گزشتہ تین شماروں سے ہم اخبار’’منصف‘‘ حیدرآباد کے ایڈیٹر کا، بانی ٔجماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام پر اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ اعتراضات کی تفصیل اور اسکا پس منظر 17 ؍اگست کے شمارہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ منصف نے ایک اعتراض یہ کیا ہے کہ سیّدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے انگریزوں کے ساتھ مل کرسازش کی تھی۔نعوذ باللہ من ذالک۔ ہم نے دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ یہ واضح کردیاکہ یہ اعتراض محض ایک کھوکھلا، جھوٹا، بے بنیاداور انتہائی احمقانہ اعتراض ہے۔اب ہم اس اعتراض کا ایک اَور پہلو سے جواب دیتے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے انگریزی حکومت کی تعریف کی اور انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے سے منع فرمایا۔
یہ بالکل درست ہے کہ سیّدنا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نےانگریزی حکومت کی تعریف کی اور حکومت کے خلاف جہاد کے نام پر بغاوت ، سرکشی اور قتل و غارت سے منع فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑکو مسیح و مہدی کے عظیم الشان منصب سے سرفراز فرمایا تھا ۔ آپؑکا فرض منصبی تھا کہ اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت کو از سرِ نو پوری دُنیا میں قائم کریں اور اس کا زندہ مذہب ہونا اور اس کے رسول کا زندہ رسول ہونا اور اس کی کتاب کا زندہ کتاب ہونا اور قیامت تک کے لئے ہونا دلائل و براہین سے ثابت کریں ۔ اس کے لئے ایک ایسی حکومت کی ضرورت تھی جہاں آپ پوری آزادی کے ساتھ تبلیغ و اشاعت کا کام کرسکیں۔ سو اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی مصلحت نے آپؑکو سلطنت انگریزی میں پیدا کیاجس کے زیر سایہ آپ نے تبلیغ و اشاعت کا حق خوب ادا کیا۔اس آزادی کے ساتھ دُنیا کے کسی بھی خطہ میں آپ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام نہیں کرسکتے تھے۔ اس لحاظ سے آپؑنے گورنمنٹ انگریزی کی بہت تعریف فرمائی کہ اس نے اپنی رعایاکے ساتھ نہایت عدل و انصاف کا سلوک کیا، مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ تبلیغ و اشاعت کا بھی پورا پورا حق دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’بعض نادان مجھ پر اعتراض کرتے ہیں جیسا کہ صاحب المنار نے بھی کیا کہ یہ شخص انگریزوں کے ملک میں رہتا ہے اس لئے جہاد کی ممانعت کرتا ہے یہ نادان نہیں جانتے کہ اگر میں جھوٹ سے اس گورنمنٹ کو خوش کرنا چاہتا تو میں بار بار کیوں کہتا کہ عیسیٰ بن مریم صلیب سے نجات پا کر اپنی موت طبعی سے بمقام سری نگر کشمیر مر گیا اور نہ وہ خدا تھا اور نہ خدا کا بیٹا۔کیا انگریز مذہبی جوش والے میرے اِس فقرہ سے مجھ سے بیزار نہیں ہوںگے؟ پس سنو! اَے نادانوں مَیں اِس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسی گورنمنٹ سے جو دین اسلام اور دینی رسوم پر کچھ دست اندازی نہیں کرتی اور نہ اپنے دین کو ترقی دینے کے لئے ہم پر تلواریں چلاتی ہے قرآن شریف کے رُو سے جنگ مذہبی کرنا حرام ہے کیونکہ وہ بھی کوئی مذہبی جہاد نہیں کرتی اور ان کا شکر کرنا ہمیں اس لئے لازم ہے کہ ہم اپنا کام مکہ اور مدینہ میں بھی نہیں کر سکتے تھے مگر ان کے ملک میں۔ یہ خدا کی طرف سے حکمت تھی کہ مجھے اس ملک میں پیدا کیا پس کیا میں خدا کی حکمت کی کسر شان کروں … خدا نے مجھے اس گورنمنٹ کے اونچے ٹیلے پر جہاں مفسدین کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا جگہ دی جو آرام کی جگہ ہے اور اس ملک میں سچے علوم کے چشمے جاری ہیں اور مفسدوں کے حملوں سے امن اور قرار ہے پھر کیا واجب نہ تھا کہ ہم اس گورنمنٹ کے احسانات کا شکر کرتے۔‘‘ (کشتی نوح،روحانی خزائن، جلد19،صفحہ 75حاشیہ)
