اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-26

جماعت احمدیہ مسلمہ پر اخبار’ منصف‘ حیدرآبادکے اعتراضات کا جواب(11)

’’مجھ کو کافر کہہ کے اپنے کفر پر کرتے ہیں مہر

یہ تو ہے سب شکل ان کی ہم تو ہیں آئینہ دار‘‘

(منظوم کلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام )


گزشتہ دس شماروں سے ہم اخبار’’منصف‘‘ حیدرآباد کے، بانی ٔجماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام پر اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ اعتراضات کی تفصیل اور اسکا پس منظر 17 اگست کے شمارہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔منصف کا ایک اعتراض یہ کیا تھا کہ :
’’مرزا غلام احمد قادیانی نے مجددیت، محدثیت، مہدویت، مثلیت مسیح، مسیحیت، ظلی نبی، بروزی نبی، حقیقی نبی، ظل محمد ﷺ حتی کہ خدا ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کے باوجود اس کو ماننے والے خود کو احمدی مسلمان کہلوانا پسند کرتے ہیں اور یہ اُمید رکھتے ہیں کہ مسلمان بھی انہیں ایسا ہی خیال کریں۔‘‘
ہم نے گزشتہ شماروں میں منصف کے مندرجہ بالا تمام اعتراض کا جواب نوبت بنوبت دے دیا ہے سوائے ایک اعتراض کے۔ اور وہ ایک اعتراض یہ ہے کہ سیّدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے خدا ہونے کا دعویٰ  کیانعوذ باللہ من ذالک۔ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں اپنی ایک خواب بیان فرمائی ہے جس کے شروع کے الفاظ یہ ہیں ’’رَاَیْتُنِیْ فِی الْمَنَامِ عَیْـنَ اللّٰہِ وَ تَیَقَّنْتُ اَنَّنِیْ ھُوَ‘‘ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں خدا ہوںاور مَیں نے یقین کیا کہ مَیں وہی ہوں۔ مَنَامیعنی خواب کا لفظ بالکل واضح ہے پھر منصف کے ایڈیٹر نے ایک جھوٹی بات کیوں شائع کی اور عوام کو کیوں گمراہ کیا۔ جھوٹ شائع کرنا اور قوم کو گمراہ کرنا یہ معمولی بات نہیں بہت بڑا گناہ ہے۔ ایڈیٹر صاحب کیوں خدا کا خوف نہیں کرتے۔ کیا اُن کو یقین نہیں کہ خدا کو منہ دکھانا ہے اور جواب دینا ہے۔ یا اُن کا یہ عقیدہ ہے کہ اِنْ ہِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَنَحْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ۔سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ مَیں خدا ہوں۔ منصف کے ایڈیٹر کو حوالوں کے ساتھ بات کرنا چاہئے اور بتانا چاہئے کہ کب کہا ، کس جگہ کہا، کیا کہا، کچھ تفصیل تو بتانی چاہئے تھی۔ افسوس کہ بددیانتی کی تمام حدوں کو یہ لوگ پار کرجاتے ہیں۔
خواب تعبیر طلب ہوتی ہے۔ خواب میں اگر کوئی دیکھے کہ وہ خدا ہوگیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خدا ہو گیا۔ہاں اگر خواب دیکھنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں دعویٰ کیا ہو کہ واقعی میںآپؑخدا ہوگئے ہیں تو حوالہ دینا چاہئے۔ اور اگر خواب دیکھنے پر اعتراض ہے تو یہ مضحکہ خیز ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ : اِنِّىْ رَاَيْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُہُمْ لِيْ سٰجِدِيْنَ۝(سورہ یوسف)یعنی مَیں نے دیکھا کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھے سجدہ کررہے ہیں۔دوسری طرف اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے : اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يَسْجُدُ لَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ وَكَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ۝۰ۭیعنی کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی ہے کہ اُسے سجدہ کرتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور شمس و قمر بھی اور نجوم بھی اور پہاڑ اور درخت بھی اور چلنے پھرنے والے تمام جاندار اور بکثرت انسان بھی۔(سورۃ الحج آیت 19)
