اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-11-16

جماعت احمدیہ مسلمہ پر اخبار’ منصف‘ حیدرآبادکے اعتراضات کا جواب(13)

 

’’مجھ کو کافر کہہ کے اپنے کفر پر کرتے ہیں مہر

یہ تو ہے سب شکل ان کی ہم تو ہیں آئینہ دار‘‘

(منظوم کلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام )


گزشتہ بارہ شماروں سے ہم اخبار ’’منصف‘‘ حیدرآباد کے، بانی ٔجماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام پر اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ اعتراضات کی تفصیل اور اسکا پس منظر 17 اگست کے شمارہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔منصف کا ایک اعتراض یہ کیا تھا کہ ’’خود قادیانی ہم مسلمانوں کو مسلمان نہیں مانتے، گویا کہ انکی نظر میں ہم مسلمان کافر ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی اپنی کتاب تذکرہ صفحہ نمبر 519 پر یہ فتویٰ دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے اور خدا کے نزدیک قابل مؤاخذہ ہے۔‘‘
اس کے جواب میں ہم نے عرض کیا تھا کہ حدیث کے مطابق امام مہدی اور مسیح موعود ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے آنے والے مسیح و مہدی کی بیعت کرنے کی تاکید فرمائی ہےاور فرمایا ہے کہ جس نے مہدی کا انکار کیا اُس نے گویا محمدؐ کا اور جو محمدؐ پر نازل ہوا اُس کا انکار کردیا۔ اور علماءِ اُمت کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ امام مہدی کا انکار کرنے والا کافر ہوگا۔ اب ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، اخبار ’’منصف‘‘ حیدرآباد کےایڈیٹر خود ہی فیصلہ فرمالیں کہ وہ امام مہدی کا انکار کرکے مسلمان رہتے ہیں یا نہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ کافر کہنے میں سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی پہل نہیں کی۔آپؑنے کبھی بھی کسی کلمہ گو کو کافر نہیں کہا۔لیکن اگر مسلمان ہمیں کافر کہہ کر خود ہی اپنے کفر پر مہر کرلیں تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟حدیث میں ہے کہ عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَایَرْمِیْ رَجُلٌ رَجُلًا بِالْفُسُوْقِ وَلَا یَرْمِیْہِ بِالْکُفْرِ اِلَّا ارْتَدَّتْ عَلَیْہِ اِنْ لَمْ یَکُنْ صَاحِبُہٗ کَذٰلِکَ ۔(بخاری کتاب الادب باب مَا ینھی من السّباب اللَّعن)
حضرت ابوذررضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو فسق اور کفر کی تہمت نہ لگائے کیونکہ اگر وہ شخص خدا تعالیٰ کے نزدیک کافر یا فاسق نہیں تو کہنے والے پر یہ کلمہ لوٹے گا۔ یعنی کہنے والا خدا کی نظر میں کافر اور فاسق ہوگا ۔
ہم تو اللہ کے فضل سے سچے اور پکے مسلمان ہیں اور آنحضرت ﷺ کے حکم کی تعمیل میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے امام مہدی اور مسیح موعود پر ایمان لاچکے ہیں۔ ہمیں کافر کہہ کر مسلمانوں نے سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ  ﷺ کے فرمان کے مطابق اپنے کفر پر مہر کرلی ہے۔ اب ہمیں تاب نہیں کہ ہم رسول اللہ کے فرمان کے خلاف آپ کو مسلمان سمجھیں۔