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مَیں جھوٹ سے اس گورنمنٹ کو خوش کرنا نہیں چاہتا۔ اگرایسا ہوتا تو مَیں اُن کے خدا یسوع کو وفات یافتہ کیوں قراردیتا، ظاہر ہے کہ اس سے اُن کو تکلیف ہی ہوئی ہوگی۔ پس آپؑنے جو کچھ کہا حق کے اظہار کے لئے اور اسلامی تعلیم کے مطابق کہا۔’’یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مؤقف تھالیکن وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ چونکہ آپ نے انگریزوں کی تعریف کی ہے اس لئے انگریز کا ایجنٹ ہونا ثابت ہوگیا، اب ان کے کلمات سنئے…علامہ سرمحمد اقبال … اس زمانہ میں انگریزوں کے متعلق کیا کہا کرتے تھے اور کیا لکھا کرتے تھے، ان کے جذبات اور خیالات کیا تھے وہ ملاحظہ ہوں۔ ملکہ وکٹوریہ کی وفات پرآپ نے ایک مرثیہ لکھا اس میں فرماتے ہیں :
میّت اُٹھی ہے شاہ کی ، تعظیم کے لئے
اقبال اُڑ کے خاک سر رہ گزار ہو
صورت وہی ہے نام میں رکھا ہوا ہے کیا
دیتے ہیں نام ماہِ محرم کا ہم تجھے
یعنی جس مہینے میں ملکہ وکٹوریہ فوت ہوئیں اقبال کہتے ہیں کہ اس مہینہ کا نام جو مرضی رکھ لو حقیقت میں یہ محرم کے واقعہ سے مختلف نہیں ہے، محرم میں جو دردناک واقعہ گزرا تھا یہ واقعہ اس کی ایک نئی صورت ہے۔
مزید فرماتے ہیں :
کہتے ہیں آج عید ہوئی ہے، ہوا کرے
اس عید سے تو موت ہی آئے خدا کرے
پھر لکھتے ہیں :
اَے ہند تیرے سر سے اُٹھا سایۂ خدا
اِک غمگسار تیرے مکینوں کی تھی، گئی
ہلتا ہے جس سے عرش یہ رونا اسی کا ہے
زینت تھی جس سے تجھ کو جنازہ اسی کا ہے
(باقیات اقبال، مرتبہ سید عبدالواحد معینی ایم.اے.آکسن، شائع کردہ آئینہ ادب، انارکلی لاہور بار دوم صفحہ 73،76،81،90)
’منصف‘ کے ایڈیٹر ملاحظہ فرمائیں کہ علامہ اقبال نہ صرف ملکہ کی تعریف میں حد سے آگے نکل گئے بلکہ اسے سایۂ خدا بھی کہا۔ اہل حدیث کے چوٹی کے عالم اور بزرگ شمس العلماء مولانا نذیر احمد دہلوی فرماتے ہیں :
’’سارے ہندوستان کی عافیت اسی میں ہے کہ کوئی اجنبی حاکم اس پر مسلط رہے جو نہ ہندو ہو نہ مسلمان ہو کوئی سلاطین یورپ میں سے ہو(انگریز ہی نہیں جو بھی مرضی ہو یورپ کا ہو سہی) مگر خدا کی بے انتہا مہربانی اس کی مقتضی ہوئی کہ انگریز بادشاہ آئے۔ ‘‘ (مجموعہ لیکچرز مولانا نذیر احمد دہلوی ،صفحہ نمبر 4،5، مطبوعہ 1890)
پھر فرماتے ہیں :کیا گورنمنٹ جابر اور سخت گیر ہے توبہ توبہ ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ۔ (ایضاً صفحہ 19)
پھر فرماتے ہیں :’’میں اپنی معلومات کے مطابق اس وقت کے ہندوستان کے والیان ملک پر نظر ڈالتا تھا اور برما اور نیپال اور افغانستان بلکہ فارس اور مصر اور عرب تک خیال دوڑاتا تھا اس سرے سے اس سرے تک ایک متنفس سمجھ میں نہیں آتا تھا جس کو میں ہندوستان کا بادشاہ بناؤں (یعنی اگر مَیں نے خیالات میں بادشاہ بنانا ہوتا تو کس کو بناتا) امیدواران سلطنت میں سے اور کوئی گروہ اس وقت موجود نہ تھا کہ میں اس کے استحقاق پر نظر کرتا پس میرا اس وقت فیصلہ یہ تھا کہ انگریز ہی سلطنت ہندوستان کے اہل ہیں ،سلطنت انہی کا حق ہے، انہی پر بحال رہنی چاہئے۔ ‘‘ (ایضاً صفحہ 26)
