ان کیلئے سہولیات مہیا کرے۔
اسی طرح ٹرانسلیشن کے بارے میں لجنہ کی طرف سے پہلے دن دقّت کا سامنا کرنے کی رپورٹ ملی اور یہ مجھے لجنہ نے نہیں بتایا بلکہ ہمارے ایم ٹی اے کے ٹرانسلیشن کے شعبے نے بتایا ہے کہ صحیح طرح ٹرانسلیشن نہیں ہوتی رہی۔ بعد میں باہر سے آئی ہوئی بعض مہمانوں نے شکوہ کیا کہ ٹرانسلیشن نہ ہونے کی وجہ سے ہم خطبہ نہیں سن سکے۔ آواز کا مسئلہ مردانہ ہال میں خاص طور پر رہا اور اس کیلئے میں جلسہ کے دوران بھی انتظامیہ کو توجہ دلاتا رہا ہوں۔ افسر جلسہ سالانہ اور افسر جلسہ گاہ اور آواز کے شعبہ کے انچارج جو لوگ ہیں یہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ لوگ یہاں جلسہ سننے آتے ہیں۔ اگر ان کو اس کے سنانے کا صحیح انتظام نہیں تو پھر جلسے کا فائدہ کیا ہے! باقی انتظامی معاملوں میں تو کمیاں برداشت ہوجاتی ہیں لیکن جلسہ سننے کے انتظامات میں کوئی کمی برداشت نہیں ہوسکتی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ کوئی میلہ نہیں ہے۔(ماخوذ ازشہادۃ القرآن، روحانی خزائن، جلد6، صفحہ395)جہاں لوگ جمع ہوجائیں اور نہ میرا مقصد لوگوں کو اس طرح اکٹھا کرنا ہے کہ لوگوں کو اپنی برتری بتاؤں۔ لیکن آواز نہ آنے کی وجہ سے بعض جگہ پیچھے میلے والا حال تھا۔ بعض لوگوں نے اس کی ویڈیو بنا لی، میں نے دیکھی ہیں۔ کوئی جلسے کا ماحول نظر نہیں آ رہا تھا۔ میرے اندازے کے مطابق کم از کم سات آٹھ ہزار افراد ایسے ہوں گے جنہوں نے جلسہ صحیح نہیں سنا۔ انتظامیہ لوگوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیتی ہے کہ باتیں کر رہے تھے لیکن میرے نزدیک افسر جلسہ گاہ اور ساؤنڈ سسٹم والے اور تربیت والے اس کے ذمہ دار ہیں اور ان کو اس بات پر غور کرنا چاہئے۔ مجھے تو یہ حالت دیکھ کر شرم آئی، امید ہے ان کو شرم آئی ہوگی۔ اگر لوگ باتیں کر رہے تھے تو پھر بھی تربیت کی کمی ہے اور مشنری انچارج اور مربیان اسکے ذمہ دار ہیں کہ وہ کیوں سارا سال تربیت نہیں کرتے اور لوگوں میں مجالس کے تقدّس کا خیال پیدانہیںکرتے۔ لوگوں پر الزام نہ دیں۔
احمدی کو تو اگر توجہ دلائی جائے تو عموماً مثبت ردّعمل دکھاتا ہے اور یہ لوگ تو جلسہ پر آئے تھے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ اگر توجہ دلائی جاتی تو فوراً اصلاح نہ ہوتی۔ بہرحال اپنے نقص تھے جس کے نتیجہ میں دوسرے نقص پیدا ہوئے۔
میں نے یہی دیکھا ہے کہ جہاں افسر عاجزی سے اور محنت سے کام کرنے والا ہو وہ تمام شعبہ بہتر ہوتا ہے ورنہ اگر عام کارکن اچھا کام کرنا بھی چاہے تو افسران کی وجہ سے صحیح کام نہیں کر سکتے۔ اس لیے مجھے کارکنوں سے شکوہ نہیں ہے۔ ہر خادم، ہر ناصر اور لجنہ کی ہر ممبر کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی طرف سے بہت محنت کی لیکن افسران کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ اس دفعہ عورتوں میں ڈسپلن مردوں کی نسبت کچھ بہتر مجھے نظر آیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مردوں کے شعبہ تربیت کو اپنی فکر کرنی چاہئے۔
ترقی کرنے والی قومیں اپنی کمزوریوں پر نظر رکھیں تو تبھی کامیاب ہوتی ہیں۔ ‘سب اچھا ہے’ یہ کہہ کر اپنی ترقی کے راستے بند نہ کریں اور نہ اس میں کوئی شرم کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ شعبہ جات کے افسران کو اپنی اصلاح کی توفیق دے۔
بہرحال ان سب کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کا یہ ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہماری پردہ پوشی فرمائی اور یہاں آئے ہوئے غیر از جماعت مہمانوں نے عموماً جلسے کا بڑا اچھا اثر لیا ہے اور اگر جلسہ میں نے کہا کامیاب ہوا تو اس وجہ سے ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی پردہ پوشی نے بہت زیادہ کام کیا اور اتنے غیرمعمولی تاثرات ان لوگوں نے دیے۔
اسی طرح دنیا میں جہاں ایم ٹی اے کے ذریعے سے جلسہ دکھایا گیا تھا انہوں نے بھی جلسے کی عمومی رنگ میں تعریف کی ہے۔ اس وقت میں بعض مہمانوں کے تاثرات بھی آپ کے سامنے رکھوں گا۔ بڑے اچھے خیالات کا عموماً اظہار ہے۔ پس اس بات پر جماعت جرمنی کو اللہ تعالیٰ کا بہت شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے اس جلسے کی وجہ سے اسلام کی حقیقی تعلیم کو لوگوں پر ظاہر کرنے کی توفیق دی۔
بلغاریہ سے آنے والی عیسائی خاتون ڈاکٹر ویرونیکا ستوئی لووا (Veronika Stoilova) جو وکیل اور یونیورسٹی لیکچرر ہیں، پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں کہتی ہیں کہ ایسا بہترین منظم جلسہ منعقد کیا گیا۔ جو چہرہ بھی میں نے دیکھا کسی پر گھبراہٹ یا غصہ نہیں پایا۔ تمام لوگ بہت مخلص اور ہر طرح ہر وقت مدد کرنے کو تیار نظر آتے۔ ہر شخص اپنی حالت پر شکر گزار تھا۔ بلا شبہ اس تقریب نے مجھے روحانی طور پر بحال کیا۔ تمام تنظیمیں، مرد، عورتیں یہاں تک کہ بچے بھی منظم تھے۔ مجھے ان دنوں جماعت احمدیہ کے متعلق بہت سی دلچسپ چیزیں سیکھنے کو ملیں مثلاً رواداری اور دوسروں کو باوجود اختلافات کے قبول کرنا۔ میں بلا شبہ اس بات سے بہت متاثر ہوں کہ برلن کی مسجد عورتوں نے اپنے زیوروں اور پیسوں سے بنائی۔ عورتوں کا انتظام بھی مجھے بہت اچھا لگا۔ میں بہت سے دوسرے جلسوں میں جاتی ہوں مگر میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ یہ بات میں نے کہیں اَور نہیں دیکھی۔ ایسی مثال بہت کم کوئی قائم کر سکے گا۔ پھر میری تقاریر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ روحانیت، انسانیت اور امن کے خیالات نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میرا ماننا ہے کہ ہم سب سے پہلے انسان ہیں، پھر ملک کے شہری اور پھر مذہبی برادری کا حصہ ہیں۔ ہمیں اپنے درمیان مشترکہ چیزوں کو تلاش کرنا چاہئے نہ کہ اختلافات کو جو ہمیں الگ کریں۔
پھر بلغاریہ سے آنے والی ایک عیسائی خاتون نتالیہ صاحبہ پہلی دفعہ جلسےپہ آئیں۔ کہتی ہیں جلسہ میرے ذہن میں نقش رہے گا۔ میں نے پہلی بار ہزاروں مسلمانوں کو ایک ساتھ عبادت کرتے دیکھا۔ یہ نہایت خوبصورت نظارہ تھا۔ میں عیسائی ہوں اور اس طرح کے جلسے میں پہلی بار شامل ہوئی ہوں۔ تمام لوگ ہم سے بہت ادب اور شائستگی سے پیش آتے جس نے ایک عجیب مسرت کا احساس دیا۔ جلسے کا اختتامی حصہ مجھے بہت اچھا لگا جس میں خلیفۂ وقت کی تقریر بہت سبق آموز تھی۔ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھی کہ سب لوگ ہم سے ایسے ادب سے پیش آتے جیسے ہم بہت خاص ہوں۔ ڈیوٹی پر موجود لوگ اس بات کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کر رہے تھے کہ کسی مہمان کو کوئی مشکل نہ ہو۔ پھر یہ کہتی ہیں پہلے دن ہمیں ترجمےکے لحاظ سے تھوڑا مسئلہ محسوس ہوا۔ شکایت انہوں نے بڑے ڈھکے چھپے الفاظ میں کی ہے لیکن یہی تھا کہ خطبہ سن ہی نہیں سکی جو کہ بعد میں ٹھیک ہوگیا۔
