اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-29

رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں، بغیر کسی شرعی عذر کے چھوڑنا گناہ ہے

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ سیّد الشہور کی آمد آمد ہے۔شہر عظیم کی آمد ہے۔ اُس شہر عظیم کی جس کی ایک رات ہزار راتوں سے افضل ہے۔شہر صبر کی آمد ہےجس صبر کا ثواب جنت ہے۔ شہر مواساۃ کی آمد ہے۔اُس شہر کی آمد ہے جس میں مومن کا رزق زیادہ کیا جاتا ہے۔ شہر رحمت کی آمد ہے، شہر مغفرت کی آمد ہے۔ آگ سے آزادی کے مہینے کی آمد ہے۔ اُس ماہ کی آمد ہے جس کے آنے سے دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اُس ماہ کی آمد ہے جس میں قرآن جیسی عظیم کتاب نازل ہوئی جو ہُدیً للناس ہے۔ اُس ماہ کی آمد ہے جس کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کی لقا ہے۔
پس ایسے عظیم الشان مہینے کو ہم اھلا و سہلا و مرحبا کہتے ہیں اور اس کا دل کی گہرائیوں سے استقبال کرتے ہیں۔ اور ہم منتظر تھے کہ یہ مہینہ آئے اور ہم اس کے روزے رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحت و سلامتی کے ساتھ اس کے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائےاور اسے قبول بھی فرمائے۔ آمین۔
اتنا عظیم الشان مہینہ ، اوراس قدر خوبیوں اور بھلائیوں کا یہ مہینہ ہے کہ ، ضرور تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے بنی نوع انسان کے لئے فرض قرار دیتا، یعنی اس کے روزے رکھنا۔ جو چیز بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہو اللہ تعالیٰ اُسے فرض قرار ددے دیتا ہے اور جو چیز بنی نوع انسان کے لئے انتہائی مضر ہو اللہ تعالیٰ اُسے حرام قرار دے دیتا ہے۔ پس روزے کی فرضیت بتاتی ہے کہ اس میں عظیم الشان فوائد ہیںاور اس ماہِ مبارک کی جو اُوپرخصویات بتائی گئی ہیں جن کا احادیث میں ذکر ہے وہ خصوصیات بتاتی ہیں کہ روزے کی فرضیت ضروری تھی۔ روزے کی فرضیت کے متعلق سب سے پہلے قرآن مجید کی آیات پیش کی جاتی ہیں تاکہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے روزے کی فرضیت کن الفاظ میں بیان فرمائی ہےاور بنی نوع انسان کے لئے روزہ رکھنا اللہ کی نظر میں کس قدر ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۴ۙ (سورۃ البقرہ آیت 184)
ترجمہ  :: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر (بھی) روزوں کا رکھنا (اسی طرح) فرض کیا گیا ہے جس طرح ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گذر چکے ہیں تا کہ تم (روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے) بچو۔
كَتَبَکے لفظ سے اللہ تعالیٰ نے روزے کی فرضیت بیان فرمائی ہے۔كَتَبَکے معنے لکھنے کے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزےکی فرضیت اس قدر اہم اور اس قدر ضروری تھی کہ ہم نے اس کی فرضیت لکھ چھوڑی ہےکہ ایسا ہوگا ہی ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے كَتَبَ اللہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ۝۰ۭکہ میرا اور میرے رسول کا غلبہ ایسا اٹل فیصلہ ہے کہ یہ لکھ چھوڑا گیا ہے۔ پس جس طرح خدا اور اس کا رسول کبھی بھی اور کسی قیمت پر بھی مغلوب نہیں ہوسکتے ، اور اس کے لئے کتب کے لفظ سے اس کی فرضیت لکھ چھوڑی گئی ہے ایسا ہی روزے کی فرضیت اس قدر اہم اور بنی نوع انسان کے لئے اتنی ضروری تھی کہ اسے اللہ تعالیٰ نے کتب کے لفظ سے ادا کی اور اس کی فرضیت لکھ چھوڑی ۔
یہ قرآن مجید کی شان ہے کہ جب کوئی حکم دیتا ہے تو اس کی اہمیت اور فوائد پر بھی روشنی ڈالتا ہے، دلیل سے بات کرتا ہے۔ اس کا کوئی بھی حکم بے حکمت اور اندھا دھُند نہیں ہوتا۔ چنانچہ روزے کی حکمت اور فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لعلم تتقون ، تا کہ تم ہر قسم کی رُوحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے بچ جاؤ۔ پس كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُکے الفاظ سے اور پھرلَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ کے الفاظ سے اللہ تعالیٰ روزے رکھنے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔
پھر آگے چل کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۸۵
ترجمہ :: اور اگر تم علم رکھتے ہو تو (سمجھ سکتے ہو کہ) تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کاش تم سمجھ سکتے کہ روزے رکھنا تمہارے لئے یقیناً بہتر اور فائدے کا موجب ہے۔ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَکے الفاظ بتاتے ہیں کہ روزے کے فوائد عظیم الشان ہیں اور اللہ چاہتا ہے کہ کاش لوگ اس کی اہمیت اور برکات اور اس کے فوائد کو سمجھ سکیں اور روزہ رکھیں۔
پھر آگے چل کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝۰ۭ
ترجمہ :: اور تم میںسے جو شخص اس مہینہ کو (اس حال میں) دیکھے (کہ نہ مریض ہو نہ مسافر) اسے چاہئے کہ وہ اس کے روزے رکھے۔
یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمادیا ہے کہ جو شخص صحت و تندرستی کی حالت میں اس ماہ کو پائے اس کو چاہئے کہ وہ اس کے روزے رکھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے
(1) كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ
(2) وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
(3) فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝۰ۭ
کے الفاظ سے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ایک بار بلکہ بار بار روزے رکھنے کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے۔ اللہ ہمارا خالق ۔ وہی سب سے بہتر جانتا ہے کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے اور کس چیز کی نہیں، کیونکہ خالق اپنی تخلیق سے جس قدر آگاہی رکھتا ہے کوئی اَور نہیں رکھتا۔ پس یہ ہمارے خالق کا حکم ہے جو ہماری مشینری کی باریکیوں سے آگاہ ہے ، اور وہ چاہتا ہے کہ مسلمان روزے رکھیں اور ہر قسم کی رُوحانی اور جسمانی آفات سے بچیں۔ نماز اور روزے کو تو غیر بھی رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اگر ہم ہی اس کی بہتری اور فوائد کے قائل نہ ہوئے تو ہم پر افسوس ہے۔ بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اگر ایک روزہ بھی انسان بغیر کسی شرعی عذر کے چھوڑدیتا ہے پھر پوری زندگی اس کی بھرپائی نہیں کرسکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ مَنْ اَفْطَرَ یَوْمًا مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ مِنْ غَیْرِ رُخْصَۃٍ وَلَا مَرَضٍ فَلَا یَقْضِیْہِ صِیَامُ الدَّھْرِ کُلِّہٖ وَلَوْ صَامَ الدَّھْرَ۔‘‘
ترجمہ :: جو شخص بلا عذر رمضان کا ایک روزہ بھی ترک کرتا ہے وہ شخص اگر بعد میں تمام عمر بھی اس روزہ کے بدلہ میں روزے رکھے تو بھی بدلہ نہیں چکا سکے گا۔ اور اس غلطی کا تدارک نہیں ہو سکے گا۔
اللہ کے حکم کی فرمانبرداری میں صرف کچھ گھنٹے کھانے پینے کی پابندی برداشت کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ اللہ کی نافرمانی میں پیٹ میں جانے والا کھانا اور پانی کچھ مفید ثابت نہیں ہوسکتا۔ ایسے شخص کا عام روز مرہ کا کھانا بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والا ہی سمجھا جائے گاکیونکہ جس نے ایک مہینہ نافرمانی کی باقی دنوں میں بھی وہ نافرمان ہی سمجھا جائے گا۔ اور جو اللہ کی فرمانبرداری میں روزے رکھتا ہے اُس کا پورے سال کا کھانا پینا اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اطاعت میں سمجھا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہِ مبارک میں ہر قسم کی بیماریوں اور آفات و مصائب سے بچاکر رکھے اور اس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

(منصور حمد مسرور)

…٭…٭…٭…