اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-08-31

جماعت احمدیہ مسلمہ پر اخبار’ منصف‘ حیدرآبادکے اعتراضات کا جواب

’’مجھ کو کافر کہہ کے اپنے کفر پر کرتے ہیں مہر
یہ تو ہے سب شکل ان کی ہم تو ہیں آئینہ دار‘‘
(منظوم کلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام )

جماعت احمدیہ مسلمہ پر اخبار’ منصف‘ حیدرآبادکے اعتراضات کا جواب

گزشتہ دو شماروں سے ہم اخبار’’منصف‘‘ حیدرآباد کے، بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام پر اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ اعتراضات کی تفصیل اور اس کا پس منظر17؍اگست کے شمارہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ منصف نے ایک اعتراض یہ کیا ہے کہ سیّدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے انگریزوں کے ساتھ مل کرسازش کی تھی۔نعوذ باللہ من ذالک۔ ہم نے دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ یہ واضح کیا تھاکہ سازش تو بہت دُور کی بات ہے آپ کاپادریوں کے ساتھ میل ملاپ اور اُٹھنا بیٹھنا بھی ایسا ہی ناممکن تھا جیسے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا۔اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے تھے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ان کے مذہب کے خلاف ایسا عظیم الشان جہاد کیا کہ چودہ سو سال میں اس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی۔ کیا انگریز ایسے شخص کو اپنے مفادات کے لئے کھڑا کرسکتے ہیں جو اُن کے مذہب کی اینٹ سے اینٹ بجادے؟عیسائیت کے خلاف آپؑکے عظیم الشان جہاد کی ایک ادنیٰ جھلک ہم نےاپنے الفاظ میں بیان کی تھی۔آج ہم اس تعلق میں آپؑ کے کچھ ارشادات پیش کریں گے۔
مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے
حدیث شریف یَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ کے تحت سیّدنا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا خدائی مشن یہ تھا کہ آپ عیسائیت کا استیصال کریں اور اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر سے قائم کریں۔ پس غور کا مقام ہے کہ کیا انگریز ایسے شخص کو کھڑا کرسکتے ہیں جس کا فرض منصبی ہی صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کردینا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ آپؑکو مسیح و مہدی کا منصب اور ایک اُمتی نبی ہونے کا مقام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا تھا۔ یہ الزام انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ انگریزوںنے کہہ کر آپؑسے نبوت کا دعویٰ کروایا۔ سیّدنا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام اپنے کام اور اپنے منصب کو کن الفاظ میں بیان فرماتے ہیں ملاحظہ فرمائیں :
’’ اس عاجز کو اور بزرگوں کی فطرتی مشابہت سے علاوہ جس کی تفصیل براہین احمدیہ میں بہ بسط تمام مندرج ہے حضرت مسیح کی فطرت سے ایک خاص مشابہت ہے اوراسی فطرتی مشابہت کی وجہ سے مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے۔ سو میں صلیب کے توڑنے اور خنزیروں کے قتل کرنے کیلئے بھیجا گیا ہوں۔ میں آسمان سے اُترا ہوں اُن پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے۔ جن کو میرا خدا جو میرے ساتھ ہے میرے کام کے پورا کرنے کیلئے ہر ایک مستعد دل میں داخل کریگا بلکہ کر رہا ہے اور اگر میں چُپ بھی رہوں اور میری قلم لکھنے سے رُکی بھی رہے تب بھی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اُترے ہیں اپنا کام بند نہیں کر سکتے اور اُنکے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جوصلیب توڑنے اور مخلوق پرستی کی ہیکل کچلنے کیلئے دیئے گئے ہیں ۔‘‘(فتح اسلام رُوحانی خزائن جلد 3، صفحہ 11، حاشیہ)
