اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ-
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ
اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَ
جنگِ بدر کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ذکر ہو رہا ہے اس بارے میں کچھ اَور باتیں پیش کرتا ہوں۔ جنگِ بدر ختم ہونے کے بعد قیدیوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ سلوک کے بارے میں طبقاتِ ابن سعد میں درج ہے کہ جب بدر کے قیدی آئے تو ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ بھی تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس رات جاگتے رہے۔ آپ کے صحابہؓ میں سے کسی نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ کو کس بات نے جگائے رکھا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عباس کے کراہنے کی آواز نے۔ تو ایک شخص گیا اور اس نے حضرت عباسؓ کے بندھن ڈھیلے کر دیے۔ باندھے ہوئے تھے۔ رسیاں کچھ ڈھیلی کر دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا بات ہے مَیں عباس کے کراہنے کی آواز نہیں سن رہا؟ تو ایک شخص نے کہا کہ میں نے ان کے بندھن کچھ ڈھیلے کر دیے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر تمام قیدیوں کے ساتھ ایسا ہی کرو۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد 4،صفحہ9 ،دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2012ء) یہ نہیں کہ میرا رشتہ دار سمجھ کر ایک کے کر دیے۔
بدر کے قیدیوں کے متعلق سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓنے جو تفصیلات ذکر کی ہیں اس میں لکھا ہے کہ ’’تین دن تک آپؐنے بدر کی وادی میں قیام فرمایا اور یہ وقت اپنے شہداء کی تکفین وتدفین اوراپنے زخمیوں کی مرہم پٹی میں گزرا اور انہی دنوں میں غنیمت کے اموال کو جمع کرکے مرتب کیا گیا اور کفار کے قیدیوں کو جن کی تعداد ستر تھی محفوظ کرکے مختلف مسلمانوں کی سپردگی میں دے دیا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تاکید کی کہ قیدیوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کا سلوک کریں اور ان کے آرام کا خیال رکھیں۔
صحابہؓ نے جن کو اپنے آقاؐکی ہر خواہش کے پورا کرنے کا عشق تھا آپؐکی اس نصیحت پر اس خوبی کے ساتھ عمل کیا کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ چنانچہ خود ان قیدیوں میں سے ایک قیدی ابوعزیز بن عمیرکی زبانی روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی وجہ سے انصار مجھے تو پکی ہوئی روٹی دیتے تھے لیکن خود کھجور وغیرہ کھا کر گزارہ کر لیتے تھے اور کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ ان کے پاس اگر روٹی کا چھوٹا ٹکڑا بھی ہوتا تھا تو وہ مجھے دے دیتے تھے اور خود نہیں کھاتے تھے اوراگر میں کبھی شرم کی وجہ سے واپس کردیتا تو وہ اصرار کے ساتھ پھرمجھی کو دے دیتے تھے۔ جن قیدیوں کے پاس لباس کافی نہیں تھا انہیں کپڑے مہیا کردیئے گئے تھے۔ چنانچہ عباس کو عبداللہ بن ابی نے اپنی قمیص دی تھی۔ سرولیم میور نے قیدیوں کے ساتھ اس مشفقانہ سلوک کا مندرجہ ذیل الفاظ میں اعتراف کیا ہے۔‘‘ لکھتا ہے کہ ’’محمد (ﷺ) کی ہدایت کے ماتحت انصارو مہاجرین نے کفار کے قیدیوں کے ساتھ بڑی محبت اور مہربانی کا سلوک کیا۔ چنانچہ بعض قیدیوں کی اپنی شہادت تاریخ میں ان الفاظ میں مذکور ہے کہ خدا بھلا کرے مدینہ والوں کا وہ ہم کو سوار کرتے تھے اور آپ پیدل چلتے تھے۔ ہم کو گندم کی پکی ہوئی روٹی دیتے تھے اور آپ صرف کھجوریں کھا کر پڑ رہتے تھے۔ اس لیے (میور صاحب لکھتے ہیں) ہم کویہ معلوم کرکے تعجب نہ کرنا چاہئے کہ بعض قیدی اس نیک سلوک کے اثر کے نیچے مسلمان ہو گئے۔‘‘قیدیوں سے جب یہ سلوک ہوتا تھا تو ان میں سے بعض مسلمان ہو گئے’’اور ایسے لوگوں کو فوراً آزاد کر دیا گیا …جو قیدی اسلام نہیں لائے ان پر بھی اس نیک سلوک کا بہت اچھا اثر تھا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم .اے ،صفحہ 365)
جنگِ بدر کی اہمیت اور اس کے اثرات کے بارے میں لکھا ہے کہ جب فتح بدر کی خوشخبری لے کر عبداللہ بن رَوَاحَؓہ اور زید بن حارثہؓ مدینہ پہنچے تو ان کے منہ سے فتح کی خوشخبری کا اعلان سن کر اللہ کا دشمن کعب بن اشرف یہودی ان کو جھٹلانے لگا۔ وہ کہنے لگا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بڑے بڑے رؤسا کو مار ڈالا ہے تو زمین کی پشت پر رہنے سے زمین کے اندر رہنا بہتر ہے۔ یعنی زندہ رہنے سے موت بہتر ہے۔ (سیرۃ الحلبیہ، جلد 2، صفحہ250،دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب میں غزوۂ بدر کے نتائج بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’بدر کے معرکہ نے مذہبی اور ملکی حالات پر گونا گوں اثرات پیدا کیے اور حقیقت میں یہ اسلام کی ترقی کا قدمِ اوّلین تھا۔ قریش کے تمام بڑے بڑے رؤسا جن میں سے ایک ایک اسلام کی ترقی کی راہ میں سد آہن تھا فنا ہو گئے۔ عتبہ اور ابوجہل کی موت نے قریش کی ریاست عامہ کا تاج ابوسفیان کے سر پر رکھا جس سے دولت اموی کا آغاز ہوا لیکن قریش کی اصلی زور و طاقت کا معیار گھٹ گیا۔ مدینہ میں اب تک عبداللہ بن ابی بن سلول اعلانیہ کافر تھا لیکن اب بظاہر وہ اسلام کے دائرہ میں آ گیا۔