اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-03-30

اَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اگر تم علم رکھتے تو سمجھ سکتے کہ تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے

روزہ ارکان اسلام میں سے ایک اہم رُکن ہے۔ اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے ایک صحتمند اور مقیم کےلئے روزہ رکھنے کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ مریض اور مسافر کے لئے استثناء ہے کہ وہ دوسرے دنوں میں چھوٹے ہوئے روزے رکھیں گے، مگر ایک صحت مند اور مقیم کےلئے روزہ رکھنا فرض ہے۔ ایک صحتمند اور مقیم انسان صرف کھانے کی پینے کی پابندیوں سے گھبراکر بغیر کسی جائز عذر کے اگر روزہ نہیں رکھتا تو وہ بہت بڑا محروم اور نقصان اُٹھانے والا ہوتا ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اُس نے اپنے آپ کو کس قدر گھاٹے میں ڈالا۔ بعض نقصان اور خساروں کا انسان اندازہ لگاتا ہے لیکن یہ ایسا خسارہ ہے کہ اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کیونکہ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص بغیر کسی عذر شرعی و صحیح کے روزہ چھوڑتا ہے ، پھر اگر وہ اس کے بدلے میں پوری زندگی روزہ رکھتا رہے تو وہ اُس چھوڑے ہوئے روزے کی تلافی نہیں کرسکتا۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں روزے کی فرضیت اور اس کے احکام بیان فرمائے ہیں وہاں مختلف طریقوں سے اور مختلف انداز میں روزوں کی اہمیت کا ہمیں احساس دلایا ہے۔ اللہ جل شانہ چاہتا ہے کہ اس کا بندہ جو کہ صحتمند ہو اور مسافر نہ ہو وہ ضرور روزہ رکھے۔ چند سطور میں ہی اللہ تعالیٰ نے بار بار روزہ رکھنے کی تاکید فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ اس میں سراسر خیر اور بھلائی اور انسان کا اپنا ہی فائدہ ہے۔ ذیل کے سطور میں روزوں کی اہمیت قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں بیان کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ
اللہ تعالیٰ مومنوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اَے مومنو روزے تم پر فرض کئے گئے ہیں۔ پس یہ کوئی اختیاری معاملہ نہیں کہ جو چاہے رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ روزہ رکھنا ایساہی فرض ہے جیسا کہ نماز فرض ہے۔ پس جس طرح نماز چھوڑنے والا گنہگار ہے اسی روزہ چھوڑنے والا بھی گنہگار ہے۔ اگر کوئی روزہ صرف اس لئے نہیں رکھتا کہ اس کے نتیجہ میں اسے کھانا چھوڑنا پڑے گا، تو اسکی یہ حالت بہت ہی افسوسناک ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اس کے حکم کے ماتحت ایک وقت کا کھانا نہیں چھوڑسکتا۔ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرکے جو کھانا پیٹ میں جائے وہ کھانا کبھی بابرکت نہیں ہوسکتا۔پھر اللہ تعالیٰ آگے چل کر فرماتا ہے :
وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
کہ دیکھو تمہارا روزہ رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے کاش کہ تم جانتے۔یا یہ کہ اگر تم علم رکھتے تو تمہیں معلوم ہوجاتا کہ تمہارا روزہ رکھنا ہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک بہترین انداز میں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ تم نہیں جانتے لیکن مَیں جانتا ہوں کہ روزہ رکھنا تمہارے لئے ہر لحاظ سے بہتر ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ آگے چل کر فرماتا ہے :
فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝۰ۭ
کہ دیکھو تم میں سے جو بھی اس مہینہ کو پالے یعنی تم میں سے جس کسی کی زندگی میں بھی یہ مہینہ آجائے اسکو چاہئے کہ وہ اسکے روزے رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے کیا ہی پیار بھرے اور نرم انداز میں ہمیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ رمضان کا مہینہ وہ بابرکت اور مقدس اور معزز مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔ وہ قرآن کریم جو ضابطہ حیات ہے۔ پس کیا ایسے بابرکت اور مقدس مہینے کا روزہ تم نہیں رکھوگے؟ تمہیں اس مہینے کا روزہ ضرور رکھنا چاہئے اور یہی وجہ ہے جو ہم کہتے ہیں فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝۰ۭکہ جب تمہاری زندگی میں یہ مہینہ آجائے تو تم اسکے روزے رکھو۔ پھر آگے چل کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ
یعنی روزوں کا حکم اللہ تعالیٰ نے اس لئے دیا ہے کہ وہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے ، وہ تمہارے لئے تنگی اور تکلیف نہیں چاہتا۔ پس اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا ہے کہ تم جو گھبراتے ہو کہ کھاناپینا چھوڑنا پڑے گا ، تو سمجھ لو کہ یہ تمہارے لئے رحمت کا باعث ہے نہ کہ زحمت کا باعث ہے۔ پس اللہ تعالیٰ تو روزہ کو رحمت اور آسانی قرار دیتا ہے اگر ہم اسے اپنے لئے تکلیف کا باعث سمجھیں اور اس سے گھبرائیں تو یہ ہماری بہت بڑی غلطی اور نادانی ہوگی۔ اُوپر جس حدیث کا ذکر کیا گیا ہے وہ اس طرح سے ہے، آنحضرتﷺ نے فرمایا :
’’ مَنْ اَفْطَرَ یَوْمًا مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ مِنْ غَیْرِ رُخْصَۃٍ وَلَا مَرَضٍ فَلَا یَقْضِیْہِ صِیَامُ الدَّھْرِ کُلِّہٖ وَلَوْ صَامَ الدَّھْرَ۔‘‘
(مسند دارمی باب مَنْ اَفْطَرَ یَومًا مِّنْ رَمَضَانَ مُتَعَمِّدًابحوالہ فقہ احمدیہ عبادات صفحہ 279)
جو شخص بلا عذر رمضان کا ایک روزہ بھی ترک کرتا ہے وہ شخص اگر بعد میں تمام عمر بھی اس روزہ کے بدلہ میں روزے رکھے تو بھی بدلہ نہیں چکا سکے گا۔ اور اس غلطی کا تدارک نہیں ہو سکے گا۔
جو احباب مختلف عذروں اور بہانوں کے تحت روزہ نہیں رکھتے اُن کو نصیحت کرتے ہوئے سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
روزہ کے بارہ میں شریعت نے نہایت تاکید کی ہے اور جہاں اس کے متعلق حد سے زیادہ تشدد ناجائز ہے وہاں حد سے زیادہ نرمی بھی ناجائز ہے۔ پس نہ تو اتنی سختی کرنی چاہیے کہ جان تک چلی جائے اور نہ اتنی نرمی اختیار کرنی چاہیے کہ شریعت کے احکام کی ہتک ہو اور ذمہ داری کو بہانوں سے ٹال دیا جائے۔ میں نے دیکھا ہے کئی لوگ محض کمزوری کے بہانہ کی وجہ سے روزے نہیںرکھتے اور بعض تو کہہ دیتے ہیں کہ اگر روزہ رکھا جائے تو پیچش ہو جاتی ہے حالانکہ روزہ چھوڑنے کے لئے یہ کوئی کافی وجہ نہیں کہ پیچش ہو جایا کرتی ہے۔ جب تک پیچش نہ ہو انسان کے لئے روزہ رکھنا ضروری ہے۔ جب پیچش ہو جائے تو پھر بے شک چھوڑ دے۔ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں روزہ رکھنے سے ضعف ہو جاتا ہے مگر یہ بھی کوئی دلیل نہیں۔ صرف اُس ضعف کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز ہے جس میں ڈاکٹر روزہ رکھنے سے منع کرے ورنہ یوں تو بعض لوگ ہمیشہ ہی کمزور رہتے ہیں تو کیا وہ کبھی بھی روزہ نہ رکھیں۔ میں اڑھائی تین سال کا تھا جب مجھے کالی کھانسی ہوئی تھی۔ اُسی وقت سے میر ی صحت خراب ہے۔ اگر ایسے ضعف کو بہانہ بنانا جائز ہو تومیرے لئے تو شاید ساری عمر میں ایک روزہ بھی رکھنے کا موقع نہیں تھا۔ضعف وغیرہ جسے روزہ چھوڑنے کا بہانا بنایا جاتا ہے اسی کی برداشت کی عادت ڈالنے کے لئے تو روزہ رکھایا جاتا ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ نماز بدی اور بے حیائی سے روکتی ہے اس پر کوئی شخص کہے کہ میں نماز اس لئے نہیں پڑھتا کہ اس کی وجہ سے بدی کرنے سے رُک جاتا ہوں۔ پس روزہ کی تو غرض ہی یہی ہے کہ کمزوری کو برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو ورنہ یوں تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میں اس لئے روزہ نہیں رکھتا کہ مجھے بھوک اور پیاس کی تکلیف ہوتی ہے حالانکہ اس قسم کی تکالیف کی برداشت کی عادت پیدا کرنے ہی کے لئے روزہ مقرر کیا گیا ہے۔جو شخص روزہ رکھے کیا وہ چاہتا ہے کہ فرشتے سارا دن اس کے پیٹ میں کباب ٹھونستے رہیں۔ وہ جب بھی روزہ رکھے گا اسے بھوک اور پیاس ضرور برداشت کرنی پڑے گی اور کچھ ضعف بھی ضرور ہو گا اور اسی کمزوری اور ضعف کو برداشت کرنےکی عادت پیدا کرنے کیلئے روزہ رکھایا جاتا ہے۔ بے شک روزہ کی اور بھی حکمتیں ہیں جیسے ایک حکمت یہ ہے کہ روزہ رکھنے سے غرباء اور فاقہ زدہ لوگوں کی اعانت کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے مگر بہر حال روزہ اس لئے نہیں رکھایا جاتا کہ انسان کو کوئی تکلیف ہی نہ ہو اور وہ کوئی ضعف محسوس نہ کرے بلکہ اس لئے رکھا یا جاتا ہے کہ اسے ضعف برادشت کرنے کی عادت پیدا ہو۔ پس ضعف کے خوف سے روزہ چھوڑنا ہرگز جائز نہیں سوائے اس کے کہ کوئی بوڑھا ہو چکا ہو یا ڈاکٹر اس کے ضعف کو بھی بیماری قرار دے چکا ہو۔ ایسی صورت میں بیشک روزہ نہیں رکھنا چاہیے مگر ضعف کے متعلق ظاہری ڈیل ڈول اور صورت سے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے ۔ بعض لوگ بظاہر موٹے تازے ہوتے ہیں اور چلتے پھرتے بھی ہیںلیکن دراصل وہ بیمارہوتے ہیں اور ان کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہوتا۔ بالخصوص جن لوگوں کو دل کی بیماری ہو۔ ایسے لوگوں کے لئے بھوک پیاس کا برداشت کرنا سخت خطرناک ہوتا ہے پس کمزوری یا ضعف کا فیصلہ بظاہر دیکھنے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ دیکھنا ہو گا کہ ڈاکٹر کیا کہتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے ڈاکٹر بھی دیانت داری سے کام نہیں لیتے۔ ذرا کوئی شخص دو چار بار جھک کر سلام کر دے تو جو چاہے ڈاکٹر سے لکھوالے ظاہر ہے کہ ایسے سرٹیفیکیٹ کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر حقیقی طور پر ڈاکٹر کسی کو مشورہ دے کہ اسے کے لئے روزہ رکھنا مضر ہے تو گو وہ بظاہر تندرست بھی نظر آئے اس کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہو گا۔ (تفسیر کبیر جلد 2صفحہ 386)
اللہ تعالیٰ ہمیں روزوں کی اہمیت کو سمجھنے اور اسکا حق ادا کرنیکی توفیق عطا فرمائے آمین۔ (منصور احمد مسرور)