’’مجھ کو کافر کہہ کے اپنے کفر پر کرتے ہیں مہر
یہ تو ہے سب شکل ان کی ہم تو ہیں آئینہ دار‘‘
(منظوم کلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام )
گزشتہ تیرہ شماروں سے ہم اخبار ’’منصف‘‘ حیدرآباد کے، بانی ٔجماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام پر اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ اعتراضات کی تفصیل اور اسکا پس منظر 17 اگست کے شمارہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔منصفنےایک اعتراض یہکیا کہ :
’’خود قادیانی ہم مسلمانوں کو مسلمان نہیں مانتے، گویا کہ انکی نظر میں ہم مسلمان کافر ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی اپنی کتاب تذکرہ صفحہ نمبر 519 پر یہ فتویٰ دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے اور خدا کے نزدیک قابل مؤاخذہ ہے۔‘‘
گزشتہ دو شماروں میں منصف کے اس اعتراض کا ہم کافی و شافی جواب دے چکے ہیں۔ علماءِ اُمت کا یہ قول ہے کہ مسیح و مہدی کا انکار کرنے والا کافر ہوگا۔ اور آنحضرت ﷺ کی حدیث ہے کہ جس نے مہدی کا انکار کیا اُس نے محمد کا انکار کیا۔ اور آنحضرت ﷺ کی یہ بھی حدیث ہے کہ مؤمن کو کافر کہنے والا خود کافر ہوجاتا ہے۔ غیر احمدی علماء اور اُن کے پیچھے چلنے والے، امام مہدی علیہ السلام اور ان کی جماعت کو کافر کہہ کر حدیث کی رُو سے کافر ہوگئے۔ اب اخبار ’’منصف‘‘ کےایڈیٹر صاحب بتائیں کہ آنحضرت ﷺ کے فرمان اور ارشادات کو ہم تسلیم کریں یا نہیں؟ہمارے لئے سرکارِ دو عالم ﷺ کے اس فرمان کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس ضمن میں ہم سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض ارشادات پیش کرتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں :
’’ جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا کیونکہ میری نسبت خدا اور رسول کی پیشگوئی موجود ہے۔ یعنی رسول اللہ ﷺ نے خبر دی تھی کہ آخری زمانہ میں میری اُمت میں سے ہی مسیح موعود آئے گا اور آنحضرت ﷺ نے یہ بھی خبر دی تھی کہ میں معراج کی رات میں مسیح ابن مریم کو اُن نبیوں میں دیکھ آیا ہوں جو اِس دنیا سے گذر گئے ہیں اور یحییٰ شہید کے پاس دوسرے آسمان میںاُن کو دیکھا ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں خبر دی کہ مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور خدا نے میری سچائی کی گواہی کے لئے تین لاکھ سے زیادہ آسمانی نشان ظاہر کئے اور آسمان پر کسوف خسوف رمضان میں ہوا۔ اب جو شخص خدا اور رسول کے بیان کو نہیں مانتا اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے اور عمدًا خدا تعالیٰ کے نشانوں کو ردّ کرتا ہے اور مجھ کو باوجود صدہا نشانوں کے مُفتری ٹھہراتا ہے تو وہ مومن کیونکر ہو سکتا ہے اور اگر وہ مومن ہے تو میں بوجہ افترا کرنے کے کافر ٹھہرا کیونکہ میں اُن کی نظر میں مفتری ہوں اور اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔ قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا۰ۭ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰكِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ۰ۭیعنی