اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-21

جماعت احمدیہ مسلمہ پر اخبار’ منصف‘ حیدرآبادکے اعتراضات کا جواب(6)

’’مجھ کو کافر کہہ کے اپنے کفر پر کرتے ہیں مہر

یہ تو ہے سب شکل ان کی ہم تو ہیں آئینہ دار‘‘

(منظوم کلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام )

گزشتہ پانچ شماروں سے ہم اخبار’’منصف‘‘ حیدرآباد کے، بانی ٔجماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام پر اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ اعتراضات کی تفصیل اور اسکا پس منظر 17 اگست کے شمارہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔منصف کا ایک اعتراض یہ ہے کہ :
’’مرزا غلام احمد قادیانی نے مجددیت، محدثیت، مہدویت، مثلیت مسیح، مسیحیت، ظلی نبی، بروزی نبی، حقیقی نبی، ظل محمد ﷺ حتی کہ خدا ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کے باوجود اس کو ماننے والے خود کو احمدی مسلمان کہلوانا پسند کرتے ہیں اور یہ اُمید رکھتے ہیں کہ مسلمان بھی انہیں ایسا ہی خیال کریں۔‘‘
گویا اخبار ’’منصف‘‘ کا ایڈیٹر یہ کہنا چاہتا ہے کہ کوئی نبی ایک سے زائد دعویٰ نہیں کرسکتایا کسی نبی کی ایک سے زیادہ حیثیت نہیں ہوسکتی یا کوئی نبی ایک سے زائد ناموں سے پکارا نہیں جاسکتا۔ اور اگر ایسا ہو ا تو وہ نبی نہیں ہوسکتا اور اس کے ماننے والے مسلمان نہیں ہوسکتے۔اخبار’’منصف‘‘ کے ایڈیٹرکا یہ خیال درست نہیں۔ ایک نبی کی کئی حیثیتیں ہوسکتی ہیں اور وہ کئی ناموں سے پکارا جاسکتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اپنی اُمت میں آخری زمانے میں آنے والے نبی کی خبر مسیحؑ کے نام سے دی ۔ اور پھر اُسی کو مہدی کے نام سے بھی پکارا ہے۔اور یہ دونوں  نام آنحضرت ﷺ نے خود دئیے ہیں ۔اور ہر نبی اپنے زمانے کا مصلح اور مجدد ہوتا ہے۔ اور ہر نبی مُحَدَّث بھی ہوتا ہے۔ مُحَدَّث کا مطلب ہوتا ہے وہ جو اللہ تعالیٰ کے الہام و کلام سے مشرف ہوتے ہیں۔ اور بغیر کثرت مکالمہ و مخاطبہ کے کوئی نبی ہو ہی نہیں سکتا۔ اب اخبار ’’منصف‘‘ کے ایڈیٹر غور کرلیں کہ ایک نبی کی کتنی حیثیتیں ہوگئیں اور کتنے نام ہوگئے۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام مسیحؑ کے نام سے اس لئے بھیجے گئے کہ آپؑحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خُو بُو پر آئے۔ آپؑمیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں بہت ساری مشابہتیں ہیں۔اور آپؑکا ایک اہم کام حدیث میںکسر صلیب بیان کیا گیا ہے۔ مہدی، اللہ سے ہدایت یافتہ کو کہتے ہیں۔مہدی کا نام آنحضرت ﷺ نے اسلئے دیا کہ آپؑاللہ سے ہدایت یافتہ ہونگے۔ اور ہر نبی کا مُحَدَّث ہونا ضروری ہے اور وہ اپنے وقت کا مجدد بھی ہوتا ہے۔آنحضرت ﷺ کی بھی کئی حیثیتیں تھیں اور آپؑکے بھی کئی نام تھے۔ ملاحظہ فرمائیں :
عَنِ الزُّھْرِیِّ سَمِعَ مُحَمَّدَبْنَ جُبَیْرِبْنِ مُطْعِمٍ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اَ نَا مُحَمَّدٌ وَاَنَا اَحْمَدُ وَاَنَا الْمَاحِیْ الَّذِیْ یُمْحٰی بِیَ الْکُفْرُ وَاَنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی عَقِبِیْ وَاَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ۔ (مسلم کتاب الفضائل باب فی اسمائِہٖ ﷺ)
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا مَیں محمد ہوں، مَیں احمد ہوں، مَیں مِٹانے والا ہوں میرے ذریعہ کفر کو مٹایا جائے گا ۔ مَیں حاشر ہوں میری پیروی میں لوگوں کا حشر ہوگا اور مَیں آخر میں آنے والا ہوں میرے بعد کوئی (شرعی اورمستقل) نبی نہیں ہوگا ۔
اخبار ’’منصف‘‘ کے ایڈیٹرصاحب فرمائیےآنحضرت ﷺ کی کتنی حیثیتیں ہوگئیں اور کتنے نام ہوگئے! اب آپ فرمائیے کہ آنحضرت ﷺ نبی ہیں یا نہیں اورایڈیٹر صاحب خود کو مسلمان سمجھتے ہیں یا نہیں؟
