اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-22

آنحضرتﷺ کی سیرتِ مبارکہ کے تناظر میں جنگِ بدر کے پس منظر کا بیان

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 2؍جون2023ء بمطابق 2؍احسان1402ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن، لندن،یو.کے

خطبہ جمعہ

(آنحضرتﷺ کی ذات)ہماری زندگی کا محور ہے اور اسکے بغیر ہمارا دین، ہمارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی شریعت پر عمل بھی نہیں ہو سکتا

آنحضرتﷺ کی سیرتِ مبارکہ کے تناظر میں جنگِ بدر کے پس منظر کا بیان

مکرم خواجہ منیر الدین قمر صاحب آف یوکےکا جنازہ حاضر ،نیز مکرم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب واقفِ زندگی فضل عمر ہسپتال ربوہ،مکرمہ سیدہ امۃالباسط صاحبہ
آف اسلام آباد پاکستان اور مکرم شریف احمد بندیشہ صاحب صدر جماعت چک نمبر261 ر-ب ادھووالی ضلع فیصل آباد کی وفات پر مرحومین کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب

 

اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ-

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۝ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝ مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۝ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۝

اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۝ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَ۝

بدری صحابہؓ کی سیرت کے پہلو اور ان کا تعارف اور ان کی قربانیاں مَیں ایک سلسلہ ٔخطبات میں بیان کرتا رہا ہوں۔ بہت سے لوگوں نے اس خواہش کا اظہار کیا اور مجھے لکھا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نہ بیان کی جائے تو تشنگی رہ جائے گی کیونکہ اصل محور تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی جس کے گرد صحابہؓ گھومتے تھے۔ جس کے ساتھ جڑ کر صحابہؓ نے قربانیاں کرنے کے بے مثال معیار حاصل کیے اور نئے نئے اسلوب سیکھے اور توحید کو پھیلانے اور خود اس کا عملی نمونہ بننے کے وہ معیار قائم کیے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی اور اللہ تعالیٰ کے خاص محبوب ہونے کا ثبوت ہے۔ پس آپؐ کی سیرت کا بیان بھی ضروری ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر مختلف وقتوں میں گذشتہ سالوں میں خطبات دیے بھی گئے ہیں لیکن بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ایسی ہے کہ اس کے بیان کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ایک وصف ایسا ہے کہ جس کا احاطہ کئی خطبات میں بھی نہیں کیا جا سکتا اور یہ سیرت تو ان شاء اللہ وقتاً فوقتاً بیان ہوتی بھی رہے گی بلکہ ہر خطبہ اور خطاب میں کوئی نہ کوئی پہلو کسی نہ کسی رنگ میں بیان ہوتا بھی رہتا ہے کیونکہ یہی ہماری زندگی کا محور ہے اور اس کے بغیر ہمارا دین، ہمارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی شریعت پر عمل بھی نہیں ہو سکتا۔
بہرحال اس وقت مَیں جنگِ بدر کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلو اور تاریخ کے واقعات بیان کروں گا اور یہ سلسلہ آئندہ کچھ خطبات میں بھی چلے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہی ہے جس نے صحابہؓ کو بے لوث قربانیوں کا جذبہ عطا فرمایا اور یہ جذبہ عطا فرما کر غازیوں اور شہیدوں اور اللہ تعالیٰ کے پیاروں اور اللہ تعالیٰ کے ان سے راضی رہنے والوں میں شامل فرمایا اور جس کے نمونے ہم نے اپنی زندگیوں میں دیکھے۔ پس اس جنگ کے حوالے سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کا بیان ضروری ہے۔
جنگ کے واقعات سے پہلے ان اسباب کا بیان کرنا بھی ضروری ہے جس وجہ سے جنگ ہوئی۔ اس لیے پہلے میں اس کا کچھ پس منظر بیان کروں گا۔ اس پس منظر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپؐ کی لائی ہوئی خوبصورت تعلیم کے مختلف پہلو ظاہر ہو جاتے ہیں۔
جنگِ بدر کے اسباب بیان کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓنے لکھا ہے کہ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں جو جو مظالم قریش نے مسلمانوں پر کئے اور جو جو تدابیر اسلام کو مٹانے کی انہوں نے اختیار کیں وہ ہر زمانہ میں ہر قسم کے حالات کے ماتحت کسی دو قوموں میں جنگ چھڑ جانے کا کافی باعث ہیں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ سخت تحقیر آمیز استہزا اور نہایت دلآزار طعن وتشنیع کے علاوہ کفارِ مکہ نے مسلمانوں کو خدائے واحد کی عبادت اور توحید کے اعلان سے جبراً روکا۔ ان کو نہایت بے دردانہ طورپر مارا اور پیٹا۔ ان کے اموال کو ناجائز طور پر غصب کیا۔ ان کا بائیکاٹ کر کے ان کو ہلاک وبرباد کرنے کی کوشش کی۔ ان میں سے بعض کو ظالمانہ طور پر قتل کیا۔ ان کی عورتوں کی بے حرمتی کی۔ حتی ٰکہ ان مظالم سے تنگ آ کر بہت سے مسلمان مکہ کو چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے لیکن قریش نے اس پر بھی صبر نہ کیا اورنجاشی کے دربار میں اپنا ایک وفد بھیج کر یہ کوشش کی کہ کسی طرح یہ مہاجرین پھر مکہ میں واپس آ جائیں اور قریش انہیں اسلام سے منحرف کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور یا ان کا خاتمہ کر دیا جاوے۔ پھر مسلمانوں کے آقا اور سردار کو جسے وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے سخت تکالیف پہنچائی گئیں اور ہر قسم کے دکھوں میں مبتلا کیا گیا اور قریش کے بھائی بندوں نے طائف میں خدا کا نام لینے پر آپؐپر پتھر برسا دئیے حتیٰ کہ آپؐ کابدن خون سے تربتر ہو گیا اور بالآخر مکہ کی قومی پارلیمنٹ میں سارے قبائلِ قریش کے نمائندوں کے اتفاق سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ محمد رسول اللہ ﷺکوقتل کر دیا جاوے تاکہ اسلام کا نام ونشان مٹ جائے اور توحید کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو اورپھر اس خونی قرارداد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے نوجوانانِ مکہ جو مختلف قبائل قریش سے تعلق رکھتے تھے رات کے وقت ایک جتھہ بنا کر آپؐکے مکان پر حملہ آور ہوئے لیکن خدا نے آپؐکی حفاظت فرمائی اور آپؐان کی آنکھوں پرخاک ڈالتے ہوئے اپنے مکان سے نکل آئے اور غارِثور میں پناہ لی۔ کیا یہ مظالم اور یہ خونی قراردادیں قریش کی طرف سے اعلانِ جنگ کا حکم نہیں رکھتیں؟ کیا ان مناظرکے ہوتے ہوئے کوئی عقل مند یہ خیال کرسکتا ہے کہ قریش مکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برسرِ پیکار نہ تھے؟ پھر کیا قریش کے یہ مظالم مسلمانوں کی طرف سے دفاعی جنگ کی کافی بنیاد نہیں ہو سکتے تھے؟ کیا دنیا میں کوئی باغیرت قوم جو خودکشی کا ارادہ نہ کر چکی ہو ان حالات کے ہوتے ہوئے اس قسم کے الٹی میٹم کے قبول کرنے سے پیچھے رہ سکتی ہے جو قریش نے مسلمانوں کو دیا؟ یقیناً یقیناً اگر مسلمانوں کی جگہ کوئی اَور قوم ہوتی تووہ اس سے بہت پہلے قریش کے خلاف میدانِ جنگ میں اتر آتی مگر مسلمانوں کو ان کے آقا کی طرف سے صبر اور عفو کاحکم تھا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ جب مکہ میں قریش کے مظالم بہت بڑھ گئے تو عبدالرحمٰن بن عوف اور دوسرے صحابہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر قریش کے مقابلہ کی اجازت چاہی مگر آپؐنے فرمایا اِنِّیْ اُمِرْتُ بِالْعَفْوِ فَلَا تُقَاتِلُوْا یعنی مجھے ابھی تک عفو کا حکم ہے اس لئے میں تمہیں لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ چنانچہ صحابہؓ نے دین کی راہ میں ہرقسم کی تکلیف اورذلت برداشت کی مگر صبر کے دامن کونہ چھوڑا حتیٰ کہ قریش کے مظالم کاپیالہ لبریز ہوکر چھلکنے لگ گیا اور خداوند عالم کی نظر میں اتمام حجت کی میعاد پوری ہو گئی۔ تب خدا نے اپنے بندے کو حکم دیا کہ تُو اِس بستی سے نکل جاکہ اب معاملہ عفو کی حد سے گزر چکا ہے اوروقت آگیا ہے کہ ظالم اپنے کیفرکردار کو پہنچے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہجرت قریش کے الٹی میٹم کے قبول کئے جانے کی علامت تھی اور اس میں خدا کی طرف سے اعلانِ جنگ کا ایک مخفی اشارہ تھا جسے مسلمان اور کفار دونوں سمجھتے تھے چنانچہ دارالندوہ‘‘جو خانہ کعبہ کے قریب قریش کے مشورہ کی جگہ تھی ’’کے مشورہ کے وقت جب کسی شخص نے یہ تجویز پیش کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومکہ سے نکال دیا جاوے تو رؤسائے قریش نے اس تجویز کو اسی بنا پر رد کردیا تھا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مکہ سے نکل گیا تو پھر ضرور مسلمان ہمارے الٹی میٹم کوقبول کرکے ہمارے خلاف میدان میں نکل آئیں گے اور مدینہ کے انصار کے سامنے بھی جب بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا سوال آیا تو انہوں نے فوراً کہا کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ ہمیں تمام عرب کے خلاف جنگ کیلئے تیار ہو جانا چاہئے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے نکلے اور آپؐنے مکہ کے درودیوار پرحسرت بھری نگاہیں ڈال کر فرمایا کہ اے مکہ! تومجھے ساری بستیوں سے زیادہ عزیز تھا مگر تیرے باشندے مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے تواس پر حضرت ابوبکرؓ نے بھی یہی کہا کہ انہوں نے خدا کے رسول کو اس کے وطن سے نکالا ہے اب یہ لوگ ضرور ہلاک ہوں گے۔
خلاصہ کلام یہ کہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں مقیم رہے آپؐنے ہرقسم کے مظالم برداشت کئے لیکن قریش کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی کیونکہ اوّل تو پیشتر اسکے کہ قریش کے خلاف کوئی کارروائی کی جاتی سنت اللہ کے مطابق ان پر اتمامِ حجت ضروری تھا اور اس کیلئے مہلت درکار تھی۔ دوسرے خدا کایہ بھی منشاء تھا کہ مسلمان اس آخری حد تک عفو اور صبر کانمونہ دکھلائیں کہ جس کے بعد خاموش رہنا خودکشی کے ہم معنی ہو جاوے جو کسی عقل مند کے نزدیک مستحسن فعل نہیں سمجھا جا سکتا۔ تیسرے مکہ میں قریش کی ایک قسم کی جمہوری حکومت قائم تھی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے شہریوں میں سے ایک شہری تھے۔ پس حسنِ سیاست کاتقاضا تھا کہ جب تک آپؐمکہ میں رہیں آپؐاس حکومت کا احترام فرمائیں اور خود کوئی امن شکن بات نہ ہونے دیں اورجب معاملہ عفو کی حد سے گزر جاوے تو آپؐوہاں سے ہجرت کر جائیں۔ چوتھے یہ بھی ضروری تھا کہ جب تک خدا کی نظر میں آپؐ کی قوم اپنی کارروائیوں کی وجہ سے عذاب کی مستحق نہ ہو جاوے اوران کو ہلاک کرنے کا وقت نہ آ جاوے آپؐان میں مقیم رہیں اورجب وہ وقت آ جاوے توآپ وہاں سے ہجرت فرما جائیں کیونکہ سنت اللہ کے مطابق نبی جب تک اپنی قوم میں موجود ہو ان پر ہلاک کر دینے والا عذاب نہیں آتا اورجب ہلاکت کاعذاب آنے والا ہو تو نبی کووہاں سے چلے جانے کا حکم ہوتا ہے۔ ان وجوہات سے آپؐکی ہجرت اپنے اندر خاص اشارات رکھتی تھی مگر افسوس کہ ظالم قوم نے نہ پہچانا اور ظلم وتعدّی میں بڑھتی گئی ورنہ اگراب بھی قریش باز آ جاتے اوردین کے معاملہ میں جبر سے کام لینا چھوڑ دیتے اور مسلمانوں کو امن کی زندگی بسر کرنے دیتے تو خدا ارحم الراحمین ہے اوراسکا رسول بھی رحمۃ للعالمین تھا یقیناً اب بھی انہیں معاف کردیا جاتا اور عرب کو وہ کشت وخون کے نظارے نہ دیکھنے پڑتے جواس نے دیکھے مگر تقدیر کے نوشتے پورے ہونے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت نے قریش کی عداوت کی آگ پر تیل کا کام دیا اور وہ آگے سے بھی زیادہ جوش وخروش کے ساتھ اسلام کو مٹانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
ان غریب اور کمزور مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانے کے علاوہ جو ابھی تک مکہ میں ہی تھے سب سے پہلا کام جو قریش نے کیا وہ یہ تھا کہ جونہی کہ ان کو یہ علم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے بچ کر نکل گئے ہیں وہ آپؐکے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور وادی بکہ کی چپہ چپہ زمین آپؐ کی تلاش میں چھان ماری اور خاص غارِثور کے منہ تک بھی جا پہنچے مگر اللہ تعالیٰ نے آپؐکی نصرت فرمائی اورقریش کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈال دیا کہ وہ عین منزلِ مقصود تک پہنچ کر خائب وخاسر واپس لوٹ گئے۔ جب وہ اس تلاش میں مایوس ہوئے توانہوں نے عام اعلان کیا کہ جو شخص بھی محمد (صلعم) کوزندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا اسے ایک سو اونٹ جو آج کل کی قیمت کے حساب سے قریبابیس ہزار روپیہ بنتا ہے انعام دیا جائے گا۔‘‘ اس زمانے میں جب حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓنے لکھا یہ 1931ء کی بات ہے۔ آج کل تو یہ کروڑوں کی بات ہے۔ اس کو ایک سو اونٹ دیے جائیں گے۔ کروڑوں کے انعام کا لالچ تھا۔’’اور اس انعام کے لالچ میں مختلف قبائل کے بیسیوں نوجوان آپؐکی تلاش میں چاروں طرف نکل کھڑے ہوئے۔ چنانچہ سراقہ بن مالک کا تعاقب … اسی انعامی اعلان کا نتیجہ تھا مگر اس تدبیر میں بھی قریش کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ غور کیا جاوے تو دوقوموں میں جنگ چھڑ جانے کیلئے صرف یہی ایک وجہ کافی ہے کہ کسی قوم کے آقا وسردار کے متعلق دوسری قوم اس طرح کا انعام مقرر کرے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ 298تا 300)
اسی طرح جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے چلے آئے تو قریش نے مدینہ کے رئیس عبداللہ بن ابی اور اسکے ساتھیوں کے نام ایک دھمکی آمیز خط لکھا۔ انہوں نے لکھا کہ تم نے ہمارے ساتھی کو پناہ دی ہے اور ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ضرور تم اس سے جنگ کرو یا اسے جلا وطن کر دو یا ہم سب متحد ہو کر تم پر حملہ آور ہوں گے اور تمہارے جنگجوؤں کو قتل کر دیں گے اور تمہاری عورتوں کو اپنے ماتحت کر لیں گے۔ جب یہ خط عبداللہ بن ابی اور اسکے بت پرست ساتھیوں کو ملا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے کیلئے اکٹھے ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع ملی تو آپؐان سے ملے اور فرمایا قریش نے جو دھمکی تمہیں دی ہے وہ تمہارے خیال میں بہت بڑی دھمکی ہے حالانکہ وہ تمہیں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے جس قدر تم خود اپنے آپ کو نقصان پہنچا لو گے۔ تم چاہتے ہو کہ اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے جنگ کرو۔ کیونکہ ان میں سے بہت سے مسلمان ہو چکے تھے۔ جب یہود نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ باتیں سنیں تو وہ تو اِدھر اُدھر چلے گئے اور اس کو چھوڑ گئے۔(سنن ابوداؤد، کتاب الخراج، باب فی خبر النضیر ،حدیث نمبر3004)
اسی طرح قریش مکہ نے قبائل عرب کا دورہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف ان کو اکسانا شروع کیا۔
چنانچہ اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓنے سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ ’’پھر اسی پر بس نہیں بلکہ جب قریش نے دیکھا کہ اوس وخزرج مسلمانوں کی پناہ سے دستبردار نہیں ہوتے اور اندیشہ ہے کہ اسلام مدینہ میں جڑ نہ پکڑ جاوے تو انہوں نے دوسرے قبائل عرب کا دورہ کر کر کے ان کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا شروع کر دیا اور چونکہ بوجہ خانہ کعبہ کے متولی ہونے کے قریش کا سارے قبائل عرب پر ایک خاص اثر تھا اس لئے قریش کی انگیخت سے کئی قبائل مسلمانوں کے جانی دشمن بن گئے اورمدینہ کایہ حال ہو گیا کہ گویا اسکے چاروں طرف آگ ہی آگ ہے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ301)
