اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-29

آنحضرتﷺ کی سیرتِ مبارکہ کے تناظر میں جنگِ بدر کے پس منظر کا بیان

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

فرمودہ 9؍جون2023ء بمطابق 9؍احسان1402ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)یو.کے

 

خطبہ جمعہ


کفارِ مکہ مسلمانوں سے باقاعدہ جنگ کا بہانہ تلاش کر رہے تھے،ورنہ اگر صرف قافلے کو بچانا مقصود ہوتا تو یہ خبر جس طرح دی گئی تھی
فوری طور پر پہنچ جاتے، جس کے ہاتھ میں جو ہتھیار آتا ،لے کےچلا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ قافلے کی بجائے جنگ کیلئے تیاری کر کے گئے

آنحضرتﷺ کی سیرتِ مبارکہ کے تناظر میں جنگِ بدر کے پس منظر کا بیان

غزوۂ بدر سے قبل ہونے والے بعض غزوات و سرایا کا تذکرہ

سریہ عبیدہ بن حارثؓ میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓنے اسلامی تاریخ کا پہلا تیر چلایا جس پر انہیں بجا طور پر فخر تھا

صفر دو ہجری میں غزوہ ودّان پہلا غزوہ تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ ستر مہاجرین کے ساتھ بنفس نفیس شریک ہوئے

اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینےرجب میں سریہ عبداللہ جحش ؓکیلئے سورۃ البقرہ کی آیت218 بطور وحی مسلمانوں کی تسلی کیلئے نازل کی

جنگِ بدر کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی عاتکہ بنت عبدالمطلب کاایک عجیب خواب جوبعد میں سچا ثابت ہوا
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

فرمودہ 9؍جون2023ء بمطابق 9؍احسان1402ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)یو.کے


اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ-
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۝ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝ مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۝ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۝
اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۝ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَ ۝


