اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-04-13

خطبہ جمعہ فرمودہ24؍مارچ2023ء 

’’اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدید دین کیلئے آنیوالا تھا وہ مَیں ہی ہوں تا وہ ایمان جو زمین پر سے اٹھ گیا ہے اُسکو دوبارہ قائم کروں اور خدا سے قوت
پا کر اسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کو اصلاح اور تقویٰ اور راستبازی کی طرف کھینچوں اور انکی اعتقادی اور عملی غلطیوں کو دور کروں ‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)
’’ایک گروہ اَور ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہو گا وہ بھی اوّل تاریکی اور گمراہی میں ہوں گے
اور علم اور حکمت اور یقین سے دُور ہوں گے تب خدا ان کو بھی صحابہ کے رنگ میں لائے گا ‘‘
’’جس حالت میں مسیح موعود اور فارسی الاصل کا زمانہ بھی ایک ہی ہے اور کام بھی ایک ہی ہے یعنی ایمان کو دوبارہ قائم کرنا
اس لئے یقینی طور پر ثابت ہوا کہ مسیح موعود ہی فارسی الاصل ہے اور اُسی کی جماعت کے حق میں یہ آیت ہے وَ اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْ ‘‘
دوسرا گروہ جو بموجب آیت موصوفہ بالا صحابہ کی مانند ہیں مسیح موعود کا گروہ ہے
کیونکہ یہ گروہ بھی صحابہ کی مانند آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کو دیکھنے والا ہے اور تاریکی اور ضلالت کے بعد
ہدایت پانے والا اور آیت اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ میں جو اس گروہ کو مِنْهُمْ کی دولت سے یعنی صحابہ سے مشابہ ہونے کی نعمت سے حصہ دیا گیا ہے۔
’’بخرام کہ وقتِ تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمناربلند تر محکم افتاد۔‘‘
’’خدا تعالیٰ نے مجھے چودھو یں صدی کے سر پر اس تجدیدِ ایمان اور معرفت کے لئے مبعوث فرمایا ہے
اور اس کی تائید اور فضل سے میرے ہاتھ پر آسمانی نشان ظاہر ہوتے ہیں اور اس کے ارادہ اور مصلحت کے موافق دعائیں قبول ہوتی ہیں‘‘
آج مسلمان اگر اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ جو مسیح ومہدی آنے والا تھا وہ آ گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی عاشق اور غلامِ صادق بھی یہی ہے
اور اس کی بیعت میں آنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بموجب ضروری ہے اور کامل وفا کے ساتھ اس کی بیعت میں شامل ہو جائیں تو
مسلمان ان کو ماننے کے بعد دنیا میں اپنی برتری منوا سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بن سکتے ہیں
ورنہ یہی ان کا حال رہنا ہے جو ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل اور سمجھ دے
23؍مارچ کا دن جماعت احمدیہ میں یوم مسیح موعود کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کل تیئس مارچ تھی۔
ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نےاپنے وعدے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق
بھیجے ہوئے زمانے کے امام، مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔
یومِ مسیح موعود کی مناسبت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں سورۂ جمعہ کی آیات کی تفسیر،
موعود مسیح کے زمانے کی مختلف نشانیوں، مختلف پیشگوئیوں نیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعوے کا مختصراً تذکرہ
دنیائے احمدیت، پاکستان، برکینا فاسو اور بنگلہ دیش کے احمدیوں نیز دنیا کے تباہی سے بچنے کے لیے دعا کی تحریک
الفضل انٹرنیشنل کے روزنامہ ہونے پر اسے پڑھنے اور خریدنے کی تحریک نیز الفضل میں لکھنے والوں کے لیے دعائیہ کلمات

 

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ24؍مارچ2023ء بمطابق 24؍امان1402ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

(خطبہ کا یہ متن ادارہ بدرادارہ الفضل انٹرنیشنل لندن کے شکریہ کے ساتھ شائع کر رہا ہے)

 

اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ-
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۝ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝ مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۝ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۝
اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۝ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَ ۝
هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔ وَّ اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۔ (الجمعة: 3-4)

 

ان آیات کا ترجمہ ہے کہ وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ اوروہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔
23؍مارچ کا دن جماعت احمدیہ میں یوم مسیح موعود کے نام سے جانا جاتا ہے۔
کل تیئس مارچ تھی۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نےاپنے وعدے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق بھیجے ہوئے زمانے کے امام، مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ 23؍ مارچ 1889ء کو لدھیانہ میں آپؑنے مخلصین سے پہلی بیعت لی اور یوں مخلصین کی ایک جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ قرآنِ کریم کی سورۂ جمعہ کی جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے آنے اور اس کے ذریعہ سے ایک جماعت کے قیام کی خبر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ قرآنِ کریم میں مسیح موعود کی آمد کے بارے میں اَور بھی آیات ہیں۔ اس کے علاوہ حدیثوں میں بھی آنے والے مسیح موعود اور مہدی معہود کے آنے کی پیشگوئیاں ہیں۔
اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں سورۂ جمعہ کی ان آیات کی وضاحت اور جو مختلف نشانیاں آنے والے کے زمانے کی بتائی گئی تھیں اور جو مختلف پیشگوئیاں تھیں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا دعویٰ کیا تھا وہ مختصراً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں پیش کروں گا۔
