اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-22

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا عظیم الشان مقام ومنصب

سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کی نہایت پُرشوکت و عظیم الشان بشارات کے تحت 12 جنوری 1889 کو زمانے کے امام، مسیح موعود و مہدیٔ معہود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے گھر پیدا ہوئے۔ آپؓ کی خلافت کے متعلق پیشگوئیاں صدیوں سے چلی آتی ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے بھی آپؓ کے متعلق پیشگوئی فرمائی کہ مسیح موعود کا ایک بیٹا بہت خاص عظمت و شان کا حامل ہوگا۔ آنحضرت ﷺ سے پہلے اور بعد کے بزرگان کی بھی پیشگوئیاں آپؓکے متعلق ملتی ہیں۔ ان تمام پیشگوئیوں کو جب یکجائی نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعودؑ کا وہ فرزند یقیناً ایک خاص عظمت و شان کا حامل ہوگا، لیکن اس کا صحیح اندازہ اور اس کی تفصیل کا علم سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اُن پیشگوئیوں سے ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپؑکو عطا فرمائیں جو پیشگوئی مصلح موعود کے نام سے جماعت میں معروف ہے۔ پیشگوئی مصلح موعود میں پچاس سے اُوپر آپؓکی صفات بیان ہوئی ہیں لیکن ایک بات جس سے دل و دماغ خاص طور پر متاثر ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ’’کَاَنَّ اللہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ ‘‘کہ آپؓکا آنا ایسا ہی ہے جیسے خدا آسمان سے اُتر آیا ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان تائید و نصرت کی طرف اشارہ تھا۔یہ مقام ذرا رُک کر غور کرنے کے قابل ہے کہ وہ انسان جس کی آمد کو اللہ تعالیٰ اپنی آمد قرار دیتا ہے وہ کس شان اور مرتبہ اور مقام کا انسان ہوگا ۔ بلا شُبہ آپ کی ہستی کوئی معمولی ہستی نہیں تھی آپؓ کا وجود کوئی معمولی وجود نہیں تھا بلکہ : ’’آپ اُن ممتاز اَبنائے آدم میں سے تھے جو صدیوں ہی میں نہیں بلکہ ہزاروں سال میں کبھی ایک بار اُفقِ انسانیت پر طلوع ہوتے ہیں اور جن کی روشنی صرف ایک نسل کو نہیں بلکہ بیسیوں انسانی نسلوں کو اپنی ضیاء پاشی سے منور کرتی رہتی ہے ۔ ‘‘
اللہ جل شانہ کی طرف سے آپؓ کو ’’ کَاَنَّ اللہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ ‘‘ کا خراج تحسین ایسا زبردست ہے کہ اس سے بڑھ کر ممکن نہیں۔ یہ اللہ جل شانہ کی طرف سے وہ القاب و خطاب ہے جس سے آپؓکے بہت ہی عظیم الشان ہونے کا پتا ملتا ہے۔ آپؓباون سال تک مسند خلافت پر متمکن رہے اس عرصہ میں آپ نے اسلام احمدیت کی وہ عظیم الشان خدمت کی اور ایسے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے کہ جو صرف اور صرف ایک نبی کا خاصہ ہوتا ہے ۔ گرچہ کہ اللہ جل شانہ نے آپ کو نبی کے نام سے موسوم نہیں کیا لیکن کام اُس نے آپؓ سے نبیوں والا ہی لیا ۔آپؓخود فرماتے ہیں کہ مَیں مامور نہیں مگر میری آواز خدا تعالیٰ کی آواز ہے اور میرا مقام خلافت اور ماموریت کے درمیان کا مقام ہے۔1936ء کی شوریٰ کے موقع پر آپؓنے فرمایا  :