ہجرت کے بعد کے ابتدائی حالات، جنگِ بدر کے اسباب اور کفارِ مکہ کی کارروائیوں کے خلاف عمل اور ان کے بدمنصوبوں کو روکنے کیلئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کارروائی فرمائی اس کا کچھ ذکر ہوا تھا۔ اب جنگِ بدر سے قبل کچھ سرایا اور غزوات بھی ہوئے ان کا مختصراً ذکر پہلے کروں گا ۔پھر کفارِ مکہ کی جنگ کیلئے تیاری کے کچھ حالات بھی بیان کروں گا۔ ان شاء اللہ۔
سَرِیَّہ حضرت حمزہ۔ یہ پہلا سریہ تھا جو رمضان ایک ہجری میں ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھیجا۔ اسے سَرِیَّہ سیف البحر کہتے ہیں۔ اس کا جھنڈا سفید تھا اور اس کے علمبردار ابو مرثد غَنَوِی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ یہ سریہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان سنہ ایک ہجری میں بھیجا اور اپنے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کو اس کا امیر بنایا۔ ان کے ساتھ تیس مہاجر سوار تھے۔ یہ لوگ عِیْص کے اطراف میں بحیرۂ احمر کے ساحل تک گئے اور قریش کا ایک قافلہ جو ابوجہل کی سرکردگی میں شام سے آ رہا تھا اس سے سامنا ہوا۔ عِیْص رَابِغْ کے شمال میں تقریباً تیس کلو میٹر کے فاصلے پر ایک جگہ ہے جو ثَنِیَّةُ المَرَہ کے نواح میں ہے اور مدینہ منورہ سے رَابِغ کا فاصلہ تقریباً دو سو چالیس کلو میٹر ہے۔ یہاں ذُنَابَةُ العِیْص نامی ایک چشمہ تھا جس کے ارد گرد کیکر وغیرہ کے درختوں کی کثرت تھی اس وجہ سے اسے عیص کہا جاتا ہے۔ یہاں بنوسُلَیم آباد تھے۔ شام جانے والے قریش کے تجارتی قافلے ادھر سے گزرتے تھے۔ بہرحال دونوں فریق صف آرا ہو گئے۔ آمنا سامنا ہو گیا اور قریب تھا کہ جنگ ہو جاتی لیکن قبیلے کے ایک رئیس نے بیچ بچاؤ کروا دیا اور دونوں فریق واپس چلے گئے۔(اٹلس سیرت نبوی، صفحہ193 ، 194، مطبوعہ دار السلام ریاض 1424ھ)
پھر سَرِیَّہ عُبیدہ بن حارث ہے۔ شوال سنہ ایک ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن حارثؓ کو ساٹھ مہاجرین کی کمان دے کر رَابِغ کے قریب ثَنِیَّۃُ المَرَہ کی طرف روانہ کیا۔ وہاں ابوسفیان اور اس کے دو سو سواروں سے ان کا آمنا سامنا ہوا۔ دونوں طرف سے چند تیر چلائے گئے مگر باقاعدہ لڑائی نہیں ہوئی۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اس دن سب سے پہلے تیر چلایا۔ اس سے پہلے کبھی مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان تیراندازی بھی نہیں ہوئی تھی۔ گویا یہ اسلامی تاریخ کا پہلا تیر تھا جس پر حضرت سعد ؓکو بجا طور پر فخر تھا۔ پھر فریقین واپس اپنے اپنے علاقے میں چلے گئے۔ ثَنِیَّۃُ المَرَہ رَابِغ شہر کے شمال مشرق میں تقریباً پچپن کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور مدینہ منورہ سے اس کا فاصلہ دو سو کلو میٹر ہے۔(اٹلس سیرت نبویﷺ، صفحہ196، مطبوعہ دار السلام ریاض 1424ھ)
پھر سریہ حضرت سعد بن ابی وقاص ہے۔ سنہ ایک ہجری اور بعض کے بقول سنہ دو ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکو بیس آدمیوں کا امیر بنا کر روانہ کیا اور حکم دیا کہ وہ خَرَّار وادی سے آگے نہ جائیں۔ وہ پیدل چلتے گئے۔ دن کو چھپے رہتے اور رات کو سفر کرتے۔ یہاںتک کہ وہ خَرَّار تک پہنچ گئے۔ ان کا مقصد قریش کے تجارتی قافلے کو روکنا تھا لیکن جب یہ دستہ خَرَّار پہنچا تو انہیں پتہ چلا کہ قافلہ کل یہاں سے گزر گیا ہے لہٰذا وہ بغیر کسی تصادم کے واپس آ گئے۔ خَرَّار کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کے معنی ہیں آواز کے ساتھ بہنے والا پانی اور خَرَّار حجاز کے علاقے میں جُحْفَہ کے نزدیک ایک جگہ کا نام ہے۔(اٹلس سیرت نبوی ﷺ،صفحہ199، مطبوعہ دار السلام ریاض 1424ھ)
پھر غزوۂ وَدَّان یا غزوۂ اَبْوَاءصفر دو ہجری کا ہے۔ صفر سنہ دو ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ ستر مہاجرین کے ساتھ اَبْوَاء یا ودّان کی طرف گئے۔ مؤرخ ابن سعد کے نزدیک یہ پہلا غزوہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس شریک ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عُبَادہؓ کو مدینے میں اپنا نائب مقرر فرمایا۔ آپؐاَبْوَاء کے مقام تک پہنچے۔ آپؐکا ارادہ قریش کے تجارتی قافلے کو روکنا تھا لیکن وہ آپؐ کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی نکل چکا تھا۔ یہاں آپؐنے بنو ضَمْرَہ کے سردار مَخْشِیبن عَمْرو ضَمْرِی کے ساتھ معاہدۂ صلح کیا۔ معاہدہ یہ ہوا کہ آپؐبنو ضَمْرَہ پر حملہ نہیں کریں گے اور نہ بنو ضمرہ آپؐکے خلاف کوئی کارروائی کریں گے نہ کسی کارروائی میں حصہ لیں گے اور آپؐکے کسی دشمن کی مدد بھی نہیں کریں گے۔ اس سفر میں آپؐمدینہ سے پندرہ دن باہر رہے۔ وَدَّانْ کے بارے میں لکھا ہے کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان جگہ ہے۔ اَبْوَاءسے تیرہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ مدفون ہیں۔ جُحْفَہ سے اس کا فاصلہ تقریباً سو کلو میٹر ہے۔(اٹلس سیرت نبویﷺ، صفحہ202 ،مطبوعہ دار السلام ریاض 1424ھ)
یہ جگہوں کے نام اور یہ باتیں میں اس لیے بیان کر دیتا ہوں کہ بعض احمدی جو وہاں سفر کرنے والے، عمرہ کرنے والے ہیں جوعمرہ کوجاتے ہیں وہ تاریخ سے واقفیت کی وجہ سے ان جگہوں پر بھی جانا چاہتے ہیں تو ذرا ان جگہوں کا تعارف ہو جاتا ہے ۔
