اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-07-27

جنگِ بدر میں وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات اور شہدائے بدر کا تذکرہ
نیز کتب احادیث وارشادات حضرت مسیح موعودؑ و خلفائے کرام کی روشنی میں بدر کے موقع پر نزولِ ملائکہ پر سیر حاصل گفتگو

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

فرمودہ 7؍جولائی2023ء بمطابق 7؍وفا1402ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)یو.کے

خطبہ جمعہ
نبی اکرمﷺ خیمے سے نکلے اور آپؐیہ پڑھ رہے تھے کہ
سَیُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ اَدْهٰى وَ اَمَرُّ
کہ عنقریب یہ سب کے سب شکست کھا جائیں گے اور پیٹھ پھیر دیں گے اور یہی وہ گھڑی ہے جس سے ڈرائے گئے تھے اور یہ گھڑی نہایت سخت اور نہایت تلخ ہے

ہر امّت کا فرعون ہوتا ہے، اس امّت کا فرعون ابوجہل ہے
اللہ تعالیٰ نے اسے بری طرح قتل کیا،عفراء کے دونوں بیٹوں اور ملائکہ نے اسے قتل کیا اور عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا کام تمام کیا

جنگِ بدر میں وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات اور شہدائے بدر کا تذکرہ
نیز کتب احادیث وارشادات حضرت مسیح موعودؑ و خلفائے کرام کی روشنی میں بدر کے موقع پر نزولِ ملائکہ پر سیر حاصل گفتگو

فلسطین کے مظلوم مسلمانوں، امّتِ مسلمہ، پاکستانی احمدیوں نیز دیگر اہم امور کیلئے دعاؤں کی تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 7؍جولائی2023ء بمطابق 7؍وفا1402ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)یو.کے

اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ-
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۝ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝ مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۝ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۝
اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۝ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَ۝


گذشتہ خطبہ میں کفارِ مکہ پر مسلمانوں کے رعب کا ذکر کرتے ہوئے ابوجہل اور عتبہ کے جنگ کرنے کے بارے میں اختلاف کا ذکر ہوا تھا اور پھر ابوجہل کے طعنے کی وجہ سے عتبہ نے جنگ کا اعلان بھی کیا اور یوں باقاعدہ جنگ شروع ہوئی۔
اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ عُتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عتبہ کے درمیان چلتا ہوا نکلا اور صفوں سے آگے نکل کر مبارزت طلب کی۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، صفحہ 426، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ عتبہ بن ربیعہ آگے بڑھا اور اسکے پیچھے اس کا بیٹا اور اس کا بھائی آیا اور اس نے پکارا کہ کون اس سے مبارزت کرے گا، مقابلے پہ آئے گا؟ تو انصار کے کچھ نوجوانوں نے اس کو جواب دیا۔ اس نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ عتبہ نے ان انصار سے پوچھا کون ہو تم؟ انہوں نے اسے بتایا کہ ہم کون ہیں۔ پھر اس نے کہا کہ ہمارا تم سے کوئی سروکار نہیں۔ عتبہ نے ان کو یہ جواب دیا۔ ہمارا ارادہ تو صرف اپنے چچا کے بیٹوں سے لڑنے کا ہے۔ قریش سے، مکے والوں سے ہم نے لڑائی کرنی ہے، انصار سے نہیں۔ اور ساتھ ہی بلند آواز میں پکار کر کہا۔ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمارے رشتے داروںمیں سے ہمارے برابر کے لوگوں کو ہمارے مقابلے پہ بھیجو۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اٹھو اے حمزہ! اٹھو اے علی! اٹھو اے عُبَیدہ بن حارث! حضرت حمزہؓآپؐ کے چچا تھے اور علی چچا زاد ہیں جبکہ عبیدہ رشتے میں چچا بنتے ہیں۔ حمزہؓ عتبہ کی طرف بڑھے اور حضرت علیؓکہتے ہیں میں شیبہ کی طرف بڑھا اور عبیدہؓ اور ولید میں دو جھڑپوں کا تبادلہ ہوا اور دونوں میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے کو زخمی کر کے کمزور کر دیا۔ پھر ہم ولید کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کو مارڈالا اور عبیدہؓ کو ہم اٹھا کر لائے۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد، باب فی المبارزۃ، حدیث نمبر 2665)(اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد دوم، صفحہ 48، مکتبہ دار السلام ریاض 1433ھ)
ان دونوں نے، حمزہ ؓاور حضرت علی ؓنے تو اپنے دشمنوں کو مار دیا۔ جب حضرت حمزہ ؓاور حضرت علیؓ اپنے ساتھی حضرت عُبیدہ بن حارثؓ کو اپنی فوج میں اٹھا لائے تو ان کا پاؤں کٹ چکا تھا۔ جب ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا مَیں شہید نہیں ہوں؟ آپؐنے فرمایا بیشک تم شہید ہو۔(تاریخ الطبری، جلد2 ،صفحہ 32، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2012ء) حضرت عبیدہؓ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد تھے ان زخموں سے جانبر نہ ہو سکے اور بدر سے واپسی پر راستے میں انتقال کیا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم .اے، صفحہ360)
حضرت عُبَیدہ بن حارثؓ کے بارے میں ایک روایت میں مذکور ہے کہ جب ان کا پاؤں تلوار سے کٹ گیا تو ان کے ساتھی انہیں اٹھا کر واپس لے آئے۔ جب ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب لٹا دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قدم مبارک ان کے نیچے رکھ دیا۔ یعنی اپناپاؤں ان کے سریارخسارکے نیچے رکھ دیا۔ اور عُبیدہ نے بڑی محبت سے آپؐکی طرف دیکھتے ہوئے عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر آج ابوطالب زندہ ہوتے تو جان لیتے کہ میں ان کے قول کا زیادہ حقدار ہوں۔ پھر حضرت ابوطالب کے شعر پڑھے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ بیت اللہ کی قسم! تم نے جھوٹ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا جائے گا۔ ابھی تو ہم نے آپؐکے دفاع کیلئے نہ نیزہ بازی کی ہے اور نہ ہی تیراندازی اور تم نے جھوٹ کہا ہے کہ ہم ان کو تمہارے حوالے کر دیں گے جب تک ہماری لاشیں ان کے گرد نہ پڑی ہوں اور ہم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں سے غافل نہ ہو جائیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَیں گواہی دیتا ہوں کہ تم شہید ہو۔ (سبل الہدیٰ والرشاد، جلد4، صفحہ 35-36 ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)(اسد الغابہ، جلد 3، صفحہ 548، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