پھر مقدونیا کے ایک مہمان ہیں۔ ایک عیسائی صحافی لیوبِنکا آیتو وسکا (Ljubinka Ajtovska) صاحبہ کہتی ہیں کہ جلسہ سالانہ کی تنظیم بہت اعلیٰ سطح پر تھی۔ یہ میرے لیے ایک خاص اعزاز ہے کہ میں ایک اتنے بڑے اور منظّم پروگرام کا حصہ بن سکی جس میں مختلف مذاہب اور قوموں کے لوگوں نے شرکت کی۔ یہ بات اس نعرے کی تصدیق ہے کہ صرف محبت ہی دنیا کو ایک بہتر جگہ بنا سکتی ہے۔
پھر مقدونیا سے ہی ایک مسلمان صحافی سینادر اسیموو (Senad Rasimov) کہتے ہیں کہ خلیفۂ وقت کے مختلف موضوعات پر خطابات نے مجھے متاثر کیا۔ کہتے ہیں مقدونیا کے ایک صحافی ہونے کی حیثیت سے مجھے جلسے پر بہت سے احمدی مسلمانوں سے بات کرنے کی توفیق ملی جنہوں نے ہمیشہ مسکراہٹ کے ساتھ مجھ سے بات کی۔ میں جلسے کی صفائی اور تمام تنظیم سے بہت متاثر ہوں۔ آپ کا ماٹو محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں واقعی طور پر دکھائی دیا اور اسی ماٹو سے امن ہوسکتا ہے۔ صرف ڈیوٹی والے نہیں بلکہ لوگوں کے رویّے نے بھی مہمانوں کو بہت متاثر کیا۔
سلواکیہ سے آنے والی ایک خاتون ٹیچر مارٹینا صاحبہ کہتی ہیں میں شکرگزار ہوں کہ پہلی مرتبہ جلسے میں شامل ہوئی ہوں۔ میں نے مہمان نوازی کا ایسا منظر دیکھا ہے جو غالباً پوری دنیا میں نہیں پایا جاتا۔ ہر ایک خوش اخلاقی اور ایک مسکراتے ہوئے چہرے سے ملتا تھا۔ اس پورے جلسے نے میرے دل پر ایک گہرا اثر ڈالا اور خاص طور پر بیعت اور نماز کے دوران میں اپنے جذبات پہ قابو نہیں پا سکی۔ بیعت کی پوری تقریب کے دوران روتی رہی۔ اس لمحے کو میں زندگی بھر نہیں بھولوں گی کہ کس طرح تمام احمدی خلیفہ کے ہاتھ پر ایک جان ہوکر بیعت میں شامل ہوئے۔ اسی طرح میں احمدیوں کے خلیفہ سے ملاقات کو کبھی نہیں بھولوں گی اور ایک دن بعد بھی ملاقات کا میرے دل پر اثر ہے۔ کہتی ہیں کہ میں ضرور ان سے ایک اَور مرتبہ ملنا چاہتی ہوں (یعنی خلیفۂ وقت سے) اور اسلام کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ یہ مسلمان نہیں لیکن ان پہ اثر ہوا۔
سلواکیہ سے آنے والے ایک مہمان اُنڈرسکا (Ondriska) صاحب، بزنس مین ہیں۔ کہتے ہیں جلسہ سالانہ سے قبل مجھے اسلام کے بارے میں کچھ نہیں پتہ تھا۔ میری حالت یہاں تک تھی کہ مجھے لگتا تھا کہ مسلمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا خدا مانتے ہیں، نعوذ باللہ۔ جلسہ میں شامل ہوکر مجھے اسلام کی تعلیم، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل مقام کا تعارف حاصل ہوا اور یہ بھی پتہ لگا کہ اسلام دراصل ایک امن پسند مذہب ہے اور یہاں پر خاص طور پر میڈیا اسلام کے بارے میں غلط تاثر پیش کرتا ہے۔ میرے لیے حیرانگی ہے کہ یہ پورا جلسے کا انتظام احمدی خود کرتے ہیں اور کتنی لگن اور کتنے جوش اور جذبے کے ساتھ مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں جب میں نے خلیفۂ وقت کو دیکھا تو میرے دل میں امن اور روح پر مثبت اثر پڑا۔ کہتے ہیں میرا پختہ ایمان ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہی مجھے اس جلسے میں شامل کیا۔
پھر سلواکیہ سے آنے والے ایک مہمان جُودر مارٹن (Judr Martin) صاحب(مختلف ممالک سے کافی بڑے بڑے گروپ آئے تھے) کہتے ہیں میں نے پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ میں شرکت کی ہے۔ مجھے احمدیوں کے اخلاق اور مہمان نوازی دیکھ کر بڑی خوشی محسوس ہوئی ہے۔ جلسہ سالانہ پر مجھے بہت باتیں سیکھنے کو ملیں۔ مسلمان اور خاص طور پر احمدی امن پسند اور اپنی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں۔ جماعت نے جو exhibitionتیار کی تھی وہ پسند آئی اور مجھے اسلام اور اس کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ احمدیوں کے خلیفہ کے بارے میں میں نے دیکھا کہ ہر احمدی ان سے بڑا پیار کرتا ہے اور وہ بھی۔ ایسا بھائی چارہ اور پیار دنیا میں کم نظر آتا ہے۔
exhibition میں سربیا اور بوسنیا کا جو نقشہ بنایا گیا تھا، اس کے بارے میں میرا خیال ہے غالباً سربین کو شکوہ بھی ہے کہ ہمارا نقشہ صحیح نہیں بنا۔ وہاں نمائش والوں کو وہ دیکھ لینا چاہئے۔
البانیہ کے ایک مہمان پروفیسر ڈاکٹر رجیپ شکورتی (Rexhep Shkurti) صاحب جو فیکلٹی آف نیچرل سائنسز ترانا یونیورسٹی (Tirana University)میں پروفیسر ہیں اپنی اہلیہ کے ساتھ آئے تھے۔ کہتے ہیں جلسہ بہت عظیم الشان تھا۔ یہ مسلمان ہیں۔ کہتے ہیں میں دس سال سے روزہ رکھتا ہوں اور اسلام کے دوسرے احکام کی بھی تعمیل کرتا ہوں اگرچہ سارے نہیں۔
یہاں جلسے میں مَیں نے اسلام دیکھا ہے۔ دوسرے مسلمانوں سے آپ کے پاس واضح فرق خلافت ہے اور اس کی وجہ سے آپ کے پاس اتحاد بھی ہے۔
البانیہ سے ایک مہمان خاتون ایرمیرا (Ermira)صاحبہ تھیں جو نرس ہیں۔ کہتی ہیں اس سے پہلے بھی جلسے پر آئی تھی اس بار اسی روحانی تڑپ کی وجہ سے دوبارہ جلسے پر آئی ہوں۔ (غیر بھی ہوں تو ایک دفعہ آ گئے تو پھر عادت پڑ جاتی ہے) کہتی ہیں اس بار پہلی دفعہ میں نے نماز پڑھی ہے۔ ان کی کوئی سہیلی تھی وہ نماز پڑھتی تھی کہتی ہیں اس کو دیکھ دیکھ کر میں پڑھتی جاتی تھی۔ کہتی ہیں پہلی بار میری روح کا ہر ذرہ گویا حرکت میں آیا۔ سجدے میں رو رو کر دعائیں کر رہی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ میری ساری نفرتیں پگھلتی جا رہی تھیں۔ میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے ایمان پر مضبوطی عطا کرے اور پھر میرے سے ملاقات کی اس کا بھی کہتی ہیں میں بڑی یاد رکھوں گی۔
پس جلسے کے ماحول کا اثر غیر بھی لیتے ہیں۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ احمدی نہ لیں؟ پس جہاں عہدیداروں کو احمدیوں سے شکوہ ہوتا ہے ان کو چاہئےکہ اصلاح کے صحیح طریقے اختیار کریں۔ پہلے اپنی اصلاح، اپنا نمونہ۔ پھر لوگوں کو سمجھائیں۔
البانیہ سے آنے والی ایک مہمان خاتون دریتے شکرتی (Drite Shkurti) صاحبہ ہائی سکول کی ٹیچر ہیں۔ کہتی ہیں جلسے کے انتظامات نہایت اعلیٰ تھے۔ میں سکول میں ٹیچر ہوں اور جانتی ہوں کہ آجکل کے بچے کتنے aggressive ہوتے ہیں لیکن یہاں پر بچے بھی اتنے سلجھے ہوئے تھے کہ اپنی ڈیوٹیوں میں مگن تھے۔ (اطفال نے ،بچوں نے بھی نیک نمونے دکھا کے تبلیغ کے راستے کھولے) کہتی ہیں میرے لیے بہت حیران کن تھا۔ تجسس مجھے جلسے کے دوران عام کھانے کے ہال کی طرف لے گیا جو بازار سے پہلے تھا ۔ وہاں پر بھی میں نے دیکھا کہ ہزاروں مرد کھانا کھا رہے تھے لیکن کوئی جھگڑا، چھینا جھپٹی وغیرہ بالکل نہیں دیکھی۔ ایسا لگتا تھاکہ جیسے سب شہد کی مکھیاں ہیں جو صرف کام کرنا جانتی ہیں۔ لوگ ہر کام کیلئے تیار تھے اور اخلاق اتنے اعلیٰ کہ تھوڑا سا بھی دھکا لگتا تو فوراً سوری (sorry)کہتے۔