مسیح جو صلیب کو توڑے گا تو پھر قیامت تک اس کا پیوند نہیں ہوگا
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’صلیب کے توڑنے سے یہ سمجھنا کہ صلیب کی لکڑی یا سونے چاندی کی صلیبیں توڑدی جائیں گی یہ سخت غلطی ہے اس قسم کی صلیبیں تو ہمیشہ اسلامی جنگوں میں ٹوٹتی رہی ہیں بلکہ اس سے مطلب یہ ہے کہ مسیح موعود صلیبی عقیدہ کو توڑ دیگا اور بعد اسکے دنیا میں صلیبی عقیدہ کا نشو و نما نہیں ہوگا ایسا ٹوٹے گا کہ پھر قیامت تک اس کا پیوند نہیں ہوگا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 324)
اسلام کی زندگی عیسٰیؑکے مرنے میں ہے
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزوں کے خدا کو وفات یافتہ ثابت کردیا۔ قرآن مجید کی رُو سے، احادیث کی رُو سے، بائبل کی رُو سے، تاریخی حقائق کی رُو سے۔ اور ان کی قبر تک بتادی کہ سرینگر محلہ خانیار میں ہے۔ کیا انگریز ایسے شخص کو اپنے مفاد کے لئے کھڑا کرسکتے ہیں جو اُن کے خدا کو ہی وفات یافتہ ثابت کرکے ان کے مذہب کو زندہ درگور کردے؟پس ایسے احمقانہ اعتراض سے منصف کو بچنا چاہئے۔ اس تعلق میں ہم آپؑکا ایک ارشاد ذیل میں پیش کرتے ہیں۔ آپؑفرماتے ہیں  :
’’مَیں بڑے زور سے اور پورے یقین اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ دوسرے مذاہب کو مٹا دے اور اسلام کو غلبہ اور قوت دے۔ اب کوئی ہاتھ اور طاقت نہیں جو خدا تعالیٰ کے اس ارادہ کا مقابلہ کرے۔وہ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُہے۔ مسلمانو! یاد رکھو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تمہیں یہ خبر دے دی ہے اور مَیں نے اپنا پیام پہنچا دیا ہے اب اس کو سننا نہ سننا تمہارے اختیار میں ہے۔ یہ سچی بات ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو موعود آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں۔ اور یہ بھی پکّی بات ہے کہ اسلام کی زندگی عیسیٰ کے مرنے میں ہے۔‘‘ (لیکچر لدھیانہ رُوحانی خزائن جلد 20، صفحہ290)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں  : ’’مَیں نے بڑے بڑے پادریوں سے پوچھا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جاوے کہ مسیح مر گیا ہے تو ہمارا مذہب زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘ (ایضاًصفحہ264)
جو شخص خدا ہو کر تین دن تک مَرا رہا اس کی قدرت کا نام لینا ہی قابلِ شرم بات ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زبردست عقلی و نقلی دلائل سے ثابت فرمایا کہ ایک انسان کبھی خدا نہیں ہو سکتا۔ دیکھئے انگریزوں کے خدا کی ناطاقتی اور بےچارگی کا کن زبردست الفاظ میں آپؑنے ذکر فرمایا ۔ پس کیا انگریز ایسے شخص کو اپنے مفاد میں کھڑا کرسکتے ہیں۔ آپؑفرماتے ہیں :
’’حضرات پادری صاحبان بھی اپنے خدا کو قادر نہیں سمجھتے کیونکہ اُن کا خدااپنے مخالفوں کے ہاتھ سے ماریں کھاتا رہا، زندان میں داخل کیا گیا، کوڑے لگے، صلیب پر کھینچا گیا۔ اگر وہ قادر ہوتا تو اتنی ذلتیں باوجود خدا ہونے کے ہرگز نہ اُٹھاتا۔ اور نیز اگر وہ قادر ہوتا تو اس کے لئے کیا ضرورت تھی کہ اپنے بندوں کونجات دینے کے لئے یہ تجویز سوچتا کہ آپ مر جائے اور اس طریق سے بندے رہائی پاویں۔ جو شخص خدا ہو کر تین دن تک مرا رہا اس کی قدرت کا نام لینا ہی قابلِ شرم بات ہے۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ خدا تو تین دن تک مرا رہا لیکن اُس کے بندے تین دن تک بغیر خدا کے ہی جیتے رہے۔‘‘ (چشمہ مسیحی رُوحانی خزائن جلد 20 صفحہ 371)