چنانچہ ایک روایت میں ذکر ملتا ہے کہ حضرت ابی بن کعبؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب مدینہ میں تشریف لائے اور انصار نے انہیں پناہ دی تو تمام عرب ایک قوس کی مانند یعنی ایک جان ہو کر ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ چنانچہ ان دنوں مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ وہ راتوں کو بھی ہتھیار لگاکرسوتے تھے اور دن کو بھی ہتھیار لگائے پھرتے تھے اوروہ ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ دیکھیے ہم اس وقت تک بچتے بھی ہیں یا نہیں کہ ہمیں امن کی راتیں گزارنے کا موقع ملے گا اور اللہ کے سوا کسی کاڈر نہ رہے گا۔(المستدرک علی الصحیحین، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ النور، حدیث 3512،جلد2 ،صفحہ435 ،دار الکتب العلمیۃ 2002ء )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ ’’حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب شروع شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو دشمن کے حملہ کے اندیشہ سے آپؐراتوں کوجاگا کرتے تھے۔‘‘(السنن الکبریٰ للنسائی، کتاب المناقب ، سعد ابن مالک ،حدیث 8217، جلد5،صفحہ61، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1991ء)
اسی زمانے کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے: وَاذْكُرُوْا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَ اَیَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَ رَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (الانفال: 27)مسلمانو! وہ زمانہ یاد کرو جب تم تھوڑے تھے اورملک میں بہت کمزور سمجھے جاتے تھے اورتمہیں یہ خوف لگا رہتا تھا کہ لوگ تمہیں اچک کر تباہ کر دیں۔ پھر خدا نے تمہیں پناہ دی اوراپنی نصرت سے تمہاری تائید فرمائی اور تمہارے لیے پاکیزہ رزق کے دروازے کھولے۔ پس تمہیں شکر گزار ہو کر رہنا چاہیے۔
یہ بیرونی خطرات تھے جن کا قرآن کریم میں ذکر تھا۔ مدینہ کے اندر بھی حالات اتنے سازگار نہ تھے۔
جیساکہ اس بارے میں مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ’’مدینہ کے اندر یہ حالت تھی کہ ابھی تک ایک معتدبہ حصہ اوس وخزرج کاشرک پرقائم تھا اورگووہ بظاہر اپنے بھائی بندوں کے ساتھ تھے لیکن ان حالات میں ایک مشرک کاکیا اعتماد کیا جا سکتا تھا۔ پھر دوسرے نمبر پر منافقین تھے جو بظاہر اسلام لے آئے تھے مگر درپردہ وہ اسلام کے دشمن تھے اور مدینہ کے اندر ان کا وجود خطرناک احتمالات پیدا کرتا تھا۔ تیسرے درجہ پر یہود تھے جن کے ساتھ گو ایک معاہدہ ہو چکا تھا مگر ان یہود کے نزدیک معاہدہ کی کوئی قیمت نہ تھی۔ غرض اس طرح خود مدینہ کے اندر ایسا مواد موجود تھا جو مسلمانوں کے خلاف ایک مخفی ذخیرۂ بارود سے کم نہ تھا اور قبائل عرب کی ذرا سی چنگاری اس بارود کو آگ لگانے اور مسلمانانِ مدینہ کو بھک سے اڑا دینے کیلئے کافی تھی۔ اس نازک وقت میں جس سے زیادہ نازک وقت اسلام پر کبھی نہیں آیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرخدا کی وحی نازل ہوئی کہ اب تمہیں بھی ان کفار کے مقابلہ میں تلوار استعمال کرنی چاہئے جو تمہارے خلاف تلوار لے کر سراسر ظلم وتعدی سے میدان میں نکلے ہوئے ہیں اورجہاد بالسیف کااعلان ہو گیا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم .اے، صفحہ302)
’’ جہاد بالسیف کے متعلق سب سے پہلی آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر12 صفر سنہ2ھ مطابق 15؍اگست سنہ623ء کو نازل ہوئی جبکہ آپؐ کو مدینہ میں تشریف لائے قریباً ایک سال کا عرصہ گزرا تھا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم .اے، صفحہ303)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو تحقیق کی ہے اسکے مطابق آیت کی یہ تاریخ بنتی ہے کیونکہ اس سورت کے بارے میں ہے کہ کچھ حصہ مکہ میں نازل ہوا کچھ مدینہ میں لیکن بہرحال مختلف روایات ہیں اس آیت کے نزول کے بارے میں۔ یہ بھی روایت ہے کہ ہجرت کے موقع پر یہ آیت نازل ہوئی تھی۔(تفسیرقرطبی ، تفسیر سورۃ الحج زیرآیت اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ ،صفحہ 2110 )