اس آیت سے ظاہر ہے کہ سجدہ صرف اللہ جل شانہ کا حق ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے جو یہ دیکھا کہ چاند سورج اور ستارے آپؑکو سجدہ کررہے ہیں تو کیا حضرت یوسف علیہ السلام خدا ہوگئے؟ ہرگز نہیں۔ نہ ہی یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی بنا پر خدائی کا دعویٰ کیا بلکہ آپؑنے اس خواب کی تعبیر بتائی۔جب آپؑکے والدین اور گیارہ بھائی آپؑکے پاس آئے اور آپؑکی عظمت اور اعلیٰ اخلاق اور کردار کے قائل ہوئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا : يٰٓاَبَتِ ہٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ۝۰ۡقَدْ جَعَلَہَا رَبِّيْ حَقًّا اَے میرے والد یہ میرے خواب کی تعبیر ہے جو میں نے دیکھی تھی جسے اللہ تعالیٰ نے سچ کردکھایا ہے۔ پس خواب تعبیر طلب ہوتی ہے۔
آنحضرت ﷺ نے خواب میں خود کو دو سونے کے کڑے پہنے ہوئے دیکھا۔ سونا پہننا اسلام میں حرام ہے۔ آنحضرت نے اپنی اُمت کو سونا پہننے سے منع فرمایا لیکن خواب میں خود کو سونا پہنا ہوا دیکھا۔اخبار منصف کے ایڈیٹر کے نزدیک تو آنحضرت ﷺ حرام فعل کے مرتکب ہوگئے نعوذ باللہ۔
حدیث میں ہے : اِنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ بَیْنَنَا اَنَا نَائِمٌ رَأَیْتُ فِیْ یَدَیَّ سَوَارَیْنِ مِنْ ذَھَبٍ۔(بخاری کتاب الرئویا باب النفخ فی المنام جلد4صفحہ134 مطبع الٰہیہ مصر جلد3 صفحہ49)
آنحضرت ﷺ نے اس کی تعبیر فرمائی۔ فرمایا : فَاَوَّلْتُھُمَا کَذَّابَیْنِ یَخْرُجَانِ بَعْدِیْ فَکَانَ اَحَدُھُمَااَسْوَدُ الْعَنْسِیُّ وَالْاٰخَرُ مُسَیْلَمَۃُ(بخاری کتاب المغازی وفد بنی حنیفہ حدیث ابن عباس برروایت ابو ہریرہ جلد3 نمبر 49مصری) آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس کی تعبیر مَیں نے یہ کی کہ اس سے مراد دو کذاب ہیں جو میرے بعد نکلیں گے ۔پہلا اسود عنسی ہے اوردوسرا مسیلمہ ہے۔
پس خواب تو تعبیر طلب ہوتی ہے۔اس کو ظاہر پر محمول کرنا نادانی ہے۔ یہ تو صرف ایک دو مثالیں دی گئی ہیں ورنہ ایسی بیسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں  :
’’استعارات جو آنحضرتﷺ کے مکاشفات اور خوابوں میں پائے جاتے ہیں وہ حدیثوں کے پڑھنے والوں پر مخفی اور پوشیدہ نہیں ہیں کبھی کشفی طورپر آنحضرتﷺ کو اپنے ہاتھوں میں دو سونے کے کڑے پہنے ہوئے دکھائی دیئے اور اُن سے دوکذّاب مراد لئے گئے جنہوں نے جھوٹے طور پر پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا اور کبھی آنحضرت ﷺ کو اپنی رؤیا اور کشف میں گائیاں ذبح ہوتی نظر آئیں اور ان سے مراد وہ صحابہ تھے جو جنگِ اُحد میں شہید ہوئے اور ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ ایک بہشتی خوشہ انگور ابوجہل کے لئے آپکو دیا گیا ہے تو آخر اُس سے مراد عکرمہ نکلا اور ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کو کشفی طورپر نظر آیا کہ گویاآپ نے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کی ہے کہ وہ آپ کے خیال میں یمن تھا مگر درحقیقت اس زمین سے مراد مدینہ منورہ تھا۔ ‘‘(ازالہ اوہام رُوحانی خزائن جلد3 صفحہ 133حاشیہ)
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آئینہ کمالات اسلام میں جہاں پر اپنی یہ خواب بیان فرمائی ہے وہاں پر ہی اس کی تشریح اور وضاحت بھی فرمادی ہےکہ خواب میں خود کو اللہ دیکھنے سے کیا مُراد ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں :
’’و لا نعنی بھذہ الواقعۃ کما یعنی فی کتب أصحاب وحدۃ الوجود و ما نعنی بذالک ما ھو مذھب الحلولیین، بل ھذہ الواقعۃ توافق حدیث النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أعنی بذالک حدیث البخاری فی بیان مرتبۃ قرب النوافل لعباد اللّٰہ الصالحین۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام صفحہ566)
ترجمہ : اور ہم اس واقعہ یعنی خواب سے وہ مُراد نہیں لیتےجیسا کہ وحدۃ الوجود کے قائلین اپنی کتابوں میں مُراد لیتے ہیں۔ اور نہ ہم اس سے وہ مُراد لیتے ہیں جو حلولیین کا مذہب ہے۔ بلکہ یہ واقعہ آنحضرت ﷺ کی اُس حدیث کی مانند ہے، جو قرب نوافل کے مرتبہ کے بیان میں اللہ تعالیٰ کے صالح بندوں کے لئے بخاری میں آئی ہے۔
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وضاحت فرمادی کہ کسی بھی رنگ میں مجھے خدا ہونے کا دعویٰ نہیں ، پھر بھی یہ اعتراض کرنا کہ آپؑنے خدائی کا دعویٰ کیا کتنا بڑا ظلم اور کتنا بڑا جھوٹ ہے۔ بخاری کی قرب نوافل والی جس حدیث کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر فرمایا وہ یہ ہے :