توریت و انجیل میں تثلیث کی تعلیم کا نام و نشان تک نہیں
آپؑنے ان کے تثلیث کے عقیدہ کی بھی زبردست دلائل عقل و نقل کے ساتھ تردید فرمائی۔ پس سوچنا چاہئے کہ کیا انگریزایسے شخص کو اپنے مفاد کے لئے کھڑا کرسکتے ہیں جو ہر دم اور ہر آن اُن کے مذہب کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے تیار بیٹھا ہو۔ دیکھئے کس زبردست دلائل کے ساتھ آپؑنے تثلیث کی تردید فرمائی ۔ یہ سمندر کے مقابل پر صرف ایک قطرہ ہے۔
’’تثلیث کے عقیدہ کو نہ صرف قرآن شریف ردّ کرتا ہے بلکہ توریت بھی ردّ کرتی ہے۔ کیونکہ وہ توریت جو موسٰی کو دی گئی تھی اس میں اس تثلیث کا کچھ بھی ذکر نہیں، اشارہ تک نہیں، ورنہ ظاہر ہے کہ اگر توریت میں بھی ان خداؤں کی نسبت تعلیم ہوتی تو ہرگز ممکن نہ تھا کہ یہودی اس تعلیم کو فراموش کر دیتے…مَیں نے اس بارہ میں خود کوشش کر کے بعض یہودیوں سے حلفاً دریافت کیا تھا کہ توریت میں خدا تعالیٰ کے بارے میں آپ لوگوں کو کیا تعلیم دی گئی تھی؟ کیا تثلیث کی تعلیم دی گئی تھی یا کوئی اَور،تو اُن یہودیوں نے مجھے خط لکھے جواب تک میرے پاس موجود ہیں، اور اُن خطوں میں بیان کیا کہ توریت میں تثلیث کی تعلیم کا نام و نشان نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے بارہ میں توریت کی وہی تعلیم ہے جو قرآن کی تعلیم ہے۔ پس افسوس ہے ایسی قوم پر جو ایسے اعتقاد پر اڑی بیٹھی ہے کہ نہ تو وہ تعلیم توریت میں موجود ہے اور نہ قرآن شریف میں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ تثلیث کی تعلیم انجیل میں بھی موجود نہیں۔‘‘ (چشمہ مسیحی رُوحانی خزائن جلد 20 صفحہ 373)
یہ بات کسی پہلو سے درست نہیں ٹھہر سکتی کہ حال کے پادریوں کے سوا کوئی اور بھی دجّال ہے
آپؑنے پادریوں کو اس زمانہ کا دجال ثابت کیا۔ وہ دجال جسکے خروج کی پیشگوئی آنحضرت ﷺ نے فرمائی تھی اور بتایا تھا کہ اس سے اسلام کو نقصان پہنچے گالیکن مسیح موعودؑکے دم سے وہ ہلاک ہوگا۔پھر انگریزمسیح موعودؑ کواپنے ساتھ کیسے ملا سکتے تھے۔پس یہ کتنا کھوکھلا اعتراض ہے کہ انگریزوں نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو کھڑا کیاتھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’لغت میں دجّال جھوٹوں کے گروہ کو کہتے ہیں جو باطل کو حق کیساتھ مخلوط کردیتے ہیں اور خلق اللہ کے گمراہ کرنے کے لئے مکر اور تلبیس کو کام میں لاتے ہیں۔اب میں دعویٰ کے ساتھ کہتا ہوں کہ مطابق منشاء مسلم کی حدیث کے جو ابھی میں بیان کرآیا ہوں اگر ہم حضرت آدم کی پیدائش سے آج تک بذریعہ ان تما م تحریری و سائل کے جو ہمیں ملے ہیں دنیا کے تمام ایسے لوگوں کی حالت پر نظر ڈالیں جنہوں نے دجالیت کا اپنے ذمہ کام لیا تھا تو اس زمانہ کے پادریوں کی دجّالیت کی نظیر ہرگز ہم کو نہیں ملے گی۔‘‘ (ازالہ اوہام رُوحانی خزائن جلد 3 صفحہ 362)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’دجّال بہت گزرے ہیں اور شائد آگے بھی ہوں مگر وہ دجّال اکبر جن کا دجل خدا کے نزدیک ایسا مکروہ ہے کہ قریب ہے جو اس سے آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں یہی گروہ مشت خاک کو خدا بنانے والا ہے۔‘‘ (انجام آتھم رُوحانی خزائن جلد 11 صفحہ 46)