غزوۂ بُواط۔ ربیع الاول سنہ دو ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذؓ کو مدینےکا امیر مقرر فرمایا اور اپنے دو سو صحابہ کی معیت میں قریش کےایک قافلے کو روکنے کیلئے نکلے۔ اس قافلے میں اُمَیَّہ بن خَلَف بھی موجود تھا اور سو دیگر قریشی تھے اور دو ہزار پانچ سو اونٹ تھے۔ آپؐرَضْویٰ کے نواح میں بُوَاط پہنچے مگر وہاں کسی سے سامنا نہ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ لَوٹ آئے۔ اس غزوے میں جھنڈے کا رنگ سفید تھا جسے سعد بن ابی وقاص نے اٹھا رکھا تھا۔ بُواط کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ جُہَیْنَہ قبیلے کے دو پہاڑ ہیں جو مکے سے شام جانے والے راستے پر واقع ہیں۔ ان کے ساتھ رَضْویٰ کا مشہور پہاڑ ہے۔ مدینےسے بواط کا فاصلہ تقریباً سو کلو میٹر ہے۔ (اٹلس سیرت نبویﷺ، صفحہ204، مطبوعہ دار السلام ریاض 1424ھ)
غزوہ عُشَیْرَہ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ مکے سے نکلا ہے اور مکہ والوں نے اس تجارتی قافلے میں اپنا سارا مال لگا دیا تھا اس لیے کہ جو منافع ہو وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں استعمال ہو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جُمَادِی الاولیٰ یا ایک روایت کے مطابق جُمَادِی الثانیہ دو ہجری میں مدینے سے ڈیڑھ سو یا دو سو افراد کے ساتھ عازمِ سفر ہوئے۔ جب آپؐ عُشَیْرَہ مقام پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ قریش کا تجارتی قافلہ آپؐکے پہنچنے سے چند روز پہلے ہی وہاں سے جا چکا ہے۔ مکے اور مدینے کے درمیان بَنُو مُدْلِجْ کے علاقے میں یَنبُع کے نواح میں ایک مقام کا نام عُشَیرہ تھا۔ آپؐنے چند روز وہاں قیام فرمایا اور بَنُو مُدْلِجْ اور بنو ضَمْرَہ میں سے اس کے حلیفوں سے صلح کا معاہدہ کیا اور اس کے بعد مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ یہ قریش مکہ کا وہی تجارتی قافلہ تھا جس کی شام سے واپسی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ اس کے تعاقب میں نکلے تھے اور بدر کا معرکہ پیش آیا تھا۔ (سبل الہدیٰ، جلد4، صفحہ17، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)(فرہنگ سیرت، صفحہ 201، مطبوعہ زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)
غزوۂ بدر الاولیٰ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ عُشَیرہ سے مدینہ واپس تشریف لائے تو ابھی دس روز بھی نہ گزرے تھے کہ کُرْزْ بن جابر نے مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے تعاقب میں نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہؓ کو اپنا نائب مقرر کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے قریب سَفَوَانْ نامی وادی میں پہنچے۔ سَفَوَانْ بدر کے نواح میں ایک وادی ہے لیکن کُرْزْ بن جابر تیزی سے آگے نکل گیا اور آپؐاسے نہ پا سکے۔ اس غزوے کو غزوۂ بدرالاولیٰ بھی کہتے ہیں۔ اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ تشریف لے آئے۔(سیرت ابن ہشام، صفحہ 412، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)(اٹلس سیرت نبویﷺ، صفحہ206، مطبوعہ دار السلام ریاض 1424ھ)
بدر الاولیٰ اس لیے کہتے ہیں کیونکہ بدر کے ایک جانب سَفَوَانْ مقام تک مسلمانوں کا لشکر پہنچا تھا۔ (السیرۃ الحلبیہ، جلد2 ،صفحہ 177، دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)یہ سیرت الحلبیہ میں بیان ہوا ہے۔
کرز بن جابر کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓنے تفصیل لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’کُرزبن جابرکایہ حملہ ایک معمولی بدویانہ غارت گری نہیں تھی بلکہ یقیناً وہ قریش کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف خاص ارادے سے آیا تھا بلکہ بالکل ممکن ہے کہ اس کی نیت خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو نقصان پہنچانے کی ہو مگر مسلمانوں کو ہوشیار پا کر ان کے اونٹوں پر ہاتھ صاف کرتا ہوا نکل گیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریش مکہ نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ مدینہ پر چھاپے مار مار کر مسلمانوں کوتباہ وبرباد کیا جاوے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ گواس سے پہلے مسلمانوں کو جہاد بالسیف کی اجازت ہو چکی تھی اور انہوں نے خود حفاظتی کے خیال سے اسکے متعلق ابتدائی کارروائی بھی شروع کردی تھی لیکن ابھی تک ان کی طرف سے کفار کوعملاً کسی قسم کامالی یاجانی نقصان نہیں پہنچا تھا لیکن کرزبن جابر کے حملہ سے مسلمانوں کو عملاً نقصان پہنچا۔ گویا مسلمانوں کی طرف سے قریش کاچیلنج قبول کرلئے جانے کے بعد بھی عملی جنگ میں کفار ہی کی پہل رہی۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم .اے ،صفحہ 330ایڈیشن 1996ء)