کیونکہ مدینہ میں تشریف آوری کے کچھ ہی عرصہ بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے ارد گرد قریش کے قافلوں کی روک تھام اور دیگر حفاظتی امور کیلئے مسلح پارٹیاں بھیجنی شروع کر دی تھیں۔ بہرحال ہجرت کی ابتدا میں یہ آیت نازل ہوئی یا سال گزرنے کے بعد لیکن یہ پہلی اجازت تھی مذہب کے خلاف جنگ کرنے والوں کے جواب میں جنگ کرنے کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حکومت سے باہر آ گئے تھے جس کے تحت پہلے رہتے تھے۔ جیساکہ پہلے بیان ہو چکا ہے حکومت میں رہتے ہوئے کوئی جنگ نہیں کی جا سکتی تھی اور آپؐکی اپنی ایک حکومت قائم ہو چکی تھی۔ یہ آیت جس میں اللہ تعالیٰ نے اجازت دی سورہ حج کی آیت ہے بلکہ دو آیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُ ۟الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّا اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْكَرُ فِیْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِیْرًا وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ (سورۃ الحج: 40-41)ان لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جا رہا ہے قتال کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیے گئے اور یقیناً اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع ان میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بِھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دیے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے اور یقیناً اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بہت طاقتور اور کامل غلبہ والا ہے۔یعنی تمام مذاہب کی یہاں حفاظت کی گئی ہے۔ ہر مذہب کی عبادت گاہ کا نام لے کر۔
جہاد فرض ہونے کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے شر سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کیلئے ابتداءً چار تدابیر اختیار کیں۔ چنانچہ ان تدابیر کا ذکر کرتے ہوئے بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓنے لکھا ہے کہ’’اوّل آپؐنے خود سفر کرکے آس پاس کے قبائل کے ساتھ باہمی امن وامان کے معاہدے کرنے شروع کئے تاکہ مدینہ کے اردگرد کاعلاقہ خطرہ سے محفوظ ہو جائے۔ اس امر میں آپؐنے خصوصیت کے ساتھ ان قبائل کومدنظر رکھا جو قریش کے شامی رستے کے قرب وجوار میں آباد تھے کیونکہ جیساکہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے یہی وہ قبائل تھے جن سے قریش مکہ مسلمانوں کے خلاف زیادہ مدد لے سکتے تھے اور جن کی دشمنی مسلمانوں کے واسطے سخت خطرات پیدا کر سکتی تھی۔
دوم آپؐنے چھوٹی چھوٹی خبر رساں پارٹیاں مدینہ کے مختلف جہات میں روانہ کرنی شروع فرمائیں تا کہ آپؐکوقریش اوران کے حلفاء‘‘ حلیف جو تھے ان’’کی حرکات وسکنات کاعلم ہوتا رہے اور قریش کوبھی یہ خیال رہے کہ مسلمان بے خبر نہیں ہیں اوراس طرح مدینہ اچانک حملوں کے خطرات سے محفوظ ہو جائے۔
سوم ان پارٹیوں کے بھجوانے میں ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ تااس ذریعہ سے مکہ اوراس کے گردونواح کے کمزوراورغریب مسلمانوں کو مدینہ کے مسلمانوں میں آملنے کاموقع مل جاوے۔ ابھی تک مکہ کے علاقہ میں کئی لوگ ایسے موجود تھے جو دل سے مسلمان تھے مگر قریش کے مظالم کی وجہ سے اپنے اسلام کا برملا طور پر اظہار نہیں کر سکتے تھے اورنہ اپنی غربت اور کمزوری کی وجہ سے ان میں ہجرت کی طاقت تھی کیونکہ قریش ایسے لوگوں کوہجرت سے جبراً روکتے تھے …
چوتھی تدبیر آپؐنے یہ اختیار فرمائی کہ آپؐنے قریش کے ان تجارتی قافلوں کی روک تھام شروع فرما دی جو مکہ سے شام کی طرف آتے جاتے ہوئے مدینہ کے پاس سے گزرتے تھے۔ کیونکہ … یہ قافلے جہاں جہاں سے گزرتے تھے مسلمانوں کے خلاف عداوت کی آگ لگاتے جاتے تھے اور ظاہر ہے کہ مدینہ کے گردونواح میں اسلام کی عداوت کا تخم بویا جانا مسلمانوں کیلئے نہایت خطرناک تھا۔‘‘ پھر یہ کہ’’… یہ قافلے ہمیشہ مسلح ہوتے تھے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس قسم کے قافلوں کا مدینہ سے اس قدر قریب ہو کر گزرنا ہرگز خطرہ سے خالی نہیں تھا۔’’ پھر یہ بات بھی ہے کہ ’’…قریش کا گزارہ زیادہ تر تجارت پر تھا اور اندریں حالات قریش کو زیر کرنے اور ان کو ان کی ظالمانہ کارروائیوں سے روکنے اور صلح پرمجبور کرنے کا یہ سب سے زیادہ یقینی اور سریع الاثر ذریعہ تھاکہ ان کی تجارت کا راستہ بند کر دیا جاوے۔ چنانچہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جن باتوں نے بالآخر قریش کو صلح کی طرف مائل ہونے پر مجبور کیا ان میں ان کے تجارتی قافلوں کی روک تھام کابہت بڑا دخل تھا۔ پس یہ ایک نہایت دانشمندانہ تدبیر تھی جواپنے وقت پر کامیابی کا پھل لائی۔‘‘ پھر’’…قریش کے ان قافلوں کا نفع بسااوقات اسلام کو مٹانے کی کوشش میں صرف ہوتا تھا بلکہ بعض قافلے تو خصوصیت کے ساتھ اسی غرض سے بھیجے جاتے تھے کہ ان کا سارا نفع مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔‘‘ تجارت جو ہوتی تھی اسلام کے خلاف جنگ کرنے کیلئے کمائی کرنے کیلئے تجارت کی جاتی تھی۔’’اس صورت میں ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان قافلوں کی روک تھام خود اپنی ذات میں بھی ایک بالکل جائز مقصود تھی۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ323 تا 324)
بہر حال یہ سلسلہ ابھی چلے گا باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گا۔
