’’مجھ کو کافر کہہ کے اپنے کفر پر کرتے ہیں مہر
یہ تو ہے سب شکل ان کی ہم تو ہیں آئینہ دار‘‘
(منظوم کلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام )
گزشتہ نو شماروں سے ہم اخبار ’’منصف‘‘ حیدرآباد کے، بانی ٔجماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام پر اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ اعتراضات کی تفصیل اور اسکا پس منظر 17 ؍اگست کے شمارہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔منصف کا ایک اعتراض یہ کیا تھا کہ :
’’مرزا غلام احمد قادیانی نے مجددیت، محدثیت، مہدویت، مثلیت مسیح، مسیحیت، ظلی نبی، بروزی نبی، حقیقی نبی، ظل محمد ﷺ حتی کہ خدا ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کے باوجود اس کو ماننے والے خود کو احمدی مسلمان کہلوانا پسند کرتے ہیں اور یہ اُمید رکھتے ہیں کہ مسلمان بھی انہیں ایسا ہی خیال کریں۔‘‘
آج ہم ظلی نبی اور بروزی نبی کے اعتراض کا جواب دیں گے۔ گزشتہ شمارہ میں ہم نے ظل محمد ﷺ پر اعتراض کا جواب دیا ہے اور متعدد حوالوں سے ثابت کردیا کہ بزرگانِ اُمت نے امام مہدی علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ کا کامل ظل، کامل بروز، کامل عکس، کامل مظہر، آنحضرتﷺ کا دوسرا نسخہ اورآنحضرت ﷺ کی کامل شبیہ قرار دیا ہے۔ اس سے ظلی نبی اور بروزی نبی کا مسئلہ بالکل واضح اور حل ہوگیا۔ ظلی اور بروزی نبوت کی یہی حقیقت ہے کہ امام مہدی آنحضرت ﷺ کی شبیہ ہونگے ، عکس ہونگے، ظل اور بروز ہونگے۔ بزرگانِ امت نے تو یہاں تک کہا ہے کہ امام مہدی کو دیکھ کر گمان ہوگا کہ محمد مصطفیٰ ﷺ دوبارہ اس دُنیا میں آگئے ہیں۔
اب ہم سیّدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے بعض وہ ارشادات پیش کرتے ہیں جس سے کہ ظلی اور بروزی نبوت کا مسئلہ بالکل واضح اور صاف ہوجاتا ہے اور اس کی حقیقت بالکل کھل جاتی ہے۔
آپؑ آنحضرتؐکے ظل اور بروز ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کا نام محمد اور احمد رکھا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو درحقیقت خاتم النّبیین تھے مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں اورنہ اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے کیونکہ میں بارہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیت وَاٰخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِہِمْ بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت ﷺ کا ہی وجود قرار دیا ہے پس اس طور سے آنحضرتﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمدہوں ﷺ، پس اس طور سے خاتم النّبیین کی مُہر نہیں ٹوٹی کیونکہ محمدﷺ کی نبوت محمد تک ہی محدود رہی یعنی بہرحال محمد ﷺ ہی نبی رہا نہ اور کوئی یعنی جبکہ میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺ ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔
مہدی خَلق اور خُلق میں ہمرنگ آنحضرتؐہوگا
فرمایا : بھلا اگر مجھے قبول نہیں کرتے تو یوں سمجھ لو کہ تمہاری حدیثوں میں لکھا ہے کہ مہدی موعود خَلق اور خُلق میں ہمرنگ آنحضرتﷺ ہوگا اور اس کا اسم آنجناب کے اسم سے مطابق ہوگا یعنی اس کا نام بھی محمد اور احمد ہوگا اور اس کے اہل بیت میں سے ہوگا اور بعض حدیثوں میں ہے کہ مجھ میں سے ہوگا۔ یہ عمیق اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ وہ روحانیت کے رو سے اسی نبی میں سے نکلا ہوا ہوگا اور اسی کی روح کا روپ ہوگا اس پر نہایت قوی قرینہ یہ ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے تعلق بیان کیا یہاں تک کہ دونوں کے نام ایک کر دیئے ان الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس موعود کو اپنا بروز بیان فرمانا چاہتے ہیں ۔