اب آپ کا یہ اعتراض ہوگا کہ عیسیٰ ابن مریم اور امام مہدی دو الگ الگ وجود ہیں نہ کہ ایک ہی، جیسا کہ عام مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔ سو اس تعلق میں بڑے ہی ادب کے ساتھ عرض ہے کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ غلط ہے ۔ ایسا ہی غلط ہے جیسا کہ یہ عقیدہ غلط ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ عیسیٰؑ اور مہدیؑایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں :
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ   اللہُ  عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا یَزْدَادُ الْاَمْرُ اِلَّا شِدَّۃً وَلَا الدُّنْیَا اِلَّا اِدْبَارًا وَلَا النَّاسُ اِلَّا شُحًّا وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اِلَّا عَلٰی شِرَارَ النَّاسِ وَلَا الْمَھْدِیُّ اِلَّا عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ ۔ (ابن ماجہ باب شدۃ الزمان)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا : معاملات شدّت اختیار کرتے جائیں گے، دُنیا پر ادبار چھاجائے گا، لوگ بخیل ہوجائیں گے، شریر لوگ قیامت کا منظر دیکھیں  گے۔ اور نہیں ہیں مہدی مگر عیسیٰ ابن مریم۔
اخبار ’’منصف‘‘ کے ایڈیٹرصاحب غور فرمائیں کہ کس قدر واضح الفاظ میں آنحضرت ﷺ نے فرمادیا ہے کہ حضرت عیسیٰ ہی دراصل مہدی ہونگے۔
اب آپ کا اعتراض یہ ہوگا کہ عیسیٰ سے مُراد حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ہیں جو بنی اسرائیل کے نبی تھے، نہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام۔اور وہ آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں اور کسی وقت بھی آسمان سے امت محمدیہ کی اصلاح کے لئے نازل ہونگے۔ سو اس تعلق میں بڑے ادب کے ساتھ استفسار ہے کہ جب وہ نازل ہونگے تو نبی ہونگے یا نہیں؟اگر نبی ہونگے تو ختم نبوت کی مہر ٹوٹ جائےگی یا نہیں؟ عموماً اس سوال کےجواب میں یہی کہا جاتا ہے کہ نہیں ٹوٹے گی کیونکہ وہ امتی نبی ہونگے۔ ہمارا بھی اخبار ’’منصف‘‘ کے ایڈیٹرکو اور تمام غیر احمدی مسلمانوں کو یہی جواب ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اُمتی نبی ہیں ۔
لیکن دونوں جواب میں ایک بہت بڑا فرق ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا جواب سو فیصد درست ہے اور ہمارے غیر احمدی بھائیوں کا جواب سو فیصد غلط ہے۔ کیونکہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام تو اُمتی ہیں اور جو کچھ بھی آپؑنے پایا آنحضرت ﷺ کی اُمت میں ہونیکی وجہ سے اور آنحضرت ﷺ کی متابعت میں اور آپؐمیں  فنا ہونیکی وجہ سے پایا۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُمتی کیسے ہوسکتے ہیں؟ وہ تو بنی اسرائیل کے نبی تھے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ آپؑکے تعلق سے فرماتا ہے : وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ(آل عمران:50) کہ وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول بناکر بھیجے گئے تھے۔ اگر کہو کہ اُمت میں نازل ہونیکے بعد اُمتی ہوجائیںگے تو یہ دھوکا ہے کیونکہ اُمتی نبی ہونے سے مُراد یہ ہے کہ نبوت کا ملنا آنحضرت ﷺ کی متابعت کے نتیجہ میں ہو۔ وہ تو بنی بنائی نبوت لیکر اُتریں گے۔ اگر کہو کہ پہلی نبوت منسوخ ہوگی اور پھر آنحضرت ﷺ کی متابعت کے نتیجہ میں نئے سرے سے نبوت ملے گی تو یہ ثابت کرنا اخبار ’’منصف‘‘ کے ایڈیٹر اور ہمارے غیر احمدی مسلمان بھائیوں کے ذمہ ہے کہ نازل ہونیکے بعد حضرت عیسیٰ بن مریم قرآن و حدیث اور اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کریں گے اور پھر چالیس سال بعد اُنہیں نبوت ملے گی۔ اگر یہ بھی بیان کردیں تو مہربانی ہوگی کہ اُترنے کے وقت اُن کی کیا عمر ہوگی تا اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے کہ چالیس سال بعد جب نبوت ملے گی تو اُس وقت اُن کی عمر کیا ہوگی۔
