اَے فلاں فلاں کے بیٹے! اَے فلاں فلاں کے بیٹے! کیا اب تم کو اس بات سے خوشی ہو گی کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول ؐکی فرمانبرداری کی ہوتی
کیونکہ ہم نے تو سچ سچ پا لیا جو ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا تھا، آیا تم نے بھی واقعی وہ پا لیا ہے جو تمہارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے!
تم ان (مقتولین بدر)سے زیادہ نہیں سن رہے ان باتوں کو جو میں کہہ رہا ہوں
حقیقت یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فدیہ لینے کا فیصلہ جو فرمایا تھا وہ الٰہی منشا کے عین مطابق تھا
جنگِ بدر کے حوالے سے آنحضرتﷺ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ
رؤسائے قریش کی تدفین، آنحضرتﷺ کے معجزات، اموالِ غنیمت کی تقسیم کا تذکرہ نیز قیدیوں کو فدیہ لے کر آزاد کرنے کے بارے میں ایک مشہور روایت کا حل
مکرم رانا عبد الحمید خان صاحب کاٹھ گڑھی مربی سلسلہ و نائب ناظم مال وقفِ جدید پاکستان
اور مکرمہ نصرت جہاں احمد صاحبہ اہلیہ مکرم مبشر احمد صاحب مربی سلسلہ کی وفات پر ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 14؍جولائی2023ء بمطابق 14؍وفا1402ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)یو.کے
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ-
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ
اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَ
جنگِ بدر کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور واقعات کے بارے میں ذکر ہو رہاتھا۔ جنگِ بدر ختم ہوئی اور کفار کو اللہ تعالیٰ نے ان کے بد انجام تک پہنچایا۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے ستر کفار مارے گئے جن میں سے بہت سے رؤسا اور سردار بھی تھے۔ ان رؤسائے قریش کی تدفین کے بارے میں اس طرح ذکر ملتا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبے کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔یہ پرانا واقعہ ہے،پچھلے سارے حالات بیان کیے جا رہے ہیں کہ پہلے کیا حالات ہوتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کعبے کے پاس نماز پڑھ رہے تھے کہ قریش کے چند افراد کے کہنے پر ان میں سے سب سے بدبخت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان جانور کی بچہ دانی رکھ دی جبکہ آپؐ سجدے میں تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کی حالت میں ہی رہے اور وہ لوگ ہنستے رہے۔ حضرت فاطمہ علیہا السلام کو کسی نے بتایا۔ وہ چھوٹی لڑکی تھیں، دوڑتی ہوئی آئیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کی حالت میں رہے یہاں تک کہ انہوں نے اس کو آپؐ کے اوپر سے ہٹا دیا یعنی وہ بھاری بچہ دانی جو تھی اس کو حضرت فاطمہؓ نے ہٹایا۔ حضرت فاطمہؓ نے ان لوگوں کو برا بھلا کہا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو آپؐنے دعا کی۔ اے اللہ! تُو قریش کی گرفت کر۔ اے اللہ!تُو قریش کی گرفت کر۔ اے اللہ!تُو قریش کی گرفت کر۔پھرآپؐ نے نام لیے اے اللہ! عمرو بن ہشام اور عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ اور امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید پر گرفت کر۔ حضرت عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں نے خود ان کو بدر کے دن گرے ہوئے دیکھا یعنی ان لوگوں کو جن کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لیے تھے۔ پھر ان کو بدر کے گڑھے میں گھسیٹ کر پھینکاگیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گڑھے والے لعنت کے نیچے ہیں۔ (صحیح البخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب المرأۃ تطرح عن المصلی شیئا من الاذیٰ، روایت نمبر 520)
اسی طرح سیرت کی کتب میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مشرکین کی لاشوں کو ان کے قتل ہونے کی جگہ سے اٹھا لیا جائے۔ آپؐ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ان کی قتل گاہوں کی خبر دے دی تھی۔ چنانچہ حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بدر میں قتل ہونے والے مشرکین کی قتل گاہیں دکھا دی تھیں۔ آپؐیہ قتل گاہیں دکھاتے ہوئے فرماتے جاتے تھے کہ کل ان شاء اللہ یہ عتبہ بن ربیعہ کی قتل گاہ ہو گی۔ یہ شیبہ بن ربیعہ کی قتل گاہ ہو گی۔ یہ امیہ بن خلف کی قتل گاہ ہو گی۔ یہ ابوجہل بن ہشام کی قتل گاہ ہو گی اور یہ فلاں کی قتل گاہ ہو گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دستِ مبارک زمین پر رکھ کر یہ نشاندہی فرماتے جاتے تھے اور پھر اگلے دن غزوۂ بدر میں جو لوگ مرے ان کی لاشیں اس جگہ سے ذرا بھی ادھر ادھر نہیں تھیں جہاں جہاں آپؐنے اپنا دستِ مبارک رکھا تھا۔ (ماخوذ از السیرۃ الحلبیہ، جلد 2، صفحہ 245، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جنگ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کفار کے سب مقتولوں کو گڑھے میں ڈال دو۔ چنانچہ سب کو ڈال دیا گیا سوائے امیہ بن خلف کے۔ اسکی لاش اپنی زرہ میں پھول گئی تھی۔ جب اس کو اٹھانا چاہا تو اس کا گوشت گرنے لگا اس وجہ سے اس کو اسی جگہ مٹی اور پتھر ڈال کر ڈھانک دیا گیا۔(ماخوذ از سیرت ابن ہشام، صفحہ 435، دار الکتب العلمیۃ بیروت2001ء)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مشرکین کی لاشوں کو گڑھے میں پھینک دیا جائے تو عتبہ بن ربیعہ کو پکڑا گیا اور گڑھے میں پھینک دیا گیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوحذیفہؓ جو عتبہ کے بیٹے تھے کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھ لیے۔ یہ مسلمان ہو گئے تھے، باپ کافر تھا۔ آپؐنے فرمایا: اَے ابوحذیفہ! شاید تمہارے دل میں تمہارے باپ کے بارے میں کچھ گمان گزرا ہے۔ انہوں نے عرض کی نہیں یارسول اللہؐ! مجھے نہ تو باپ کے بارے میں شک ہے نہ اسکے قتل کے بارے میں شک ہے لیکن میں جانتا تھا کہ میرا باپ صائب الرائے اور حلیم اور معزز انسان تھا۔ مجھے امید تھی کہ یہ امور یعنی یہ باتیں جو اس نے دیکھیں، اچھی باتیں تھیں، اسے اسلام کی طرف لے جائیں گی۔ جب میں نے اس کا انجام دیکھا تو مجھے اسکا کفر یاد آ گیا حالانکہ مجھے اس کے اسلام لانے کی امید تھی۔ اس بات نے مجھے غمزدہ کر دیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یعنی ابوحذیفہ ؓ کو دعائے خیر دی اور بھلائی کے کلمات کہے۔ (سبل الھدیٰ والرشاد، جلد4 ،صفحہ56-57، دارالکتب العلمیۃ، 1993ء)