اس موقعےپر ابوجہل نے ایک دعا کی تھی۔
اس کا ذکر یوں ملتا ہے کہ جب دونوں لشکر آپس میں مل گئے یعنی شدید لڑائی ہونے لگی تو ابوجہل نے دعا کی کہ اے خدا! ہم میں سے جو شخص قریبی رشتہ داریوں کو توڑتا ہے اور ایسی باتیں بیان کرتا ہے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں سنیں تو آج اسے ہلاک کر۔ (ماخوذ از سیرت ابن ہشام، صفحہ 428، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’بدر کی لڑائی کے وقت میں ایک شخص مُسَمّٰی عمرو بن ہشام نے جس کا نام پیچھے سے ابوجہل مشہور ہوا جو کفار قریش کا سردار اور سرغنہ تھا ان الفاظ سے دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ مَنْ کَانَ مِنَّا اَفْسَدَ فِی الْقَوْمِ وَاَقْطَعَ لِلرَّحْمِ فَاَحِنْہُ الْیَوْمَ یعنی اَے خدا! جو شخص ہم دونوں میں سے (اس لفظ سے مراد اپنے نفس اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لیاتھا) تیری نگہ میں ایک مفسد آدمی ہے اور قوم میں پھوٹ ڈال رہا ہے اور باہمی تعلقات اور حقوق قومی کو کاٹ کر قطع رحم کا موجب ہو رہا ہے آج اس کو تو ہلاک کردے اور ان کلمات سے ابوجہل کا یہ منشاء تھا کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مفسد آدمی ہیں اور قوم میں پھوٹ ڈال کر ناحق قریش کے مذہب میں ایک تفرقہ پیدا کر رہے ہیں اور نیز انہوں نے تمام حقوق قومی تلف کر دئیے ہیں اور قطع رحم کا موجب ہوگئے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ ابوجہل کو یہی یقین تھا کہ گویا نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پوتر اور پاک نہیں ہے۔ تبھی تو اس نے دردِ دل سے دعا کی لیکن اس دعا کے بعد شاید ایک گھنٹہ بھی زندہ نہ رہ سکا اور خدا کے قہر نے اسی مقام میں اس کا سرکاٹ کر پھینک دیا اور جن کی پاک زندگی پر وہ داغ لگاتا تھا وہ اس میدان سے فتح اور نصرت کے ساتھ واپس آئے۔‘‘(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن، جلد 23،صفحہ174-175)
جنگ کی حالت کا نقشہ ایک جگہ اس طرح کھینچا گیا ہے کہ’’میدان کارزار میں کشت و خون کا میدان گرم تھا۔ مسلمانوں کے سامنے ان سے سہ چند جماعت‘‘ یعنی تین گنا جماعت’’تھی جو ہر قسم کے سامان حرب سے آراستہ ہو کر اس عزم کے ساتھ میدان میں نکلی تھی کہ اسلام کا نام و نشان مٹا دیا جاوے اور مسلمان بیچارے تعداد میں تھوڑے، سامان میں تھوڑے، غربت اور بے وطنی کے صدمات کے مارے ہوئے ظاہری اسباب کے لحاظ سے اہل مکہ کے سامنے چند منٹوں کا شکار تھے مگر توحید اور رسالت کی محبت نے انہیں متوالا بنا رکھا تھا اور اس چیز نے جس سے زیادہ طاقتور دنیا میں کوئی چیز نہیں یعنی زندہ ایمان نے ان کے اندر ایک فوق العادت طاقت بھر دی تھی۔ وہ اس وقت میدان جنگ میں خدمت دین کا وہ نمونہ دکھا رہے تھے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہر اک شخص دوسرے سے بڑھ کر قدم مارتا تھا اور خدا کی راہ میں جان دینے کیلئے بے قرار نظر آتا تھا۔ حمزہؓ اور علیؓ اور زبیرؓ نے دشمن کی صفوں کی صفیں کاٹ کر رکھ دیں۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ 362)
مسلمانوں کے پہلے شہید کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓکے آزاد کردہ غلام حضرت مِھْجَعْؓ کو ایک تیر کا ہدف بنایا گیا جس سے وہ شہید ہو گئے۔ یہ مسلمانوں کے پہلے شخص تھے جنہوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ اسکے بعد بنی عدی بن نَجَّار کے قبیلہ کے ایک شخص حضرت حَارِثہ بن سُراقہ ؓ نے شہادت حاصل کی۔ آپؓ حوض سے پانی پی رہے تھے کہ آپ کی طرف ایک تیر پھینکا گیا جو آپ کی گردن میں پیوست ہو گیا۔ اسی طرح آپؓدرجہ شہادت پر فائز ہو گئے۔ (ماخوذ از سیرت ابن ہشام، صفحہ 428، دار الکتب العلمیۃ بیروت2001ء)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حَارِثہ رضی اللہ عنہ بن سُراقہ بن حارِث جنگ بدر میں شہید ہوئے اور وہ ابھی نوجوان لڑکے تھے۔ ان کی ماں رُبَیّع بنتِ نَضْر حضرت انسؓ کی پھوپھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں۔ کہنے لگیں یا رسول اللہؐ! آپؐجانتے ہی ہیں جو مقام حارثہ رضی اللہ عنہ کا میرے نزدیک تھا۔ سو اگر وہ جنت میں ہے تو مَیں صبر کروں اور ثواب کی امید رکھوں اور اگر کوئی اَور بات ہے تو آپؐ دیکھیں گے کہ میں کیا کچھ کرتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افسوس ہے۔ کیا تو دیوانی ہے؟ کیا جنت ایک ہی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنتیں تو بہت سی ہیں اور تمہارا بیٹا تو جنت الفردوس میں ہے۔
(صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب فضل من شھد بدرا، حدیث 3982)(طبقات الکبریٰ ،جلد 3 ،صفحہ 387 ،مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
اس جنگ میں صحابہؓ کا جوشِ جہاد جو دیکھنے میں آیا اس کے بارے میں لکھا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص آج کے دن صبر کے ساتھ ثواب سمجھ کر جنگ کرے گا اور پیٹھ پھیر کر نہ بھاگے گا خدا اس کو جنت میں داخل کرے گا۔ یہ سن کر عُمیر بن حُمَام نے جو بنی سلمہ میں سے تھے کہا۔ اس وقت ان کے ہاتھ میں چند کھجوریں بھی تھیں جو وہ کھا رہے تھے ۔ جب انہوں نے یہ سنا تو انہوں نے کہا کہ واہ! واہ! میرے اور جنت کے درمیان میں بس اتنا ہی وقفہ ہے کہ یہ لوگ مجھ کو قتل کر دیں اور پھر اپنی تلوار پکڑ کر اس قدر لڑے کہ شہید ہو گئے۔
