اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-01-19

صد سالہ جوبلی لجنہ اماءِ اللہ مبارک ہو

’’ جائزہ لیں کہ سو سال میں کس حد تک لجنہ نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کی ہے
اور کس حد تک اپنے بچوں اور اپنی نسل کو بیعت کا حق ادا کرنیوالا بنایا ہے‘‘

لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کا قیام 25 دسمبر 1922 کو عمل میں آیا۔ آج اس تنظیم پر سو سال مکمل ہوگئے ۔ پوری دُنیا میں احمدی عورتیں اور بچیاں اپنی تنظیم کے سو سال پورے ہونے پر صد سالہ جشن تشکر منارہی ہیں۔ قادیان اور بھارت کی لجنہ بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ صد سالہ جشن تشکر منارہی ہیں۔نماز تہجد، عبادات، اجلاسات، شیرینی تقسیم کرنا، گھروں اور مساجد کو چراغاں کرنا، بکروں کی قربانی، غرباء میں پھلوں کی تقسیم، کلوا جمیعا، جیسے مختلف پروگرام رکھے گئےاور اُن پر عمل درآمد ہوا۔ قادیان دارالامان میں ہر سُو اس کا چرچہ ہے۔ہر گھر بجلی کے قمقموں سے روشن ہے۔ ہر طرف خوشی او رجشن کا ماحول ہے۔ الحمد للہ۔ مورخہ 15 جنوری کو پورے بھارت میں صبح سے دوپہر تک مقامی طور پراور بعد دوپہر مرکزقادیان کے تحت جلسہ کیا گیا۔یعنی قادیان دارالامان میں جو جلسہ بعد دوپہر منعقد ہوا، لائیو اسٹریمنگ کے ذریعہ پورے بھارت کی مجالس کو دکھایا اور سنایا گیا۔
لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کا قیام اس طرح عمل میں آیا کہ سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 15 دسمبر 1922 کو قادیان کی احمدی مستورات کے نام ایک چٹھی لکھی جس میں آپ نے اُنہیں اپنی ایک تنظیم بنانے کی تحریک فرمائی اور اس تنظیم کے کام اور مقاصد بتائےجس کا خلاصہ بعض انتظامی باتوں کو چھوڑتے ہوئے یہ ہے کہ اس تنظیم کے تحت احمدی عورتیں اسلام کی محبت اور اسکی تبلیغ و اشاعت کا جوش و جذبہ اپنے اندر پیدا کریں۔ اس کیلئے وہ علم حاصل کریں خاص طور پر دین کا علم اور اس علم کو سب تک پھیلائیں۔ دین کا علم حاصل کرکے اپنے بچوں کی اس طرح تربیت کریں کہ وہ بھی اسلام کی محبت سے سرشار ہوں اور اس کی خدمت کیلئے ہر دم تیار ہوں۔ اولاد کی تربیت ایک احمدی عورت کی اتنی اہم ذمہ داری ہے کہ حضور رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کو ہم من و عن ذیل میں پیش کرتے ہیں۔حضو ررضی اللہ عنہ نے فرمایا  :
’’اس بات کی ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت میں اپنی ذمہ داری کو خاص طور پر سمجھو اور انہیں دین سے غافل، بددل اور سُست بنانے کی بجائے چست، ہوشیار، تکلیف برداشت کرنے والے بناؤ اور دین کے مسائل جس قدر ہیںاُس سے اُن کو واقف کرو۔ اور خدا ، رسولؐ، مسیح موعودؑاور خلفاء کی محبت، اطاعت کا مادہ ان کے اندر پیدا کرو۔ اسلام کی خاطر اور اس کے منشاء کے مطابق اپنی زندگیاں خرچ کرنے کا جوش ان میں پیدا کرو اور اس کام کو بجالانے کے لئے تجاویز سوچو اور ان پر عمل درآمد کرو۔ (سوانح فضل عمر جلد 2 صفحہ 358، مطبوعہ قادیان 2006)
حضور رضی اللہ عنہ نے چٹھی کے آخر میں لکھا کہ مَیں ایسی بہنوں کو جو اس خیال کی مؤید ہوں اور اُن باتوں کی ضرورت محسوس کرتی ہوں جو میں نے بتائی ہیں تو مَیں اُنہیں دعوت دیتا ہوں کہ ان مقاصد کو پورا کرنے کےلئے وہ مل کر کام شروع کریںاور مجھے اطلاع دیں تاکہ اس کام کو جلد سے جلد شروع کردیا جائے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اس تحریک پر قادیان کی 17 خواتین نے اپنے نام لکھ کر اور دستخط کرکے بھجوائے۔ 25 دسمبر 1922 کو یہ دستخط کرنے والی17 خواتین اُمّ المؤمنین حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں جمع ہوئیں جہاں حضور رضی اللہ عنہ نے نماز ظہر کے بعد ایک مختصر تقریر فرمائی۔ اس تقریر میں آپؓنے مستورات کی انجمن کے قیام کا باقاعدہ اعلان فرماتے ہوئے اس کا نام ’’لجنہ اماءِ اللہ ‘‘ رکھا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے افتتاحی خطاب کے بعد لجنہ اماء اللہ کی ممبرات نے متفقہ طور پر اُمّ المؤمنین حضرت اماں جان سے درخواست کی کہ وہ اس مجلس کی صدارت قبول فرماویں۔ چنانچہ حضرت اُمّ المؤمنین کی صدارت میں یہ تاریخی اجلاس شروع ہوا لیکن آپؓنے آغاز ہی میں حضرت سیّدہ اُمّ ناصرؓحرمِ اوّل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر بڑی شفقت سے اپنی جگہ انہیں صدارت کی مسند پر بٹھادیااور آگے کا اجلاس انہیں کی صدارت میں ہوا۔ حضرت سیّدہ اُمّ ناصررضی اللہ عنہا تا حیات یعنی 1958 تک اس عہدہ پر فائز رہیں۔ صدارت کا معاملہ طے ہوجانے کے بعد پہلی جنرل سیکرٹری حضرت سیّدہ امۃ الحئی صاحبہ رضی اللہ عنہا منتخب ہوئیں۔ آپؓحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی حرم ثانی، حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور حضرت صوفی احمد جان صاحبؓلدھیانوی کی نواسی تھیں۔ (ایضاً صفحہ 360)
قادیان دارالامان سے17 ممبرات سے شروع ہونے والی یہ تنظیم آج پوری دُنیا میں پھیل گئی ہےاور لاکھوں میں ان کی تعداد ہے۔ لجنہ اماء اللہ کی تنظیم نے دُنیا میں حیرت انگیز کارنامے سرانجام دئیے۔ اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں یہ مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں۔ مسجد فضل لندن ، مسجد مبارک ہالینڈ، مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن صرف احمدی عورتوں کے چندے سے بنی۔اس کے بعد کئی اور مسجدیں بھی صرف لجنہ کے پیسے سے بنیں اور بن رہی ہیں۔ ہر تعمیر اور پراجیکٹ میں یہ انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے مقابل پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ اپنے زیورات بلادریغ چندے میں دے دیتی ہیں اور اپنی اولاد کو اللہ کی راہ میں وقف کرتی ہیں۔ یہ موقع نہیں کہ ہم لجنہ کی تنظیم کے عظیم الشان کاموں کا تذکرہ کریں ، البتہ ذیل میں دو دلچسپ حوالےغیروں کے پیش کرتے ہیں۔ ابھی اس تنظیم کو قائم ہوئے صرف چارسال ہی ہوئے تھے کہ اس تنظیم نے غیروں پر اپنی چھاپ چھوڑنی شروع کردی۔ تحریک سیرت کے مشہور لیڈر مولانا عبدالمجید قرشی نے اپنے اخبار ’’تنظیم‘‘ امرتسر 28 دسمبر 1926 میں لکھا:
’’ لجنہ اماء اللہ قادیان احمدیہ خواتین کی انجمن کا نام ہے اس انجمن کے ماتحت ہر جگہ عورتوں کی اصلاحی مجالس قائم کی گئی ہیں اور اس طرح پر ہر وہ تحریک جو مَردوں کی طرف سے اٹھتی ہے خواتین کی تائید سے کامیاب بنائی جاتی ہے اس انجمن نے تمام خواتین کو سلسلہ کے مقاصد کے ساتھ عملی طور پر وابستہ کر دیا ہے ۔ عورتوں کا ایمان مَردوں کی نسبت زیادہ مخلص اور مربوط ہوتا ہے ۔ عورتیں مذہبی جوش کو مَردوں کی نسبت زیادہ محفوظ رکھ سکتی ہیں ۔ لجنہ اماء اللہ کی جس قدر کارگزاریاں اخبار میں چھپ رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کی آئندہ نسلیں موجودہ کی نسبت زیادہ مضبوط اور پر جوش ہوں گی اور احمدی عورتیں اس چمن کو تازہ دم رکھیں گی جس کا مرورِ زمانہ کے باعث اپنی قدرتی شادابی اور سرسبزی سے محروم ہونا لازمی تھا ۔ ‘‘
ایک آریہ سماجی اخبار ’’تیج‘‘ کے ایڈیٹر نے 25 جولائی 1927 کے شمارے میں لکھا :