پادریوں کو اسلام کی تبلیغ اوراسلامی برکات اور نشانات کے مقابلہ کی دعوت
ہم بڑے ادب سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا انگریز ایسے شخص سے کوئی گٹھ جوڑ کرسکتے تھے جس نے اُن کے پادریوں کا ناطقہ بند کررکھا ہو۔بپتسمہ لیا ہوا دیسی پادری ہو یا ولایتی کسی کی مجال نہ تھی کہ آپؑکے مقابل پر منہ کھول سکے۔ پس انگریزوں کا ایسے شخص سے نبوت کا دعویٰ کروانا جس نے اُن کے پادریوں کی بولتی بند کردی ہو ، اُن کا جینا دوبھر کردیا ہو کس قدر مضحکہ خیز بات ہے۔ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس طرح پادریوں کو اسلام کا پیغام پہنچایا ، کس طرح اُن کو چیلنج پر چیلنج دیا، بار بار مقابلہ کی دعوت دی،انہیں کس طرح للکارا ، اس کی ایک چھوٹی سی جھلک پیش ہے۔ آپؑفرماتے ہیں :
چوتھی علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ اس عاجز نے بارہ ہزار کے قریب خط اور اشتہار الہامی برکات کے مقابلہ کیلئے مذاہب غیر کی طرف روانہ کئے بالخصوص پادریوں میں سے شاید ایک بھی نامی پادری یورپ اور امریکہ اور ہندوستان میں باقی نہیں رہا ہو گاجس کی طرف خط رجسٹری کر کے نہ بھیجا ہو مگر سب پر حق کا رعب چھا گیا۔‘‘ (آئینہ کمالات،رُوحانی خزائن جلد 5 صفحہ 347)
’’ سولہ ہزار کے قریب لوگ ہندوستان اور انگلستان اور جرمن اور فرانس اور روس اور روم میں پنڈتوں اور یہودیوں کے فقیہوں اور مجوسیوں کے پیشروؤں اور عیسائیوں کے پادریوں اور قسیسوں اور بشپوں میں سے موجود ہیں جن کو رجسٹری کر ا کر اِس مضمون کے خط بھیجے گئے کہ درحقیقت دُنیا میں دین اسلام ہی سچا ہے اور دُوسرے تمام دین اصلیت اور حقانیت سے دور جا پڑے ہیں۔ کسی کو مخالفوں میں سے اگر شک ہو تو ہمارے مقابل پر آوے اور ایک سال تک رہ کر دین اسلام کے نشان ہم سے ملاحظہ کرے اوراگرہم خطاپر نکلیں تو ہم سے بحساب دو سو روپیہ ماہواری ہرجانہ اپنے ایک برس کا لےلے ورنہ ہم اُس سے کچھ نہیں مانگتے صرف دین اسلام قبول کرے اور اگر چاہے تو اپنی تسلّی کیلئے وہ روپیہ کسی بینک میں جمع کر الے لیکن کسی نے اِس طرف رُخ نہ کیا ۔‘‘(شہادۃ القرآن رُوحانی خزائن جلد 6صفحہ369)
کیامشرق سے لیکر مغرب کی انتہا تک کوئی پادری ہے جو خدائی نشان میرے مقابل پر دکھلا سکے
’’ خدا تعالیٰ نے وہ رعب مجھے بخشا ہے کہ کوئی پادری میرے مقابل نہیں آسکتا۔یا تو وہ زمانہ تھا کہ وہ لوگ بازاروںمیں چلّا چلّا کر کہتے تھے کہ آنحضرتﷺ سے کوئی معجزہ نہیںہوا اور قرآن شریف میں کوئی پیشگوئی نہیں اور یا خدا تعالیٰ نے ایسا اُن پر رعب ڈالا کہ اِس طرف مُنہ نہیں کرتے گویا وہ سب اِس جہان سے رخصت ہو گئے۔ اور مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر کوئی پادری اس مقابلہ کے لئے میری طرف مُنہ کرے تو خدا اُس کو سخت ذلیل کرے گا اور اُس عذاب میں مبتلا کرے گا جس کی نظیر نہیں ہوگی اور اُس کو طاقت نہیں ہوگی کہ جو کچھ میں دکھلاتا ہوں وہ اپنے فرضی خدا کی طاقت اور قوت سے دکھلا سکے اور میرے لئے خدا آسمان سے بھی نشان برسائے گا اور زمین سے بھی۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ برکت غیر قوموں کو نہیں دی گئی۔ پس کیا روئے زمین میں مشرق سے لے کر مغرب کی انتہا تک کوئی پادری ہے جو خدائی نشان میرے مقابل پر دکھلا سکے۔ہم نے میدان فتح کر لیا ہے۔ کسی کی مجال نہیں جو ہمارے مقابل پر آوے ۔‘‘ ( حقیقۃ الوحی رُوحانی خزائن جلد22 صفحہ 348)