البانیہ سے آنے والے ایک مہمان جعفر کوچی (Xhaferr Kuci) صاحب نے اکنامکس میں ماسٹرز کیا ہے اور چار سال کی تحقیق کے بعد انہوں نے بیعت بھی کر لی ہے۔ کہتے ہیں کہ جلسہ ان کیلئے بےحد inspiring تھا۔ بہت positive energy دے گیا ہے۔ جلسہ گاہ میں خلیفۂ وقت کے ساتھ نمازوں میں مجھے اپنے آنسوؤں پر اختیار نہیں رہا اور اس طرح بیعت کی تقریب بھی نہایت جذباتی تھی اور مجھے ہمیشہ خلیفۂ وقت کے ساتھ بیٹھ کے تحفظ کا احساس ہوا اور مجھے یہی احساس ہوا کہ خلیفۂ وقت ہی ہے جو میرا عزیز اور مطاع ہے۔ کہتے ہیں اس کے علاوہ ایک بات جو مجھے اچھی نہیں لگی، وہ لوگوں سے تعلق رکھتی ہے ۔اس کو بھی لوگوں کو نوٹ کر لینا چاہئے۔ وہ یہ ہے کہ جلسے میں کئی بار بعض لوگ تقریرکے اختتام سے قبل ہی اٹھ کر چلے جاتے تھے۔ پس ہمیں اس بات کی بھی فکر کرنی چاہئے کہ نومبائعین پر منفی اثر نہ چھوڑیں۔
بوسنیا سے آنے والے تاریخ کے ایک پروفیسر حارث صاحب کہتے ہیں۔ جلسہ پر آنے سے قبل مجھے معلوم ہوا کہ وہاں ہزاروں لوگ ہوں گے اور خلیفہ بھی ہم سے خطاب کریں گے۔ میں قدرے خوفزدہ تھا اور کسی قدر تحفظات بھی رکھتا تھا۔ ہر چیز کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھا۔ کیونکہ احمدیوں کے بارے میں اس قدر وسیع جلسہ اور ان کے مذہبی رسومات کے بارے میں مجھے تفصیل سے علم نہیں تھا اور میں بنیادی باتوں میں الجھا ہوا تھا۔ پھر کہتے ہیں یہ تو میری سوچ تھی اور جب پہنچا تو کیا ہوا کہ اس سے پہلے مجھے اتنے اچھے لوگوں میں وقت گزارنے کا موقع ہی کبھی نہیں ملا۔ جلسے میں ہر چیز کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ سوچ کیا تھی ،عمل کیا دیکھا۔ اچھی منصوبہ بندی۔ ہر کوئی اپنے کام پر لگا ہوا تھا۔ عظیم تنظیم اور خوبصورتی سے منظم۔ کہتے ہیں خلیفہ کی پہلی تقریر کے بعد میرا ذہن صاف ہوگیا تھا۔ میں لوگوں کا پیچھا کرتا تھا کہ وہ کیسے بولتے اور کیا کہتے تھے۔ ان کا ایک دوسرے سے کیا تعلق تھا۔(تجسس تھا، لوگوں کے پیچھے چلتے رہے) کہتے ہیں میں یہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا رہا۔ میں نے اپنے مسلمان بھائیوں میں خود کو محفوظ پایا۔ میں نے محسوس کیا کہ کسی نے مجھے برا نہیں کہا، نہ ہی مجھے حسد یا اجنبیت کی آنکھ سے دیکھا یا کسی بات پر مجھے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان تمام باتوں میں جو بات میرے لیے قابل رشک اور ممتاز حیثیت رکھتی ہے جس کا تجربہ مجھے اپنی زندگی میں اس سے قبل نہیں تھا وہ خلیفۂ وقت کی ملاقات تھی لیکن مجھے سکون محسوس ہوا جیسے میری پیٹھ سے کوئی پتھر گر گیا ہو۔ میں پریشان تھا مگر اب بے فکر ہوگیا ہوں۔ میں مطمئن لوٹ رہا ہوں اور بلا شبہ علم سے مالا مال نئے اور اچھے لوگوں سے مالا مال ہوں جن سے ملا ہوں۔
بوسنیا سے آنے والی ایک خاتون اندرا حیدر (Indira Haidar) صاحبہ جو ریڈ کراس کی سیکرٹری ہیں کہتی ہیں۔ میرے سے ملاقات کا ذکر کر رہی ہیں کہ ان سے ملاقات فرینکفرٹ میں ہوئی اور بڑی پرمسرت رہی اور اس لیے کہ آپ اچھی باتیں کرتے ہیں۔ مجھے خلیفۂ وقت کو براہِ راست سننے کا موقع ملا۔ کہتی ہیں جماعت احمدیہ اور ہیومینٹی فرسٹ مختلف دشواریوں کے باوجود ہمارے ملک میں جس اخلاص سے خدمت خلق کے کام کو کر رہی ہے یہاں آ کر مجھے یقین ہوگیا کہ ان کے رضا کاروں میں بنی نوع انسان کی اس قدر بےلوث خدمت کے جذبہ کی وجہ صرف خلافت ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے۔
اور پھر کہتی ہیں دنیا کے مختلف حصوں سے مختلف انسانوں کو جماعت احمدیہ نے کس قدر وحدت کی لڑی میں پرویا ہوا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ ان تمام بنی نوع انسان کو امّتِ واحدہ بنانے میں اور دنیا کو بہتر بنانے کی خاطر اپنا کردارادا کرنے کے سلسلے میں اس تجربے نے مجھے باہمت بننے میں میری سمجھ کو گہرا کر دیا ہے۔ اس موقع نے نہ صرف مجھے مسلمان ہونے پر فخر محسوس کرنے کی تقویت بخشی بلکہ مجھے انسانی ہمدردی کی کوششوں اور بین المذاہب مکالمے کے فروغ میں مزید شامل ہونے کی ترغیب دی۔
بوسنیاسے آنے والی ایک خاتون مہمان امینہ صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں رضاکاروں کی تنظیم بہت اچھی تھی۔ خواتین کے حصے میں ترجمےکے مسئلے کی وجہ سے ہم بعض پروگراموں کی پیروی نہیں کر سکے کیونکہ خواتین کے حصےمیں کوئی ترجمہ نہیں تھا۔ (جو میں نے شروع میں بات کی اس کی یہ بھی تصدیق کر رہی ہیں) خلیفۂ وقت کی تقریر کا ترجمہ میرے لیے ہماری خواتین کی گروپ لیڈر نے کیا۔ یہ بات مجھے پسند آئی کہ ہمیشہ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم اور اس کے ترجمےسے ہوتا تھا اور کہتی ہیں مجھے خلیفۂ وقت کی نصیحت کہ مسلمان اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ تعلیم دیں اور اپنے علم کو عملی جامہ پہنائیں۔ یہی واحد راستہ ہے جس سے امّت کے موجودہ حالات بدلے جا سکتے ہیں۔
دوسرے دن پھر ترجمہ میں مسئلہ ہوا تو ہماری خواتین ترجمہ سننے کیلئے مردوں کے حصےمیں گئیں اور کہتی ہیں اس وقت (میرا کہا کہ) وہ خواتین کے حصےمیں تھے بہرحال کہتی ہیں کہ جو عورتوں کا خطاب تھا وہ بڑا معاون تھا اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی عورتوں کی مثالیں تھیں جو مجھے بڑی پسند آئیں۔ پھر کہتی ہیں اتوار کے پروگرام میں بھی بنیادی اسلامی اصولوں اور دوسروں کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں بات کی۔ ہمیں ہر چیز میں بہتر ہونا چاہئے اس چیز نے مجھ پر بڑا اثر کیا اور اگر ہم انصاف کریں گے تبھی ہم ترقی کریں گے اور معاشرے میں امن قائم ہوگا اس بارے میں بتایا۔پھر کہتی ہیں یہ سب باتیں جو میں لے کے جا رہی ہوں میرے لیے مشعل راہ ہیں۔
جارجیا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون لیا (Lia) صاحبہ کہتی ہیں میں اس وقت ہالینڈ میں تھیالوجی (Theology)اور ریلیجیس سٹڈیز (Religious Studies)میں ماسٹرز کر رہی ہوں۔ رہنے والی جارجیا کی ہیں۔ کہتی ہیں پہلی بار جلسہ دیکھنے کو ملا۔ کس طرح چھوٹے اور بڑے خاص جانفشانی سے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ عالمی بیعت کو دیکھ کر جذبات کو کنٹرول میں نہیں لایا جا رہا تھا۔ یہ جلسے کے آخری دن میں ایک وعدہ سب سے لیا جا رہا تھا کہ ہم اسلام کے مطابق آئندہ اپنی زندگی سنواریں گے۔ اس بیعت سے یہ انہوں نے سبق سیکھا ہے۔ کہتی ہیں میرے ذہن میں ایک اہم بات نقش کر گئی ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے قلمی جہاد کا تصور ہمارے سامنے رکھا جس کی میں سو فیصد تصدیق کرتی ہوں۔