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اِنَّ اللہَ تَعَالٰی قَالَ : مَنْ عَادَ لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ ، وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْیءٍ اَحَبَّ اِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّی اُحِبَّہٗ فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَا وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا وَاِنْ سَأَلَنِیْ لَأُعْطِیَنَّہٗ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَاُعِیْذَنَّہٗ۔ (بخاری کتاب الرقاق باب التواضع)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرےدوست سے دشمنی کی مَیں اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں ۔ میرا بندہ جتنا میرا قُرب اس چیز سے ، جو مجھےپسند ہے اور مَیں نے اس پر فرض کردی ہے ، حاصل کرسکتا ہے اتنا کسی او ر چیز سے حاصل نہیں کرسکتا اور نوافل کے ذریعہ سے میرا بندہ میرے قریب ہوجاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں اور جب میں اسکو اپنا دوست بنالیتا ہوں تو اسکے کان بن جاتا ہوں ، جن سے وہ سنتا ہے ، اسکی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے ، اسکے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے ، اسکے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے ۔ اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسکو دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ چاہتا ہے تو میں اُسے پناہ دیتا ہوں ۔
آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ کے نیک بندے جب اللہ تعالیٰ کی عشق و محبت میں فنا ہوجاتے ہیں تو اُن کو پھر یہ مقام حاصل ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے کان ان کی آنکھیں اور ان کے ہاتھ پیر بن جاتا ہے۔ اسی مقام کے متعلق سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس شعر میں فرماتے ہیں  :
سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں …٭… اَے مرے بدخواہ کرنا ہوش کرکے مجھ پہ وار
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اس مرتبہ کے متعلق فرماتے ہیں  :
’’قربِ نوافل کا وہ مرتبہ جو اپنی صفات کو فنا کرنے کا مقام ہے اس سے محققین کے نزدیک انا الحق کا شہود پیدا ہوتا ہے۔‘‘ (فتوح الغیب فارسی مقالہ نمبر 3 صفحہ 17)
شیخ فرید الدین عطّار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
من خدایم من خدایم من خدا …٭… فارغ از کینہ و از کبر و ہوا
کہ کینہ اور کبر اور حرص سے الگ ہوکر کہتا ہوں کہ مَیں خدا ہوں ،مَیں خدا ہوں ،مَیں خدا ہوں ۔(فوائد فریدیہ مترجم باراوّل صفحہ 85 مکتبہ معین الادب جامع مسجد شریف ڈیرہ غازی خان)
خواب میں یہ دیکھنا کہ خدا ہوگیا ہے، شریعت کے خلاف نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسا دیکھتا ہے تو اسکی کیا تعبیر ہوگی وہ بھی ہم منصف کے ایڈیٹر کے علم کیلئے لکھ دیتے ہیں۔ تعطیر الانام فی تعبیر المنام مؤلّفہ علامہ سیّد عبدالغنی النابلسی میں لکھا ہے : مَنْ رَاَی فِی الْمَنَامِ کَاَنَّہٗ صَارَ الْـحَقَّ سُبْحَانَہٗ تَعَالٰی اِھْتَدٰی اِلٰی الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیْمِ کہ جو شخص خواب میںیہ دیکھے کہ وہ خدا بن گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہےکہ وہ صراط مستقیم پر گامزن ہے۔(یہ حوالہ تعطیر الانام کے نسخہ مطبوعہ مطبع حجازی قاہرہ کے صفحہ 90پر ہے )
اُوپر کی تعبیر سے یہ صاف ہوگیا کہ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام صراط مستقیم پر ہیں اور آپ کے مخالفین صراط مستقیم پر نہیں ہیں کیونکہ صراط مستقیم کی مخالفت کرنیوالا صراط مستقیم پر نہیں ہوسکتا۔حوالے اَور بھی ہیں اگر کوئی دیکھنا چاہے تو ہماری کتاب ’’احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک‘‘ از قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری نیز ’’مکمل تبلیغی پاکٹ بک‘‘ از خالد احمدیت ملک عبدالرحمٰن خادم صاحب کا مطالعہ کرسکتا ہے۔

(منصور احمد مسرور)

…٭…٭…