اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-03-16

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بے نظیر عشق و محبت

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے عاشق تھے۔ آپؑکو اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا عشق تھا جس کی نظیر چودہ سو سال میں ہمیں نظر نہیں آتی۔
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر و تحریر ، آپ کے منثور و منظوم کلام ، آپ کی ہر ادا ، آپ کا ہر حرکت و سکون ، آپ کا قول و فعل ، آپ کی نشست و برخاست ، آپ کی گفتگو ، آپ کا کھانا پینا، آپ کا اُٹھنا بیٹھنا ، آپ کا سونا جاگنا آپ کے حرف حرف اور لفظ لفظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی خوشبو پھوٹتی ہے۔
اپنے آقا و مولیٰ سے عشق و محبت کا اظہار کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں  :
وَذِکرُالْمُصْطَفٰی رُوحٌ لِقَلْبی …٭… وَصَارَ لِمُھْجَتی مِثْلَ الطَّعَامٖ
کہ محمد مصطفےٰﷺ کی یاد میرے دل کی روح ہےاور آپ کا ذکر میری غذا ہے جس کے بغیر میں زندہ نہیں رہ سکتا!
یَاحِبِّ اِنَّکَ قَدْ دَخَلْتَ مَحَبَّۃً …٭… فِیْ مُھْجَتِیْ وَمَدَارِکِیْ وَجَنَانِیْ
اَے میرے معشوق ! اَے میرے محبوب ! محبت کے لحاظ سے تُو میرے جسم و جان میں سرایت کرچکا ہے۔میری جان میں اور میرے دماغ میں اور میرے دل میں بس تُو ہی تُو ہے۔
مِنْ ذِکْرِ وَجْھِکَ یَا حَدِیْقَۃَ بَھْجَتِیْ …٭… لَمْ اَخُلْ فِیْ لَحْظٍ وَّلَا فِیْ اٰنِ
اَے میری خوشی و شادمانی کے باغ تیری یاد سے ایک لمحہ اور ایک آن کے لئے میں کبھی خالی نہیں رہا۔
قارئین نبی مبالغہ نہیں کرتا۔یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی بھی، ایک لمحہ کے لئے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد سے خالی نہیں ہوئے۔ جس کی ڈیوٹی یہ لگی ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پوری دنیا میں غالب کرنا ہے، جس نے اس راہ میںاپنا سب کچھ نچھاور کردیا ہو،وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے اورآپ کی یاد سےکیسےخالی ہوسکتاہے؟آپؑفرماتے ہیں:
اِنِّیْ اَمُوْتُ وَلَا تَمُوْتُ مَحَبَّتِیْ…٭…یُدْرٰی بِذِکْرِکَ فِی التُّرَابِ نِدَائِیْ
مَیں تو ایک دن مرجاؤں گا مگر میری محبت کبھی نہیں مرے گی۔ میرے مرنے کے بعد بھی میری قبر کی مٹی سے تیری محبت کی ندا بلند ہوتی رہے گی۔
سرے دارم فدائے خاک احمد …٭… دلم ہر وقت قربان محمدؐ
فدا شد در رہش ہر ذرّۂ من …٭… کہ دیدم حسن پنہان محمدؐ
کہ میرا سر احمد ﷺ کی خاکِ پا پر نثار ہے اور مرا دل ہر وقت محمد ﷺ پر قربان رہتا ہے ۔اس کی راہ میں میرا ہر ذرّہ قربان ہوچکاہے کیونکہ میں نے محمد ﷺ کا مخفی حسن دیکھ لیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اطاعت میں فنا ہوچکے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آپؑکے آنے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا قرار دیا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ اگر کو ئی غیرشخص آجاوے توغیرت ہو تی ہے لیکن جب وہ خود ہی آوے تو پھر غیرت کیسی ؟اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر ایک شخص آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھے اور پاس اس کی بیوی بھی موجود ہو تو کیا اس کی بیوی آئینہ والی تصویر کو دیکھ کر پردہ کرےگی ؟اور اسکو یہ خیا ل ہو گا کہ کو ئی نا محرم شخص آگیا ہے اس لیے پردہ کر نا چاہئے! اور یا خاوند کو غیرت محسوس ہو گی کہ کو ئی اجنبی شخص گھر میں آگیا ہے اور میری بیوی سامنے ہے نہیں بلکہ آئینہ میں انہیں خاوند بیوی کی شکلوں کا بروز ہو تا ہے اور کو ئی اس بروز کو غیر نہیں جا نتا اور نہ ان میں کسی قسم کی دوئی ہو تی ہے۔
