گزشتہ چار شماروں سے ہم اخبار’’منصف‘‘ حیدرآباد کے، بانی ٔجماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام پر اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ اعتراضات کی تفصیل اور اسکا پس منظر 17 اگست کے شمارہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ منصف نے ایک اعتراض یہ کیا ہے کہ سیّدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے انگریزوں کے ساتھ مل کرسازش کی تھی۔نعوذ باللہ من ذالک۔ ہم نے دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ یہ واضح کردیاکہ یہ اعتراض محض ایک کھوکھلا، جھوٹا، بے بنیاداور انتہائی احمقانہ اعتراض ہے۔اب ہم اس اعتراض کا ایک اَور پہلو سے جواب دیتے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے انگریزی حکومت کی تعریف کی اور اس کے خلاف جہاد کرنے سے منع فرمایا۔ جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگریزی حکومت کی تعریف کا سوال ہے اس کا جواب ہم گزشتہ شمارہ میں دے چکے ہیں اور بتاچکے ہیں کہ صرف مسیح موعود علیہ السلام ہی نہیں بلکہ اُس زمانے کے چوٹی کے مسلمان علماء اور اسکالرانگریزی حکومت کی تعریف میں رطب اللسان تھے اور گورنمنٹ انگریزی سے فائدے بھی اُٹھاتےرہے۔ اِس شمارہ میں ہم اِس اعتراض کا جواب دیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزی حکومت سے جہاد کی ممانعت فرمائی۔ یہ درست ہے کہ آپؑنے جہاد کے نام پر حکومت سے سرکشی، بغاوت، ناحق کشت و خون اور قتل و غارت سے منع فرمایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’جس حالت میں شریعت اسلام کا یہ واضح مسئلہ ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ایسی سلطنت سے لڑائی اور جہاد کرنا جسکے زیر سایہ مسلمان لوگ امن اور عافیت اور آزادی سے زندگی بسر کرتے ہوں اور جسکے عطیات سے ممنون منت اور مرہون احسان ہوں اور جس کی مبارک سلطنت حقیقت میں نیکی اور ہدایت پھیلانے کیلئے کامل مددگار ہو قطعی حرام ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات، جلد اول، صفحہ66)
اور یہی مذہب حضرت سید احمد بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ مجدد تیرھویں صدی کا تھا۔ مولانا محمد جعفر تھانیسری مؤلف’’ سوانح احمدی‘‘ لکھتے ہیں کہ ایک سائل نے یہ سوال کیا کہ آپ انگریزوں سے جو دین اسلام کے منکر اور اس ملک کے حاکم ہیں جہاد کر کے ملک ہندوستان کیوں نہیں لے لیتے؟ آپ نے فرمایا:
’’سرکار انگریزی گو منکر اسلام ہے مگر مسلمانوں پر ظلم اور تعدّی نہیں کرتی اور نہ ان کوفرض مذہبی اور عبادت لازمی سے روکتی ہے۔ ہم ان کے ملک میں علانیہ وعظ کہتے ہیں اور ترویج مذہب کرتے ہیں وہ کبھی مانع اور مزاحم نہیں ہوتی …ہمارا اصل کام اشاعتِ توحید الٰہی اور احیائے سُنن سیّد المرسلینؐ ہے۔ سو وہ بلا روک ٹوک اس ملک میں ہم کرتے ہیں۔ پھر ہم سرکار انگریزی پر کس سبب سے جہاد کریں اور خلاف اصولِ اسلام طرفین کا خون بلا سبب گراویں۔ یہ جواب باصواب سن کر سائل خاموش ہو گیا اور اصل غرض جہاد کی سمجھ گیا۔‘‘ (سوانح احمدی کلاں، صفحہ 71)
اور صفحہ 139 میں لکھتے ہیں :
’’سیّد صاحب کا سرکار انگریزی سے جہاد کرنے کا ہرگز ارادہ نہیں تھا وہ اس آزاد عملداری کو اپنی عملداری سمجھتے تھے۔‘‘
آپ کے دستِ راست شاگردِ رشید حضرت مولانا محمد اسماعیل شہیدؒ سے اثنائے قیامِ کلکتہ جبکہ آپ وعظ فرما رہے تھے، یہ سوال کیا گیا کہ سرکار انگریزی پر جہاد کرنا درست ہے یا نہیں؟ تو آپ نے اسکے جواب میں فرمایا :
’’ایسی بے رُو ریا اور غیر متعصب سرکار پر کسی طرح بھی جہاد کرنا درست نہیں ہے۔‘‘ (سوانح احمدی کلاں، صفحہ 57)
اور سرسیّد احمد خان مرحوم نے اپنی تالیف ’’رسالہ بغاوت ہند‘‘ میں بدلائل ثابت کیا ہے کہ بغاوت 1857 جہاد نہ تھی اور نہ مسلمان انگریزی گورنمنٹ سے جہاد کرنے کے شرعاً مجاز تھے۔