عرب کے دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ اُن سے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے، ہاں یوں کہو کہ ہم نے اطاعت اختیار کر لی ہے اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ پس جبکہ خدا اطاعت کرنے والوں کا نام مومن نہیںرکھتا، پھروہ لوگ خدا کے نزدیک کیونکر مومن ہو سکتے ہیں جو کھلے کھلے طور پر خدا کے کلام کی تکذیب کرتے ہیںاور خدا تعالیٰ کے ہزار ہانشان دیکھ کر جو زمین اور آسمان میں ظاہر ہوئے پھر بھی میری تکذیب سے باز نہیں آتے۔ وہ خود اس بات کا اقرار رکھتے ہیں کہ اگر میں مفتری نہیں اور مومن ہوں تو اس صورت میں وہ میری تکذیب اور تکفیر کے بعد کافر ہوئے اور مجھے کافر ٹھہراکر اپنے کفر پر مہر لگا دی۔‘‘ (حقیقۃ الوحی رُوحانی خزائن جلد 22 صفحہ 168)
سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ہم یہ کب کہتے ہیںکہ ہمارے مخالف کافر باللہ ہیں،لیکن اس میں کیا شک ہے کہ وہ کافر بالما ٔمور ہیں کافر کے معنی منکر کے ہیںپس یہ کیسا جھوٹ ہے کہ اگر ہم باوجود انکے انکار کے پھر انکو مؤمن کا مومن ہی سمجھیں۔ مؤمن تو وہ تب ہو سکتے ہیں کہ جب اپنے عقائد باطلہ سے رجوع کریں او رحضرت مسیحؑکے خلیفہ کے ہا تھ پر بیعت کریں۔ جو حقیقت میں منکر ہے اسے ہم مؤمن کیونکر کہہ سکتے ہیں۔پس جو لوگ کہ باوجود ہزاروں نشانوں کے دیکھنے کے انکار کر تے ہیں انکے کافر بالما ٔمور ہونےمیں کو ئی شک نہیں اور وہ خدا تعالیٰ کے احکام کی ایک ذرہ بھر بھی عزت نہیں کرتے؟کیونکہ اگر وہ خوفِ خدا رکھتے اور انکے دل میں نو ر ایمان ہو تا تو وہ ایک ما ٔمور کی بے قدری اس قدرکیوں کرتے۔
تعجب ہے کہ یہ لوگ ا س موعود ذہنی کو تو اس قدر درجہ دیتے ہیں کہ اس کے منکر کافر ہوں گے اور جو اسکی مخالفت کرے گاوہ دجّال ہو گا اور ہلاک کیا جائے گا پھر جب حضرت مسیح موعود ؑ اس بات کے مدعی ہیں کہ میں وہی ہوںتو پھر آپ کی مخالفت کے باوجود ہم سے کسی اور فتوے کے کیوں امیدوار ہیں جو کچھ اس آنے والے موعود کے مخالفین کی نسبت ان کا خیال ہے ہم تو اس سے ان لوگوں کو کم ہی جانتے ہیں۔‘‘ (مسلمان وہی ہے جو سب ماموروں کو مانے،انوار العلوم جلد 1 صفحہ 313)
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف فرمادیا کہ ہمیںکافر کہہ کر آنحضرت ﷺ کی حدیث کی رُو سے جو کافر ہوگئے ہم کسی بھی قیمت پر اُن کو مومن اور مسلمان نہیں کہہ سکتے۔اب رہا یہ سوال کہ جو ہمیں کافر نہیں کہتے اُنکے متعلق کیا حکم ہے؟سو واضح ہو کہ جو ہمیں کافر نہیں کہتے وہ بھی کافر کہنے والوں کے ساتھ ہی شمار ہونگےکیونکہ ہمیں کافر کہنے والوں کو یہ مومن جانتے ہیں۔ ہاں اگر وہ یہ اعلان کردیں کہ ہم اُن کے ساتھ نہیں ہیں اور ہم اُنہیں مومن نہیں جانتے تو پھر ہم اُنہیں کافر کہنے والوں سے علیحدہ سمجھیں گے۔