عوف بن حارث ؓنے جو عفراء کے بیٹے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی کس بات سے خوش ہوتا ہے؟ فرمایا دشمن کو زرہ وغیرہ لباسِ حرب سے خالی ہو کر قتل کر نے سے۔ اس پر انہوں نے اپنی زرہ اتار کر پھینک دی اور بہت سے کافروں کو قتل کرنے کے بعد خود بھی شہید ہو گئے۔ (سیرۃابن ہشام، صفحہ428، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
ابوجہل کے قتل کے بارے میں بخاری میں جو روایت آتی ہے اس کے مطابق حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں جنگِ بدر کے دن ایک صف میں کھڑا تھا۔ مَیں نے نگاہ پھیری تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے دائیں اور بائیں دو نوعمر نوجوان لڑکے ہیں جیسے ان کی اس موجودگی پر میں اپنے آپ کو امن میں نہیں سمجھتا تھا۔ انہوں نے کہا یہ نوجوان لڑکے یا بچے انہوں نے میری کیا حفاظت کرنی ہے۔ کہتے ہیں مَیں امن میں نہیں سمجھتا تھا۔ اتنے میں ان میں سے ایک نے چپکے سے جس کی خبر اس کے ساتھی کو نہ ہوئی مجھے پوچھا۔ چچا! مجھے ابوجہل تو دکھا دو۔ مَیں نے کہا میرے بھتیجے تجھے اس سے کیا کام؟ وہ کہنے لگا مَیں نے اللہ سے یہ عہد کیا ہے کہ اگر میں اس کودیکھ پاؤں تو اسے مار ڈالوں گا یا اس کے سامنے خود مارا جاؤں گا۔ پھر دوسرے نوجوان نے چپکے سے جس کی خبر اس کے ساتھی کو نہ ہوئی مجھ سے ایسے ہی پوچھا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ کہتے تھے کہ مجھے کبھی اتنی خوشی نہ ہوتی اگر مَیں ان کی جگہ دو مردوں کے درمیان ہوتا۔ ان کے اس جذبے کے باوجود بھی ان کو تسلی نہیں ہوئی پھر بھی چاہتے تھے کہ دو مضبوط آدمی میرے دائیں بائیں ہوتے۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے ان دونوں کو ابوجہل کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ وہ ہے۔ یہ سنتے ہی وہ دونوں شکروں کی طرح اس پر جھپٹے اور اس کو مار ڈالا اور وہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے معاذ اور معوذ۔(صحیح البخاری، کتاب المغازی، حدیث 3988)(عمدۃ القاری، جلد السابع عشر ،صفحہ 132، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت معاذؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے لوگوں کو باتیں کرتے سنا کہ ابوالحکم تک کسی کی رسائی نہ ہوسکے گی۔ چنانچہ مَیں نے ارادہ کر لیا کہ ضرور اس پر حملہ کروں گا اور مَیں اس پر جھپٹ پڑا اور تلوار کی ایک ضرب سے اس کا پاؤں ساق تک کاٹ دیا۔ اسکے بیٹے عکرمہ نے میرے کندھے پر وار کیا اور میرا ہاتھ اڑا دیا۔ صرف جلد کے سہارے وہ میرے پہلو میں اٹکا رہا۔ تمام دن میں اسی طرح لڑتا رہا جب تکلیف زیادہ ہوئی تو مَیں نے اس پر پاؤں رکھ کر جسم سے علیحدہ کر دیا۔ (ماخوذ از تاریخ طبری، جلد2 ،صفحہ 36، دارالکتب العلمیۃ بیروت،2012ء)
جنگ کے اختتام پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مقتولین کے درمیان کھڑے ہوئے اور ابوجہل کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ آپؐنے اس کو نہ پایا تو یہ دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ لَا تُعْجِزْنِیْ فِرْعَوْنَ ہٰذِہِ الْاُمَّةِ اَے اللہ! تو مجھے اس امّت کے فرعون کے مقابلے پر عاجز نہ کر دینا۔ کہیں بچ کے نہ چلا جائے۔ پھر لوگوں نے اس کی تلاش شروع کی تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اسے ڈھونڈ لیا۔(السیرۃ الحلبیہ، باب ذکر مغازیہ ،جلد 2 ،صفحہ 236،دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی دعا مانگی کہ اے خدا !ایسا نہ ہو کہ وہ تیری گرفت سے نکل جائے۔ (تاریخ الطبری، جلد2 ،صفحہ 36، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کی لاش کو تلاش کرنے کا حکم دیا تو عبداللہ بن مسعودؓ مقتولوں میں تلاش کرتے ہوئے اس کے پاس آئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر تم کو اس کا پتہ نہ چلے تو اس طرح اس کو پہچاننا کہ اسکے گھٹنے پر ایک زخم کا نشان ہے کیونکہ میں نے ابوجہل کو ایک مرتبہ عبداللہ بن جُدْعَان کے ہاں ایک دعوت کے موقع پر زور کا دھکا دیا کہ وہ گھٹنوں کے بل گرا اور اس کے گھٹنے میں زخم ہو گیا۔ اس کا نشان اب تک اس کے گھٹنے میں موجود ہے۔ ابن مسعود کہتے ہیں کہ اسی نشان کے ساتھ مَیں نے اس کو پہچانا اور کچھ رمق زندگی کی ابھی اس میں باقی تھی۔ مَیں نے اس کی گردن پر پاؤں رکھ دیا کیونکہ مکہ میں اس نے مجھ کو بہت تکلیف پہنچائی تھی۔ مَیں نے کہا اے دشمن خدا !تُو نے دیکھا کہ خدا نے تجھ کو کیسا ذلیل کیا!
کہنے لگا مجھ کو کس بات نے ذلیل کیا ہے؟ ایک شخص کو تم نے مار ڈالا ۔کیا ہوا؟کیا تم نے آج تک کسی ایسے آدمی کو قتل کیا ہے جو مجھ سے زیادہ معزز اور صاحبِ رتبہ ہو؟ اچھا یہ بتاؤ کہ فتح کس کی ہوئی؟ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے تھے کہ ابوجہل نے مجھ سے اپنے آخری وقت میں جبکہ مَیں نے اس کی گردن پر قدم رکھا کہا تھا کہ اے بکریوں کے چرانے والے ذلیل چرواہے! تو ایسی جگہ پر چڑھ گیا ہے جہاں تجھے نہیں چڑھنا چاہیے تھا۔ عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ پھر مَیں نے اس کا سر کاٹ لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لا کر آپؐکے پاؤں میں ڈال دیا اور عرض کیا یا رسول اللہؐ! یہ دشمنِ خدا ابوجہل کا سر ہے۔ حضورؐ نے خدا کا شکر ادا کیا اور فرمایا: اَللّٰہُ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ غَیْرُہٗ۔ اللہ ہی وہ ذات پاک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یہ ابن ہشام کی روایت ہے۔
(سیرت ابن ہشام، صفحہ 433، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)(شرح زرقانی، جلد دوم، صفحہ 297، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)(سیرت ابن ہشام مترجم ،جلد اوّل، صفحہ 447، مطبوعہ ادارہ اسلامیات)
