2023-02-09
وصیّت کی اہمیت و برکات
سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی روشنی میں
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے خاص اذن اور اُسی کے حکم سے 1905ء میںنظام وصیت کی بنیاد رکھی جب آپؑنے رسالہ الوصیت تحریر فرمایا۔آپؑنے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ، جماعت کے نیک اور پاک اور متقی بندوں کی آخری آرام گاہ کے لئے ایک قبرستان بنایااور اس میں دفن ہونے کے لئے یہ شرط رکھی کہ ایسا شخص اپنی آمد کا دسواں حصہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی خاطر جماعت کو دے۔ اور مرنے کے بعد اپنی کل جائیداد کی ، خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ، دسویں حصے کی وصیت کرے۔اس قبرستان کا نام اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہشتی مقبرہ بتایا۔
بہشتی مقبرہ میں تدفین کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جومندرجہ بالا شرطیں رکھی ہیں، یہ ایسی بڑی قربانی ہے کہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ اسلام کی خاطر اتنی بڑی قربانی کرنے والا یقیناً جنتی ہوگا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےاس قبرستان اور اس میں دفن ہونے والوں کیلئے بہت دعائیں بھی کی ہیں ۔ آپؑفرماتے ہیں :
میں دعا کرتا ہوں کہ خدا اس میں برکت دے اور اسی کو بہشتی مقبرہ بنادے اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خواب گاہ ہو جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کر لیا اور دنیا کی محبت چھوڑ دی اور خدا کے لئے ہوگئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا۔ آمین یاربّ العالمین۔
پھر مَیں دعا کرتا ہوںکہ اَے میرے قادر خدا اس زمین کو میری جماعت میں سے اُن پاک دلوں کی قبریں بنا جو فی الواقع تیرے لئے ہوچکے اور دنیا کی اغراض کی ملونی اُن کے کاروبار میں نہیں۔ آمین یا ربّ العالمین۔
پھر میں تیسری دفعہ دعا کرتا ہوںکہ اے میرے قادر کریم اے خدائے غفور و رحیم تُو صرف اُن لوگوں کو اس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اور بدظنی اپنے اندر نہیں رکھتے اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجا لاتے ہیں اور تیرے لئے اور تیری راہ میں اپنے دلوں میں جان فدا کر چکے ہیں جن سے تُو راضی ہے اور جن کو تُو جانتا ہے کہ وہ بکلّی تیری محبت میں کھوئے گئے اور تیرے فرستادہ سے وفاداری اور پورے ادب اور انشراحی ایمان کیساتھ محبت اور جانفشانی کا تعلق رکھتے ہیں۔ اٰمِیْن یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔
گرچہ کہ ہر ماہ اپنی آمد کا دسواں حصہ، اور مرنے کے بعد اپنی جائیداد کا دسواں حصہ اسلام کی اشاعت کیلئے دے دینا ایک بڑی قربانی ہے اور احبابِ جماعت کا ایک بڑا حصہ صبرو استقلال اورنہایت خوشی کے ساتھ یہ قربانی کررہا ہے، بلکہ بعض ایسے ہیں جو اس سے بھی بڑھ کر کررہے ہیں، الحمد للہ ،تاہم ہمیں اپنے اسلاف کی قربانیوں پر بھی نظر کرنی چاہئے۔ آنحضرت ﷺ کے صحابہ سے مال کے ساتھ ساتھ جان کی قربانی کا بھی مطالبہ تھا۔ انہوں نے مال کے ساتھ ساتھ بے دریغ اللہ کے راستے میں اپنی جانیں بھی قربان کیںاور اسلام کو پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ ہم سے صرف مال کی قربانی کا مطالبہ ہے، جان کی قربانی کا مطالبہ نہیں ہے۔ آج اسلام کو پوری دُنیا میں غالب کرنا مسیح موعود کی جماعت کی ذمہ داری ہے۔ اسلام تو دُنیا میں ضرور غالب آئے گا لیکن ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے اس میں اپنا کتنا حصہ ڈالا۔ مال اللہ کے حکم اور اسی کے فضل سے آتا ہے۔پس اسے سنبھال کررکھنے کی بجائے اللہ کی راہ میں اسے خرچ کرنا اور اپنی عاقبت اور آخرت کیلئے کچھ زاد راہ بنانا ،یہی عقلمندی اور سعادت ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سال 2004 میں اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ سال 2008 تک جو خلافت جوبلی کا سال ہے، جماعت کے کمانے والے افراد کا نصف حصہ نظام وصیت میں شامل ہوجائے۔ لیکن افسوس کہ ہم اب تک حضور انور کی اس خواہش کو پورا نہیں کرسکے۔ اللہ کرے کہ ہم جلد از جلد وصیت کے بابرکت نظام میں شامل ہوکر اپنی دُنیا و عاقبت کو سنوارنے والے ہوں۔ ذیل میں وصیت کی اہمیت و برکات کے متعلق سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے کچھ ارشادات پیش ہیں۔
وصیت معیار ہے ایمان کے کامل ہونے کا
سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
جماعت کووصیت کی اہمیت بتائی جائے اور بتایا جائے کہ یہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ طریق ہے ۔تو میں سمجھتا ہوں کہ ہزاروں آدمی جنہیں تا حال اس طرف توجہ نہیں ہوئی وصیت کے ذریعہ اپنے ایمان کامل کرکے دکھائیں گے…وصیت کی تحریک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کے ساتھ بہت سے انعامات وابستہ ہیں۔ابھی تک جنہوں نے وصیت نہ کی ہو وہ کرکےاپنے ایمان کے کامل ہونے کا ثبوت دیں۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے جوشخص وصیت نہیں کرتا مجھے اس کے ایمان میں شبہ ہے۔ پس وصیت معیار ہے ایمان کے کامل ہونے کا۔ (خطبات محمود، جلد 10، صفحہ 166)
وصیت دین کو دُنیا پر مقدم کرنے کا ایک عملی ثبوت ہے
مَیں نے اپنی جماعت کے دوستوںکو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ وصیت کا معاملہ نہایت اہم معاملہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے ایسی خصوصیت بخشی ہے اور اللہ تعالیٰ کے خاص الہامات کے ماتحت اسے قائم کیا ہے کہ کوئی مومن اس کی اہمیت اور عظمت کا انکار نہیں کرسکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قائم کردہ سارا نظام ہی آسمانی اور خدائی اور الہامی نظام ہے مگر وصیت کا نظام ایسا نظام ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص الہام کے ماتحت قائم کیا گیا ۔ باقی امور ایسے ہیں جو عام الہام کے ماتحت قائم کئے گئے ہیں مگر وصیت کا مسئلہ ایسا ہے جو خاص الہام کے ماتحت قائم کیا گیا ہے۔ اور وصیت کا مسئلہ دین کو دُنیا پر مقدم کرنے کا ایک عملی ثبوت ہے۔ دین کو دُنیا پر مقدم کرنے کا عہد ایک اقرار تھا۔ اس کے متعلق مومن کیا کرتا۔ کئی لوگ تو اس اقرار کو پورا کرنے کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کرتے اور کئی یہ اقرار کرکے خاموش ہوجاتے ۔ پھر کئی ایسے ہوتے جو چاہتے کہ دین کو دنیا پر مقدم کریں مگر اس کے لئے راہ نہ پاتے اور انہیں معلوم نہ ہوتا کہ کیا کریں؟ پھر بیسیوں تھے جنہوں نے اس اقرار کو پورا کیا اور بیسیوں ایسے تھے جو حیران تھے کہ کیا کریں؟ پھر جو اقرار کو پوا کرنے کی کوشش کررہے تھے وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا اقرار پورا ہوتا ہے یا نہیں…