ایڈیٹر رسالہ ’’ چٹان‘‘ شورش کاشمیری صاحب لکھتے ہیں :
جن لوگوں نے حوادث کے اس زمانہ میں نسخ جہاد کی تاویلوں کے علاوہ اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْکا مصداق انگریزوں کو ٹھہرایا ان میں مشہور انشاء پرداز ڈپٹی نذیر احمد کا نام بھی ہے۔ ‘‘ (کتاب ’’عطاء اللہ شاہ بخاری‘‘ صفحہ 135)
مولوی محمد حسین بٹالوی کے انگریزی سلطنت کے متعلق خیالات یہ تھے :
’’سلطان روم ایک اسلامی بادشاہ ہے لیکن امن عامہ اور حسن انتظام کے لحاظ سے (مذہب سے قطع نظر) برٹش گورنمنٹ بھی ہم مسلمانوں کے لئے کچھ کم فخر کا موجب نہیں ہے اور خاص گروہ اہل حدیث کے لئے تو یہ سلطنت بلحاظ امن و آزادی اس وقت کی تمام اسلامی سلطنتوں( روم، ایران، خراسان) سے بڑھ کر فخر کا محل ہے۔ ‘‘ (رسالہ اشاعۃ السنۃ، جلد 6، نمبر 10، صفحہ 292،293)
پھر فرماتے ہیں :اس امن و آزادی عام و حسن انتظام برٹش گورنمنٹ کی نظر سے اہل حدیث ہند اس سلطنت کو از بس غنیمت سمجھتے ہیںاور اس سلطنت کی رعایا ہونے کو اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیں۔ ‘‘(رسالہ اشاعۃ السنۃ ،جلد 6، نمبر 10، صفحہ 292،293)
مولانا ظفر علی خانصاحب کا ایک منظوم کلام ملاحظہ فرمائیں :
جھکا فرطِ عقیدت سے میرا سر
ہوا جب تذکرہ کنگ ایمپرر کا
جلالت کو ہے کیا کیا ناز اس پر
کہ شاہنشاہ ہے وہ بحر و بر کا
زہے قسمت جو ہو اِک گوشہ حاصل
ہمیں اس کی نگاہِ فیض اثر کا
(اخبار زمیندار لاہور 19؍اکتوبر 1911)
’’ندوۃ العلماء‘‘ کی بنیاد بھی ایک انگریز ہی نے رکھی۔ چنانچہ ان کا اپنا رسالہ ’’الندوہ‘‘ لکھتا ہے :
’’ہز آنر لیفٹیننٹ گورنر بہادر ممالک متحدہ نے منظور فرمایا تھا کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کا سنگ بنیاد اپنے ہاتھ سے رکھیں گے۔ یہ تقریب 28 نومبر 1908 کو عمل میں آئی۔ (الندوہ دسمبر 1908ء نمبر 11 جلد 5 صفحہ 2)
مذکورہ شمارہ جس کا حوالہ دیا گیا ہے ، اس کے صفحہ 4 پر عربی ایڈریس ہے جس میں سرجان برسکاٹ کے سی ایس آئی اِی کا ندوہ کا سنگ بنیاد رکھنے کی درخواست کو قبول کرنے پر شکریہ دا کیا گیا ہے ۔ (ایضاً)
یہ ذکر کرنے کے بعد اب اگلا حصہ قابل غور ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں یہ چبھن پیدا ہوئی کہ مسلمان لوگ پڑھیں گے تو کیا کہیں گے کہ جس ندوہ کی بنیاد انگریز گورنر نے رکھی ہے وہ آگے جاکر کیا بنے گا اور اس کے کیا مقاصد ہیں؟ چنانچہ وہ ایک نہایت ہی خطرناک بات کہہ گئے اور وہ اس سے بالکل نہیں شرمائے۔ وہ بات تو تمام مسلمانوں کے دل پر خطرناک چرکہ ہے۔ ایک انگریز سے سنگ بنیاد رکھوانے کی تائید میں اور اس کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے کہ کیوں ایسا ہوا فرماتے ہیں : ’’یہ پہلا ہی موقع تھا کہ ایک مذہبی درسگاہ کا سنگ بنیاد ایک غیر مذہب کے ہاتھ سے رکھا جارہا تھا۔ (مسجد نبوی کا منبر بھی ایک نصرانی نے بنایا تھا)‘‘ (الندوہ لکھنؤ دسمبر 1908ء صفحہ 1،2)
چونکہ نعوذ باللہ من ذالک ان کے نزدیک مسجد نبوی کے منبر بھی نصرانی بناتے رہے اس لئے اگر ’’ندوہ‘‘ کی بھی تعمیر نصرانی نے کردی تو کیا فرق پڑتا ہے مگر ساتھ ہی پھر یہ بھی ماننا پڑا کہ : ’’ وَنَحْنُ عَلٰی یَقِیْنٍ مِنْ اَنَّ الْمُسْلِمِیْنَ کَمَا یُسْلِمُ اَذْعَانَھُمْ لِحُکُومَتِھِمْ یَزِیْدُوْنَ مِنْ ھٰؤُلَاءِ الْعُلَمَاءِ النَّاشِئِیْنَ طَاعَۃً وَانْقِیَادًا لِلْحُکُوْمَۃِ۔ وَالْاٰن نُقَدِّمُ اِلٰی جَنَابِکُمْ اَزْکٰی التَّشَکُّرَاتِ حَیْثُ تَفَضَّلْتُمْ عَلَیْنَا بِقَطِیْعَۃٍ مِنَ الْاَرْضِ لِنَرْفَعَ عَلَیْھَا قَوَاعِدَ مَدْرَسَتِنَا‘‘