اس وقت میں چند مرحومین کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں۔ ان کی نماز جنازہ ادا ہوگی۔ ان میں سے ایک جنازہ حاضر ہے جو مکرم خواجہ منیرالدین قمر صاحب کا ہے باقی جنازہ غائب ہیں۔خواجہ منیر الدین قمر صاحب یہیں یوکے میں رہتے تھے۔ 27؍مئی کو 86سال کی عمر میں بقضائے الٰہی ان کی وفات ہو گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت میاں خیر الدین سیکھوانی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے تھے۔ آپ کے والد مولانا قمر الدین صاحب کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چھوٹی عمر میں دیکھا ہے اور انہوں نے آپ کو چھوٹی عمر میں دیکھا ہے۔ بہت بچپنا تھا۔ بہرحال ان کے والد مولوی قمرالدین صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کے پہلے مرکزی صدر تھے۔ جب ہندوستان پاکستان کی پارٹیشن ہوئی تو یہ لوگ پاکستان شفٹ ہو گئے۔ پھر خواجہ منیر الدین صاحب کچھ عرصہ کیلئے تنزانیہ افریقہ چلے گئے۔ ربوہ میں بھی آپ کو مختلف حیثیت سے جماعت کی خدمت کرنے کی توفیق ملی پھر یہ 1966ء میں اپنی فیملی کے ہمراہ یوکے آ گئے اور یہاں مسجد فضل کے نزدیک ان کی رہائش تھی۔ پرانے سب لوگ ان کو جانتے ہیں۔ خلافتِ رابعہ کے دور میں انہیں لمبے عرصہ تک مسجد فضل میں جمعہ کی اذان دینے کی بھی توفیق ملی۔ مرحوم نے بطور صدر جماعت مسجد فضل لندن اور پٹنی خدمت بجا لانے کی توفیق بھی پائی۔ 1995ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی وقف کر دی اور گذشتہ انتیس سال سے طوعی طور پر پہلے یہاں وکالت تبشیر میں اور بعد میں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری یوکے میں خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ وفات سے ایک دن قبل بھی نماز ظہر سے پہلے تک دفتر میں کام کرتے رہے پھر نماز ادا کرنے کے بعد گھر واپس آئے تھے۔ پنجوقتہ نمازوں کے پابند، بہت خاموش طبع، ہمدرد، ملنسار، نیک اور مخلص، باوفا انسان تھے۔ مرحوم موصی بھی تھے۔ اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور بہت سے پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں ہیں۔ امیر صاحب یوکے، کے ماموں بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ یہ تو جنازہ حاضر ہے جو ان شاء اللہ ادا ہو گا۔
دوسرے جوجنازے غائب ہیں ان میں ایک جنازہ صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب کا ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے اور ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور محمودہ بیگم صاحبہ کے بیٹے تھے اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے نواسے تھے۔ ان کی اناسی۷۹ سال کی عمر میں گذشتہ دنوں میں وفات ہوئی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ابتدائی تعلیم ان کی ربوہ کی تھی۔ پھر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا۔ پھر کچھ دیر ربوہ کے ہسپتال میں کام کیا۔ پھر یہاں پڑھنے کیلئے یوکے آئے اور رائل کالج آف سرجنز ایڈنبرا میں انہوں نے 1970ء میں پوسٹ گریجوایشن کی اور ایف آر سی ایس کیا۔ پھر واپس گئے اور وقف تھے تو وہاں فضل عمر ہسپتال میں خدمات بجا لاتے رہے۔ تقریباً پچاس سال ان کو فضل عمر ہسپتال میں خدمت کی توفیق ملی۔ وہاں نصرت جہاں کے تحت کام کرنے والے واقفین زندگی ڈاکٹروں میں سب سے زیادہ لمبا عرصہ انہوں نے خدمت کی۔ شاید اس سے زیادہ عرصہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کا بھی ہو لیکن بہرحال ان کو پچاس سال خدمت کی توفیق ملی۔ 1983ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒنے انہیں وقف جدید بورڈ کا ممبر بھی مقرر فرمایا اور تاوفات وقف جدید بورڈ کے ممبر رہے۔
ان کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ رشتوں کو بہت نبھانے والے تھے۔ بہت خیال رکھنے والے تھے۔ ماں باپ، بہن بھائی، عزیز رشتہ داروں، میرے ماں باپ اور رشتہ داروں سب کے ساتھ مجھے نہیں یاد کہ کوئی موقع خوشی یا غمی کا کبھی چھوڑا ہو اور ذمہ داری اپنے اوپر لے لیتے تھے کبھی رشتوں کو نبھانے میں سستی نہیں دکھائی اور گھر کے جتنے بڑے بزرگ تھے ان کے علاج کی بھی آپ کو توفیق ملی۔ گھروں میں بیماروں کی بیمارپرسی کرنے کیلئے جاتے۔ اسی طرح ضرورت مندوں کی ہر طرح مدد کرتے تھے۔کسی سوالی کو کبھی انکار نہیں کیا۔ بہت سی بچیوں کو تعلیم دلائی اور شادیوں تک ان کے تمام اخراجات اٹھائے۔ بعض بچیوں نے تو مجھے بھی لکھا ہے۔ یہ ان کے گھر میں بھی رہیں اور بچوں کی طرح پالا اور اس کے بعد ان کی شادیاں کیں۔ مریضوں کی فیس وغیرہ بھی معاف کر دیا کرتے تھے۔ کئی لوگوں نے اس بارے میں بھی مجھے لکھا ہے بلکہ اپنے پاس سے دوائیاں اور رقم بھی دے دیتے تھے۔ خلفاء کے ساتھ بہت گہرا تعلق تھا۔ ایک تو یہ بھی تھا کہ اب تک جتنی بھی خلافتیں آئی ہیں ان کے ساتھ رشتہ داری کا بھی تعلق تھا دوسرا ادب اور احترام کا بھی بہت زیادہ تعلق تھا اور بچوں کو بھی اسی کا کہتے رہتے تھے اور خود بھی عمل کر کے دکھایا۔
میرے سے چھ سات سال بڑے تھے لیکن خلافت کے بعد ہمیشہ ادب اور احترام مَیں نے دیکھا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی جب میں ناظر اعلیٰ تھا تو بہت ادب اور احترام والا ان کا رویہ ہوتا تھا۔