مجھے بہت پسند آیا کہ عورتوں کو بھی اسلام تلقین کرتا ہے کہ وہ اسلام کی تعلیم کو پھیلائیں۔ میرا پختہ ایمان ہے کہ مستقبل میں دنیا اسلام کے بارے میں غور و فکر کرے گی اور اسکے ذریعہ لوگ اپنے خدا کو پہچاننے والے بنیں گے۔
جارجیا سے ایک سنی سکالر مسٹر ویسل (Veisel) آئے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں میں جارجیا میں رہتا ہوں۔ پندرہ سال کی عمر میں مَیں نے عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا۔ اسکے بعد تقریباً پندرہ سال میں نے مدینہ منورہ میں گزارے، اسلام کا علم اور عربی زبان میں نے مدینہ میں سیکھی۔ میری پڑھائی کے دوران مجھے آپ کی جماعت کے بارے میں منفی باتیں سننے کو ملی تھیں کہ احمدی ہمیں کافر کہتے ہیں اور احمدیوں کا عقیدہ ہی مختلف ہے۔ کہتے ہیں جارجیا میں مَیں آپ کی جماعت کے مشنری سے ملا ہوں اور جماعت احمدیہ کا تعارف بھی ملا ہے۔ آپ نے مختلف دیہات میں قربانی کا گوشت تقسیم کیا۔ ہم سے رابطہ کیا، مدد کی۔ پھر ان کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے جلسے پر آنے سے پہلے جامعۃ الازہر سے جماعت کے بارے میں فتوے دیکھے کہ احمدیوں کے پاس جا رہا ہوں، جامعہ ازہر کیا کہتی ہے۔ کہتے ہیں مَیں نے تمام امّتِ اسلامیہ کے جماعت کے بارے میں خیالات کو پڑھا۔ تمام فتاویٰ دیکھ کر مَیں نے یہی فیصلہ کیا کہ مَیں جماعت احمدیہ کو نزدیک سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ لوگ تو کافر کہتے ہیں، میں دیکھوں یہ ہیں کیا۔ پھر جلسے میں آ کر جماعت کوقریب سے دیکھ کر کہنے لگے کہ جماعت احمدیہ یقیناً اسلام کا حصہ ہے۔ مزید کہتے ہیں کہ مَیں نے خلیفہ کے خطابات کو غور سے سنا اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آپ لوگوں کو کافر کہنا بالکل غلط ہے۔ آپ بھی دوسرے فرقوں کی طرح اسلام کا ایک فرقہ ہیں۔
کہتے ہیں میں خلیفہ کی بہت قدر کرتا ہوں۔ میرے ذہن میں کئی سوالات تھے جو جلسے کے تین دنوں میں مختلف نشستوں میں حل ہوئے۔ آپ کی جماعت اور آپ کے بانی کے بارے میں تفصیل سے بات کرنے کا موقع ملا۔ واپس جارجیا جا کر آپ کی جماعت کی مختلف کتب کا مطالعہ شروع کروں گا۔ مجھے آپ سے مل کے خوشی ہوئی۔
پھر کوسوو سے آنے والے مہمان جو میونسپلٹی آف دیکان کے آفیشل ڈائریکٹر آف ایجوکیشن ہیں۔ کہتے ہیں جلسہ کے دنوں میں مَیں نے لیکچر سنے، باتیں سیکھیں میری یادداشت میں ہمیشہ نقش رہیں گی۔ میں کوسوو میں اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو اس جلسے کے حوالے سے بتانے کیلئے بے چین ہوں۔ خاص طور پر میں خلیفۂ وقت کی بیان کردہ تعلیمات پر عمل کروں گا۔ مزید برآں میں نے اور میرے ساتھیوں نے جو غیر معمولی اور محبت سے بھری ہوئی مہمان نوازی کا تجربہ کیا وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ رہے گا۔ اللہ آپ سب کو ڈھیروں خوشیاں دے۔
پھرکوسوو سے آنے والے ایک مہمان ہیں اَوْنی جشاری (Avni Jashari) صاحب لپجان Lipjanمیونسپلٹی کے میئر کی کابینہ کے سربراہ ہیں۔ کہتے ہیں میرے لیے غیر معمولی اور واقعی متاثر کن تجربہ تھا۔ میں نے خلیفۂ وقت کے خطابات اور دیگر تقاریر کو سنا اور دلچسپ اور متاثر کن معلومات کا خزانہ حاصل کیا جو ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔ کہتے ہیں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ اس تجربے نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ کہتے ہیں میرے لیے جلسہ سالانہ علم کی دنیا میں ایک ایسا باغ ہے جو تعاون اور بھائی چارے کو فروغ دیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ ایک ایسا موقع تھا جہاں آپ کی کمیونٹی کے مثالی کام اور مسلسل کوششوں کو دکھایا گیا کہ کس طرح جماعت احمدیہ معاشرے کو فائدہ پہنچانے کی خاطر منصوبے بنا رہی ہے اور اقدامات کر رہی ہے۔
الیزان (Elez Han) کوسوو کے میئر مسٹر مہمت کہتے ہیں۔ اس غیر معمولی جلسے نے مجھ پر ایک گہرا نقش چھوڑا اور میں اتحاد امن اور بھائی چارے کے اس جذبے سے بہت متاثر ہوا ہوں جو اس اجتماع کے ہر پہلو پہ چھایا ہوا تھا۔ تقریب کے دوران تقاریر بہت عمدہ تھیں۔ خاص طور پر خلیفۂ وقت کی تقریر میرے لیے حیرت انگیز اور ایمان افروز تھی۔ میں اب اسلام کو صحیح معنوں میں سمجھ چکا ہوں۔ مجھے انتظامیہ کی مہمان نوازی کی تعریف بھی کرنی چاہئے اور سب نے بڑی اچھی مہمان نوازی کی۔
تاجکستان سے آنے والے ایک دوست آرزو کریم صاحب ہیں۔ یہ دوست عربی اور تاجک زبان پر مہارت رکھتے ہیں اور جامعہ ازہر سے تعلیم یافتہ ہیں۔ بہت سی عربی کتب کا تاجک زبان میں ترجمہ بھی کر چکے ہیں اور کئی تاجک کتب کے مصنف بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مَیں نے جلسے کو بہت غور سے سنا اور لوگوں کو دیکھااور جماعت احمدیہ کے ان اوصاف کا ذکر کروں گا جو کہ اب دیگر دینی جماعتوں میں ختم ہورہے ہیں اور وہ احمدیوں کے اعلیٰ اخلاق ہیں۔
(پس ہر احمدی کو بہت اعلیٰ اخلاق دکھانے چاہئیں) میں نے بہت سے اسلامی فرقوں میں تحقیق کی ہے۔ اگر باقی سب فرقے اس وقت اسلام پر ایک فیصد عمل پیرا ہیں تو یہ جماعت اسلام کی تعلیمات پر ننانوے فیصد عمل پیرا ہے۔ ایک بک سٹال پر مختلف زبانوں میں لٹریچر آپ کی تبلیغی کاوشوں کا ثبوت ہے۔ کہتے ہیں میں رابطہ رکھوں گا اور جماعت کے بارے میں مزید جاننا چاہوں گا۔ میں کسی سے نہیں ڈرتا سوائے خدا کے۔ اور خلیفۂ وقت سے ملاقات بھی مجھے بہت اچھی لگی۔ میں خلیفۂ وقت کی اس بات سے اتفاق کروں گا کہ اصل کمزوری ہم لوگوں میں ہے اور ہم ہر وقت حکومت اور ریجیم (regime) کو کوستے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں مَیں امید کروں گا کہ میری دوبارہ ملاقات ہو اور مَیں فائدہ اٹھاؤں۔
تاجکستان کے وفدمیں شامل ایک غیر از جماعت تاجک دوست نے کہا کہ خلیفۂ وقت سے ملاقات میں تاجکستان کے سیاسی مسائل اور دینی پابندیوں پر بہت سیر حاصل بات ہوئی۔ مجھے اچھا لگا کہ انہیں ساری انسانیت کی بہت فکر ہے۔ کہتے ہیں آنے سے قبل مجھے جماعت احمدیہ کے بارے میں منفی خبریں دی گئی تھیں لیکن مجھے آپ کی جماعت سے بھائی چارہ اور انسانیت کا درس سیکھنے کا موقع ملا ہے۔