’’مجھ کو کافر کہہ کے اپنے کفر پر کرتے ہیں مہر 

یہ تو ہے سب شکل ان کی ہم تو ہیں آئینہ دار‘‘

مولوی حضرات جماعت احمدیہ کے افراد کو کافر کہنے میں بڑی بےباکی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دن رات ان کا یہی مشغلہ ہے۔کافر کافر کا ایک شور برپا کیا ہوا ہے۔ نہ صرف کافر کہتے ہیں بلکہ واجب القتل بھی قرار دیتے ہیں۔ عوام کو قتل پر اُکساتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں احمدیوں کو اس کی وجہ سے جام شہادت نوش کرنا پڑا۔ احمدیوں کی مسجدوں کو توڑا جارہا ہے مناروں کو شہید کیا جارہا ہے۔ہم رسول اللہ ﷺ کے ہر فرمان کی طرح اس فرمان کو بھی دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان علماء نے ہم احمدیوں پر کفر کا فتویٰ لگا کر اپنے ہی کفر پر مہر کرلی ہے لیکن اس کے باوجود کیا کبھی احمدیوں کو شور مچاتے دیکھا گیا ہے کہ مسلمان کافر ہیں ، مسلمان کافر ہیں۔ ہرگز نہیں۔ نہ تو ہم نے کافر کہنے میں پہل کی اور نہ ہم کافر کافر کا شور مچاتے ہیں۔
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسٹر فضل حسین صاحب بیر سٹر ایٹ لاء کو مخاطب کرکے فر ماتے ہیں :’’ہم کسی کلمہ گو کو اسلام سے خارج نہیں کہتے جب تک کہ وہ ہمیں کافر کہہ کر خود کافر نہ بن جائے آپ کو شاید معلوم نہ ہو جب میں نے مامور ہونے کا دعویٰ کیا تو اس کے بعد بٹالہ کے محمد حسین مولوی ابوسعید صاحب نے بڑی محنت سے ایک فتویٰ تیار کیا جس میں لکھا تھا کہ یہ شخص کافر ہے، دجال ہے، ضال ہے،اس کا جنازہ نہ پڑھا جائے جو ان سے السلام علیکم کرے یا مصافحہ کرے یا انہیں مسلمان کہے وہ بھی کا فر ۔ اب سنو یہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے کہ جومن کو کافر کہے وہ کافر ہوتا ہے ۔پس اس مسئلہ سے ہم کس طرح انکار کرسکتے ہیں۔ آپ لوگ خود ہی کہہ دیں کہ ان حالات کے ماتحت ہمار ے لئے کیا راہ ہے؟ ہم نے ان پر پہلے کوئی فتویٰ نہیں دیا۔ اب جو انہیں کافر کہا جاتاہے تویہ انہیں کے کافر بنانے کا نتیجہ ہے ایک شخص نے ہم سے مباہلہ کی درخواست کی ہم نے کہا کہ دومسلمانوں میں مباہلہ جائز نہیں ۔ اس نے جواب لکھا کہ ہم توتجھے پکا کافر سمجھتے ہیں۔ ‘‘
آپؑ نے فرمایا :’’جو ہمیں کا فر نہیں کہتا ہم اسے ہر گز کا فر نہیں کہتے لیکن جو ہمیں کافر کہتا ہے اُسے کافر نہ سمجھیں تو اس میں حدیث اور متفق علیہ مسئلہ کی مخالفت لازم آتی ہے اوریہ ہم سے نہیں ہوسکتا۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 635)
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی محمد حسین بٹالوی کا ذکر فرمایا ہے۔ انکے متعلق بھی کچھ عرض کردینا ضروری ہے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو محمد حسین آپؑکی مخالفت پر اُتر آئے اور دعویٰ کیا کہ اشاعۃ السنہ نے جس طرح انہیں چڑھایا تھا اب اس کے ذمہ یہ قرض اور فرض ہے کہ وہ انہیں اُسی طرح زمین پر گرادے۔ محمد حسین بٹالوی کا یہی ایک فقرہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔محمد حسین بٹالوی دن بدن ذلت اور رُسوائی کے گڑھے میں گرتے گئے اُن کی ساری عزت جاتی رہی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقبال کا ستارہ دن بدن بلند ہوتا گیا۔ آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام لینے والے کروڑوں لوگ ہیں لیکن محمد حسین کا نام لینے والا ایک بھی نہیں۔ محمد حسین بٹالوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گِرانے کیلئے پورے ملک کا دَورہ کیا اور آپؑکے خلاف کفر کا فتویٰ تیار کیا۔ لیکن وہ کفر کا فتویٰ کسی کام نہیں آیا۔
مولانا دوست محمد شاہد صاحب مؤرخ احمدیت لکھتے ہیں :مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حق کی آواز دبانے کا فیصلہ کرکے ہر لمحہ حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت میں وقف کردیا اوراپنی مہم کو کامیاب بنانے کیلئے اُسی پُرانے حربے کو آزمانے کی ٹھانی جو ہر مامور اورامام ربانی کے وقت استعمال ہوتا آرہا ہے یعنی انہوںنے اوّل المکفرین بنکر ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک طوفانی دورہ کیا اور’’فتح اسلام‘‘ اور ’’توضیح مرام‘‘ کی بعض عبارتوں میں قطع وبرید کا سہارا لیکر ایک استفتاء تیار کیا۔ علماء سے آپ کے کفروارتداد کے فتوے حاصل کئے اورپھراسے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ جلد13نمبر12 میں شائع کردیا……