پھر سریہ عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے۔یہ سریہ مکے کے قریب وادیٔ نخلہ میں ہوا۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب کے مہینے میںحضرت عبداللہ بن جحش ؓکو آٹھ مہاجرین کے ہمراہ روانہ فرمایا۔ ان میں انصار کا کوئی شخص نہ تھا۔ اور انہیں ایک خط لکھ کر دیا اور ہدایت فرمائی کہ اس خط کو دو دن سفر طے کرنے کے بعد دیکھنا اور اس میں دیئے گئے حکم کے مطابق عمل کرنا اور اپنے کسی ساتھی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہ کرنا۔ جب حضرت عبداللہ بن جَحْشؓ نے دو دن سفر کرنے کے بعد وہ حکم نامہ کھول کر پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ جب تم میرے اس خط کو کھول کر دیکھو تو اپنا سفر جاری رکھو یہاں تک کہ مقام نخلہ میں جوطائف اور مکے کے درمیان ہے جا پہنچنا اور وہاں قریش کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور ان کے حالات سے ہمیں آگاہ کرنا۔ جب حضرت عبداللہ بن جحشؓ نے یہ تحریر دیکھی تو کہا مجھ پر سننا اور اطاعت کرنا واجب ہے اور پھر اپنے ساتھیوں سے آپؓنے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں نخلہ کی طرف جاؤں اور وہاں قریش کی سرگرمیوں پر نظر رکھوں تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے حالات سے آگاہ کروں اور مجھے منع فرمایا ہے کہ تم میں سے کسی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کروں۔ پس جو تم میں سے شہادت کی آرزو رکھتا ہے وہ میرے ساتھ چلے اور جو واپس جانا پسند کرے وہ چلا جائے مگر ان کے ساتھیوں میں سے کوئی واپس نہ پلٹا اور سب حجاز کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں ایک مقام پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت عُتبہ بن غَزْوَانؓکا اونٹ گم ہو گیا۔ وہ دونوں اس کی تلاش میں پیچھے رہ گئے جبکہ حضرت عبداللہ بن جحشؓ باقی ساتھیوں کے ساتھ مقام نخلہ میں پہنچ گئے۔ وہاں قریش کے ایک قافلہ کا گزر ہوا جو کشمش، چمڑا اور قریش کا سامان تجارت اٹھائے جا رہا تھا۔ اس قافلہ میں عَمرو بن حَضْرَمِی بھی شامل تھا۔ جب قریش مکہ نے مسلمانوں کو دیکھا تو خوفزدہ ہو گئے۔ حضرت عُکَاشَہ بن مِحصَنؓ ان کے سامنے ظاہر ہوئے۔ انہوں نے اپنا سر منڈوا رکھا تھا۔ کفار ان کو دیکھ کر مطمئن ہو گئے اور کہنے لگے کچھ ڈر کی بات نہیں یہ لوگ عمرہ کرنے جا رہے ہیں۔ پھر مسلمانوں نے وہاں مشورہ کیا کہ آج رجب کا آخری روز ہے۔ اگر ہم ان سے لڑتے ہیں اور ان کو قتل کرتے ہیں تو یہ مہینہ حرمت والا ہے اور اگر آج انتظار کرتے ہیں تو راتوں رات یہ حدود حرم میں داخل ہو کر پھر ہمارے ہاتھ نہیں آئیں گے۔ آخر کار سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ قافلے پر حملہ کر دیا جائے۔ یہ تفصیل صحابہ کے ذکر میں ایک دفعہ پہلے بیان ہو چکی ہے۔ حضرت وَاقِد بن عبداللّٰہ تَمِیْمِیؓ نے ایک تیر عمرو بن حضرمی کے ایسا مارا جس سے وہ مر گیا اور دو آدمیوں کو مسلمانوں نے قید کر لیا جبکہ ایک بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ پھر حضرت عبداللہ بن جحشؓ اونٹوں اور ان دونوں قیدیوں کو لے کر مدینےمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے۔ جب حضرت عبداللہ بن جحش ؓ مدینہ میں آئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ مَیں نے تمہیں یہ حکم تو نہیں دیا تھا کہ تم حرمت والے مہینے میں جنگ کرو اور آپؐنے اونٹوں اور دونوں قیدیوں کو ٹھہرا دیا اور ان میں سے کوئی چیز بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔(سیرت ابن ہشام، صفحہ412تا414 ،دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
یہ جو کہتے ہیں کہ مال لوٹنا مقصد تھا۔ مال لوٹنا مقصد نہیں تھا،نہیں تو آپؐان کو شاباش دیتے کہ تم نے اچھا کیا بلکہ آپؐنے تو فرمایا کہ تم نے بڑا غلط کام کیا ہے۔
’’ دوسری طرف قریش نے بھی شور مچایا کہ مسلمانوں نے شہر حرام کی حرمت کو توڑ دیا ہے اور چونکہ جو شخص مارا گیا تھا یعنی عَمرو بن الحضرمی وہ ایک رئیس آدمی تھا اور پھر وہ عُتْبہ بن رَبِیعہ رئیسِ مکہ کا حلیف بھی تھا اس لئے بھی اس واقعہ نے قریش کی آتش غضب کو بہت بھڑکا دیا اور انہوں نے آگے سے بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری شروع کر دی۔ چنانچہ جنگ بدر … زیادہ تر قریش کی اسی تیاری اور جوش عداوت کا نتیجہ تھا۔ الغرض اس واقعہ پر مسلمانوں اور کفار ہر دو میں بہت چہ میگوئی ہوئی اور بالآخر ذیل کی قرآنی وحی نازل ہو کر مسلمانوں کی تشفی کا موجب ہوئی۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۔يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْہِ۝۰ۭ قُلْ قِتَالٌ فِيْہِ كَبِيْرٌ۝۰ۭ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ وَكُفْرٌۢ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۤ وَاِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللہِ۝۰ۚ وَالْفِتْنَۃُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ۝۰ۭ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا(البقرۃ:218)یعنی ’’لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ شہر حرام میں لڑنا کیسا ہے؟ تُو ان کو جواب دے کہ بیشک شہر حرام میں لڑنا بہت بُری بات ہے، لیکن شہر حرام میں خدا کے دین سے لوگوں کو جبراً روکنا بلکہ شہر حرام اور مسجد حرام دونوں کا کفر کرنا یعنی ان کی حرمت کو توڑنا اور پھر حرم کے علاقہ سے اس کے رہنے والوں کو بزور نکالنا جیساکہ اے مشرکو تم لوگ کر رہے ہو یہ سب باتیں خدا کے نزدیک شہر حرام میں لڑنے کی نسبت بھی زیادہ بُری ہیں اور یقیناً شہر حرام میں ملک کے اندر فتنہ پیدا کرنا اس قتل سے بدتر ہے جو فتنہ کو روکنے کیلئے کیا جاوے۔ اور اے مسلمانو! کفار کا تو یہ حال ہے کہ وہ تمہاری عداوت میں اتنے اندھے ہو رہے ہیں کہ کسی وقت اور کسی جگہ بھی وہ تمہارے ساتھ لڑنے سے باز نہیں آئیں گے اور وہ اپنی یہ لڑائی جاری رکھیں گے حتّٰی کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں بشرطیکہ وہ اس کی طاقت پائیں۔‘‘