’’ایک خلافت تو یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں سے خلیفہ منتخب کراتا ہے اور پھر اُسے قبول کر لیتا ہے مگر یہ ویسی خلافت نہیں۔یعنی میں اس لئے خلیفہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اوّل کی وفات کے دوسرے دن جماعت احمدیہ کے لوگوں نے جمع ہوکر میری خلافت پر اتفاق کیا، بلکہ اس لئے بھی خلیفہ ہوں کہ حضرت خلیفہ اوّل کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہوں گا۔ پس میں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں۔ میں مامور نہیں مگر میری آواز خدا تعالیٰ کی آواز ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی۔ گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے اور یہ موقع ایسا نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ اسے رائیگاں جانے دے اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو جائے۔ جس طرح یہ بات درست ہے کہ نبی روز روز نہیں آتے، اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ موعود خلیفہ بھی روز روز نہیں آتے۔‘‘ (سوانح فضل عمرؓ،جلد4 ،صفحہ508 ،ناشر فضل عمر فاؤنڈیشن)
ذیل میں ہم بعض کچھ اَور ارشادات پیش کرتے ہیں جن سے سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے عظیم الشان منصب اور مقام اور آپؓ کے عظیم کارناموں اور آپؓ کی تبحر علمی اور تعلق باللہ کا پتا ملتا ہے،اور جن سے یہ معلوم ہوگا کہ جریٔ اللہ فی حلل الانبیاء کا فرزند ارجمند آپؑ کا مثیل بھی آپؑہی کی طرح اسلام کا ایک زبردست پہلوان تھاجس کے آگے کسی کو زبان کھولنے کی جرأت نہیں تھی۔ آپؓ فرماتے ہیں :
’’ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد تمام دنیا کو چیلنج دیتا ہوں کہ اگر کوئی شخص ایسا ہے جسے اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کےسچا ہونے کا یقین ہے تو آئے اور آ کر ہم سے مقابلہ کرے ۔ مجھے تجربہ کے ذریعہ ثابت ہو گیا ہے کہ اسلام ہی زند ہ مذہب ہے اور کوئی مذہب اس کے مقابلہ پر نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ خداتعالی ہماری دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے اور ایسے حالات میں قبول کرتا ہے جب کہ ظاہری سامان بالکل مخالف ہوتے ہیں اور یہی اسلام کے زند ہ مذہب ہونے کی بہت بڑی علامت ہے ۔ اگر کسی کو شک وشبہ ہے تو آئے اور آزمائے۔ ہاتھ کنگن کو آ رسی کیا ۔ اگر کوئی ایسے لوگ ہیں جنہیں یقین ہے کہ ہمارا مذہب زندہ ہے تو آئیں ان کے ساتھ جو خدا کا تعلق اور محبت ہے اس کا ثبوت دیں ۔ اگر خدا کو ان سے محبت ہو گی تو وہ مقابلہ میں ضرور ان کی مدد اور تائید کرے گا …میں ان کو چیلنج دیتا ہوں کہ مقابلہ پر آئیں تا کہ ثابت ہو کہ خدا کس کی مدد کرتا ہے اور کس کی دعا سنتا ہے ۔ آپ لوگوں کو چاہئے کہ اپنی طرف سے لوگوں کو اس مقابلہ کیلئے کھڑا کریں لیکن اس کیلئے یہ نہیں ہے کہ ہر ایک کھڑا ہو کر کہہ دے کہ میں مقابلہ کرتا ہوں بلکہ ان کو مقابلہ پر آنا چاہئے جوکسی مذہب یا فرقہ کے قائم مقام ہوں۔ اُس وقت دنیا کومعلوم ہوجائے گا کہ خداکس کی دعا قبول کرتا ہے ۔ میںدعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہماری ہی دعا قبول ہوگی ۔ افسوس ہے کہ مختلف مذاہب کے بڑے لوگ اس مقابلہ پر آنے سے ڈرتے ہیں ۔ اگر وہ مقابلہ کی لئے نکلیں تو ان کو ایسی شکست نصیب ہوگی کہ پھر مقابلہ کر نے کی انہیںجرأت ہی نہ رہے گی۔ ‘ ‘( زندہ مذہب، انوارالعلوم، جلد 3، صفحہ 612 )