حضرت ابوطلحہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ بدرکے دن سردارانِ قریش میں سے چوبیس آدمیوں کی نسبت حکم دیا اور انہیں بدر کے کنووں میں سے ایک کنویں میں ڈال دیا گیا اور آپؐ جب کسی قوم پر غالب آتے تو میدان میں تین راتیں قیام فرماتے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر میں ٹھہرے اور تیسرا دن ہوا تو آپؐ نے اپنی اونٹنی پر کجاوہ باندھنے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ اس پر کجاوہ باندھا گیا۔ پھر آپؐچلے اور آپؐکے صحابہ ؓبھی آپؐکے ساتھ چلے اور کہنے لگے ہم سمجھتے ہیں کہ آپؐ کسی غرض کیلئے ہی چلے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں کی منڈیر پر پہنچ کر کھڑے ہو گئے جہاں ان کافروں کو دفنانے کیلئےپھینکا گیا تھا۔ آپؐ ان کے اور ان مرے ہووٴں کے باپوں کے نام لے کر پکارنے لگے کہ اے فلاں فلاں کے بیٹے! اَے فلاں فلاں کے بیٹے! کیا اب تم کو اس بات سے خوشی ہو گی کہ تم نے اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری کی ہوتی کیونکہ ہم نے تو سچ سچ پا لیا جو ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ آیا تم نے بھی واقعی وہ پا لیا ہے جو تمہارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا؟
ابوطلحہؓ کہتے تھے کہ حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! آپؐ ان لاشوں سے کیا باتیں کر رہے ہیں جن میں جان نہیںہے؟ مرے ہوئے لوگ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اس ذات کی قَسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! تم ان سے زیادہ ان باتوں کو نہیں سن رہے جو میں کہہ رہا ہوں۔(بخاری، کتاب المغازی، باب قتل ابی جہل، حدیث 3976 )
سیرت ابن ہشام میں یوں ذکر ہے کہ اے کنویں والو! اپنے نبی کے تم بہت بُرے رشتہ دار تھے۔ تم نے میری تکذیب کی اور لوگوں نے میری تصدیق کی۔ تم نے مجھے اپنے گھر سے نکالا اور لوگوں نے مجھے پناہ دی۔ تم نے میرے ساتھ جنگ کی اور لوگوں نے میری مدد کی۔ پھر فرمایا ھَلْ وَجَدْتُّمْ مَا وَعَدَکُمْ رَبُّکُمْ حَقًّا؟ جو تمہارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا کیا اسے تم نے سچا پایا؟ ( سیرت ابن ہشام، صفحہ 435، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
سیرت خاتم النبیینؐ میں اس واقعہ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓنے اس طرح لکھا ہے کہ’’واپسی سے قبل آپؐاس گڑھے کے پاس تشریف لے گئے جس میں رؤسائے قریش دفن کئے گئے تھے اور پھر ان میں سے ایک ایک کا نام لے کر پکارا اور فرمایا ھَلْ وَجَدْتُّمْ مَا وَعَدَکُمُ اللّٰہُ حَقًّا فَاِنِّیْ وَجَدْتُّ مَاوَعَدَنِیَ اللّٰہُ حَقًّا۔ یعنی ’’کیا تم نے اس وعدہ کو حق پایاجو خدا نے میرے ذریعہ تم سے کیا تھا۔ تحقیق میں نے اس وعدے کو حق پالیا ہے جو خدا نے مجھ سے کیا تھا۔ نیز فرمایا: یَا اَھلَ الْقَلِیْبِ بِئْسَ عَشِیْرَةِ النَّبِّیِ کُنْتُمْ لِنَبِیِّکُمْ کَذَّبْتُمُوْنِیْ وَصَدَقَنِیَ النَّاسُ وَاَخْرَجْتُمُوْنِیْ وَآوَانِیَ النَّاسُ وَقَاتَلْتُمُوْنِیْ وَنَصَرَنِیَ النَّاسُ یعنی ’’اے گڑھے میں پڑے ہوئے لوگو! تم اپنے نبی کے بہت بُرے رشتہ دار بنے۔ تم نے مجھے جھٹلایا اوردوسرے لوگوں نے میری تصدیق کی۔ تم نے مجھے میرے وطن سے نکالا اوردوسروں نے مجھے پناہ دی۔ تم نے میرے خلاف جنگ کی اور دوسروں نے میری مدد کی۔‘‘ حضرت عمرؓنے عرض کیا۔ یارسول اللہؐ! وہ اب مردہ ہیں وہ کیا سنیں گے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میری یہ بات وہ تم سے بھی بہتر سن رہے ہیں۔‘‘
یعنی وہ اس عالم میں پہنچ چکے ہیں جہاں ساری حقیقت آشکارا ہوجاتی ہے اورکوئی پردہ نہیں رہتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ کلمات جو اوپر درج کئے گئے ہیں۔’’ جو ابھی بیان ہوئے ہیں ‘‘اپنے اندر ایک عجیب درد والم کی آمیزش رکھتے ہیں اوران سے اس قلبی کیفیت کاکچھ تھوڑا سا اندازہ ہوسکتا ہے جواس وقت آپؐ پر طاری تھی۔ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ اس وقت قریش کی مخالفت کی گذشتہ تاریخ آپؐ کی آنکھوں کے سامنے تھی اور آپؐ عالمِ تخیل میں اس کا ایک ایک ورق الٹاتے جاتے تھے اور آپؐ کادل ان اوراق کے مطالعہ سے بے چین تھا۔ آپؐ کے یہ الفاظ اس بات کا بھی یقینی ثبوت ہیں کہ اس سلسلہ جنگ کے آغاز کی ذمہ داری کلیۃً کفار مکہ پر تھی۔ جیساکہ آپؐ کے الفاظ قَاتَلْتُمُوْنِیْ وَنَصَرَنِیَ النَّاسُ سے ظاہر ہے۔ یعنی ’’اے میری قوم کے لوگو! تم نے مجھ سے جنگ کی اور دوسروں نے میری مدد کی۔ اورکم از کم ان الفاظ سے یہ تو ضرور ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ یہی یقین رکھتے تھے کہ ان جنگوں میں ابتداء کفار کی طرف سے ہوئی ہے اورآپؐنے مجبور ہوکر محض خود حفاظتی میں تلوار اٹھائی ہے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ364-365)