تب خدا تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ بتایا کہ جو لوگ یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ان کا اقرار پورا ہوا یا نہیں ان کے لئے یہ وصیت کا طریق ہے اس پر عمل کرنے سے وہ اپنے اقرار کو پورا کرسکتے ہیںکیونکہ وصیت میں شرط ہے کہ :
’’خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ ایسےکامل الایمان ایک ہی جگہ دفن ہوں
تا آئندہ نسلیں ایک ہی جگہ ان کو دیکھ کر اپنا ایمان تازہ کریں۔ ‘‘
پس یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ کوئی شخصحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ طریق پر وصیت کرے اور اس پر قائم رہے مگر کامل الایمان نہ ہو۔ تو وہ لوگ جن کے دل میں عدم اطمینان تھا اور وہ اس وجہ سے بے چین تھے کہ خبر نہیں ان کا اقرار پورا ہوا ہے یا نہیں ان کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے الہام کے ماتحت یہ رکھ دیا کہ وہ وصیت کریں۔ (خطبات محمود ،جلد 11، صفحہ 370)
جو شخص وصیت کرتا ہے خدا اس کو متقی بنا بھی دیتا ہے
تیسرے وصیت کا مسئلہ ہے ۔یہ خدا نے ہمارے لئے ایک نہایت ہی اہم چیز رکھی ہے۔ اور اس ذریعہ سے جنت کو ہمارے قریب کردیا ہے۔پس وہ لوگ جن کے دل میں ایمان اور اخلاص تو ہے مگر وہ وصیت کے بارہ میں سستی دکھلا رہے ہیں، میں انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ وصیت کی طرف جلدی بڑھیں ۔انہیں سستیوں کی وجہ سے دیکھا جاتا ہے کہ بڑے بڑے مخلص فوت ہوجاتے ہیں۔ ان کے آج کل کرتے کرتے موت آجاتی ہے پھر دل کُڑھتا ہے اورحسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش یہ بھی مخلصین کے ساتھ دفن کئے جاتے مگر دفن نہیں کئے جاسکتے۔سب کے دل ان کی موت پر محسوس کررہے ہوتے ہیں کہ وہ مخلص تھے اور اس قابل تھے کہ دوسرے مخلصین کے ساتھ دفن کئے جاتے مگر ان کی ذرا سی غفلت اورذرا سی سستی اس امر میں حائل ہوجاتی ہے ۔پھر بیسیوں ہماری جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دسویں حصہ سے زیادہ چندہ دیتے ہیں مگر وہ وصیت نہیں کرتے ۔ایسے دوستوں کو بھی چاہئے کہ وصیت کردیں بلکہ ایسے دوستوں کیلئے تو کوئی مشکل ہے ہی نہیں ۔پھر کئی ایسے ہیں جو پانچ پیسے یا چھ پیسے فی روپیہ چندہ دے رہے ہوتے ہیں اورصرف دمڑی یا دھیلا انہیں وصیت سے محروم کررہا ہوتا ہے ۔غرض تھوڑے تھوڑے پیسو ں کے فرق کی وجہ سے ہماری جماعت کے ہزار ہا آدمی وصیت سے محروم ہیں اور جنت کے قریب ہوتے ہوئے اس میں داخل نہیں ہوتے…
پس جس قدر ہوسکے دوستوں کو چاہئے کہ وہ وصیت کریں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وصیت کرنے سے ایمانی ترقی ضرور ہوتی ہے ۔جب اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس زمین میں یقین رکھتا ہوں کہ وصیت کرنے سے ایمانی ترقی ضرور ہوتی ہے۔جب اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس زمین میں متقی کو دفن کرے گا تو جو شخص وصیت کرتا ہے اسے متقی بنا بھی دیتا ہے ۔ (خطبات محمود ،جلد 13 ،صفحہ 563)