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’جیسا کہ میں نے بیان کیا کافر کو مومن قرار دینے سے انسان کافر ہو جاتا ہے کیونکہ جو شخص درحقیقت کافر ہے وہ اُس کے کفر کی نفی کرتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ جس قدر لوگ میرے پر ایمان نہیں لاتے وہ سب کے سب ایسے ہیں کہ اُن تمام لوگوں کو وہ مومن جانتے ہیں جنہوں نے مجھ کو کافر ٹھہرایا ہے پس میں اب بھی اہل قبلہ کو کافر نہیں کہتا لیکن جن میں خود اُنہیں کے ہاتھ سے ان کی وجہ کفر کی پیدا ہو گئی ہے،ان کو کیونکر مومن کہہ سکتا ہوں۔‘‘
(حقیقۃ الوحی رُوحانی خزائن جلد 22 صفحہ 169،حاشیہ)
اِسی طرح ایک شخص کے سوال کے جواب میں سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :
یہ عجیب بات ہے کہ آپ کافر کہنے والے اور نہ ماننے والے کو دو قسم کے انسان ٹھہراتے ہیں حالانکہ خدا کے نزدیک ایک ہی قسم ہے کیونکہ جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ اِسی وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ مجھے مفتری قرار دیتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا پر افترا کرنیوالا سب کافروں سے بڑ ھکر کافر ہے جیسا کہ فرماتا ہے فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِہٖ۰ۭیعنی بڑے کافر دو ہی ہیں ایک خدا پر افترا کرنیوالا،دوسرا خدا کی کلام کی تکذیب کرنیوالا ۔ پس جبکہ میں نے ایک مکذب کے نزدیک خدا پر افترا کیا ہے،اِس صورت میں نہ میں صرف کافر بلکہ بڑا کافر ہوا، اور اگر میں مُفتری نہیں تو بلا شُبہ وہ کفر اُس پر پڑیگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں خود فرمایا ہے۔(حقیقۃ الوحی رُوحانی خزائن جلد 22 صفحہ 167)
جو ہمیں کافر نہیں کہتے اُن کو مسلمان سمجھنے کیلئے سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ شرط رکھی ہے کہ وہ اخبار میں یہ اعلان دے دیں کہ ہم احمدیوں کو کافر کہنے والوں کو کافر سمجھتے ہیں کیونکہ حدیث کی رُو سے کفر اُن کی طرف لوٹ گیا اور وہ کافر ہوگئے۔ اور یہ بھی اعلان کریں کہ احمدیوں کوہم مسلمان سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ایک موقع پر مسٹر فضل حسین صاحب بیر سٹر ایٹ لاء نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ جو آپؑکو اور آپؑکی جماعت کو کافر نہیں کہتے ان کے ساتھ نماز پڑھنے میں کیا حرج ہے ؟ اس کے جواب میںآپؑنے فرمایا:
’’جب تک یہ لوگ ایک اشتہار نہ دیں کہ ہم سلسلہ احمدیہ کے لوگوں کو مومن سمجھتے ہیں بلکہ ا ن کو کافر کہنے والوں کو کافر سمجھتے ہیں ، تومیں آج ہی اپنی تمام جماعت کو حکم دے دیتا ہوں کہ وہ ان کے ساتھ مل کر نماز پڑھ لیں۔ ہم سچائی کے پابندہیں ۔ آپ ہمیں شریعت اسلام سے باہر مجبور نہیں کرسکتے ۔جب اس میں یہ بالاتفاق مسلمہ مسئلہ ہے کہ مومن کو کافر کہنے والا خود کافر ہے تو ہم انہیں کس طرح مسلمان کہیں ؟اوران مکفرین اہل حق کو کافر نہ جانیں ؟ہم کس طرح سمجھیں کہ وہ سچے مسلمان ہیں ۔ جب ان کے دلوں میں نبی کریم ﷺ کے قول کی عظمت نہیں ہے حالانکہ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے سید ومولیٰ نبی ﷺ کے قول کا پاس کرے اور جو کچھ انہوںنے فرمایا اسی کے مطابق عقیدہ رکھے ۔ ‘‘