بہرحال اللہ تعالیٰ کے علم میں تو تھا کہ یہ کفار مسلمانوں کو دین سے پھیرنے کیلئے کوشش کرتے رہیں گے اور اس لیے اس وقت جو عمل ہوا اس پہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔
’’چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ اسلام کے خلاف رؤسائے قریش اپنے خونی پراپیگنڈے کو اَشْہَرِحُرُم میں بھی برابر جاری رکھتے تھے بلکہ اَشْہَرِحُرُم کے اجتماعوں اور سفروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ان مہینوں میں اپنی مفسدانہ کارروائیوں میں اَور بھی زیادہ تیز ہو جاتے تھے اور پھر کمال بے حیائی سے اپنے دل کو جھوٹی تسلی دینے کیلئے وہ عزت کے مہینوں کو اپنی جگہ سے ادھر ادھر منتقل بھی کر دیا کرتے تھے جسے وہ نَسِیْءکے نام سے پکارتے تھے… پس اس جواب سے مسلمانوں کی تو تسلی ہونی ہی تھی قریش بھی کچھ ٹھنڈے پڑ گئے۔‘‘ انہیں پتا لگ گیا کہ وحی ہوئی ہے۔ ’’اور اس دوران میں ان کے آدمی بھی اپنے دو قیدیوں کوچھڑانے کیلئے مدینہ پہنچ گئے لیکن چونکہ ابھی تک سعد بن ابی وقاص اور عتبہ واپس نہیں آئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے متعلق سخت خدشہ تھا کہ اگروہ قریش کے ہاتھ پڑ گئے تو قریش انہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ اس لئے آپؐنے ان کی واپسی تک قیدیوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ میرے آدمی بخیریت مدینہ پہنچ جائیں گے تو پھر میں تمہارے آدمیوں کو چھوڑ دوں گا۔ چنانچہ جب وہ دونوں واپس پہنچ گئے تو آپؐنے فدیہ لے کر دونوں قیدیوں کو چھوڑ دیا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم .اے ،صفحہ332تا 334)
غزوۂ بدر الکبریٰ۔ قرآن کریم میں اس غزوے کو یوم الفرقان قرار دیا گیا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرقان جنگِ بدر کا دن تھا جس دن کہ مخالفوں کی زبردست طاقت والے اس سرگروہ کے ہلاک ہوئے اور مسلمانوں کو فتح اور غلبہ حاصل ہوا۔‘‘(حقائق الفرقان، جلد3 ،صفحہ235)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ ایک اَور مقام پر لفظ فرقان کا مطلب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔’’قرآن سے مجھے اسکے یہ معنے معلوم ہوئے کہ فرقان نام ہے اس فتح کا جس کے بعد دشمن کی کمر ٹوٹ جائے اور یہ بدر کا دن تھا۔‘‘(حقائق الفرقان، جلد1، صفحہ306)
اس غزوے کو بدر الثانیہ یا بدر الکبریٰ، بدر العُظْمیٰ اور بَدْرُالقِتَال بھی کہا جاتا ہے۔(السیرۃ الحلبیۃ، جلد2، صفحہ197، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)(تاریخ ابن خلدون، جزء دوم، صفحہ 426، دار الفکر بیروت 2000ء)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ ابو سفیان قریش کا تجارتی قافلہ لے کر شام سے واپس آ رہا ہے جس میں ایک ہزار اونٹ ہیں۔ اس میں قریش کا بہت بڑا سرمایہ تھااور اگر کسی کے پاس ایک مثقال یعنی چار پانچ ماشے بھی سونے کے وزن کے برابر کچھ سونا تھا یا مال تھا تو اس نے وہ مال بھی اس قافلے میں لگا دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک کثیر رقم کا سرمایہ تھا۔ اس قافلے میں تیس چالیس یا ایک روایت کے مطابق ستر آدمی تھے۔ یہ وہی قافلہ تھا جس کے تعاقب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے بھی نکلے تھے اور مقام عُشَیْرَہ تک پہنچ گئے تھے لیکن یہ قافلہ شام کی جانب جا چکا تھا۔ اس مہم کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جُمَادی الاولیٰ یا جُمَادی الآخرہ دو ہجری کو روانہ ہوئے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قافلے کی واپسی کی اطلاع پا کر مسلمانوں کو اپنے ساتھ نکلنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ یہ قریش کا تجارتی قافلہ ہے جس میں ان کے اموال ہیں۔ پس تم نکلو شاید اللہ تمہیں مالِ غنیمت سے نوازے۔(سبل الہدیٰ،جلد4،صفحہ30، مترجم مولانا عبیدالرحمٰن مکتبہ رحمانیہ لاہور)(الرحیق المختوم اردو، صفحہ 272 ،المکتبۃ السلفیۃلاہور 2000ء)
بعض لوگ جو صرف اعتراض کا موقع ڈھونڈنے کے عادی ہوتے ہیں یا کم علم ہوتے ہیں وہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے مدینےجا کر گویا لوٹ مار شروع کر دی تھی اور بطور مثال اسی قافلے کا تعاقب کرنا پیش کر دیتے ہیں جو کہ سراسر نادانی اور جہالت کی بات ہے اور اس وقت کے جنگی حالات سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے کیونکہ قریش کے اس تجارتی قافلے کو روکنا کوئی قابل اعتراض امر نہیں تھا۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓنے سیرت خاتم النبیینؐ میں اس کی تفصیل بیان کی ہے کہ ’’قافلہ کی روک تھام کیلئے نکلنا ہرگز قابلِ اعتراض نہیں تھا کیونکہ اوّل تویہ مخصوص قافلہ جس کیلئے مسلمان نکلے تھے ایک غیر معمولی قافلہ تھا جس میں قریش کے ہر مرد و عورت کاتجارتی حصہ تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسکے متعلق رؤسائے قریش کی یہ نیت تھی کہ اس کا منافع مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے میں استعمال کیا جائے گا۔ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ یہی منافع جنگِ احد کی تیاری میں صرف کیا گیا۔ پس اس قافلہ کی روک تھام تدابیرِ جنگ کا ضروری حصہ تھی۔ دوسرے عام طور پر بھی قریش کے قافلوں کی روک تھام اس لئے ضروری تھی کہ چونکہ یہ قافلے مسلح ہوتے تھے اور مدینہ سے بہت قریب ہو کر گزرتے تھے ان سے مسلمانوں کو ہر وقت خطرہ رہتا تھا جس کا سدباب ضروری تھا۔ تیسرے یہ قافلے جہاں جہاں سے بھی گزرتے تھے مسلمانوں کے خلاف قبائل عرب میں سخت اشتعال انگیزی کرتے پھرتے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت نازک ہو رہی تھی۔ پس ان کا راستہ بند کرنادفاع اور خود حفاظتی کے پروگرام کا حصہ تھا۔ چوتھے قریش کا گزارہ زیادہ تر تجارت پر تھا اس لئے ان قافلوں کی روک تھام ظالم قریش کوہوش میں لانے اوران کو ان کی جنگی کارروائیوں سے باز رکھنے اور صلح اور قیامِ امن کیلئے مجبور کرنے کا ایک بہت عمدہ ذریعہ تھی۔‘‘ آج کل کے زمانے میں اس طرح جنگوں کو روکنے کیلئے بعض ملک sanctions لگاتے ہیں۔ وہ بھی غلط sanctions لگا دیتے ہیں اور ظلم سے لگاتے ہیں لیکن یہ بھی اسی طرز کا sanctionلگانے والا ایک عمل تھا۔’’اور پھران قافلوں کی روک تھام کی غرض لوٹ مار نہیں تھی بلکہ جیساکہ قرآن شریف صراحتاً بیان کرتا ہے خود اس خاص مہم میں مسلمانوں کوقافلہ کی خواہش اسکے اموال کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس وجہ سے تھی کہ اس کے مقابلہ میں کم تکلیف اورکم مشقت کا اندیشہ تھا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم .اے ،صفحہ 343-344ایڈیشن1996ء)
بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قافلے کی خبر رسانی کی غرض سے اپنے دو صحابہ حضرت طَلْحہ بن عُبَید اللہؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ کو آگے روانہ کر دیا۔ یہ دونوں اصحاب مدینہ سے روانہ ہو گئے اور جب قافلے سے متعلق خبریں معلوم کرنے کے بعد مدینہ واپس آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہو چکے ہیں۔ چنانچہ یہ دونوں بدر کی جانب روانہ ہوئے مگر راستے میں ان کی ملاقات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت ہوئی جب آپؐغزوۂ بدر سے فارغ ہونے کے بعد واپس تشریف لا رہے تھے۔ اس لیے یہ دونوں اصحاب غزوۂ بدر میں شامل تو نہ ہو سکے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے بھی مالِ غنیمت کا حصہ نکالا۔(السیرۃ الحلبیۃ ،جلد2 ،صفحہ203،دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
دوسری طرف ابوسفیان کو اس کے جاسوسوں کی طرف سے یہ خبر ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو لے کر اس کے تجارتی قافلے پر حملہ کرنے کیلئے روانہ ہو چکے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابوسفیان کو ایک آدمی ملا تھا جس نے اسے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شروع ہی سے اس قافلے کا راستہ روکنا چاہتے تھے اور یہ کہ اب اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راستے میں اس قافلے کی واپسی کا انتظار کرتے چھوڑا ہے۔
یہ خبر سن کر ابوسفیان بہت خوفزدہ ہوا اور اس نے ضَمْضَم بن عَمرو غِفَاری نامی ایک آدمی کو کچھ اجرت دے کر مکے کی جانب روانہ کیا اور اس سے کہا کہ وہ مکہ جا کر انہیں بتائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ساتھ تمہارے قافلے پر حملہ کیلئے نکل پڑا ہے۔
چنانچہ ضَمْضَم نہایت تیز رفتاری کے ساتھ روانہ ہو گیا۔(السیرۃ الحلبیۃ ،جلد2 ،صفحہ197،دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
’’جب ابوسفیان کا یہ قاصد مکہ پہنچا تو اس نے عرب کے دستور کے مطابق ایک نہایت وحشت زدہ حالت بنا کر زور زور سے چلانا شروع کیا کہ اے اہلِ مکہ!تمہارے قافلہ پر محمدؐ اور اسکے اصحاب حملہ کرنے کیلئے نکلے ہیں۔ چلو اور اسے بچا لو۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم. اے، صفحہ 350، ایڈیشن1996ء)
دوسری طرف ابوسفیان بڑی ہوشیاری کے ساتھ معلومات لیتے ہوئے مسلمانوں کے اس لشکر سے بچتے ہوئے سفر جاری رکھے ہوئے تھا۔ وہ بدر کے چشمہ پر پہنچا تو اس نے وہاں ایک شخص سے پوچھاکہ یہاں تمہیں کوئی نظر آیا؟ اس نے کہا یہاں دو بندے آئے تھے اور اس ٹیلے کے قریب اپنے اونٹ بٹھائے اور پانی لے کر چلے گئے۔ ابو سفیان اونٹوں والی جگہ پر گیا۔ وہاں اونٹوں کی مینگنیاں پڑی ہوئی تھیں۔ اس نے ایک اٹھائی اور اسکو توڑا تو اس میں کھجور کی گٹھلی تھی۔ اس نے دیکھ کر کہا یہ یثرب کا چارا ہے اور سمجھ لیا کہ مدینے والے اسکے قریب ہی کہیں ہیں۔ چنانچہ وہ تیزی سے اپنے قافلے کی طرف واپس آیا اور اپنے ساتھیوں کو معروف راستے سے ہٹا کر ساحل سمندر کی طرف نکل گیا اور بدر کو ایک طرف چھوڑتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ گیا۔(الرحیق المختوم (مترجم) صفحہ 282-283مکتبۃ السلفیۃ لاہور 2000ء)
اس بارے میں عاتکہ بنت عبدالمطلب کا ایک عجیب خواب بھی ہے اور وہ خواب بڑا سچا ثابت ہوا ۔ وہ خواب اس طرح ہے کہ عاتکہ بنت عبدالمطلب جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی اور ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کی والدہ تھیں ان کے اسلام لانے کے بارے میں دونوں طرح کی آرا ہیں۔ بعض کے نزدیک انہوں نے اسلام قبول کیا تھا لیکن اکثر کے نزدیک انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ بہرحال انہوں نے ابوسفیان کے قاصد ضَمْضَمْ کے مکہ پہنچنے سے تین رات پہلے ایک خواب دیکھی تھی جس نے انہیں خوفزدہ کر دیا۔ انہوں نے اپنے بھائی عباس بن عبدالمطلب کو بلا بھیجا اور کہا کہ اے بھائی! بخدا میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے جس نے مجھے بہت زیادہ خوفزدہ کر دیا ہے۔ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ تمہاری قوم کو ضرور کوئی آفت یا مصیبت پہنچنے والی ہے۔ تم اس راز کو پوشیدہ رکھنا جو مَیں تمہیں بتانے والی ہوں۔ ایک روایت میں ہے کہ عاتکہ نے عباس سے کہا کہ جب تک تم مجھ سے یہ عہد نہیں کرو گے کہ تم اس بات کا کسی سے ذکر نہیں کرو گے اس وقت تک میں تمہیں نہیں بتلاؤں گی کیونکہ اگر قریش مکہ نے یہ بات سن لی تو وہ ہمیں پریشان کریں گے اور ہمیں برا بھلا کہیں گے۔ چنانچہ حضرت عباسؓ نے ان سے عہد کیا۔ بہرحال پھر حضرت عباسؓ نے پوچھا کہ تم نے کیا دیکھا ہے۔ عاتکہ نے کہا میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اونٹ پر سوار آیا اور اَبْطَحْ کے میدان میں کھڑا ہو گیا۔ مکہ اور منیٰ دونوں کو اَبْطَحْ کہا جاتا ہے اور یہ منیٰ کے زیادہ قریب ہے۔ پھر اس نے بلند آواز سے چیخ کر کہا۔ اے لوگو! اپنے قتل گاہوں کی طرف تین دن کے اندر اندر چلے آؤ۔ عاتکہ بیان کرتی ہیں کہ پھر میں نے دیکھا کہ لوگ اس شخص کے پاس جمع ہو گئے پھر وہ مسجد یعنی خانہ کعبہ میں داخل ہوا۔ لوگ اسکے پیچھے پیچھے تھے۔ اس دوران کہ لوگ اس کے گرد جمع تھے میں نے دیکھا کہ اس کا اونٹ اس کو لے کر کعبے کی چھت پر کھڑا ہے۔ پھر اس نے اسی طرح چیخ کر کہا اے لوگو! اپنی قتل گاہوں کی طرف تین دن کے اندر اندر چلے جاؤ۔ پھر میں نے دیکھا کہ اس کا اونٹ اس کو جبل اَبُوْ قُبَیْس کی چوٹی پر لے کر کھڑا ہو گیا۔ کوہ اَبُوْقُبَیْس کے بارے میں لکھا ہے کہ مکہ کے مشرق میں ایک مشہور پہاڑ کا نام ہے۔ پھر وہاں سے بھی اسی طرح بلند آواز میں پکارا۔ پھر اس نے ایک پتھر اس پہاڑ میں سے نیچے لڑھکا دیا اور نیچے پہنچتے ہی وہ پتھر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور مکے کے گھروں میں سے کوئی گھر اور کوئی مکان ایسا باقی نہ رہا جس میں اس پتھر کا ایک ٹکڑا نہ گیا ہو۔
یہ سن کر حضرت عباسؓنے عاتکہ سے کہا بخدا! یہ خواب تو بڑا اہم ہے۔ تم خود بھی اس کو پوشیدہ رکھنا اور اسکا ذکر کسی سے نہ کرنا۔ اس کے بعد حضرت عباسؓ عاتکہ کے گھر سے نکلے اور راستے میں ولید بن عتبہ سے ملے۔ یہ حضرت عباسؓ کا دوست تھا۔ انہوں نے اپنی بہن کو تو کہہ دیا کہ ذکر نہ کرنا لیکن خود ولید سے اس خواب کا ذکر کر دیا۔ البتہ حضرت عباسؓ نے اس کو منع کر دیا کہ کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا لیکن ایک دفعہ جب بات نکلے تو پھر تو نکل جاتی ہے۔ ولید نے اپنے باپ عتبہ سے اس کا ذکر کر دیا۔ اس طرح یہ بات مکےمیں پھیل گئی اور جہاں دو آدمی بیٹھتے اسی خواب کا ذکر کرتے۔ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اگلے روز صبح جب میں خانہ کعبہ میں طواف کرنے کیلئے گیا تو وہاں ابوجہل قریش کے چند لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا کہ اے ابوالفضل! یہ حضرت عباس ؓکی کنیت ہے۔ طواف سے فارغ ہو کر ذرا میرے پاس سے ہوتے جانا۔ حضرت عباسؓ کہتے ہیں کہ میں طواف سے فارغ ہو کر اس کے پاس گیا تو ابوجہل نے مجھ سے کہا اے بنو عبدالمطلب! تم میں نَبِیَّہکب سے پیدا ہو گئی؟
میں نے کہا کیا مطلب؟ اس نے کہا کہ تمہارے مردوں نے تو نبوت کا دعویٰ کیا تھا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کیا۔ اب تمہاری عورتیں بھی نبوت کا دعویٰ کرنے لگی ہیں۔ یہ عاتکہ نے کیا خواب دیکھی ہے؟ حضرت عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا اس نے کیا خواب دیکھی ہے؟ ابوجہل نے کہا وہ کہتی ہے کہ میں نے ایک شخص کو اونٹ پر آتے دیکھا اور اس نے یہ آواز دی اور پھر ایک پتھر پہاڑ پر سے لڑھکایا، غرضیکہ سارا خواب بیان کیا۔ پھر ابوجہل کہنے لگا کہ ہم تین روز تک انتظار کرتے ہیں اگر اسی طرح خواب کے مطابق یہ واقعہ ظہور میں آگیا تو ٹھیک ہے ورنہ ہم ایک تحریر لکھ کر کعبہ میں لٹکا دیں گے کہ تم لوگ تمام عرب میں سب سے زیادہ جھوٹے ہو۔ عباس کہتے ہیں کہ بخدا مجھے بےبس ہو کر اس خواب کو جھٹلانا پڑا۔ اس کو میں نے کہہ دیا کہ اس نے کوئی خواب نہیں دیکھی اور میں نے اس بات کا انکار کر دیا کہ عاتکہ نے کوئی خواب دیکھی ہے۔ پھر ہم سب لوگ اس مجلس سے اٹھ گئے اور شام کو جب میں گھر گیا تو بنو عبدالمطلب کی تمام عورتیں میرے پاس آئیں اور مجھ سے کہا۔ پہلے وہ خبیث فاسق تمہارے مردوں پر الزام تراشی کرتا رہا تو تم نے اسے برداشت کر لیا۔ اب عورتوں کو بھی برا کہتا ہے اور تم خاموشی سے سن رہے ہو اور اس کی بیہودہ گوئی کا کوئی جواب اس کو نہ دیا۔ تمہاری غیرت کہاں چلی گئی !تو خاندان کی عورتوں نے ان کو ذرا غصہ دلایا۔ عباس کہتے ہیں کہ میں نے کہا بخدا! مَیں نے ایسے ہی کیا۔ میرے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی جرم نہیں اور اللہ کی قسم! مَیں اب اسکے پاس جاؤں گا اور اگر اس نے پھر کوئی ایسی بات کہی تو مَیں اس کا کام تمام کرنے کیلئے تمہاری طرف سے اسکی تلافی کر دوں گا۔