آیت کی تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اس آیت کاماحصل یہ ہے کہ خدا وہ خدا ہے جس نے ایسے وقت میں رسول بھیجا کہ لوگ علم اور حکمت سے بے بہرہ ہو چکے تھے اور علومِ حکمیہ دینیہ جن سے تکمیل ِنفس ہو اور نفوسِ انسانیہ علمی اور عملی کمال کو پہنچیں بالکل گم ہو گئی تھی۔‘‘ نفس کی اصلاح کے سارے پہلو ختم ہو گئے تھے۔ ’’اور لوگ گمراہی میں مبتلا تھے۔ یعنی خدا اور اس کی صراطِ مستقیم سے بہت دور جا پڑے تھے۔ تب ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے اپنا رسول اُمّی بھیجا اور اس رسول نے ان کے نفسوں کو پاک کیا اور علم الکتاب اور حکمت سے ان کو مملو کیا یعنی نشانوں اور معجزات سے مرتبہ یقینِ کامل تک پہنچایا اور خدا شناسی کے نور سے ان کے دلوں کو روشن کیا اور پھر فرمایا کہ ایک گروہ اَور ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہو گا وہ بھی اوّل تاریکی اور گمراہی میں ہوں گے اور علم اور حکمت اور یقین سے دُور ہوں گے تب خدا ان کو بھی صحابہ کے رنگ میں لائے گا یعنی جو کچھ صحابہ نے دیکھا وہ ان کو بھی دکھایا جائے گا یہاں تک کہ ان کا صدق اور یقین بھی صحابہ کے صدق اور یقین کی مانند ہو جائے گا اور حدیث صحیح میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس آیت کی تفسیر کے وقت سلمان فارسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ۔ لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ یعنی اگر ایمان ثریا پر یعنی آسمان پر بھی اٹھ گیا ہو گاتب بھی ایک آدمی فارسی الاصل اس کو واپس لائے گا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ ایک شخص آخری زمانہ میں فارسی الاصل پیدا ہو گا، اس زمانہ میں جس کی نسبت لکھا گیا ہے کہ قرآن آسمان پر اٹھایا جائے گا۔ یہی وہ زمانہ ہے جو مسیح موعود کا زمانہ ہے۔‘‘ جب ایمان اٹھ گیا۔ قرآن آسمان پر اٹھ گیا مطلب یہ کہ اس پہ عمل ختم ہو گیا تو یہی زمانہ مسیح موعودؑکی آمد کا زمانہ ہے ’’اور یہ فارسی الاصل وہی ہے جس کا نام مسیح موعود ہے کیونکہ صلیبی حملہ جس کے توڑنے کے لئے مسیح موعود کو آنا چاہئے وہ حملہ ایمان پر ہی ہے اور یہ تمام آثار صلیبی حملہ کے زمانہ کے لئے بیان کئے گئے ہیں اور لکھا ہے کہ اِس حملہ کا لوگوں کے ایمان پر بہت برا اثر ہو گا۔ وہی حملہ ہے جس کو دوسرے لفظوں میں دجّالی حملہ کہتے ہیں۔ آثار میں ہے کہ اس دجال کے حملہ کے وقت بہت سے نادان خدائے واحد لاشریک کو چھوڑ دیں گے اور بہت سے لوگوں کی ایمانی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی اور مسیح موعود کا بڑا بھاری کام تجدید ایمان ہو گا کیونکہ حملہ ایمان پر ہے اور حدیث لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ سے جو شخص فارسی الاصل کی نسبت ہے یہ ثابت ہے کہ وہ فارسی الاصل ایمان کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے آئے گا۔ پس جس حالت میں مسیح موعود اور فارسی الاصل کا زمانہ بھی ایک ہی ہے اور کام بھی ایک ہی ہے یعنی ایمان کو دوبارہ قائم کرنا اس لئے یقینی طور پر ثابت ہوا کہ مسیح موعود ہی فارسی الاصل ہے اور اُسی کی جماعت کے حق میں یہ آیت ہے وَ اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْ ۔ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ کمال ضلالت کے بعد ہدایت اور حکمت پانے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور برکات کو مشاہدہ کرنے والے صرف دو ہی گرو ہ ہیں اوّل صحابۂ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے سخت تاریکی میں مبتلا تھے اور پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے زمانہ نبوی پایا اور معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پیشگوئیوں کا مشاہدہ کیا اور یقین نے ان میں ایک ایسی تبدیلی پیدا کی کہ گویا صرف ایک روح رہ گئے۔ دوسرا گروہ جو بموجب آیت موصوفہ بالا صحابہ کی مانند ہیں مسیح موعود کا گروہ ہے۔ کیونکہ یہ گروہ بھی صحابہ کی مانند آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کو دیکھنے والا ہے اور تاریکی اور ضلالت کے بعد ہدایت پانے والا اور آیت اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ میں جو اس گروہ کو مِنْهُمْکی دولت سے یعنی صحابہ سے مشابہ ہونے کی نعمت سے حصہ دیا گیا ہے۔ یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے یعنی جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات دیکھے اور پیشگوئیاں مشاہدہ کیں ایسا ہی وہ بھی مشاہدہ کریں گے اور درمیانی زمانہ کو اس نعمت سے کامل طور پر حصہ نہیں ہو گا۔ چنانچہ آج کل ایسا ہی ہوا کہ تیرہ سو برس بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا دروازہ کھل گیا اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ خسوف کسوف رمضان میں موافق حدیث دارقطنی اور فتاویٰ ابن حجر کے ظہور میں آ گیا یعنی چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان میں ہوا۔ اور جیسا کہ مضمون حدیث تھا۔ اسی طرح پر چاند گرہن اپنے گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات میں اور سورج گرہن اپنے گرہن کے دنوں میں سے بیچ کے دن میں وقوع میں آیا۔ ایسے وقت میں کہ جب مہدی ہونے کا مدعی موجود تھا اور یہ صورت جب سے کہ زمین اور آسمان پیدا ہوا کبھی وقوع میں نہیں آئی کیونکہ اب تک کوئی شخص نظیر اس کی صفحۂ تاریخ میں ثابت نہیں کر سکا۔‘‘ کوئی ثابت نہیں کر سکتا تاریخ سے کہ کبھی ایسا ہوا ہو۔ ’’سو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ تھا جو لوگوں نے آنکھوں سے دیکھ لیا۔ پھر ذُوالسِّنِیْن ستارہ بھی جس کا نکلنا مہدی اور مسیح موعود کے وقت میں بیان کیا گیا تھا۔ ہزاروں انسانوں نے نکلتا ہوا دیکھ لیا۔‘‘ دمدار ستارہ۔’’ایسا ہی جاوا کی آگ بھی لاکھوں انسانوں نے مشاہدہ کی۔ ایسا ہی طاعون کا پھیلنا اور حج سے روکے جانا بھی سب نے بچشمِ خود ملاحظہ کر لیا۔ ملک میں ریل کا طیار ہونا، اونٹوں کا بے کار ہونا، یہ تمام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تھے جو اس زمانہ میں اسی طرح دیکھے گئے جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے معجزات کو دیکھا تھا۔ اسی وجہ سے اللہ جلّ شانہٗ نے اس آخری گروہ کو مِنْھُمْ کے لفظ سے پکارا تا یہ اشارہ کرے کہ معائنہ معجزات میں وہ بھی صحابہ کے رنگ میں ہی ہیں۔ سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاجِ نبوت کا اَور کس نے پایا۔ اِس زمانہ میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اِس جماعت کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے۔ وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں۔‘‘ آج بھی دیکھتے ہیں۔ ’’جیسا کہ صحابہ نے دیکھا۔ وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے پایا۔ وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دلآزاری اور بدزبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اٹھایا۔‘‘ آج بھی یہی حالت ہے۔’’وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے حاصل کی۔‘‘ بیشمار مثالیں ہیں اس کی۔ ’’بہتیرے ان میں سے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیساکہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے۔ بہتیرے ان میں سے ایسے ہیں جن کو سچی خوابیں آتی ہیں اور الہام الٰہی سے مشرف ہوتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہوتے تھے۔ بہتیرے ان میں ایسے ہیں کہ اپنے محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خدا تعالیٰ کی مرضات کے لئے ہمارے سِلسلہ میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرچ کرتے تھے۔ ان میں ایسے لوگ کئی پاؤ گے کہ جو موت کو یاد رکھتے اور دلوں کے نرم اور سچی تقویٰ پر قدم مار رہے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت تھی۔ وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن ان کے دلوں کو پاک کر رہا ہے اور ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اور آسمانی نشانوں سے ان کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ جیسا کہ صحابہ کو کھینچتا تھا۔ غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جو اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ کے لفظ سے مفہوم ہو رہی ہیں۔ اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمودہ ایک دن پورا ہوتا۔!!! ‘‘
فرمایا :’’اور آیت اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ جیسا کہ یہ جماعت مسیح موعود کی صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت سے مشابہ ہے ایسا ہی جو شخص اس جماعت کا امام ہے وہ بھی ظلّی طو رپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتا ہے جیساکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی موعود کی صفت فرمائی کہ وہ آپ سے مشابہ ہو گا اور دو مشابہت اس کے وجود میں ہوں گی۔ ایک مشابہت حضرت مسیح علیہ السلام سے جس کی وجہ سے وہ مسیح کہلائے گا اور دوسری مشابہت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جس کی وجہ سے وہ مہدی کہلائے گا۔ اِسی راز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لکھا ہے کہ ایک حصہ اس کے بدن کا اسرائیلی وضع اور رنگ پر ہو گا اور دوسرا حصہ عربی وضع اور رنگ پر۔ حضرت مسیح علیہ السلام ایسے وقت میں آئے تھے جبکہ ملتِ موسوی یونانی حکماء کے حملوں سے خطرناک حالت میں تھی۔ اور تعلیم توریت اور اس کی پیشگوئیوں اور معجزات پر سخت حملہ کیا جاتا تھا اور یونانی خیالات کے موافق خدا تعالیٰ کے وجود کو بھی ایک ایسا وجود سمجھا گیا تھا کہ جو صرف مخلوق میں مخلوط ہے اور مدبر بالارادہ نہیں۔‘‘ یعنی عام مخلوق کی طرح ہی ہے اور تمام قدرتوں کا مالک نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ جو چاہے کر سکے۔ ’’اور سلسلہ نبوت سے ٹھٹھا کیا جاتا تھا۔ لہٰذا حضرت عیسیٰ کے مبعوث کرنے سے جو حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد آئے خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تھا کہ موسوی نبوت کی صحت اور اس سلسلہ کی حقانیت پر تازہ شہادت قائم کرے اور نئی تائیدات اور آسمانی گواہوں سے موسوی عمارت کی دوبارہ مرمت کر دیوے۔ اسی طرح جو اس امت کے لئے مسیح موعود بھی چودھویں صدی کے سر پر بھیجا گیا اس کی بعثت سے بھی یہی مطلب تھا کہ جو یورپ کے فلسفہ اور یورپ کی دجالیت نے اسلام پر طرح طرح کے حملے کئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور پیشگوئیوں اور معجزات سے انکار اور تعلیم قرآنی پر اعتراض اور برکات اور انوارِ اسلام کو سخت استہزا کی نظر سے دیکھا ہے ان تمام حملوں کو نیست و نابود کر ے اور نبوتِ محمدیہ علٰی صاحبہا اَلفُ الفٍ سلام‘‘ ہزار ہزار سلام ہوں’’کو تازہ تصدیق اور تائید سے حق کے طالبوں پر چمکا وے اور یہی سرّ ہے جو براہین احمدیہ …میں آج سے سترہ برس پہلے ایک الہام اسی بارے میں ہوا۔ وہ الہام خدا تعالیٰ کا لاکھوں انسانوں میں شائع ہو چکا ہے اوروہ یہ ہے ’’بخرام کہ وقتِ تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمَناربلند تر محکم افتاد۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا وضاحت کے ساتھ خود جو ترجمہ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ ’’اب ظہور کر اور نکل کہ تیرا وقت نزدیک آ گیا اور اب وہ وقت آ رہا ہے کہ محمدی گڑھے میں سے نکال لئے جاویں گے۔‘‘ محمدی گڑھے میں سے نکالے جاویں گے یعنی مسلمان ’’اور ایک بلند اور مضبوط مینار پر ان کا قدم پڑے گا۔‘‘
(ترجمہ الہام از نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 511)
پھر فرمایا کہ ’’پاک محمد مصطفےٰ نبیوں کا سردار۔ خدا تیرے سب کام درست کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ ربّ الافواج اس طرف توجہ کرے گا۔ اس نشان کا مدعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں۔…اور خوب غور کرو کہ میرے نشانوں سے کیا مدعا ٹھہرایا گیا‘‘ (یہ اللہ تعالیٰ آپؑکو الہاماً فرما رہا ہے)۔ فرماتے ہیں کہ ’’ابھی میں بیان کر چکا ہوں کہ اسی مطلب کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے تھے تا تکذیب کی حالت میں نئے نشانوں کے ساتھ توریت کی تصدیق کریں۔ اور اسی مطلب کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے تا نئے نشانوں کے ساتھ قرآنِ شریف کی سچائی غافل لوگوں پر ظاہر کی جائے۔ اِسی کی طرف الہامِ الٰہی میں اشارہ ہے کہ پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد۔ اور یہی اشارہ اِس دوسرے الہام براہین احمدیہ میں ہے۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآ ؤُ ھُمْ۔ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ۔ قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔‘‘