اس جنگ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا ذکربھی ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ سیرت کی کتاب میں یوں ملتا ہے۔ ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ عُکَاشَہ بن مِحْصَنؓ بدر کے دن اپنی تلوار کے ساتھ لڑائی کرتے رہے یہاں تک کہ وہ ان کے ہاتھ میں ٹوٹ گئی۔ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐنے ایک لکڑی ان کو عنایت کی اور فرمایا اے عکاشہ! تم اس سے کافروں کے ساتھ جنگ کرو۔ عکاشہ نے اسکو ہاتھ میں لے کر لہرایا تو وہ لکڑی آپؓکے ہاتھ میں تلوار بن گئی جو کافی لمبی تھی جس کا لوہا بہت سخت تھا اور اسکی رنگت سفید تھی۔ آپؓ اسکے ساتھ جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرما دی۔ راوی کہتا ہے اس تلوار کا نام عون تھا۔ بعد کی جنگوں میں بھی وہ اس تلوار کے ساتھ دادِ شجاعت دیتے رہے یہاں تک کہ مسیلمہ کذاب کے ساتھ جنگ میں انہوں نے شہادت پائی۔ (سیرت ابن ہشام، صفحہ434 ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
پھر ایک معجزے کے رنگ میںلعابِ دہن اور دستِ اقدس کی تاثیر کا ذکر بھی ملتا ہے ۔ حضرت قتادہؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ بدر کے روز ان کی آنکھ پر ضرب لگی انکی آنکھ ان کے رخسار پر بہ نکلی یعنی ڈیلا نکل کے باہر آگیا۔ انہوں نے اسے نیچے پھینک دینے کا ارادہ کیا۔ صحابہؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ایسا نہیں کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت قتادہ ؓ کو اپنے پاس بلایا اور اپنی ہتھیلی پر ان کی آنکھ رکھی پھر اسے اسکی جگہ پر رکھ دیا یعنی واپس آنکھ میں ڈیلا ڈال دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں یاد تک نہ رہا کہ ان کی کسی آنکھ کو تکلیف پہنچی تھی۔ پھر آنکھ ایسی جڑی، ٹھیک ہوئی ہے کہ ان کو احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ آنکھ وہ تھی جو نکلی تھی بلکہ یہ آنکھ دوسری آنکھ سے زیادہ خوبصورت لگتی تھی۔(ماخوذ از سبل الہدیٰ و الرشاد،جلد4،صفحہ 53،دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء
بعض کتب میں آنکھ کی شفا کا یہ واقعہ جنگِ احد کا بیان کیا گیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ جنگِ خندق کا واقعہ ہے۔(اسدالغابۃ، جلد4، صفحہ371،قتادۃ بن نعمان انصاریؓ، دارالکتب العلمیۃ بیروت2016ء)لیکن بہر حال یہ معجزہ تھا جو بدر کے ضمن میں بھی بیان ہوا ہے۔
مکہ میں کافروں کی شکست کی خبر کس طرح پہنچی، اس کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ مشرکین نے میدان بدر سے غیر منظم شکل میں بھاگتے ہوئے تتر بتر ہو کر گھبراہٹ کے عالم میں مکے کا رخ کیا۔ شرم و ندامت کے سبب ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح مکے میں داخل ہوں۔
سب سے پہلے جو شخص مکے میں قریش کی شکست کی خبر لے کر داخل ہوا وہ حیسمان بن ایاس بن عبداللہ تھا۔ یہ بعد میں مسلمان ہو گیا تھا۔ لوگوں نے اس سے پوچھا کہ پیچھے کیا خبر ہے؟ اس نے کہا عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابوالحکم بن ہشام یعنی ابوجہل اور امیہ بن خلف اور مزید کچھ سرداروں کے نام لیے یہ قتل ہو گئے ہیں۔ جب اس نے مقتولین میںسے قریش کے سرداروں کو گنانا شروع کیا تو لوگوں کو اس کی بات کا یقین نہیں آیا۔ صفوان بن امیہ جو حطیم میں بیٹھا تھا اس نے یہ سن کر کہا کہ سمجھ نہیں آتا شاید یہ شخص دیوانہ ہو گیا ہے۔ بطور امتحان اس سے دریافت تو کرو کہ صفوان بن امیہ کہاں ہے۔ اپنے بارے میں اس نے پوچھا۔ لوگوں نے پوچھا صفوان بن امیہ کا کیا ہوا؟ اس نے کہا وہ دیکھو وہ تو حطیم میں بیٹھا ہے۔ میں پاگل نہیں ہوا۔ میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں ۔ بخدا! اسکے باپ اور بھائی کو قتل ہوتے ہوئے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یعنی اس پر انہیں یقین ہوا کہ یہ شخص سچی خبر دے رہا ہے۔ غرض اس طرح اہل مکہ کو میدانِ بدر کی شکست فاش کی خبر ملی اور ان کی طبیعت پر اس قدر نہایت برا اثر پڑا حتی کہ انہوں نے مقتولین پر نوحہ کرنے کی ممانعت کر دی تھی تا کہ مسلمانوں کو ان کے غم پر خوش ہونے کا موقع نہ ملے(الرحیق المختوم، صفحہ 307 - 308، المکتبہ السلفیہ)(اسد الغابہ، جلد دوم، صفحہ 102، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
قریش مکہ میں سے کچھ نے اپنے مقتولین پر نوحہ کیا تو انہوں نے کہا ایسا نہ کرو یعنی دوسروں نے ان کو کہا کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحابؓ کو یہ خبر پہنچے گی تو وہ تمہاری اس حالت پر خوش ہوں گے اور اپنے قیدیوں کی رہائی کیلئے کسی کو نہ بھیجو یہاں تک کہ تم ان کے بارے میں خوب غور و فکر کر لو۔ نہ نوحہ کرنا ہے، نہ اپنے قیدیوں کو چھڑانے کیلئے کوئی کوشش کرنی ہے تا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐکے اصحابؓ فدیہ کے معاملے میں تم پر سختی نہ کریں۔(سیرت ابن ہشام، صفحہ 441، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
اہلِ مدینہ کو فتح کی خوشخبری کس طرح ملی اور اس کا ردّعمل کیا تھا؟اسکے بارے میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کو عوالی مدینہ یعنی بالائی مدینہ کی طرف اور حضرت زید بن حارثہ ؓ کو نشیبی مدینہ کی طرف اس بات کی خوشخبری دینے کیلئے بھیجا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی تھی۔(السیرۃ النبویہ لابن ہشام، صفحہ 437-438، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں ہمیں یہ خبر اس وقت پہنچی جب ہم نے حضرت عثمان بن عفانؓ کی زوجہ حضرت رُقَیَّہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر مٹی برابر کر دی تھی۔ وہ پیچھے وفات پا گئی تھیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بھی حضرت عثمانؓ کے ساتھ حضرت رقیہ ؓکی خبرگیری کیلئے پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ میں اپنے والد حضرت زید بن حارثہ ؓکی طرف اس وقت آیا جب لوگ آپؓکو گھیرے ہوئے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام، زَمْعَہ بن اسود، ابوالبختری، عاص بن ہشام، امیہ بن خلف اور حجاج کے دونوں بیٹے نُبَیہ اور مُنَبِّہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ (السیرۃ النبویہ لابن ہشام، صفحہ 438، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