اور ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جب ابوجہل کو قتل کر دیا تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوجہل کے قتل کے بارے میں بتایا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ پیدل تشریف لے گئے اور فرمایا اللہ کی قسم! جسکے ساتھ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ مَیں نے بھی عرض کیا اللہ کی قسم! جسکے ساتھ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابوجہل کی لاش کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ اے اللہ کے دشمن! ہر قسم کی تعریف اللہ کیلئے ہے جس نے تجھے رسوا کیا۔ (مسندالامام احمد بن حنبل، جلد دوم، صفحہ165 ،روایت نمبر 4246،عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت قتادہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر امّت کا فرعون ہوتا ہے۔ اس امّت کا فرعون ابوجہل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بری طرح قتل کیا۔ عفراء کے دونوں بیٹوں اور ملائکہ نے اسے قتل کیا اور عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا کام تمام کیا۔(سبل الھدیٰ والرشاد، جلد4 ،صفحہ52، دار الکتب العلمیۃ بیروت، 1993ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’ابو جہل کو فرعون کہا گیا ہے۔مگر میرے نزدیک وہ تو فرعون سے بڑھ کر ہے۔ فرعون نے تو آخر کہا اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْ اِسْرَاءِیْل (یونس: 91)‘‘ کہ مَیں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں مگر وہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں۔’’مگر یہ آخر تک ایمان نہ لایا۔ مکہ میں سارا فساد اسی کا تھا اور بڑا متکبر اور خود پسند،عظمت اور شرف کو چاہنے والا تھا۔‘‘(ملفوظات، جلد چہارم، صفحہ 247، ایڈیشن 1984ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسٰی کی طرح اپنی قوم کے راستبازوں کو درندوں اور خونیوں سے نجات دی اور موسیٰ کی طرح ان کو مکہ سے مدینہ کی طرف کھینچ لایا اور ابوجہل کو جو اس امّت کا فرعون تھا بدر کے میدان جنگ میں ہلاک کیا۔‘‘(تریاق القلوب، روحانی خزائن، جلد 15، صفحہ 523)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’بدر کے موقع پر کفار مکہ جب آئے۔ انہوں نے سمجھا کہ بس اب ہم نے مسلمانوں کو مار لیا اور ابوجہل نے کہا ہم عید منائیں گے اور خوب شرابیں اڑائیں گے اور سمجھا کہ بس اب مسلمانوں کو مار کے ہی پیچھے ہٹیں گے۔ لیکن اسی ابوجہل کو مدینہ کے دو لڑکوں نے (کفار مکہ مدینہ والوں کو نہایت ذلیل خیال کرتے تھے اور ان کو ارائیں کہا کرتے تھے) قتل کر دیا۔‘‘ یعنی صرف سبزیاں اگانے والے، کاشت کاری کرنے والے۔ ان کو جنگ کا کیا پتہ؟ بہرحال ان لڑکوں نے قتل کر دیا’’اور اسے ایسی حسرت دیکھنی نصیب ہوئی کہ اس کی آخری خواہش بھی پوری نہ ہو سکی۔ (عرب میں رواج تھا کہ جو سردار ہوتا وہ اگر لڑائی میں مارا جاتا تو اسکی گردن لمبی کر کے کاٹتے تا کہ پہچانا جاوے کہ یہ کوئی سردار تھا) عبداللہ بن مسعودؓ نے اسے دیکھا (جب یہ بے حس و حرکت زخمی پڑا تھا) اور پوچھا کہ تمہاری کیا حالت ہے؟ اس نے کہا مجھے اور تو کوئی افسوس نہیں۔ صرف یہ ہے کہ مجھے مدینہ کے دو ارائیں بچوں نے مار دیا۔ عبداللہؓ نے دریافت کیا کہ تمہاری کوئی خواہش ہے؟ اس نے کہا کہ اب میری یہ خواہش ہے کہ میری گردن ذرا لمبی کر کے کاٹ دو۔ انہوں نے کہا میں تیری یہ خواہش بھی پوری نہ ہونے دوں گا اور اس کی گردن کو ٹھوڑی کے پاس سے سختی سے کاٹ دیا اور وہ جو عید منانی چاہتا تھا وہی اس کیلئے ماتم ہو گیا اور وہ شراب جو اس نے پی تھی اسے ہضم ہونی بھی نصیب نہ ہوئی۔‘‘ (خطبات محمود، جلد 1،صفحہ 11)
مشرکین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کنکریاں پھینکے جانے کے واقعہ کے بارے میں اس طرح لکھا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خیمے میں دعا کر رہے تھے تو حضرت ابوبکرؓ نے آپؐکا ہاتھ پکڑ لیا۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ! بس کیجیے۔ آپؐنے اپنے رب سے دعا مانگنے میں بہت اصرار کر لیا ہے اور آپؐزرہ پہنے ہوئے تھے۔
آپؐخیمے سے نکلے اور آپؐیہ پڑھ رہے تھے کہ سَیُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُ هُمْ وَالسَّاعَةُ اَدْهٰى وَ اَمَرُّ (القمر:46-47) عنقریب یہ سب کے سب شکست کھا جائیں گے اور پیٹھ پھیر دیں گے اور یہی وہ گھڑی ہے جس سے ڈرائے گئے تھے اور یہ گھڑی نہایت سخت اور نہایت تلخ ہے۔(صحیح بخاری، کتاب الجہاد و السیر، باب ما قیل فی درع النبیﷺ و القمیص فی الحرب، حدیث2915 )
اسکی تفصیل میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓنے سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ’’غرض کیا مہاجر اورکیا انصار سب مسلمان پورے زوروشور اور اخلاص کے ساتھ لڑے۔ مگر دشمن کی کثرت اوراسکے سامان کی زیادتی کچھ پیش نہ جانے دیتی تھی اورنتیجہ ایک عرصہ تک مشتبہ رہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم برابر دعا و ابتہال میں مصروف تھے اورآپؐکا اضطراب لحظہ بلحظہ بڑھتا جاتا تھا مگر آخر ایک کافی لمبے عرصہ کے بعد آپؐسجدہ سے اٹھے اور خدائی بشارت سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ کہتے ہوئے سائبان سے باہر نکل آئے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ362-363)
امام رازیؒ سورۂ انفال کی آیت وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى(الانفال: 18) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب قریش نے چڑھائی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! یہ قریش قبیلہ اپنے گھوڑوں اور سامانِ فخر کے ساتھ اس حالت میں آیا کہ وہ تیرے رسول کو جھٹلا رہے ہیں اور تکذیب کر رہے ہیں۔
اے اللہ! مَیں تجھ سے وہ چیز طلب کرتا ہوں جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔
تو جبرئیل نازل ہوئے اور کہا یا رسول اللہ ؐ!مٹھی بھر مٹی لیں اور ان کفار کی طرف پھینک دیں۔ پھر جب دونوں لشکروں کی آپس میں مڈھ بھیڑ ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ وادی کے کنکروں سے بھری ہوئی مٹھی بھر مٹی پکڑاؤ جسے آپؐ نے ان کفار کے چہروں کی طرف پھینک دیا اورفرمایا شَاھَتِ الْوُجُوْہُیعنی چہرے مسخ ہو جائیں، تو مشرکین اپنی آنکھیں مسلنے لگے جس کے نتیجہ میں وہ شکست خوردہ ہو گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی۔ یعنی کنکروں سے بھری ہوئی مٹھی جسے آپؐ نے پھینکا فی الحقیقت آپؐنے اسے نہیں پھینکا تھا کیونکہ آپؐ کا پھینکنا اتنا ہی اثر انداز ہو سکتا ہے جتنا کہ ایک انسان کا پھینکنا اثر انداز ہوتا ہے بلکہ اللہ نے اسے پھینکا ہے جس کے نتیجے میں اس مٹی کے ذرّات ان کی آنکھوں تک پہنچ گئے۔ تو یہ پھینکنے کی صورت تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوئی لیکن اس کا اثر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صادر ہوا۔(تفسیر الکبیر از امام رازی، جلد8،جزء15،صفحہ112،مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت،2004ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓاس میدان جنگ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سائبان سے’’باہر آ کر آپؐ نے چاروں طرف نظر دوڑائی توکشت وخون کا میدان گرم پایا۔ اس وقت آپؐنے ریت اورکنکر کی ایک مٹھی اٹھائی اوراسے کفار کی طرف پھینکا اورجوش کے ساتھ فرمایا۔ شَاھَتِ الْوُجُوْہُ ‘‘دشمنوں کے منہ بگڑ جائیں’’ اورساتھ ہی آپؐنے مسلمانوں سے پکار کر فرمایا یکدم حملہ کرو۔ مسلمانوں کے کانوں میں اپنے محبوب آقا ؐکی آواز پہنچی اور انہوں نے تکبیر کا نعرہ لگا کر یکدم حملہ کر دیا۔ دوسری طرف ادھر آپؐکا مٹھی بھر کر ریت پھینکنا تھا کہ ایسی آندھی کا جھونکا آیا کہ کفار کی آنکھیں اورمنہ اورناک ریت اورکنکر سے بھرنے شروع ہو گئے۔ آپؐ نے فرمایا یہ خدائی فرشتوں کی فوج ہے جو ہماری نصرت کوآئی ہے اورروایتوں میں مذکور ہے کہ اس وقت بعض لوگوں کویہ فرشتے نظر بھی آئے۔ بہرحال عتبہ، شیبہ اورابوجہل جیسے رؤسائے قریش توخاک میں مل ہی چکے تھے۔ مسلمانوں کے اس فوری دھاوے اور آندھی کے اچانک جھونکے کے نتیجہ میں قریش کے پاؤں اکھڑنے شروع ہو گئے اور جلد ہی کفار کے لشکر میں بھاگڑ پڑ گئی اور تھوڑی دیر میں میدان صاف تھا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ363)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’اس درجہ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الٰہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جیسے ہمارے سید و مولیٰ سید الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اس کا اثر پڑا کہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو اور وہ سب اندھوں کی طرح ہوگئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی ان میں پیدا ہو گئی کہ مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کیا۔ اِسی معجزہ کی طرف اللّٰہ جل شانہٗ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے … یعنی جب تونے اس مٹھی کو پھینکا وہ تونے نہیں پھینکا بلکہ خدا تعالیٰ نے پھینکا۔ یعنی درپردہ الٰہی طاقت کام کر گئی۔ انسانی طاقت کا یہ کام نہ تھا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن ،جلد5،صفحہ 65)
بہرحال تھوڑی دیر بعد مشرکین میں ناکامی اور اضطراب کے آثار نمودار ہو گئے۔ ان کی صفیں مسلمانوں کے تابڑ توڑ حملوں سے درہم برہم ہو گئیں۔ ان میں بھگدڑ مچ گئی۔ مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور ان کو شکست فاش دی۔
حضرت سعدؓ کا کفار کے خلاف شدید جذبہ کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ آخر کار جب دشمن نے شکست کھا کر ہتھیار پھینک دیے اور صحابہؓ ان کو گرفتار کرنے لگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت سعدؓ کے چہرے پر اس منظر سے ناگواری کے آثار ہیں یعنی مسلمانوں کے اس عمل کو وہ ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ سے فرمایا اے سعد! ایسا لگتا ہے کہ تم قوم کی اس حرکت کو یعنی مشرکوں کو گرفتار کرنے کو ناپسند کر رہے ہو۔ انہوں نے عرض کیا بیشک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مشرکوں کے ساتھ ہماری یہ پہلی اور کامیاب جنگ ہے۔ لہٰذا اس میں میرے نزدیک مشرکوں کو زندہ رکھنے کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ قتل کر دینا بہتر ہے۔(السیرۃ الحلبیہ، جلد2 ،صفحہ230،دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)کہتے ہیں مَیں قید کرنے کو ناپسند کر رہا ہوں۔ مَیں تو یہ چاہتا ہوں کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے۔
جنگ بدر میں فرشتوں کا نزول اس کے بارے میں لکھا ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّیْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰئِكَةِ مُرْدِفِیْنَ (الانفال:10) جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اس نے تمہاری التجا کو قبول کر لیا اس وعدے کے ساتھ کہ میں ضرور ایک ہزار قطار در قطار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔
غزوۂ بدر میں نزولِ ملائکہ کی تصدیق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے روز فرمایا یہ جبرئیل ہیں۔ انہوں نے اپنے گھوڑے کی لگام کو پکڑا ہوا ہے اور جنگی آلات سے آراستہ ہیں۔ سیرت ابنِ ہشام میں متعدد صحابہ کی روایات بدر کے دن فرشتوں کے نزول پر دلالت کرتی تھیں۔(ماخوذ از دائرہ معارفِ سیرت محمد رسول اللہﷺ ،جلد 6،صفحہ 214، بزم اقبال لاہور، اپریل 2022ء)
صحابہؓ کی ان کے بارے میں بہت ساری روایات ہیں ۔ حضرت جبرئیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں میں اہلِ بدر کو کیا مقام دیتے ہیں؟ آپؐنے فرمایا بہترین مسلمان یا ایسا ہی کوئی کلمہ فرمایا۔ جبرئیل نے کہا اور اسی طرح وہ ملائکہ بھی افضل ہیں جو جنگِ بدر میں شریک ہوئے۔(صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب شھود الملائکٰۃ بدرًا، حدیث 3992)