یعنی خدائے رحمان نے تجھے قرآن سکھلایا تا کہ تُو ان لوگوں کو ڈرائے جن کے باپ دادا ڈرائے نہیں گئے اور تا کہ مجرموں کی راہ کھل جائے۔ مجرموں کی راہ کھل جائے کا مطلب مجرموں پر خدا کی حجت پوری ہو جائے۔ فرمایا کہہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں۔
فرماتے ہیں’’اگر کوئی کہے کہ ’’حضرت عیسیٰ نبی اللہ ہو کر توریت کی تصدیق کے لئے آئے۔ پس ان کے مقابل پر تمہاری گواہی کیا قدر رکھتی ہے۔‘‘ وہ تو نبی اللہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی بنا کے بھیجا تھا توریت کی تصدیق کے لئے آئے تھے تم کس طرح، کس حیثیت سے قرآن کی گواہی کے لئے آئے ہو۔ فرمایا ’’اس جگہ بھی تصدیق جدید کے لئے کوئی نبی ہی چاہئے تھا ۔‘‘ لوگ کہتے ہیں یہ کہ گواہی کیا تقاضا رکھتی ہے اس جگہ بھی تصدیقِ جدید کے لیے کوئی نبی ہی چاہیے تھا۔ یہ لوگ کہتے ہیں۔ ’’سو اِس کا جواب یہ ہے کہ اسلام میں اس نبوت کا دروازہ تو بند ہے جو اپنا سکہ جماتی ہو۔‘‘ یعنی آزاد اور شریعت کے ساتھ آنے والی نبوت۔
آپؑفرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ (الاحزاب:41) اور حدیث میں ہے لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔اور باایں ہمہ حضرت مسیحؑ کی وفات نصوص قطعیہ سے ثابت ہو چکی لہٰذا دنیا میں ان کے دوبارہ آنے کی امید طمع خام۔‘‘قرآن بھی کہتا ہے، حدیث بھی کہتی ہے اور یہ بھی ثابت ہو گیاہے کہ مسیح کی وفات ہو گئی ہے اس لیے یہ تو بالکل غلط امید ہے کہ کوئی مسیح دوبارہ آئے گا۔فرماتے ہیں ’’اور اگر کوئی اَور نبی نیا یا پرانا آوے تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیونکر خاتم الانبیاء رہیں۔‘‘ یعنی آپ کی ختم نبوت سے باہر نکل کر آئے۔ ’’ہاں وحیٔ ولایت اور مکالماتِ الٰہیہ کا دروازہ بند نہیں ہے جس حالت میں مطلب صرف یہ ہے کہ نئے نشانوں کے ساتھ دینِ حق کی تصدیق کی جائے اور سچے دین کی شہادت دی جائے تو جو نشان خدا تعالیٰ کے نشان ہیں خواہ وہ نبی کے ذریعہ سے ظاہر ہوں اور خواہ ولی کے ذریعہ سے وہ سب ایک درجہ کے ہیں کیونکہ بھیجنے والا ایک ہی ہے۔ ایسا خیال کرنا سراسر جہالت اور حُمق ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نبی کے ہاتھ سے اور نبی کے ذریعہ سے کوئی تائیدسماوی کرے تو وہ قوت اور شوکت میں زیادہ ہے۔ اور اگر ولی کی معرفت وہ تائید ہو تو وہ قوت اور شوکت میں کم ہے بلکہ بعض نشان تو تائید اسلام کے ایسے ظاہر ہوتے ہیں کہ اس وقت نہ کوئی نبی ہوتا ہے اور نہ ولی جیساکہ اصحاب الفیل کے ہلاک کرنے کا نشان ظاہر ہوا۔‘‘ فرمایا’’یہ تو مسلّم ہے۔‘‘ یہ اس بات کا جواب ہے کہ تم کہتے ہو نبی نہیں ہے تو اس لیے ہو نہیں سکتا۔ نبی نہ بھی ہو تو ولی کے ذریعہ بھی ہو سکتا ہے اتنا تسلیم کرو اور ولی بھی نہ ہو تب بھی اللہ تعالیٰ نشان دکھاتا ہے جس طرح اصحاب فیل کو نشان دکھایا۔ فرمایا ’’یہ تو مسلّم ہے کہ ولی کی کرامت نبی متبوع کا معجزہ ہے۔‘‘ جس نبی کی وہ اتباع کر رہا ہے اسی کا معجزہ ہے’’پھر جبکہ کرامت بھی معجزہ ہوئی تو معجزات میں تفریق کرنا ایمانداروں کا کام نہیں۔ ماسوا اس کے حدیثِ صحیح سے ثابت ہے کہ مُحَدَّث بھی نبیوں اور رسولوں کی طرح خدا کے مرسلوں میں داخل ہے۔‘‘ اس کے علاوہ یہ بھی دلیل ہے کہ محدث بھی نبیوں اور رسولوں میں شامل ہے۔ ’’بخاری میں وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُوْلٍ وَلَا نَبِیٍّ وَلَا مُحَدَّثٍ کی قرا ءت غور سے پڑھو۔ اور نیز ایک دوسری حدیث میں ہے کہ عُلَمَاءُ أُمَّتِیْ کَأَنْبِیَاءِ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’صوفیا نے اپنے مکاشفات سے بھی اس حدیث کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تصحیح کی ہے۔‘‘ یعنی آپ سے اس کی تصدیق حاصل کی ہے۔ ’’یہ بھی یاد رہے کہ مُسْلِم میں مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے۔‘‘ کہتے ہو وہ نبی نہیں تو یہ بھی یاد رکھو۔ ایک تو پہلے کہ ولی کی دلیل دی۔ دوسری یہ کہ مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ حدیث میں آیا ہے۔ ’’یعنی بطور مجاز اوراستعارہ کے۔ اِسی وجہ سے براہین احمدیہ میں بھی ایسے الفاظ خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے حق میں ہیں … یہ الہام ہے ۔ هُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى۔ اس جگہ رسول سے مراد یہ عاجز ہے‘‘ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔’’اور پھر دیکھو … براہین احمدیہ میں یہ الہام جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآءِ ۔جس کا ترجمہ ہے خدا کا رسول نبیوں کے لباس میں۔‘‘ تم کہتے ہو نبی نہیں۔ یہ تو حدیث میں بھی آ رہا ہے۔ مجھے بھی اللہ تعالیٰ بتا رہا ہے کہ میں نبی ہوں۔’’اس الہام میں میرا نام رسول بھی رکھا گیا اور نبی بھی۔ پس جس شخص کے خود خدا نے یہ نام رکھے ہوں اس کو عوام میں سے سمجھنا کمال درجہ کی شوخی ہے اور خدا کے نشانوں کی شہادتیں کسی طرح کمزور نہیں ہو سکتیں۔ خواہ نبی کے ذریعہ سے ہوں یا محدث کے ذریعہ سے۔ اصل تو یہ ہے کہ خود ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور آپ کا فیض ایک مظہر پیدا کرکے اپنی گواہی آپ دلاتا ہے اور ولی کو مفت کا نام حاصل ہوتا ہے۔‘‘اصل تو جو نشانات ظاہر ہو رہے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے ظاہر ہو رہے ہیں۔ ولی کا نام یا جس کا بھی نام بیچ میں آیا جس کے ذریعہ سے ہو رہے ہیں اس کا نام مفت میں آ رہا ہے۔ فرمایا ’’سو درحقیقت ولی جو مُصَدَّقْ ہے وہ آپ سے زینت پاتا ہے آپ اس سے زینت نہیں پاتے۔‘‘
(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 304تا 310)