ان کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی بیگم کی جو آخری بیماری تھی اس میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا فون آیا کہ ڈاکٹر مبشر کو فوری بھجواؤ تو کہتے ہیں راتوں رات ہی یہ پیغام سن کر وہ نکل گئے اور ان کی وفات تک پھر وہیں موجود رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒنے مکرمہ حضرت آصفہ بیگم صاحبہ کی وفات پر فرمایا تھا کہ مبشر مجھے لفٹ کے قریب لینے آیا تو میں مبشر کو دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ اہلیہ کی وفات ہو گئی ہے کیونکہ یہ مجھے پتا ہے کہ ان کی طبیعت خراب ہوتی تو پھر مبشر ان کو کبھی اکیلا نہ چھوڑتا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی بیماری میں بھی آپ علاج کیلئے یوکے آجاتے رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒنے بھی ایک جگہ اپنی بیماری کے دوران میں ان کی خدمات کا ذکر فرمایا ہے۔
ان کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ ایک دفعہ آپ کی کوئی غلط شکایت ہوئی اس کی تحقیقات کیلئے ایک کمیٹی بنی۔ اس وقت بھی آپ نے خلیفۂ وقت کا اور نظام کا احترام کیا اور کوئی بھی نامناسب بات اور رویہ نہیں دکھایا اور کمیٹی نے پھر ساری تحقیق کی اور آپ کو اس معاملے میں بری قرار دیا۔
ان کے بیٹے نے لکھا کہ چنیوٹ اور ارد گرد کے علاقے سے بعض مخالفین بھی چھپ کر گھر آ کر علاج کروایا کرتے تھے اور بہت سارے غیر احمدی ان کے مریض تھے۔ میں بھی جانتا ہوں۔ علاقے کے بےشمار لوگوں کا آپ نے علاج کیا اور اس کی وجہ سے ربوہ کا بھی، ہسپتال کا بھی علاقے میں بہت تعارف تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی آخری بیماری میں دوائی پینے کیلئے جو چمچ استعمال کیا کرتے تھے وہ چمچہ چھوٹا سا چائے کا چمچ تھا۔ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وہ حضرت اُمّ ناصر کو یہ کہتے ہوئے دیا تھا کہ جو بیٹا ڈاکٹر بنے اس کو دے دینا تو وہ چمچ آپ کے والد ڈاکٹرمرزا منور احمد صاحب کو ملا اور اسکے بعد وہ چمچ آپ کے پاس تھا۔ بعض دفعہ برکت کی خاطر ڈاکٹر مبشر صاحب اپنے مریضوں کو بھی اس سے دوائی پلا دیا کرتے تھے۔
آپ کے افسوس پر آنے والوں میں ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے لیکن بہت بھاری اکثریت ان لوگوں کی تھی جو غریب طبقہ تھااور بار بار اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ میاں صاحب ہمارے محسن تھے۔ کسی کا علاج انہوں نے کیا تھا اور کسی کا خیال کسی اَور طریقے سے رکھا تھا۔ بہت سارے علاقے کے زمیندار ہیں ان کی عورتیں، ان کی بہنیں علاج کیلئے آتی تھیں اور زمینداروں نے آ کر پھر اظہار کیا کہ کس طرح ہمارا انہوں نے خیال رکھا اور یہ سب جو غیر احمدی تھے یہ بھی آ کے رو رہے تھے کہ ہمارے سر سے باپ اٹھ گیا۔
پھر ہمارا ہسپتال کا عملہ جو ہے ان کی اکثریت نے مجھے بھی لکھا ہے کہ ہمارا ہسپتال یتیم ہو گیا اور سب نے بڑی تکلیف کا اظہار کیا، افسوس کا اظہار کیا ہے۔ بہرحال ہر ایک سے تعلق نبھایا۔ غریبوں کا خیال رکھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ جاتے ہوئے فرمایا تھا کہ فوت شدہ کی جو تعریف کرے تو پھر جنت واجب ہو گئی۔(صحیح البخاری، کتاب الجنائز ،باب ثناء الناس علی المیت، حدیث 1367) اللہ تعالیٰ انہیں بھی اسکا مصداق بنائے۔
ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کہتے ہیں میرے علم کے مطابق جماعت میں سب سے زیادہ سروس کرنے والے ڈاکٹر کا اعزاز ان کو حاصل ہے اور وہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ اور لکھتے ہیں کہ جس زمانے میں آپ نے کام شروع کیا اس زمانے میں کوئی مددگار کمپاؤنڈر وغیرہ یا ہیلپر وغیرہ نہیں ہوتا تھا۔ خود ہی کنڈی لگانی ہوتی تھی، کھولنا ہوتا تھا، مریض کو بلانا ہوتا تھا، دیگر کام بھی خود کرنے ہوتے تھے۔ اکیلے ہی آپریشن تھیٹر کو بھی مینیج (manage) کرنا ہوتا تھا۔ انیستیزیا (Anaesthesia)دینے والا کوئی نہیں تھا وہ کام بھی خود ہی کرنا پڑتا تھا اور پھر آہستہ آہستہ انہوں نے سٹاف کو ٹریننگ دی اور اسکے بعد ہسپتال کا بڑا نام ہو گیا اور کہتے ہیں کہ انفیکشن کی ریشو بھی کسی بھی پرائیویٹ ہسپتال سے کم تھی۔ اکثر مریض جو تھے وہ کامیاب علاج کے بعد ہسپتال سے رخصت ہوتے تھے اور بہرحال انہوں نے مریضوں سے ان کا جو رویہ تھا وہ دیکھا ہے اور غیر احمدی مریض بھی میں ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں بہت عزت کرنے والے تھے۔
ڈاکٹر منیر مبشر صاحب جو سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے ڈاکٹر صاحب کی طبی خدمات کا ایک وسیع سلسلہ دیکھا ہے جو نہ صرف ربوہ والوں پر بلکہ ارد گرد کے تمام علاقوں پر محیط تھا۔ کہتے ہیں میری ساری ملازمت ربوہ کے مضافات میں رہی ہے۔ یہ سرکاری ہسپتالوں میں، ربوہ کے چھوٹے ہسپتالوں میں تعینات رہے ہیں۔ کہتے ہیں تقریباً ہر گاؤں اور ہر شہر کے بہت سے لوگ آپ کے معتقدین میں سے تھے اور جیساکہ میں نے کہا یہی وجہ ہے کہ بےشمار غیر از جماعت افراد ان کی وفات پر افسوس کیلئے آئے۔