جبکہ مدینہ میں یہ صورتحال تھی کہ منافقین اور یہود نے افواہوں کا بازار گرم کر رکھا تھا کہ مسلمانوں کو بری طرح شکست ہو چکی ہے اور یہ کہ نعوذ باللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی قتل ہو چکے ہیں۔ انہی افواہوں کے اندھیروں میں حضرت زیدؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر جب مدینہ میں داخل ہوئے تو یہود اور منافقین نے اَور بڑھ بڑھ کر کہنا شروع کر دیا کہ دیکھا! محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل ہو چکے ہیں اور اونٹنی پر زید ؓ آ رہے ہیں۔ اور جب حضرت زیدؓنے یہ بتانا شروع کیا کہ عتبہ بھی مارا گیا، شیبہ بھی مارا گیا، ابوجہل بھی مارا گیا، امیہ بھی مارا گیا تو اس پر منافقین نے کہنا شروع کر دیا کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ لگتا ہے کہ مسلمانوں کی شکست اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی وجہ سے زیدؓ اپنے ہوش و حواس کھو چکے اس لیے یہ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ جو کفار کا ردّعمل مکے میں تھا وہی ردّعمل منافقین اور یہود کا مدینے میں بھی ہوا۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ کہتے ہیں کہ کیونکہ میں یہ ساری باتیں مدینے میں سن رہا تھا اس لیے میں اپنے والد زیدؓ کو ایک طرف لے کر گیا اور پوچھا کہ ابا! جو تم کہہ رہے ہو کیا واقعی سچ ہے؟ تو کہنے لگے کہ بیٹا! بخدا! ایسا ہی ہوا ہے اور جو میں کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے۔ اہل مدینہ یہ اطلاع ملتے ہی فتحیاب نبویؐ قافلے کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے امڈ آئے، اکٹھے ہو گئے۔ مسلمان اس فتح پر شاداں و فرحاں تھے۔ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی کا شدت سے انتظار تھا۔ اس غزوے میں تمام مسلمان شامل نہ ہوئے تھے کیونکہ مدینے سے روانہ ہوتے ہوئے جنگ کا خیال ہی نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا سن کر کچھ مسلمان استقبال کیلئے مدینہ سے باہر چلے گئے۔ مقام روحاءپر ان کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی۔ ان کی خوشی قابل دید تھی۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار پر فتح کی مبارکباد دینے لگے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے وہاں موجود تمام مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا۔(ماخوذ از دائرہ معارفِ سیرت محمد رسول اللہﷺ ،جلد 6، صفحہ233-234،بزم اقبال لاہور ، اپریل 2022ء)
اس جنگ میں اموال غنیمت کے بارے میں جو ذکر ہے وہ اس طرح ہے کہ اس فتح سے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے ایک سو پچاس اونٹ اور دس گھوڑے ملے۔ اسکے علاوہ ہر قسم کا سامان، ہتھیار،کپڑے اور بےشمار کھالیں، رنگا ہوا چمڑا اور اُون وغیرہ تھی جو مشرک اپنے ساتھ تجارت کیلئے لے کر آئے تھے۔(السیرۃ الحلبیۃ ، جلد 2، صفحہ252،دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حصہ بھی صحابہؓ کے حصے کے برابر رکھا تھا۔ اس جنگ میں ایک تلوار صحابہؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے رکھ لی اور اونٹوں میں سے ایک اونٹ ابوجہل کی ملکیت میں سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا تھا جس کی ناک میں چاندی کا حلقہ تھا۔(غزوات النبیؐ از مولانا ابو الکلام آزاد، صفحہ 43-44، سٹی بک پوائنٹ کراچی 2014ء)
اس تلوار اور اونٹ کو بھی کتبِ سیرت میں خاص اہمیت دی گئی ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ جس تلوار کا اوپر ذکر ہوا ہے اس کا نام ذوالفقار تھا اور اس کا مالک ایک مشرک عاص بن مُنبِّہیا مُنَبِّہ بن حَجَّاجتھا جو بدر میں مارا گیا تھا۔ بعض روایات کے مطابق یہ تلوار ابوجہل کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تلوار کا نام ذوالفقار برقرار رکھا۔ ذوالفقار کی وجہ تسمیہ میں کہا گیا ہے کہ اس تلوار میں دندانے یا کھدی ہوئی لکیریں تھیں۔(طبقات الکبری لابن سعد، جلد1، صفحہ377، ذکر سیوف رسول اللہ ﷺ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)(اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جلد 10، صفحہ46، پنجاب یونیورسٹی لاہور)(السیرۃ الحلبیۃ، جلد دوم، صفحہ 254، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
اس تلوار کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ تلوار بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہیں ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوات میں اس تلوار کو اپنے پاس رکھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ تلوار عباسی خلفاء کے پاس رہی۔ (شرح الزرقانی، جلد 5 ،صفحہ 85 تا 87، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
اسی طرح ابوجہل کا جو اونٹ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوۂ بدر میں بطور مال غنیمت ملا تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہا یہاں تک کہ صلح حدیبیہ کے موقعےپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قربانی کے طور پر لے کر گئے۔ اسکے بارے میں ایک قصہ بھی ملتا ہے کہ یہ اونٹ حدیبیہ میں چَر رہا تھا کہ وہ بھاگ نکلا یہاں تک کہ مکہ ابوجہل کے گھر جا پہنچا۔ حضرت عمرو بن عَنَمَہانصاریؓ اس کے پیچھے نکلے تاہم مکہ کے کچھ تیز طبیعت والوں نے اسے واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ سہیل بن عمرو جو معاہدہ حدیبیہ کے وقت قریش کا نمائندہ تھا اس نے ان لوگوں کو وہ اونٹ واپس کرنے کا حکم دیا تو واپس کیا گیا۔ اس نے ان لوگوں سے یہ کہا کہ تم اسکے بدلے میں سو اونٹ دینے کی پیشکش کر دو۔ اگر مسلمان اس کو قبول کر لیں تو یہ اونٹ روک لینا وگرنہ اونٹ واپس کرنا ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ہم نے اس کو قربانی کے جانوروں میں شمار نہ کیا ہوتا تو ہم اس کو واپس کر دیتے لیکن یہ پہلے سے قربانی کیلئے مختص ہو چکا ہے اس لیے اب نہیں۔ چنانچہ آپؐ نے مسلمانوں کی جانب سے اسے ذبح کر دیا۔(سبل الہدیٰ، جلد 5، صفحہ 57، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993)( سبل الہدیٰ مترجم، جلد5، صفحہ 82-83، مطبوعہ زاویہ پبلشرز لاہور)(غزوات النبی ﷺ ازعلامہ حلبی ، مترجم اردو،صفحہ 429، دار الاشاعت کراچی)