اپنے دعویٰ کے متعلق آپؑبیان فرماتے ہیںکہ ’’جب خدا تعالیٰ نے زمانہ کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اور زمین کو طرح طرح کے فسق اور معصیت اور گمراہی سے بھرا ہوا پا کر مجھے تبلیغِ حق اور اصلاح کے لیے مامور فرمایا اور یہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ …اس دنیا کے لوگ تیرھویں صدی ہجری کو ختم کر کے چودھویں صدی کے سر پر پہنچ گئے تھے تب مَیں نے اس حکم کی پابندی سے عام لوگوں میں بذریعہ تحریری اشتہارات اور تقریروں کے یہ ندا کرنی شروع کی کہ اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدید دین کے لئے آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں تا وہ ایمان جو زمین پر سے اٹھ گیا ہے اس کو دوبارہ قائم کروں اور خدا سے قوت پا کر اسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کو اصلاح اور تقویٰ اور راستبازی کی طرف کھینچوں۔ اور ان کی اعتقادی اور عملی غلطیوں کو دور کروں اور پھر جب اس پر چند سال گزرے تو بذریعہ وحیٔ الٰہی میرے پر بتصریح کھولا گیا کہ وہ مسیح جو اس امت کے لئے ابتدا سے موعود تھا اور وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانہ میں براہِ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور اس آسمانی مائدہ کو نئے سرے سے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی وہ مَیں ہی ہوں اور مکالماتِ الٰہیہ اور مخاطباتِ رحمانیہ اس صفائی اور تواتر سے اس بارے میں ہوئے کہ شک و شبہ کی جگہ نہ رہی۔ ہر ایک وحی جو ہوتی تھی ایک فولادی میخ کی طرح دل میں دھنستی تھی۔ اور یہ تمام مکالماتِ الٰہیہ ایسی عظیم الشان پیشگوئیوں سے بھرے ہوئے تھے کہ روزِ روشن کی طرح وہ پوری ہوتی تھیں۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 3-4)
پھر آپؑفرماتے ہیں کہ ’’ایسے وقت میں اور ایسے زمانہ میں جبکہ خدا شناسی کی روشنی کم ہوتے ہوتے آخر ہزارہا نفسانی ظلمتوں کے پردہ میں چھپ جاتی ہے بلکہ اکثر لوگ دہریہ کے رنگ میں ہو جاتے ہیں اور زمین گناہ اور غفلت اور بے باکی سے بھر جاتی ہے خدا تعالیٰ کی غیرت اور جلال اور عزت تقاضا فرماتی ہے کہ دوبارہ اپنے تئیں لوگوں پر ظاہر فرماوے سو جیسا کہ اس کی قدیم سے سنت ہے ہمارے اس زمانہ میں جو ایسے ہی حالات اور علامات اپنے اندر جمع رکھتا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے چودھو یں صدی کے سر پر اس تجدیدِ ایمان اور معرفت کے لئے مبعوث فرمایا ہے اور اس کی تائید اور فضل سے میرے ہاتھ پر آسمانی نشان ظاہر ہوتے ہیں اور اس کے ارادہ اور مصلحت کے موافق دعائیں قبول ہوتی ہیں اور غیب کی باتیں بتلائی جاتی ہیں اور حقائق اور معارفِ قرآنی بیان فرمائے جاتے اور شریعت کے مُعْضِلَاتْ و مشکلات حل کئے جاتے ہیں اور مجھے اس خدائے کریم وعزیز کی قسم ہے جو جھوٹ کا دشمن اور مفتری کا نیست و نابود کرنے والا ہے کہ میں اس کی طرف سے ہوں اور اس کے بھیجنے سے عین وقت پر آیا ہوں اور اس کے حکم سے کھڑا ہوا ہوں اور وہ میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے ضائع نہیں کرے گا اور نہ میری جماعت کو تباہی میں ڈالے گا جب تک وہ اپنا تمام کام پورا نہ کر لے جس کا اس نے ارادہ فرمایا ہے۔ اس نے مجھے چودھویں صدی کے سر پر تکمیل نور کے لئے مامور فرمایا اور اس نے میری تصدیق کے لئے رمضان میں خسوف کسوف کیا اور زمین پر بہت سے کھلے کھلے نشان دکھلائے جو حق کے طالب کے لئے کافی تھے اور اس طرح اس نے اپنی حجت پوری کر دی۔‘‘ (اربعین نمبر2 ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 347-348)
پھر آپؑفرماتے ہیں غیروں کی طرف سے جو اعتراض ہوتا ہے کہ یہ سوال کرنا ان کا حق ہے کہ ہم کیونکر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا قبول کر لیں۔ آپؑ کا یہ دعویٰ ہے کس طرح قبول کر لیں۔ پھر اس پر دلیل کیا ہے کہ وہ مسیح موعود تم ہی ہو؟ ٹھیک ہے زمانہ پہچان ہے، حالات بھی ایسے ہیں سب کچھ ہے اور نشانیاں بھی ظاہر ہیں لیکن یہ کس طرح پتہ لگے گا کہ مسیح موعود تم ہی ہو؟ فرماتے ہیں کہ اس کا جواب یہ ہے کہ جس زمانے اور جس ملک اور جس قصبے میں مسیح موعودؑکا ظاہر ہونا قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے اورجن افعالِ خاصّہ کو مسیح کے وجود کی علت غائی ٹھہرایا گیا ہے اور جن حَوادِثِ ارضی اور سماوی کو مسیح موعودؑ کے ظاہر ہونے کی علامات بیان فرمایا گیا ہے اور جن علوم اور معارف کو مسیح موعودؑکا خاصہ ٹھہرایا گیا ہے وہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے مجھ میں اور میرے زمانے میں اور میرے ملک میں جمع کر دی ہیں۔حادثات بھی ہو رہے ہیں، بیماریاں بھی آ رہی ہیں، زلازل بھی آرہے ہیں، آسمانی نشانیاں بھی پوری ہو رہی ہیں، میرا دعویٰ بھی موجود ہے اور اللہ تعالیٰ میرے ہاتھوں سے نشان بھی دکھا رہا ہے تو پھر تم کس طرح کہتے ہو کہ میں نہیں ہوں۔ یہی تو دلیل ہے۔ وہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے مجھ میں اور میرے زمانے میں ا ور میرے ملک میں جمع کر دی ہیں اور پھر زیادہ تر اطمینان کے لیے آسمانی تائیدات میرے شامل حال کی ہیں۔(ماخوذ از کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ 254-255 بقیہ حاشیہ) اور آسمانی تائیدات میں آپؑنے بتایا کہ دمدار ستارے، سورج چاند گرہن، طاعون کا پھیلنا، زلزلے آنا بہت ساری چیزیں ہیں۔ سلسلہ کی ترقیات کی قبل از وقت اطلاع اور نشانات اور تائیدات کو بیان کرتے ہوئے آپؑنے بہت ساری باتیں بیان فرمائی ہیں۔ آپؑنے بڑی کتب لکھی ہیں اس بارے میں جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا تھا۔ ایک دو باتیں پیش کرتا ہوں۔
آپؑفرماتے ہیں کہ ’’ایک عظیم الشان نشان یہ ہے کہ آج سے تئیس برس پہلے براہین احمدیہ میں یہ الہام موجود ہے کہ لوگ کوشش کریں گے کہ اس سلسلہ کو مٹا دیں۔‘‘آج تک کوشش کر رہے ہیں، ایک سو تیس، بتیس سال گزر گئے۔ ’’اور ہر ایک مکر کام میں لائیں گے مگر میں اس سلسلہ کو بڑھاؤں گا‘‘اللہ تعالیٰ کہتا ہے ’’اور کامل کروں گا اور وہ ایک فوج ہو جائے گی اور قیامت تک ان کا غلبہ رہے گا اور میں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک شہرت دوں گا اور جوق در جوق لوگ دور سے آئیں گے اور ہر ایک طرف سے مالی مدد آئے گی۔ مکانوں کو وسیع کرو کہ یہ طیاری آسمان پر ہو رہی ہے۔ اب دیکھو کس زمانہ کی یہ پیشگوئی ہے جو آج پوری ہوئی۔ یہ خدا کے نشان ہیں جو آنکھوں والے ان کو دیکھ رہے ہیں مگر جو اندھے ہیں ان کے نزدیک ابھی تک کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا۔‘‘ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 384 - 385)