ایک سیرت نگار نے یہ بھی روایت لکھی ہے کہ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ مجھ سے بنی غفار کے ایک آدمی نے بیان کیا کہ میں اور میرا ایک چچازاد بھائی ہم دونوں آئے اور ایک ایسے پہاڑ پر چڑھ گئے جہاں سے بدر کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ ہم مشرک تھے اور انتظار کر رہے تھے کہ جنگ میں آفت کس پر پڑتی ہے تاکہ ہم بھی لُوٹنے والوں کے ساتھ لوٹ میں شریک ہو جائیں۔ چنانچہ اسی اثنا میں کہ ہم پہاڑ پر تھے ایک بادل کا ٹکڑہ ہمارے قریب ہوا۔ہم نے اس میں گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز سنی۔ مَیں نےایک کہنے والے کو یہ کہتے ہوئے سنا۔ حَیْزُوم آگے بڑھو۔ میرے چچازاد بھائی کے تو دل کا پردہ پھٹ گیا اور وہ یہ آواز سن کے اسی جگہ مر گیا اور رہا میں تو میں بھی ہلاکت کے قریب ہو گیا تھا۔ پھر مَیں نے اپنے آپ پر قابو پا لیا۔(سیرت ابن ہشام، صفحہ431، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
سہیل بن عمرو جو اس وقت کافر تھے وہ کہتے ہیں کہ میں نے بدر کے دن چتکبرے گھوڑوں پر سفید لوگوں کو دیکھا۔ وہ آسمان اور زمین کے درمیان تھے اور قریشی افراد کو قتل کر رہے تھے اور قیدی بنا رہے تھے۔ غرض
بدر میں فرشتوں کو صرف مسلمانوں نے ہی نہیں دیکھا بلکہ کفار نے بھی دیکھا ہے۔(ماخوذ از دائرہ معارفِ سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد 6صفحہ 215 بزم اقبال لاہور، اپریل 2022ء)
ابواُسَید مالک بن رَبِیعہ جو غزوۂ بدر میں حاضر تھے ان کی روایت ہے کہ یہ واقعہ ان کی بینائی جاتے رہنے کے بعد کا ہے۔ جب انہوں نے واقعہ بتایا، اس وقت بتا رہے ہیں جب ان کی بینائی جاتی رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آج میں بدر میں ہوتا اور میری بینائی بھی ہوتی تومیں تم کو (جب یہ سنا رہے تھے اس وقت ان کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی تھی لیکن بدر کا واقعہ کے بارے میں ان کو بتا رہے ہیں کہ جب میری بینائی تھی اور بدر میں مَیں نے خود یہ دیکھا) اگر میری بینائی ہوتی تو میں تمہیں وہ گھاٹی بھی دکھاتا جس سے فرشتے نکلے۔ مجھے اس میں نہ کوئی شک ہے اور نہ شبہ۔ ابوداؤدمَازِنِیْ سے روایت ہے جو غزوۂ بدر میں حاضر تھے۔ انہوں نے کہا بیشک میں نے بدر کے روز ایک مشرک کا تعاقب کیا تا کہ اس پر وار کروں تو اچانک میں نے دیکھا کہ میری تلوار اس تک پہنچنے سے پہلے اس کا سر کٹ کر گر پڑا۔ میں نے جان لیا کہ اسے میرے سوا کسی اَور نے قتل کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ بدر کے دن فرشتوں کی علامت سفید عمامے تھے جن کے شملے انہوں نے اپنی پیٹھوں پر لٹکائے ہوئے تھے اور حُنَین کے روز سرخ عمامے ان کی علامت تھے۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ عمامے عربوں کے تاج ہیں اور بدر کے روز فرشتوں کی علامت سفید عمامے تھے جو انہوں نے اپنی پیٹھوں پر لٹکائے ہوئے تھے مگر حضرت جبرئیلؑ کے سر پر زرد عمامہ تھا۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ فرشتوں نے بدر کے سوا کسی اَور جنگ میں قتال نہیں کیا۔ وہ دوسری جنگوں میں تعداد اور مدد کو بڑھانے کیلئے شریک ہوتے تھے، کسی کو مارتے نہیں تھے۔(سیرت ابن ہشام، صفحہ431-432، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)سیرت ابن ہشام کی یہ روایت ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فرشتوں کا نزول محض مومنوں کیلئے بطور بشارت اور ان کے دلی اطمینان کیلئے تھا وگرنہ فرشتے جنگ میں عملاً شریک نہیں ہوئے۔ یہ تصور بھی بعض احادیث صحیحہ جو ہیں اس کے منافی ہے۔ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ فرشتے جنگ میں عملاً شریک ہوئے۔ البتہ یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ نصرت کیلئے تو ایک ہی فرشتہ کافی تھا تو ہزاروں فرشتے کیوں نازل ہوئے۔
امام ابنِ کثیر صحیحین میں موجود عرصہ جنگ میں فرشتوں کے نزول کی احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے فرشتوں کا نزول اور مسلمانوں کو اس کی اطلاع بطور خوشخبری تھی ورنہ اللہ اس کے بغیر بھی اپنے دشمنوں کے خلاف مسلمانوں کی مدد کر سکتا ہے۔ اس لیے اس نے فرمایا مدد صرف اللہ کی طرف سے ہے اور سورۂ محمد میں فرمایا اللہ چاہے تو خود ہی ان کافروں سے بدلہ لے لے لیکن وہ آزماتا ہے۔(ماخوذ از دائرہ معارفِ سیرت محمد رسول اللہﷺ ،جلد 6،صفحہ 218-219،بزم اقبال لاہور، اپریل 2022ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ’’جنگِ بدر میں خدا تعالیٰ نے بادلوں میں سے ہی اپنا چہرہ ظاہر کیا یعنی ابھی جنگ شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ بارش ہوئی جس سے کفار کو شدید نقصان اور مومنوں کو جنگی لحاظ سے عظیم الشان فائدہ پہنچا اور پھر مومنوں کی مدد اور کفار پر رعب طاری کرنے کیلئے ملائکہ بھی دلوں پر نازل ہوئے بلکہ جنگِ بدر میں کئی کفار نے ملائکہ کو اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا اور قُضِیَ الْاَمْرُ کے ماتحت عرب کے سردار چن چن کر مارے گئے۔‘‘ (تفسیر کبیر،جلد 2، صفحہ 458)
اسی طرح تفسیر صغیر میں سورۃ آل عمران کی آیت 127کے تحت تفسیری نوٹ میں لکھا ہے: ’’اس میں بتایا ہے کہ فرشتوں کا ذکر صرف اس لئے ہے کہ خواب یا کشف میں خوشخبری ملنے سے انسان کی ہمت بڑھتی ہے ورنہ اصل مراد یہی تھی کہ خدا تعالیٰ مدد کرے گا۔‘‘ (تفسیر صغیر، صفحہ 96، سورۃ آل عمران زیر آیت127)