حضرت عباسؓ کہتے ہیں کہ عاتکہ کے خواب کے تیسرے روز میں صبح گھر سے نکلا اور میں سخت غصے میں تھا کہ مجھ سے اس دن جو کوتاہی ہوئی آج اس کا بدلہ لوں گا۔ چنانچہ جب میں مسجد میں داخل ہوا تو میں نے ابوجہل کو دیکھا۔ وہ پھرتیلے بدن والا تیز زبان شخص تھا۔ بخدا! مَیں اس کی طرف بڑھا تا کہ وہ دوبارہ کوئی اس طرح کی بات کرے جیسی اس نے پہلے کی تھی اور میں اس کا حساب برابر کر دوں لیکن مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ ابوجہل بھاگا ہوا مسجد یعنی خانہ کعبہ کے دروازے کی طرف جا رہا ہے۔ مَیں نے اپنے دل میں سوچا کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو، اس کو کیا ہوا کیا وہ اس خوف سے بھاگ گیا ہے کہ کہیں مَیں اسے برا بھلا نہ کہوں لیکن درحقیقت وہ بات یہ تھی کہ اس نے ضَمْضَمْ بن عَمرو غِفَاری کی بلند آواز سن لی تھی جو مجھے سنائی نہ دی اور وہ یعنی ضَمْضَمْ وادی کے درمیان اپنے اونٹ پر کھڑا بلند آواز سے پکار رہا تھا۔ اس نے اپنے اونٹ کی ناک اور کان کاٹ دیے تھے۔ اپنے کجاوے کو الٹا کر دیا اور اپنی قمیص پھاڑ ڈالی تھی اور وہ یہ پکار رہا تھا کہ قافلہ! قافلہ!یعنی اپنے اس قافلے کو بچاؤ! اس پر تمہارے اموالِ تجارت لدے ہوئے ہیں جو ابوسفیان کے ساتھ آ رہا ہے۔ اس پر حملہ کرنے کیلئے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں نے چڑھائی کر دی ہے۔ میرے گمان میں بھی یہ نہیں کہ تم بروقت پہنچ جاؤ یعنی جس قدر ہو سکے وہاں پہنچنے میں جلدی کرو مجھے نہیں لگتا کہ تم اس کی مدد کیلئے پہنچ سکو۔ بہرحال عباس کہتے ہیں کہ اس نئے حادثے نے مجھے بھی اور اسے بھی اس قدر مشغول کر دیا کہ ہم اس پہلی بات پر توجہ نہ دے سکے۔
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام، صفحہ416-417، غزوۃ بدر الکبریٰ / ذکر رؤیا عاتکہ بنت عبدا لمطلب، دار الکتب العلمیۃبیروت2001ء)(السیرۃ الحلبیہ،جلد2،صفحہ 198، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2002ء) (کتاب المغازی للواقدی، جزء اوّل، صفحہ 30، مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1984ء)(الاصابۃ، جلد 8، صفحہ 229، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)(اسدالغابۃ، جلد7،صفحہ 183، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2016ء) (معجمالبلدان، جلد 1، صفحہ 95، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فرہنگ سیرت، صفحہ230، مطبوعہ زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)
لکھا ہے کہ جب قریش مکہ نے ضَمْضَمْ کی پکار سنی تو وہ بہت طیش میں آ گئے اور لوگوں کو جنگ کی تیاری کیلئے ابھارنے لگے۔ وہ کہنے لگے کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسکے ساتھی یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ ابن حَضْرَمِی کے تجارتی قافلے کی طرح ہے۔ ہرگز نہیں۔ خدا کی قسم! ان کو پتہ چل جائے گا کہ یہ ایسا نہیں ہے۔
عمرو بن حضرمی کے قافلہ اور مسلمانوں کے ہاتھوں اس کے قتل کا ذکر سریہ عبداللہ بن جحش میں ہو چکا ہے۔ ابھی پہلے مَیں نے بتایا جس میں مسلمانوں نے نہایت آسانی سے ابن حضرمی کو قتل کر دیا تھااور اس کے مال و سامان پہ قبضہ کیا تھا۔ بہرحال اب قریش مکہ تیاری کرنے لگے اور ہر کوئی جنگ کیلئے یا تو خود نکل رہا تھا یا اپنی جگہ اپنے خرچ پر کسی اَور کو بھیج رہا تھا۔ ان کے ایک رئیس سردار نے کہا۔ کیا تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے صابی ساتھیوں اور اہلِ یثرب کو اس بات کی اجازت دے دو گے کہ وہ تمہارے مال لوٹ کے لے جائیں؟ جس شخص کو مال کی ضرورت ہو تو میرا مال اس کیلئے حاضر ہے اور جس کو کھانے پینے کی چیزوں کی ضرورت ہے تو وہ حاضر ہے اور کسی نے دو سو دینار، کسی نے تین سو دینار، کسی نے پانچ سو دینار دیے اور کہا کہ جہاں چاہو اور جیسے چاہو استعمال کرو۔ کسی نے بیس اونٹ جنگ کیلئے پیش کیے۔ بعض نے جنگ پر جانے والوں کے گھر والوں کا خرچہ اٹھانے کی ذمہ داری اٹھائی اور جو خود جنگ پر نہ جا سکا اس نے اپنی جگہ اپنے خرچ پر کسی دوسرے آدمی کو روانہ کیا اور اس طرح دو یا تین دن میں جنگ کی تیاری مکمل ہو گئی۔
(سبل الھدیٰ والرشاد،جلد4،صفحہ21،دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء)
یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے تو اعلان کیا تھا کہ فوری پہنچو لیکن دو تین دن انہوں نے جنگ کی خوب تیاری کی اور یہ تیاری کرنا ہی بتاتا ہے کہ مکہ کے جو کفار تھے وہ مسلمانوں سے باقاعدہ جنگ کا بہانہ تلاش کر رہے تھے۔ ورنہ اگر صرف قافلے کو بچانا مقصود ہوتا تو جس طرح یہ خبر دی گئی تھی فوری طور پر پہنچ جاتے۔ جس کے ہاتھ میں جو ہتھیار آتا ،لے کےچلا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ قافلے کی بجائے جنگ کیلئے تیاری کر کے گئے۔
پھر قریش کے سرداروں کے بارے میں لکھا ہے کہ قریش کے پانچ سردار اُمَیَّہ بن خَلَف، عُتْبَہ بن رَبیعہ، شَیْبَہ بن رَبیعہ، زَمْعَہ بن اسود اور حکیم بن حِزَام نے تیروں کے ذریعہ قرعہ ڈالا کہ جنگ پر جانا چاہئے یا نہیں جس میں انکار والا تیر نکلا کہ یہ لوگ جنگ میں نہ جائیں یعنی وہ تیر نکلا جس پر لکھا ہوتا تھا کہ مت کرو۔ لہٰذا ان سب نے مل کر فیصلہ کر لیا کہ یہ لوگ جنگ میں نہیں جائیں گے مگر پھر ان کے پاس ابوجہل آیا اور اس نے انہیں لے جانے پر اصرار کیا۔ اس سلسلے میں عُقْبَہ بن اَبُو مُعَیْط اور نَضْربنِ حَارِث نے بھی ابوجہل کا ساتھ دیا اور ان لوگوں کو ساتھ لے جانے پر اصرارکیا۔ عُتْبَہاور شَیْبَہ کے غلام نے ان سے کہا کہ خدا کی قسم! آپ دونوں جنگ میں نہیں بلکہ اپنی قتل گاہ میں جا رہے ہیں۔
اس پر ان دونوں نے جنگ میں نہ جانے کا فیصلہ کر لیا تھا مگر ابوجہل کااصرار اتنا بڑھا کہ یہ دونوں اس نیت سے سب کے ساتھ جانے پر تیار ہو گئے کہ راستے سے واپس آ جائیں گے۔(السیرۃ الحلبیہ، جلد 2،صفحہ200-201، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2002ء)
جنگ کیلئے کفار کی تیاری اور روانگی کی مزید تفصیل اور اس کے واقعات ان شاءاللہ آئندہ بیان ہوں گے۔ کافی تفصیلی بات ہے۔

…٭…٭…٭…