یہ فتویٰ کم وبیش ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل تھا اوراس میں دلی ، آگرہ، حیدر آباد دکن، بنگال، کانپور، علی گڑھ، بنارس، اعظم گڑھ، آرہ ، غازی پور، ترہت، بھوپال ولدھیانہ ،امرتسر، سوجانپور، لاہور، بٹالہ ، پٹیالہ ، لکھوکے ضلع فیروز پور ،پشاور ،سوات، راولپنڈی، ہزارہ، جہلم ،گجرات، سیالکوٹ، وزیر آباد، سوہدرہ، کپورتھلہ، گنگوہ، دیوبند، سہارنپور، لکھنؤ ، مراد آباد پٹنہ ،کان پور غرضیکہ (متحدہ) ہندوستان کے تمام اہم مقامات کے علماء کے فتاویٰ درج تھے۔(تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 387،388)
پس کافر کہنے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی پہل نہیں کی بلکہ مخالف علماء کی طرف سے کفر کا فتویٰ  تیار کیا گیا ۔ پورے ملک میں مخالفت کی آگ بھڑکائی گئی۔ بائیکاٹ کیا گیا۔
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :میں کسی کلمہ گو کا نام کافر نہیں رکھتا جب تک وہ میری تکفیر اور تکذیب کرکے اپنے تئیں خود کافر نہ بنالیوے۔ سو اِس معاملہ میں ہمیشہ سے سبقت میرے مخالفوں کی طرف سے ہے کہ انہوں نے مجھ کو کافرکہا۔ میرے لئے فتویٰ طیار کیا۔ میں نے سبقت کرکے اُن کے لئے کوئی فتویٰ طیار نہیں کیا اور اس بات کا وہ خود اقرار کرسکتے ہیں کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمان ہوں تومجھ کو کافر بنانے سے رسول اللہ ﷺ کا فتویٰ اُن پر یہی ہے کہ وہ خود کافر ہیں۔ سو میں اُن کو کافر نہیں کہتا بلکہ وہ مجھ کو کافر کہہ کر خود فتویٰ نبوی کے نیچے آتے ہیں۔(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 433)
سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ایک وہ وقت تھا کہ ہمارے بر خلاف چاروں طرف سے کفر کے فتوے شائع ہو تے تھے۔ہمارے سلسلہ کے کمزور اور ضعیف انسانوں کو بے طرح کچلا جا تا تھا۔وہ ماریں کھا تے تھے۔گالیاں سنتے تھے قتل بے گناہ ہو تے تھے۔عدالتوں میں گھسیٹے جا تے تھےمگر یہ سب کچھ کس لئے ہو تا۔صرف اس لئے کہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا قادر ہے اور رسول اللہ ؐکی پیشگو ئی کی مطابق اس نے اس امت میں سے ایک ما ٔمور بھیج دیا ہے،جو دنیا کو گمراہی سے بچائے اور اس کا نام اس نے مسیح موعود اور مہدی مسعود رکھا ہے۔گو یا ہم پر فرد جرم اس لئے لگا ئی گئی کہ ہم نے خدا کے حکم کو کیوں مانا اور کیوں نہ اسے کہہ دیا کہ ہم کب تک تیرے احکام کو مانتے چلے جا ئیں آج تک بہت سے انبیاء ؐکو تو مان لیا اب بس کرو اور ہم کو اس اطاعت سے معاف کرو۔ہاں ہم اس لئےواجب القتل قرار دئیے گئے کہ ہم حقیقی بادشاہ کے فرماں بر دار ہو ئے اور ان باغیوں کے سا تھ نہیں ملے جنہوں نے اس کے ما ٔمور کا انکار کیا۔اور اگر واقعی یہ کو ئی ایسا جرم تھا جس کی سزا ہم کو یہ ملنی چاہئے تھی،تو خدا کی قسم ہم اس جرم کے مرتکب ضرور ہو ئے ہیں۔اور جس طرح ہمارے حضرتؑنے رسول اللہ ﷺ کی نسبت فرمایا ہے ؎

بعد از خدا بعشق محمد مخمّرم

گر کفر ایں بود بخدا سخت کا فرم

ہم بھی کہتے ہیں کہ اگر خدا کے ما ٔ موروں اور رسولوں کا اقرار ار ان کی اطاعت کفر ہے تو خدا کی قسم ہم اس قسم کے کافر ضرور ہیں۔اور گراِسی کا نام کفر رکھا جا تا ہے تو اس کفر کو ہم ذریعہ نجات یقین کرتے ہیں۔‘‘(مسلمان وہی ہے جو سب ماموروں کو مانے، انوارالعلوم جلد 1 صفحہ 308،309)
اخبار ’’منصف‘‘ کے ایڈیٹر کے اس اعتراض کا جواب آئندہ شمارہ میں بھی جاری رہیگا اور اس تعلق میں ہم سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اَور ارشادات پیش کرینگے۔ انشاء اللہ۔ وباللہ التوفیق۔

(منصور احمد مسرور)