مولوی محمد حسین بٹالوی نے ایک رسالہ ’’الاقتصاد فی مسائل الجہاد‘‘ 1876ء میں تصنیف کیا اور علمائے اسلام کی رائے حاصل کرنیکے لئے انہوں نے لاہور سے لے کر عظیم آباد اور پٹنہ تک سفر کیا اور مختلف فرقہائے اسلام کے اکابر علماء کو یہ رسالہ حرف بحرف سُنا کر ان کا توافق رائے حاصل کیا۔ اس میں آپ دلائل ذکر کر کے لکھتے ہیں:
’’ان دلائل سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ملک ہندوستان باوجودیکہ عیسائی سلطنت کے قبضہ میں ہے دارالاسلام ہے۔ اس پر کسی بادشاہ کو عرب کا ہو خواہ عجم کا، مہدی سوڈانی ہو یا حضرت سلطان شاہ ایرانی، خواہ امیر خراسان ہو مذہبی لڑائی و چڑھائی کرنا ہرگز جائز نہیں۔‘‘ (الاقتصاد ،صفحہ 16)
اور لکھتے ہیں : ’’اہلِ اسلام کو ہندوستان کے لئے گورنمنٹ انگریزی کی مخالفت و بغاوت حرام ہے۔‘‘ (اشاعۃ السنہ، جلد6 ،نمبر 10 ،صفحہ187)
اور لکھتے ہیں : ’’اس امن و آزادیٔ عام و حسنِ انتظام برٹش گورنمنٹ کی نظر سے اہل حدیثِ ہند اس سلطنت کو از بس غنیمت سمجھتے ہیں اور اس سلطنت کی رعایا ہونے کو اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیںاور جہاں کہیں وہ رہیں اور جائیں (عرب میں خواہ روم میں خواہ اَ ور کہیں) کسی اور ریاست کا محکوم و رعایا ہونا نہیں چاہتے۔‘‘ (اشاعۃ السنہ، نمبر10 ،جلد 6 ،صفحہ 293)
یہی مذہب نواب مولوی محمد صدیق حسن خان آف بھوپال اور مولوی نذیر حسین محدث دہلوی کا تھا اور یہی فتویٰ مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی اشرف علی تھانوی وغیرہ نے دیا اور یہی مذہب مولوی عبدالعزیز اور مولوی محمد مفتی لدھیانہ کا تھا کہ : ’’انگریزی گورنمنٹ کی مخالفت مسلمانوں کے لئے شرعاً حرام ہے۔‘‘( ’’نصرۃ الابرار‘‘ مؤلفہ مولوی محمد مفتی لدھیانہ 1306 ہجری)
اور مولانا ظفر علی خان مدیر اخبار ’’زمیندار‘‘ بھی ہندوستان کو دارالاسلام قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’زمیندار اور اسکے ناظرین گورنمنٹ برطانیہ کو سایۂ خدا سمجھتے ہیں اور اسکی عنایاتِ شاہانہ اور انصاف خسروانہ کو اپنی دلی ارادت و قلبی عقیدت کا کفیل سمجھتے ہوئے اپنے بادشاہ عالم پناہ کی پیشانی کے ایک ایک قطرے کی بجائے اپنے جسم کا خون بہانے کیلئے تیار ہیں اور یہی حالت ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی ہے۔‘‘ (زمیندار 9؍نومبر 1911ء)
اورلکھتے ہیں :
’’مسلمان ایک لمحہ کیلئے ایسی حکومت سے بدظن ہونیکا خیال نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی بدبخت مسلمان گورنمنٹ سے سرکشی کی جرأت کرے تو ہم ڈنکے کی چوٹ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان مسلمان نہیں‘‘ (زمیندار11؍ نومبر1911ء)
علامہ السید الحائری مجتہد العصر (شیعی لیڈر) گورنمنٹ برطانیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ہم کو ایسی سلطنت کے زیر سایہ ہونے کا فخر حاصل ہے جس کی حکومت میں انصاف پسندی اور مذہبی آزادی قانون قرار پا چکی ہے جس کی نظیر اور مثال دنیا کی کسی اور سلطنت میں نہیں مل سکتی۔ غور کرو کہ تم اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے کیونکر بے خوف و خطر پوری آزادی کے ساتھ آج سرِ میدان تقریریں اور وعظ کر رہے ہو۔ اور کس طرح ہر قسم کے سامان اس مبارک عہد مسعود میں ہمیں میسّر آئے ہیں جو پہلے کسی حکومت میں موجود نہ تھے۔ گزشتہ غیر مسلم سلطنتوں کے عہد میں یہ حالت تھی کہ مسلمان اپنی مسجدوں میں اذان تک نہ کہہ سکتے تھے اَور باتوں کا تو ذکر ہی کیا ہے، حلال چیزوں کے کھانے سے روکا جاتا تھا۔کوئی باقاعدہ تحقیقات ہوتی ہی نہ تھی … اس لئے مَیں کہتا ہوں کہ ہر شیعہ کو اس احسان کے عوض میں (جو آزادیٔ مذہب کی صورت میں انہیں حاصل ہے) صمیم قلب سے برٹش حکومت کا رہین احسان اور شکر گزار ہونا چاہئے اور اس کیلئے شرع بھی اُن کو مانع نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اسلام علیہ و آلہٖ السلام نے نوشیروان عادل کے عہد سلطنت میں ہونے کا ذکر مدح و فخر کے رنگ میں بیان فرمایا ہے۔‘‘ (موعظہ تحریف قرآن بابت ماہ اپریل1923 صفحہ67،68 شائع کردہ ینگ مین سوسائٹی خواجگان نارووال لاہور)