ترجمہ :: ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ جیسا کہ مسلمان، حکومت کی اطاعت و فرمانبرداری کا جؤا اپنی گردن پر رکھتے ہیں ، وہ ان پیدا ہونے والے علماء(یعنی ندوہ سے فارغ ہونے والے علماء) کی بدولت حکومت کی اطاعت و فرمانبرداری میں اور بھی آگے بڑھیں گے۔ اور اب میں آپ کے حضور بہت ہی پاکیزہ جذبات و تشکرات کا اظہار کرتا ہوں کہ آپ نے ہمیں زمین کا ایک ٹکڑا عنایت فرمایا تاکہ ہم اس پر اپنے مدرسہ کی بنیاد اٹھا سکیں۔
’’الندوہ‘‘ جولائی 1908 جلد 5 صفحہ 1 میں یہ بات کھل کر کہی گئی ہے کہ اسکے مقاصد کیا ہیں۔ فرماتے ہیں :’’ندوہ اگرچہ پالیٹکس سے بالکل الگ ہے لیکن چونکہ اس کا اصلی مقصد روشن خیال علماء کا پیدا کرنا ہے اور اس قسم کے علماء کا ایک ضروری فرض یہ بھی ہے کہ گورنمنٹ کی برکاتِ حکومت سے واقف ہوں اور ملک میں گورنمنٹ کی وفاداری کے خیالات پھیلائیں۔ ‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’یہ ہے جسے انگریزی میں کہتے ہیں ’’Cat is out of the bag‘‘ کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ تو یہ ان کی حالت ہے۔ کیسے جھوٹ اور مکر کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور جماعت احمدیہ پر حملے کرتے ہیں مگر اپنا اندرونہ چھپاتے ہیں جسے انہوں نے خود تسلیم کیا ہے اور بتایا ہے کہ مقاصد کیا ہیں؟ کس نے بنیاد رکھی؟ یہ سارے ثبوت تاریخی طور پر موجود ہیں کسی احمدی کا اس میں کوئی دخل نہیں اور نہ ہی کوئی رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جسے تحریک نجدیت کہا جاتا ہے اسے مسلسل انگریز کی حمایت حاصل رہی ہے اور ان کے وہ معاہدے تاریخ کی کتاب میں چھپے ہوئے موجود ہیں جن کی اصل تحریرات یہاں لندن کی لائبریریوں میں موجود ہیں اور ان میں آپ ملاحظہ کرسکتے ہیںکہ انگریزوں نے باقاعدہ معاہدہ کرکے اہل حدیث کی تحریک یعنی وہابی تحریک اور موجودہ سعودی حکومت کے بانی کا آپس میں ایک تعلق قائم کروایا اور جہاد کی ایک موومنٹ چلوائی۔ انگریز کے خلاف نہیں، وہ تو ان کا سربراہ تھا اور انہیں پانچ ہزار پاؤنڈ کی سالانہ مدد بھی دے رہا تھا۔ تو وہ جہاد کی موومنٹ کس کے خلاف چلائی تھی؟ وہ ترکی کی مسلمان حکومت کے خلاف تھی۔ (خطبات طاہر جلد 4 خطبہ جمعہ یکم فروری 1985 سے ماخوذ، حوالوں پر تبصرہ بھی حضور رحمہ اللہ کا ہے)
ہم نے متعدد حوالے پیش کئے کہ کس طرح غیر احمدی علماء انگریزی سلطنت کی تعریف میں قصیدے پڑھتے رہے۔اور ان سے فائدے حاصل کرتے رہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ کہا حق کے طور پرکہا اور آپؑنے کبھی کوئی فائدہ گورنمنٹ سے حاصل نہیں کیا۔ اگر انگریزوں نے آپؑکو اپنے ساتھ ملا کر مسلمانوں کے خلاف سازش کی تھی تو ثابت کرنا چاہئے کہ انگریزوں نے آپؑکو کیا فائدہ پہنچایا۔ جھوٹوں کا کام ثبوت دینا نہیں ہوتا محض لفاظی ہوتی ہے۔ اخبار منصف کے ایڈیٹر نے صرف لفاظی کی ہے۔ اللہ انہیں عقل دے۔آئندہ شمارہ میں ہم اس الزام کا جواب دیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انگریزوں سے جہاد کے منکر تھے۔
(منصور احمد مسرور)