اموالِ غنیمت کی تقسیم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ بدر میں شہید ہونے والوں کے ورثاء کو ان شہداء کا حصہ دیا اور اسی طرح جو نائبین مدینہ میں مقرر فرمائے یا کچھ اصحابؓ جن کے سپرد مختلف ڈیوٹیاں لگائی گئی تھیں اور وہ اس وجہ سے جنگِ بدر میں شامل نہ ہو سکے تھے ان کو بھی حصہ دیا گیا۔(غزوات النبی ﷺ ، ازعلامہ حلبی، مترجم اردو،صفحہ 143-144 ،دار الاشاعت کراچی)
جنگِ بدر کے قیدیوں سے فدیہ اور صحابہؓ کی آراء کے بارے میں لکھا ہے کہ جنگِ بدر کے ان قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کر دیا گیا۔ فدیہ کی رقم چار ہزار سے ایک ہزار درہم تک تھی البتہ جو فدیہ کی رقم نہیں دے سکتے تھے ان کیلئےیہ شرط رکھی تھی کہ وہ مدینہ کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو رہا ہو جائیں گے۔ اسی طرح کچھ قیدیوں کو کم فدیہ یا بغیر فدیے کے بھی چھوڑا گیا۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے ؓ،صفحہ368-369)
فدیہ کی جو روایات ہیں وہ مختلف قسم کی روایتیں ہیںاور بعض عجیب طرح کے ابہام پیدا کرتی ہیں۔ اس بارے میں صحیح حل بھی حضرت مصلح موعودؓ نے نکالا ہے۔ بہرحال پہلے ساری بات بیان کر دیتا ہوں۔ تاریخ و سیرت یہاں تک کہ کتب حدیث میں جنگِ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے کے بارے میں جو روایات موجود ہیں ان میں روایات کا خلط ملط ہو گیا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فدیہ لینے کا جو فیصلہ فرمایا تھا وہ الٰہی منشا کے عین مطابق تھا۔ عمومی روایات کے مطابق گو میں پہلے حضرت عمرؓ کے ضمن میں بیان کر چکا ہوں یہاں بھی اسے بیان کرنا ضروری ہے اس لیے بیان کرتا ہوں۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیںکہ جب انہوں نے قیدیوں کو پکڑا یعنی بدر کے موقعے پر مسلمانوں نے قیدیوں کو پکڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی ؐ! وہ ہمارے چچازاد اور رشتہ دار ہیں۔ میرا خیال ہے آپؐ ان سے فدیہ لے لیں۔ وہ ہمارے لیے ان کفار کے مقابلے میں قوت کا باعث ہو گا اور قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اسلام کی طرف راہنمائی فرمائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن خطاب! تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت عمرؓ سے پوچھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا: نہیں یا رسول اللہؐ! اللہ کی قسم! میری وہ رائے نہیں ہے جو ابوبکر کی رائے ہے ۔بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپؐ انہیں ہمارے سپرد کر دیں۔ ہم ان کی گردنیں مار دیں۔ ان کو قتل کر دیں۔ اور علی کے سپرد عقیل کو کریں کہ وہ اس کی گردن مارے اور میرے سپرد فلاں کو کریں جو نسباً حضرت عمرؓ کا رشتہ دار تھا تو میں اسکی گردن مار دوں کیونکہ یہ سب کفار کے لیڈر اور ان کے سردار ہیں۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کی بات کو ترجیح دی اور میری بات کو ترجیح نہ دی۔ پھر حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اگلے دن مَیں آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر بیٹھے رو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! مجھے بتایئے کس چیز نے آپؐ کو اور آپؐکے ساتھی کو رلایاہے۔ اگر مجھے رونا آیا تو میں بھی روؤں گا ورنہ میں آپ دونوں کے رونے کی طرح رونی صورت بنا لوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے رونے کی وجہ یہ ہے جو تمہارے ساتھیوں نے میرے سامنے ان سے فدیہ لینے کی تجویز پیش کی تھی۔ میرے سامنے ان کا عذاب اس درخت سے زیادہ قریب پیش کیا گیا ہے جو درخت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی تھا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے کہ مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ(الانفال:68) یعنی کسی نبی کیلئے جائز نہیں کہ زمین میں خونریز جنگ کے بغیر قیدی بنائے اور پھر اگلی دو آیتیں چھوڑ کے ہے کہ فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا(الانفال:70) یعنی پس جو مال غنیمت تم حاصل کرو اس میں سے حلال اور پاکیزہ کھاؤ۔ پس اللہ نے ان کیلئے غنیمتیں جائز کر دی ہیں۔ یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب الْاِمْدَادِ بِالْمَلَائِکَةِفی غزوۃ بدر، واباحۃ الغنائم حدیث 4588)
اس حدیث کے شروع کے جو الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ رو رہے تھے اور پھر آگے جو قرآنی آیات کے الفاظ ہیں ان میں جو مضمون بیان ہوا ہے وہ اس روایت کو مبہم سا کر دیتا ہے، پتہ نہیں لگتا کیا کہا جا رہا ہے۔ بات واضح نہیں ہوتی۔ بہرحال اس روایت کو صحیح سمجھ کے اکثر کتبِ تاریخ اور سیرت اور مفسرین نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گویا جنگِ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے والے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار فرمایا اور حضرت عمرؓ کی رائے کو پسند فرمایا۔ حضرت عمرؓ کی سیرت و سوانح لکھنے والے جب ایک الگ باب باندھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی رائے پر کون کون سے قرآنی احکام نازل ہوئے تو ان میں سے ایک یہ بھی درج کیا جاتا ہے کہ جنگِ بدر کےقیدیوں کے بارے میں حضرت عمرؓ کی رائے کو اللہ تعالیٰ نے ترجیح دی لیکن یہ مبہم سی بات ہے۔ اس کی کوئی سمجھ نہیں آتی ۔ لگتا ہے کہ سیرت نگاروں اور مفسرین کو اسکو سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ بہرحال حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسکی وضاحت میں جو بیان فرمایا ہے وہ آپؓکے غیر مطبوعہ تفسیری نوٹ میں ملا ہے جو اسکی وضاحت کرتا ہے اور ان روایات کی تردید کرتا ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓکی جو یہ وضاحت ہے وہی صحیح لگتی ہے۔ بلاوجہ حضرت عمرؓ کے مقام کو اونچا کرنے کیلئے لگتا ہے کہ بعض مفسرین نے یہ روایت بنا دی ہے یا اس کو غلط سمجھا گیا ہے۔ بہرحال حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورۃ انفال کی آیت نمبر 68کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسلام سے پہلے عرب میں رواج تھا اور لکھتے ہیں کہ افسوس ہے کہ دنیا کے بعض حصوں میں اب تک یہ رواج چلا آ رہا ہے کہ اگر جنگ نہ بھی ہو اور لڑائی نہ بھی ہو تب بھی قیدی پکڑ لیتے ہیں اور ان کو غلام بنا لیتے ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب حضرت مصلح موعودؓ نے یہ نوٹ لکھا تھا۔ یہ آیت اس قبیح رسم کو منسوخ کرتی ہے اور صاف صاف الفاظ میں حکم دیتی ہے کہ صرف جنگ کی حالت میں اور لڑائی کے بعد ہی دشمن کے آدمی قیدی بنائے جا سکتے ہیں۔ اگر لڑائی نہ ہو رہی ہو تو کسی آدمی کو قیدی بنانا جائز نہیں۔ اس آیت کی بڑی غلط تفسیر کی گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے جنگِ بدر کے موقعے پر مکّہ والوں کے کچھ قیدی پکڑ لیے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے مشورہ کیا کہ ان کے متعلق کیا فیصلہ کرنا چاہئے۔ حضرت عمرؓ کی رائے تھی کہ ان کو قتل کر دینا چاہئے حضرت ابوبکرؓ کی رائے تھی کہ فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کو پسند فرمایا اور یہ سورۃ انفال کی 68آیت ہے جس میں یہ ہے کہ کسی نبی کیلئے جائز نہیں کہ زمین میں خونریز جنگ کرے۔ بہرحال حضرت مصلح موعودؓ اسی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو رائے لی گئی تھی اس میں تو حضرت ابوبکرؓ کی رائے مختلف تھی۔ حضرت عمرؓ کی رائے مختلف تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کو پسند فرمایا اور فدیہ لے کر قیدیوں کو چھوڑ دیا لیکن مفسرین کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو گویا خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو ناپسند فرمایا۔ صرف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات کو اہمیت دینے کیلئے یہ روایت بنا دی گئی ہے اور چاہے اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام کم ہوتا ہو۔ بہرحال یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند فرمایا۔ قیدیوں کو قتل کر دینا چاہئے تھا اور فدیہ نہیں لینا چاہئے تھا۔ یہ طبری کی تفسیر میں ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ یہ تفسیر غلط ہے۔ اوّل اس وقت تک خدا نے کوئی ایسا حکم نازل نہیں کیا تھا کہ قیدیوں کو فدیہ لے کر نہ چھوڑا جائے اس لیے فدیہ قبول کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی الزام نہیں آ سکتا تھا۔ دوسرے اس سے پیشتر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نخلہ کے مقام پر دو آدمیوں سے فدیہ لے کر ان کو چھوڑ دیا تھا اور خدا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کو ناپسند نہیں فرمایا تھا۔ سوئم صرف دو آیتیں اَور آگے چل کر خدا مسلمانوں کو اجازت دیتا ہے کہ مالِ غنیمت سے جو کچھ تم کو ملے اس کو کھاؤ وہ حلال اور طیب ہے۔ یہ بات کسی کے وہم میں بھی نہیں آ سکتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فدیہ لینے کو خدا ناپسند کرے اور اس طرح جو روپیہ حاصل ہو اس کو حلال اور طیب فرمائے۔ اس لیے یہ تفسیر ہی غلط ہے اور صحیح تفسیر یہی ہے کہ اس آیت میں ایک اصول مقرر فرما دیا ہے کہ قیدی اسی صورت میں پکڑے جا سکتے ہیں کہ باقاعدہ جنگ ہو اور دشمن کو کاری ضربیں لگا کر مغلوب کر دیا گیا ہو۔(ماخوذ از دروس حضرت مصلح موعودؓ (غیرمطبوعہ) سورۃ الانفال ،رجسٹر نمبر36،صفحہ968-969)
اس کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ فدیہ نہ لیا جائے۔ مفسرینِ قرآن میں سے علامہ امام رازیؒ اور معروف سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی کا بھی یہی موقف ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا ہے۔(تفسیر کبیر علامہ امام رازی، جلد 8، جزء 15، صفحہ 158، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء) (سیرت النبیﷺ از شبلی نعمانی، جلد اول، صفحہ194، مطبوعہ آر، زیڈ پیکجز لاہور 1408ھ)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اس بارے میں لکھا ہے کہ’’مدینہ پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کے متعلق مشورہ کیا کہ ان کے متعلق کیا کرنا چاہئے۔ عرب میں بالعموم قیدیوں کو قتل کردینے یامستقل طورپر غلام بنالینے کا دستور تھا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت پر یہ بات سخت ناگوار گزرتی تھی۔ اور پھر ابھی تک اس بارہ میں کوئی الٰہی احکام بھی نازل نہیں ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکرؓنے عرض کیا کہ میری رائے میں تو ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ آخر یہ لوگ اپنے ہی بھائی بند ہیں اور کیا تعجب کہ کل کوانہی میں سے فدایانِ اسلام پیدا ہو جائیں مگر حضرت عمرؓنے اس رائے کی مخالفت کی اور کہاکہ دین کے معاملہ میں رشتہ داری کاکوئی پاس نہیں ہونا چاہئے اوریہ لوگ اپنے افعال سے قتل کے مستحق ہوچکے ہیں۔ پس میری رائے میں ان سب کو قتل کردینا چاہئے بلکہ حکم دیا جاوے کہ مسلمان خود اپنے ہاتھ سے اپنے اپنے رشتہ داروں کوقتل کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فطری رحم سے متاثر ہو کر حضرت ابوبکرؓ کی رائے کوپسند فرمایا اور قتل کے خلاف فیصلہ کیا اورحکم دیا کہ جو مشرکین اپنا فدیہ وغیرہ ادا کردیں انہیں چھوڑ دیا جاوے۔ چنانچہ بعد میں اسی کے مطابق الٰہی حکم نازل ہوا۔‘‘ جب الٰہی حکم بھی فدیہ دینے کے بارے میں نازل ہو گیا جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بھی لکھا ہے تو پھر حدیث کو بنیاد بنا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رونے کا جواز پیدا کرنا عجیب سی بات لگتی ہے۔ بہرحال حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓلکھتے ہیں کہ’’چنانچہ ہر شخص کے مناسب حال ایک ہزار درہم سے لے کر چار ہزار درہم تک اس کا فدیہ مقرر کردیا گیا۔ اس طرح سارے قیدی رہا ہوتے گئے۔‘‘( سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ 367-368)
باقی ان شاء اللہ آئندہ۔
جمعے کے بعد میں دوجنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا ۔ پہلا رانا عبدالحمید خان صاحب کاٹھگڑھی کا ہے ۔مربی سلسلہ تھے اورپاکستان میںنائب ناظم مال وقف جدید تھے ۔گذشتہ دنوں ستر سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے والد کا نام چودھری عبداللطیف خان صاحب کاٹھگڑھی تھا اور والدہ امۃ اللطیف صاحبہ تھیں۔ ان کے والد بھی واقفِ زندگی تھے۔ جماعت کے کارکن تھے۔ عبدالحمید خان صاحب کاٹھگڑھی کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا حضرت چودھری عبدالمنان خان صاحب کاٹھگڑھی اور دادا کے بڑے بھائی حضرت چودھری عبدالسلام خان صاحب کاٹھگڑھی کے ذریعے ہوا جنہوں نے دسمبر 1903ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت حاصل کی تھی۔ عبدالحمید خان صاحب کاٹھگڑھی نے مئی 1979ء میں بطور مربی اپنی خدمات کا آغاز کیا اور مختلف جگہوں پر ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ پاکستان میں بھی اور بیرون ملک بھی۔ وکالت تبشیر کے تحت اگست85ء سے دسمبر 86ء تک یوگنڈا میں رہے۔ پھر نظامت ارشاد وقف جدید کے تحت مختلف مقامات پر بطور مربی خدمت کی توفیق ملی۔ پھر 1993ء میں نائب ناظم مال وقف جدید مقرر ہوئے جہاں آپ تاوفات خدمات بجا لاتے رہے۔ چوالیس(44)سال تک سلسلے کی خدمت کی انہوں نے توفیق پائی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر عبدالرؤوف خان صاحب آج کل صدر مجلس خدام الاحمدیہ ڈنمارک ہیں ۔
ڈاکٹر رؤوف خان کہتے ہیں کہ والد صاحب نے ہمیشہ وقف کے ساتھ وفا کی۔ یوگنڈا میں جب تھے تو وہاں سے جلدی آنے کی وجہ یہ بنی کہ وہاں باغیوں نے حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور غیر ملکیوں کو نکالا تھا۔ بہرحال یوگنڈا میں خدمات کے دوران کہتے ہیں کہ والد صاحب کو وہاں کے مشنری انچارج محمود بی ٹی صاحب نے قرآن کریم دے کر کمپالا میں بغرضِ تبلیغ بھیجا۔ اس دوران وہاں اس علاقے میں سول وار شروع ہو گئی۔ لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ کہتے ہیں اس نقل مکانی کے دوران والد صاحب بیمار ہو گئے اور ہسپتال قریب نہ ہونے اور طبّی امداد میسر نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ان کے والد کو وہیں ایک کمرے میں چھوڑ کر چلے گئے۔ اس علاقے پر باغیوں نے قبضہ کر لیا۔ باغیوں نے وہاں ہرطرف سرچنگ کی کہ کوئی شخص یہاں موجود تو نہیں۔ اس دوران ایک باغی ان کے کمرے تک بھی آیا جہاں کہتے ہیں کہ حمید صاحب موجود تھے لیکن لیٹے ہوئے تھے اور والد صاحب کو مردہ سمجھ کر انہوں نے چھوڑ دیا۔ کہتے ہیں میرے والد صاحب بتاتے تھے کہ میں کھڑکی کے بالکل ساتھ نیچے لیٹا ہوا تھا اور کھڑکی سے گولیاں آتی تھیں اور سامنے والی دیوار پر جا لگتی تھیں۔ اسکے بعد کچھ تھوڑے سے حالات بہتر ہوئے تو چند جاننے والے لوگوں سے رابطہ ہوا تو انہوں نے والد صاحب کو محفوظ مقام پر منتقل کیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت فرمائی۔
خلافت سے بھی ان کا بے حد عقیدت اور محبت کا اور پیار کا تعلق تھا۔ بڑے سادہ اور ملنسار انسان تھے۔ خلیفہ وقت کے خطبات میں جو بھی کہا جاتا آپ ان کی ہر بات پر لبیک کہنے والے تھے۔ کسی تاویل کے قائل نہیں تھے اور جو کوئی تاویل کرتا تھا کہ یہ مطلب ہے یا یہ منشاء ہے تو بڑے ناراض ہوا کرتے تھے۔ پھر عہدیداران اور مربیان کا خود بھی ادب کرتے تھے اور ان کے بیٹے کہتے ہیں مجھے بھی اسکی تلقین کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں جب میں اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں تھا تو ایک مرتبہ کہنے لگے کہ اگر تم نے عہدیدار اور منتظم اطفال کی بات نہیں ماننی، کسی بات پر انہوں نے اختلاف کیا ہو گا تو عہدہ چھوڑ دو اور کہتے تھے کہ نظامِ جماعت اور خلافت ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یہ نہیں کہ ایک کی بات مانو اور ایک کی نہ مانو۔ دوسروں کی مدد کرنا اور برموقع اصلاح کرنا آپکا خاص وصف تھا یہاں تک کہ اگر آپ کسی چیز کی اصلاح کرتے اور کوئی ناراض ہو جاتاتو اس کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔ اور اگر اصلاح ہو جاتی تو اسکے بعد اسکی حوصلہ افزائی کرتے اور کہتے کہ میرا مقصد صرف اصلاح کرنا تھا۔ لکھتے ہیں کہ بہت سے ایسے مواقع آئے کہ زندگی میں آسائش ہو سکتی تھی لیکن آپ نے ہمیشہ وقف کو ترجیح دی۔ آخری عمر میں کہتے ہیں کہ میں نے بھی والد صاحب کو باتوں باتوں میں کہا کہ ڈنمارک میرے پاس آجائیں تو بہت ناراض ہوئے اور انہوں نے کہا کہ میں نے سال وقف نہیں کیے زندگی وقف کی ہے اور میرا سب کچھ وقف کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔
ان کی بیٹی حافظہ حسن آرا کہتی ہیں کہ میرے والد بے حد مہربان، شفیق، مہمان نواز اور خدا ترس تھے۔ دعاؤں کا ایک خزانہ تھے۔ ایک خاص نمایاں وصف خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین اور بھروسہ تھا اور اسکے بعد خلافت سے محبت نمایاں وصف تھا۔ خلافت سے ہر ایک رشتے سے بڑھ کر ایک خاص محبت کا انداز تھا۔ ہر وقت سوچ کا محور اور بات کا آغاز اور اختتام صرف اور صرف خلافت اور خلیفہ وقت سے محبت کی تلقین کرتے رہنا تھا۔کہتی ہیں یہاں یوکے میں بھی کبھی آتے تھے تو جب میں بعض دفعہ جذبات سے مغلوب ہو کے اپنا اظہار کرتی تو کہا کرتے تھے کہ دنیا کے تمام رشتے فانی ہیں۔ تم صرف خدا سے اپنا رشتہ مضبوط رکھو ۔ باقی سب رشتے چھوڑ جاتے ہیں کیونکہ قائم رہنے والی ذات صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے جو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا اور پھر اس کے بعد کہا کہ خلافت سے اپنا تعلق مضبوط رکھو ۔ انتہائی سادہ طبیعت کے انسان تھے۔ ہر وقت یہی کہا کرتے تھے کہ میں ایک واقفِ زندگی ہوں۔ میری ساری زندگی وقف ہے اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ آخر وقت تک وقف نبھاؤں۔
حافظ خالد افتخار صاحب ناظم مال وقف جدید لکھتے ہیں کہ عبدالحمید خان صاحب کے ساتھ تقریباً بیس سال کام کرنے کا موقع ملا اور ہمیشہ ان کا کردار ایک حقیقی واقف زندگی کا رہا ہے۔ عمر اور تجربے کے لحاظ سے کہتے ہیں مجھ سے بڑے تھے لیکن اطاعتِ خلافت اور نظام ِجماعت کے انتہا درجہ کے پابند ہونے کے باعث کبھی بھی اپنی سنیارٹی (Seniority) کا احساس نہیں ہونے دیا۔ ان کے نائب تھے۔ کہتے ہیں بے لوث اور بے نفس ہو کر خاکسار کے ساتھ انہوں نے کام کیا۔ سمجھانے اور چندے کی تحریک کرنے کا انداز بہت عمدہ تھا۔ نئے آنے والے کارکنان اور مربیان اور معلمین کو حکمت کے ساتھ کام کرنے کا انداز سمجھایا کرتے تھے۔ اپنے مفوّضہ فرائض مکمل اطاعت کے ساتھ ادا کرتے۔ صائب الرائے تھے۔ خدمت کا رنگ گو کہ خاموش تھا اور بے نفس تھا لیکن تیس سال سے زائد عرصہ وقف جدید نے ان سے بہت فائدہ حاصل کیا۔ آخری چند سالوں میں بعض اوقات صحت خراب ہو جاتی، بچے بیرون ملک تھے اگر کبھی کبھار کسی نے اظہار کر دیا کہ کسی بچے کے پاس چلے جائیں تو بہت جذباتی ہو کر جواب دیتے تھے کہ میں نے زندگی وقف کی ہے اور آخری وقت تک خدمت کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں توفیق بھی دی کہ اس عہد کو انہوں نے آخر وقت تک نبھایا۔
نظامت مال میں مبشر احمد صاحب مربی سلسلہ ہیں کہتے ہیں کہ 2013ء میں وقفِ جدید میں مال کے شعبےمیں میرا تقرر ہوا۔ عبدالحمید خان صاحب نے بنیادی دو نصائح کیں کہ ان دونوں کو اپنی کاپی میں نوٹ کر لو۔ پہلی یہ کہ تمام برکتوں کا منبع خلافت ہے۔ ہر صورت ہر حالت میں خلافت سے وفا کرنی ہے۔ دوسری یہ کہ کام میں سستی اگر ہو جائے تو وہ تو صرفِ نظر ہو جاتی ہے مگر غلط بیانی اور جھوٹ کی کوئی معافی نہیں ہوتی۔ کبھی غلط بیانی نہیں کرنی اور جھوٹ نہیں بولنا۔ کہا یہ دو اصول پلے باندھ لو۔ اور یہ تو خاص ہے ہی ہے۔ ہمارا ہر ایک کا اس پہ ایمان اور یقین کہ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ مدد مانگتے رہنا اور دعا کرتے رہنا۔ بہرحال کہتے ہیں کہ دورہ جات کے دوران میں ان کے ساتھ رہا۔ بار بار یہی تاکید کرتے کہ تحریک کرتے ہوئے اس فرد کو وقف جدید کی اہمیت اور ضرورت سے اس قدر آگاہ کرنا چاہئے کہ اسے قربانی کرنے میں کوئی انقباض نہ رہے۔ صرف پیسے نہیں مانگنے بلکہ چندے کی اہمیت اس کے دل میں ڈالنی ہے۔ جماعت کا درد اس میں پیدا کرنا ہے اور پھر اس سے اس کی حیثیت کے مطابق مانگنا ہے اور پھر کوئی شرم محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارا کام سلسلے کی خدمت کرنا اور سلسلے کیلئے مدد لینا ہے۔ جماعتی املاک کا خیال رکھتے۔ تاکید کرتے کہ چندے احبابِ جماعت کی قربانیوں کے نتیجے میں اکٹھے ہوتے ہیں ان کو چندوں کو خرچ کرنے میں، اخراجات کرنے میں ہمیں اسراف سے کام نہیں لینا چاہئے۔ جو ضرورت ہے وہ ضرور لیں مگر ضرورت سے زائد خرچ نہ کریں۔ کہتے تھے میں نے اپنے بیٹے کو بھی کہا ہوا ہے کہ جب تک تم جماعت کے وفادار ہو تم میرے بیٹے ہو۔ باقی میرا تم سے کوئی تعلق یا مطالبہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ ان کی نیکیاں بھی ان کی اولاد میں جاری رکھے۔
اگلا جو ذکر ہے اور جو جنازہ ہو گا وہ نصرت جہاں احمد صاحبہ اہلیہ مکرم مبشر احمد صاحب کاہے جو امریکہ میں مربی سلسلہ ہیں ۔ گذشتہ دنوں ان کی بھی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحومہ اپنے خاوند مکرم مبشر احمد صاحب اور تین بچوں کے ہمراہ 1972ء میں امریکہ منتقل ہو گئیں۔ واشنگٹن میں سکونت اختیار کی۔ 1988ء میں امریکہ میں ان کے خاوند نے وقفِ زندگی کرنے کی توفیق پائی اور مرحومہ نے تمام عمر بہت سادگی اور شکر گزاری کے ساتھ بسر کی۔ ان کے خاوند مبشر صاحب نے جب وقف کیا ہے تو اس وقت سے یہ مربی کے کام سرانجام دے رہے ہیں۔ بہت سادگی اور شکرگزاری کے ساتھ انہوں نے ان کے ساتھ زندگی گزاری۔ مرحومہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ باقاعدہ چندوں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لینے والی، خلافت کے ساتھ بہت عشق کا تعلق تھا، 1977ء سے 2007ء تک لجنہ اماء اللہ میں مختلف حیثیت سے خدمت کی توفیق ملی۔ لوکل نائب صدر، لوکل صدر، ریجنل صدر وغیرہ رہیں۔ اسلام احمدیت کے پھیلانے کیلئے بہت محنت اور لگن سے تبلیغی پروگرام ترتیب دیے۔ لجنہ اور ناصرات کی تعلیم و تربیت کیلئے بھی مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا۔ اپنے بچوں کی بھی دینی رنگ میں بہتر تربیت کی۔ اسی طرح دنیاوی تعلیم کی طرف بھی توجہ دلوائی۔ پسماندگان میں میاں کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ مرحومہ کے چاروں بچے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے فعال ممبر ہیں۔ خدمت دین کی توفیق بھی پا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی دعاؤں اور نیکیوں کا وارث بنائے۔
…٭…٭…٭…