‘‘ فتح بدر کے بعد اس نے بھی ظاہرًا اسلام قبول کر لیا’’گو تمام عمر منافق رہا اور اسی حالت میں جان دی۔ قبائل عرب جو سلسلہ واقعات کا رُخ دیکھتے تھے اگرچہ رام نہیں ہوئے لیکن سہم گئے۔‘‘ بہت سے قبائل مسلمان تو نہیں ہوئے لیکن فتح کو دیکھ کر سہم ضرور گئے۔ مسلمانوں کے خلاف انہوں نے کارروائیاں کرنی بند کر دیں یا خوفزدہ ہو گئے۔’’ان موافق حالات کے ساتھ مخالف اسباب میں بھی انقلاب شروع ہو گیا۔ یہود سے معاہدہ ہو چکا تھا کہ وہ ہر معاملہ میں یکسو رہیں گے لیکن اس فتح نمایاں نے ان میں حسد کی آگ بھڑکا دی اور وہ اس کو ضبط نہ کر سکے … قریش کو پہلے صرف حضرمی کا رونا تھا بدر کے بعد ہر گھر ماتم کدہ تھا اور مقتولینِ بدر کے انتقام کیلئے مکہ کا بچہ بچہ مضطر تھا۔ چنانچہ سُوَیْق کا واقعہ اور اُحُد کا معرکہ اسی جوش کا مظہر تھا۔‘‘ (سیرت النبیؐ از شبلی نعمانی، جلد اول، صفحہ 210-211، مطبوعہ آر زیڈ پیکجز لاہور 1408ھ)
فتح بدر کے نتائج بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یوں لکھا ہے کہ’’ابھی تک مدینہ میں قبائل اوس اورخزرج کے بہت سے لوگ شرک پر قائم تھے۔ بدر کی فتح نے ان لوگوں میں ایک حرکت پیدا کر دی اوران میں سے بہت سے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظیم الشان اور خارق عادت فتح کو دیکھ کر اسلام کی حقانیت کے قائل ہو گئے۔ اور اس کے بعد مدینہ سے بت پرست عنصر بڑی سرعت کے ساتھ کم ہونا شروع ہو گیا مگر بعض ایسے بھی تھے جن کے دلوں میں اسلام کی اس فتح نے بغض وحسد کی چنگاری روشن کر دی اور انہوں نے برملا مخالفت کو خلاف مصلحت سمجھتے ہوئے بظاہر تو اسلام قبول کر لیا لیکن اندر ہی اندراس کے استیصال کے درپے ہو ہو کر منافقین کے گروہ میں شامل ہو گئے۔ ان موخرالذکر لوگوں میں زیادہ ممتاز عبداللہ بن اُبَیَّابن سلول تھا جو قبیلہ خزرج کاایک نہایت نامور رئیس تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں تشریف لانے کے نتیجہ میں اپنی سرداری کے چھینے جانے کا صدمہ اٹھا چکا تھا۔ یہ شخص بدر کے بعد بظاہر مسلمان ہو گیا، لیکن اس کا دل اسلام کے خلاف بغض وعداوت سے لبریز تھا اوراہلِ نفاق کا سردار بن کر اس نے مخفی مخفی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ریشہ دوانی کاسلسلہ شروع کر دیا۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم .اے، صفحہ 376)
مزید فرماتے ہیں کہ’’جنگِ بدر کااثر کفار اور مسلمانوں ہردو کیلئے نہایت گہرا اور دیر پا ہوا اوراسی لیے تاریخِ اسلام میں اس جنگ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے حتی کہ قرآن شریف میں اس جنگ کا نام یوم الفرقان رکھا گیا ہے۔ یعنی وہ دن جبکہ اسلام اور کفر میں ایک کھلا کھلا فیصلہ ہو گیا۔ بیشک جنگِ بدر کے بعد بھی قریش اور مسلمانوں کی باہم لڑائیاں ہوئیں اور خوب سخت سخت لڑائیاں ہوئیں اور مسلمانوں پر بعض نازک نازک موقعے بھی آئے لیکن جنگِ بدر میں کفار مکہ کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی جسے بعد کا کوئی جراحی عمل مستقل طور پر درست نہیں کر سکا۔ تعداد مقتولین کے لحاظ سے بے شک یہ کوئی بڑی شکست نہیں تھی۔ قریش جیسی قوم میں سے ستر بہتر سپاہیوں کامارا جانا ہرگز قومی تباہی نہیں کہلا سکتا۔ جنگِ احد میں یہی تعداد مسلمان مقتولین کی تھی لیکن یہ نقصان مسلمانوں کے فاتحانہ رستہ میں ایک عارضی روک بھی ثابت نہیں ہوا۔‘‘ حالانکہ مسلمان تو اس وقت بہت کمزور تھے۔’’پھر وہ کیا بات تھی کہ جنگِ بدر یوم الفرقان کہلائی؟ اس سوال کے جواب میں بہترین الفاظ وہ ہیں جو قرآن شریف نے بیان فرمائے اور وہ یہ ہیں۔ یَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِیْنَ۔ واقعی اس دن کفار کی جڑ کٹ گئی یعنی جنگِ بدر کی ضرب کفار کی جڑ پر لگی اور وہ دو ٹکڑے ہو گئی۔ اگر یہی ضرب بجائے جڑ کے شاخوں پر لگتی توخواہ اس سے کتنا گنا زیادہ نقصان کرتی وہ نقصان اس نقصان کے مقابلہ میں ہیچ ہوتا لیکن جڑکی ضرب نے ہرے بھرے درخت کو دیکھتے دیکھتے ایندھن کا ڈھیر کر دیا اور صرف وہی شاخیں بچیں جو خشک ہونے سے پہلے دوسرے درخت سے پیوند ہو گئیں۔ پس بدر کے میدان میں قریش کے نقصان کا پیمانہ یہ نہیں تھا کہ کتنے آدمی مرے بلکہ یہ تھا کہ کون کون مرے اور جب ہم اس نقطہ نگاہ سے قریش کے مقتولین پہ نظر ڈالتے ہیں تو اس بات میں ذرا بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ بدر میں فی الواقعہ قریش کی جڑ کٹ گئی۔ عتبہ اور شیبہ اور امیہ بن خَلَف اور ابوجہل اور عقبہ بن ابی مُعَیط اور نضر بن حارث وغیرہ قریش کی قومی زندگی کے روح رواں تھے اوریہ روح بدر کی وادی میں قریش سے ہمیشہ کیلئے پرواز کرگئی اوروہ ایک قالب بے جان کی طرح رہ گئے۔ یہ وہ تباہی تھی جس کی وجہ سے جنگِ بدر یوم فرقان کے نام سے موسوم ہوئی۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم. اے، صفحہ 371-372)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس بارے میں لکھا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ’’یہی وہ جنگ ہے جس کا نام قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرقان رکھا ہے اور یہی وہ جنگ ہے جس میں عرب کے وہ سردار جو اس دعویٰ کے ساتھ گھر سے چلے تھے کہ اسلام کا نام ہمیشہ کیلئے مٹا دیں گے خود مٹ گئے اور ایسے مٹے کہ آج ان کا نام لیوا کوئی باقی نہیں اور اگر کوئی ہے تو اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرنا بجائے فخر کے عار خیال کرتا ہے۔ غرضیکہ اس جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عظیم الشان کامیابی عطا فرمائی تھی۔‘‘ (سیرۃ النبیﷺ،انوار العلوم، جلد 1،صفحہ 610)
