اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-05

جماعت احمدیہ مسلمہ پر اخبار’ منصف‘ حیدرآبادکے اعتراضات کا جواب(8)

’’مجھ کو کافر کہہ کے اپنے کفر پر کرتے ہیں مہر
یہ تو ہے سب شکل ان کی ہم تو ہیں آئینہ دار‘‘
(منظوم کلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام )


گزشتہ سات شماروں سے ہم اخبار ’’منصف‘‘ حیدرآباد کے، بانی ٔجماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام پر اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ اعتراضات کی تفصیل اور اسکا پس منظر 17 ؍اگست کے شمارہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔منصف کا ایک اعتراض یہ کیا تھا کہ :
’’مرزا غلام احمد قادیانی نے مجددیت، محدثیت، مہدویت، مثلیت مسیح، مسیحیت، ظلی نبی، بروزی نبی، حقیقی نبی، ظل محمد ﷺ حتی کہ خدا ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کے باوجود اس کو ماننے والے خود کو احمدی مسلمان کہلوانا پسند کرتے ہیں اور یہ اُمید رکھتے ہیں کہ مسلمان بھی انہیں ایسا ہی خیال کریں۔‘‘
گزشتہ دو شماروں میں ہم نے مجددیت، محدثیت، مہدویت، مثلیت مسیح، مسیحیت، کے اعتراض کا جواب دے دیا ہے۔ اب ہم حقیقی نبی کے اعتراض کا جواب دیں گے۔ منصف کےمندرجہ بالا اعتراض سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے آپؑ کو حقیقی نبی بھی کہا ہے۔یہ سراسر جھوٹ ہے۔ اخبار منصف کے ایڈیٹر کا فرض ہے کہ وہ ہمیں دکھائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو کب اور کہاں حقیقی نبی قرار دیا ہے؟ سیّدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے اپنی کسی بھی تحریر میں اپنے آپ کو حقیقی نبی قرار نہیں دیا۔آپؑ نے ہمیشہ اپنے آپ کو ظلی اور بروزی نبی قرار دیا جس سے ہمیشہ آپ کی مُراد یہ رہی ہے کہ آپؑ آنحضرت ﷺ کے ظل تھے اور جو کچھ بھی آپؑ کو ملا وہ آنحضرت ﷺ کی متابعت اور پیروی کے نتیجہ میں ملا۔ اور اسکے مقابل حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقی نبوۃ کی اصطلاح استعمال فرماتے تھے جس سے مُراد آپ شرعی نبوت لیتے تھے یا ایسی نبوت لیتے تھے جو کسی شرعی نبی کی پیروی کے بغیر براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو۔پس جہاں کہیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی نبوت کا اقرار و اعلان کیا ہے وہ ظلی اور بروزی نبوت اور اُمتی نبوت ہے اور حقیقی نبوت سے آپؑ نے ہمیشہ انکار کیا ہے۔ اس تعلق میں آپؑکی اپنی تحریرات ذیل میں ہم پیش کرتے ہیں۔ آپؑفرماتے ہیں :
’’وَمَنْ  قَالَ بَعْدَ رَسُوْلِنَا وَسَیِّدِ نَا اِنِّیْ نَبِیٌّ اَوْرَسُوْلٌ عَلٰی وَجْہِ الْحَقِیْقَۃِ وَالْاِفْتَرَ اءِ وَتَرْکِ الْقُرْاٰنِ وَاَحْکَامِ الشَّرِیْعَۃِ الْغَّرَّاءِ فَھُوَکَافِرٌ کَذَابٌ ۔ غرض ہمارا مذہب یہی ہے کہ جو شخص حقیقی طور پر نبوّت کا دعویٰ کرے اور آنحضرتﷺ کے دامنِ فیوض سے اپنے تئیں الگ کرکے اوراُس پاک سرچشمہ سے جُدا ہو کر آپ ہی براہِ راست نبی اللہ بننا چاہتا ہے تو وہملحد بے دین ہے۔‘‘ (انجام آتھم، رُوحانی خزائن جلد11 ،صفحہ 27 ،28 حاشیہ )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں  :
اور اللہ کی قسم! مَیں ہی وہ مسیح موعود ہوں جس کی آخری زمانہ میں اور گمراہی کے پھیل جانے کے دنوں میں آمد کا وعدہ دیا گیا تھا اور یقیناً عیسیٰ فوت ہوچکا ہے اور تثلیثی مذہب باطل ہے… اور سلسلہ نبوت تو ہمارے نبی ﷺ کے بعد منقطع ہوگیا اور فرقان حمید جو تمام صُحُفِ سابقہ سے بہتر ہے، کے بعد کوئی اور کتاب نہیں اور نہ شریعت محمدیہ کے بعد کوئی اور شریعت ہے ۔ البتہ خیر البریہ ﷺ کی زبان مبارک سے میرا نام نبی رکھا گیا اور یہ آپ کی کامل اتباع کی برکات کی وجہ سے ایک ظلی امر ہے۔ اور مَیں اپنی ذات میں کوئی خوبی نہیں پاتا اور مَیں نے جو کچھ پایا اس پاک نفس سے پایا۔ میری نبوت سے اللہ کی مُراد محض کثرت مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ ہے۔ اور اللہ کی لعنت ہو اس پر جو اس سے زائد کا ارادہ کرے۔ یا وہ اپنے آپ کو کوئی شئے سمجھے یا جو حضور ﷺ کی غلامی سے اپنی گردن کو باہر نکالتا ہو اور یقیناً ہمارے رسول خاتم النّبیین ہیں۔ آپ پر سلسلہ مرسلین منقطع ہوگیا۔ پس کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہمارے رسول پاک کے بعد نبوت مستقلہ کا دعویٰ کرے اور آپ کے بعد سوائے کثرت مکالمہ اور کچھ باقی نہیں رہااور وہ بھی اتباع کی شرط کے ساتھ ہے نہ کہ خیر البریہ کی متابعت کے بغیر۔ اور اللہ کی قسم مجھے یہ مقام صرف اور صرف مصطفوی شعاعوں کی اتباع کے انوار سے حاصل ہوا ہے۔