جیساکہ میں نے کہا ان کی بہت تفصیل ہے۔ چند نشانات اَور یہاں بیان کر دیتا ہوں۔ علمی نشانات اور تائیدات کے بارے میںآپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ ایک ہندو صاحب قادیان میں میرے پاس آئے جن کا نام یاد نہیں‘‘ پھر لکھا ہے کہ ’’(یاد آیا اس کا نام سوامی شُوگَن چندر تھا۔ منہ) رہا۔اور کہا کہ میں ایک مذہبی جلسہ (اس جلسہ کا نام دھرم مَہُوتَسُو جلسہ اعظم مذاہب مشہور کیا گیا تھا۔ منہ) کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ ایک مذہبی جلسہ کرنا چاہتا ہوں۔ ’’آپ بھی اپنے مذہب کی خوبیوں کے متعلق کچھ مضمون لکھیں تا اس جلسہ میں پڑھا جائے۔ میں نے عذرکیا پر اس نے بہت اصرار سے کہا کہ آپ ضرور لکھیں۔ چونکہ میں جانتاہوں کہ میں اپنی ذاتی طاقت سے کچھ بھی نہیں کر سکتا بلکہ مجھ میں کوئی طاقت نہیں۔ میں بغیر خدا کے بلائے بول نہیں سکتا اور بغیر اس کے دکھانے کے کچھ دیکھ نہیں سکتا اس لئے مَیں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ وہ مجھے ایسے مضمون کا القا کرے جو اس مجمع کی تمام تقریروں پر غالب رہے۔ میں نے دعا کے بعد دیکھا کہ ایک قوت میرے اندر پھونک دی گئی ہے۔ میں نے اس آسمانی قوت کی ایک حرکت اپنے اندر محسوس کی اور میرے دوست جو اس وقت حاضر تھے جانتے ہیں کہ میں نے اس مضمون کا کوئی مسودہ نہیں لکھا جو کچھ لکھا صرف قلم برداشتہ لکھا تھا اور ایسی تیزی اور جلدی سے میں لکھتا جاتا تھا کہ نقل کرنے والے کے لئے مشکل ہو گیا کہ اس قدر جلدی سے اس کی نقل لکھے۔ جب میں مضمون ختم کر چکا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ مضمون بالا رہا۔ خلاصہ کلام یہ کہ جب وہ مضمون اس مجمع میں پڑھا گیا تو اس کے پڑھنے کے وقت سامعین کے لئے ایک عالم وجد تھا‘‘ایک وجد کی کیفیت طاری تھی ’’اور ہر ایک طرف سے تحسین کی آواز تھی یہاں تک کہ ایک ہندو صاحب جو صدر نشین اس مجمع کے تھے۔‘‘ جن کی صدارت میں یہ جلسہ ہو رہا تھا۔’’ان کے منہ سے بھی بے اختیار نکل گیا کہ یہ مضمون تمام مضامین سے بالا رہا۔ اور سول اینڈ ملٹری گزٹ جو لاہور سے انگریزی میں ایک اخبار نکلتا ہے اس نے بھی شہادت کے طور پر شائع کیا کہ یہ مضمون بالا رہا۔ اور شائد بیس کے قریب ایسے اردو اخبار بھی ہوں گے جنہوں نے یہی شہادت دی اور اس مجمع میں بجز بعض متعصب لوگوں کے تمام زبانوں پر یہی تھا کہ یہی مضمون فتح یاب ہوا اور آج تک صدہا آدمی ایسے موجود ہیں جو یہی گواہی دے رہے ہیں۔‘‘ بلکہ آج بھی اس زمانے میں بھی اس کو پڑھ کر لوگ احمدیت قبول کر رہے ہیں۔ جو اسلامی اصول کی فلاسفی تھی۔ ’’غرض ہر ایک فرقہ کی شہادت اور نیز انگریزی اخباروں کی شہادت سے میری پیشگوئی پوری ہو گئی کہ مضمون بالا رہا۔ یہ مقابلہ اس مقابلہ کی مانند تھا جو موسیٰ نبی کو ساحروں کے ساتھ کرنا پڑا تھا کیونکہ اس مجمع میں مختلف خیالات کے آدمیوں نے اپنے اپنے مذہب کے متعلق تقریریں سنائی تھیں جن میں سے بعض عیسائی تھے اور بعض سناتن دھرم کے ہندو اور بعض آریہ سماج کے ہندو اور بعض برہمو اور بعض سکھ اور بعض ہمارے مخالف مسلمان تھے اور سب نے اپنی اپنی لاٹھیوں کے خیالی سانپ بنائے تھے لیکن جبکہ خدا نے میرے ہاتھ سے اسلامی راستی کا عصا ایک پاک اور پُر معارف تقریر کے پیرایہ میں ان کے مقابل پر چھوڑا تو وہ اژدہا بن کر سب کو نگل گیا اور آج تک قوم میں میری اس تقریر کا تعریف کے ساتھ چرچا ہے جو میرے منہ سے نکلی تھی۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ۔‘‘
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ291-292 مع حاشیہ)
’’پھر ایک اور پیشگوئی‘‘کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ یہ ’’نشانِ الٰہی ہے جس کا ذکر براہین احمدیہ …میں ہے اور وہ یہ ہے کہ یَااَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَةُ عَلٰی شَفَتَیْکَ ۔ اے احمد فصاحت بلاغت کے چشمے تیرے لبوں پر جاری کئے گئے۔ سو اس کی تصدیق کئی سال سے ہو رہی ہے۔ کئی کتابیں عربی بلیغ فصیح میں تالیف کر کے ہزارہا روپیہ کے انعام کے ساتھ علماء اسلام اور عیسائیوں کے سامنے پیش کی گئیں مگر کسی نے سر نہ اٹھایا اور کوئی مقابل پر نہ آیا۔ کیا یہ خدا کا نشان ہے یا انسان کا ہذیان ہے۔‘‘(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد11صفحہ 290-291)باتیں تو لوگ کرتے ہیں آج بھی کرتے ہیں لیکن اس وقت تو کوئی مقابلے پہ نہیں آیا۔
پھر دعا کی قبولیت کے نشان کے طور پر قبولیت دعا کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں۔ بیشمار واقعات ہیں ۔ میں یہ ایک پیش کرتا ہوں۔ فرمایا کہ ’’نشان جو ان دنوں میں ظاہر ہوا وہ ایک دعا کا قبول ہونا ہے جو در حقیقت احیائے موتی میں داخل ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ عبدالکریم نام ولد عبدالرحمٰن ساکن حیدرآباد دکھن ہمارے مدرسہ میں ایک لڑکا طالب العلم ہے۔ قضاء قدر سے اس کو سگِ دیوانہ کاٹ گیا۔‘‘ پاگل کتے نے اس کو کاٹ لیا۔’’ہم نے اس کو معالجہ کے لئے کَسولی بھیج دیا۔ چند روز تک اس کاکسولی میں علاج ہوتا رہا پھر وہ قادیان واپس آیا۔ تھوڑے دن گذرنے کے بعد اس میں وہ آثار دیوانگی کے ظاہر ہوئے۔‘‘ دوبارہ ظاہر ہو گئے ’’جو دیوانہ کتے کے کاٹنے کے بعد ظاہر ہوا کرتے ہیں اور پانی سے ڈرنے لگا اور خوفناک حالت پیدا ہو گئی۔ تب اس غریب الوطن عاجز کے لئے میرا دل سخت بیقرار ہوا۔‘‘ غریب الوطن ہے۔ بیچارا غریب آدمی وطن سے دُور ہے تو میرا دل بڑا سخت بے چین ہوا ’’اور دعا کے لئے ایک خاص توجہ پیدا ہو گئی۔ ہر ایک شخص سمجھتا تھا کہ وہ غریب چند گھنٹہ کے بعد مر جائے گا۔ ناچار اس کو بورڈنگ سے باہر نکال کر ایک الگ مکان میں دوسروں سے علیحدہ ہر ایک احتیاط سے رکھا گیا اور کسولی کے انگریز ڈاکٹروں کی طرف تار بھیج دی اور پوچھا گیا کہ اس حالت میں اس کا کوئی علاج بھی ہے۔ اس طرف سے بذریعہ تار جواب آیا کہ اب اس کا کوئی علاج نہیں مگر اس غریب اور بے وطن لڑکے کے لئے میرے دل میں بہت توجہ پیدا ہو گئی اور میرے دوستوں نے بھی اس کے لئے دعا کرنے کے لئے بہت ہی اصرا ر کیا کیونکہ اس غربت کی حالت میں وہ لڑکا قابل رحم تھا اور نیز دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر وہ مر گیاتو ایک برے رنگ میں اس کی موت شماتتِ اعداء کا موجب ہو گی۔