تاجکستان کےایک مبلغ لکھتے ہیں کہ تاجکستان کے وفد میں بہت معترض طبیعت کے ایک دوست شامل تھے۔ جلسے کے پہلے دو دن اعتراض ہی کرتے رہے۔ ایک اعتراض کرتے اور جواب سنے بغیر دوسرا اعتراض کر دیتے۔ ان کو اپنے دوستوں نے کہا کہ ہمیں مشاہدہ تو کرنا چاہئے، دیکھیں، یونہی اعتراض نہ کیے جاؤ۔ بہرحال پھر جلسے کے دوسرے دن وفود کی میرے سے ملاقات تھی۔ ان کی بھی ملاقات ہوئی تو مَیں نے ان سے ہی بات شروع کی اور ان کا تعارف لیا۔ ماسک پہنا ہوا تھا میں نے کہا اتاریں،ذرا چہرہ دکھائیں۔ کافی تفصیلی ان سے باتیں ہوتی رہیں۔ بہرحال مربی صاحب کہتے ہیں ملاقات کے بعد انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ میری ملاقات خلیفۂ وقت سے ہوگئی اور پھرمجھے دعائیں بھی دیتے رہے اور کہتے ہیں لیکن عجیب بات ہے اس کے بعد دو دن انہوں نے کوئی بھی اعتراض نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کا دل ایسا صاف ہوا کہ اعتراض ختم ہوگئے۔
جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے بعض عرب احباب کے تاثرات ہیں۔ ایک مہمان محمد علی صاحب ہیں، سیریا سے ان کا تعلق ہے۔ کہتے ہیں میرے ایک دوست کے ذریعہ سے مجھے احمدیت کا تعارف ہوا تھا۔ میرادوست مجھے جلسے پر لے کے آیا میرا ارادہ تھا کہ دن گزار کر شام کو واپس گھر چلا جاؤں گا، گھر قریب ہی ہے کیونکہ یہاں جگہ آرام دہ نہیں تھی۔ جب میں نے ماحول اور تنظیم کو دیکھا کہ ہر شخص مسکراتا ہے اور بڑا اچھا ماحول ہے گویا ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ کہتے ہیں ایسا ماحول میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا ۔میں نے اپنا ارادہ بدل دیا اور میں نے سوچا کہ میں یہاں جلسہ پہ زمین پہ ہی سو جاؤں گا۔ کوئی فرق نہیں پڑتا نیچے میٹرسیں بچھی ہوئی ہیں۔ کہتے ہیں جلسے کے دوسرے ہی دن احمدیت کی صداقت میرے دل میں گھر کر گئی۔ میں نے بیعت کرنے کا ارادہ کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کی توفیق دی۔ کہتے ہیں میں احمدیوں کے نظام کی پابندی،نظم و ضبط کا خیال رکھنا اور عدم انتشار سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ ہر کوئی اپنے فرائض کو جانتا ہے چاہے منتظم ہویا مہمان۔
عبدالرحمٰن اسماعیل صاحب لکھتے ہیں: جلسہ سالانہ میں پہلی بار شریک ہوا ہوں۔ دنیا بھرمیں کوئی ایسا گروہ نہیں جو ایسا کام کرتا ہو۔ حاضرین پوری دنیا سے شامل ہوئے لیکن کسی قسم کی لڑائی جھگڑا نہیں دیکھا۔ آپس میں پیار محبت اور بھائی چارے کی اعلیٰ مثالیں دیکھیں۔ کہتے ہیں جو توقع کی جا رہی تھی اس سے بڑھ کر تعداد شامل ہوئی اور مجھے بہت استفادہ کرنے کی توفیق ملی۔
عبداللہ عزت عقیلی صاحب مصر سے ہیں، آجکل فرانس میں فزکس میں ماسٹرز کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں فزکس میں ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اس لیے ہر چیز میں شک کرنا میری طبیعت کا حصہ بن گیا ہے۔ میں نے بیعت تو بہت عرصہ پہلے کی تھی اور جماعت اور خلافت کے ساتھ تعلق بھی تھا لیکن آہستہ آہستہ دیگر امور کے علاوہ جماعت کے بارے میں بھی شکوک پیدا ہوگئے اور میں جماعت سے دور ہونے لگا۔ کہتے ہیں اس سال جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونے کیلئے حاضر ہوا تو رجسٹریشن میں کچھ تاخیر ہوگئی (اور رجسٹریشن کی شکایت یہی تھی کہ رجسٹریشن وقت پہ نہیں ہورہی تھی اور لوگوں کو بڑی دقّت کا سامنا تھا لیکن بہرحال ان کو اس تاخیر نے، لیٹ ہونے نے فائدہ دے دیا) وہ کہتے ہیں جب میں پہنچا ہوں تو خطبہ شروع ہوچکا تھا اور جب میں جلسہ گاہ میں داخل ہوا تو خطبے کے جو الفاظ میرے کانوں میں پڑے وہ یہ تھے کہ اگر انسان ہر بات پہ بدظنی کرنے لگے تو شاید ایک دم بھی دنیا میں نہ گزار سکے۔
یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس میں پڑھ رہا تھا۔ وہ پانی بھی نہ پی سکے کہ شاید اس میں زہر ملا دیا ہو۔ بازار کی چیزیں نہ کھا سکے کہ ان میں ہلاک کرنے والی کوئی شئے ہو۔ پھر کس طرح وہ زندہ رہ سکتا ہے۔(ماخوذ از ملفوظات، جلد3، صفحہ73 ،ایڈیشن 1984ء)کہتے ہیں یہ الفاظ سنتے ہی میں اندر سے ہل کے رہ گیا۔ ایسے لگا کہ جیسے میرا اس وقت جلسہ گاہ میں آنا خدائی تقدیر تھی کیونکہ پہلا جملہ ہی میرے مرض کا علاج تھا اور جیسے یہ مجھے مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں یہ کوئی اتفاقی بات نہیں ہوسکتی۔ اس کا میرے دل پر گہرا اثر ہوا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے شکوک اور بدظنیاں ختم ہوگئیں۔ الحمدللہ کہ خدا تعالیٰ نے جلسہ سالانہ میں شمولیت کی بدولت مجھے شکوک اور بدظنیوں سے نجات دی۔ یہ واقعہ انہوں نے مجھے خود بھی سنایا ہے۔
کیمرون سے امام صاحب آئے ہوئے تھے، وہاں کے بڑے امام ہیں، کیمرون کے دوالا (Dovala) شہر کے چیف امام ہیں اور دو ریجنزکی علماء کونسل کے چیئرمین بھی ہیں۔ غیر از جماعت ہیں۔ کہتے ہیں میں پہلی دفعہ اتنے بڑے پروگرام میں شامل ہوا ہوں۔
میرے لیے بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ جلسہ سالانہ میں مختلف رنگوں کے لوگ سب خوشی سے ملے اور آپس میں سب ایک فیملی کے افراد کی طرح پیار و محبت سے ملے اور تین دنوں میں مجھے کسی قسم کا کوئی جھگڑا نظر نہیں آیا۔ پھر کہتے ہیں نمائشوں میں جا کر بہت علم میں اضافہ ہوا اور میں جماعت کی خدمات سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ پھر کہتے ہیں امام جماعت کے خطابات بہت پُرحکمت تھے۔ اسلامی تعلیمات کی بہترین عکاسی کرتے تھے۔ عورتوں سے خطاب نے مجھے بہت متاثرکیا۔ اگر ہم سب ان زریں ہدایات کے مطابق زندگی بسر کرنا شروع کر دیں تو یہ زندگی جنت بن جائے۔ پھر کہتے ہیں جلسہ کے دوران امام جماعت کا غیر از جماعت مہمانوں سے خطاب اسلامی تعلیمات سے پُر تھا۔ امام جماعت نے ایسی تعلیم پیش کی کہ ہر مسلمان کو اپنے دین پر فخر کرنا چاہئے۔ ہم سب کو عملی طور پر اس تعلیم کو پوری دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔ اور اس وقت اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے خلیفہ کو بہترین اسلامی تعلیمات دنیا کے سامنے پیش کرنے کیلئے کھڑا کیا ہے۔ اور کہتے ہیں باقی علماء کی جو تقاریر تھیں ان سے بھی میرے علم میں بہت اضافہ ہوا۔