اور اللہ کی طرف سے مجھے حقیقی طور پر نہیں بلکہ مجازی طور پر نبی کا نام دیا گیا ہے ۔ اس طرح یہاں اللہ اور اس کے رسول کی غیرت جوش میں نہیں آتی، کیونکہ میری پرورش نبی کریم ﷺ کے پروں کے نیچے کی جارہی ہے اور میرا یہ قدم نبی ﷺ کے قدموں کے نیچے ہے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ مَیں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا بلکہ مَیں نے اسی وحی کی پیروی کی ہے جو میرے ربّ کی طرف سے مجھے کی گئی ہے۔ اور اس کے بعد مَیں مخلوق کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتا اور قیامت کے روز ہر شخص سے اس کے عمل کی پُرشش کی جائے گی اور اللہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ (اُردو ترجمہ الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی، صفحہ 154)
اس عبارت میں سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دو مرتبہ مستقل نبوت سے انکار کیا ہے۔ ہم عربی عبارت کا وہ حصہ بھی ذیل میں درج کردیتے ہیں۔ آپؑفرماتے ہیں :
(1) ’’ وَاِنَّ رَسُوْلَنَا خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَعَلَیْہِ اِنْقَطَعَتْ سِلْسِلَۃُ الْمُرْسَلِیْنَ فَلَیْسَ حَقُّ اَحَدٍ اَنْ یَّدَّعِیْ النُّبُوَّۃَ بَعْدَ رَسُوْلِنَا الْمُصْطَفٰی عَلَی الطَّرِیْقَۃِ الْمُسْتَقِلَّۃِ۔‘‘
یقیناً ہمارے رسول خاتم النّبیین ہیں۔ آپ پر سلسلہ مرسلین منقطع ہوگیا۔ پس کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہمارے رسول پاک کے بعد نبوت مستقلہ کا دعویٰ کرے ۔
(2) ’’ سُمِّیتُ نَبِیًّا مِنَ اللہِ عَلٰی طَرِیْقِ الْمَجَازِ لَاعَلٰی وَجْہِ الْحقِیْقَۃِ فَلَا تَھِیْجُ ھٰھُنَا غَیْرَۃُ اللہِ وَلَا غَیْرَۃَ رَسُوْلِہٖ فَاِنِّیْ اُرُبّٰی تَحْتَ جَنَاحِ النَّبِیِّ وَقَدَمِیْ ھٰذَا تَحْتَ الْاَقْدَامِ النَّبَوِیَّۃِ ۔‘‘
اللہ کی طرف سے مجھے حقیقی طور پر نہیں بلکہ مجازی طور پر نبی کا نام دیا گیا ہے ۔ اس طرح یہاں اللہ اور اس کے رسول کی غیرت جوش میں نہیں آتی، کیونکہ میری پرورش نبی کریم ﷺ کے پروں کے نیچے کی جارہی ہے اور میرا یہ قدم نبی ﷺ کے قدموں کے نیچے ہے۔
پس سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مستقل نبوت کا کہیں بھی دعویٰ نہیں فرمایابلکہ ہر جگہ مستقل نبوت سے انکار کیا ہے۔اور مستقل نبوت سے آپ کی مُراد یہی تھی کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی اور متابعت سے آزاد ہوکر نبوت کا دعویٰ کیا جائے۔ ہاں آنحضرت ﷺ کی متابعت میں اور آپ کی محبت میں فنا ہونے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مقام نبوت سے سرفراز فرمایا ہے ، اِس نبوت سے آپؑنے انکار نہیں فرمایا۔اور اسی کو آپؑنے ظلی اور بروزی اور اُمتی نبوت کا نام دیا۔ پس آنحضرت ﷺ کے ظل اور بروز ہونے کی وجہ سے آپؑنے ظلی بروزی اور اُمتی نبی ہونے کا دعویٰ فرمایا ۔اُمتی نبی ہونے سے ختم نبوت کی مہر نہیں ٹوٹتی۔یہی وجہ ہے کہ جب ہم اپنے غیر احمدی بھائیوں سے پوچھتے ہیں کہ جب آپ کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نزول فرمائیں گے تو ختم نبوت کی مہر ٹوٹے گی یا نہیں؟ تو وہ یہی جواب دیتے ہیں کہ وہ اُمتی نبی ہونگے۔ یعنی اُمتی نبی کا آنا آپ کے نزدیک بھی جائز ہے جس سے ختم نبوت کی مہر نہیں ٹوٹتی۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کسی بھی قیمت پر اُمتی نبی نہیں ہوسکتے۔ وہ رسولاً اِلیٰ بنی اسرائیل ہیں۔ اُن کے آنے سے ختم نبوت کی مہر ضرور بالضرور ٹوٹ جائے گی۔ لیکن حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اُمتی ہیں آپؑکے دعویٔ نبوت سے ختم نبوت کی مہر نہ ٹوٹی اور نہ ٹوٹے گی۔ اب ہم سیّدنا حضرت مرزا غلام احمد قادنی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے کچھ ارشادات پیش کرتے ہیں جن میں آپؑنے فرمایا ہے کہ آپؑکو جو کچھ بھی ملا وہ آنحضرت ﷺ کی متابعت اور پیروی کے نتیجہ میں اور آنحضرت ﷺ کی اُمت میں ہونے کی وجہ سے ملا ہے۔ آپؑفرماتے ہیں  :