اَے یورپ اور امریکہ کے پادریو! مجھ سے مقابلہ کرو کہ کون زندہ ہے؟ محمد ؐ یا کہ مسیحؑ
’’ آؤہم سے مقابلہ کرو کہ دونوں شخص یعنی حضرت مسیح اور حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے روحانی برکات اور افاضات کے رُو سے زندہ کون ہے… اَے یورپ اور امریکہ کے پادریو! کیوں خواہ نخواہ شور ڈال رکھا ہے ۔ تم جانتے ہو کہ میں ایک انسان ہوں جو کروڑہا انسانوں میں مشہور ہوں۔ آئو میرے ساتھ مقابلہ کرو۔ مجھ میں اور تم میںایک برس کی مہلت ہو۔ اگر اس مدت میں خدا کے نشان اور خدا کی قدرت نما پیشگوئیاں تمہارے ہاتھ سے ظاہر ہوئیں اور میں تم سے کمتر رہا تو میں مان لوں گا کہ مسیح ابن مریم خدا ہے لیکن اگر اُس سچے خدا نے جس کو میں جانتا ہوں اور آپ لوگ نہیں جانتے مجھے غالب کیا اور آپ لوگوں کا مذہب آسمانی نشانوں سے محروم ثابت ہوا تو تم پر لازم ہوگا کہ اس دین کو قبول کرو۔‘‘ (تریاق القلوب رُوحانی خزائن جلد 15صفحہ160)
توریت اور انجیل کو علوم حکمیہ میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ بھی مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں
قرآن اور توریت اور انجیل کی تعلیم کا موازنہ کرنے اور قرآنی تعلیم کی فوقیت ثابت کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :
’’ توریت اورانجیل قرآن کا کیا مقابلہ کریں گی ۔ اگر صرف قرآن شریف کی پہلی سورت کے ساتھ ہی مقابلہ کرنا چاہیں یعنی سورۃ فاتحہ کے ساتھ جو فقط سات آیتیں ہیں اور جس ترتیب انسب اور ترکیب محکم اور نظام فطرتی سے اس سورۃ میں صدہا حقائق اور معارف دینیہ اور روحانی حکمتیں درج ہیں ان کو موسٰی کی کتاب یا یسوع کے چند ورق انجیل سے نکالنا چاہیں تو گو ساری عمر کوشش کریں تب بھی یہ کوشش لاحاصل ہوگی۔ اور یہ بات لاف و گزاف نہیں بلکہ واقعی اور حقیقی یہی بات ہے کہ توریت اور انجیل کو علوم حکمیہ میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ بھی مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں۔ ہم کیا کریں اور کیونکر فیصلہ ہو ؟ پادری صاحبان ہماری کوئی بات بھی نہیں مانتے۔ بھلا اگر وہ اپنی توریت یا انجیل کو معارف اور حقائق کے بیان کرنے اور خواص کلام الوہیت ظاہر کرنے میں کامل سمجھتے ہیں تو ہم بطور انعام پانسو روپیہ نقد ان کو دینے کیلئے طیار ہیں اگر وہ اپنی کل ضخیم کتابوں میں سے جو ستّر کے قریب ہونگی وہ حقائق اور معارف شریعت اور مرتّب اور منتظم دُرر حکمت و جواہر معرفت و خواص کلام الوہیت دکھلاسکیں جو سورہ فاتحہ میں سے ہم پیش کریں۔ اور اگر یہ روپیہ تھوڑا ہو تو جس قدر ہمارے لئے ممکن ہوگا ہم ان کی درخواست پر بڑھادینگے۔‘‘ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب رُوحانی خزائن جلد 12صفحہ360)
ہم بہت حیران ہیں کہ جس نے عیسائیت کے بڑھتے ہوئے منہ زور سیلاب کویکدم روک دیا، جس نے اسلام کے خداکو زندہ خدا اور اسلام کے رسول ﷺ کو زندہ رسول اور اسلام کی کتاب قرآن کریم کو زندہ کتاب ثابت کردیا اور عیسائیت کے خدا اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کو مُردہ ثابت کردیا، اُس کے متعلق مولوی حضرات کہتے ہیں کہ اُسےعیسائیوں نے اپنے مفاد کیلئے کھڑا کیا تھا۔ کیا اسلام کے ایسے زبردست پہلوان کو جس نے عیسائیت کے عقائد باطلہ کوخس و خاشاک کی طرح اُڑادیا ، عیسائی اپنے ساتھ ملا سکتے ہیں؟ انگریز بے وقوف تھے یا یہ مولوی حضرات اور ان کی اندھی تقلید میں منصف کامدیر جھوٹ بول رہا ہے قارئین خودہی فیصلہ کریں۔

(منصور احمد مسرور)