پھر چیک ریپبلک سے اس دفعہ پہلی بار ایک ریٹائرڈ پروفیسر ڈینیئل صاحب شامل ہوئے۔ کہتے ہیں میرا جلسہ سالانہ کا پہلا تجربہ ہے بہت ساری چیزوں نے مجھے متاثر کیا۔ ایک یہ کہ نماز کے وقت میں نے دیکھا کہ خلیفۂ وقت کے ساتھ احباب جماعت جس انداز میں نماز پڑھ رہے تھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خلیفۂ وقت کے سانس کے ساتھ وہ سانس لے رہے ہیں۔ گویا وہ ایک وجود بن گئے ہیں۔ میں نے دنیا میں بہت سی قوموں، مذہبوں اور لوگوں کو دیکھا ہے۔ اس طرح کی یکجہتی اور اکائی آج پہلی دفعہ دیکھنے کو ملی جس کو دیکھ کر دل بہت خوش ہوا۔ پھر مزید کہتے ہیں کہ دنیا میں بڑی سے بڑی نمائشوں میں بھی جانے کا موقع ملا۔ ان میں جہاں بھی سیکیورٹی دیکھی وہاں سیکیورٹی اہلکاروں کا رویہ تلخ ہی پایا مگر اس جلسہ سالانہ پر سیکیورٹی سے لے کر ہر کارکن کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی، نرمی دیکھی جس کا یقیناً پورے جلسہ کے ماحول پر مثبت اثر پڑا۔ ایک پُرامن فضا قائم تھی۔ اتنے بڑے مجمع میں بغیر کسی رکاوٹ کے چلنا یقیناً حیران کن ہے۔ بعض احمدیوں کو شکوہ ہے سیکیورٹی سے لیکن شکر ہے کہ غیروں کو سیکیورٹی کا رویّہ اچھا لگا۔ عموماً ایک آدھ ہوگا جو کسی نے دکھایا ہوگا یا بعض دفعہ پابندی کی ہوگی کسی علاقے میں لیکن عمومی طور پر سیکیورٹی والےبھی اچھے ڈیوٹی دینے والے تھے۔ پھر میرے سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پہلے انہوں نے دیکھا بڑا متاثر ہوا اور مَیں بڑا شکر گزار ہوں۔ یہ ملاقات بھی میری زندگی کا ایک زرّیں حصہ ہے اور میں نے باتوں سے بہت فائدہ اٹھایا۔
پھر ایک اور شخص چیک ریپبلک سے آئے ہوئے ایک نوجوان مہمان ہیں۔ کہتے ہیں مجھے اس جلسہ سالانہ پر احمدیوں کے ذریعہ سے خدا دکھائی دیاہے۔ بہت سے لوگ کوشش کرتے ہیں کہ خدا کے متعلق آگاہ کریں مگر اس جلسے پر لوگوں کے خاموش، اچھے اخلاق کو دیکھ کر مجھے آپ کی جماعت میں خدا کا وجود نظر آیا ہے۔
یہ بھی ایک خاموش تبلیغ ہے۔
لتھوینیا یونیورسٹی کی ایک عربی پروفیسر گنتارے سرے کائتے (Gintare Serekaite) جلسے میں شامل ہوئیں۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر اسلامی اصول کی فلاسفی کا لتھوینین زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ کہتی ہیں اسلامی دنیا میں جماعت احمدیہ کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جماعت احمدیہ جس طرح غیر از جماعت اور غیر مسلموں کے ساتھ رابطہ رکھتی ہے کوئی اَور جماعت ایسا نہیں کرتی۔ ایک ریسرچر ہونے کی حیثیت سے مجھے اسلامی کلچراور اسلامی روایات میں کافی دلچسپی ہے لیکن لتھوینیا میں جماعت احمدیہ کے علاوہ کسی بھی اسلامی جماعت کے ساتھ ملنا اور رابطہ رکھنا بہت مشکل ہے۔ جلسہ سالانہ نے مجھے شاندار موقع دیا کہ میں جماعت احمدیہ کو ہر لحاظ سے پرکھ سکوں۔ یقیناً جماعت احمدیہ اپنے ماٹو محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں پر حقیقی رنگ میں عمل پیرا ہے۔ اور یہاں مجھے سینتالیس ہزار لوگوں میں کوئی اجنبیت کا احساس نہیں ہوا۔
پھر لتھوینیا سے ایک مصنف اور جرنلسٹ جرونی ماس (Jeronimas) صاحب کہتے ہیں میں دنیا میں موجود بدامنی اور بے انتہا غربت سے بہت پریشان ہوں۔ ہمیشہ سوچتا ہوں کہ ایسے حالات میں ایک عام آدمی کیا کر سکتا ہے؟ لیکن جب یہی سوال میں نے خلیفۃ المسیح سے پوچھا تو مجھے نہایت ہی مطمئن جواب ملا کہ انسان کا مقصد تو وہی ہے جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ لوگوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ موت کے بعد بھی ایک زندگی ہے۔ اگر لوگ اس طرف توجہ نہیں دیں گے تو دنیا میں ہمیشہ بدامنی رہے گی۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ خلیفۂ وقت کی توجہ پہلے سے ہی اس مسئلے کی طرف ہے اور وہ لوگوں کو اپنے خطابات اور خطبات میں دنیاکے مسائل کے حل بھی بتا رہے ہیں۔
پھر قرغیزستان سے کاچیو (Kachiev) صاحب آئے تھے۔ وہ کہتے ہیں: جلسے کے دوران میں نے اپنے مذہب اور جماعت کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ مجھے میرے بہت سے سوالات کے جواب مل گئے۔ میں اپنی زندگی میں پہلی دفعہ جلسے میں شامل ہوا ہوں اور پہلی دفعہ ہی بیرون ملک نکلا ہوں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اتنے لوگوں کا ہجوم جلسے کے دوران ہوگا میں نے وہاں ہونے والی تمام باتیں سنیں اور مجھے بہت دلچسپ لگیں۔ سب کچھ بہترین تھا۔
قزاخستان سے آنے والے ایک احمدی دوست علی بیگ صاحب کہتے ہیں: جلسہ میں شامل ہونا بہت اچھا لگا۔ جب بیعت کی تو ایک الگ ہی احساس تھا اور جب خلیفۂ وقت سے ملاقات ہوئی تو میرے سب احساسات، جذبات اپنے آخری نکتہ پر پہنچ گئے اور میرا جلسے پر آنے کا مقصد پورا ہوگیا۔ جلسہ میں شمولیت کا اثر اتنا زیادہ ہے کہ میرے بیوی اور بچے بھی کہہ رہے تھے کہ تم بدل گئے ہو۔ اگلے سال ان شاء اللہ بیوی اور بچوں کے ساتھ جلسے میں شامل ہونے کا ارادہ ہے۔
یاسمین صاحبہ ایک ترک خاتون ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے ٹیچر ہیں۔ یہاں جرمنی میں ہی رہتی ہیں۔ وہ شامل ہوئیں۔ کہتی ہیں خلیفۂ وقت کا خطاب میرے سوالوں کا جواب تھا۔ جلسے کا ماحول مجھے بہت پسند آیا۔ اتنے بڑے اجتماع کے باوجود اتنے زیادہ امن اور سکون سے ہر کام کا ہونا مجھے تسکین قلب عطا کرتا رہا۔ اتنے زیادہ لوگوں کاصرف رضائے باری کیلئے اکٹھے ہونا اور پھر ان سب کا محبت کی لڑی میں پروئے ہونا ایک غیر معمولی حیران کن بات تھی۔ کہتی ہیں مختصر یہ کہ وہاں جو کچھ کہا گیا اور جس سوچ کا اظہار کیا گیا مجھے اسی کی تلاش تھی۔ اس دن میں نے ایک پزل (puzzle)کے ہر حصے کو اپنی اپنی جگہ فٹ بیٹھتے دیکھا۔
سربیا سے آنے والے ایک جرنلسٹ ستانیس لاوْ (Stanislav) صاحب اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ باوجود ایک آرتھوڈوکس عیسائی ہونے کے اور باوجود اس کے کہ انٹرنیٹ میں آپ کے خلاف بہت نفرت پھیلی ہوئی ہے میں آپ کی جماعت سے بہت متاثر ہوا۔ آپ کی انتظامیہ اور سسٹم نے مجھے حیران کر دیا ہے۔
میں بہت ہی افسردہ ہوں کہ ہم احمدیت کی حقیقی تعلیم دنیا میں وسیع پیمانے پر پھیلا نہیں سکتے۔ ہم نے آپ کے ماٹو محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں کا ہر قدم پر مشاہدہ کیا۔ ہمیں نہ انتظامیہ میں اور نہ چھیالیس ہزار افراد میں کوئی بری بات نظر آئی۔ ہر جگہ امن تھا۔ ہر ایک نے دوسرے کی عزت کی اسی طرح جس طرح آپ کی تعلیم ہے۔ کہتا ہے میرے لیے الفاظ میں یہ بیان کرنا مشکل ہے۔
سربیا سے آنے والی ایک جرنلسٹ خاتون میا (Mia) صاحبہ کہتی ہیں میرے دل میں جلسہ سالانہ کی انتظامیہ، مقررین اور تمام شامل ہونے والوں کے بارے میں بہت مثبت تاثرات ہیں۔ سب سے زیادہ میں خلیفہ کے لجنہ کی طرف خطاب سے متاثر ہوئی۔ اسی طرح میں تمام انتظامیہ کی انتہائی شکرگزار ہوں۔