شمس العلماء مولانا نذیر احمد دہلوی نے اپنے لیکچر میں جو 5؍ اکتوبر1888ء کو ٹائون ہال دہلی میں دیا گورنمنٹ انگریزی کے متعلق فرمایا : ’’کیا گورنمنٹ جابر اور سخت گیر ہے؟ توبہ توبہ ماں باپ سے بڑھ کر شفیق۔‘‘(مولانا مولوی حافظ نذیر احمد دہلوی کے لیکچروں کا مجموعہ -بار اوّل1890ء صفحہ9)
اور فرمایا: ’’جو آسائش ہم کو انگریزی عملداری میں میسر ہے کسی دوسری قوم میں اس کے مہیا کرنے کی صلاحیت نہیں۔‘‘ (ایضاً ،صفحہ 26)
ڈاکٹر سرسید احمد خان بہادر مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے انگریزی گورنمنٹ سے متعلق فرماتے ہیں :
’’بادشاہ عادل کا کسی رعیت پر مستولی ہونا درحقیقت خدا تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہےاور بلاشبہ تمام رعیت اس عادل بادشاہ کی احسان مند ہے۔ پس ہم رعایائے ہندوستان جو ملکہ معظمہ وکٹوریہ دام سلطنتہا ملکہ ہند و انگلینڈ کی رعیت ہیں، او ر جو ہم پر عدل و انصاف کے ساتھ بغیر قومی و مذہبی طرفداری کے حکومت کرتی ہے سرتاپا احسان مند ہیں اور ہم کو یہ ہمارے پاک اور روشن مذہب کی تعلیم ہے۔ ہم کو اس کی احسان مندی کا ماننا اور شکر بجا لانا واجب ہے۔‘‘ (مجموعہ لیکچر ہائے آنریبل ڈاکٹر سرسید احمد خان بہادر ہلالی پریس ساڈھورہ دسمبر 1892ء ،صفحہ15)
اور 10؍ مئی 1886ء کو بمقام علیگڑھ تقریر میں گورنمنٹ انگریزی سے اپنی خیر خواہی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’میری نصیحت یہ ہے کہ گورنمنٹ کی جانب سے اپنا دل صاف رکھو اور نیک دلی سے پیش آئو اور سب طرح پر گورنمنٹ پر اعتبار رکھو۔‘‘(مجموعہ لیکچر ہائے ڈاکٹر سرسید احمد خان بہادر ہلالی پریس ساڈھورہ دسمبر 1892ء صفحہ239)
پس جو نظریہ گورنمنٹ انگریزی سے جہاد کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا تمام جید علماء اسی نظریہ کے مؤیّدتھے۔ مندرجہ بالا اقوال کے علاوہ جو مسلّم سیاسی اور مذہبی مسلم رہنمائوں کے ہیں ایک غیر از جماعت شخص (ملک محمد جعفر خان ایڈووکیٹ) کا بیان پیش کرنا بھی غیر مناسب نہ ہو گا۔ ملک صاحب لکھتے ہیں :
’’مرزا صاحب کے زمانے میں انکے مشہور مقتدر مخالفین مثلاً مولوی محمد حسین بٹالوی ، پیرمہر علی شاہ گولڑوی، مولوی ثناء اﷲ صاحب اور سرسید احمد خان سب انگریزوں کے ایسے ہی وفادار تھے جیسے مرزا صاحب۔ یہی وجہ ہے کہ اُس زمانے میں جو لٹریچر مرزا صاحب کے ردّ میں لکھا گیا اُس میں اس امر کا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ مرزا صاحب نے اپنی تعلیمات میں غلامی پر رضا مند رہنے کی تلقین کی ہے۔‘‘ (احمدیہ تحریک، صفحہ 243 ،شائع کردہ سندھ ساگر اکیڈمی لاہور) (ماخوز از تعارف’’گورنمنٹ انگریزی اور جہاد‘‘ روحانی خزائن جلد 17، از حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب)
اخبار’’منصف‘‘ حیدرآبادنے سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو یہ اعتراض کیا کہ آپؑنے انگریزوں کے ساتھ مل کر سازش کی تھی، اس کا ہم نے ہر پہلو سے جواب دے دیا ہے۔’’منصف‘‘ اگر اپنے اعتراض میں مخلص ہے اوراپنی صحافت میں دیانتدار ہے تو ہمارے جواب کو بھی اپنے اخبار میں شائع کرے۔ آئندہ شمارہ میں ہم منصف کے دیگر اعتراضات کا جواب دیں گے۔ وباللہ التوفیق۔
(منصور احمد مسرور)
…٭…٭…٭…