یہی حالت مسیح موعود کی آمد کی ہے وہ کو ئی غیر نہیں اور نہ آنحضرتﷺ سے جدا ہے اور کسی نئی تعلیم یا شریعت کو لیکر آنے والا نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا بروز اور آپؐکی ہی آمد ہےجس وجہ سے آنحضرتﷺ کو اس کے آنے سے کو ئی غیرت دا منگیر نہیں ہو ئی بلکہ اس کو اپنے سا تھ ملا یا ہے اور یہی سرِہے آپ کے اس ارشاد میں کہ وہ میری قبر میں دفن کیا جاوے گا یہ امر غایت اتحاد کی طرف رہبر ی کرتا ہے۔‘‘
(ملفوظات، جلد 3، صفحہ 281، مطبوعہ قادیان 2003 )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں :
سَاَدْخُلُ مِنْ عِشْقِیْ بِرَوْضَۃِ قَبْرِہٖ…٭… وَمَا تَعْلَمُ ھٰذَ السِّرَّ یَا تَارِکَ الھُدٰی
کہ میں اپنے بے پناہ عشق کی برکت سے روحانی طورپر روضۂ رسول میں داخل کیا جاؤں گا۔ مگر اَے ہدایت کے دشمن! تجھے اس راز کی کوئی خبر نہیں۔
سامعین ! سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سےانتہائی درجہ پر محبت کی اور اپنی جماعت کو بھی سچی محبت کی تعلیم دی ۔ آپؑآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی متابعت کو ہی نجات کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ اورنہ صرف ایک دفعہ بلکہ بار بار اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مجھے جو کچھ ملا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملا اور جو کچھ میرا ہے وہ میرا نہیں بلکہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔
آپؑفرماتے ہیں  :-
’’نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰﷺ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اِس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اِس کے غیر کو اِس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تاآسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جائو۔‘‘ (کشتی نوح ،روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13)
آپؑ فرماتے ہیں  :
’’اللہ تعالیٰ نے اپنا کسی کے ساتھ پیار کرنا اس بات سے مشروط کیا ہے کہ ایسا شخص آنحضرت ؐ کی پیروی کرے چنانچہ میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرتؐکی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپؐ سے محبت رکھنا انجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتا ہے۔ (روحانی خزائن، جلد 22، حقیقۃ الوحی، صفحہ 67 )
آپؑفرماتے ہیں  :
’’میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید و مولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے راہوں کی پیروی نہ کرتا ۔ سو میں نے جو کچھ پایا اِس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچے اور کامل علم سےجانتاہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اِس نبی ﷺ کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کاملہ کا حصہ پاسکتا ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی ،رُوحانی خزائن، جلد 22، صفحہ 64)
فرمایا : ’’یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا۔ اگر مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی مَیںکبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگز نہ پاتا۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن، جلد 20،صفحہ 411)
اُس نُور پر فدا ہوں اُس کا ہی مَیں ہوا ہوں …٭… وہ ہے ، مَیں چیز کیا ہوں، بس فیصلہ یہی ہے
سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تُو خدایا …٭… وہ جس نے حق دکھایا وہ مَہ لقا یہی ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسا شدید عشق تھا اس کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی بعض روایات پیش ہیں۔
مؤرخ احمدیت مولانا دوست محمد شاہد صاحب فرماتے ہیں :