بروز کے لئے رشتہ دار ہونا ضروری نہیں
بروز کیلئے یہ ضرور نہیں کہ بروزی انسان صاحب بروز کا بیٹا یا نواسہ ہو ہاں یہ ضرور ہے کہ روحانیت کے تعلقات کے لحاظ سے شخص مورد بروز صاحب بروز میں سے نکلا ہوا ہو اور ازل سے باہمی کشش اور باہمی تعلق درمیان ہو۔
مہدی کو آنحضرؐؐت کا جسمانی رشتہ دار قرار دینا آنحضرتؐکی شان معرفت کے خلاف ہے
یہ خیال آنحضرت ﷺ کی شان معرفت کے سراسر خلاف ہے کہ آپ اس بیان کو تو چھوڑ دیں جو اظہار مفہوم بروز کے لئے ضروری ہے اور یہ امر ظاہر کرنا شروع کر دیں کہ وہ میرا نواسہ ہوگا بھلا نواسہ ہونے سے بروز کو کیا تعلق۔
اگر رشتہ داری ضروری تھی تو پھر نواسہ کی جگہ بیٹے کی پیشگوئی ہونی چاہئے تھی
اور اگر بروز کیلئے یہ تعلق ضروری تھا تو فقط نواسہ ہونے کی ایک ناقص نسبت کیوں اختیار کی گئی بیٹاہونا چاہئے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی کلام پاک میں آنحضرت ﷺ کے کسی کے باپ ہونیکی نفی کی ہے لیکن بروز کی خبر دی ہے۔
اگر بروز صحیح نہ ہوتا تو مسیح کے صحابہ آنحضرتؐکے صحابہ کیونکر ٹھہرتے
اگر بروز صحیح نہ ہوتا تو پھر آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ میں اُس موعود کے رفیق آنحضرتﷺ کے صحابہ کیوں ٹھہرتے۔ اور نفی بروز سے اس آیت کی تکذیب لازم آتی ہے۔
مسیح موعود کے متعلق جسمانی خیال کے لوگوں کی رائے
جسمانی خیال کے لوگوں نے کبھی اُس موعود کو حسن کی اولاد بنایا اور کبھی حسین کی اور کبھی عباس کی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ایک کمال مسیح موعود میں منعکس ہوگا
لیکن آنحضرت ﷺ کا صرف یہ مقصود تھا کہ وہ فرزندوں کی طرح اس کا وارث ہوگا، اس کے نام کا وارث، اس کے خلق کا وارث، اس کے علم کا وارث، اس کی روحانیت کا وارث اور ہر ایک پہلو سے اپنے اندر اس کی تصویر دکھلائے گا اور وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ سب کچھ اُس سے لے گا اور اُس میں فنا ہو کر اس کے چہرہ کو دکھائے گا۔ پس جیسا کہ ظلی طور پر اُس کا نام لے گا، اُس کا خلق لے گا، اُس کا علم لے گا ایسا ہی اس کا نبی لقب بھی لے گا کیونکہ بروزی تصویر پوری نہیں ہو سکتی جب تک کہ یہ تصویر ہر ایک پہلو سے اپنے اصل کے کمال اپنے اندر نہ رکھتی ہو۔ پس چونکہ نبوت بھی نبی میں ایک کمال ہے اس لئے ضروری ہے کہ تصویر بروزی میں وہ کمال بھی نمودار ہو۔
بروز ہونے سے ختم نبوت کا کچھ نہیں بگڑتابلکہ ختم نبوت کی شان دوبالا ہوجاتی ہے
تمام نبی اس بات کو مانتے چلے آئے ہیں کہ وجود بروزی اپنے اصل کی پوری تصویر ہوتی ہے یہاں تک کہ نام بھی ایک ہو جاتا ہے۔ پس اس صورت میں ظاہر ہے کہ جس طرح بروزی طور پر محمد اور احمد نام رکھے جانے سے دو محمد اور دو احمد نہیں ہوگئے اسی طرح بروزی طور پر نبی یا رسول کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خاتم النّبیین کی مُہر ٹوٹ گئی کیونکہ وجود بروزی کوئی الگ وجود نہیں۔ اس طرح پر تو محمد کے نام کی نبوت محمد صلیﷺ تک ہی محدود رہی۔ تمام انبیاء علیہم السلام کا اس پر اتفاق ہے کہ بروز میں دوئی نہیں ہوتی کیونکہ بروز کا مقام اس مضمون کا مصداق ہوتا ہے کہ
من دیگرم تو دیگریمن تن شدم تو جاں شدی
تا کس نہ گوید بعد زیںمن دیگرم تو دیگری
کسی بھی غیر کے آنے سے ختم نبوت کی مہر ٹوٹ جائیگی
اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئے تو بغیرخاتم النّبیین کی مُہر توڑنے کے کیونکر دنیا میں آ سکتے ہیں۔ غرض خاتم النّبیین کا لفظ ایک الٰہی مُہر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر لگ گئی ہے اب ممکن نہیں کہ کبھی یہ مُہر ٹوٹ جائے ہاں یہ ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آ جائیں اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی اظہار کریں ۔
بروز کا تو اللہ کی طرف سے وعدہ تھا