بہرحال یہ ایک کشفی رنگ تھا جو ایک حقیقی حالت تھیلوگوں نے بھی دیکھا اور غیروں نے بھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں یہ آپؑکا جو بیان ہے کتاب التبلیغ، آئینہ کمالات اسلام میں ہے۔ اس میں عربی میں ذکر ہے تو عربی والے بعض دفعہ کہتے ہیں کہ آپ لمبے اقتباس پڑھتے ہیں تو ہمیں ترجمہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے میں کوشش کرتا ہوں کہ عربی بھی پڑھ دوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’وَ قَدْ جَرَتْ عَادَتُہٗ وَ سُنَّتُہٗ اَنَّہٗ یَخْتَارُ الْاِخْفَاءَ وَالْکَتْمَ فِیْ وَاقِعَاتٍ قَضَتْ حِکْمَتُہٗ اِخَفَاءَ ھَا وَ یَخْلُقُ الْاَھْوَاءَ فَتَحْشُرُ الْآرَاءُ اِلٰی جِھَاتٍ أُخْرٰی۔ وَ إِذَا أَرَادَ اِخْفَاءَ صُوْرَةِ نَفْسٍ وَاقِعَةٍ فَرُبَّمَا یَرٰی فِیْ تِلْکَ الْمَوَاضِعِ الْوَاقِعَةَ الْکَبِیْرَةَ صَغِیْرَةً مَھُوْنَةً ‘ وَالْوَاقِعَةَ الصَّغِیْرَةَ الْمَسْنُوْنَةَ کَبِیْرَةً نَادِرَةً وَالْوَاقِعَةَ الْمُبَشَّرَةَ مُخَوَّفَةً وَالْوَاقِعَةَ الْمُخَوَّفَةَ مُبَشَّرَةً۔ فَھٰذِہٖ أَرْبَعَةُ أَقْسَامٍ مِنَ الْوَاقِعَاتِ مِنْ سُنَنِ اللّٰہِ کَمَا مَضٰی۔ أَمَّا الْوَاقِعَةُ الْکَبِیْرَةُ الْعَظِیْمَةُ الَّتِیْ اَرَادَ اللّٰہُ اَنْ یُّرِیَھَا صَغِیْرَةً حَقِیْرَةً فَنَظِیْرُھَا فِی الْقُرْآنِ وَاقِعَةُ بَدْرٍ لِمَنْ یَتَدَبَّرُ وَ یَرٰی۔ فَاِنَّ اللّٰہَ قَلَّلَ اَعْدَاءَ الْاِسْلَامِ بِبِدْرٍ فِیْ مَنَامِ رَسُوْلِہٖ لِیُذْھِبَ الرَّوْعَ عَنْ قُلُوْبِ الْمُسْلِمِیْنَ وَ یَقْضِیَ مَا أَرَادَ مِنْ الْقَضَاءِ۔ وَ أَمَّا الْوَاقِعَةُ الَّتِیْ اَرَادَ اللّٰہُ اَنْ یُّرِیَھَا کَبِیْرَةً نَادِرَةً فَنَظِیْرُھَا فِی الْقُرْآنِ بِشَارَةُ مَدَدِ الْمَلَائِکَةِ کَیْ تَقَرَّ قُلُوْبُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ لَا تَأْخُذَھُمْ خِیَفَةٌ فِیْ ذَالِکَ الْمَأْوٰی۔ فَاِنَّہٗ تَعَالٰی وَعَدَ فِی الْقُرْآنِ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَبَشَّرَھُمْ بِأَنَّہٗ یُمِدُّھُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِکَةِ وَ مَا جَعَلَ ھٰذَا الْعَدَدَ الْکَثِیْرَ إِلَّا لَھُمْ بُشْرٰی۔ لِاَنَّ فَرْدًا مِنَ الْمَلَائِکَةِ یَقْدِرُ بِاِذْنِ رَبِّہٖ عَلٰی اَنْ یَّجْعَلَ عَالِی الْاَرْضِ سَافِلَھَا فَمَا کَانَ حَاجَةٌ اِلٰی خَمْسَةِ آلَافٍ بَلْ اِلٰی خَمْسَةٍ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ شَاءَ اَنْ یُّرِیَھُمْ نُصْرَةً عَظِیْمَةً فَاخْتَارَ لَفْظًا یَفْھَمُ مِنْ ظَاھِرِہٖ کَثْرَةُ الْمُمِدِّیْنَ وَ اَرَادَ مَا اَرَادَ مِنْ الْمَعْنِیْ۔ ثُمَّ نَبَّہَ الْمُؤْمِنِیْنَ بَعْدَ فَتْحِ بَدْرٍ اَنَّ عِدَّةَ الْمَلَائِکَةِ مَا کَانَتْ مَحْمُوْلَةٌ عَلٰی ظَاھِرِ اَلْفَاظِھَا بَلْ کَانَتْ مُؤَوَّلَةً بِتَأْوِیْلٍ یَعْلَمُہُ اللّٰہُ بِعِلْمِہِ الْأَرْفَعِ وَالْاَعْلٰی۔ وَ فَعَلَ کَذَالِکَ لِتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُھُمْ بِھٰذِہِ الْبُشْرٰی وَیَزِیْدَھُمْ حُسْنَ الظَّنِّ وَالرِّجَاءِ‘‘ (التبلیغ، روحانی خزائن، جلد 5، صفحہ 447تا 449)
اسکا ترجمہ یہ ہے کہ اسکی یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ عادت اور سنت ہمیشہ سے جاری ہے کہ وہ ان واقعات کو خفیہ اور پوشیدہ رکھتا ہے جن کی حکمت ان کا اخفا چاہتی ہے اور لوگوں کی خواہشات اور آرا اصل حقیقت کے برخلاف ہوتی ہیں۔ بعض اوقات اس بڑے واقعہ کو ایک چھوٹا اور معمولی واقعہ دکھاتا ہے اور چھوٹے واقعہ کو بڑا اور نادر واقعہ کے طور پر بیان کرتا ہے اور خوشخبری دینے والے واقعہ کو ڈرانے والا اور ڈرانے والے واقعہ کو خوشخبری دینے والا واقعہ دکھاتا ہے۔ یہ واقعات کی چار اقسام ہیں جو کہ اللہ کی سنت کے مطابق جاری و ساری ہیں۔ وہ عظیم اور بڑا واقعہ جسے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اسے چھوٹا اور حقیر کر کے دکھائے وہ واقعہ جنگ بدر کا ہے اس کے لئے جو چاہے کہ تدبر کرے اور آنکھیں کھولے۔ پس اللہ نے بدر کے موقع پر اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں دشمنان اسلام کو کم کر کے دکھایا۔ موقع پراپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دشمنان اسلام کو کم کر کے دکھلایا تا کہ مسلمانوں کے دلوں سے ان کا ڈر دور ہو جائے اور تا کہ اللہ جو ارادہ کرتا ہے وہ پورا ہو کر رہے اور وہ واقعہ جسے اللہ نے چاہا کہ بڑا اور نادر کر کے دکھائے تو اس کی نظیر قرآن میں فرشتوں کی مدد کی خوشخبری کا واقعہ ہے تا کہ مومنوں کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچے اور معرکے میں انہیں کوئی ڈر نہ ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مومنوں سے وعدہ کیا اور انہیں خوشخبری دی کہ وہ پانچ ہزار فرشتوں سے ان کی مدد کو آئے گا۔ اس عدد کو زیادہ کر کے اس لیے دکھایا تا کہ ان کیلئے خوشخبری ہو۔ حالانکہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہی یہ قدرت رکھتا ہے کہ وہ اپنے رب کے حکم سے زمین کو تہ و بالا کر دے۔ اس کیلئے پانچ ہزار کی نہیں بلکہ پانچ کی بھی ضرورت نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کو عظیم نصرت دکھائے تو اس نے وہ لفظ اختیار کیا جس سے امداد کرنے والے کی کثرت ظاہر ہوتی ہے اور یہی مراد لیا تھا۔ پھر اس نے فتح بدر کے بعد مومنوں کو خبر دی کہ فرشتوں کی تعداد ظاہری الفاظ پر محمول نہیں تھی بلکہ اس کی وہ تاویل تھی جو کہ اللہ بلند و برتر جانتا ہے اور اللہ نے ایسا اس لیے کیا تا کہ اس خوشخبری کے ذریعےان کے دلوں کو اطمینان ہو اور انہیں حسن ظن اور امید میں بڑھائے۔
مشرکین کی شکست کے بارے میں لکھا ہے کہ تھوڑی دیر بعد مشرکین کے لشکرمیں ناکامی اور اضطراب کے آثار ہو گئے جب کھلی جنگ شروع ہوئی تو آثار نمودار ہو گئے۔ ان کی صفیں مسلمانوں کے تابڑ توڑ حملوں سے درہم برہم ہونے لگیں۔ معرکہ اپنے انجام کے قریب جا پہنچا جیساکہ پہلے بھی ذکر ہوا۔ پھر مشرکین کے جتھے بے ترتیبی کے ساتھ پیچھے ہٹے اور ان میں بھگدڑ مچ گئی۔ مسلمانوں نے مارتے کاٹتے اور پکڑتے باندھتے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ ان کو بھر پور شکست ہو گئی۔ (الرحیق المختوم مترجم ،صفحہ 299، المکتبۃ السلفیۃ لاہور 2000ء)