’’ ہم استری سماج قائم کر کے مطمئن ہوچکے ہیں لیکن ہم کو معلوم ہونا چاہئے کہ احمدی عورتوں کی ہر جگہ باقاعدہ انجمنیں ہیں اور جو وہ کام کر رہی ہیں اسکے آگے ہماری استری سماجوں کا کام بالکل بے حقیقت ہے ۔ مصباح کو دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ احمدی خواتین ہندوستان ، افریقہ ، عرب ، مصر ، یورپ اور امریکہ میں کس طرح اور کس قدر کام کر رہی ہیں ان کا مذہبی احساس اس قدر قابلِ تعریف ہے کہ ہم کو شرم آنی چاہئے ۔ چند سال ہوئے انکے امیرنے ایک مسجد کے لئے پچاس ہزار روپے کی اپیل کی اور یہ قید لگادی کہ یہ رقم صرف عورتوں کے چندہ سے ہی پوری کی جائے ۔ چنانچہ پندرہ روز کی قلیل مدّت میں ان عورتوں نے پچاس ہزار کی بجائے پچپن٭ہزار روپیہ جمع کردیا ۔ ‘‘ (ایضاً صفحہ 383، 384)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ قادیان2022 کے تیسرے روز اپنے اختتامی خطاب میں تمام دُنیا کی لجنہ کو مخاطب کرکے فرمایا :
’’ آج لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کو بنے ہوئے بھی سو سال ہو گئے ہیں لجنہ کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جائزہ لیں کہ اس سو سال میں کس حد تک لجنہ نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کی ہے اور بیعت کا حق ادا کرنے والا اپنے آپ کو بنایا اور کوشش کی اور کس حد تک اپنے بچوں اور اپنی نسل کو بیعت کا حق ادا کرنے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعاوی سے جوڑنے والا اور ماننے والا بنایا ہے۔ اگر ہم نے اس کے مطابق اپنی نسلوں کی اٹھان کی ہے تو یقیناً لجنہ اماء اللہ کی ممبرات اللہ تعالیٰ کی شکر گزار بندیاں ہیں۔ پس یہ جائزے آج لینے کی ضرورت ہے اور جہاں کمیاں رہ گئی ہیں وہاں ایک عزم کے ساتھ عہد کریں کہ ہم نے لجنہ کی اگلی صدی میں اس عہد کے ساتھ قدم رکھنا ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو عہد بیعت کا حق ادا کرنے والا بنائیں گی۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘
سو سال قبل سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کو بناتے وقت اِس تنظیم کے جو مقاصد بتائے تھے اور جن امور کی طرف بطور خاص توجہ دلائی تھی اُنہیں امور کی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز انہیں یاددہانی فرمارہے ہیں۔یعنی اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنا اور صحیح معنوں میں اولاد کی تربیت کرنا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ اس موقع پر سیّدہ امۃ الحئی رضی اللہ عنہا کو بطور خاص دعاؤں میں یاد رکھنا چاہئے کہ لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کو قائم کرنے میں آپکا بڑا ہاتھ تھا۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’احمدی مستورات کی تاریخ میں حضرت سیّدہ امۃ الحئی ؓحرمِ ثانی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا نام ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا اور دل اُنہیں محبت سے یاد کرتے ہوئے دُعائیں دیں گے کیونکہ احمدی خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے یہ ان ہی کی دلی تڑپ تھی جو بالآخر عالمی تنظیم لجنہ اماء اللہ کی محرک بنی … خواتین میں حضرت خلیفۃ المسیح کے درسِ قرآن کا سلسلہ جاری رکھوانے کا سہرا بھی آپ ہی کے سر تھا اور احمدی مستورات کو ایک باقاعدہ تنظیم کی لڑی میں پرونے کی اوّلین محرّک بھی آپ ہی تھیں۔ یہ آپ کی فانی زندگی کا ایک لافانی کارنامہ تھا جو آپ کی یاد کو زندہ و پائندہ رکھے گا۔
(ایضا صفحہ 355، 356)
اللہ تعالیٰ اس تنظیم کو زندہ و پائندہ رکھے۔یہ تنظیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام کی توقعات کو پہلے سے بڑھ کر پورا کرنیوالی ہو اور نئی صدی میں نئے عزم اور نئے حوصلہ کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے۔ آمین۔ (منصور احمد مسرور)