پھر ایک لوکل پولش احمدی خاتون کہتی ہیں:تین سال پہلے ایک خواب میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک ملاقات میں ہوں اور مجھ سے وہ کچھ سوال کرنا چاہتی ہیں۔ کہتی ہیں لیکن مجھے سوال کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس پر کہتی ہیں میں بہت پریشان ہوئی۔ سوال میرا بہت ضروری تھا۔لیکن کہتی ہیں اس مرتبہ جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئی اور ملاقات کا موقع ملا تو مجھے وہ سوال کرنے کا موقع مل گیا اور خلیفۂ وقت کی طرف سے ایک نہایت مطمئن کر دینے والا جواب بھی مجھے مل گیا۔ اس کے بعد مجھے ایک عجیب سی سکینت حاصل ہوئی۔ میں بہت مشکور ہوں۔
ایک جرمن مہمان گونتامووا (Gunter Moar) صاحب نے کہا۔ میں مذہب اسلام کو criticalنظر سے دیکھتا ہوں۔ مگر میں نے پھر بھی خلیفہ کے خطاب کو بہت توجہ سے سنا ہے یہاں تک کہ خلیفہ نے جو حوالے اپنے خطاب میں بیان کیے تھے میں نے ان کو بھی چیک کیا ہے۔ (اتنی گہرائی سے بعض لوگ دیکھتے ہیں کہ قرآن شریف کی جو آیتیں مَیں نے quote کی تھیں ،کہیں وہ غلط تو نہیں، صرف دکھانے کیلئے تو نہیں۔ جا کے قرآن شریف چیک کیا ہے) کہتے ہیں میں تسلیم کرنے پر مجبور ہوں کہ خلیفہ کا خطاب سن کر مجھے بہت حیرانگی ہوئی کہ خلیفہ نے امن اور بھائی چارے پر اتنا زور دیا ہے۔ بلا شک خلیفہ نے بہت اچھا خطاب کیا۔
مَیں یہ بار بار کہنے پر مجبور ہوں کہ میری حیرانگی کا آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کیونکہ اسلام کی ایک امن پسند تصویر آپ نے دکھائی ہے جو یہاں عموماً نظر نہیں آتی۔ یقیناً اسلام کے بارے میں میرے نظریہ میں آج بہت بڑا اضافہ ہوا ہے کیونکہ اس سے پہلے میں اسلام کو امن کا مذہب تصور بھی نہیں کر سکتا تھا اور اسلام کی امن کی تعلیمات کا مجھے علم نہیں تھا۔
میں نے آج سب سے پہلے خلیفہ کا لجنہ سے خطاب مردانہ ہال کی سکرین پر دیکھا۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ خلیفہ ہیں مگر اس خطاب کو سن کے بھی بہت متاثر ہوا اور جب مہمانوں کے سٹیج پہ آئے تب مجھے پتہ لگا۔ تب مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ میں براہ راست آپ کو سنوں گا۔
ایک جرمن مہمان کیون (Kevin) صاحب کہتے ہیں میں تو خلیفہ کے خطاب کو سن کر حیران رہ گیا ہوں۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ کیا کہوں لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ہر ایک کو ان سب باتوں پر عمل کرنا چاہئے جو خلیفہ نے بیان کیں اور خلیفہ نے مسکراہٹ کے بارے میں جو بات بیان کی ہے وہ بہت ضروری ہے۔ اس کی کمی جرمنی میں بہت زیادہ ہے۔ خود اپنی باتیں بتا رہے ہیں کہ ہمیں مسکراتے رہنا چاہئے جو ہم میں نہیں ہے۔ اور ہمارے لوگ متاثر ہوجاتے ہیں۔ عورتوں کے مقام کے بارے میں آپ کے ارشادات سے مکمل طور پر متفق ہوں اور سمجھتا ہوں کہ جو بھی خلیفہ نے بیان کیا وہ سب سچ ہے۔
ایک جرمن مہمان عیسائی کرسٹیان (Christian) کیتھولک ٹی وی کے نمائندے ہیں۔ کہتے ہیں: خلیفہ کا خطاب بہت متاثر کن تھا۔ خطاب کا دائرہ سامعین کی وسعت کے مطابق تشکیل دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح خلیفہ نے بنیادی اصول بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کر دیا کہ یہ بنیادی اصول بھی خدا نے سکھائے ہیں نہ کہ آج یونائیٹڈ نیشنز یا کسی اَور کے قائم کردہ ہیں۔ اس طرز پر باقی مذہبی راہنماؤں کو اس وضاحت کے ساتھ اپنے خطاب دینے چاہئیں۔ کہتے ہیں خلیفہ کا خطاب ایسا تھا کہ محض سن لینا کافی نہیں بلکہ اس پر بہت غور و فکر کرنا چاہئے کہ آپ کی بیان کردہ باتوں سے مراد کیا ہے۔ میں نے اسلام کی حقیقی تعلیم کے بارے میں بہت تحقیق کی ہے اور اسلام کے بارے میں میرا تصور بہت اچھا ہے۔ خلیفہ نے اسلام میں عورتوں کے بارے میں جو تعلیمات بیان کی ہیں وہ بہت دلچسپ ہیں مگر میری خواہش ہے کہ لوگ یہ یاد رکھیں کہ یہ حقوق اورمقام کسی این جی او یا یو این او نے قائم نہیں کیے بلکہ خداتعالیٰ نے مذہب کے ذریعہ سے قائم کیے ہیں۔
ایک جرمن مہمان یولیان (Julian) صاحب کہتے ہیں میری بات کر رہے ہیں کہ بڑے اوپن تھے اور میں نے ان کی مجلس میں بڑا ہمدرد انہیں محسوس کیا۔ جو باتیں کیں گہرے تجربے کی بنیاد پر بڑی گہری باتیں تھیں اور یہ کہ انسان جس ملک میں رہے اس ملک کی خدمت کرے۔ ہمسایوں کی تعریف کے ساتھ چالیس گھروں تک وسعت دینا یہ میرے لیے بڑی بات تھی کیونکہ یونہی حقیقی طور پر ہر ایک کا خیال رکھا جا سکتا ہے۔ عیسائیت نے بھی ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں تعلیمات دی ہیں مگر یہ نہیں بتایا کہ ہمسائیگی میں کون کون شامل ہیں۔ اسی وجہ سے صرف ساتھ والے کو ہمسایہ شمار کیا جاتا ہے جبکہ اسلام نے اس سے زیادہ بہتر تعلیم پیش کی ہے۔ یہ ایک عیسائی کہہ رہے ہیں۔
ایک جارجین خاتون کہتی ہیں، میں نے آج خلیفہ کے دونوں خطاب سنے۔ بہت متاثر ہوئی۔ ان خطابات نے آج یہ بات مجھے سمجھائی ہے کہ حقیقی integrationکا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے مذہب قوم اور انسانیت کی خدمت کرے۔ کہتی ہیں مجھے جلسہ سالانہ کا ماحول پسند آیا کیونکہ یہاں ہر قسم کی قوم و نسل کے اور ہر قسم کے لوگ بڑی محبت اور اتفاق سے اور پُرامن طور پر اکٹھے ہوئے تھے جو کہیں اَور دیکھنے کو نہیں ملتا۔ لجنہ کا جو خطاب تھا اس میں مجھے پہلی دفعہ پتہ لگا کہ اسلام میں عورتوں کا کیا مقام ہے۔ ایسی مسلمان عورتیں بھی گزری ہیں جنہوں نے جنگوں میں بھی حصہ لیا۔ یہ میرے لیے بڑی حیران کن بات تھی۔
مہمان علی بکر صاحب گرین مسلم پارٹی کے ترجمان کہتے ہیں خلیفہ کا خطاب دلچسپ، متاثر کن تھا۔ آپ نے جو باتیں بیان کی ہیں وہ نہ صرف مسلمانوں کیلئے بلکہ معاشرے کے ہر طبقے کیلئے ضروری ہیں اور یہ کہنا کہ امن صرف مسلمان ممالک میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے میرے لیے بہت دلچسپ بات تھی۔
پھر ایک جرمن خاتون مہمان ماغی (Marie) صاحبہ ہیں۔ یہ مسلمان نہیں تھیں اس کے باوجود وہاں احترام کیلئے دوپٹہ اوڑھ کر بیٹھی تھیں۔ کہتی ہیں میں عیسائی ہوں اور خلیفہ کے خطاب کے دوران مجھے محسوس ہوا کہ ہمارا آپس میں فرق صرف معمولی ہے۔ ہم مل جل کر پرامن طریقے سے رہ سکتے ہیں اور میں بہت متاثر ہوئی ہوں۔ دوران خطاب میرے دل پر اتنا اثر ہوا کہ میری آنکھیں نم ہوگئیں۔ انہوں نے عورتوں کے بارے میں جو تعلیمات بیان کی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام عورتوں کو جو حقوق دیتا ہے وہی ہیں جو خلیفہ کی تقریر میں بیان ہوئے اور جو دوسری کمیونیٹیز بیان کرتی ہیں۔ میں نے خود جلسہ سالانہ پر مشاہدہ کیا ہے کہ ان تعلیمات پر عمل بھی کیا جاتا ہے ،صرف تعلیم نہیں۔ کہتی ہیں: ان کی باتیں سیدھا دل کو چھونے والی تھیں اور میں نے یہاں لوگوں کو باتیں سن کے روتے بھی دیکھا ہے۔