جو بھی وصیت کریگا اگر وہ ایک وقت میں جنتی نہیں تو بھی وہ جنتی بنادیا جائیگا
تیسرا فرض جس کی طرف میں جماعت کے دوستو ں کو توجہ دلاتا ہوں، وہ وصیت کا مسئلہ ہے ۔حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے لکھا ہے کہ وصیت ایمان کی آزمائش کا ذریعہ ہے ۔اوروہ اس کے ذریعہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون سچا مومن ہے اورکون نہیں…وصیت ایسی چیز ہے جو یقینی طور پر خدا کا مقرب ہونا ظاہر کرتی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ مؤمن ہی وصیت کرتا ہے لیکن اس میںبھی شبہ نہیں کہ اگر کسی شخص میں کچھ کمزوریاں بھی پائی جاتی ہوں تو جب وہ وصیت کرے تو اللہ تعالیٰ اپنے اس وعدے کے مطابق کہ بہشتی مقبرہ میں صرف جنتی ہی مدفون ہوں گے، اس کے اعمال کو درست کردیتا ہے ۔پس وصیت اصلاح نفس کا زبردست ذریعہ ہے کیونکہ جو بھی وصیت کرے گا اگر وہ ایک وقت میں جنتی نہیں تو بھی وہ جنتی بنادیا جائے گااور اگر اعمال اس کے زیادہ خراب ہیں تو خدا اس کے نفاق کو ظاہر کرکے اسے وصیت سے الگ کردے گا۔ (خطبات محمود ،جلد 13، صفحہ 562)
وصیت کے اغراض و مقاصد
جب وصیت کا نظام مکمل ہوگا تو صرف تبلیغ ہی اس سے نہ ہوگی بلکہ اسلام کے منشاء کے ماتحت ہر فرد بشر کی ضرورت کو اس سے پورا کیا جائیگا اور دکھ اور تنگی کو دنیا سے مٹادیاجائیگا انشاء اللہ۔ یتیم بھیک نہ مانگے گا، بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیگی، بے سامان پریشان نہ پھرے گا کیونکہ وصیت بچوں کی ماں ہوگی، جوانوں کی باپ ہوگی، عورتوں کا سہاگ ہوگی، اور جبر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کی اسکے ذریعہ سے مدد کریگا اور اس کا دینا بے بدلہ نہ ہوگا بلکہ ہر دینے والا خدا تعالیٰ سے بہتر بدلہ پائے گا۔ نہ امیر گھاٹے میں رہے گا نہ غریب، نہ قوم قوم سے لڑے گی بلکہ اس کا احسان سب دنیا پر وسیع ہوگا۔
(نظام نو، انوارالعلوم جلد 16، صفحہ600)
وصیت کا مال ساری دُنیا کے لئے خرچ ہوگا
جو روپیہ احمدیت کے ذریعہ اکٹھا ہوگا وہ کسی ایک ملک پر خرچ نہیں کیا جائے گا بلکہ ساری دنیا کے غریبوں کیلئے خرچ کیا جائیگا۔ وہ ہندوستان کے غرباء کے بھی کام آئے گا ، وہ چین کے غرباء کے بھی کام آئے گا ، وہ جاپان کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ افریقہ کے غرباء کے بھی کام آئے گا ، وہ عرب کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ انگلستان ، امریکہ ، اٹلی، جرمنی اور روس کے غرباء کے بھی کام آئے گا۔ (نظام نو، انوارالعلوم جلد 16، صفحہ593)
وصیت کرنے والے نظام نو کی بنیاد رکھنے والے
پس اے دوستو! جنہوںنے وصیت کی ہوئی ہے سمجھ لو کہ آپ لوگوں میں سے جس جس نے اپنی اپنی جگہ وصیت کی ہے اس نے نظام نو کی بنیاد رکھ دی ہے ۔ اُس نظام نوکی جو اس کی اور اس کے خاندان کی حفاظت کا بنیادی پتھر ہے ۔ (نظام نو، انوارالعلوم جلد 16، صفحہ601)
اللہ تعالیٰ سبھی احمدیوں کو جلد از جلد اس بابرکت نظام میں شمولیت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(منصور احمد مسرور)