‘‘دشمن جو ہےوہ، مخالفین جو ہیں وہ شور مچائیں گے کہ قبولیت دعا کے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ ’’تب میرا دل اس کے لئے سخت درد اور بیقراری میں مبتلا ہوا اور خارق عادت توجہ پیدا ہوئی جو اپنے اختیار سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ محض خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوتی ہے اور اگر پیدا ہو جائے۔‘‘ ایسی حالت دعا کی کیفیت ’’تو خدا تعالیٰ کے اذن سے وہ اثر دکھاتی ہے کہ قریب ہے کہ اس سے مردہ زندہ ہو جائے۔‘‘اتنا اثر ہوتا ہے اس کا۔ ’’غرض اس کے لئے اقبال علی اللہ کی حالت میسر آگئی اور جب وہ توجہ انتہا تک پہنچ گئی اور درد نے اپنا پورا تسلط میرے دل پر کر لیا۔‘‘ دعا کی ایسی کیفیت ہو گئی، دل درد سے بھر گیا ’’تب اس بیمار پر جو درحقیقت مردہ تھا اس توجہ کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے اور یا تو وہ پانی سے ڈرتا اور روشنی سے بھاگتا تھا اور یا یکدفعہ طبیعت نے صحت کی طرف رخ کیا اور اس نے کہا کہ اب مجھے پانی سے ڈر نہیں آتا۔ تب اس کو پانی دیا گیا تو اس نے بغیر کسی خوف کے پی لیا بلکہ پانی سے وضو کرکے نماز بھی پڑھ لی اور تمام رات سوتا رہا اور خوفناک اور وحشیانہ حالت جاتی رہی یہاں تک کہ چند روز تک بکلّی صحت یاب ہو گیا۔‘‘فرماتے ہیں کہ ’’میرے دل میں فی الفور ڈالا گیا کہ یہ دیوانگی کی حالت جو اس میں پیدا ہو گئی تھی یہ اس لئے نہیں تھی کہ وہ دیوانگی اس کو ہلاک کرے بلکہ اس لئے تھی کہ تا خدا کا نشان ظاہر ہو۔ اور تجربہ کار لوگ کہتے ہیں کہ کبھی دنیا میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ ایسی حالت میں کہ جب کسی کو دیوانہ کتے نے کاٹا ہو اور دیوانگی کے آثار ظاہر ہو گئے ہوں پھر کوئی شخص اس حالت سے جانبر ہو سکے اور اس سے زیادہ اس بات کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ جو ماہر اس فن کے کَسولی میں گورنمنٹ کی طرف سے سگ گزیدہ کے علاج کے لئے ڈاکٹر مقرر ہیں انہوں نے ہمارے تارکے جواب میں صاف لکھ دیا ہے کہ اب کوئی علاج نہیں ہو سکتا۔‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 480تا 481)
پھر ڈوئی کے نشان کا ذکر کرتے ہوئےآپؑ فرماتے ہیں:’’وہ ڈاکٹر ڈوئی جو امریکہ اور یورپ کی نگاہوں میں بادشاہوں کی طرح اپنی شوکت اور شان رکھتا تھا اس کو خدا نے میرے مباہلہ اور میری دعا سے ہلاک کیا اور ایک دنیا کو میری طرف جھکا دیا۔ اور یہ واقعہ دنیا کے تمام نامی اخباروں میں شہرت پاکر ایک عالمگیر شہرت کے رنگ میں زبان زدِ عوام و خواص ہو گیا۔‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 553)
پھر ایک اَور نشان کے بارے میں آپؑفرماتے ہیں کہ ’’مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنے طور پر مجھ سے مباہلہ کیا اور اپنی کتاب میں دعا کی کہ جو کاذب ہے خدا اس کو ہلاک کرے۔‘‘یکطرفہ مباہلہ تھا۔ ’’پھر اس دعا سے چند دن بعد آپ ہی ہلاک ہو گیا‘‘وہ مولوی۔’’یہ کس قدر مخالف مولویوں کے لئے نشان تھا اگر وہ سمجھتے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 239)
پھر ایک اَور نشان کے بارے میں آپؑبتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تائید کس طرح آپؑکے ساتھ ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’ہر ایک منصف مولوی غلام دستگیر قصوری کی کتاب کو دیکھ کر سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح اس نے اپنے طور پر میرے ساتھ مباہلہ کیا اور اپنی کتاب فیضِ رحمانی میں اس کو شائع کر دیا۔‘‘ اسی مولوی کا ذکر ہے جو پہلے ہو چکا ہے۔ ’’اور اپنی کتاب فیض رحمانی میں اس کو شائع کر دیا۔ اور پھر اس مباہلہ سے صرف چند روز بعد فوت ہو گیا اور کس طرح چراغدین جموں والے نے اپنے طور سے مباہلہ کیا اور لکھا کہ ہم دونوں میں سے جھوٹے کو خدا ہلاک کرے گا اور پھر اس سے صرف چند روز بعد طاعون سے مع اپنے دونوں لڑکوں کے ہلاک ہو گیا۔‘‘(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 71 حاشیہ)ایک دوسرا مولوی تھا جمونی۔
پھر آپؑفرماتے ہیں:’’میرے پر جو میری قوم طرح طرح کے اعتراض پیش کرتی ہے مجھے ان کے اعتراضوں کی کچھ بھی پروا نہیں اور سخت بے ایمانی ہوگی اگر مَیں ان سے ڈر کر سچائی کی راہ کو چھوڑ دوں اور خود ان کو سوچنا چاہئے کہ ایک شخص کو خدا نے اپنی طرف سے بصیرت عنایت فرمائی ہے اور آپ اس کو راہ دکھلا دی ہے اور اس کو اپنے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف فرمایا ہے اور ہزارہا نشان اس کی تصدیق کیلئے دکھلائے ہیں کیونکر ایک مخالف کی ظنیات کو کچھ چیز سمجھ کر اس آفتابِ صداقت سے منہ پھیر سکتا ہے۔‘‘ لوگوں کی باتوں سے متاثر ہو کے سچائی کو تو نہیں چھوڑ سکتا۔ فرمایا ’’اور مجھے اس بات کی بھی پروا نہیں کہ اندرونی اور بیرونی مخالف میری عیب جوئی میں مشغول ہیں کیونکہ اس سے بھی میری کرامت ہی ثابت ہوتی ہے۔‘‘ اگر عیب جوئی کر رہے ہیں تو یہ بھی میری کرامت ثابت ہو رہی ہے۔’’وجہ یہ‘‘ کس طرح ثابت ہو رہی ہے ’’کہ اگر میں ہر قسم کا عیب اپنے اندر رکھتا ہوں۔‘‘ جو کہتے ہیں فلاں فلاں فلاں عیب ہے۔ اگر ہر قسم کا عیب میں اپنے اندر رکھتا ہوں ’’اور بقول ان کے میں عہد شکن اور کذّاب اور دجّال اور مفتری اور خائن ہوں اور حرام خور ہوں اور قوم میں پھوٹ ڈالنے والا اور فتنہ انگیز ہوں اور فاسق اور فاجر ہوں اور خدا پر قریباً تیس برس سے افترا کرنے والا ہوں اور نیکوں اور راستبازوں کو گالیاں دینے والا ہوں اور میری روح میں بجز شرارت اور بدی اور بدکاری اور نفس پرستی کے اور کچھ نہیں اور محض دنیا کے ٹھگنے کے لئے میں نے یہ ایک دوکان بنائی ہے اور نعوذباللہ بقول ان کے میرا خدا پر بھی ایمان نہیں اور دنیا کا کوئی عیب نہیں جو مجھ میں نہیں مگر باوجود اِن باتوں کے جو تمام دنیا کے عیب مجھ میں موجود ہیں اور ہر ایک قسم کا ظلم میرے نفس میں بھرا ہوا ہے اور بہتوں کے میں نے بیجا طور پر مال کھالئے اور بہتوں کو میں نے‘‘ یہ لوگ کہتے ہیں ناں مال کھا لئے ’’ بہتوں کو میں نے (جو فرشتوں کی طرح پاک تھے) گالیاں دی ہیں‘‘پاک لوگوں کو میں نے گالیاں دی ہیں’’اور ہر ایک بدی اور ٹھگ بازی میں سب سے زیادہ حصہ لیا تو پھر اس میں کیا بھید ہے کہ بد اور بدکار اور خائن اور کذاب تو میں تھا مگر میرے مقابل پر ہر ایک فرشتہ سیرت جب آیا تو وہی مارا گیا۔ جس نے مباہلہ کیا وہی تباہ ہوا۔ جس نے میرے پر بد دعا کی وہ بد دعا اسی پر پڑی۔ جس نے میرے پر کوئی مقدمہ عدالت میں دائر کیا اسی نے شکست کھائی۔‘‘ سب کچھ تو میں ہوں، ساری باتیں، برائیاں میرے اندر ہیں لیکن میرے مقابلے پر جو بھی آتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ ختم کر دیتا ہے اور مجھے کامیابی عطا فرماتا ہے۔ عجیب قسم کے یہ الزامات میرے پہ ہیں۔ فرماتے ہیں ’’چنانچہ بطور نمونہ اسی کتاب میں‘‘حقیقۃ الوحی میں یہ آپؑبیان فرما رہے ہیں۔ ’’ان باتوں کا ثبوت مشاہدہ کر و گے۔‘‘ اس کتاب میں بہت سارے نمونے آپؑنے دیے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی پڑھے تو اس کو بیشمار باتیں نظر آئیں گی، نشانات نظر آئیں گے۔ فرمایا کہ ’’چاہئے تو یہ تھا کہ ایسے مقابلہ کے وقت مَیں ہی ہلاک ہوتا۔ میرے پر ہی بجلی پڑتی۔‘‘ اصول تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ مَیں ہلاک ہوتا۔ اگر میرے میں ساری برائیاں ہیں تو میرے پر بجلی پڑتی ’’بلکہ کسی کے مقابل پر کھڑے ہونے کی بھی ضرورت نہ تھی۔‘‘اگر میں ایسا تھا تو کسی کو میرے مقابلے پہ آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی’’کیونکہ مجرم کا خود خدا دشمن ہے۔‘‘ ایسا جرم کرنے والا ہوں مَیں تو خدا تو میرا دشمن خود ہی ہو جاتا۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں فساد تو نہیں چاہتا۔ فرماتے ہیں ’’پس برائے خدا سوچو کہ یہ الٹا اثر کیوں ظاہر ہوا کیوں میرے مقابل پر نیک مارے گئے‘‘جو نام نہاد نیک تھے’’اور ہر ایک مقابلہ میں خدا نے مجھے بچا یا۔ کیا اس سے میری کرامت ثابت نہیں ہوتی؟‘‘ یہ الزام جو تم لگا رہے ہو یہ بھی میری کرامت ہے اور اس سے بھی میری سچائی ثابت ہوتی ہے۔ ’’پس یہ شکر کا مقام ہے کہ جو بدیاں میری طرف منسوب کی جاتی ہیں وہ بھی میری کرامت ہی ثابت کرتی ہیں۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 2)
بہرحال یہ چند مثالیں ا ور باتیں مَیں نے آپ علیہ السلام کے حوالوں سے مختصر بیان کی ہیں۔ کاش کہ مخالفین آپؑکی کتب پڑھیں۔ آپؑکے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدات و نشانات کو دیکھیں جو صفحات پر نہیں جیساکہ میں نے کہا کئی کتابوں پر مشتمل ہیں۔ زمانے کی ضرورت کو بھی دیکھیں بلکہ زمانے کی ضرورت کے مطابق خود یہ اعتراض کرنے والے علماء بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ زمانہ کسی مصلح اور مہدی کو چاہتا ہے لیکن پھر بھی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہے اس کا خود بھی انکار کر رہے ہیں اور عامۃ المسلمین کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔ آسمانی نشانیاں پوری ہوئیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں پوری ہوئیں، لیکن پھر بھی یہ اپنی بدقسمتی کو ہی آواز دے رہے ہیں۔ اس طرف نہیں دیکھتے۔ آج مسلمان اگر اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ جو مسیح ومہدی آنے والا تھا وہ آ گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی عاشق اور غلامِ صادق بھی یہی ہے اور اس کی بیعت میں آنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بموجب ضروری ہے اور کامل وفا کے ساتھ اس کی بیعت میں شامل ہو جائیں تو مسلمان ان کو ماننے کے بعد دنیا میں اپنی برتری منوا سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بن سکتے ہیں ورنہ یہی ان کا حال رہنا ہے جو ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل اور سمجھ دے۔ رمضان کے مہینے میں احمدی جہاں اپنے لیے دعا کریں اور جماعت کےہر قسم کے فتنے سے بچنے کے لیے بھی دعا کریں وہاں مسلم امہ کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے اور اندھیروں سے انہیں نکالے اور انہیں اس بات کا ادراک عطا فرمائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ختم نبوت کو حقیقی طور پر جاننے والے ہوں۔ اس بات کا ادراک ان کو حاصل ہو جائے کہ مقام ختم نبوت کو حقیقی طور پر جاننے والے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود اور مہدی معہود ہی ہیں اور آپؑ کی جماعت ہی ہے۔ پاکستان کے احمدیوں کو خاص طور پر اپنے ملک کے لیے بھی دعا کرنی چاہیے۔ پاکستانی احمدیوں کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فتنہ پردازوں اور شرپسند اور خود غرض عناصر اور لیڈروں سے ملک کو بچائے۔
اسی طرح برکینا فاسو کے احمدیوں کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہر شر سے محفوظ رکھے۔ بنگلہ دیش کے احمدیوں کو خاص طور پر دعاؤں میں یاد رکھیں۔ وہاں بھی ہر جمعے کوئی نہ کوئی خطرہ رہتا ہے۔دنیائے احمدیت کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہر شر سے ہر احمدی کو محفوظ رکھے اور ہر احمدی کو ثبات قدم عطا فرمائے اور ایمان اور یقین میں بڑھائے۔ دنیا کے تباہی سے بچنے کے لیے بھی دعا کریں۔ آج کل جو حالات ہیں کہ دنیا آگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ظاہری جنگوں کی طرف بھی بڑھ رہی ہے اس کی وجہ سے بھی تباہی آنی ہے اور اخلاقی برائیاں بھی جو انتہا کو پہنچ چکی ہیں اور اللہ تعالیٰ کو جس طرح یہ لوگ چھوڑ رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے والے نہ یہ بن جائیں اور اس کی وجہ سے پھر اللہ تعالیٰ کا عذاب نہ ان پر نازل ہو۔
اللہ تعالیٰ احمدیوں کو ہر شر سے بچائے۔ احمدیوں کو اپنا فرض اور حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قسم کی آفات سے بچاتے ہوئے اپنی حفاظت اور پناہ میں لے لے۔ ایک یہ بھی اعلان کر دوں کہ کل تئیس مارچ سے الفضل انٹرنیشنل جو ہفتہ وار بلکہ ہفتہ میں دو دفعہ شروع ہو گیا تھا اب وہ روزنامہ الفضل کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ اردو جاننے والوں، پڑھنے والوں کو اس کو پڑھنا بھی چاہیے، خریدنا بھی چاہیے، سبسکرائب کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس سے فیض اٹھانے کی سب کو توفیق دے اور الفضل میں لکھنے والوں کو بھی توفیق دے کہ وہ اعلیٰ مضامین لکھنے والے ہوں۔(روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 14؍اپریل2023ءصفحہ2تا7)