’’حضرت مسیح موعودؑ میں دو خُلق خاص طور پر نمایاں نظر آتے تھے۔ اوّل اپنے خداداد مشن پر کامل یقین دوسرے آنحضرت ﷺ کے ساتھ بے نظیر عشق و محبت۔ یہ دو اَوصاف آپ کے اندر اِس کمال کو پہنچے ہوئے تھے کہ آپ کے ہر قول و فعل اور ہر حرکت و سکون میں ان کا پر زور جلوہ نظر آتا تھا ۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ ۵۷۶)
مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کی روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے مرزا سلطان احمد صاحب نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تو والد صاحب کو عشق تھا۔ ایسا عشق مَیں نے کبھی کسی شخص میں نہیں دیکھا۔
(سیرۃ المہدی، روایت نمبر196،مطبوعہ قادیان2008)
ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب ؓ روایت کرتے ہیںکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کسی تقریر یا مجلس میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرماتے تو بسا اوقات اِن محبت بھرے الفاظ میں ذکر فرماتے کہ ’’ہمارے آنحضرؐت‘‘ نے یوں فرمایا ہے۔ اِسی طرح تحریر میں نام کے بعدپورا درود یعنی ’’ﷺ‘‘لکھاکرتے تھے۔
حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے رضی اللہ عنہ اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں  :
’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت اُس کمال کے مقام پر تھی جس پر کسی دوسرے شخص کی محبت نہیں پہنچتی ۔‘‘ (سیرۃ المہدی ،روایت نمبر547، مطبوعہ قادیان2008)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:
مَیں خداکی قسم کھاکر بیان کرتاہونکہ مَیں نے آپ سے بہتر ،آپ سے زیادہ خلیق،آپ سے زیادہ نیک، آپ سے زیادہ بزرگ، آپ سے زیادہ اللہ اور رسول کی محبت میں غرق کوئی شخص نہیں دیکھا ،آپ ایک نور تھے جو انسانوں کیلئے دُنیا پر ظاہر ہوا۔ اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اِس زمین پر برسی اور اُسے شاداب کرگئی۔ اگر حضرت عائشہ ؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ بات سچی کہی تھی کہ’’کَانَ خُلُقُہُ القُرْاٰنُ‘‘ تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت اِسی طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’کَانَ خُلُقُہٗ حُبَّ مُحَمَّدٍ واِتّبَاعِہٖ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ‘‘ (سیرۃ المہدی، روایت نمبر975،مطبوعہ قادیان 2008)
مولانا غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ عنہ نے بیعت سے قبل آپ کی چند نظمیں پڑھیں تو آپ کے دل نے یہ گواہی دی کہ :
’’دُنیا بھر میں اس شخص کے برابر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق نہیں ہوا ہوگا۔‘‘ (حیات قدسی، صفحہ 18)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
’’ اگر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے اخلاقِ ذاتی کا مطالعہ کیا جاوے تو خدا اور اُس کے رسول کی محبت ایک نہایت نمایاں حصہ لئے ہوئے نظر آتی ہے۔ آپ کی ہر تقریر و تحریر ہر قول و فعل ہر حرکت و سکون اِسی عشق ومحبت کے جذبہ سے لبریز پائے جاتے ہیںاور یہ عشق اِس درجہ کمال کو پہنچا ہواتھا کہ تاریخِ عالم میں اِس کی نظیر نہیں ملتی،دشمن کی ہر سختی کو آپ اِس طرح برداشت کرجاتے تھے کہ گویا کچھ ہواہی نہیں اور اُس کی طرف سے کسی قسم کی ایذا رسانی اور تکلیف دہی اور بدزبانی آپ کے اندر جوش و غیظ و غضب کی حرکت نہ پیداکرسکتی تھی مگر آنحضرت ﷺ کے وجود باجود کے خلاف ذراسی بات بھی آپ کے خون میں وہ جوش اور اُبال پیدا کردیتی تھی کہ اُس وقت آپ کے چہرہ پر جلال کی وجہ سے نظر نہ جم سکتی تھی۔ دشمن اور دوست ، اپنے اور بے گانے سب اِس بات پر متفق ہیں کہ جو عشق ومحبت آپ کو سرورِ کائنات کی ذات والا صفات سے تھا اُس کی نظیر کسی زمانہ میں کسی مسلمان میں نہیں پائی گئی۔ ایسا معلوم ہوتاتھا کہ آپ کی زندگی کا ستون اور آپ کی روح کی غذا بس یہی محبت ہے۔ جس طرح ایک عمدہ قسم کے اسفنج کا ٹکڑہ جب پانی میں ڈال کر نکالا جاوے تو اُس کا ہر رگ وریشہ اور ہر خانہ وگوشہ پانی سے بھرپور نکلتا ہے اور اُس کا کوئی حصہ ایسانہیں رہتا کہ جس میں پانی کے سوا کوئی اور چیز ہو، اِسی طرح ہر دیکھنے والے کو نظر آتاتھا کہ آپ کے جسم اور روح مبارک کا ہر ذرّہ عشقِ الٰہی اور عشقِ رسول سے ایسا بھرپور ہے کہ اِس میں کسی اور چیز کی گنجائش نہیں‘‘ (سیرۃ المہدی ،روایت نمبر324، مطبوعہ قادیان 2008)