پھر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمانوں پر اسکے بعد بھی مظالم ہوتے رہے اور انہیں کفار سے کئی لڑائیاں لڑنی پڑیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جنگِ بدر نے کفار کی طاقت کو بالکل توڑ دیا تھا اور مسلمانوں کی شوکت ان پر ظاہر ہو گئی تھی۔
جنگِ بدر جسے قرآن کریم نے فرقان قرار دیا ہے اسکے متعلق بائبل میں بھی پیشگوئی پائی جاتی ہے چنانچہ یسعیاہ باب 21آیت 13 تا 17 میں لکھا ہے ’’عرب کی بابت الہامی کلام۔ عرب کے صحرامیں تم رات کو کاٹو گے۔ اے دوانیوں کے قافلو! پانی لے کے پیاسے کا استقبال کرنے آؤ۔ اے تیما کی سرزمین کے باشندو! روٹی لے کے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو کیونکہ وے تلواروں کے سامنے سے ننگی تلوار سے اور کھینچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں کیونکہ خدا وند نے مجھ کو یوں فرمایا۔ ہنوز ایک برس، ہاں مزدور کے سے ایک ٹھیک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیر اندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا۔‘‘
آپؓفرماتے ہیں کہ’’یسعیاہ نبی کے اس کلام میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ ہجرت کے زمانہ پر ٹھیک ایک سال گزرنے کے بعد عرب میں ایک ایسی جنگ ہو گی جس میں قیدار کی ساری حشمت خاک میں مل جائے گی اور وہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھاگ جانے کا الزام لگاتے تھے اپنے لاؤ لشکر کی موجودگی میں پیٹھ دکھائیں گے اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ کمانڈر اور ان کے جرنیلوں کی لاشیں میدانِ جنگ میں پڑی رہ جائیں گی اور آخر وادی مکہ اپنے جرنیلوں کو کھو کر اپنی اس شوکت کو بالکل کھو بیٹھے گی جو اس سے پہلے اسے حاصل تھی۔ اِسی طرح قرآن کریم نے ایک گیارھویں رات کی خبر دے کر یہ پیشگوئی کی تھی کہ ہجرت کے پورے ایک سال کے بعد کفار کی ساری طاقت ٹوٹ جائے گی اور مسلمانوں کیلئے فتح اور کامرانی کی صبح ظاہر ہو جائے گی۔ چنانچہ عین ایک سال کے بعد جنگِ بدر ہوئی جس میں کفار کے بڑے بڑے لیڈر مارے گئے اور مسلمانوں کو ان پر نمایاں غلبہ حاصل ہوا۔‘‘ فرماتے ہیں کہ’’… دیکھ لو مدینہ میں آنے کے بعد پہلے رمضان تک اس پیشگوئی پر دس سال پورے ہوئے تھے اور رمضان سے گیارہویں سال کا آغاز ہوا تھا۔ اس ایک سال کے گزرنے پر دوسرے سال 17 رمضان کو بدر کی جنگ ہوئی جس میں بڑے بڑے کفار مارے گئے اور ان کے ظالمانہ حملوں کا خاتمہ ہو گیا۔گویا وہ گیارہویں لیل جو مسلمانوں پر آئی ہوئی تھی ٹھیک ایک سال گزرنے کے بعد دور ہو گئی۔ اور مسلمانوں نے فتح و کامرانی کی صبح کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تائید اور نصرت کے ساتھ دیکھ لیا۔‘‘ ( تفسیر کبیر، جلد8،صفحہ 515)
فضیلتِ صحابہؓجو بدر کے اصحابؓتھے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت جبرئیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا آپ مسلمانوں میں اہلِ بدر کو کیا مقام دیتے ہیں؟ آپؐنے فرمایا: بہترین مسلمان یا ایسا ہی کوئی کلمہ فرمایا۔ جبرئیل نے کہا اور اسی طرح وہ ملائکہ بھی افضل ہیں جو جنگِ بدر میں شریک ہوئے۔(صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب شھود الملائکۃ بدرا، حدیث 3992)
یہ واقعہ جو اَب میں بیان کرنے لگا ہوں گو یہ پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات میں بیان ہو چکا ہے لیکن یہاں بھی اس کی اہمیت کے پیش نظر بیان کرتا ہوں۔
عُبَیداللہ بن ابی رافع ؓنے بتایا، انہوں نے کہا کہ میں نے یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا۔ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیرؓ اور مِقداد بن اسود ؓکو بھیجا۔آپؐنے فرمایا تم چلے جاؤ جب تم روضۂ خاخ پر پہنچو تو وہاں ایک شتر سوار عورت ہو گی اور اس کے پاس ایک خط ہے تم وہ خط اس سے لے لو۔ ہم چل پڑے ہمارے گھوڑے سرپٹ دوڑتے ہوئے ہمیں لے گئے۔ جب ہم روضہ خاخ میں پہنچے تو ہم کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک شتر سوار عورت موجود ہے ہم نے کہا خط نکالو۔ وہ کہنے لگی کہ میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے کہا تمہیں خط نکالنا ہو گا ورنہ ہم تمہارے کپڑے اتار دیں گے اور تلاشی لیں گے اس پر اس نے وہ خط اپنے جوڑے سے، بالوں سے نکالا اور ہم وہ خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ دیکھا تو اس میں یہ لکھا تھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے اہل مکہ کے مشرکوں کے نام۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارادے کی ان کو اطلاع دے رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلابھیجا اورپوچھا حاطب یہ کیا ہے؟ اس نے کہا یا رسول اللہ !میرے متعلق جلدی نہ فرمائیں۔ میں ایک ایسا آدمی تھا جو قریش میں آ کر مل گیا تھا ان میں سے نہ تھا اور دوسرے مہاجرین جو آپ کے ساتھ تھے ان کی مکہ میں رشتے داریاں تھیں جن کے ذریعہ وہ اپنے گھر بار اور مال و اسباب کو بچاتے رہے۔ میں نے چاہا کہ ان مکے والوں پر کوئی احسان کر دوں کیونکہ ان میں کوئی رشتہ داری تو میری تھی ہی نہیں شاید وہ اس احسان ہی کی وجہ سے میرا پاس کریں اور میں نے کسی کفر یا ارتداد کی وجہ سے یہ نہیں کیا اور اسلام قبول کرنے کے بعد کفر کبھی پسند نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اگر سچے دل سے اسلام قبول کر لیا جائے تو اس کے بعد کفر کو پسند کرے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے تم سے سچ کہاہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا یارسول اللہؐ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کی گردن مار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو جنگِ بدر میں موجود تھا اور تمہیں کیا معلوم کہ اللہ نے اہلِ بدر کو دیکھا اور فرمایا جو تم چاہو کرو میں نے تمہارے گناہوں کی پردہ پوشی کر دی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب الجہاد و السیر، باب الجاسوس، حدیث 3007)
یعنی اب بڑے گناہ سرزد نہیں ہوں گے اور ان کا انجام بخیر ہو گا۔ یہ لوگ کفر کی حالت میں نہیں مریں گے۔ یہ مطلب ہے اس کا۔ چنانچہ خود حضرت حاطبؓ کے الفاظ سے ظاہر ہے جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد کفر کو کبھی پسند نہیں کیا جا سکتا۔
پھر حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ بدر پر نظر فرمائی ہے اور کہا کہ جو چاہے عمل کرو میں نے تمہیں بخش دیا۔(سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ ،باب فی الخلفاء، حدیث 4654)
یعنی سوائے کفر کی حالت کے عام غلطیاں اور گناہ اللہ تعالیٰ تو بخش دے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہاں یہ ضمانت بھی اللہ تعالیٰ نے دے دی کہ ان پر کبھی کفر کی حالت نہیں آئے گی اور ان کا انجام بخیر ہو گا۔ ایک یہ مطلب بھی ہے اسکا۔ اگر بعض غلطیاں اور گناہ ہوں گے تو بشری تقاضوں کے تحت ہوں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما دے گا۔
اُمّ المومنین حضرت حفصہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں امید رکھتا ہوں کہ بدر میں اور حدیبیہ میں شریک ہونے والوں میں سے کوئی بھی ان شاء اللہ آگ میں داخل نہ ہو گا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا اللہ نے نہیں فرمایا وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا (مریم: 72)اور تم ظالموں میں سے کوئی نہیں مگر وہ ضرور اس میں اترنے والا ہے۔ اس پر آپؐنے فرمایا: کیا تُو نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کو نہیں سنا۔ ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا (مریم:73) پھر ہم ان کو بچا لیں گے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور ہم ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرے ہوئے چھوڑ دیں گے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر البعث، حدیث 4281)
حضرت عمرؓکے زمانہ میں بھی جب صحابہ ؓکے وظیفے مقرر ہوئے تو بدری صحابیوںؓکا وظیفہ ممتاز طور پر خاص مقرر کیا گیا۔ خود بدری صحابہؓبھی جنگِ بدر کی شرکت پر خاص فخر کرتے تھے۔ چنانچہ میور صاحب لکھتے ہیں کہ’’بدری صحابی اسلامی سوسائٹی کے اعلیٰ ترین رکن سمجھے جاتے تھے۔ سعد بن ابی وقاصؓ جب اسّی سال کی عمر میں فوت ہونے لگے توانہوں نے کہا کہ مجھے وہ چوغہ لا کر دو جو میں نے بدر کے دن پہنا تھا اور جسے میں نے آج کے دن کیلئے سنبھال کررکھا ہوا ہے۔ یہ وہی سعد تھے جو بدر کے زمانہ میں بالکل نوجوان تھے اور جن کے ہاتھ پر بعد میں ایران فتح ہوا اور جو کوفہ کے بانی اور عراق کے گورنر بنے مگر ان کی نظر میں یہ تمام عزتیں اورفخر جنگِ بدرمیں شرکت کے عزت وفخر کے مقابلے میں بالکل ہیچ تھیں اور جنگِ بدروالے دن کے لباس کووہ اپنے واسطے سب خلعتوں سے بڑھ کر خلعت سمجھتے تھے اوران کی آخری خواہش یہی تھی کہ اسی لباس میں لپیٹ کر ان کو قبر میں اتارا جاوے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ 373)
بدری صحابہ ؓکی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس سے بھی ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت میں آنے والے مہدی کی ایک نشانی یہ قرار دی کہ اسکے پاس بھی ایک کتاب ہو گی جس میں اصحابِ بدر ؓکی تعداد کے مطابق تین سو تیرہ اصحابؓکے نام ہوں گے۔
چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’چونکہ حدیث صحیح میں آچکا ہے کہ مہدی موعود کے پاس ایک چھپی ہوئی کتاب ہو گی جس میں اس کے تین سو تیرہ اصحابؓکا نام درج ہو گا۔ اس لیے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ وہ پیشگوئی آج پوری ہو گئی۔ یہ تو ظاہر ہے کہ پہلے اس سے امت مرحومہ میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا کہ جو مہدویت کا مدعی ہوتا اور اسکے وقت میں چھاپہ خانہ بھی ہوتا۔ اور اسکے پاس ایک کتاب بھی ہوتی جس میں تین سو تیرہ نام لکھے ہوئے ہوتے اور ظاہر ہے کہ اگر یہ کام انسان کے اختیار میں ہوتا تو اس سے پہلے کئی جھوٹے اپنے تئیں اس کا مصداق بنا سکتے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ خدا کی پیشگوئیوں میں ایسی فوق العادت شرطیں ہوتی ہیں کہ کوئی جھوٹا ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور اس کو وہ سامان اور اسباب عطا نہیں کیے جاتے جو سچے کو عطا کیے جاتے ہیں۔‘‘ فرماتے ہیں’’شیخ علی حمزہ بن علی ملک اَلطُّوسِی اپنی کتاب جَوَاہر الاَسْرَار میں جو 840ھ میں تالیف ہوئی تھی مہدی موعود کے بارے میں مندرجہ ذیل عبارت لکھتے ہیں۔‘‘ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ’’… یعنی مہدی اس گاؤں سے نکلے گا جس کا نام کدعہ ہے (یہ نام دراصل قادیان کے نام کو معرّب کیا ہوا ہے) اور پھر فرمایا کہ خدا اس مہدی کی تصدیق کرے گا اور دور دور سے اس کے دوست جمع کرے گا جن کا شمار اہلِ بدر کے شمار سے برابر ہو گا۔ یعنی تین سو تیرہ ہوں گے اور ان کے نام بقید مسکن وخصلت چھپی ہوئی کتاب میں درج ہوں گے۔ اب ظاہر ہے کہ کسی شخص کو پہلے اس سے یہ اتفاق نہیں ہوا کہ وہ مہدی موعود ہونے کا دعوی کرے اور اس کے پاس چھپی ہوئی کتاب ہو جس میں اس کے دوستوں کے نام ہوں لیکن میں پہلے اس سے بھی آئینہ کمالات اسلام میں تین سوتیرہ نام درج کرچکا ہوں اور اب دو بارہ اتمام حجت کیلئے تین سوتیرہ نام ذیل میں درج کرتا ہوں۔‘‘ ضمیمہ رسالہ انجام آتھم میں آپؑیہ فرما رہے ہیں۔’’تا ہریک منصف سمجھ لے کہ یہ پیشگوئی بھی میرے ہی حق میں پوری ہوئی اور بموجب منشاء حدیث کے یہ بیان کر دینا پہلے سے ضروری ہے کہ یہ تمام اصحاب خصلتِ صدق و صفا رکھتے ہیں اور حسبِ مراتب جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے بعض بعض سے محبت اور انقطاع الی اللہ اور سرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں … اب دیکھو یہ تین سو تیرہ مخلص جو اس کتاب میں درج ہیں یہ اسی پیشگوئی کا مصداق ہے جو احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہے۔ پیشگوئی میں کدعہ کا لفظ بھی ہے جو صریح قادیان کے نام کو بتلا رہا ہے پس تمام مضمون اس حدیث کا یہ ہے کہ وہ مہدی موعود قادیان میں پیدا ہوگا اور اس کے پاس ایک کتاب چھپی ہوئی ہوگی جس میں تین سو تیرہ اس کے دوستوں کے نام درج ہوں گے۔ سو ہریک شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات میرے اختیار میں تو نہیں تھی کہ میں ان کتابوں میں جو اس زمانہ سے ہزار برس پہلے دنیا میں شائع ہوچکی ہیں اپنے گاؤں قادیان کا نام لکھ دیتا۔ اور نہ میں نے چھاپہ کی کل نکالی ہے‘‘کوئی پرزہ نکالا ’’تا یہ خیال کیا جائے کہ میں نے اس غرض سے مطبع کو اس زمانہ میں ایجاد کیا ہے۔‘‘ پریس میں نے تو نہیں ایجاد کیا تھا۔’’اور نہ تین سو تیرہ مخلص اصحاب کا پیدا کرنا میرے اختیار میں تھا بلکہ یہ تمام اسباب خود خدا تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں تاوہ اپنے رسول کریم ؐکی پیشگوئی کو پورا کرے۔‘‘ (ضمیمہ رسالہ انجام آتھم، روحانی خزائن، جلد 11، صفحہ 324 تا 325، 329)
جنگِ بدر کے حوالے سےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ کی مماثلت کو بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’بنی اسرائیل کی مانند خدا تعالیٰ کے راستباز بندے مکہ معظمہ میں تیرہ برس تک کفار کے ہاتھ سے سخت تکلیف میں رہے اور یہ تکلیف اس تکلیف سے بہت زیادہ تھی جو فرعون سے بنی اسرائیل کو پہنچی۔ آخر یہ راستباز بندے اس برگزیدہٴ راستبازوں کے ساتھ اور اس کی ایما سے مکہ سے بھاگ نکلے اور اسی بھاگنے کی مانند جو بنی اسرائیل مصر سے بھاگے تھے۔ پھر مکہ والوں نے قتل کرنے کیلئے تعاقب کیا اسی تعاقب کی مانند جو فرعون کی طرف سے بنی اسرائیل کے قتل کیلئے کیا گیا تھا۔ آخر وہ اسی تعاقب کی شامت سے بدر میں اس طرح پر ہلاک ہوئے جس طرح فرعون اور اسکا لشکر دریائے نیل میں ہلاک ہوا تھا۔ اسی رمز کے کھولنے کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کی لاش بدر کے مُردوں میں دیکھ کر فرمایا تھا کہ یہ شخص اس اُمت کا فرعون تھا۔
غرض جس طرح فرعون اور اسکا لشکر دریائے نیل میں ہلاک ہونا امور مشہودہ محسوسہ میں سے تھا‘‘جن کو دیکھا بھی جا سکتا ہے محسوس کیا جا سکتا ہے ’’جسکے وقوع میں کسی کو کلام نہیں ہو سکتا اسی طرح ابوجہل اور اسکے لشکر کا تعاقب کے وقت بدر کی لڑائی میں ہلاک ہونا امور مشہودہ محسوسہ میں سے تھا جس سے انکار کرنا حماقت اور دیوانگی میں داخل ہے … وہ اسرائیلی یعنی خدا کے بندے جن کو ہمارے سید و مولیٰ نے مکہ والوں کے ظلم سے چھڑایا انہوں نے بدر کے واقعہ کے بعد اسی طرح گیت گائے جیسے کے بنی اسرائیل نے دریائے مصر کے سر پر گائے تھے اور وہ عربی گیت اب تک کتابوں میں محفوظ چلے آتے ہیں جو بدر کے میدان میں گائے گئے۔‘‘ (ایام الصلح، روحانی خزائن، جلد14، صفحہ 290-291)
پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’وہ مثیل جس کا توریت کتاب استثنا میں ذکر ہے وہ وہی نبی مؤیدِ الٰہی ہے جو مع اپنی جماعت کے تیرہ برس برابر دکھ اٹھا کر اور ہر ایک قسم کی تکلیف دیکھ کر آخر مع اپنی جماعت کے بھاگا اور اس کا تعاقب کیا گیا۔ آخر بدر کی لڑائی میں چند گھنٹوں میں فیصلہ ہو کر ابوجہل اور اس کا لشکر تلوار کی دھار سے ایسے ہی مارے گئے جیسا کہ دریائے نیل کی دھار سے فرعون اور اسکے لشکر کا کام تمام کیا گیا۔ دیکھو کیسی صفائی اور کیسے مشہود اورمحسوس طو رپر یہ دونوں واقعات مصر اور مکہ اور دریائے نیل اور بدرکے آپس میں مماثلت رکھتے ہیں۔‘‘(ایام الصلح، روحانی خزائن، جلد 14، صفحہ 292)
قرآن شریف میں لکھا ہے کہ وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ (آل عمران: 124) اور بدر کی جنگ میں جبکہ تم حقیر تھے اللہ یقیناً تمہیں مدد دے چکا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی ایک تصنیف خطبہ الہامیہ میں بدر اور چودھویں صدی کی ایک لطیف مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ جس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ ’’اور وہ چار سو کا شمار خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے بعد ہے تادین کے غلبہ کا وعدہ جو کتابِ مبین میں پہلے ہو چکا تھا پورا ہو جائے یعنی خدا کا یہ قول کہ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ(آل عمران:124)۔ پس بیناؤں کی طرح اس آیت میں نگاہ کر کیونکہ یہ آیت یقیناً دو بدر پر دلالت کرتی ہے۔ اول وہ بدر جو پہلوں کی نصرت کیلئے گزرا اور دوسرا وہ بدر جو پچھلوں کیلئے ایک نشان ہے۔پس کوئی شک نہیں کہ یہ آیت ایک لطیف اشارہ اس آئندہ زمانہ کی طرف کرتی ہے جو شمار کے رو سے شب بدر کی مانند ہو اور وہ چار سو برس ہزار برس کے بعد ہے اور یہی استعارہ کے طور پر خداتعالیٰ کے نزدیک شبِ بدر ہے اور ان سب کے باوجود ہم کو یہ بھی اعتراف ہے کہ اس آیت کے اور معنی بھی ہیں جو گذشتہ زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ عالموں کو معلوم ہے کیونکہ اس آیت کے دو رُخ ہیں اور نصرت دو نصرتیں اور بدر دو بدر ہیں۔ ایک بدر گذشتہ زمانہ سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا بدر آئندہ زمانہ سے اس وقت جبکہ مسلمانوں کو ذلت پہنچے جیساکہ اس زمانہ میں دیکھتے ہو اور اسلام ہلال کی طرح شروع ہوا اور مقدر تھا کہ انجام کار آخر زمانہ بدر ہو جائے خداتعالیٰ کے حکم سے۔ پس خداتعالیٰ کی حکمت نے چاہا کہ اسلام اس صدی میں بدر کی طرح شکل اختیار کرے جو شمار کے رو سے بدر کی طرح مشابہ ہو۔ پس انہی معنوں کی طرف اشارہ ہے خدا تعالیٰ کے اس قول میں کہ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ پس اس امر میں باریک نظر سے غور کر اور غافلوں سے نہ ہو اور بے شک لَقَدْ نَصَرَكُمْ کا لفظ یہاں دوسری وجہ کے رو سے یَنْصُرُکُمْ کے معنوں میں آیا ہے جیسا کہ عارفوں پر ظاہر ہے۔ الغرض خداتعالیٰ نے اسلام کیلئے دو ذلت کے بعد دو عزتیں رکھی تھیں یہود کے برخلاف کہ ان کیلئے سزا کے طور پر دو عزتوں کے بعد دو ذلتیں مقرر کی تھیں جیسا کہ بنی اسرائیل کی سورت میں ان فاسقوں اور ظالموں کا قصہ پڑھتے ہو۔ پس جس وقت مسلمانوں کو پہلی ذلت مکہ میں پہنچی خدا نے ان سے اپنے اس قول میں وعدہ فرمایا تھا اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُ (الحج:40) اور عَلٰى نَصْرِهِمْ کے قول سے اشارہ کیا کہ مومنوں کے ہاتھ سے کفار پر عذاب اترے گا۔ پس خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ بدر کے دن ظاہر ہوا اور کافر مسلمانوں کی آبدار تلوار سے قتل کیے گئے۔‘‘(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن، جلد 16، صفحہ 273 تا 277)
پھر آپؑ فرماتے ہیں’’اب اس چودھویں صدی میں وہی حالت ہو رہی ہے جو بدر کے موقع پر ہو گئی تھی جس کیلئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ (آل عمران: 124)۔ اس آیت میں بھی دراصل ایک پیشگوئی مرکوز تھی یعنی جب چودھویں صدی میں اسلام ضعیف اور ناتوان ہو جائے گا اس وقت اللہ تعالیٰ اس وعدہ حفاظت کے موافق اس کی نصرت کرے گا۔‘‘ (لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن، جلد 20، صفحہ 280)
آپؑ فرماتے ہیں’’اب دیکھو کہ صحابہؓ کو بدر میں نصرت دی گئی اور فرمایا گیا کہ یہ نصرت ایسے وقت میں دی گئی جبکہ تم تھوڑے تھے۔ اس بدر میں کفر کا خاتمہ ہو گیا۔ بدر پر ایسے عظیم الشان نشان کے اظہار میں آئندہ کی بھی ایک خبر رکھی گئی تھی۔ اور یہ کہ بدر چودھویں کے چاند کو بھی کہتے ہیں۔ اس سے چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کے اظہار کی طرف بھی ایماء ہے۔ اور یہ چودھویں صدی وہی صدی ہے جس کیلئے عورتیں تک کہتی تھیں کہ چودھویں صدی خیرو برکت کی آئے گی۔ خدا کی باتیں پوری ہوئیں اور چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ کے منشاء کے موافق اسمِ احمدؐ کا بروز ہوا اور وہ میں ہوں۔‘‘ آپؑاپنے بارے میں فرماتے ہیں’’اسمِ احمدؐ کا بروز ہوا اور وہ میں ہوں۔جس کی طرف اس واقعہ بدر میں پیشگوئی تھی جس کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کہا۔ مگر افسوس کہ جب وہ دن آیا اور چودھویں کا چاند نکلا تو دوکاندار، خود غرض کہا گیا۔ افسوس ان پر جنہوں نے دیکھا اور نہ دیکھا۔ وقت پایا اور نہ پہچانا۔ وہ مر گئے جو منبروں پر چڑھ چڑھ کر رویا کرتے تھے کہ چودھویں صدی میں یہ ہو گا اور وہ رہ گئے جو کہ اب منبروں پر چڑھ کر کہتے ہیں کہ جو آیا ہے وہ کاذب ہے۔ ان کو کیا ہو گیا۔ یہ کیوں نہیں دیکھتے اور کیوں نہیں سوچتے۔ اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے بدر ہی میں مدد کی تھی اور وہ مدد اَذِلَّۃ کی مدد تھی جس وقت تین سو تیرہ آدمی صرف میدان میں آئے تھے اور کل دو تین لکڑی کی تلواریں تھیں اور ان تین سو تیرہ میں زیادہ تر چھوٹے بچے تھے۔ اس سے زیادہ کمزوری کی حالت کیا ہو گی اور دوسری طرف ایک بڑی بھاری جمعیت تھی اور وہ سب کے سب چیدہ چیدہ جنگ آزمودہ اور بڑے بڑے جوان تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ظاہری سامان کچھ نہ تھا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ پر دعا کی اَللّٰھُمَّ اِنْ اَھْلَکْتَ ھٰذِہِ الْعِصَابَةَ لَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ اَبَدًا۔ یعنی اے اللہ! اگر آج تُو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر کوئی تیری عبادت کرنے والا نہ رہے گا۔ سنو! میں بھی یقیناً اسی طرح کہتا ہوں کہ آج وہی بدر والا معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح ایک جماعت تیار کر رہا ہے۔ وہی بدر اور اَذِلَّة کالفظ موجود ہے۔‘‘(ملفوظات، جلد 2، صفحہ 190-191 ،ایڈیشن 1984ء)
آپؑ فرماتے ہیں کہ’’چودہ کے عدد کو بڑی مناسبت ہے چودھویں صدی کاچاند مکمل ہوتاہے۔ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ (آل عمران: 124) میں اشارہ کیاہے۔ یعنی ایک بدر تو وہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخالفوں پر فتح پائی اس وقت بھی آپؐ کی جماعت قلیل تھی اور ایک بدر یہ ہے۔‘‘ (ملفوظات ،جلد4،صفحہ 12، ایڈیشن 1984ء)یعنی آپؑکا زمانہ۔
جنگِ بدر کا قصہ مت بھولو کے الہام کے بارے میں حضرت قاضی عبدالرحیم صاحبؓ اپنی 17؍ فروری 1904ء کی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ’’آج رات حضرتؑ نے خواب بیان فرمایا کسی نے کہا کہ جنگِ بدر کا قصہ مت بھولو۔‘‘(تذکرہ ،صفحہ 668، ایڈیشن چہارم 2004ء)
اللہ تعالیٰ ہم میں خاص طور پر بدر کی اہمیت کا ادراک پیدا فرمائے اور ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی آمد کو سمجھنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ مسلمان امت بھی اس واقعہ بدر کی حقیقت کو سمجھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آئے ہوئے مسیح موعود کو پہچانے تا کہ یہ مسلمان دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت حاصل کرنے کے قابل بن سکیں۔
اب میں جلسہ سالانہ کے بارے میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ انشاء اللہ تعالیٰ اگلے جمعہ سے جماعت احمدیہ یو.کے کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ اس سال انشاء اللہ تعالیٰ تقریباً تین چار سال بعد جلسے میں شمولیت کیلئے باہر سے بھی بڑی تعداد میں مہمان آئیں گے بلکہ مہمانوں کی آمد شروع ہو چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب سفر کرنے والوں کے سفر میں آسانیاں پیدا فرمائے اور حفاظت سے سب یہاں پہنچیں اور جلسہ کے مقصد سے حقیقی فیض اٹھانے والے ہوں۔ اسی طرح یوکے میں رہنے والے احمدی بھی حقیقی جذبے اور روح کے ساتھ جلسے میں شامل ہوں اور صرف اور صرف یہ بات مدنظر ہو کہ ہم نے جلسے کے دنوں میں روحانی مائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اسی طرح تمام کارکنان جو جلسہ کی مختلف ڈیوٹیوں پر متعین کیے گئے ہیں وہ کوشش کریں کہ ہر شامل جلسہ کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان سمجھ کر خدمت کریں۔
اس مرتبہ یہی توقع کی جا رہی ہے کہ شاملین جلسہ کی تعداد میں زیادہ اضافہ ہو گا اور اس وجہ سے ہو سکتا ہے کہ انتظامی لحاظ سے بعض کمیاں بھی بعض جگہ رہ جائیں۔ ویسے تو مجھے امید ہے کہ ماشاء اللہ یوکے جماعت کی جلسہ کی انتظامیہ اب اتنی تجربہ کار ہو چکی ہے کہ اکثر مسائل انہوں نے حل کر لیے ہوں گے اور اگر کمیاں ہوں گی تو بہت معمولی باتیں ہی ہوں گی اور اگر مسئلہ پیدا بھی ہو گا تو اس کو احسن رنگ میں یہ لوگ حل کر سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسے مسائل اٹھیں ہی نہ جو مہمانوں کیلئے کسی بھی قسم کی تکلیف کا باعث بنیں۔ اسلام تو مہمانوں کی عزت و اکرام کی بہت تلقین کرتا ہے اور پھر وہ مہمان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بلانے پر خالص دینی غرض سے آ رہے ہوں ان کی تو سب ڈیوٹی والوں اور سب میزبانوں کو خاص طور پر عزت اور خدمت کرنی چاہئے اور خالص قربانی کے جذبے سے اور اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے یہ خدمت کرنی چاہئے۔ مہمانوں کی مہمان داری کے بارے میں اسلام کی تعلیم کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے مہمانوں کی خدمت کے بارے میں کیا توقع رکھتے ہیں اس بارے میں آپؐنے ایک موقع پر فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔(صحیح البخاری، کتاب البخاری، کتاب الادب، باب اکرام الضیف … حدیث 6135)