’’ اگرمَیں آنحضرت ﷺکی امت نہ ہوتا اورآپؐکی پیروی نہ کرتا تو اگردنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگز نہ پاتا کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں ۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آ سکتا اوربغیر شریعت کے نبی ہو سکتاہے مگروہی جو پہلے امّتی ہو۔ پس اسی بناء پرمیں امتی بھی ہوں اورنبی بھی اور میر ی نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ آنحضرتﷺ کی نبوت کا ایک ظل ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں ۔ وہی نبوت محمدیہ ہے جو مجھ میں ظاہرہوئی ہے۔ اور چونکہ میں محض ظلّ ہوں اور امتی ہوں اس لئے آنجنابؐکی اس سے کچھ کسرِ شان نہیں‘‘ (تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن، جلد20 ،صفحہ 411)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں  :
’’ یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوے میں نبی کا نا م سن کر دھوکہ کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اُس نبوت کا دعویٰ کیاہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں ۔ میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت ﷺکے افاضۂ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کیلئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا ۔ اسلئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی اور میر ی نبوت آنحضرت ﷺ کی ظل ہے نہ کہ اصلی نبوت، اِسیوجہ سے حدیث اور میرے الہام میں جیساکہ میرا نام نبی رکھا گیا ایساہی میرا نام امتی بھی رکھا ہے تا معلوم ہو کہ ہرایک کمال مجھ کو آنحضرتﷺ کی اتباع اور آپ کے ذریعہ سے ملا ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن، جلد22،صفحہ154 حاشیہ )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں  :
’’ نبوت اور رسالت کا لفظ خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں میری نسبت صدہا مرتبہ استعمال کیا ہے مگر اس لفظ سے صرف وہ مکالمات مخاطبات الٰہیہ مراد ہیں جو بکثرت ہیں اور غیب پر مشتمل ہیں اِس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ہر ایک شخص اپنی گفتگو میں ایک اصطلاح اختیار کرسکتا ہے۔ لِکُلٍّ اَنْ یَّصْطَلِحَ سوخدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اُس نے نبوت رکھا ہے یعنی ایسے مکالمات جن میں اکثر غیب کی خبریں دی گئی ہیں اور لعنت ہے اُس شخص پر جو آنحضرت ﷺ کے فیض سے علیحدہ ہوکر نبوت کادعوٰی کرے مگر یہ نبوت آنحضرت ﷺ کی نبوت ہے نہ کوئی نئی نبوت اور اس کا مقصد بھی یہی ہےکہ اسلام کی حقانیت دنیا پر ظاہر کی جائے اور آنحضرت ﷺ کی سچائی دکھلائی جائے۔‘‘ (چشمہ معرفت ، روحانی خزائن، جلد23 ،صفحہ 341)
’’ میں اُس کے رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں اور جانتا ہوں کہ تمام نبوتیں اُس پر ختم ہیں اور اُس کی شریعت خاتم الشرائع ہے مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں یعنی وہ نبوت جو اُس کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور جو اُس کے چراغ میں سے نور لیتی ہے وہ ختم نہیں کیونکہ وہ محمدی نبوت ہے یعنی اُس کا ظل ہے اور اُسی کے ذریعہ سے ہے اور اُسی کا مظہر ہےاور اُسی سے فیضیاب ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت ، روحانی خزائن، جلد23، صفحہ 340)
حقیقی نبی پر اعتراض کا ہم نے جواب دیدیا ہے ۔’’منصف‘‘ کے ایڈیٹر کے ذمہ ہے کہ وہ ہمیں بتائے کہ کس جگہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے آپ کو حقیقی نبی قرار دیا ہے۔ آئندہ شمارہ میں ہم ظل محمد ﷺ کے اعتراض کا جواب دیں گے۔

(منصور احمد مسرور)