تیری اُلفت سے ہے معمور مرا ہر ذرّہ
اپنے سینہ میں یہ اِک شہر بسایا ہم نے
نقش ہستی تری الفت سے مٹایا ہم نے
اپنا ہر ذرّہ تری راہ میں اڑایا ہم نے
دلبرا مجھ کو قسم ہے تری یکتائی کی
آپ کو تیری محبت میں بھلایا ہم نے
سامعین کرام ! عشق کا تقاضا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجا جائے۔ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کثرت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے۔ شرائط بیعت کی تیسری شرط میں آپ نے اپنی جماعت کو آنحضرت ﷺ پر باقاعدگی سے درود بھیجنے کی تعلیم دی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہوگیا۔ اُسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں اور ایک نے اُن میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جوتُونے محمدؐ کی طرف بھیجی تھیںصلی اللہ علیہ وسلم ۔ اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصہ یاد آیا ہے کہ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادہ الٰہی احیاءِ دین کیلئے جوش میں ہے لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص محیی کی تعین ظاہر نہیں ہوئی اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔ اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک محیی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا ہٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلَ اللہِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم،روحانی خزائن، جلد 1، صفحہ 598، حاشیہ درحاشیہ نمبر3)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک عربی منظوم کلام میں فرماتے ہیں :
حَمَامَتُنَا تَطِیْرُ بِرِیْشِ شَوْقٍ
وَفِیْ مِنْقَارِھَا تُحَفُ السَّلَامٖ
اِلٰی وَطَنِ النَّبِیِّ حَبِیْبِ رَبِّیْ
وَسَیِّدُ رُسُلِہٖ خَیْرُ الْاَنَامٖ
ہمارے دل کا کبوتر شوق کے پروں پر سوار ہوکر میرے ربّ کے حبیب سید الرّسل خیر الانام کے وطن کی طرف درود و سلام کے تحائف لے کر اُڑاجاتا ہے۔ (حمامۃ البشریٰ)
معززسامعین ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے آقا و مولیٰ سے عشق کا یہ عالم تھا کہ آپؐکے خلاف ایک ادنیٰ سی بات بھی برداشت نہیں کرتے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عرب غالباً اس کا نام محمد سعید تھا، قادیان میں دیر تک رہا۔ ایک روز حضور علیہ السلام بعد نماز ،مسجد مبارک میں حاضرینِ مسجد میں بیٹھے ہوئے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک فرمارہے تھے کہ اُس عرب کے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا کہ ’’رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم غریب تھے‘‘ پس عرب کا یہ کہناہی تھاکہ حضور علیہ السلام کو اِس قدر رنج ہواکہ چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور محمد سعیدعرب پر وہ جھاڑ ڈالی کہ وہ متحیر اور مبہوت ہوکر خاموش ہوگیا اور اُس کے چہرہ کا رنگ فق ہوگیا۔فرمایا : ’’کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غریب تھا جس نے ایک رومی شاہی ایلچی کو اُحد پہاڑ پر سارا کا سارا مال مویشی عطاکردیاتھا وغیرہ۔اُس کو مالِ دنیا سے لگاؤ اور محبت نہ تھی‘‘ (سیرۃالمہدی، روایت نمبر1246،مطبوعہ قادیان 2008)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  :