جلسے پر سات ممالک کے انتالیس افراد نے بیعت کی بھی توفیق پائی جو ان دنوں متاثر ہوئے۔
اور ایک سربیا سے آنے والے مہمان اُورش (Uros) صاحب ہیں۔ کہتے ہیں: جلسہ سالانہ دنیا بھر کی احمدیہ جماعت کے ممبروں کو جمع کرنے والی عالمی تقریب ہے۔ سب سے زیادہ بیعت کی تقریب نے میرے پر روحانی اور جذباتی اثر ڈالا ہے۔ پہلے لمحہ سے ہم سب نے ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھ دیے۔ مجھے ایک بھی لفظ سمجھ نہیں آ رہا تھا مگر جو کچھ بھی کہا گیا وہ کسی طرح میرے جسم اور دماغ سے گزرا اور کپکپی طاری ہوگئی جو مجھے روحانی طور پر اللہ تعالیٰ کے قریب تر لے گئی۔ بیعت کی وجہ سے مجھے آنسو آ گئے تھے۔
ایک ترک نوجوان جان مرت (Jan Mert) صاحب ہیمبرگ سے ہیں۔ کہتے ہیں اس جلسے میں شامل ہوکر میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احمدیوں کے دلوں میں فتح اسلام کیلئے ایک نہ بجھنے والی آگ جلا دی ہے۔ جان مرت صاحب نے جلسے کے آخری دن تحریری بیعت کرنے کے بعد میرے ہاتھ پر بھی بیعت کی۔
یہ حالات تھے ان کے بعض لوگوں کے جو میں نے بیان کیے۔
جلسہ جرمنی میں میڈیا کوریج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی اچھی ہوئی۔ چار ٹی وی چینل میں اے آر ڈی(ARD)، آر ٹی ایل، Regio ٹی وی، ایس ڈبلیو آر۔ ان ٹی وی چینل کے ذریعہ سے کہتے ہیں کہ اکتالیس ملین لوگوں تک جماعت کی، جلسے کی خبر پہنچی۔
اخبارات جرمنی کی گیارہ اخبارات نے مختلف خبریں اور آرٹیکل شائع کیے۔ اس کے ذریعہ سے بھی پچاس ملین سے زائد لوگوں تک جماعت کا پیغام اور جلسے کی خبر پہنچی۔
ریڈیو سٹیشن جو ہیں، پانچ ریڈیو سٹیشنز نے خبریں نشر کیں۔ ان کے ذریعہ بھی کہتے ہیں چودہ ملین لوگوں تک پیغام پہنچا۔
آن لائن میڈیا کوریج کے ذریعہ دو ملین لوگوں تک پیغام پہنچا اور ٹوٹل اعدادو شمار جو ہیں اس کے ذریعہ سے ان کا خیال ہے ایک سو آٹھ ملین سے زائد افراد تک جلسہ سالانہ کی کوریج پہنچی ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ اس کے آئندہ بھی بہتر نتائج بھی پیدا کرے۔
یہ مختصر کوائف تھے جیسا کہ میں نے کہا مَیں نے لوگوں کے جو تاثرات لیے ہیں، بہت سے تاثرات تھے ان میں سے چند ایک میں نے لیے تھے۔
اللہ تعالیٰ کا یہ شکر اوراحسان ہے کہ وہ ہماری پردہ پوشی فرماتا ہے۔ اسی طرح مختلف مساجد کے جو افتتاح ہوئے ہیں ان میں بھی لوگوں نے اپنے مثبت تاثرات دیے ہیں۔ بعض نے اظہار کیا کہ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ احمدیت کیا ہے، اسلام کی تعلیم کیا ہے، اسلام کس طرح حقوق العباد اور حقوق اللہ کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ مختلف فنکشنوں میں لوگوں نے اظہار کیا ہے، یہ سب باتیں سن کر آج ہمیں اسلام کی تعلیم کے بارے میں پتہ لگا اور ہماری رائے بدل گئی ہے۔
لوگوں نے شکوہ یہ بھی کیا ہے کہ ہمارے واقف احمدیوں نے بھی کبھی ہمیں اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آگاہ نہیں کیا۔ پس اس بارے میں بھی تبلیغ کا مؤثر پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔
ہر احمدی کو بغیر کسی احساس کمتری کے اسلام کا تعارف اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعارف کروانا چاہئے۔ مثلاً جلسے پر ایک ایرانی لڑکا آیا ہوا تھا۔ ہمارے ایک احمدی سے اس کی بات ہوئی۔ اس کو اس کا ایک احمدی دوست لے کے آیا ہوا تھا۔ کہنے لگا کہ میں یہاں آ کے بڑا اپ سیٹ ہوں۔ انہوں نے وجہ پوچھی۔ اس نے کہا مجھے آج یہاں پتہ لگا ہے کہ تم لوگ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو نبی مانتے ہو۔ بہرحال جب اس کو تفصیل سے سمجھایا گیا کہ کس قسم کا نبی ہم مانتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آیا ہوا نبی مانتے ہیں، آپؐ کے دین کو پھیلانے والا اور آپؐ کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والا سمجھتے ہیں اور وہی عیسیٰ ہیں جس نے آنا تھا۔ کہتا ہے یہ سب تو ٹھیک ہے۔ میں مانتا ہوں مہدی عیسیٰ کا جو تمہارا نظریہ ہے ٹھیک ہے، عقل کو لگتا ہے لیکن میرے دوست نے مجھے کیوں نہیں بتایا! کئی سالوں سے میرا دوست تھا۔ تو بہرحال بغیر کسی احساس کمتری کے اپنے دوستوں کو، واقف کاروں کو ہمیں تبلیغ کرنی چاہئے اور اس بارے میںمؤثر تبلیغ کی ضرورت ہے۔ شعبہ تبلیغ کا صرف پمفلٹ تقسیم کر دینا، لیف لیٹس بانٹ دینا یا لیٹر بکسوں میں لیف لیٹس ڈال دینا مقصد پورا نہیں کرتا۔
امن کی باتیں تو ہم نے کر لیں اَب اگلی بات کی ضرور ت ہے کہ امن کس طرح قائم ہوگا۔ مسیح موعودؑ اور مہدی معہودؑکو مان کے قائم ہوگا اس لیے اس کو قبول کرو۔ تبلیغ کیلئے ہر موقع سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے۔
یہاں میں نے دیکھا ہے کہ لوگوں کو ابھی بھی مذہب کی باتیں سننے میں دلچسپی ہے، ایک طبقہ ایسا ہے۔ پس ہمیں ایسے پروگرام بنانے چاہئیں کہ جہاں ایسے لوگوں کو بلایا جائے، ان سے باتیں کی جائیں۔
بہرحال ہمیں ہر جگہ اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ جہاں جہاں انتظامی کمزوریاں ہیں جلسہ کے انتظامات میں کسی بھی مستقل شعبہ میں ، ان پر خاص طور پر غور کرنا چاہئے۔ صرف جلسے کے انتظامات نہیں، ہر شعبہ کودیکھنا چاہئے۔ تبلیغ کا شعبہ اللہ کے فضل سے اچھا کام کرتا ہے لیکن ابھی بہتری کی بہت گنجائش ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہمیں رہنا چاہئے۔ اچھی پلاننگ کر کے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے، دعا کرتے ہوئے اپنے کام کریں۔ بعض لوگوں نے بعض شکوے بھی کیے ہیں، آئندہ ان شکووں کو بھی دُور کرنا ہے جیساکہ میں نے ذکر کیا۔ ان شاء اللہ ہمیشہ یہ کوشش کریں کہ ہم نے، انتظامیہ نے بھی اور شاملین نے بھی جلسہ کے مقصد کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی ہے۔
جیساکہ میں نے ذکر کیا ایک مہمان نے ذکر کیا کہ شاملین جلسہ کی کارروائی کے دوران اٹھ کر چلے جاتے تھے۔ ان کو اچھا نہیں لگا۔ تو اس بات کو بھی خاص طور پہ دیکھنا چاہئے تربیت کے شعبے کو۔ اَور بہتر رنگ میں اس میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اور آئندہ سب کو بہتر رنگ میں جلسے کے مقصد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
…٭…٭…٭…