اور یہ بروز خداتعالیٰ کی طرف سے ایک قرار یافتہ عہد تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاٰخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِہِمْ اور انبیاء کو اپنے بروز پر غیرت نہیں ہوتی کیونکہ وہ انہی کی صورت اور انہی کا نقش ہے ۔لیکن دوسرے پر ضرور غیرت ہوتی ہے۔ دیکھو حضرت موسیٰ نے معراج کی رات جب دیکھا کہ آنحضرت ﷺ ان کے مقام سے آگے نکل گئے تو کیونکر رو رو کر اپنی غیرت ظاہر کی…غرض بروزی رنگ کی نبوت سے ختم نبوت میں فرق نہیں آتا اور نہ مُہر ٹوٹتی ہے لیکن کسی دوسرے نبی کے آنے سے اسلام کی بیخ کنی ہو جاتی ہے اور آنحضرت ﷺ کی اس میں سخت اہانت ہے کہ عظیم الشان کام دجال کشی کا عیسیٰ سے ہوا نہ آنحضرت ﷺ سے… ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا سو وہ ظاہر ہو گیا اب بجز اس کھڑکی کے اور کوئی کھڑکی نبوت کے چشمہ سے پانی لینے کے لئے باقی نہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ بروزی طور کی نبوت اور رسالت سے ختمیت کی مُہر نہیں ٹوٹتی اور حضرت عیسیٰ کے نزول کا خیال جو !مستلزم تکذیب آیت وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ ہے وہ ختمیت کی مُہرکو توڑتا ہےاور اس فضول اور خلاف عقیدہ کا تو قرآن شریف میں نشان نہیں اور کیونکر ہوسکتا ہے کہ وہ آیت ممدوحہ بالا کے صریح برخلاف ہے لیکن ایک بروزی نبی اور رسول کا آنا قرآن شریف سے ثابت ہورہا ہے جیسا کہ وَاٰخَرِيْنَ مِنْہُمْسے ظاہر ہے۔ (ایک غلطی کا ازالہ رُوحانی خزائن جلد 18 صفحہ 212تا 216)
مَیں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ آنے والا مہدی اور مسیح موعود میرا اسم پائے گا اور کوئی نیا اسم نہیں لائے گا یعنی اس کی طرف سے کوئی نیا دعویٰ نبوت اور رسالت کا نہیں ہو گا بلکہ جیسا کہ ابتدا سے قرار پا چکا ہے وہ محمدی نبوت کی چادر کو ہی ظلّی طو رپر اپنے پر لے گا اور اپنی زندگی اُسی کے نام پر ظاہر کرے گا اورمرکر بھی اُسی کی قبر میں جائے گا تا یہ خیال نہ ہو کہ کوئی علیحدہ وجود ہے اور یا علیحدہ رسول آیا بلکہ بروزی طور پر وہی آیا جو خاتم الانبیاء تھا مگر ظلّی طور پر، اسی رازکے لئے کہا گیا کہ مسیح موعود آنحضرت ﷺ کی قبر میں دفن کیا جائے گا کیونکہ رنگِ دوئی اس میں نہیں آیا پھر کیونکر علیحدہ قبر میں تصور کیا جائے۔ دنیا اس نکتہ کو نہیں پہچانتی۔ اگر اہلِ دنیا اس بات کو جانتے کہ اس کے کیا معنی ہیں کہ اِسْمُہٗ کَاِسْمِیْ وَیُدْفَنُ مَعِی فِی قَبْرِیْ تو وہ شوخیاں نہ کرتے اور ایمان لاتے۔ اِس نکتہ کو یاد رکھو کہ مَیں رسول اور نبی نہیں ہوں۔ یعنی باعتبار نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے۔ اور مَیں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیت کاملہ کے مَیں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے۔ اگر مَیں کوئی علیحدہ شخص نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہوتا تو خدا تعالیٰ میرا نام محمد اور احمد اور مصطفیٰ اور مجتبیٰ نہ رکھتا اور نہ خاتم الانبیاء کی طرح خاتم الاولیاء کا مجھ کو خطاب دیا جاتا بلکہ مَیں کسی علیحدہ نام سے آتا۔ لیکن خدا تعالیٰ نے ہر ایک بات میں وجودِ محمدی میں مجھے داخل کر دیا یہاں تک کہ یہ بھی نہ چاہا کہ یہ کہا جائے کہ میرا کوئی الگ نام ہو یا کوئی الگ قبر ہو کیونکہ ظل اپنے اصل سے الگ ہو ہی نہیں سکتا ۔ (نزول المسیح رُوحانی خزائن جلد 18 صفحہ 381،حاشیہ)
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ تمام ارشادات قرآن و حدیث اور بزرگانِ اُمت کے اقوال وارشادات کے مطابق ہیں اور اُن کی تفسیر ہیں۔ ارشادات تو بہت ہیں پر جگہ کی تنگی کے باعث ہم نے کچھ ہی پیش کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ (منصور احمد مسرور)
…٭…٭…