پھر ایک جگہ لکھا ہے کہ یہ معرکہ مشرکین کی شکستِ فاش اور مسلمانوں کی فتحِ مبین پر ختم ہوا اور اس میں چودہ مسلمان شہید ہوئے۔ چھ مہاجرین میں سے اور آٹھ انصار میں سے لیکن مشرکین کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ ان کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر قید کیے گئے جو عموماً قائد اور سردار اور بڑے بڑے سربرآوردہ حضرات تھے۔(الرحیق المختوم مترجم ،صفحہ 306، المکتبۃ السلفیۃ لاہور 2000ء)
غزوۂ بدر میں شہید ہونے والے جو صحابہؓ تھے وہ یہ تھے۔
کل چودہ مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جیسا کہ ذکر ہوا ہے۔ ان میں سے چھ مہاجرین میں سے اور آٹھ انصار میں سے تھے۔ مہاجر جو تھے ان میں عُبَیدہ بن حَارِث بن مُطَّلِب، عُمَیر بن ابی وقاص، ذُوالشِّمَالَین یعنی عمیر بن عبد عمرو، عاقل بن بُکَیر، مِہْجَع مولیٰ عمر بن خطاب، صَفْوَان بن بَیْضَاء۔ اور انصار میں سے سعد بن خَیْثَمہ، مبشر بن عبدالمنذِر، یزید بن حارِث، عُمیر بن حُمَام، رافع بن مُعَلّٰی، حَارِثہ بن سُرَاقہ۔
مشرکین کے مقتولین جو تھے وہ ستر مشرکین تھے جو ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر قریش کے سردار تھے۔ چند اہم اور نامور مقتولین کے نام یہ ہیں۔ حنظلہ بن ابوسفیان، حارث بن حَضْرَمی، عامربن حضرمی، عبیدہ بن سعید بن عاص، عاص بن سعید بن عاص، عُقْبَہ بن ابی مُعَیط، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ بن ربیعہ، حارث بن عامر، ابوالبختری عاص بن ہِشام، نضر بن حارث، عاص بن ہِشام ، عاص بن ہشام کا نام دو دفعہ ہے یا دو شخص ہیں۔ ابوالعاص بن قیس، امیہ بن خَلَف، ابوجہل جس کا نام عَمرو بن ہشام تھا۔ ان میں سے اکثریت ان کی تھی جو مکےمیں مسلمانوں سمیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکالیف دیا کرتے تھے۔(سیرت ابن ہشام، صفحہ476 تا480، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)(کتاب المغازی للواقدی، جلد1 ،صفحہ145، عالم الکتب بیروت 1984ء) اس بارے میں باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گا۔
کچھ دعاؤں کی طرف بھی توجہ دلاناچاہتا ہوں۔
فلسطین کے مسلمانوں کیلئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کیلئے آسانیاں پیدا فرمائے۔ مظلوموں کی دادرسی فرمائے۔ ان کو ایسی لیڈرشپ یا راہنما عطا فرمائے جو ان کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ان کی صحیح راہنمائی کرنے والے ہوں اور انہیں ظلموں سے نکالنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ان کی اب بہت زیادہ مظلومیت کی حالت ہو چکی ہے اور لگتا ہے کوئی ان کو سنبھالنے والا نہیں۔ کوئی ان کو راہنمائی کرنے والا نہیں۔
مسلمان اگر ایک ہو جائیں تو ان مشکلات سے نکل سکتے ہیں۔
اسی طرح سویڈن میں اور بعض دوسرے ملکوں میں بھی جو آزادیٔ رائے اور مذہبی آزادی کے نام پر غلط کام کرنے والوں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے اور اس بہانے سے جو مسلمانوں کے جذبات سے کھیل کر آئے دن کچھ نہ کوئی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جو مسلمانوں کے جذبات کو تکلیف پہنچانے والی ہیں انتہائی کریہہ حرکتیں ہیں۔ قرآن کریم کی بے حرمتی ہے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا الفاظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ان کے پکڑ کے سامان فرمائے۔ اس میں بھی مسلمان حکومتوں کا قصور ہے جن میں پھوٹ کی وجہ سے اسلام مخالف طاقتیں اس قسم کی غلط حرکتیں کرتی ہیں۔ اگر کوئی ردّعمل ہو گا مسلمانوں کی طرف سے تو وہ بھی عارضی ہی ہو گا اور ایسا ہو گا جس کا کوئی اثر نہ ہو۔ پس مسلمان راہنماؤں اور امہ کیلئے بہت دعائیں کریں اس کی بہت ضرورت ہے۔
پھر فرانس میں جو حالات ہیں یہاں بھی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور جو مسلمانوں کا ردّعمل ہے وہ بھی غلط ہے یا دوسروں کا بھی ساتھ مل کے۔ توڑ پھوڑ سے تو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ مسلمانوں کو اپنے عمل اسلامی تعلیم کے مطابق کرنے ہوں گے۔ جب مسلمانوں کے قول و فعل اسلامی تعلیم کے مطابق ہوں گے تو تبھی کامیابیاں بھی ملیں گی۔ بہرحال ہم تو دعا کر سکتے ہیں۔
خاص طور پر مسلمان دنیا کیلئے اور عمومی طور پر تمام دنیا کیلئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ظلم سے محفوظ رکھے اور دنیا میں امن و امان کی صورتحال بھی پیدا ہو جائے۔ سب ایک دوسرے کا حق ادا کرنے کی اہمیت کو سمجھنے والے ہوں ورنہ دنیا جس طرف جا رہی ہے کئی دفعہ میں کہہ چکا ہوں بہت بڑی تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔
اسی طرح پاکستان میں جو احمدی ہیں ان کیلئے بھی بہت دعا کریں اللہ تعالیٰ انہیں بھی ہر شر سے محفوظ رکھے۔
فرانس میں کہنے کو تو بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں اور سمجھا جا رہا ہے کہ جوبندہ، لڑکا جس کو مارا گیا ہے اس کے حق میں بہت کچھ ہو رہا ہے لیکن عملاً جو پبلک کا رویہ ہے، وہاں کے لوگوں کا رویّہ ہے وہ اس طرح سےہے کہ سنا ہے انہوں نے دونوںکیلئے جو فنڈریزنگ کی ہے، اس پولیس والے کیلئے بھی جس کو پکڑا گیا اور اس لڑکے کیلئے بھی جو مارا گیا ہےاس میں لڑکے کیلئے جو فنڈ ریزنگ ہے وہ صرف دو لاکھ یورو آئے ہیں اور جو پولیس والا ہے جس کو کہتے ہیںکہ ہم اس کے خلاف کارروائی کریں گے اور حکومت بھی بیان دے رہی ہے اس کے حق میں اس کیلئے، اس کی مدد کیلئے ایک ملین سے زیادہ یورو جمع ہو چکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے اور ان لوگوں کو انصاف سے چلنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور مسلمانوں کو ایک ہونے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔

…٭…٭…٭…