آپؓفرماتے ہیں :’’ دنیا کا کوئی علم ایسا نہیں جس کے اصول کو میں نہ سمجھتا ہوں ،بغیر اس کے کہ میں نے ان علوم کی کتابیں پڑھی ہوں مجھے خدا تعالیٰ نے انکے متعلق علم دیا ہے اور چونکہ میں قرآن کے ماتحت ان علوم کو دیکھتا ہوں اس لئے ہمیشہ صحیح نتیجہ پر پہنچتا ہوں اور کبھی ایک دفعہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے اپنی رائے کو تبدیل نہیں کرنا پڑا۔‘‘ (خطبات محمود، جلد 13،صفحہ 502)
آپؓفرماتے ہیں :’ ’ خدا تعالی کی صفت علیم جس شان اور جس جاہ و جلال کے ساتھ میرے ذریعہ جلوہ گر ہوئی ، اس کی مثال مجھے خلفاء کے زمرہ میں اور کہیں نظر نہیں آتی ۔ مَیں وہ تھا جسےکل کا بچہ کہا جا تا تھا ، میں وہ تھا جسے احمق اور نادان قرار دیا جاتا تھا مگر عہدۂ خلافت کو سنبھالنے کے بعد اللہ تعالی نے مجھ پر قر آ نی علوم اتنی کثرت کے ساتھ کھولے کہ اب قیامت تک امت مسلمہ اس بات پر مجبور ہے کہ میری کتابوں کو پڑ ھے اور ان سے فائدہ اٹھائے ۔ وہ کون سا اسلامی مسئلہ ہے جو اللہ تعالی نے میرے ذریعہ اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ نہیں کھولا۔ مسئلہ نبوت ، مسئلہ کفر ، مسئلہ خلافت ، مسئلہ تقدیر ، قرآ نی ضروری امور کا انکشاف ، اسلامی اقتصادیات ، اسلامی سیاسیات اور اسلامی معاشرت وغیرہ پر تیرہ سو سال سے کوئی وسیع مضمون موجود نہیں تھا ۔ مجھےخدانے اس خدمت دین کی توفیق دی اور اللہ تعالی نے میرے ذریعہ سے ہی ان مضامین کے متعلق قرآن کے معارف کھولے جن کو آج دوست دشمن سب نقل کر رہے ہیں ۔ مجھے کوئی لاکھ گالیاں دے، مجھے لاکھ برا بھلا کہے، جو شخص اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے لگے گا اسے میرا خوشہ چیں ہونا پڑے گا اور وہ میرے احسان سے کبھی باہر نہیں جا سکے گا چاہے پیغامی ہوں یا مصری، ان کی اولادیں جب بھی دین کی خدمت کا ارادہ کریں گی وہ اس بات پر مجبور ہوں گی کہ میری کتابوں کو پڑھیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں بلکہ مَیں بغیر فخر کے کہہ سکتا ہوں کہ اس بارہ میں سب خلفاء سے زیادہ مواد میرے ذریعہ سے جمع ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ پس مجھے یہ لوگ خواہ کچھ کہیں، خواہ کتنی بھی گالیاں دیں ان کے دامن میں اگر قرآن کے علوم پڑیں گے تو میرے ذریعہ ہی، اور دنیا ان کو یہ کہنے پر مجبور ہو گی کہ اَے نادانو! تمہاری جھولی میں تو جو کچھ بھرا ہوا ہے وہ تم نے اسی سے لیا ہے۔ پھر اس کی مخالفت تم کس منہ سے کر رہے ہو؟(خلافت راشدہ، انوار العلوم، جلد15، صفحہ587)
سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ذریعہ پوری دُنیا میں اسلام کی تبلیغ ہوئی اور جماعت پوری دُنیا میں پھیل گئی۔ 1944 میں جبکہ آپؓکی خلافت کے ابھی بیس سال باقی تھے، احمدیت کس قدر وسعت اختیار کرچکی تھی ملاحظہ فرمائیں۔ آپؓفرماتے ہیں :
’’مَیں نے دنیا کے مختلف اطراف میں اسلام اور احمدیت کو پھیلانے کے لئے مشن قائم کر دئیے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوئے اس وقت صرف ہندوستان اور کسی قدر افغانستان میں جماعت احمدیہ قائم تھی باقی کسی جگہ احمدیہ مشن قائم نہیں تھا۔ مگر جیسا کہ خدا نے پیشگوئی میں بتایا تھا وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا، اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ مختلف ممالک میں احمدیہ مشن قائم کروں۔ چنانچہ مَیں نے اپنی خلافت کےابتدا میں ہی انگلستان، سیلون اور ماریشس میں احمدیہ مشن قائم کئے۔ پھر یہ سلسلہ بڑھا اور بڑھتا چلا گیا۔ چنانچہ ایران میں، روس میں، عراق میں، مصر میں، شام میں، فلسطین میں، لیگوس نائیجیریا میں، گولڈ کوسٹ میں سیرالیون میں، ایسٹ افریقہ میں، یورپ میںسے انگلستان کے علاوہ سپین میں، اٹلی میں،زیکو سلواکیہ میں، ہنگری میں، پولینڈ میں، یوگو سلاویہ میں، البانیہ میں، جرمنی میں، یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں، ارجنٹائن میں، چین میں، جاپان میں، ملایا میں، سٹریٹ سیٹل منٹس میں، سماٹرا میں، جاوا میں، سُرابایا میں، کاشغر میں خدا کے فضل سے مشن قائم ہوئے۔ ان میں سے بعض مبلغ اس وقت دشمن کے ہاتھوں میں قید ہیں، بعض کام کر رہے ہیںاور بعض مشن جنگ (یعنی جو دوسری جنگ عظیم تھی) کی وجہ سے عارضی طور پر بند کر دئیے گئے ہیں۔ غرض دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو آج سلسلہ احمدیہ سے واقف نہ ہو۔ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو یہ محسوس نہ کرتی ہو کہ احمدیت ایک بڑھتا ہوا سیلاب ہے جو ان کے ملکوں کی طرف آ رہا ہے۔ حکومتیں اس کے اثر کو محسوس کر رہی ہیں بلکہ بعض حکومتیں اس کو دبانے کی بھی کوشش کرتی ہیں۔ چنانچہ روس میں جب ہمارا مبلغ گیا تو اسے سخت تکلیفیں دی گئیں، اُسے مارا بھی گیا، پیٹا گیا اور ایک لمبے عرصہ تک قید رکھا گیا۔ لیکن چونکہ خدا کا وعدہ تھا کہ وہ اس سلسلہ کو پھیلائے گا اور میرے ذریعہ اس کو دنیا کے کناروں تک شہرت دے گا اس لئے اس نے اپنے فضل و کرم سے ان تمام مقامات میں احمدیت کو پہنچایا بلکہ بعض مقامات پر بڑی بڑی جماعتیں قائم کرد یں۔‘‘ (دعویٰ مصلح موعود کے متعلق پُرشوکت اعلان، انوار العلوم، جلد17، صفحہ155)
ایک احمدی ،ڈاکٹر لطیف احمد صاحب فرماتے ہیں  :ایک دفعہ ایک لیبر لیڈر میرے پاس آئے وہ ساری دنیا کا دَورہ کرکے آئے تھے اور اپنے سفر کے حالات سنارہے تھے کہ مَیں امریکہ کے صدر نکسن سے بھی ملا، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی کے سربراہوں سے بھی ملاقات کی، چواین لائی کو بھی دیکھا، ان سب میں ماؤزے تنگ حیرت انگیز دماغی صلاحیتوں کا مالک ہے، اس فقرہ کے بعد اچانک خاموشی چھاگئی، اس کی نگاہیں ٹکٹکی باندھے ایک جانب دیکھ رہی تھیں، مَیں نے دیکھا کہ کانس پر پڑی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی تصویر پر ان کی نگاہیں جمی ہیں، جس کو غالباً شروع میںمیرے گھر آکر انہوں نے نوٹ نہیں کیا تھا، مَیں نے ان کی محویت توڑتے ہوئے پوچھا، کیا ہوا؟ کہنے لگے یہ سچ ہے کہ ماؤزے تنگ عظیم شخصیت ہے لیکن حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد سے میری زندگی میں ایک بار ملاقات ہوئی، جس کو تادمِ آخر نہ بھول سکوں گا، اس دماغ کا انسان روئے زمین پر نہ مل سکے گا، افسوس نادر روزگار ہستی بہت جلد ہم سے جدا ہوگئی۔ (سوانح فضل عمر، جلد 5، صفحہ 551)
سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  :’’ گو مَیں مر جاؤں گا مگر میرا نام کبھی نہیں مٹے گا ۔ یہ خدا کا فیصلہ ہے جو آسمان پر ہوچکا ہے کہ وہ میرے نام اور میرے کام کو دُنیا میں قائم رکھے گا۔‘‘ (اختتامی خطاب جلسہ سالانہ 1961) ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔ (منصور احمد مسرور)

…٭…٭…٭…