ڈاکٹر نوری صاحب نے لکھا کہ ربوہ میں اکیلے رہنے والے ایک بزرگ مریض نے ڈاکٹر مبشر صاحب کی تصویر اپنے کمرے میں لٹکائی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر نوری صاحب ان کو دیکھنے گئے تو بڑی تعریف اور احترام کے ساتھ اس مریض نے بتایا کہ ڈاکٹر مبشر اکثر میرے گھر آتے اور میری خیریت اور صحت کے بارے میں دریافت کرتے تھے۔ اللہ ان کو سلامت رکھے۔ اس وقت ان کی زندگی کی بات ہے۔ ان کی خصوصیات خدمات اور مریضوں کے جذبات کے اتنے خطوط ہیں کہ میرے لیے وہ بیان کرنا تو ممکن نہیں۔ خلافت سے بھی غیر معمولی وفا کا تعلق تھا جیساکہ پہلے بھی میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ ان سے بے انتہا مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ عطا فرمائے۔
تیسرا جنازہ جو ہے، یہ دوسرا غائب جنازہ ہے مکرمہ سیدہ امۃ الباسط صاحبہ جو سید محمود احمد صاحب اسلام آباد کی اہلیہ تھیں۔ گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی پوتی تھیں اور محترم سید عبدالرزاق شاہ صاحب کی بیٹی تھیں۔ حضرت ام طاہر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بھتیجی تھیں۔ مرحومہ کے والد عبدالرزاق شاہ صاحب نے پہلی آئرش احمدی خاتون حنیفہ شاہ صاحبہ جن کا پہلا نام کیتھرین اوبرائن (Catherine O Brien)تھا ان سے شادی کی تھی اور یہ شادی 1945ء میں نیروبی کینیا میں ہوئی تھی۔ پھر ان کی یہ والدہ پاکستان بھی آگئیں اور پاکستان میں شاہ صاحب سندھ میں تعینات رہے اور وہاں اس چھوٹے سے گاؤں میں انہوں نے باوجودیکہ آئرلینڈ کی تھیں بڑی قربانی سے گزارا کیا اور ان کے بچے بھی انتہائی قربانیاں کرنے والے تھے جن میں سے ایک یہ امۃ الباسط صاحبہ ہیں۔
ان کے خاوند سید محمود شاہ صاحب کہتے ہیں کہ نمازوں کی پابند اور خصوصاً تہجد بہت باقاعدگی سے پڑھتی تھیں اور بچپن سے ہی نماز تہجد اپنے والد صاحب کے ساتھ پڑھتی رہیں۔ آپ دینی شعائر کی پابند اور دیندار خاتون تھیں۔ ہمیشہ غریبوں اور ناداروں کی امداد کرتی تھیں۔ پردے کی بہت سختی سے پابندی کرتی تھیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں شوہر کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے چھوڑے ہیں۔ ان کے ایک بیٹے سید بشیر احمد تو یہیں رہتے ہیں اور ایک بیٹے سید شاہد احمد ہیں۔ بیٹی ان کی امریکہ میں ہیں۔ ان کی بیٹی مجیدہ ملک جو ڈاکٹر عامر ملک صاحب امریکہ کی اہلیہ ہیں کہتی ہیں کہ والدہ ہردلعزیز اور سدابہار شخصیت کی مالک تھیں۔ جو بھی ان سے ملتا ان کا گرویدہ ہو جاتا۔ خلافت سے دلی محبت رکھنے والی تھیں۔ بہت نفیس طبع، سلیقہ شعار اور اچھے اخلاق کی مالک تھیں۔ اپنی تکلیف کا کبھی کھل کر اظہار نہیں کرتی تھیں۔ غریب پروری اور صدقہ خیرات میں بھی آگے آگے تھیں۔ بچیوں کی شادیوں کیلئے مدد، غرباء کے گھروں میں راشن دینا، یتیموں کی پڑھائی کا خرچہ، غریبوں کو کھانا کھلانا غرضیکہ اپنا وقت اللہ تعالیٰ کے بندوں کی مدد میں صرف کرتیں چاہے وہ دعا کی شکل میں ہو یا صدقہ کی شکل میں۔ زیادہ تر خدا کی باتیں اور الٰہی نصرت کی باتیں کرنا پسند کرتیں اور دوستی بھی ایسے لوگوں سے ہوتی جو خدا سے محبت کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا بھی ان سے ایک خاص سلوک تھا۔ ان کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ قبول بھی فرماتا تھا اور اللہ تعالیٰ بہت سی باتوں میں بہت سی دعاؤں کی قبولیت کی پہلے ہی ان کو اطلاع بھی دے دیتا تھا۔ سخت بیماری میں بھی نماز نہیں چھوڑی اور ہمہ وقت نظر گھڑی پر رہتی کہ کہیں نماز نہ چھوٹ جائے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اور یہ تیسرا جنازہ غائب جو ہے وہ مکرم شریف احمد بندیشہ صاحب کا ہے جو پاکستان کے چک نمبر 261 ر- ب ادھو والی فیصل آباد کے صدر جماعت تھے۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں میںوفات ہوئی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے بیٹے رحمت اللہ بندیشہ صاحب مربی سلسلہ ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے دادا جان ابھی دو تین ماہ کے تھے کہ آپ کے والدین اور دیگر تمام قریبی عزیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایامِ طاعون میں وفات پا گئے تواس وقت دادا جان کی ایک دُور کی رشتہ دار احمدی فیملی نے ان کی ابتدائی ایام میں پرورش کی۔ بعد میں تحصیل بٹالہ کے ایک قاضی کے فیصلہ کے مطابق ایک اَور نسبتاً زیادہ قریبی احمدی فیملی میں پرورش پائی اور اس طرح آپ آغاز سے ہی احمدی ماحول میں پرورش پاتے ہوئے جماعت احمدیہ میں شامل رہے۔ مرحوم کم و بیش پچیس سال تک گاؤں میں صدر جماعت رہے۔ بےشمار خوبیوں کے مالک ایک درویش صفت انسان تھے۔ عبادات میں اونچے درجہ کا معیار رکھنے والے، بےکسوں اور خصوصیت سے عزیز و اقارب کی مدد کرنے والے، نظام جماعت اور خلافت سے بےحد محبت کرنے والے انسان تھے۔ پسماندگان میں پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے جیساکہ میں نے بتایا رحمت اللہ بندیشہ صاحب مبلغ سلسلہ ہیں جو آج کل جامعہ احمدیہ جرمنی میں بطور استاد خدمت کی توفیق پا رہے ہیں اور اپنے گاؤں کے مخالفانہ حالات کی وجہ سے اپنے والد کے جنازے اور تدفین میں بروقت شامل نہیں ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے اور تمام بچوں کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

…٭…٭…٭…