آپؑنے فرمایا : ’’پہلے اپنے ملاں لوگو ں سے پوچھ تو دیکھیں کہ وہ ہمیں کیا سمجھتے ہیں ۔ وہ تو کہتے ہیں یہ ایسا کافر ہے کہ یہود ونصاریٰ سے بھی اس کا کفر بڑ ھ کر ہے …سوآپ صلح سے پہلے یہ تو پوچھئے کہ ہم میں کفر کی کونسی بات ہے ہم تو جو کچھ کرتے ہیں جو کہتے ہیں سب میں آنحضرت ﷺ کی عظمت،جلا ل وعزت کا اظہارموجود ہے۔قرآن مجید میں ہےفَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ۰ۚ وَمِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ۰ۚ وَمِنْہُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَــيْرٰتِ ۔ ‘‘
’’ہم تو تینوں طبقوں کے لوگوں کو مسلمان کہتے ہیں مگر انکوکیا کہیں کہ جو مومن کو کافر کہیں ۔ جو ہمیں کافر نہیں کہتے ہم انہیں بھی اسوقت تک انکے ساتھ سمجھیں گے جبتک کہ وہ اُنسے اپنے الگ ہونیکا اعلان بذریعہ اشتہار نہ کریں اور ساتھ ہی نام بنام یہ نہ لکھیں کہ ہم ان مکفرین کو بموجب حدیث صحیح کافر سمجھتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 636)
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
یہ ایک شریعت کا مسئلہ ہے کہ مومن کو کافر کہنے والا آخر کافر ہو جاتا ہے پھر جب کہ قریبًا دوسو مولوی نے مجھے کافر ٹھہرایا اور میرے پر کُفر کا فتویٰ لکھا گیا اور انہیں کے فتویٰ سے یہ بات ثابت ہے کہ مومن کو کافر کہنے والا کافر ہو جاتا ہے اور کافر کو مومن کہنے والا بھی کافر ہو جاتاہے تو اب اِس بات کا سہل علاج ہے کہ اگر دوسرے لوگوں میں تخم دیانت اور ایمان ہے اور وہ منافق نہیںہیں تو اُنکو چاہئے کہ ان مولویوں کے بارے میں ایک لمبا اشتہار ہر ایک مولوی کے نام کی تصریح سے شائع کر دیں کہ یہ سب کافر ہیں کیونکہ انہوں نے ایک مسلمان کو کافر بنایا۔ تب میں اُنکو مسلمان سمجھ لونگا بشرطیکہ اُن میں کوئی نفاق کا شبہ نہ پایا جاوے اور خدا کے کھلے کھلے معجزات کے مکذب نہ ہوں ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ یعنی منافق دوزخ کے نیچے کے طبقے میں ڈالے جائینگے اور حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ مَا زَنَا زَانٍ وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ وَمَا سَرَقَ سَارِقٌ ھُوَ مُؤْمِنٌ یعنی کوئی زانی زنا کی حالت میں اور کوئی چور چوری کی حالت میں مومن نہیں ہوگا۔ پھر منافق نفاق کی حالت میں کیونکر مومن ہو سکتا ہے۔ اگر یہ مسئلہ صحیح نہیں ہے کہ کسی کو کافر کہنے سے انسان خود کافر ہو جاتا ہے تو اپنے مولویوں کا فتویٰ مجھے دکھلادیں میں قبول کر لونگا اور اگر کافر ہو جاتا ہے تو دو سو مولوی کے کفر کی نسبت نام بنام ایک اشتہار شائع کر دیں۔ بعد اسکے حرام ہوگا کہ میں اُنکے اسلام میں شک کروں بشرطیکہ کوئی نفاق کی سیرت اُن میں نہ پائی جائے۔ (حقیقۃ الوحی رُوحانی خزائن جلد 22 صفحہ 168)
اخبار منصف کے اعتراض کا ہم نے تفصیل سے جواب دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اور باقی مسلمان بھائیوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(منصور احمد مسرور)
٭٭٭