جلسے کے دنوں میں تو مختلف قوموں اور مختلف طبائع کے لوگ آتے ہیں اور بعض دفعہ مشکل ہو جاتا ہے کہ کس طرح ان کی طبیعتوں کے مطابق ان کا خیال رکھا جائے۔ بعض دفعہ مہمان اپنے مزاج کی وجہ سے ایسی باتیں کر دیتا ہے یا اس طرح اظہار کر دیتا ہے جو ڈیوٹی دینے والے کیلئے یا خدمت کرنے والے کیلئے ناگوار ہوتا ہے لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ کے رسولؐ کا یہی حکم ہے کہ تم نے ہر صورت میں مہمان کا احترام کرنا ہے کیونکہ اس سے بھی تمہارے ایمان کا معیار پرکھا جاتا ہے۔ پس اس بات کا بہت خیال رکھیں اور ڈیوٹی دینے والے کو ہمیشہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتے رہنا چاہئے اور مسکراتے رہنا چاہئے۔
خدمت کرنے والوں نے خود اپنی مرضی سے اپنے آپ کو مہمانوں کی خدمت کیلئے پیش کیا ہے تو پھر اس معیار کو بھی حاصل کریں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے چاہتے ہیں۔ اچھے اخلاق کے اظہار کیلئے کن معیاروں کو حاصل کرنے کی اسلام ہمیں تلقین فرماتا ہے؟ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اپنے بھائی کے سامنے تیرا مسکرانا تیرے لیے صدقہ ہے۔ تیرا اچھی بات کرنے کی تلقین کرنا اور بری بات سے روکنا بھی تیرے لیے صدقہ ہے۔ کسی بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھانا اور نابینا کو راستہ دکھانابھی تیرے لیے صدقہ ہے اور پتھر، کانٹا، ہڈی کو راستے سے ہٹانا بھی تیرے لیے صدقہ ہے یعنی ہر گند کو ہٹانا۔ اور اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں کچھ ڈال دینا بھی تیرے لیے صدقہ ہے۔(جامع الترمذی، ابواب البر والصلۃ، باب ما جاء فی صنائع المعروف، حدیث 1956)
پس یہ ہیں وہ معیار جو ہر احمدی کے ہونے چاہئیں۔ کیونکہ میں اس وقت کارکنوں کو بھی توجہ دلا رہا ہوں اس لیے ان سے خاص طور پر کہتا ہوں کہ ہمیشہ مسکراتے رہنا ایک بہت بڑا وصف ہے۔
ڈیوٹیوں کے دوران بعض دفعہ سونے کا کم وقت ملتا ہے، تھکاوٹ بھی ہو جاتی ہے لیکن حکم یہ ہے کہ ایسے حالات میں بھی تم مسکراتے رہو اور دلی خوشی کے ساتھ خدمت کرو۔
پھر تربیت کے شعبے کیلئے خصوصاً اور عام ڈیوٹی والوں کو عموماً یہ خیال رکھنا چاہئے کہ اگر کسی میں کوئی غلط بات دیکھیں جو ہمارے ماحول کے تقدّس اور تعلیم کے خلاف ہے تو نرمی اور پیار سے سمجھائیں۔
پھر آگے بات جو کی راستوں کی صفائی کی ہے نہ راستے دکھانے کی ہے۔ گو ہمارے نظام میں راستوں کی راہنمائی کیلئے بھی ٹیمیں مقرر ہوتی ہیں۔ اسی طرح مختلف جگہوں پر بورڈز بھی آویزاں کیے جاتے ہیں جن پہ ہدایات بھی لکھی ہوتی ہیں اور جگہوں کے نشانات بھی دیے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اگر کسی بھی ڈیوٹی والے سے کوئی راستہ پوچھے تو اس کی راہنمائی کریں۔ ضروری نہیں ہے کہ جن کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے وہی بتائیں۔ ہر شخص اگر کوئی راستہ جانتا ہو تو دکھانا چاہئے۔ اچھے اخلاق کا مظاہرہ یہی ہے۔ اگر خود نہیں پتا تو متعلقہ شعبے تک پہنچا دیں۔ اور معذور اور نابینا کی مدد کرنا تو ویسے ہی ضروری ہے یہ تو ہر ایک جانتا ہے اور یہاں اس طرف توجہ بھی دی جاتی ہے اس لیے اس بارے میں زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔
پھر راستوں اور مختلف جگہوں پر اگر کوئی مہمان یا کوئی بھی شخص کوئی لفافے یا ڈسپوزیبل گلاس وغیرہ یا اس قسم کی چیزیں یا گند وغیرہ پھینک جاتے ہیں تو گو صفائی کا شعبہ اس طرف توجہ کرتا ہے اور صفائی کرتا رہتا ہے لیکن اگر کوئی بھی کارکن ایسا کوئی گند دیکھے تو خود ہی اٹھا کر قریب کے ڈسٹ بن میں ڈال دے اور انتظامیہ کو بھی مختلف جگہوں پر قریب قریب ہی ڈسٹ بن رکھنے چاہئیں لیکن ساتھ ہی انتظامیہ کو یہ نگرانی بھی کرنی چاہئے کہ حالات ایسے ہیں کہ کوئی غلط چیز اس میں نہ پھینک دے۔
اسی طرح کھانے کھلانے والے جو لوگ ہیں ان کو بھی مہمانوں کا بہت خیال رکھنا چاہئے۔ اگر کبھی کھانے میں کمی ہو جائے تو پیار سے مہمانوں کو سمجھائیں کہ اس کمی کی وجہ سے بانٹ کر کھانا کھائیں تاکہ ہر ایک کو کچھ نہ کچھ مل جائے۔ عموماً تو اس کا امکان کم ہوتا ہے لیکن کبھی ایسی صورت پیدا ہو جائے تو بڑے پیار اور حکمت سے کھانا کھلانے والوں کو اس معاملے کو دیکھنا چاہئے۔ اسی طرح ٹریفک کا شعبہ ہے یہاں بھی بعض دفعہ بدمزگیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور خاص طور پر جب موسم خراب ہو تو یہاں اس بارے میں بھی جہاں میں لوگوں کو آنے والے مہمانوں کو بھی کہوں گا کہ ان ٹریفک والوں سے تعاون کریں وہاں اس شعبے کے کارکن بھی ہمیشہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں۔
اور اسی طرح جلسے کے دوسرے مختلف شعبہ جات ہیں۔ ہر ایک کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت پر عمل کرتے رہناچاہئے کہ ہمیشہ مسکراتے رہو۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ تمام کارکنان احسن رنگ میں اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دینے والے ہوں اور جلسہ ہر لحاظ سے بابرکت ہو خاص طور پر ہر احمدی کو اس جلسہ کی کامیابی کیلئے دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق بھی دے۔
…٭…٭…٭…