آپ کبھی کسی شخص پر اپنے ذاتی کام اور ذاتی نقصان کی وجہ سے ناراض نہیں ہوئے اور کوئی ایسی مثال پائی نہیں جاتی لیکن جب کوئی مقابلہ دین کا پیش آجاوے تو آپ اس موقع پر کبھی اس کو نظر انداز نہ کرتے تھے اور اس معاملہ میں وہ کبھی کسی کی پروا نہ کرتے تھے خواہ وہ کتنا ہی عزیز اور رشتہ داری کے تعلقات رکھنے والا کیوں نہ ہو۔ یہ ناممکن تھا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یا قرآن مجید کے خلاف کوئی بات سن سکیں…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کو جو محبت اور عشق تھا اس کی نظیر نہیں ملتی چنانچہ آپؑفرماتے ہیں  :
بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم …٭… گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
آپ کے کلام سے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کہیں نام اور ذکر آتا ہے ، اُس وقت آپ کی حالت بالکل اَور ہوجاتی ہے محبت اور فدائیت کا ایک سمندر ہے جو موجیں ماررہا ہے۔ عربی، فارسی، اردو میں جو مدح آپؑنے نبی کریم ﷺ کی کی ہے اس کی شان ہی نرالی ہے۔ غرض دُنیا کی تمام محبوب ترین چیزوں میں سے آپ کو نبی کریم ﷺ کا وجود بہت پیارا تھا اور وہ اس محبت اور پیار کو اس وقت سے رکھتے جبکہ شیر خوار تھے۔ خود فرماتے ہیں ع
عشق تُو دارم ازاں روزے کہ بودم شیر خوار
اور اس محبت اور عشق کا نتیجہ تھا کہ آپؐکے لئے اس قدر غیرت اور جوش پیدا ہوگیا تھا کہ اس کے لئے سب کچھ قربان کردینے کو ہمیشہ آمادہ رہتے تھے۔ یہ محبت یہ عشق ایک معرفت کا مقام تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے حسن واحسان کو جس رنگ میں آپ نے ظاہر کیا ہے تیرہ سو سال کے اندر اس کی نظیر نہیں ملتی۔ غرض اس غیرت دینی نے ہمیشہ اپنے وقت پر اپنا جلوہ دکھایا اور یہ ظہور آپ کی بعد بعثت اور قبل بعثت یکساں تھاجیسا کہ مَیں واقعات سے بتاتا ہوں۔
ابھی حضرت مسیح موعودؑ کا دُنیا میں کوئی دعویٰ نہ تھا بلکہ دنیا آپ کو نہ جانتی تھی، براہین احمدیہ بھی ابھی لکھی جانی شروع نہ ہوئی تھی، حضرت مسیح موعودؑکے ایک چچا مرزا غلام حیدر مرحوم تھے … ان کی اہلیہ بی بی صاحب جان تھیں۔ ایک مرتبہ ان کے منہ سے حضرت نبی کریم ﷺ کی شان میں کوئی بے ادبی کا کلمہ نکل گیا، باوجود اس احترام کے جو آپ بزرگوں کا کرتے تھے ، اس بات کا اثر آپؑکی طبیعت پر اس قدر ہوا اور اس قدر بے تابی آپ کے قلب میں پیدا ہوئی کہ اس کا اثر آپؑکے چہرہ مبارک سے نمایاں تھا۔ وہ غصہ سے تمتما رہا تھا ۔ اس حالت میں آپؑکا کھانا بھی چھوٹ گیا محض اس لئے کہ حضرت نبی کریم ﷺ کی شان میں کیوں بے ادبی ہوئی۔ اس قدر رنج آپ کو ہوا کہ الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتا۔ مخدومی خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب پنشنر جو اس روایت کے راوی ہیں بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب کو بہت ہی غصہ تھا اور انہوں نے اس واقعہ سے متاثر ہوکر ان کے ہاں کا کھانا پینا ترک کردیا۔ (سیرت مسیح موعودؑحصہ دوم ،صفحہ 259 از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ اپنی کتاب سیرت المہدی میں فرماتے ہیں کہ :
’’ منشی ظفر احمد کپورتھلویؓنے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیاکہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ سر درد کا دورہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس قدر سخت ہوا کہ ہاتھ پیر برف کی مانند سرد ہوگئے۔ میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا تو نبض بہت کمزور ہوگئی تھی۔ آپ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اسلام پر کوئی اعتراض یاد ہو تو اُس کا جواب دینے سے میرے بدن میں گرمائی آ جائے گی اور دَورہ موقوف ہوجائے گا۔ میں نے عرض کی کہ حضور اِس وقت تو مجھے کوئی اعتراض یاد نہیںآتا۔ فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کی نعت میں کچھ اشعارآپ کو یاد ہوں تو پڑھیں۔ میں نے براہین احمدیہ کی نظم ’’ اَے خدا! اے چارۂ آزارِما‘‘ خوش الحانی سے پڑھنی شروع کردی اور آپ کے بدن میں گرمائی آنی شروع ہوگئی۔ پھر آپ لیٹے رہے اور سنتے رہے۔ پھر مجھے ایک اعتراض یاد آگیا… جب میں نے … اعتراضات سنائے تو حضور کو جوش آگیا اور فوراً آپؑبیٹھ گئے اور بڑے زور کی تقریر جواباً کی۔ اَور بہت سے لوگ بھی آگئے اور دَورہ ہٹ گیا۔ ‘‘ ( سیرت المہدی ،جلد دوم حصہ چہارم، روایت نمبر 1039)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
’’ منشی ظفر احمد کپورتھلویؓنے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ میں قیام پذیر تھےمَیں اور محمد خان مرحوم، ڈاکٹر صادق علی صاحب کو لے کر لدھیانہ گئے۔ (ڈاکٹر صاحب کپور تھلہ کے رئیس اور علماء میںسے شمار ہوتے تھے)کچھ عرصہ کے بعد حضور مہندی لگوانے لگے۔ اس وقت ایک آریہ آگیا جوایم . اے تھا۔ اس نے کوئی اعتراض اسلام پر کیا ۔ حضرت صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے فرمایا: آپ ان سے ذرا گفتگو کریں تو میں مہندی لگوالوں ۔ ڈاکٹر صاحب جواب دینے لگے مگر اُس آریہ نے جوجوابی تقریر کی تو ڈاکٹرصاحب خاموش ہوگئے ۔ حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر فوراً مہندی لگوانی چھوڑ دی اور اسے جواب دینا شروع کیا اور وہی تقریر کی جو ڈاکٹر صاحب نے کی تھی مگر ا س تقریر کو ایسے رنگ میں بیان فرمایا کہ وہ آریہ حضور کے آگے سجدہ میں گر پڑا۔ حضور نے ہاتھ سے اُسے اٹھایا۔ پھروہ دونوں ہاتھوں سے سلام کر کے پچھلے پیروں ہٹتا ہوا واپس چلا گیا۔‘‘ ( سیرت المہدی ،جلد دوم، حصہ چہارم، روایت نمبر 1032)
سامعین!آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اتنی شدید تکلیف ہوتی کہ اس کے مقابلہ پر جان و مال کی تکلیف کو آپؐ بالکل ہیچ سمجھتے۔ آپؑ فرماتے ہیں  :
’’ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دُکھتا جو اُن گالیوں اور اُس توہین سے جو ہمارے رسول کریم ﷺ کی کی گئی دُکھا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ،روحانی خزائن، جلدنمبر 5، صفحہ52)
’’میں حلفًا کہتا ہوں کہ میرے دل میں اصلی اور حقیقی جوش یہی ہے کہ تمام محامد اور مناقب اور تمام صفات جلیلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کروں۔ میری تمام تر خوشی اسی میں ہے اور میری بعثت کی اصل غرض یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت دُنیا میں قائم ہو۔ مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ میری نسبت جس قدر تعریفی کلمات اور تمجیدی باتیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں یہ بھی درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف راجع ہیںاس لئے کہ مَیں آپؐکا ہی غلام ہوں اور آپؐہی کے مشکوٰۃ نبوت سے نُور حاصل کرنے والا ہوں اور مستقل طور پر ہمارا کچھ بھی نہیں۔‘‘ (ملفوظات، جلد 2، صفحہ 215 ،مطبوعہ قادیان 2003)
’’ نبی کریمؐ کی فضیلت کُل انبیاء پر میرے ایمان کا جزوِ اعظم ہے اور میرے رگ و ریشہ میں ملی ہوئی بات ہے۔ یہ میرے اختیار میں نہیں کہ اِس کو نکال دوں۔ بد نصیب اور آنکھ نہ رکھنے والا مخالف جو چاہے سو کہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کام کیا ہے جو نہ الگ الگ اور نہ مل مل کر کسی سے ہو سکتا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔‘‘ (ملفوظات، جلد1،صفحہ 420 ،مطبوعہ قادیان 2003)
اللہ تعالیٰ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچّی متابعت کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ (منصور احمد مسرور)
…٭…٭…٭…