اور بعض تو یہ جواب دیتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام جب نازل ہونگے تو وہ محض ایک امتی ہونگے نبی نہیں ہونگےکیونکہ اُن کا دل گواہی دیتا ہے کہ اگر اُن کو نبی مان لیا تو واقعی ختم نبوت کی مہر ٹوٹ جائے گی۔ لیکن یہ جواب بھی حددرجہ غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کونبوت عطا کرکے پھر چھینتا نہیں ہے۔ اس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ پھر اگر وہ نبی نہیں ہونگے تو اُن کو ماننا بھی فرض نہیں ہوگاکیونکہ صرف نبی کا ماننا ہی فرض ہوتا ہے۔ پھر اگر اُن کا ماننا ہی فرض نہ ہوگا تو پھر اُمت چودہ سو سال سے اُس کا انتظار کیوں کررہی ہے؟اور آنحضرت ﷺ نے اپنی اُمت کو اس کی خبر بار بار اور تکرار کے ساتھ کیوں دی؟ کیا اس لئے کہ جب وہ آئے تو بے شک اُس کو نہ ماننا۔ یہ بہت ہی مضحکہ خیز بات ہے۔
اگر کہو کہ جو پہلے سے ہی نبی تھا اس کے آنے سے ختم نبوت کی مہر نہیں ٹوٹے گی نئے نبی کے آنے سے ٹوٹے گی تو اس پر ہمارا سوال ہوگا کہ جو پُرانا نبی آئے گا وہ ضرورت کے تحت آئے گا یا بلا ضرورت؟ اس کا ایک ہی جواب ہوگا کہ ضرورت کے تحت آئے گا کیونکہ نبی بلا ضرورت نہیں آیا کرتا۔تو اس صورت میں ہمارے غیر احمدی بھائیوں نے نبوت کی ضرورت کو تسلیم کرلیااور مان لیا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد بھی نبی کی ضرورت ہے۔
اور یہی درست ہے کہ اُمت محمدیہ کو آنحضرت ﷺ کے بعد بھی نبوت کی ضرورت ہے لیکن یہ نبوت اُس کو ملے گی جو امت محمدیہ کا ایک فرد ہوگا۔ بزرگان اُمت کا اس پر اتفاق ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جس مسیح کی خبر دی ہے جب وہ نازل ہوگا تو وہ نبی ہوگا۔اس کی حیثیت نبی کی حیثیت ہوگی۔
اصل بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام جو بنی اسرائیل کے نبی تھے، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چودہ سو سال بعد مبعوث ہوئے تھے ، قرآن کریم کی رُو سے فوت ہوگئے ہیں۔ اُن کا زندہ آسمان میں ہونیکا عقیدہ غلط ہے۔ آنحضرت ﷺ نے جو اُنکے آنے کی خبر دی ہے دراصل اُنکے مثیل کے آنیکی خبر دی ہے۔ ہم پورے یقین اور بصیرت سے کہتے ہیں کہ یہی درست ہے، اگر نہیںتو اخبار ’’منصف‘‘ کے ایڈیٹر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات پر مضمون لکھیں اور ہم اُنکی وفات پر لکھیں گے۔دونوں مضامین اخبار ’’منصف‘‘ میں شائع ہوں ۔عوام خود ہی فیصلہ کرلے گی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام واقعی زندہ ہیں یا وفات پاگئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يٰحَسْرَۃً عَلَي الْعِبَادِ۝۰ۚمَا يَاْتِيْہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِہٖ يَسْتَہْزِءُوْنَ۝پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے۔ مگر ایسا آدمی جو تمام لوگوں کے روبرو آسمان سے اُترے اور فرشتے بھی اُس کے ساتھ ہوں اُس سے کون ٹھٹھا کرے گا۔ پس اس دلیل سے بھی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود کا آسمان سے اُترنا محض جھوٹا خیال ہے۔ یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا۔ ہمارے سب مخالف جواَب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسیٰؑبن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا۔ اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسٰیؑبن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گی۔ تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسٰیؑ اب تک آسمان سے نہ اُترا۔ تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے۔ اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔ مَیں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے۔(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20صفحہ 67)
آئندہ شمارہ میں ہم منصف کےدیگر اعتراض کا جواب دیں گے۔

(منصور احمد مسرور)